Tag: ویب سیریز ریویو

  • پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    پاکستان کی پہلی علامتی ویب سیریز: برزخ

    برزخ ویب سیریز دیکھنے سے پہلے یہ جان لیجیے

    آپ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ تجریدیت کیا ہوتی ہے، علامت اور استعارہ کسے کہتے ہیں اور تمثیل کا تخلیقی اظہار کیا ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’سُرریل ازم‘‘ (Surrealism) کیا چیز ہے، کس طرح عالمی ادب اور مصوری میں ان تمام نظریات کا استعمال ہوا۔ بعد میں بین الاقوامی فلمی دنیا نے بھی ان نظریات کو اپنایا۔ عالمی سینما میں ایسے افکار اور نظریات کی بنیاد پر فلمیں اور ویب سیریز بنانے کی روایت اب خاصی پرانی ہوچلی ہے، حتیٰ کہ ہمارے پڑوسی ممالک ہندوستان اور ایران میں بھی ایسے نظریاتی تجربات سے بھرپور فلمیں دیکھنے کو ملتی ہیں، جنہیں ہم عرف عام میں ’’متوازن سینما‘‘ یا ’’آرٹ فلمیں‘‘ کہتے ہیں۔

    پاکستان میں البتہ ان نظریات کی بنیاد پر تھیٹر، مصوری اور ادب کے شعبوں میں تو کام ہوا، لیکن ہمارا ٹیلی وژن اور سینما اس سے تقریباً محروم رہا۔ نئے فلم سازوں میں کچھ بیدار مغز اور باشعور فلم ساز ان فنی باریکیوں سے واقف ہیں، تو وہ شاید اب کچھ ایسے تجربات کریں، جن کا تذکرہ یہاں کیا گیا ہے۔ تو یوں سمجھیے ایسا ہی ایک تجربہ ویب سیریز کی دنیا میں پاکستان کی طرف سے ہوا ہے، جس کا نام ’’برزخ‘‘ ہے۔ یہ کیسا تجربہ ہے، اس کا فیصلہ آپ ویب سیریز دیکھ کر خود کریں۔ ہم نے اس کو کیسا پایا، اس پر ہمارا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    برزخ کیا ہے؟

    عربی زبان کے اس لفظ بطور مذہبی اصطلاح دیکھنا ہوگا۔ لغوی اعتبار سے برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اس سے مراد، روح اور جسم کے درمیان، موت کے بعد سے قیامت تک کی آڑ یا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسبِ مراتب برزخ میں رہیں گے۔ عالمِ برزخ سے کچھ تعلق دنیا اور کچھ کا آخرت کے ساتھ ہوتا ہے، جب تک کہ تمام روحیں قیامت کے روز خدا کے حضور پیش نہیں ہو جاتیں۔

    اس اصطلاح کا دنیا کے ساتھ تعلق کچھ یوں ہے، جب انسان مر جاتا ہے، تو اس کے عزیز و اقارب میّت کے ثواب کے لیے صدقہ، خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہے کہ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی تناظر میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں روحیں قیامت آنے تک رہتی ہیں اور بہت ساری روحیں ایسی بھی ہیں، جو عالمِ ارواح سے باہر بھی آتی جاتی ہیں۔ اس عرصے میں بدن اور روح کا تعلق کسی نہ کسی طرح رہتا ہے، وہ ایک دوسرے کی تکلیف کو بھی محسوس کرتے ہیں۔

    اس اصطلاح اور اس سے جڑے عقائد کو مزید تفصیل سے سمجھنے کے لیے اسلامی کتب اور متعلقہ ویب سائٹس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ کائنات کی تسخیر کے لیے جو علوم وجود میں آئے، بھلے وہ اسپیس سائنس ہو یا کوانٹم فزکس، ان سب کے مطابق برزخ عدم ہے یعنی ڈارک انرجی۔ یعنی بزرخ وہ نقطۂ تبدل ہے، جس پہ حالتوں کی تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اس طرح ہم مذہبی اور سائنسی دونوں پہلوؤں سے اس لفظ اور اصطلاح کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔

    مرکزی خیال/ کہانی

    مذکورہ ویب سیریز کا مرکزی خیال تو مندرجہ بالا افکار پر ہی محیط ہے، مگر ظاہر ہے، کہانی لکھتے ہوئے ویب نگار نے اس کو اپنے طرز سے بیان کیا ہے، جس میں افسانوی رنگ بھی شامل ہے۔ اس ویب سیریز کی کہانی کے مطابق، ایک پہاڑی وادی ہے، جو حسین درختوں سے لدی پھندی ہے، اس شان دار فطری مظاہر کو بیان کرنے والے گاؤں کا کرتا دھرتا، جس کو چوہدری، وڈیرا، جاگیر دار، سردار اور کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ وہ ’’آقا‘‘ نامی شخص ہے، جس نے اپنے اوائلِ جوانی میں محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی محبوبہ کو بیوی بنایا اور اس کو پتوں کا ہار پہناتے ہوئے وعدہ کیا کہ وہ کمانے کے لیے شہر جائے گا اور اس کے لیے سونے کا ہار بنوا کر لائے گا۔

    وہ جب کئی برسوں کے بعد شہر سے لوٹتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بیوی دنیائے فانی سے کوچ کرچکی ہے۔ اس کے بعد وہ اس کی یاد میں ایک اور شادی کرتا ہے، اور اس عورت کے بطن سے اولاد بھی نصیب ہوتی ہے، مگر وہ پہلی بیوی کو بھول نہیں پاتا جو اس کی محبوبہ بھی تھی، اور آخر کار زندگی کے اختتامی برسوں میں وہ ڈمنشیا نامی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے، جس میں انسان کی یادداشت اور حواس دھیرے دھیرے ختم ہونے لگتے ہیں۔ اب اس بوڑھے کی ضد ہے کہ وہ اپنی پہلی بیوی سے دوبارہ شادی کرے گا، جو عدم سے وجود پائے گی اور ظاہر میں اس سے ملاپ کرنے آئے گی۔ یہ مرکزی کردار ہے، جس کے اردگرد اس کے بھائی، اس کی اولاد، گاؤں کے لوگ اور مقامی پولیس افسر سمیت دیگر کرداروں کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔

