Tag: ویب سیریز

  • ’میں کانپنے لگی‘ دیا مرزا کا ویب سیریز ’’کافر‘‘ سے متعلق سنسنی خیز انکشاف

    ’میں کانپنے لگی‘ دیا مرزا کا ویب سیریز ’’کافر‘‘ سے متعلق سنسنی خیز انکشاف

    بالی ووڈ کی معروف اداکارہ دیا مرزا نے اپنی 6 سال پرانی ویب سیریز کافر کے ایک سین سے متعلق سنسنی خیز انکشاف کیا ہے۔

    کافر‘ کو ابتدائی طور پر 2019 میں ٹی وی سیریز کے طور پر ریلیز کیا گیا تھا اور اب 6 سال بعد اسے فلم کے طور پر پیش کیا گیا ہے، یہ سیریز ایک پاکستانی خاتون شہناز پروین کی سچی کہانی پر مبنی ہے جو غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کرکے بھارت میں داخل ہوجاتی ہے۔

    آزاد کشمیر کی ان خاتون پر بھارتی فوج نے عسکریت پسند ہونے کا الزام عائد کرکے 8 سال تک جیل میں قید رکھا تھا اور وہیں انھوں نے ایک بچی کو بھی جنم دیا تھا۔

    شہناز پروین کی اسٹوری ایک بھارتی صحافی کو معلوم ہوئی جس نے بے گناہ خاتون کا معاملہ اُٹھایا اور انصاف کے لیے طویل جدوجہد کی جس کے نتیجے میں رہائی نصیب ہوئی۔

    تاہم اب سیریز کو فلم کی صورت میں ریلیز ہونے پر اداکارہ دیا مرزا نے ایک انٹرویو دیا ہے جہاں انہوں نے ایک سین کو شوٹ کرنے کا سنسنی خیز قصہ سنایا ہے۔

    بھارتی میڈیا کو انٹرویو میں اداکارہ دیا مرزا نے بتایا کہ سیریز کافر میں ریپ سین نے مجھے اس قدر جذباتی اور جسمانی طور پر متاثر کیا کہ میں کانپنے لگی اور اُلٹی کر بیٹھی تھی میری طبیعت خراب ہوگئی تھی۔

    اداکارہ نے بتایا کہ جب ہم میں نے ریپ سین شوٹ کیا تو وہ لمحہ اتنا سخت تھا کہ میں مکمل طور پر کانپنے لگی، جیسے ہی کیمرہ بند ہوا، میں اُلٹی کرنے لگی۔

    دیا مرزا نے مزید کہا کہ ایسے سین فلمانے کے لیے صرف اداکاری نہیں بلکہ مکمل طور پر اس کیفیت میں ڈوبنا پڑتا ہے جو کردار ادا کرنے والے پر حقیقی اثر چھوڑتا ہے۔

    دیا مرزا نے مزید کہا کہ ایک فنکار کے لیے سب سے اہم چیز کردار سے ہمدردی ہے جو مجھے فلم میں اپنے کردار سے ہوگئی تھی۔

  • ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    ایڈولیسنس: دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کرتی ہوئی ویب سیریز

    حال ہی میں نیٹ فلیکس نے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ نشر کی ہے، جو فی الحال چار اقساط پر مشتمل ہے اور اسے دنیا بھر میں دیکھا جارہا ہے۔ اس ویب سیریز میں دو باتیں بہت کمال ہیں، جن میں سے ایک کا تعلق انسان کے اندر موجود جوہر اور اس کی صلاحیتوں‌ سے ہے اور دوسری تیکنیکی ہے۔

    پہلی بات اس کا ”ون ٹیک فارمیٹ“ پر بنایا جانا ہے۔ یعنی ہر قسط بغیر کوئی سین کاٹے یا ایڈٹ کیے، ایک ہی بار میں شوٹ کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک گھنٹے کی قسط کو ایک ہی مرتبہ پکچرائز کیا گیا ہے، جو ویب سازی کی دنیا میں ایک انقلابی نوعیت کا کام ہے۔

    اس ویب سیریز کی دوسری کمال بات مرکزی کردار نبھانے والے وہ بچہ ہے، جس نے اپنی زندگی میں پہلی بار اداکاری کی اور اس کی پرفارمنس دیکھ کر سب دنگ رہ گئے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بڑے بڑے اداکاروں نے دانتوں تلے انگلیاں دبا لی ہیں۔

    دوستو! ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کا تفصیلی تجزیہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    یہ کہانی ایک نفسیاتی جرم کے ارتکاب پر مبنی ہے، جس میں ملزم، جو بعد میں مجرم ثابت ہو جاتا ہے، ایک 13 سالہ بچہ ہے۔ اس ویب سیریز کی آفیشل ٹیم نے اس کہانی اور ویب سیریز کے لیے لفظ ”ڈراما“ استعمال کیا ہے، جو کسی بھی طورپر درست نہیں ہے، کیونکہ یہ کہانی ایک حقیقی واقعہ پر مبنی ہے، جس کا تذکرہ آگے آئے گا، لیکن اس کے ایک خالق جیک تھرون اس بات کا انکار کرتے ہیں۔

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال جیک تھرون اور اسٹفین گراہم نے تشکیل دیا اور اس کو لکھا بھی ہے۔ اس تیرہ سالہ بچے کو جس کا نام جیم ملر ہے۔ پوری کہانی اسی کے گرد گھومتی ہے۔کہانی کے کرداروں کی ترتیب، کہانی آگے بڑھانے کا طریقہ اور اس میں مسلسل تجسس برقرار رکھنے کا ہنر کام یابی سے برتا گیا ہے۔

    یہ ایک ایسے کمسن بچے کی کہانی ہے، جو ایک برطانوی قصبے میں رہائش پذیر ہے۔ وہ اسکول میں پڑھتا ہے اور سوشل میڈیا پر متحرک ہے۔ مغرب میں اکثر اسکولوں میں جس طرح بچوں میں آپس میں تعصب پر مبنی خیالات پائے جاتے ہیں، وہی اس کہانی میں بھی شامل ہیں۔یہ بچہ (جو تیزی سے بلوغت کی طرف بڑھ رہا ہے) کیسے اپنی ایک ہم جماعت کے قتل میں ملوث ہو جاتا ہے، اس کے پیچھے کیا محرکات ہوتے ہیں اور پھر برطانوی نظامِ قانون کیسے اسے اپنے دائرے میں لیتا ہے، ان سب پہلوؤں کو بہت خوبی سے کہانی میں پیش کیا گیا ہے۔

    ویب سازی

    اس ویب سیریز کی سب سے کمال بات اس کا ون ٹیک فارمیٹ پر بنایا جانا ہے۔ اس کی کل چار اقساط ہیں اور ہر قسط ایک گھنٹے کی ہے جسے مسلسل ایک ہی ٹیک میں مکمل کیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے بظاہر کوئی تکنیکی غلطی بھی نظر نہیں آتی بلکہ کئی جگہوں پر بغیر کیمرہ بند کیے جس طرح کردار سے کردار کو بدلا گیا ہے، وہ لاجواب ہے۔ اس ویب سیریز میں کاسٹنگ کا انتخاب بھی قابل داد ہے۔ اس میں جس طرح ایک نئے بچے کو موقع دیا گیا، اور اس نے اس موقع سے اپنی زندگی بدل دی، یہ قابلِ تعریف ہے۔ یہ کہنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں‌ ہوتی کہ یہ بچہ آنے والے وقت کا ایک بڑا اداکار ہے۔

    ایک ہی وقت میں پوری قسط کو شوٹ کرنے کی غرض سے ایک رن تھرو بنایا گیا اور ہر قسط دس بار شوٹ کی گئی اور اس میں سے جو سب سے بہتر شوٹ ہوا، اس کو حتمی شکل دے دی گئی۔ ایک قسط شوٹ کرنے میں تین ہفتے لگے اور چار مہینوں میں اس کا مکمل کام ختم کر لیا گیا۔ یہ ویب سیریز 93 ممالک میں ٹاپ 10 کے چارٹ پر نمبر ون رہی ہے اور یہ بھی اس کا ایک کمال ہی ہے۔ ایڈولیسنس“ کے پروڈیوسروں میں کئی بڑے نام شامل ہیں، جن میں سے ایک امریکی اداکار بریڈ پٹ ہیں۔

    ہدایت کاری اور فن کاروں کا انتخاب

    برطانیہ کے معروف ہدایت کار فلپ بارنٹینی جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز اداکاری سے کیا تھا، اب بطور ہدایت کار اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر کے فلم بینوں‌ کو حیران کر دیا ہے۔ اس ویب سیریز میں سنیماٹوگرافی کے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور اس پر تمام کیمرہ مین اور ٹیم بھی قابل داد ہے، جنہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کو بروئے کار لا کر اس ویب سیریز کو یادگار بنا دیا۔

