Tag: ویٹ لفٹنگ

  • پاکستان میں ویٹ لفٹنگ کا عالمی میلہ، اہم خبر

    پاکستان میں ویٹ لفٹنگ کا عالمی میلہ، اہم خبر

    کھیلوں کے شائقین کے لیے اچھی خبر ہے کہ پاکستان میں آئندہ سال ویٹ لفٹنگ کا عالمی میلہ سجے گا۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ اینڈ ایشین ماسٹرز ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ 6 فروری سے اسلام آباد میں شروع ہوگی، ورلڈ اینڈ ایشین ماسٹرز ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشنز کا 5 رکنی وفد اس سلسلے میں اگلے ماہ پاکستان کا دورہ کرے گا۔

    ماسٹرز ویٹ لفٹنگ کی عالمی تنظیم کی سربراہ ڈینس آفرمین کی قیادت وفد 9 ستمبر کو اسلام آباد پہنچے گا، وفد انتظامات کا جائزہ لے گا اور اہم ملاقاتیں کرے گا، پانچ رکنی وفد میں ایشین ویٹ لفٹنگ کے صدر محمد کبیری اور انٹرنیشنل افیئرز کی سربراہ مریم سبزالی بھی شامل ہیں۔

    پاکستان نے ٹرائی سیریز کے پہلے میچ میں افغانستان کو شکست دے دی

    ویڈیو بیان میں مریم سبزالی کا کہنا تھا کہ عالمی مقابلوں سے پاکستان میں ویٹ لفٹنگ کے کھیل کو فروغ ملے گا، پاکستان ماسٹرز ویٹ لفٹنگ ایسوسی ایشن کے صدر ارشد خان نے بتایا کہ میگا ایونٹ میں 50 سے زائد ممالک نے شرکت کی تصدیق کی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ پاکستان کو اس چیمپین شپ کی میزبانی ملی ہے، اور اب اہم سب نے مل کر اسے ایک تاریخی ایونٹ بنانا ہے۔

  • پاک فوج کی ویٹ لفٹنگ ٹیم نے کامیابی کا نیا سنگ میل عبور کر لیا

    پاک فوج کی ویٹ لفٹنگ ٹیم نے کامیابی کا نیا سنگ میل عبور کر لیا

    پاک فوج کی ویٹ لفٹنگ ٹیم نے قائد اعظم نیشنل ویٹ لفٹنگ چیمپین شپ 2024 لاہور میں کامیابی کا نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاک فوج کی ویٹ لفٹنگ ٹیم نے قائد اعظم نیشنل ویٹ لفٹنگ چیمپین شپ 2024 لاہور میں کامیابی کا نیا سنگ میل عبور کر لیا ہے، بہترین کارکردگی پر پاک فوج کے ویٹ لفٹرز پہلی پوزیشن کے حقدار قرار پائے۔

    قائد اعظم نیشنل ویٹ لفٹنگ چیمپین شپ لاہور میں منعقد ہوئی، پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کے زیر انتظام ویٹ لفٹنگ چیمپین شپ میں آرمی ویٹ لفٹنگ ٹیم نے 4 گولڈ میڈلز، 4 سلور میڈلز اور 2 براؤنز میڈلز جیتے۔

    آرمی ویٹ لفٹنگ ٹیم پہلی پوزیشن کے حقدار ٹھہری،آرمی، واپڈا، ریلویز، پنجاب، سندھ، بلوچستان، کے پی، اسلام آباد، ایچ ای سی، اے جے کے اور پولیس کی ٹیمز نے بھی مقابلے میں حصہ لیا، تمام ٹیمز نے ویٹ لفٹنگ چیمپین شپ میں بھرپور جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا۔