    اس گاؤں میں اب یادداشت کھوتا ہوا بوڑھا اپنی شادی کی تیاری کررہا ہے۔ اولاد بھی اس مقصد کے لیے مختلف شہروں سے آچکی ہے۔ گاؤں کے لوگ اس شادی سے خوف زدہ ہیں۔ گاؤں میں چھوٹی کئی بچیاں لاپتا ہوچکی ہیں، جن کے بارے میں ایک عام خیال ہے کہ وہ روحوں کے بلانے پر ان کے ساتھ عالم ارواح میں چلی گئی ہیں۔ اس بوڑھے کی ایک لاڈلی اور معاون بیٹی کا نام شہرزاد ہے، جس کے بارے میں یہ دھندلا تاثر ہے کہ وہ اس کی اُسی پہلی بیوی سے ہے، جس نے اس کو عالمِ ارواح میں جانے کے بعد پیدا کیا اور اسے دنیا میں بھیج دیا۔گاؤں کے لوگوں کا بھی یہی خیال ہے۔

    اب آقا پُرعزم ہے اپنی شادی کے اعادے کے لیے، لاڈلی بیٹی معاونت کررہی ہے جو عالمِ ارواح کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے۔ باقی دو اولادیں اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کی عقل اس کو تسلیم نہیں کرتی۔ یہی خیال گاؤں کے تھانیدار کا بھی ہے اور گاؤں کے نمبردار کا بھی، جو آقا کا بھائی بھی ہے۔ اب اصل میں ماجرا کیا ہے۔ اجسام اور روح کس طرح اس کہانی میں مل رہے ہیں، ملیں گے بھی یا نہیں اور کیا ہوگا، اس پر کہانی آپ کو متجسس کیے رکھے گی، جس کو توجہ سے دیکھنا ضروری ہے، کیونکہ بہت کچھ علامتوں کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ بوجھ اٹھائے چلتے ہوئے اجسام، کبوتر، پرانی روایات کی کتاب، لال رنگ کے ملبوسات، گلابی رنگ کا دھواں اور بہت کچھ اس کہانی کو تہ در تہ بیان کر رہا ہے، البتہ اس کہانی میں بہت سارے ایسے تصورات بھی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی مذہبِ اسلام سے کوئی تعلق ہے۔ وہ مصنّف کے ذہن کی اختراع ہے اور انہوں نے اپنی کہانی میں کئی افسانوی رنگ بھرے ہیں۔ اردو اور انگریزی میں بیان کی گئی، اس کہانی کے مصنف عاصم عباسی ہیں۔

    پروڈکشن اور دیگر تخلیقی شعبے

    یہ ویب سیریز پاکستان اور ہندوستان کی مشترکہ پروڈکشن ہے۔ پاکستان سے اس کے مرکزی اور معروف پروڈیوسر وقاص حسن ہیں۔ ہندوستان سے شلجا کجروال اس ویب سیریز کی مرکزی پروڈیوسر ہیں، وہ اس ویب سیریز کے ہدایت کار عاصم عباسی کے ساتھ ماضی قریب میں ’’چڑیلز‘‘ ویب سیریز کے لیے بھی بطور پروڈیوسر کام کرچکی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستانی ویب سیریز ’’قاتل حسینوں کے نام‘‘ اور ’’دھوپ کی دیوار‘‘ سمیت پاکستانی فلم ’’لیلیٰ بیگم‘‘ شامل ہیں، جن میں وہ پروڈیوسر کے فرائض نبھا چکی ہیں۔ ان دونوں کے علاوہ بھی اس ویب سیریز میں دونوں ممالک سے مزید کئی پروڈیوسرز شامل ہیں۔

    مذکورہ ویب سیریز سمیت یہ تمام پروڈکشنز زی زندگی (زی فائیو) کے لیے کی گئی ہیں، جو معروف ہندوستانی اسٹریمنگ پورٹل ہے۔ ہندوستانی پروڈیوسر شلجا کجروال کا پاکستانی فلم سازوں کے ساتھ اس قدر اشتراک حیرت انگیز ہے، جب کہ ابھی تو کئی برسوں سے دونوں ممالک کا ماحول یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی فلمیں اپنے اپنے ملک میں ریلیز نہیں کرسکتے، جس اسٹریمنگ پورٹل پر یہ مشترکہ پروڈکشن کی بنیاد پر سارا پاکستانی کونٹینٹ ریلیز کیا جا رہا ہے، یہ اسٹریمنگ پورٹل تو پاکستان میں کام ہی نہیں کرتا ہے۔ آپ گوگل کرکے دیکھ سکتے ہیں، پھر بھی ہندوستانی پروڈیوسر کی اس قدر دل چسپی قدرے مشکوک بھی ہے، کیونکہ ان میں سے اکثر تخلیقی منصوبے متنازع بھی ہیں، جس طرح اب ’’برزخ‘‘ جیسی ویب سیریز میں امرد پرستی جیسے قبیح فعل کو بھی کہانی کا حصہ بنایا گیا ہے، جس کی ضرورت کہانی میں محسوس نہیں ہوتی، مگر یہ اس کا حصہ ہے۔

    مجموعی حیثیت میں یہ ویب سیریز بطور پروڈکشن ڈیزائن اچھی ہے، جس کے پیچھے ایرج ہاشمی کی کوششیں شامل ہیں۔ اس ویب سیریز میں تمام ضروری پہلوؤں کا خیال رکھا گیا ہے، مگر خاص طور پر دو چیزوں نے بہت متاثر کیا، جن میں پہلی چیز بصری اثرات (ویژول ایفکٹس) ہیں، جن میں پاکستان سے محمد عمر اسلم اور ہندوستان سے ششی سنگھ راجپوت نے اپنی صلاحیتوں کا جادو جگایا۔ دوسری اہم چیز موسیقی ہے،جس کو پاکستان کی نئی نسل سے تعلق رکھنے والے معروف گلوکار اور موسیقار سرمد غفور نے ترتیب دیا ہے، جو قابلِ ستائش ہے۔ سینماٹو گرافی مواعظمی کی ہے، جب کہ اس کے ساتھ دیگر شعبوں، جن میں ایڈیٹنگ، لائٹنگ، کاسٹیوم، آرٹ ڈیزائننگ، آڈیو اور دیگر شامل ہیں۔ ان تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ کام دیکھنے کو ملا ہے۔