    ویب سیریز کی خاص بات اس بچے کی دریافت ہے، جس نے اس میں مرکزی کردار نبھایا ہے۔ اس کا نام اون کوپر ہے۔ یہ ایک کاسٹنگ ڈائریکٹر شاہین بیگ کی دریافت ہے۔ وہ ایسے اداکاروں اور کمیونٹی کے لیے کام کرتی ہیں، جنہیں کم توجہ ملتی ہے یا جن کے پاس شوبز کی چکا چوند میں نووارد ہونے کی وجہ سے آگے بڑھنے کے راستے کم ہوں۔ شاہین بیگ کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ وہ پاکستانی نژاد ہیں اور چوں کہ اون کوپر شاہین بیگ کی دریافت ہے تو یہ بات پاکستانی کمیونٹی کے لیے بھی باعثِ فخر ہے۔ انہوں نے ویب سیریز ایڈولیسنس“ کے اس مرکزی کردار کے لیے پانچ سو بچوں کے آڈیشن لیے تھے۔

    اداکاری

    ”ایڈولیسنس“ کے شریک خالق اور معروف اداکار اسٹیفین گراہم نے اس ویب سیریز کی تشکیل سے فلم بینوں‌ کو تو حیران کیا ہی مگر بطور اداکار بھی انہوں نے ویب سیریز دیکھنے والوں کے دل موہ لیے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی اداکاری نے ہر لمحہ ناظرین کو کہانی سے جوڑے رکھا اور اس ویب سیریز کے جتنے کلائمکس ہیں ان کا بوجھ بھی اسٹیفین گراہم‌ نے ہی اٹھایا ہے۔ ان کے ساتھ نو وارد اور کمسن اون کاپر نے بھی اپنی فطری اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ اس ویب سیریز میں دوسرے کم عمر بچے بھی دکھائی دیے ہیں، جنہوں نے اپنا کام بہت اچھے انداز میں کیا ہے، البتہ متذکرہ بالا دو مرکزی کرداروں کے علاوہ اگر کسی نے اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کو ششدر کیا ہے تو وہ ماہر نفسیات کا کردار نبھانے والی اداکارہ ایرن ڈوہرٹی ہیں۔ انہوں نے لاجواب اداکاری کی ہے۔ اس ویب سیریز میں ہمیں کئی پاکستانی اور انڈین نژاد اداکار بھی دکھائی دیتے ہیں۔ 

    کہانی کا تنازع

    برطانیہ میں اس کہانی کی طرز پر ایک واقعہ کچھ برس پہلے رونما ہوا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ ویب سیریز اسی کہانی کے اردگرد گھومتی ہے، جب کہ ویب سیریز کے آفیشلز نے اس سے انکار کیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اصل واقعے میں ملوث کمسن بچہ سیاہ فام تھا جب کہ اس ویب سیریز میں سفید فام بچہ دکھایا گیا ہے، جس پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشیر ایلون مسک نے نسلی تعصب کا الزام بھی عائد کیا ہے۔

    کہانی کے پس منظر میں ایسا محسوس بھی ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں اس معاشرے میں نسلی امتیاز موجود تو ہے اور اسے ویب سیریز ”ایڈولیسنس“ کی کہانی میں بھی ڈھکے چھپے انداز میں دکھایا گیا ہے۔ خاص طور پر جب ایک سیاہ فام تفتیشی افسر اتفاقاً اپنے بیٹے کے اسکول جاتا ہے، جہاں وہ خوف ناک واقعہ پیش آیا ہے، تو دکھایا گیا ہے کہ اس کا بیٹا کس طرح سے نسلی تعصب کا سامنا کرتا ہے۔ دوسری طرف ایک بڑی بات یہ بھی ہے کہ برطانوی وزیراعظم کو بھی اس ویب سیریز نے بہت متاثر کیا ہے۔ انہوں نے اس کے بنانے والوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان سے ملاقات کی اور ویب سیریز کی تشہیر میں بھی اپنا حصّہ ڈالا ہے۔

    اختتامیہ

    مذکورہ ویب سیریز موجودہ دور میں بچوں کے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے نقصانات کا احاطہ کر رہی ہے اور اسے بچوں کو ضرور دکھانا چاہیے۔ ایسے موضوعات کو ان کے حقیقی پہلوؤں کے ساتھ پیش کیا جانا بھی ضروری ہے، یعنی اگر کوئی کہانی کسی سچے واقعہ پر مبنی ہے تو اس میں حقائق کا خیال رکھا جانا چاہیے۔

    قارئین! اگر آپ ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اردو اور ہندی زبان سمجھنے والوں کے لیے اچھی خبر ہے کہ یہ ویب سیریز ہندی ڈبنگ میں بھی دیکھنے کے لیے موجود ہے۔

  • زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    زخم کاری-انتقام (سیزن3)

    ایرانی سینما بہت مضبوط رہا ہے اور عالمی سطح پر خاصی شہرت رکھتا ہے، لیکن ڈرامے کی صنعت اور اب ویب سیریز کے تناظر میں ابھرتی ہوئی نئی صنعت میں ایران دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ ویب سیریز زخم کاری- انتقام (سیزن تھری) ایران سمیت دنیا بھر کے کئی اسٹریمنگ پورٹلز پر دیکھی جارہی ہے۔ اس کی یہ مقبولیت ایران کی ڈرامہ اور ویب سیریز کی پسندیدگی کی ایک مثال ہے، لیکن ابھی ایران کو اس میڈیم کی مختلف اور نئی اصناف میں آگے آنے کے لیے مزید محنت کرنا ہو گی، جس کی ابتدا ہو چکی ہے اور ویب سیریز زخم کاری اسی کی ایک عملی تصویر ہے۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    بنیادی طور پر اس کہانی کا مرکزی خیال، برطانوی کلاسیکی ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر کے مشہور زمانہ ناٹک میک بیتھ سے لیا گیا ہے۔ اس ناٹک کو ناولٹ کی شکل دینے والے معروف ایرانی ادیب محمود حسینی زاد ہیں، جنہوں نے انتہائی مہارت سے اس کہانی کو ایران کے پس منظر میں عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالا۔ وہ پیشہ ور مترجم بھی ہیں۔ انہوں نے عہدِ حاضر میں جرمن ادب کو فارسی زبان میں منتقل کیا ہے، اور ان ادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں جرمنی کا معتبر اعزاز گوئٹے میڈل دیا جا چکا ہے۔

    اس ڈرامے کی کہانی محبت، کاروبار، دولت اور جرائم جیسے موضوعات کے اردگرد گھومتی ہے۔ اس میں ایک ایسے خاندان کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تجارت اور کاروبار سے وابستہ ہے اور کس طرح رشتے داریوں میں نشیب و فراز آتے ہیں۔ ایک طرف محبت اور دولت کے حصول کی کوشش تو دوسری طرف قربانیوں اور محرومیوں کی المناک داستان ہے۔

    اس کہانی میں ایران کا موجودہ ثقافتی منظر نامہ بھی دکھائی دیتا ہے، وہاں کا سماج اور معاشرتی رویے بھی، جن کی مدد سے آج کے ایران کو براہ راست سمجھا جا سکتا ہے۔

    ویب سازی و دیگر لوازمات

    ایرانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے ابھرتے ہوئے فلم ساز محمد حسین مہدونی نے اپنے کیریئر کا پہلا ڈرامہ و ویب سریز تخلیق کی ہے۔ اس سے پہلے وہ فیچر فلمیں بناتے رہے ہیں۔ نئی فلمی صنعت میں ان کی بہت مانگ ہے۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں، جس کا اندازہ ان کے تخلیقی سفر کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ اس ویب سیریز کے تین سیزن بالترتیب نمائش کے لیے پیش کیے جا چکے ہیں، جن میں 2021 اور 2023 میں دو سیزن اور تیسرا سیزن رواں برس ریلیز کیا گیا ہے۔ عصرِ حاضر میں یہ ایران کے ہوم ٹیلی ویژن پر سب سے زیادہ دیکھا جانے والا ڈرامہ ہے اور مختلف آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر بھی لاکھوں کی تعداد میں ناظرین اسے دیکھ چکے ہیں۔

    اس ویب سیریز کی ہدایت کاری اچھی ہے مگر اس میں مزید بہتری کی گنجائش نظر آتی ہے۔ بہت سے فریم ایک جیسے ہیں، جس سے یکسانیت کا تاثر ابھرتا ہے، البتہ آؤٹ ڈور مناظر کافی اچھی طرح فلمائے گئے ہیں۔ سینماٹو گرافی، لائٹنگ، کاسٹیوم اور ایڈیٹنگ اور دیگر شعبوں میں اچھا کام ہوا ہے، لیکن کہانی کی رفتار تھوڑی اور بڑھا کر پیش کرتے تو شاید یہ کہانی مزید توجہ حاصل کرتی۔ بہرحال، اس کے باوجود کہانی ناظرین کو جکڑ لیتی ہے، جس کا کریڈٹ ہدایت کار کی بجائے کہانی نویس اور اداکاروں کو جاتا ہے، جنہوں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔

    اداکاری و موسیقی

    اس ویب سیریز کے سب سے مضبوط حصے اداکاری اور موسیقی ہیں۔ یہ سیزن، جس کو تیسرا سیزن کہا گیا ہے، اس میں شامل اداکاروں نے اپنے کرداروں سے خوب انصاف کیا۔مرکزی کردار نبھانے والے جاوید عزتی (ملک مالیکی) پوری کہانی میں چھائے رہے اور بہت شان دار اداکاری کی۔ ان کے ساتھ معاون اداکاراؤں میں رعنا آزادویر (سمیرا بخشی) الہٰی حسیاری (کاظم)، مہرواشرفینیا (پنتیا) کےعلاوہ جاوید ہاشمی، کاظم دیرباز، سعید چنگیزین سمیت سب نے اچھا کام کیا ہے۔ تین سیزن کی کل اقساط 43 ہیں جن کو تین سال میں پیش کیا گیا ہے۔ گزشتہ دو سیزن کو زخم کاری- بازگشت کا نام دیا گیا تھا جب کہ موجودہ سیزن کو زخم کاری- انتقام کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس ویب سیریز کی پسِ پردہ موسیقی، ٹائٹل سونگ بہت شیریں اور سریلے ہیں۔ اس ویب سیریز کے موسیقار حبیب خازئیفر ہیں۔