  • ویٹ لفٹنگ: ضرورت سے مقابلے تک جسمانی طاقت کا مظاہرہ

    ویٹ لفٹنگ: ضرورت سے مقابلے تک جسمانی طاقت کا مظاہرہ

    جسمانی طاقت کے مظاہرے کی شکل میں ویٹ لفٹنگ کو باقاعدہ کھیل کے طور پر انیسویں صدی عیسوی میں رواج دیا گیا، لیکن وزن اٹھانا یا بھاری بھرکم اشیاء کو اپنی کسی ضرورت کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کا کام انسان دنیا میں‌ قدم رکھنے کے ساتھ ہی انجام دینے لگا تھا۔ انسان نے اپنی جسمانی طاقت کی آزمائش ابتدائی طور پر شاید بڑے چھوٹے اور نہایت وزنی پتھّر اٹھا کر کی ہو گی یا پھر اسے زمیں بوس ہو جانے والے کسی درخت کو کھینچنے کی ضرورت پڑی ہو گی۔

    ماہرینِ آثارِ قدیمہ اور محققین نے بعض صدیوں پرانے شہروں اور ان کی عمارتوں کے کھنڈرات میں ایسے وزنی پتّھر اور بھاری ستون دریافت کیے ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ اسی قسم کے ایک کھیل یا طاقت کے مظاہرے کے لیے استعمال ہوئے تھے۔ اس کی ایک مثال میونخ میں واقع ایک قدیم عمارت (Apothekerof) کے احاطے میں موجود 364 پونڈ (165 کلو گرام) وزنی پتھر ہے جس پر بویریاکے ایک ڈیوک کی تختی لگی ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 1490ء میں کرسٹوفر نامی ڈیوک نے اس پتھر کو اٹھا کر اپنی جسمانی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ اسکاٹ لینڈ کے قدیم قلعوں میں بھی ’فِر‘ کے ایسے تنے موجود جن پر کچھ نام درج ہیں اور خیال ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں‌ جنہون نے انہیں اٹھایا تھا۔

    وزنی پتھروں کو اٹھانے یا بھاری درختوں کو کھینچنے کے مقابلے دنیا کی قدیم تہذیبوں میں بھی رائج رہے ہیں۔ یہ مضبوط جسم کے مالک افراد کا وہ کھیل تھا جس سے فرصت کے اوقات میں لوگ لطف اندوز ہوتے تھے۔ اس میں ایک مختلف مثال قدیم یونان کے مائیلو نامی شخص کی ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کندھوں پر ایک وزنی سانڈ کو اٹھا کر کئی سو گز دور لے گیا تھا۔ یونان میں بھی بعض ایسے وزنی پتھر دریافت ہوئے ہیں جن پر انہیں اٹھانے والوں کے نام کندہ ہیں۔

    جدید ویٹ لفٹنگ میں انیسویں صدی کے جرمنی کے بوجین سینڈو اور آرتھرسیکسن، روس کے ہیکن شمڈ اور فرانس کے لوئی اپولان بہت مشہور ہیں۔ دنیا کا پہلا عالمی ویٹ لفٹنگ کا مقابلہ لندن میں 1891ء میں منعقد ہوا تھا جس میں انگلستان کے لارنس لیوی کام یاب ہوئے تھے۔ ویٹ لفٹنگ کو شروع ہی سے جدید اولمپک مقابلوں‌ میں شامل کر لیا گیا تھا۔ لہٰذا 1896ء میں پہلی بار اولمپک مقابلے منعقد ہوئے تو اس میں دو ہاتھوں اور ایک ہاتھ سے وزن اٹھانے (ویٹ لفٹنگ) کا مقابلہ شامل تھا۔ 1930ء میں عالمی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کا قیام عمل میں آیا تو اس فن کو جدید خطوط پر استوار کیا گیا۔

    1930ء اور 1935ء کے درمیان فرانس اور جرمنی کے کھلاڑیوں کو ویٹ لفٹنگ میں‌ برتری حاصل ہوتی رہی اور بعد میں مصر کے ویٹ لفٹروں نے نام پیدا کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے 1953ء تک اس میدان میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ویٹ لفٹر اور 1953ء کے بعد سوویت روس کے کھلاڑی دنیا پر چھائے رہے۔

    اولمپک قواعد کے مطابق ابتداء میں وزن اٹھانے کے صرف دو طریقے ( ایک ہاتھ اور دو ہاتھ والے) رائج تھے لیکن 1930ء کے بعد تبدیلیاں‌ کی گئیں اور موجودہ دور میں ویٹ لفٹنگ کے ان طریقوں میں سے ایک ‘اسنیچ’ اور دوسرا ’کلین اینڈ جرک‘ کہلاتا ہے۔