    ہدایت کاری

    اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عاصم عباسی ایک بہت اچھے ہدایت کار ہیں، جنہوں نے فیچر فلم ’’کیک‘‘ سے مجھے متاثر کیا، میں نے ان کی وہ فلم ریویو بھی کی تھی، لیکن اس کے بعد اب جا کر، اس ویب سیریز سے انہوں نے اپنے خالص تخلیقی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ عاصم عباسی چونکہ مذکورہ ویب سیریز کے مصنّف بھی ہیں، جو کہ میری رائے میں ان کا کمزور شعبہ ہے، اس لیے انہیں صرف اپنی ہدایت کاری پر ہی توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم ان کا مزید خوب صورت اور تخلیقی کام دیکھ سکیں۔

    ڈائریکٹر عاصم عباسی

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں سب سے بہترین اداکار جس کا انتخاب کیا گیا، وہ سلمان شاہد ہیں۔ وہ لیونگ لیجنڈ ہیں، اس کے علاوہ مرکزی کرداروں میں فواد خان اور صنم سعید کے علاوہ پوری کاسٹ ہی تقریباً درست انتخاب ہے۔ ان دو باصلاحیت اداکاروں کی جگہ اس کہانی میں نہیں بنتی تھی، نجانے کیوں ان کو کاسٹ کیا گیا، یہ دونوں اپنے کرداروں کو نبھانے میں ناکام رہے۔ ان کے ہاں تصنّع اور جذبات سے عاری اداکاری دیکھنے کو ملی ہے، یہ مس کاسٹنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اپنے مزاج کے لحاظ سے دیگر کئی کرداروں میں متاثر کن کام کرچکے ہیں، خاص طور پر فواد خان تو بہت عمدہ اداکار ہیں، البتہ صنم سعید کو ہماری ڈراما انڈسٹری نے اداکارہ بنا دیا، ورنہ ان کا اصل کیریئر ماڈلنگ تھا، وہ وہیں ٹھیک تھیں۔ اس ویب سیریز میں پس منظر میں آواز یعنی صداکاری کے لیے بھی صنم سعید کا انتخاب کیا گیا، جب کہ ان کی آواز صداکاری کے لیے موزوں نہیں ہے، انھیں سنتے ہوئے محسوس ہوگا کہ وہ ناک میں بول رہی ہیں۔ یہ سب تو ہدایت کار کو دیکھنا ہوتا ہے، ظاہر ہے اس میں اداکاروں کا کوئی قصور نہیں ہے۔

    اسی ویب سیریز میں محمد فواد خان، میثم نقوی اور کلثوم آفتاب جیسے انتہائی شان دار اداکار اور صدا کار موجود ہیں، جنہوں نے اداکاری بھی خوب جم کر کی۔ ان میں سے کسی کی آواز کو استعمال کر کے کہانی کی پڑھنت کو چار چاند لگائے جاسکتے تھے۔

     تیسری قسط میں وہ منظر، جب ایک کردار (کلثوم آفتاب) اپنی بیٹی کی گمشدگی کے بارے میں گاؤں والوں کو بتا کو رہا ہے اور اپنی ممتا کا دکھ بیان کررہا ہے، یہ منظر اور مونو لاگ(خود کلامی)‌ اس ویب سیریز میں صنم سعید کی پوری اداکاری پر بھاری ہے۔

    اب جب روایتی میڈیم اور سنسر بورڈ وغیرہ سے جان چھڑا کر آزاد میڈیم کے لیے چیزیں تخلیق کر ہی رہے ہیں تو برانڈنگ پرفامرز کی بجائے اسٹینڈنگ پرفامر کو موقع دینا ہوگا، جس طرح ہندوستان میں دیا جاتا ہے، ورنہ ہم اسٹریمنگ پورٹلز کی آزاد دنیا میں بھی جلد اپنا اعتبار کھو دیں گے۔ تنقید برائے تعمیر سمجھ کر ان پہلوؤں پر ضرور غور کیا جائے۔

    حرف آخر

    اس ویب سیریز کے تناظر میں سوشل میڈیا اور یوٹیوب پر کمنٹس میں منفی و مثبت تاثرات پڑھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے بارے میں کیا سوچا جا رہا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، جو خوش آئند ہے۔ میری حتمی رائے بھی یہی ہے کہ یہ ایک اچھی ویب سیریز ہے، جس پر عاصم عباسی اور ان کی ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    قارئین! اگر آپ علامت، استعارہ، تشبیہ اور تجرید میں دل چسپی لیتے ہوئے ایک ایسی کہانی دیکھنے کے طلب گار ہیں تو یہ ویب سیریز آپ کو لطف دے گی۔ آپ اس ویب سیریز کو یوٹیوب پر دیکھ سکتے ہیں۔ معمولی چیزوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کوشش کو سراہیے۔ہمیں امید ہے، ہمارے یہ نئے تخلیق کار مستقبل میں مزید متاثر کن کہانیاں دیں گے اور ہمیں حیران کرتے رہیں گے۔

  • مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزا پور ، سیزن 3 :‌ پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    مرزاپور کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’سیکرڈ گیمز‘‘ کے بعد، آن لائن اسٹریمنگ پورٹلز پر یہ دوسری ایسی انڈین ویب سیریز ہے، جس کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھا گیا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایک ریکارڈ ہے۔ 

    ’’مرزا پور‘‘ کے اب تک تین سیزن آچکے ہیں۔ یہ تیسرا سیزن 5 جولائی 2024 کو ایمازون پرائم ویڈیو پر 10 اقساط کی صورت میں اسٹریم لائن کیا گیا ہے۔ اس تیسرے سیزن کا تفصیلی تجزیہ اور تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    کیا مرزا پور حقیقتاً انڈیا کا کوئی شہر ہے؟

    جی ہاں، بھارت کی ریاست اتر پردیش کے ایک شہر کا نام ’’مرزا پور‘‘ ہے، جو قالین اور پیتل کی صنعتوں کے لیے مشہور ہے، جب کہ یہاں کی لوک موسیقی "کجاری” اور "برہا” بھی اس علاقہ کی ایک شناخت ہے۔ اس ویب سیریز میں قالین بنانے کی صنعت کا ذکر تو ملتا ہے، مگر اس کے علاوہ جو کچھ دکھایا گیا ہے، ان سب کا اس علاقے سے کوئی تعلق نہیں۔