    حرفِ آخر

    ایرانی سینما کی طرح ڈرامہ اور ویب سازی میں کہانی بیان کرنے کے طریقے پر کافی اچھی طرح کام ہوا ہے، البتہ ویب سازی اور فلمی دنیا میں جتنی جدّت آچکی ہے، ابھی ایران وہاں تک تو نہیں پہنچا، مگر ان کے ہاں کہانی کا عنصر ہمیشہ سے بہت مضبوط رہا ہے۔ اسی لیے ان کی فلمیں اور ڈرامے دیکھے جاتے ہیں۔ اب انہوں نے ویب سازی کی دنیا میں قدم رکھا ہے اور مذکورہ ویب سیریز کو دیکھنے والوں کی مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد ایران کے لیے کامیابی کے نئے دروازے کھول رہی ہے۔ آپ اس ویب سیریز کو اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔ اسے دیکھتے ہوئے کہیں کہیں ہمیں پی ٹی وی کا کلاسیکی دور بھی یاد آتا ہے۔ یہ ویب سیریز مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر باآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔

  • صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    صدام حسین کے بعد کا عراق- “بغداد سینٹرل”

    ویب سیریز بغداد سینٹرل 2003 کے پس منظر میں اس عراق کو دکھاتی ہے، جب وہاں صدام حسین کا اقتدار ختم ہوا۔ اس کے نتیجے میں عراقی معاشرہ کن مسائل کا شکار ہوا، عام آدمی اس سیاسی انتشار سے کیسے متاثر ہوا، نام نہاد جنگ عراقیوں پر لادنے کے بعد مغربی طاقتوں نے کس طرح وہاں اپنے لیے مادّی ثمرات تلاش کیے، اس کی قیمت کس نے چکائی اور عام آدمی نے قربانی کیسے دی؟ یہ کہانی ان تمام سوالوں کے جوابات دیتی ہے۔

    حقیقت سے قریب تر رہتے ہوئے تخلیق کی گئی اس ویب سیریز کے آفیشل ٹریلر کو، ریلیز کے بعد سے اب تک تقریباً 300 ملین مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ اسے تاحال مقبولیت حاصل ہے۔ ماضی قریب (2020) سے منتخب کی گئی اس برطانوی ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیش خدمت ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس کی کہانی معروف امریکی ناول نگار اور ایسوسی ایٹ پروفیسر ایلیٹ کولا کے ناول سے ماخوذ ہے۔ ناول کے عنوان کو اختیار کرتے ہوئے، ویب سیریز کا نام بھی "بغداد سینٹرل” رکھا گیا ہے۔ یہ ناول 2014 میں شایع ہوا تھا، جو کہانی کے پس منظر کی ضرورت کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ناول نگار عربی ادب و ثقافت پر گہری نظر رکھتے ہیں اور متعدد عربی نالوں کے انگریزی تراجم بھی کر چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے، انہوں نے اِس کہانی کو اُس وقت کے عراق کے زمینی حقائق کے مطابق قلم بند کیا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کو کوئی عراقی مصنّف ہی بیان کررہا ہے۔ اس پہلو سے ناول نگار کی اپنے موضوع پر دسترس قابلِ تعریف ہے، جس نے ویب سیریز میں جان ڈال دی۔

    اس شان دار ناول پر مبنی کہانی کو اسکرپٹ کی صورت دینے والے اسٹیفن بوچرڈ ہیں، جن کا تعلق برطانیہ سے ہے اور وہ کئی مقبول ڈراموں کے اسکرپٹ نویس رہے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز کو بھی انہوں نے انتہائی مہارت سے لکھا ہے، جس میں کہانی برق رفتار، کرداروں کا ایک دوسرے سے تعلق، مختلف بدلتی ہوئی صورتِ حال اور اس کے مطابق سچویشنز سمیت دیگر تخلیقی پہلوؤں سے وہ فلم بینوں کو متاثر کرتے ہیں، البتہ ایک نقص کہانی میں محسوس ہوا کہ زیادہ تر مقامی کرداروں کا لہجہ عراق میں رائج عربی لہجے سے مطابقت نہیں رکھتا، اس پر ہدایت کارہ کو کام کرنے کی ضرورت تھی۔ دیگر پہلوؤں سے کہانی بہرحال متاثر کن ہے۔

    ایک ایسے سابق پولیس افسر کی کہانی، جو صدام حسین کے دور میں اپنی سرکاری ذمے داریاں احسن طریقے سے نبھا رہا تھا، ساتھ ساتھ عراق کی بدلتی ہوئی صورتحال پر بھی اس کی نظر تھی۔ اس تناظر میں وہ اپنے اہلِ خانہ سے بات چیت بھی کرتا تھا، خاص طور پر اپنی دونوں بالغ بیٹیوں سے، جن میں سے ایک سنگین بیماری کا شکار تھی، جب کہ دوسری سرکاری یونیورسٹی میں زیرتعلیم تھی۔ اچانک عراق کے حالات بدلتے ہیں، سماج ایک انتشار کا شکار ہوتا ہے اور ایسے میں اس کی بڑی بیٹی لاپتا ہوجاتی ہے۔ اسے چھوٹی بیٹی کے علاج کا سلسلہ جاری رکھنا ہے اور ایسے میں امریکی اسے دہشت گردوں کا سہولت کار سمجھ کر دھر لیتے ہیں۔ وہ ان حالات میں کیسے اپنی بقا کی جنگ لڑتا ہے اور اپنے اہل خانہ کی زندگی محفوظ بناتا ہے، یہ کہانی اسی جدوجہد پر مبنی ہے۔

    مغربی طاقتوں کے ہتھکنڈے، ان کے اہل کاروں کی سفاکیت، پیسہ بنانے کی ہوس اور کئی ایسے دیگر خوفناک اور تلخ حقائق بھی اس کہانی کے منظر نامے میں ناظرین کے لیے حیرت کے نئے زاویے کھولتے ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کو برطانوی فلم پروڈکشن ایوسٹن فلمز کے تحت پروڈیوس کیا گیا ہے، جب کہ ریلیز برطانیہ کے سرکاری چینل فور پر کی گئی۔ مراکش کے مختلف شہروں میں بڑی چابک دستی سے عکس بند کی گئی اس ویب سیریز کی سینماٹوگرافی کمال ہے، لوکیشنز حقیقی معلوم ہوتی ہیں، جس کا کریڈٹ ہدایت کارہ کو جاتا ہے۔ بغداد سینٹرل کی ہدایت کارہ ایلس ٹروگھوٹن ہیں، جن کو زیادہ تجربہ برطانوی ٹیلی ویژن کے لیے تخلیقی کام کا ہے، مگر اب ان کا رجحان فلم سازی کی طرف بھی ہوا ہے۔

    اس ویب سیریز کی چھ اقساط کو انہوں نے تن تنہا بنایا ہے، اسی لیے کہانی کا ردھم ایک ترتیب میں بہتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ مقامی کرداروں کے عربی لہجے، پس منظر کی موسیقی اور کاسٹیوم پر مزید توجہ دیتیں، تو یہ ویب سیریز اور نکھر سکتی تھی، لیکن پھر بھی یہ اتنی عمدہ ہے کہ اس پر پروپیگنڈا سینما کا گمان نہیں ہوتا۔ اس کا کریڈٹ ہدایت کارہ سے زیادہ ناول نگار اور اسکرپٹ نویس کو جاتا ہے، جنہوں نے کرداروں کے ذریعے کہانی کو عمدہ اور دل چسپ بنا دیا۔

    اداکاری

    بغداد سینٹرل کے لیے زیادہ تر عربی پس منظر رکھنے والے امریکی اداکاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں سب سے نمایاں، مرکزی کردار نبھانے والے عراقی پولیس افسر محسن قادر الخفاجی (ولید زوایتار) ہیں۔ یہ فلسطینی نژاد امریکی اداکار ہیں، جن کی زندگی کا ایک بڑا حصہ کویت میں بھی گزرا، لیکن زیادہ عرصہ امریکا میں ہی رہے۔ اسی لیے اپنے فلسطینی اور امریکی دونوں مزاج مدنظر رکھتے ہوئے ہالی ووڈ اور برطانوی سینما میں کام کررہے ہیں، صرف اداکاری ہی نہیں کرتے بلکہ مقبول پروڈیوسر بھی ہیں اور اداکار تو وہ بہت ہی اچھے ہیں، جس کا اندازہ اس ویب سیریز میں ان کو دیکھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ان کے ساتھ دیگر عرب اور انگریز اداکاروں نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کیا ہے، خاص طور پر جولی نمیر(مروج الخفاجی) لیم لبنیٰ (سواسن الخفاجی) برٹی کارول (فرینک ٹیمپل) کورے اسٹول (کیپٹن جون پیروڈی) اور کلارا کورے (زبیدہ رشید) شامل ہیں۔