    تقسیمِ ہند سے قبل ہندوستان میں 1936ء میں لاہور کے ہیوی ویٹ کھلاڑی محمد تقی بٹ نے کل ہند ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ (منعقدہ کلکتہ) میں دوسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ 1939ء میں محمد تقی بٹ نے ہندوستان کی جانب سے چار نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ 1940ء کے کل ہند اولمپک مقابلوں (منعقدہ بمبئی) میں ہیوی ویٹ میں محمد تقی بٹ، لائٹ ویٹ میں شفیق احمد چیمپئن قرار دیے گئے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد 1953ء میں پاکستان ویٹ لفٹنگ فیڈریشن قائم ہوئی جس کے بعد پاکستانی ویٹ لفٹر متعدد مرتبہ اولمپک، ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور کھیلوں کے دیگر مقابلوں میں شرکت کرچکے ہیں۔

  • بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ مسلز بہتر بنانا بھی آسان

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں میں 30 سال کی عمر کے بعد مسلز کے حجم میں 3 سے 5 فیصد تک کمی آسکتی ہے جبکہ مسلز بنانے میں مددگار ہارمون ٹیسٹوسیٹرون کی سطح میں بھی 40 سال کی عمر کے بعد بتدریج کمی آتی ہے۔

    مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ آنے والی اس قدرتی تنزلی کی رفتار کو سست یا ریورس کیا جاسکتا ہے، اس کا حل ہے وزن اٹھانا یا ویٹ لفٹنگ، اکثر ایسا کرنا مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

    ہارورڈ یونیورسٹی کے فزیکل تھراپسٹ شان پیڈیسنی نے بتایا کہ ویٹ ٹریننگ اپنے مسلز کے حجم کو برقرار رکھنے بلکہ بڑھانے کا بہترین طریقہ ہے، ورنہ دوسری صورت میں آپ عمر بڑھنے سے مسلز سے محروم ہوسکتے ہیں۔

    تاہم اسے کس طرح سے اپنایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے مندرجہ ذیل اقدامات کریں۔

    ٹرینر کی خدمات

    ایک اچھا ٹرینر آپ کے لیے ایک پروگرام تشکیل دے سکتا ہے اور آپ کو درست تکنیک بھی سکھا سکتا ہے۔

    فری ویٹ مددگار

    فری ویٹ جیسے ڈمبلز، کیٹل بیلز اور باربیلز سے ٹریننگ مسلز بنانے کے لیے اکثر مشینوں سے زیادہ بہتر ثابت ہوتے ہیں، اگر جسمانی توازن برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہو تو ایکسرسائز مشینیں بہتر ہیں۔

    ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ

    ویسے تو اہم مسلز کے حجم کو کم ہونے سے روکنے کے لیے پورے جسم کی ورزش کی ضرورت ہوتی ہے مگر درمیانی عمر میں مردوں کو ٹانگوں کے مسلز پر خصوصی توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق ٹانگوں کے مسلز روزمرہ کی متعدد سرگرمیوں جیسے اٹھنے بیٹھنے اور سیڑھیاں چڑھنے کا حصہ بنتے ہیں تو ان کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

    اس حوالے سے اٹھک بیٹھک، ڈیڈ لفٹ وغیرہ ٹانگوں کے مسلز بنانے کے لیے بہترین ورزشیں ہیں۔

    ٹیمپو برقرار رکھنا

    لفٹنگ کو 7 سیکنڈ ٹیمپو میں مکمل کرنا چاہیئے، یعنی 3 سیکنڈ میں ویٹ لفٹ کرنا، ایک سیکنڈ رکنا اور 3 سیکنڈ نیچے کرنا۔

    اگر آپ سے کم از کم 8 بار وزن اوپر نیچے نہیں کیا جارہا تو پھر یہ عمل اپنی سہولت کے مطابق آرام سے مسلز کو تھکائے بغیر 8 بار مکمل کریں۔ مسلز اسی صورت میں مضبوط ہوتے ہیں جب آپ ان میں مزاحمت کا اضافہ کریں۔