    مرزا پور

    جن چیزوں سے تعلق بنتا تھا، خاص طور پر موسیقی، اس کا ذکر ویب سیریز میں دور دور تک نہیں ملتا۔ ہندی، اردو اور بھوجپوری زبانیں بولنے والے اس شہر کی اصل پہچان اور حوالہ ہیں جب کہ ناہید عابدی، امر گوسوامی اور لکشمی راج شرما جیسے ادیب اسی شہر سے ہیں، اور ہندوستانی ادب میں انہوں نے بہت نام کمایا ہے۔ فرضی واقعات پر مبنی ویب سیریز کے ذریعے ایسے شہر پر غنڈہ گردی کی چھاپ لگا دینا بہرحال غلط ہے، جس پر مرزا پور کے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ ضرور رنجیدہ ہوں گے۔

    گزشتہ دو سیزنز کا خلاصہ اور تیسرا سیزن

    مار دھاڑ سے بھرپور اس کہانی میں ہندوستان کے شہر مرزا پور کو لاقانونیت کا گڑھ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ طاقت، جرم اور انتقام کے پس منظر میں ایک گدی کا ذکر یوں ملتا ہے کہ جو اس پر بیٹھتا ہے، وہ راج کرتا ہے۔ کالا دھن کماتا ہے اور طاقت کے مرکز پر بھی اسی کا حکم چلتا ہے۔ سیریز کی ابتدا ہی سے علی فضل، دیویندو، پنکج ترپاٹھی، وکرانت میسی، رسیکا دوگل، شریا پیلگونکر، اور شویتا ترپاٹھی جیسے مشہور اداکاروں نے اپنی شان دار پرفارمنس پر خوب ستائش سمیٹی اور یہ سلسلہ دوسرے سیزن میں بھی جاری رہا۔ ان دنوں اس ویب سیریز کا تیسرا سیزن دیکھا جا رہا ہے، لیکن گزشتہ دو سیزنز میں کیا ہوا، ہم اس کا خلاصہ یہاں پیش کر رہے ہیں۔

    پہلا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا پہلا سیزن 2018 میں ریلیز ہوا تھا۔ اس میں ناظرین کو جرم کے باشاہ قالین بھیا (پنکج ترپاٹھی) کی سفاک دنیا دکھائی گئی ہے، جو بندوق کی بڑھتی ہوئی غیر قانونی تجارت کی نگرانی کرتا ہے۔ وہ گڈو پنڈت اور ببلو پنڈت (بالترتیب علی فضل اور وکرانت میسی) کو اپنے گروہ میں شامل کرتا ہے، اور وہ قالین بھیا کے آپریشنز میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ قالین بھیا کا پرجوش بیٹا منا بھیا (دیوینندو) ان کو اپنی امنگوں اور مستقبل کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ یہ بیانیہ طاقت کی بڑھتی ہوئی کشمکش اور بے رحم دشمنیوں کے ساتھ آگے بڑھتا ہے۔ گڈو اور ببلو زیادہ اثر و رسوخ حاصل کرتے چلے جاتے ہیں اور منا جیسے دشمنوں کا غصہ دوسروں پر نکالتے ہیں۔ اس سیزن میں ایک کردار سویٹی گپتا (شریا پِلگاونکر) کا ہے جو گڈو کے لیے آتی ہے، اور دشمنی کو مزید ہوا دیتی ہے، خاص طور پر منّا سے، جو اس کے لیے نرم جذبات رکھتا ہے۔ سیزن کا اختتام ایک شادی کے موقع پر چونکا دینے والے انداز سے ہوتا ہے، جہاں غصے اور انتقام کی آگے میں جلتا ہوا منّا ایک پرتشدد حملے کا ارتکاب کرتا ہے۔ ایک دل دہلا دینے والے موڑ وہ آتا ہے، جب منّا سویٹی اور ببلو کو مار ڈالتا ہے اور گڈو شدید زخمی ہو جاتا ہے۔ گڈو، گولو (شویتا ترپاٹھی) سویٹی کی بہن کے ساتھ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے، جو الم ناک واقعات کی گواہ بھی ہے۔ سیزن کا اختتام قالین بھیا کے ایک پولیس اہلکار کو ختم کر کے اپنے دشمنوں پر غلبہ پانے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ہوتا ہے۔

    دوسرا سیزن (خلاصہ)

    مرزا پور کا دوسرا سیزن 2020 میں ریلیز ہوا تھا۔ کہانی وہیں سے شروع ہوتی ہے جہاں اسے چھوڑا گیا تھا۔ دوسرے سیزن میں دکھایا ہے کہ شادی میں وحشیانہ قتل کے بعد علاقہ میں مزید خوف و ہراس پھیل گیا ہے اور قتل و غارت بڑھ گئی ہے۔ مختلف کرداروں کو انتقام اور طاقت کی تلاش میں سرگرداں دکھایا گیا ہے، جو دوسروں کی قسمت کے فیصلے کررہے ہیں۔ منا، اپنے زخم مندمل ہونے کے بعد نئی سیاسی دوستیاں اور بااثر شخصیات سے تعلقات بنا رہا ہے، جن میں وزیر اعلیٰ کی بیٹی مادھوری (ایشا تلوار) کے ساتھ پیچیدہ تعلقات بھی شامل ہیں۔ منا کے اپنے والد، قالین بھیا کو ختم کرنے کے لیے جوڑ توڑ اور مختلف حربے، ترپاٹھی خاندان کے اندر پہلے سے ہی موجود پیچیدہ معاملات اور طاقت کے حصول کے راستے میں مشکلات بڑھا دیتے ہیں۔

    دریں اثنا گڈو، جو اپنے بھائی ببلو کی موت کا بدلہ لینے کا عزم کیے ہوئے ہے، اسی بنیاد پر گولو کے ساتھ اتحاد کرلیتا ہے، جو خود بھی اپنوں کو کھو چکا ہے اور انصاف اور بدلہ لینے کے لیے پرجوش ہے۔ وہ دونوں اپنے بہن بھائیوں کو کھو چکے ہیں۔ اس کی اذیت اور دکھ ان کو انتقام کی طرف دھکیلتے ہیں۔ اس سیزن کا اختتام آپس میں ایک جھڑپ پر ہوتا ہے، جب گڈو اور گولو اپنے دشمن منّا اور قالین بھیا کو زیر کرنے اور ان پر غلبہ پانے کے لیے ان سے زبردست لڑائی کرتے ہیں۔ گڈو، منّا کو قتل کر کے اپنا بدلہ لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے جب کہ قالین بھیا کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ شرد شکلا (انجم شرما) زخمی قالین بھیا کو بچاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور اس سیزن کا اختتام ایک ایسے نوٹ پر ہوتا ہے، جس سے سیریز میں ایک بے تابی سے متوقع تسلسل کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔ تیسرا سیزن یہیں سے شروع ہوتا ہے اور اب ہم تیسرے سیزن کی طرف چلتے ہیں۔