    مغرب کا پسندیدہ موضوع اور مقبولیت کا تناسب

    نیٹو کی افواج کا حملہ اور پھر اس خطے کے بدلتے ہوئے حالات کے پس منظر میں عراق کو مغرب میں بہت اہمیت دی گئی۔ اس سے جڑی کہانیوں اور حقائق کو بہت توجہ ملی۔ عراق میں صدام حسین کی حکومت کا خاتمہ، وہاں مغربی طاقتوں کی یلغار کے حوالے سے میڈیا میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا۔ عراق اور اس جنگ کے پس منظر میں ناول تخلیق کیے گئے اور فلمیں بنائی گئیں، جنہیں بہت مقبولیت ملی۔ یہ موضوع اب تک پرانا نہیں ہوا اور اس پر ناول یا فلمیں بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ ویب سیریز بغداد سینٹرل کی خوبی یہ ہے کہ اس کو غیر جانب دار انداز میں، ایک متوازن طریقے سے عام آدمی کی کہانی کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور سیاسی پروپیگنڈے کو کہانی کا حصہ بنانے سے اجتناب برتا کیا گیا ہے۔ اسی لیے ناظرین نے اس کو بے حد پسند کیا۔

    اس ویب سیریز کو فلموں اور ویب سیریز کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 7 اعشاریہ تین ریٹنگ ملی، جب کہ روٹین ٹماٹوز پر 100 میں سے اس کی پسندیدگی کا تناسب 83 فیصد رہا۔ گوگل کے 5 ستاروں میں اسے 4 اعشاریہ پانچ فیصد ستارے ملے۔ دیگر کئی اور ویب سائٹس پر اچھا ردعمل سامنے آیا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ عربی اور انگریزی میں تخلیق کی جانے والی ویب سیریز بغداد سینٹرل کے پہلے سیزن کے بعد دوسرا سیزن بھی ضرور تیار کیا جائے گا۔ اس کی مقبولیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے۔

    حرفِ آخر

    ویسے تو یہ سیریز چند سال پرانی ہے، مگر اسے دیکھ کر یہ سمجھا آسان ہوجاتا ہے کہ کس طرح عراق نے اس مخصوص سیاسی و سماجی دور میں انتشار کا سامنا کیا اور وہاں کے عوام نے کیسے اپنی اور اپنے اہل خانہ کی بقا کی لڑائی لڑی ہوگی۔ ایسی متوازن کہانیوں کو دیکھ کر اس طرح کے جنگ اور آفت زدہ ممالک کے لوگوں کے مسائل کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اور اس تکلیف کی شدت کو بھی ہم محسوس کرسکتے ہیں جس سے وہ لوگ گزرے۔ وقت ملے تو ویب سیریز بغداد سینٹرل ضرور دیکھیے۔

  • ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    ٹوکیو سوینڈلرز:‌ نیٹ فلیکس کی نئی جاپانی ویب سیریز

    دنیا میں دھوکہ دہی اور جعل سازی کے واقعات عام ہیں اور اس کی مختلف شکلیں ہیں۔ اس ویب سیریز کی کہانی، موجودہ جاپان کے ایک ایسے جعل ساز گروہ کے بارے میں ہے، جس نے نہ صرف عام لوگوں کو کنگال کر دیا بلکہ کئی بڑے بڑے اداروں کو بھی لوٹ لیا۔ یہ گروہ جعل سازی کے فن میں طاق ہے اور اس کے ارکان کس طرح ہاتھ کی صفائی اور چرب زبانی کو اپنا ہتھیار بناتے ہیں، یہ سب اس ویب سیریز میں دکھایا گیا ہے۔

    پہلے سیزن کی سات اقساط اتنی شان دار ہیں کہ ایک بار آپ اسے دیکھنے بیٹھے تو خود کو اگلی قسط دیکھنے سے روک نہیں پائیں گے۔ اس ویب سیریز کا تفصیلی تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    مرکزی خیال/ اسکرپٹ

    مذکورہ ویب سیریز کی کہانی ایک جاپانی ناول "ٹوکیو سوینڈلرز” سے ماخوذ ہے، جس کے مصنّف جاپانی ناول نگار کوشینجو ہیں۔ اس میں 2017ء کا وہ موقع دکھایا گیا ہے جب ٹوکیو شہر میں عنقریب اولمپکس کا انعقاد ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی زمینوں کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے یہ فریبی کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے کیا ستم ڈھایا جاتا ہے، یہ داستان اسی کے گرد گھومتی ہے۔

    اس ناول کے انگریزی مترجم چارلس دے وولف ہیں، جن کا تعلق امریکا سے ہے۔ انہوں نے جاپان کے معروف ناول نگار ہاروکی موراکامی کے ناولوں کا ترجمہ بھی کیا ہے اور وہ جاپانی ادب میں ڈاکٹریٹ کی سند بھی رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہترین انگریزی ترجمے کی بدولت نیٹ فلیکس کی توجہ اس کہانی پر مرتکز ہوئی اور انہوں نے اس پر ویب سیریز بنائی۔ جتنا اچھا یہ ناول لکھا گیا ہے، اسی معیار کا ویب سیریز کے لیے اسکرپٹ بھی تحریر کیا گیا ہے، اور اسے ویب سیریز کے ہدایت کار ہتوشی ون نے ہی لکھا ہے۔ ناول کی طرح ویب سیریز کی کہانی بھی چست اور دل چسپ ہے۔ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھے گی، آپ کا تجسس بھی بڑھتا جائے گا۔ اس ویب سیریز کو دیکھنے والا کہانی کے تسلسل میں بہہ کر کہیں دور نکل جاتا ہے اور یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ کب کہانی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

    ایک شخص (تاکومی تسوجیموتو) ہے جس کی وجہ سے اس کے والد کو زمین کے سودے میں دھوکہ ہوا، ردعمل میں اس کے والد نے اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی، جس میں اُس شخص کے اہلِ خانہ راکھ ہوگئے۔ اس راکھ نے اس کی زندگی کو گویا تاریک بنا دیا۔ اُس شخص نے انتقال لینے کی نیّت سے جعلی کاغذات کی مدد سے زمینیں فروخت کرنے والے گروہ کا پیچھا کیا، اور ان کا حصّہ بن گیا تاکہ وہ اپنے پیاروں کی موت کا بدلہ لے سکے۔

    وہ نہ صرف اس گروہ کا ایک فعال رکن بنا اور وارداتوں میں ان کا ساتھ دیتا رہا۔ بلکہ اس گروہ کی کام یابیوں کی کلیدی وجہ وہی شخص (تاکومی تسوجیموتو) ٹھہرا۔ ٹوکیو شہر کی سڑکوں پر یہ گروہ دندناتا پھر رہا تھا اور آخرکار اپنے انجام کو پہنچا۔ اس انجام کو جاننے کے لیے یہ ویب سیریز دیکھنا ہوگی جسے نیٹ فلیکس پر ہندی ڈبنگ کے ساتھ بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کہانی میں کہیں کہیں بے باک اور پُر تشدد مناظر بھی شامل ہیں۔

    ویب سازی/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کی پروڈکشن انتہائی عمدہ ہے۔ جدید جاپان کا بے مثال شہر ٹوکیو اس کہانی میں پوری آب و تاب سے چمکتا دمکتا دکھائی دیتا ہے۔ گھروں، دفتروں، گلی کوچوں، شاہراہوں اور فضائی مناظر نے کہانی میں بے مثال رنگ بھر دیے ہیں۔ اس ویب سیریز کا تھیم سونگ، سینماٹوگرافی، ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور لائٹنگ انتہائی شان دار ہے، خاص طور پر بصری تأثر (ویژول ایفیکٹس) کے شعبے میں سو سے زائد ہنرمندوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، جس نے اس ویب سیریز کو بلاشبہ ایک ماسٹر پیس بنا دیا ہے۔ نیٹ فلیکس کے ذریعے یہ ویب سیریز پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور یہ اس ویب سیریز کا پہلا سیزن ہے۔ اس کے پروڈیوسرز ہارومیاکے اور کینیچی یوشیدا ہیں جب کہ ہدایت کار ہیتوشی ون ہیں، جو گزشتہ دو دہائیوں کے دوران جاپانی فلمی صنعت میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز کے دو اداکاروں کو ہم مرکزی کرداروں کے طورپر دیکھتے ہیں، اور ویب سیریز میں ان کے نام تاکومی تسوجیموتو اور ہیریسن یاماناکا ہیں۔ ان کے اصل نام گوایانو اور ایتسوشی توایوکاوا ہیں۔ ان دونوں نے اپنی اداکاری سے اسکرین پر ایک دوسرے کو بہت مصروف رکھا۔ دونوں کی عمروں اور تجربے میں فرق ہے، اس کے باوجود دونوں ایک دوسرے پر اپنے فن کے ذریعے چھائے رہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں میں کازوکی کیتامورا، للی فرینکی، پیرتاکی اور جاپانی اداکارہ ایکو کیوکے اور ایلزیا اکیدا شامل ہیں۔ سب نے اپنے اپنے کرداروں کو بخوبی نبھایا ہے۔