    2 دن بھی کافی

    ہر ہفتے کم از کم 2 بار ویٹ ٹریننگ کرنا مثالی سمجھا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق ہفتے میں 2 دن فل باڈی ٹریننگ سے مسلز کی مضبوطی میں نمایاں بہتری آسکتی ہے اور ورزش کو باقاعدہ بنانے سے 4 سے 6 ہفتوں میں نتائج کو محسوس کرسکتے ہیں۔

    آرام دیں

    مسلز کو ریکوری کے لیے ورزش کے مزید سیشنز میں کم از کم 48 گھنٹے کا وقفہ ضرور دیں۔

    یاد رکھیں

    ماہرین کے مطابق درمیانی عمر کے مردوں کو زیادہ مسلز کے حصول کے لیے بھاری وزن کی ورزشوں کو کم بار کرنا چاہیئے، مثال کے طور پر ہر ورزش کے 3 سیٹس کو 8 دفعہ دہرانا بہترین ہے، مگر آپ اپنی ضرورت کے مطابق اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں۔

  • 4 بہنوں کے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار سونے چاندی کے تمغے

    4 بہنوں کے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار سونے چاندی کے تمغے

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ایک دو نہیں بلکہ 4 بہنوں نے ویٹ لفٹنگ میں بے شمار کامیابیاں حاصل کر کے نہ صرف اپنے والدین بلکہ ملک کا نام بھی روشن کردیا۔

    لاہور کی ٹوئنکل سہیل، ورونیکا سہیل، مریم سہیل اور سیبل سہیل کئی سال سے ویٹ لفٹنگ مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں اور اب تک بے شمار سونے، چاندی اور کانسی کے تمغے جیت چکی ہیں۔

    چاروں بہنوں کو پرائڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا جا چکا ہے۔

    یہ چاروں اسپورٹس میں اپنا شوق پورا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چاروں اب تک کئی بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مارننگ شو باخبر سویرا میں شرکت کے دوران انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور انہی کی وجہ سے انہیں کھیلوں کا شوق پیدا ہوا۔

    ٹوئنکل نے بتایا کہ ابتدا میں خاندان والوں نے ان کے والد کی بے حد مخالفت کی، ان کے دادا بھی اس کے سخت خلاف تھے، لیکن جب ان کی بہن نے پہلا گولڈ میڈ جیتا تو سب سے پہلی مبارکباد دادا نے ہی دی۔

    چاروں بہنوں کا کہنا ہے کہ حکومت ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ اپنے اخراجات پر بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں، اگر حکومت انہیں سپورٹ کرے تو وہ مزید مقابلوں میں حصہ لے کر ملک کا نام روشن کریں گی۔

  • پاکستان کی نمائندگی کرنے والی دنیا کی پہلی باحجاب خاتون ویٹ لفٹر

    پاکستان کی نمائندگی کرنے والی دنیا کی پہلی باحجاب خاتون ویٹ لفٹر

    پاکستانی نژاد امریکی خاتون کلثوم عبداللہ نے پہلی پاکستانی خاتون ویٹ لفٹر ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا، یہی نہیں وہ ویٹ لفٹنگ مہں حصہ لینے والی پہلی باحجاب خاتون ہیں۔

    کلثوم عبداللہ کے والدین جو خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں، اپنی بیٹی کی پیدائش سے قبل امریکا منتقل ہوگئے تھے۔ کلثوم عبداللہ ان والدین کی ہونہار اولادوں میں سے ایک ہیں۔ شعبے کے لحاظ سے وہ کمپیوٹر انجینئر ہیں اور جارجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پی ایچ ڈی کرچکی ہیں۔

    سنہ 2010 سے کلثوم ویٹ لفٹنگ کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں، وہ دنیا کی پہلی باحجاب خاتون لفٹر بھی ہیں تاہم اب حجاب کی وجہ سے ان پر عالمی مقابلوں میں شرکت کرنے پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

    انہوں نے سنہ 2011 میں امریکی قومی مقابلوں میں حصہ لیا تھا، اسی سال انہوں نے عالمی سطح پر ورلڈ ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ 2011 میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔

    سنہ 2012 میں انہوں نے جنوبی کوریا میں ہونے والے ایشیئن ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں بھی پاکستان کی نمائندگی کی۔ کلثوم نے ویٹ لفٹنگ کے امریکن اوپن مقابلوں کے لیے بھی کوالیفائی کیا تاہم ویٹ لفٹنگ کمیٹی نے ان کے حجاب کی وجہ سے ان پر پابندی عائد کردی۔

    کلثوم کا کہنا ہے کہ دوران تعلیم بہت کم عمری میں ہی انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ ہر شعبے میں مردوں کی اجارہ داری قائم ہے تاہم اپنے اہلخانہ کی بہترین معاونت کے باعث ہی وہ اپنے پسندیدہ شعبے میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئیں۔

  • حکومت خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ کرے: ویٹ لفٹر بہنوں کی درخواست

    حکومت خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو سپورٹ کرے: ویٹ لفٹر بہنوں کی درخواست

    لاہور: پاکستان کے دل لاہور سے تعلق رکھنے والی چار ویٹ لفٹر بہنوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ پاکستان میں خواتین کی پاور لفٹنگ کھیل کو زیادہ سے زیادہ سپورٹ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک ہی گھر کی چار نوجوان لڑکیاں ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کا فخر بن گئیں، ساؤتھ ایشین اور کامن ویلتھ گیمز میں شرکت کے لیے تیاریاں بھی جاری ہیں۔

    [bs-quote quote=”ساؤتھ ایشین گیمز کے ساتھ کامن ویلتھ گیمز کے لیے 47 کیٹیگری میں تیاریاں کر رہی ہوں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″ author_name=”ٹوئنکل سہیل”][/bs-quote]

    اے آر وائی نیوز نے ویٹ لفٹر بہنوں پر خصوصی فیچر کیا، کئی کئی کلوگرام وزن اٹھانا ان چاروں بہنوں کے لیے معمول کی بات ہے تاہم ویٹ لفٹنگ جیسے مشکل کھیل میں انھیں اپنی پہچان بنانا آسان نہیں تھا۔

    ٹوئنکل، ویرونیکا، مریم اور سیبل ایشین چیمپئن شپ سمیت بین الاقوامی سطح پر کئی مقابلے جیت چکی ہیں، ایک ہی گھر سے تعلق رکھنے والی ان چار ایتھلیٹس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں خواتین کی پاور لفٹنگ میں کتنا پوٹینشل ہے۔

    ویٹ لفٹر بہنوں کا کہنا ہے کہ ان کے دادا چچا وغیرہ ہمارے والد سے کہا کرتے تھے کہ یہ کس کام میں بیٹیوں کو لگا دیا ہے، اب جب ہم اس کھیل میں آگے آئے ہیں تو وہ بھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

    ایک بہن نے بتایا کہ اگر ہم نے اس ویٹ لفٹنگ میں باہر ٹور کرنا ہے تو اس کے لیے ہمیں تین سے چار سال پاکستان میں گیمز کھیل کر ایونٹس جیتنے پڑیں گے۔

    ویٹ لفٹر لڑکی کا کہنا تھا لوگوں کے گھر میں جاؤ تو ان کے گھروں میں ڈیکوریشن کے پیس پڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارا گھر میڈلز اور ٹرافیوں سے بھرا ہوا ہے، سمجھ نہیں آتی کہ مزید ٹرافیاں کہاں رکھیں۔


    یہ بھی پڑھیں:    ثنا میر کے لیے ایک اور اعزاز


    پُر عزم ویٹ لفٹر نے کہا کہ میں ساؤتھ ایشین گیمز کے ساتھ ساتھ کامن ویلتھ گیمز کے لیے 47 کیٹیگری میں تیاریاں کر رہی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ حکومت ہمیں زیادہ سے زیادہ سپورٹ کرے۔

    اے آر وائی نیوز کی نمائندہ ثانیہ چوہدری نے بتایا کہ پاکستان میں خواتین کی ویٹ لفٹنگ کو شروع ہوئے ابھی صرف تین سال ہوئے ہیں، پھر بھی اس کھیل میں دل چسپی رکھنے والی لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