    پانچ خاندان اور سونے کی گدی

    اب ویب سیریز کی کہانی جہاں پہنچ چکی ہے، وہاں بڑے چھوٹے بہت سارے کردار بھی اکٹھا ہوگئے ہیں۔ کچھ کردار اس کہانی سے باہر ہو گئے تھے اور کچھ نئے کردار سامنے آئے ہیں۔ مجموعی طور پر کرداروں کو کہانی کی تشکیل کو آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیں کہ مرزا پور کی گدی پر اپنا قبضہ جمانے کے لیے پانچ خاندانوں کے درمیان کشمکش جاری ہے، جو اس مقصد کے حصول میں مختلف دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کا ساتھ اس بنیاد پر دے رہے ہیں کہ کسی طرح مرزا پور کی گدی پر ان کا قبضہ ہو جائے، جو ناجائز اسلحے سے کمائی کے لیے سونے کی کان جیسی ہے۔ یہ بظاہر قالین بیچنے کا کاروبار دکھائی دیتا ہے جس کے کئی دروازے ملکی سیاست اور اقتدار کی راہدریوں میں بھی کھلتے ہیں۔

    مرزا پور

    یہ پانچ خاندان ترپاٹھی، پنڈت، گپتا، تیاگی، شکلا اور یادیو ہیں۔ بالترتیب پہلا خاندان گدی نشین ہے اور پہلے سیزن پر یہی چھایا ہوا ہے۔ دوسرا خاندان دوسرے سیزن کے اختتام تک اس گدی کو حاصل کر لیتا ہے اور تیسرے سیزن تک اس خاندان کا گدی پر قبضہ برقرار دکھایا گیا ہے، لیکن تیسرے سیزن کے اختتام پر یہ طاقت اور راج پھر تھرپاٹی خاندان کو منتقل ہوجاتا ہے۔ چوتھے سیزن میں کون اس گدی پر بیٹھے گا، یہ دیکھنا ہوگا۔ ان دونوں خاندانوں سے کئی کردار جڑے ہوئے ہیں، جو اس کی گدی کے لیے جنگ میں ان کی معاونت کرتے ہیں۔

    مرزا پور

    پروڈکشن/ ہدایت کاری

    یہ ویب سیریز امریکی اسٹریمنگ پورٹل ایمازون پرائم ویڈیو کی ہے، اور اسے انڈیا میں ایکسل انٹرٹینمنٹ نے پروڈیوس کیا ہے۔ اس کے پروڈیوسرز معروف اداکار فرحان اختر اور رتیش سدھوانی ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی میڈیا انڈسٹری کے لیے زبردست کام کرچکے ہیں، جن میں سرفہرست ان کی فلم ’’دل چاہتا ہے‘‘ بھی شامل ہے۔ ویب سیریز کی مرکزی اسکرپٹ نویس کرن انشومن اور پونیت کرشنا ہیں۔

    ہدایت کاری کی بات کی جائے تو چار نام سامنے آتے ہیں اور یہ کرن انشومن، گورمیت سنگھ، میہار ڈیسائی اور آنند لیر ہیں۔ اس ویب سیریز کو فلمانے کے لیے بھارتی ریاست اتر پردیش کے کئی شہروں کا انتخاب کیا گیا، جن میں مرزا پور کے علاوہ جون پور، اعظم گڑھ، غازی پور، لکھنؤ، گورکھ پور اور دیگر شامل ہیں۔ اس سیزن میں تشدد پر مبنی مناظر کم دکھائے گئے اور یہ اس تیسرے سیزن کی سب سے اہم بات تھی جب کہ کہانی میں کلائمکس کمزور رہے، جس کا اس ویب سیریز کی شہرت پر منفی اثر پڑا اور اب اس پر خاصی تنقید ہو رہی ہے۔ یقینا اسے ہدایت کاری کا نقص شمار کیا جائے گا۔

    کہانی/ اداکاری

    اس ویب سیریز کی کہانی کا تذکرہ تو کافی ہوچکا ہے کہ یہ ایسا شہر ہے جو جرائم پیشہ افراد کے لیے گویا جنت ہے اور ہر کوئی بے پناہ طاقت، دولت اور اقتدار کے لیے ایک گدی پر قابض ہونا چاہتا ہے۔ اس کے لیے کھینچا تانی کو ان تینوں سیزنز میں دکھایا گیا ہے۔ پہلے اور دوسرے سیزن میں کہانی کی رفتار تیز تھی، جو تیسرے سیزن تک آتے آتے مدھم پڑھ گئی۔ کلائمکس بھی کم ہوتے چلے گئے، نتیجتا کہانی سست روی کا شکار ہوئی اور غیر دل چسپ ہوتی چلی گئی۔ ہر چند کہ اختتامی دو اقساط میں کہانی نے پھر رفتار پکڑی اور اختتام تک آتے آتے پھر تجسس قائم کر دیا۔ مگر مجموعی طور پر تیسرے سیزن کی کہانی کمزور رہی بلکہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ سست روی کی نذر ہوگئی۔

    اداکاری میں علی فضل تیسرے سیزن میں بھی چھائے رہے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ تیسرا سیزن علی فضل اور انجم شرما کا تھا۔ پنکج ترپاٹھی کا کردار مختصر رہا، البتہ سویٹا ترپاٹھی نے اپنی اداکاری سے خوب متاثر کیا۔ وجے ورما جیسے اداکار کو اس ویب سیریز میں ضائع کیا گیا۔ میگھنا ملک، راجیش تلنگ، شیر نواز جیجینا نے ذیلی کرداروں میں اپنے کام سے بخوبی انصاف کیا۔ طائرانہ جائزہ لیا جائے تو اداکاری کا تناسب درست رہا۔ البتہ کہانی کمزور ہونے کی وجہ سے ناظرین کو کہیں کہیں اکتاہٹ محسوس ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر گڈو بھیا کی یک دم گرفتاری کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا، انہوں نے ہنستے کھیلتے گرفتاری دے دی۔ پھر اچانک جیل سے باہر بھی نکل آئے۔ ایسے بے ربط مناظر ویب سیریز میں کئی جگہ دیکھنے کو ملیں گے، جن کا کہانی اور اداکاری دونوں پر منفی اثر نظر آتا ہے۔