    شہرت کی سیڑھیاں

    ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ ویب سیریز اپنی شہرت کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے۔ یہ ویب سیریز جاپان میں نیٹ فلیکس کے ٹاپ ٹین چارٹ میں پہلے نمبر پر موجود ہے۔ سینما کی دنیا میں معروف ترین فلمی ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی ریٹنگ دس میں سے سات اعشاریہ تین ہے۔ مائی ڈریم لسٹ ویب سائٹ پر دس میں سے سات اعشاریہ پانچ کے ساتھ یہ ویب سیریز سرفہرست ہے۔ گوگل کے قارئین اور ناظرین میں 100 میں سے 91 فی صد نے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے۔ جاپان کے معروف انگریزی اخبار نے اس ویب سیریز کو پانچ میں سے تین اسٹارز دیے ہیں۔ جس قدر مہارت اور چابک دستی سے اس ویب سیریز کا سیزن ون بنایا گیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں، ناظرین بے چینی سے اس کے دوسرے سیزن کا انتظار کریں گے۔

    حرفِ آخر

    آپ اگر ایک ایسی کہانی کو اسکرین پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ہر منظر پُرتجسس اور اشتیاق سے بھرپور ہو تو یہ ویب سیریز آپ کو اسی کیفیت سے دوچار کرے گی۔ ٹوکیو کی سڑکوں پر چلتے پھرتے لوگوں کے بیچ میں یہ گروہ کس طرح زمین کے لیے دوسروں پر زمین تنگ کرتا ہے اپنی شعبدہ بازی سے، اسے اسکرین پر دیکھ کر آپ ضرور لطف اندوز ہوں گے۔ جاپان کے مؤقر انگریزی روزنامہ "جاپان ٹائمز” نے اس ویب سیریز کے بارے میں لکھتے ہوئے اسے "موسمِ گرما کی مجرمانہ خوشی” سے تعبیر کیا۔ اس سے مراد وہ خوشی جو ایک اچھی کہانی کو اسکرین پر دیکھ کر آپ کو حاصل ہوسکتی ہے۔ تو دیر نہ کیجیے، اور اس ویب سیریز کو دیکھنے کے ساتھ عہدِ حاضر کے ٹوکیو کی سیر بھی کیجیے۔

  • ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    ڈارک میٹر: وہ ویب سیریز جسے دیکھ کر انسانی عقل ورطۂ حیرت میں‌ ڈوب جاتی ہے

    کسی انسان کی ملاقات اگر اپنے ہم زاد سے ہو جائے تو کیا ہوگا؟ یہ ویب سیریز ڈارک میٹر اسی سوال کا جواب دیتی ہے۔

    کس طرح انسانی باطن پر، کوانٹم فزکس کے اصول لاگو ہوتے ہیں، بے شک تخیل سہی، مگر سوچا جائے تو یہ بہت پُراسرار، حیرت انگیز، عجیب و غریب اور پُرلطف بھی ہے۔ اس وقت دنیا میں دیکھی جانے والی دس اہم ویب سیریز میں، اپنی ریٹنگ کی بنیاد پر، آئی ایم ڈی بی کے پیمانے کے مطابق، یہ تیسرے درجے پر فائز ویب سیریز ہے۔ ایپل پلس ٹیلی وژن کی نو اقساط پر مبنی یہ ویب سیریز آپ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دے گی اور میرا دعویٰ ہے کہ آپ اس کی تمام اقساط دیکھے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ یہی اس کا تخلیقی کمال ہے۔

    سائنس کی دنیا میں "ڈارک میٹر” کیا ہے ؟

    ماہرینِ فلکیات نے ایسے مادّہ کی موجودگی کا پتہ لگایا جسے ہم دیکھ نہیں سکتے۔ اس کا نام ڈارک میٹر ہے، جسے ہم سیاہ مادّہ بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی مادّہ یا کسی شے کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ جسم روشنی کا اخراج کرتا ہو یا پھر اس روشنی کو جذب کرے۔ سائنس بتاتی ہے کہ جو چیز روشنی کا اخراج کرے گی، وہ ہمیں رنگین نظر آئے گی یا روشنی کو جذب کرے گی تو وہ چیز ہمیں سیاہ نظر آئے گی، لیکن ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ ایسا کچھ نہیں کرتا، البتہ وہ کششِ ثقل کی ایک بڑی مقدار ضرور فراہم کرتا ہے۔

    کششِ ثقل فراہم کرنے کی بنیاد پر ہی ڈارک میٹر یعنی سیاہ مادّہ مختلف کہکشاؤں کو مربوط رکھے ہوئے ہے۔ اس دنیا اور کائنات میں جو چیز بھی ہم دیکھتے ہیں خواہ وہ ایٹم کے ذرّات ہوں یا اس کائنات میں موجود کہکشائیں، سورج، چاند اور ستارے یہ سب اس کا کائنات کا محض چار سے پانچ فیصد ہیں، باقی 71 فیصد ڈارک انرجی اور بیس سے زائد فیصد ڈارک میٹر پر پھیلا ہوا ہے جسے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ انہی تصورات کو انسان کی ذات، اس کی نفسیات اور تصورات پر لاگو کریں تو آپ پوری بات سمجھ لیں گے، اور اسی کو مذکورہ ویب سیریز میں بیان کیا گیا ہے۔

    کہانی/ اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کا مرکزی خیال ایک ناول "ڈارک میٹر” سے مستعار لیا گیا ہے، جس کے مصنّف امریکا سے تعلق رکھنے والے ولیم بلیک کروچ ہیں۔ ناول نگار تجسس سے بھرپور اور سائنسی تصورات پر مبنی کہانیاں لکھنے میں یدِطولیٰ رکھتے ہیں۔ مذکورہ ویب سیریز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کوئی انسان اپنی مادّی دنیا سے نکل کر اس نظر سے کیسے کائنات کو دیکھ سکتا ہے اور اس طرح کیسے سوچ سکتا ہے جیسا مصنّف اپنے ناول میں دکھایا۔ اسی ناول سے متاثر ہوکر یہ ویب سیریز تخلیق کی گئی ہے۔

    ڈارک میٹراب کہانی کی طرف بڑھتے ہیں۔ شکاگو سے تعلق رکھنے والا ایک طبیعیات داں اور استاد جیسن ڈیسن ہے، جو سادہ دل، نرم مزاج اور حساس طبیعت کا مالک ہے اور اپنی بیوی ڈینیلیا ڈیسن اور بیٹے چارلی ڈیسن کے ساتھ خوش و خرم زندگی بسر کر رہا ہے۔ کائنات کے اسرار و رموز پر غور کرنے والا یہ ذہین شخص، انسانی طبیعیات کو بھی سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور ایک دن اس کا واسطہ اپنے ہم زاد سے پڑتا ہے، جو مادّی روپ دھار کر اس کے سامنے آجاتا ہے۔ وہ جیسن ڈیسن کو اس دنیا میں بھیج دیتا ہے، جہاں سے وہ ہم زاد آیا تھا۔ اس دنیا میں وہ ایک خاتون سے محبت کرتا ہے، جس کا نام امانڈا لوکس ہے۔

    ویب سیریز کے اس مرکزی کردار کے ساتھ معاون کرداروں میں اس کے دوست ریان ہولڈر اور لیٹن وینس ہیں، جن سے اس کی دونوں زندگیوں کا تعلق بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ذیلی کرداروں سے کہانی مزید گہرائی میں جاتی ہے۔

    ہم اس بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی شخصیت میں بعض اوقات دو زندگیاں ایک ساتھ بسر کررہے ہوتے ہیں، لیکن دنیا کو صرف ایک زندگی یا وہ روپ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، جو ہم اسے دکھانا چاہتے ہیں۔ اس کہانی میں مرکزی کردار کی دونوں زندگیاں یعنی ظاہر و باطن آمنے سامنے ہوجاتے ہیں۔ یہاں کہانی میں پہلا شخص تو بہت ملن سار ہے، جب کہ ہم زاد سخت مزاج، تیکھا اور کسی حد تک سفاک بھی ہے۔

    اب اصل شخصیت کا مالک اپنی مادّی یا ظاہری دنیا سے نکل کر اس دوسری دنیا میں کیسے پہنچتا ہے، وہاں کیا دیکھتا ہے اور پھر واپس اپنی اصل دنیا میں آنے کے لیے کیا جتن کرتا ہے، کس طرح اپنے ہم زاد سے پیچھا چھڑواتا ہے اور اپنی ہنستی بستی زندگی کو اتنی مصیبتیں جھیلنے کے بعد کیسے واپس حاصل کرتا ہے۔ یہ کہانی اسی جدوجہد اور ظاہری و باطنی لڑائی کا عکس پیش کرتی ہے۔ اس جدوجہد کو کہانی اور کرداروں کے ساتھ پیوست کر کے بہت اچھے انداز میں پہلے ناول کی شکل میں پیش کیا گیا تھا اور اب اسے ویب سیریز میں ڈھال کر پیش کیا گیا ہے۔

    پروڈکشن ڈیزائن اور ہدایت کاری

    اس ویب سیریزکا آرٹ ورک، تھیم اور اس کے مطابق سارے گرافکس اور وی ایف ایکس کا کام انتہائی متاثر کن ہے، جنہوں نے مبہم اور غیر مادی احساسات کو تصویری اور متحرک شکل میں پیش کیا۔ دیگر تمام شعبہ جات سمیت پروڈکشن ڈیزائن پُرکشش ہے، جو ایک بھاری بھرکم موضوع کی بدولت بھی ناظرین کو اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتا، یہ ایک بہت اہم اور عمدہ بات ہے۔

    اس ویب سیریز کی نو اقساط ہیں اور پانچ مختلف ڈائریکٹرز نے ان کی ہدایات دی ہیں۔ ان کے نام جیکب وربرگین، روکسن ڈوسن، علیک سخاروف، سلین ہیلڈ اور لوجن جارج ہیں، ان ہدایت کاروں کا تعلق بیلجیئم، امریکا، برطانیہ اور روس سے ہے۔ یہ نو اقساط متعدد ہدایت کاروں کے ہاتھوں تکمیل کے مراحل سے گزری ہیں، لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہدایت کار تبدیل ہوا ہے۔ تمام اقساط میں تخلیقی سطح یکساں ہے، البتہ مجموعی طورپر کہانی تھوڑی طویل محسوس ہوتی ہے، اور میرا خیال ہے کہ اسے سمیٹا جاسکتا تھا تاکہ وہ ناظرین، جو کوانٹم فزکس اور متبادل کائنات کے تصوّر میں دل چسپی نہیں رکھتے وہ بھی اسے آسانی سے سمجھ سکتے۔ پھر بھی اگر توجہ سے یہ ویب سیریز دیکھی جائے، تو باآسانی تفہیم ہوسکتی ہے۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں بیک وقت ہیرو اور ولن کے کردار میں آسڑیلوی اداکار جوئل ایڈجرٹن نے انتہائی پیشہ ورانہ مہارت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ایک مثبت اور دوسرا منفی کردار بخوبی نبھایا ہے۔ متضاد کرداروں کی نفسیات پر خوب گرفت رکھنے والے اس اداکار نے پوری ویب سیریز کا بوجھ گویا اپنے کندھوں پر اٹھایا اور مجموعی طور پر کام یاب بھی رہے۔ ان کے مدمقابل دو حسین اداکارائیں جینیفر کونلی اور ایلس براگا تھیں، جنہوں نے جم کر اداکاری کی اور اسکرین پر اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ان میں سے اوّل الذکر اداکار کا تعلق امریکا اور دوسری کا تعلق برازیل سے ہے۔ دیگر معاون اداکاروں میں جمی سمپسن (امریکا)، ڈائیو اوکنی (نائیجیریا)، اوکس فیگلی (امریکا) اور امانڈا بروگل (کینیڈا) نے بھی اپنے کرداروں سے انصاف کرتے ہوئے، اس پیچیدہ کہانی کو سمجھنے میں معاونت کی ہے اور ایک اچھا فریم ورک تشکیل پایا۔

    حرفِ آخر

    یہ ویب سیریز گزشتہ چند ہفتوں سے پوری دنیا میں دیکھی جارہی ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسے مقبولیت مل رہی ہے۔ ایک پیچیدہ اور مشکل موضوع پر بنائی گئی اس ویب سیریز کو صرف توجہ کی ضرورت ہے۔ اگر آپ جم کر کوئی ویب سیریز دیکھ سکتے ہیں، بغیر توجہ ہٹائے، تو یہ کہانی آپ کو تخیلاتی اعتبار سے کسی دوسری اَن دیکھی دنیا میں لے جائے گی۔ اس پوری کیفیت اور کہانی کو اگر میں ایک شعر میں بیان کروں تو بقول رضی اختر شوق:

    اپنی طرف سے اپنی طرف آرہا تھا میں
    اور اس سفر میں کتنے زمانے لگے مجھے!

  • The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    The Regime: نرگسیت زدہ آمر خاتون کی عبرت ناک داستان

    دنیا میں کئی ایسے ممالک موجود ہیں، جہاں اُن کے سیاسی نظام میں اعلانیہ طورپر آمریت موجود ہے اور کہیں یہ ڈھکے چھپے انداز میں اقتدار سے چمٹی ہوتی ہے۔ اب ایسے ماحول میں تصور کریں، آمریت نافذ کرنے والی ایک بد دماغ عورت ہو تو کیا منظر نامہ بنے گا۔ مذکورہ ویب سیریز "دی رجیم” میں یہی صورتِ حال پیشِ نظر ہے۔

    یورپ کے وسط میں ایک فرضی ریاست دکھائی گئی ہے، جہاں اس حکمران عورت نے سب کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس ویب سیریز کو دیکھتے ہوئے نجانے کیوں اس فرضی کہانی پر حقیقت کا گمان گزرتا ہے اور ہمیں چند ممالک کا واضح عکس اس کہانی میں دکھائی دیتا ہے۔ آخر کار فکشن بھی ایک طرح سے سچ کی تلخی کو شیرینی میں ڈبو کر ہی پیش کرتا ہے۔ اس دل چسپ مگر مختصر امریکی ویب سیریز کا تجزیہ و تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کہانی /اسکرپٹ

    دی رجیم کا مرکزی خیال ایک فرضی ریاست میں نافذ نسائی آمریت ہے۔ یہ سیاسی تمثیلی کہانی ہے، جو بتاتی ہے کہ جبر کا نظام زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ آخر کار اس کو اپنے انجام تک پہنچنا ہی ہوتا ہے۔ اس کہانی میں ریاست پر قابض خاتون آمر”چانسلر ایلینا ورنہم” اپنے عالیشان محل میں براجمان دکھائی دیتی ہے، جہاں وہ اپنی من مانی کرتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے علاوہ، ذاتی مراسم اور رشتے داروں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ ایک حکمران اور ایک عورت، ان دونوں کا واضح فرق مرکزی کردار میں رکھا گیا ہے۔

    دی ریجیم

    اس خاتون آمر کی حکم رانی کا آخری سال دکھایا گیا ہے، جب اس کی زندگی میں ایک عسکری شخصیت، اس کی حفاظت کے لیے شامل ہوتی ہے۔ دھیرے دھیرے ایک آمریت پر دوسری آمریت غالب آجاتی ہے۔ چانسلر اپنے سیکورٹی سیکشن کے سربراہ کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہے اور اس کی منشا کے مطابق سیاسی فیصلے کرتی ہے، جس کے نتیجے میں پہلے شاہی محل میں اور بعد میں پورے ملک میں ایک انتشار پھیلتا ہے، جو آخرکار اس کی آمریت کو نگل لیتا ہے۔

    دی ریجیماس کہانی کے خالق امریکی اسکرپٹ رائٹر "ول ٹریسی” ہیں، جن کا لکھنے کا کیریئر ہی ویب سیریز پر مبنی ہے۔ وہ اس سے پہلے کئی عمدہ کہانیاں لکھ کر بے پناہ ستائش اور کئی ایوارڈز وصول کر چکے ہیں۔ ان میں دی مینیو، سکسیشن اور لاسٹ ویک ٹو نائٹ وِد جان الیور شامل ہیں۔اس مختصر امریکی ویب سیریز دی رجیم کی کل چھ اقساط ہیں، جن کو وہ چابک دستی سے قلم بند کرچکے ہیں۔ پوری کہانی مرکزی اور ذیلی کرداروں سے اچھی طرح پیوستہ ہے۔ اس لیے کہیں بھی ناظرین کو اکتاہٹ محسوس نہیں ہوگی۔ انہوں نے فرضی ریاست کے نام پر کہانی میں جس ملک کے ڈھانچے کو پیش کیا ہے، وہ برطانیہ کا ہے۔ کہانی میں آمریت کو بیان کرتے کرتے موجودہ دور کے کئی سیاسی مسائل، اختلافات اور دنیا کے تحفظات کو بھی عمدگی سے پیش کیا ہے۔ خاص طور پر عالمی برادری میں چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ اور امریکا کی دیگر ممالک میں سیاسی مداخلت سمیت متعدد اہم معاملات کو کہانی میں مہارت سے بیان کیا ہے۔

    اداکاری

    یہ کہنا بجا ہے کہ برطانوی اداکارہ "کیٹ ونسلیٹ” نے اپنی اداکاری سے دی رجیم میں اپنے کردار کو زندۂ جاوید کر دیا۔ اداکارہ نے اپنے کردار کی نفسیات کو سمجھتے ہوئے اپنے فن کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے مدمقابل بیلجیم سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت یورپی اداکار "میتھیاس شوناٹس” ہیں، جنہوں نے ایک فوجی سربراہ کا کردار نبھایا ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ فرانسیسی اداکار "گیلیوم گیلیان” برطانوی اداکارہ "اینڈریا رائزبورو” اور دیگر فن کاروں نے اپنے کام سے بھرپور انصاف کیا ہے۔ امریکی اداکارہ "مارتھا پلمٹن” نے اپنی مختصر لیکن بہت مضبوط اداکاری سے اسکرین پر "کیٹ ونسلیٹ ” کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ مجموعی طور پر یہ کہانی نرگسیت کا شکار ایک آمر خاتون کی عکاسی کرتی ہے، جس کو کیٹ ونسلیٹ نے اپنی فنی صلاحیتوں سے امر کر دیا۔