    سوشل میڈیا پر تبصرے

    فلموں اور ویب سیریز کے حوالے سے متعلقہ ویب سائٹوں پر ’’مرزا پور۔ سیزن تھری‘‘ کی پسندیدگی کا تناسب بڑھ رہا ہے، مگر یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ تیسرے سیزن سے جو توقع تھی، وہ اس پر پورا نہیں اترا۔ سوشل میڈیا پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو سیزن کی مقبولیت کی ایک وجہ فحش زبان اور تھوک کے حساب سے گالیوں کا استعمال بھی تھا، جو اس سے پہلے کبھی ویب سیریز میں نہیں ہوا تھا۔ اس پر مزید ستم قتل و غارت کے مناظر کی بھرمار تھی۔ تیسرے سیزن میں ان دونوں کا تناسب کم کیا گیا، جو کہ اچھی بات ہے، مگر کیا یہی اچھی بات ناظرین کو پسند نہیں آئی اور وہ اس تیسرے سیزن کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ دو سیزنز میں تیز مسالے والی بریانی کھلانے کے بعد اگر تیسرے سیزن کے نام پر سادہ پلاؤ کھلایا جائے تو شاید یہی ردعمل سامنے آئے گا۔

    آخری بات

    اس ویب سیریز کے تیسرے سیزن کے اختتام سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب چوتھا سیزن بھی آئے گا۔ کہانی اور اداکاری کے لحاظ سے یہ ویب سیریز اب تک پھر بھی ٹھیک ہے۔ اگر آپ کو ایکشن، تھرلر سینما دیکھنا ہے تو یہ آپ کے لیے ہی ہے۔ مرزا پور ویب سیریز کے پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ زبردستی اس کہانی کو نہ گھسیٹیں بلکہ چوتھے سیزن پر اس کا زبردست اور یادگار انجام دکھائیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو انڈین اسٹریمنگ پورٹل کی تاریخ کی یہ کامیاب ترین ویب سیریز ناکامی کا منہ دیکھے گی، جس کی جھلک تیسرے سیزن میں کسی حد تک نظر آگئی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ مار دھاڑ سے بھرپور، دنگا فساد پر مبنی کہانی کو جس طرح اصل لوکیشنز پر فلمایا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔

  • شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    شوگن: سترہویں‌ صدی کے جاپان پر مقبولیت کے نئے ریکارڈ بنانے والی ویب سیریز

    دنیا بھر میں مقبولیت کا نیا اور منفرد ریکارڈ قائم کرنے والی یہ ویب سیریز شوگن ہمیں سترہویں صدی کے جاپان میں لے جاتی ہے جہاں حکمرانی اور اثر و رسوخ کے لیے طاقت کا استعمال دکھایا گیا ہے اور کرداروں کے ذریعے کہانی آگے بڑھتے ہوئے آپ کی توجہ اور دل چسپی سمیٹ لیتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس وقت یہ ویب سیریز دیکھی جارہی ہے اور اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اسی کہانی پر ایک مختصر ڈراما سیریز بنی تھی، جس کو پاکستان ٹیلی وژن پر بھی قسط وار دکھایا گیا تھا۔ سترہویں صدی کے جاپان پر مبنی امریکی ویب سیریز کا اردو میں یہ واحد مفصل تجزیہ اور باریک بینی سے کیا گیا تبصرہ پیشِ خدمت ہے۔

    شوگن کیا ہے؟

    جاپانی تاریخ میں شوگن کی اصطلاح، فوجی سربراہ کے لیے بطور لقب استعمال ہوتی تھی اور یہی ملک کا حقیقی حکمران ہوا کرتا تھا۔ یہ لقب سب سے پہلے ہئین دور میں استعمال ہوا، جو کسی کامیاب جنگی مہم کے بعد متعلقہ جنرل کو دیا گیا۔ جب 1185ء میں میناموتویوری تومو نے جاپان پر فوجی کنٹرول حاصل کیا، تو اقتدار سنبھالنے کے سات سال بعد انہوں نے شوگن کا لقب اختیار کیا۔ جاپان کی قدیم تاریخ میں شوگن سے مراد ملک کا سربراہ اور دھرتی کا سب سے طاقتور فرد ہوا کرتا تھا۔ جاپان میں 1867ء کو سیاسی انقلاب برپا ہونے اور جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے تک، یہ لقب اور اس سے جڑے افراد، جاپانی تاریخ کے اصل حکمران اور فوجی طاقت کا محور ہوئے۔ مذکورہ ویب سیریز کی کہانی میں ایسی ہی چند طاقت ور شخصیات کی اس اہم ترین عہدے کو پانے اور قائم رکھنے کے لیے لڑائیاں اور تصادم دکھایا گیا ہے۔

    پرانی ڈراما سیریز شوگن اور نئی ویب سیریز شوگن کا موازنہ

    یہ ذہن نشین رہے کہ پروڈکشن کے شعبے میں ڈراما سیریز کے لیے اب نئی اصطلاح، ویب سیریز ہے۔ اس میں فرق اتنا ہے کہ پہلے کسی بھی کہانی کو اقساط کی صورت میں ٹیلی وژن کے لیے تیار کیا جاتا تھا اور اب اس کو کسی اسٹریمنگ پورٹل کے لیے تخلیق کیا جاتا ہے۔ 80 کی دہائی کی شوگن اور عہدِ حاضر میں بنائی گئی شوگن میں بڑا فرق کہانی کی طوالت کا ہے۔

    پرانی شوگن محدود اقساط پر مبنی ڈراما سیریز تھی، جب کہ موجودہ شوگن کے تین سیزن تیار کیے جائیں گے۔ ابھی پہلا سیزن بعنوان شوگن ہولو اسٹریمنگ پورٹل پر ریلیز کیا گیا ہے۔ اس مساوی کہانی کے دو مختلف پروڈکشن میں 64 ایسے نکات ہیں، جن کو تبدیل کیا گیا ہے، اس فرق کو سمجھانے کے لیے ہم نیچے ایک لنک دے رہے ہیں جس پر کلک کر کے آپ یہ فرق آسانی سے سمجھ سکیں گے۔