    ہدایت کاری اور پروڈکشن

    اس مختصر ویب سیریز کو دو ہدایت کاروں نے مل کر تخلیق کیا ہے۔ ان میں پہلے برطانوی فلم ساز "اسٹیفن فیریس” جب کہ دوسری نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والی فلم ساز "جیسیکا ہوبز” ہیں۔ دونوں نے مشترکہ طور پر تین تین اقساط کو اپنی ہدایت کاری سے مزین کیا، دونوں اپنے اپنے شعبوں میں جانے پہچانے نام ہیں۔ تکنیکی طورپر بہت کامیابی سے بنائی گئی ویب سیریز دی رجیم کا سب سے کمزور نکتہ یہ ہے کہ ناظرین اس فرضی ریاست کو بخوبی پہچان سکتے ہیں کہ اس پر کس ملک کی چھاپ نظر آرہی ہے۔ ان کو چاہیے تھا کہ یہ اس کو مزید استعارات اور تمثیلوں کے ساتھ دل چسپ بناتے، مگر ایک بہت اچھی کہانی کی وجہ سے اس واحد خامی کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔

    معروف امریکی فلم ساز ادارے "ایچ بی او” (HBO) نے اس ویب سیریز کو پروڈیوس کیا ہے۔ ان کی ٹیم میں اس ویب سیریز کے لکھاری کے علاوہ بھی ایک پوری ٹیم مستند پروڈیوسرز پر مشتمل ہے، جس میں کیٹ ونسلیٹ بھی شامل ہے۔ جرمنی سے تعلق رکھنے والے سینماٹو گرافر "ایلون ایچ کچلر” نے کمال مہارت سے اس کو عکس بند کیا ہے۔ ویب سیریز کی تدوین، اقساط کا ردھم اور عنوانات، لائٹنگ، میوزک، کاسٹیومز اور دیگر لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔

    اس میں جس عمارت کو بطور شاہی محل دکھایا گیا ہے، وہ یورپی ملک آسٹریا کے شہر ویانا کا ایک میوزیم اور اس سے ملحقہ عمارت "شون برون پیلس” ہے۔ اس کا کچھ حصہ برطانیہ میں شوٹ کیا گیا ہے، البتہ مجموعی طور پر پروڈکشن ڈیزائن اچھا ہے۔ بہت تھام جھام نہیں ہے، بس ضروری انتظامات کیے ہیں اور اس ویب سیریز کو تخلیق کیا گیا ہے۔ اس کے برطانوی پس منظر کی وجہ سے متعلقہ تکنیکی و فنی ہنر مند ہی اس کی تشکیل میں شامل ہوئے ہیں۔ اسی لیے امریکی ویب سیریز ہونے کے باوجود اس پر یورپی سینما کی گہری چھاپ محسوس کی جاسکتی ہے۔

    مقبولیت کے نئے زاویے

    مارچ میں اس ویب سیریز کی پہلی قسط اسٹریمنگ پورٹل پر جاری کر دی گئی تھی۔ پھر بالترتیب چھ اقساط ریلیز ہوئیں۔ ناظرین اور ناقدین کی طرف سے اس کو پسند کیا جا رہا ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کے تبصروں کے لیے جانی پہچانی ویب سائٹ "روٹین ٹماٹوز” پر اس کی مقبولیت کا تناسب ستاون فیصد ہے جب کہ میٹرکٹ ویب سائٹ پر بھی یہی تناسب دیکھا گیا ہے۔ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 6 اعشاریہ ایک فیصد پسندیدگی کا تناسب ہے اور یہ گزرتے دنوں کے ساتھ مزید بڑھ رہا ہے۔ گوگل کے قارئین کی طرف سے پانچ میں سے تین اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 میں سے اس ویب سیریز نے 50 کا ہندسہ عبور کرتے ہوئے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور ناقدین کو بھی متاثرکرنے میں کامیاب رہی ہے۔

    آخری بات

    آمریت جیسے روایتی موضوع پر ویب سیریز یا فلم بنانا ایک مشکل کام ہے، کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں ہے، مگر اس ویب سیریز میں جس طرح ایک آمریت اور عورت کو تمثیل بنا کر پیش کیا گیا ہے، اس کے تناظر میں یہ عالمی سیاست میں خواتین کے نرگسیت زدہ کرداروں کی عکاسی کی کوشش ہے۔ اس میں آپ کو اپنی مقامی سیاست کے کسی کردار کی جھلک بھی دکھائی دے سکتی ہے اور کئی عالمی شہرت یافتہ سیاسی اور نیم سیاسی نسائی کرداروں کی چاپ بھی محسوس ہوسکتی ہے۔ اگر آپ عالمی سیاست میں دل چسپی رکھتے ہیں تو یہ ویب سیریز دیکھتے ہوئے آپ کا وقت ضائع نہیں ہوگا۔ ایچ بی او کے آن لائن اسٹریمنگ پورٹل پر یہ ویب سیریز آپ کی توجہ کی منتظر ہے۔

  • "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    "تاج”: مغل خاندان اور اکبر بادشاہ کی داستانِ حیات

    دنیا بھر میں آن لائن تفریحی شوز دیکھنے اور فلم بینی کے شوقین اُن مختلف اسٹریمنگ پورٹلز پر نظر آرہے ہیں، جن کی معیاری پروڈکشن نے ان کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ "زی فائیو” کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

    ہندوستان میں یہ اسٹریمنگ پورٹل بہت مقبول ہے۔ حال ہی میں اس پر مغل دور بالخصوص اکبر بادشاہ کی ذاتی زندگی اور شاہی خاندان کے تناظر میں ویب سیریز "تاج” کے نام سے پیش کی گئی ہے جسے بھارت اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود اس خطّے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت شوق سے دیکھ رہے ہیں۔

    اس ویب سیریز میں برصغیر میں مغلیہ دور کی تاریخ کو خاصی حد تک متوازن اور غیر جانب دار رہ کر دکھایا گیا ہے۔ پروڈکشن ڈیزائن بہت عمدہ ہے، اور دو سیزن پر مشتمل یہ ویب سیریز کچھ کمزوریوں کے باوجود دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

    کہانی/ پلاٹ

    دو حصوں میں‌ پیش کی گئی اس ویب سیریز کی کہانی کے پہلے حصّے کا نام "خون کے ذریعے تقسیم” ہے، جب کہ دوسرے کا عنوان "انتقام کا دور” رکھا گیا ہے۔ اس میں سولہویں صدی کا زمانہ دکھایا گیا ہے، جب اکبرِ اعظم پورے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔ کہانی کا مرکزی خیال باپ بیٹوں کے مابین تاج و تخت کی کشمکش ہے۔

    اکبر بحیثیت باپ اپنے تینوں بیٹوں میں سے کسی ایک کو بادشاہت سونپنا چاہتا ہے۔ اس کی چار بیویاں، اپنی اپنی اولاد کو مغل سلطنت کا بادشاہ دیکھنا چاہتی ہیں اور ان کی تاج پوشی کی آرزو دل میں دبائے بیٹھی ہیں۔ بادشاہ کے وزرا اور خاص درباری اپنے مفاد میں اور اپنی خواہش کے مطابق ان میں سے کسی ایک شہزادے کو شہنشاہِ ہند دیکھنا چاہتے ہیں۔

    اکبر بادشاہ کے ان تینوں بیٹوں کے نام سلیم، مراد اور دانیال ہیں، جن میں سے کوئی ایک اپنے باپ کا جانشین ہو گا۔ یہ کہانی اقتدار کے حصول کے لیے کوشاں شہزادوں کی زندگی کے گرد گھومتی ہے، جن کے جذبات مد و جزر کا شکار ہیں اور جہاں کہانی میں جمالیات، سیاست، رومان، غداری اور خوں ریزی موجود ہے، وہیں مدھم اور سلگتی ہوئی محبتّوں کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ رشتوں میں‌ دراڑ، ٹوٹ پھوٹ، معاشرتی مسائل، سماجی مصائب اور بے بسی کی مختلف کیفیات کے ساتھ ساتھ اس کہانی میں‌ انتقامی رنگ بھی شامل ہے۔ یہ ایک طرف تو طاقت ور بادشاہ اور اس کے تین بیٹوں کی کہانی ہے، اور دوسری طرف یہ ایک لاچار باپ اور اس کے تین فسادی اور نافرمان بیٹوں کو بھی ہمارے سامنے لاتی ہے۔ یہ مغلیہ سلطنت کے زوال کا وہ پہلو ہے، جسے بلاشبہ اس کہانی میں عمدگی سے برتا گیا ہے۔ فلم کی ضرورت اور کہانی کو نبھانے کے لیے اس میں‌ تاریخی اور حقیقی واقعات کے ساتھ کئی قصّے اور فرضی کردار بھی شامل کیے گئے ہیں۔

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    اس ویب سیریز کے لیے کہانی "کرسٹوفر بوٹیرا” نے لکھی ہے، جب کہ معاون "ولیم بورتھیک” اور "سائمن فانٹاوز” ہیں۔ اس کے مکالمے "اجے سنگھ” نے لکھے ہیں، جو فلم کے ہدایت کاروں میں بھی شامل ہیں، ان کے علاوہ اس ویب سیریز کے تین مزید ہدایت کار ہیں، جن میں مرکزی ہدایت کار کا نام "رون اسکال پیلو” ہے اور دیگر دو ہدایت کاروں‌ کے نام "وبو پوری” اور”پرشانت سنگھ” ہیں۔ دو سیزن کے تحت یہ ویب سیریز کُل 14 اقساط پر مشتمل ہے۔