    پروڈکشن اور دیگر اہم تفصیلات

    امریکی پروڈکشن ادارے ایف ایکس نے پرانی کہانی پر ہی دوبارہ شوگن بنانے کا اعلان کیا ہے، لیکن اس ویب سیریز کی مکمل پروڈکشن چار بڑی کمپنیوں کے اشتراک سے ممکن ہوئی ہے۔ ان چار کمپنیوں کے نام بالترتیب ڈی این اے فلمز، ایف ایکس پروڈکشنز، گیٹ تھرٹی فور پروڈکشنز اور مچل ڈے لوسا ہیں۔ اس کے لیے دس سے زائد پروڈیوسروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں، جن میں مذکورہ ویب سیریز میں مرکزی کردار نبھانے والے جاپانی فلمی ستارے ہیروکی سنادا بھی شامل ہیں۔ اس ویب سیریز کی پروڈکشن ٹیم کا بڑا حصہ امریکی اور جاپانی فلم سازوں کے بعد اسکاٹش اور آئرش فلم سازوں پر مشتمل ہے، جو دل چسپ بات ہے۔ اس ویب سیریز کو جاپان اور کینیڈا میں پونے دو سال کے عرصہ میں فلمایا گیا ہے۔ شوگن، امریکی پروڈکشن ہاؤس ایف ایکس کی تاریخ کی سب سے مہنگی پروڈکشن ہے، اور اسے امریکی ٹیلی وژن ایف ایکس کے ساتھ ساتھ اسٹریمنگ پورٹلز اسٹار پلس، ڈزنی پلس اور ہولو پر ریلیز کیا گیا ہے۔

    جاپان سمیت پوری دنیا میں اس ویب سیریز کو بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔ اس ویب سیریز کے پروڈیوسرز میں سے ایک جاپانی پروڈیوسر اور عالمی شہرت یافتہ اداکار ہیروکی سنادا کا کہنا ہے، "ہالی ووڈ میں بیس سال کے بعد، میں ایک پروڈیوسر ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ میں کچھ بھی کہہ سکتا ہوں، کسی بھی وقت۔ میرے پاس پہلی بار ایک ٹیم تھی، لیکن اس سے بھی بڑھ کر، مجھے خوشی تھی۔” انہوں نے شو کو جاپانی تاریخ کے تناظر میں مستند حالات و واقعات سے مربوط رکھنے پر توجہ دی۔ "اگر کہانی میں کچھ غلط ہے تو لوگ ڈرامے پر توجہ نہیں دے سکتے۔ وہ اس قسم کا شو نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہمیں مستند کام کرنے کی ضرورت ہے۔” ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ کچھ ڈرے ہوئے تھے کہ نجانے جاپانی ناظرین اسے کس طرح سے دیکھیں گے، لیکن ان کو یہ توقع نہیں تھی کہ جاپانی ناظرین اسے اتنا پسند کریں گے۔ وہ جاپان میں اس مقبولیت پر بے حد مسرور ہیں۔ اس ویب سیریز کے بنیادی شعبوں میں آرٹسٹوں اور ہنرمندوں نے متاثرکن کام کیا ہے، خاص طورپر موسیقی، ملبوسات، صوتی و بصری تاثرات، تدوین اور چند دیگر شعبہ جات اس میں‌ شامل ہیں۔

    مقبولیت کے نئے پیمانے

    فلموں کی معروف ویب سائٹ آئی ایم ڈی بی پر اس ویب سیریز کی درجہ بندی دس میں سے آٹھ اعشاریہ سات ہے۔ فلمی ناقدین کی ویب سائٹ روٹین ٹماٹوز پر اسے 100 میں سے 99 فیصد کے غیرمعمولی تناسب سے پسند کیا گیا ہے اور بہت کم فلموں کے لیے یہ شرح تناسب دیکھنے میں آتا ہے۔ فلم افینٹی جو امریکی و برطانوی فلمی ویب سائٹ ہے، اس نے درجہ بندی میں اس ویب سیریز کو 10 میں سے 7.6 فیصد پر رکھا ہوا ہے۔ گوگل کے صارفین کی بات کریں تو وہاں ویب سیریز کی شرحِ پسندیدگی کا تناسب سو میں سے پچانوے فیصد ہے اور ویب سیریز کی یہ ستائش اور پذیرائی بھی انتہائی غیر معمولی ہے اور تادمِ تحریر یہ ویب سیریز مقبولیت اور پسندیدگی کی بلندیوں کی طرف ہی بڑھ رہی ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مقبولیت کی نئی تاریخ رقم ہوگی۔ ویب سیریز کے ناظرین کی پسندیدگی تو ایک طرف، دنیا بھر کے فلمی ناقدین بھی اس ویب سیریز کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔

    ڈائریکشن اور اسکرپٹ

    اس ویب سیریز کے ڈائریکٹر امریکی فلم ساز ٹم وین پیٹن ہیں، جن کے کریڈٹ پر گیمز آف تھرونز اور سیکس اینڈ سٹی جیسے تخلیقی شاہکار ہیں۔ اس کے علاوہ وہ دی وائر اور بلیک مرر جیسی ویب سیریز کے بھی ہدایت کار رہ چکے ہیں۔ ریچل کوندو اور جسٹن مارکس کے تخلیق کردہ اس شاہکار کو اپنی ہدایت کاری سے انہوں نے گویا چار چاند لگا دیے ہیں۔

    ویب سیریز کی کہانی کا مرکزی خیال 1975ء میں شائع ہونے والے ناول شوگن سے لیا گیا، جس کے مصنف جیمز کلیویل ہیں۔ یہ دوسری عالمی جنگ میں، برطانیہ کی طرف سے سنگاپور میں جاپانیوں سے لڑے اور وہاں جنگی قیدی بھی بنے۔ شاید یہی ان کی زندگی کا موقع تھا، جس کی وجہ سے انہیں جاپانی تاریخ سے دل چسپی پیدا ہوئی اور انہوں نے جاپان کے تناظر میں چھ ناولوں کی ایک سیریز لکھی، جن میں سے ایک ناول شوگن کے نام سے شائع ہوا۔ اس ناول پر ویب سیریز کا اسکرپٹ لکھنے والوں میں آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے اسکرپٹ رائٹر رونن بینٹ کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔

    مرکزی خیال و کہانی

    اس ویب سیریز کی کہانی کا آغاز سنہ 1600ء کے جاپان سے ہوتا ہے اور یہ اس کا پہلا سیزن ہے۔ فلم ساز ادارے نے اعلان کیا ہے کہ اس کے مزید دو سیزن بنیں گے، تو میرا یہ اندازہ ہے کہ اس ویب سیریز کی کہانی کو جاپان میں جاگیردارانہ نظام کے خاتمے تک فلمایا جائے گا۔