    پروڈکشن کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ اسے انڈیا کی معروف پروڈکشن کمپنی "کونٹیلو پکچرز” نے تخلیق کیا ہے۔ دو پروڈیوسرز، دوسینماٹوگرافرز اور تین ایڈیٹروں کے علاوہ کئی تکنیکی مہارت رکھنے والوں اور تخلیقی ذہن کے حامل آرٹسٹوں نے اس شان دار ویب سیریز میں اپنے اپنے حصّے کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔

    ملبوسات، تدوین، روشنی، برقی تأثرات سمیت وہ مقامات جہاں اس ویب سیریز کو عکس بند کیا گیا، ان سب کا انتخاب بھی دیگر لوازمات کی طرح بہترین ہے۔ ہاں، موسیقی کی کمی اس میں محسوس ہوئی ہے، سنجے لیلا بھنسالی سے مشاورت کر لیتے اور اسماعیل دربار سے بھی تجاویز لے لی جاتیں تو یہ ویب سیریز اپنی منفرد کہانی کی بدولت مزید قیامت ڈھاتی۔ پروڈکشن ڈیزائن کے شاہانہ انداز سے پتہ چلتا ہے کہ واقعی مغلیہ خاندان کی شاہانہ کہانی بیان کی جارہی ہے۔ مارچ میں اس کا پہلا سیزن پیش کیا گیا تھا اور مئی میں دوسرے سیزن کو ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبولیت مل رہی ہے۔

    اداکاری

    بہت حیرت کی بات ہے، لیکن کہنا پڑے گا کہ اس ویب سیریز میں اکبر بادشاہ کے روپ میں‌ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے شان دار اداکار نصیرالدّین شاہ کی اداکاری بہت کمزور اور بے کیف محسوس ہوئی، اور جس قدر یہ کردار بڑا تھا، وہ اسے سنبھال نہیں پائے۔

    اس وجہ سے کئی جگہ ویب سیریز کے ناظرین کو ان کے کردار سے اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ نصیر الدّین شاہ نے اپنا کردار بہت بوجھل اور تھکے تھکے انداز میں نبھایا ہے، جس کی ان سے توقع نہ تھی۔ بہرحال دیگر فن کاروں کی عمدہ اداکاری سے ویب سیریز مجموعی طور پر اپنا رنگ جما گئی۔

    اکبر کے تین بیٹوں میں سے سلیم کا کردار اداکار "آشم گولاٹی” نے نبھایا ہے اور اپنی فطری اور بے ساختہ اداکاری سے دل موہ لیا ہے۔ اکبر کی ایک کنیز جو کہ انارکلی تھی، وہ بھی متاثر کرنے میں زیادہ کام یاب نہیں ہو سکی، البتہ اکبر کی تینوں بیویوں میں سے جودھا اکبر کا کردار نبھانے والی اداکارہ "ساندھیا مریدول” نے بہت زبردست اداکاری کی بلکہ کئی مناظر میں وہ تمام اداکاروں پر حاوی نظر آتی ہیں۔

    اکبر کے بھائی مرزا محمد حکیم کے کردار میں راہول بوس نے بھی مایوس کیا البتہ دیگر مرکزی کرداروں میں ایام مہتا (بدایونی)، پنکج سرسوت (ابوالفضل) دیگمبر پرساد (مان سنگھ)، سبودھ بھاوے (بیربل)، دیبراج رانا (مہا رانا پرتاب)، پون چوپڑا (غیاث بیگ) نے اپنی اداکاری سے ویب سیریز کو چار چاند لگا دیے ہیں۔

    دھرمیندر بھی (شیخ سلیم چشتی) کے کردار میں بہت بھائے اور متاثر کن اداکاری سے ثابت کیا کہ وہ اب تک اداکاری سے مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہاں ہم نے جن سات فن کاروں کا تذکرہ کیا ہے، اگر یہ اچھا کام نہ کرتے تو شاید یہ ویب سیریز پروڈکشن کا سفید ہاتھی ثابت ہوتی اور اس کی لاش پر نصیر الدّین شاہ بیٹھے دکھائی دیتے۔

    حرفِ آخر

    اپنی کچھ کم زوریوں کے باوجود اس ویب سیریز کی مقبولیت کا سفر بہرحال جاری ہے۔ فلموں اور ویب سیریز کی مقبول ویب سائٹ "آئی ایم ڈی بی” پر اس کی مقبولیت کا اوسط 10 سے میں 7 فی صد ہے۔ ہندوستانی میڈیا نے اس پر ملا جلا ردعمل دیا ہے جب کہ مغربی ریٹنگ میڈیا نے اس ویب سیریز کو زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس کے باوجود مجھ سے پوچھیں تو میری نظر میں 10 سے 6 اسٹارز کے ساتھ یہ ویب سیریز آپ کو کہیں لطف اندوز ہونے کا موقع بھی دے گی اور کہیں مایوس بھی کرے گی۔ اس ویب سیریز کی ناکامی کی دو وجوہ ہوں گی، ایک نصیر الدّین شاہ کی بوجھل اداکاری اور دوسری وجہ موسیقی کا عنقا ہونا۔ اس لیے زیادہ امید وابستہ کیے بغیر اس ویب سیریز کو دیکھیں گے تو محظوظ ہوسکیں گے، مگر اس کی ضمانت بہرحال نہیں دی جاسکتی۔

  • ’آنکھ کے بدلے آنکھ، خون کے بدلے خون‘

    ’آنکھ کے بدلے آنکھ، خون کے بدلے خون‘

    ممبئی: بالی ووڈ کی اداکارہ روینہ ٹنڈن کی نئی ویب سیریز او ٹی ٹی پلیٹ فارم پر دھوم مچانے کے لیے بالکل تیار ہے جس کا ٹریلر جاری کردیا گیا۔

    کے جی ایف 2 میں اپنی زبردست اداکاری سے ہوش اڑانے والی روینہ ٹنڈن نے اپنی آنے والی سیریز کا اعلان کردیا، جسکا ٹریلر جاری کردیا گیا، سیریز میں دکھایا جائے گا  کہ کس طرح کرما ان کا پیچھا کرتی ہے۔

    ویب سیریز کرما کالنگ روچی نارائن کی ہدایت کاری میں بنی یہ ویب سیریز امریکا کی سیریز ’ریونج‘ پر مبنی ہے، اس سیریز میں روینہ اہم کردار ادا کر رہی ہیں،  وہ اس سیریز میں امیر اندرانی کوٹھاری کے کردار میں نظر آئیں گی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Disney+ Hotstar (@disneyplushotstar)

    ویب سیریز کرما کالنگ کی دنیا کی اصلیت بتاتی ہے، سیریز میں دیکھایا جائے گا کہ اندارنی کوٹھاری کی گلیمر اور چمک سے بھری دنیا کس طرح دھوکے سے بھری ہوئی ہے۔

    ویب سیریز کرما کالنگ کے شاندار ٹریلر میں روینہ ٹنڈن کے کردار نے تہلکہ مچادیا ہے، یہ سیریز ان تمام چیزوں کے گرد گھومتی ہے جو کوٹھاری کی دنیا میں ان کے گرد سازشیں کرتے ہیں۔

    ٹریلر میں روینہ ٹنڈن کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ ’’اپنے اصول، آدرش اور یہاں تک اپنے خاندان، سب بھاڑ میں جائے  لوگ کہتے ہیں، جیسا کریں گے ویسا بھرو گے، لیکن میں کہتی ہوں، دنیا آپ کے قدموں پر ہو تو کارما بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Disney+ Hotstar (@disneyplushotstar)

    کرما کلنگ کے ٹریلر کے کیپشن میں لکھا ہے کہ ’ نہ پاور۔ نہ پیسہ، نہ رول، اندارنی کے سامنے کوئی نہیں کرپایا، کیا ہوگا جب اندرانی کا سامنا ہوگا اس کے کرما سے‘۔

    واضح رہے کہ اداکارہ روینہ ٹنڈن کی ویب سیریز کرما کالنگ 26 جنوری 2024 کو ڈزنی پلس ہاٹ اسٹار پر ریلیز ہوگی۔

  • شاہ رخ خان کے بیٹے کی بالی ووڈ میں مختلف انداز میں انٹری

    شاہ رخ خان کے بیٹے کی بالی ووڈ میں مختلف انداز میں انٹری

    بالی ووڈ کنگ شاہ رخ خان کے بیٹے آریان خان منشیات کیس میں کلین چٹ پانے کے بعد اب کام پر توجہ دے رہے ہیں، وہ جلد ہی ایک ویب سیریز تحریر کرنے جارہے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق آریان خان یونیورسٹی آف ساؤتھ کیلیفورنیا سے فلم سازی میں تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور ساتھ ہی اپنے والد کی آنے والی فلم پٹھان میں اسسٹ بھی کر رہے ہیں۔

    اب آریان خان بطور ویب سیریز رائٹر اپنے پروفیشنل کیریئر کا آغاز کرنے جا رہے ہیں، ان کی تحریر کردہ ویب سیریز بہت جلد منظر عام پر آجائے گی۔

    اس سے قبل آریان خان بطور چائلڈ اسٹار کبھی خوشی کبھی غم میں مختصر کردار میں نظر آ چکے ہیں، ساتھ ہی ہالی وڈ فلم دی انکریڈیبلز اور دی لائن کنگ کے لیے ہندی ورژن میں اپنے والد کے ہمراہ ڈبنگ بھی کروا چکے ہیں۔