    پہلے سیزن میں اُس دور کی ابتدا کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح اُس وقت کے جاپان کے مرکزی رہنما کی رحلت کے بعد سیاسی طاقت پانچ ایسے نگرانوں‌ میں مساوی تقسیم ہو جاتی ہے، جن کو ریجنٹس کہا گیا ہے، کیونکہ وہ پانچوں اس مرکزی حکمران کے بچے کی حفاظت پر مامور ہیں، جو اوساکا کے شاہی قلعہ میں پرورش پا رہا ہے۔ اس کے بالغ ہونے تک یہ طاقت ان پانچ نگرانوں کے پاس ہے اور وہ ایک دوسرے پر غالب آنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔

    اس منظر نامے میں ایک انگریز ملاح بھی اس وقت شامل ہو جاتا ہے، جب اس کا ولندیزی جہاز، ایک سمندری طوفان کے نتیجے میں بھٹک کر جاپان کے ساحل کی طرف آ نکلتا ہے۔ یہ کردار انگریز جہاز راں ولیم ایڈمز سے منعکس ہے۔ دکھایا گیا ہے کہ اس برطانوی جہاز راں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن وہ جاپان کے سیاسی منظر نامے کی اہم ترین شخصیت اور پانچ نگراں حکمرانوں کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اپنی بعض خوبیوں اور بالخصوص عسکری مہارتوں کی وجہ سے رفتہ رفتہ اس حکمران کی قربت حاصل کرنے میں کام یاب ہوجاتا ہے یہ وہ نگران حکمران ہے جس کا تعلق ایدو (ٹوکیو کا قدیم نام) سے ہے، اور دوسرے نگراں حکمران اس کے بڑے سخت مخالف ہیں، اور یہ اُن سے نبرد آزما ہے۔ ایدو سے تعلق رکھنے والے اس حکمران کی سپاہ میں بھی جہاز راں کی عسکری مہارتوں کا چرچا ہوتا ہے اور وہ ان کی نظر میں بھی مقام حآصل کرلیتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے کہ اسے ایک اعلٰی عسکری عہدہ سونپ دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ ان کے ساتھ مل کر جنگی مہمات کا حصہ بنتا ہے۔ اس طرح ایک غیر جاپانی کو سمورائی کا درجہ مل جاتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ایدو سے تعلق رکھنے والا یہ پہلا شوگن ہے، جس کی زندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پہلے سیزن کی کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔


    اس طرح کہانی میں آگے چل کر یہ پانچوں نگراں و مساوی حکمراں، انگریز جہاز راں، پرتگالی تاجر، کیتھولک چرچ کے نمائندے، سیاسی اشرافیہ سے وابستہ دیگر ذیلی کردار شامل ہوتے ہیں اور خاص طور پر ایک جاپانی خاتون کا کردار جو لیڈی تودا مریکو کہلاتی ہے، بھی اس کہانی میں نمایاں ہے اور یہ کردار ناظرین کو اپنے ساتھ اس طرح جوڑے رکھتا ہے کہ دس اقساط کب تمام ہوئیں، معلوم ہی نہیں ہوتا۔ ان حکمرانوں کی کہانی میں جو روانی اور ربط ہے، اس پر اگر اس ویب سیریز کے لکھاری قابل ستائش ہیں، تو اس سے کہیں زیادہ وہ ناول نگار قابلِ تعریف ہے، جس نے جاپان کی تاریخ میں اتر کر، کہانی کو اس کی بنیاد سے اٹھایا۔ کہنے کو تو یہ خیالی کہانی (فکشن) ہے، مگر اس کے بہت سارے کردار اور واقعات جاپانی تاریخ سے لیے گئے ہیں اور وہ مستند اور حقیقی ہیں۔

    اداکاری

    اس ویب سیریز میں مرکزی کرداروں کی بات کی جائے تو وہ تعداد میں درجن بھر ہیں۔ ان میں سے جن فن کاروں نے بے مثال کام کیا، ان میں ہیروکی سنادا (لارڈ یوشی توراناگاوا)، کوسمو جارویس (جان بلیک تھرون)، اننا ساوائی (لیڈی تودامریکو)، تادانوبو (کاشی گی یابوشیگے) تاکے ہیرو ہیرا (اشیدوکازوناری) اور دیگر شامل ہیں۔ ذیلی کرداروں میں دو درجن کردار ایسے ہیں، جنہوں نے اپنی اداکاری سے اس تاریخی ویب سیریز میں انفرادیت کے رنگ بھر دیے ہیں۔برطانوی اداکار کوسمو جارویس اور جاپانی اداکارہ اننا ساوائی کو اس کہانی کا ہیرو ہیروئن مان لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ان دونوں کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دل چسپی برقرار رہتی ہے جب کہ ہیروکی سنادا اور تادانوبو نے بھی ناظرین کو اپنی شان دار اداکاری کی بدولت جکڑے رکھا۔ دو مزید جاپانی اداکاراؤں موئیکا ہوشی اور یوکاکووری نے بھی متاثر کن اداکاری کی ہے۔ ان کو داد نہ دینا بڑی ناانصافی کی بات ہو گی۔ مجموعی طور پر اس ویب سیریز میں سیکڑوں فن کاروں نے حصہ لیا، جن میں اکثریت جاپانی اداکاروں کی ہے۔ سب نے بلاشبہ اپنے کرداروں سے انصاف کیا، یہی وجہ ہے کہ ویب سیریز نے ناظرین کے دل میں گھر کر لیا۔

    حرف آخر

    قارئین، اگر آپ عالمی سینما اور خاص طور پر کلاسیکی سینما کے پسند کرنے والے ہیں اور اس پر مستزاد آپ کو جاپان کی کلاسیکی ثقافت میں بھی دل چسپی ہے تو پھر یہ ویب سیریز آپ کے لیے ہی ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے آپ جاپان کی قدیم معاشرت، سیاست، ثقافت اور تہذیب کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ سکیں گے۔ خوبصورت جاپان کے ساتھ اس ویب سیریز میں آپ جاپانی عورتوں کا حسن و جمال اور خوب صورتی بھی دیکھیں گے۔ ویب سیریز کے اس تعارف اور تفصیلی تبصرے کو میری طرف سے اس عید پر ایک تحفہ سمجھیے۔ اسے ضرور دیکھیے، آپ کی عید کی چھٹیوں کا لطف دوبالا ہو جائے گا۔