Tag: ویکسینیشن

  • ویکسی نیٹرز کی لوکیشن کو اب جیو ٹیگ سے مانیٹر کیا جائے گا

    ویکسی نیٹرز کی لوکیشن کو اب جیو ٹیگ سے مانیٹر کیا جائے گا

    لاہور: حکومت نے تمام ویکسی نیٹرز کی لوکیشن کو جیو ٹیگ سے مانیٹر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بچوں کو بیماریوں سے محفوظ کرنے کے جامع ویکسی نیشن کے منصوبے کی تیاری کی جا رہی ہے، اب ویکسی نیٹرز کی لوکیشن کو جیو ٹیگ سے مانیٹر کیا جائے گا۔

    اس سلسلے میں آج لاہور میں سیکریٹری پرائمری اینڈ سکینڈری ہیلتھ کئیر کی زیر صدارت اجلاس منعقد ہوا جس میں اہم فیصلے کیے گئے۔

    اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ جیو ٹیگ مانیٹرنگ سے ویکسی نیٹر کے ہر علاقے میں پہنچنے کو یقینی بنایا جائے گا، اور اپنی مرضی کے علاقوں میں مانیٹرنگ کے لیے جانے والوں کی بھی نشان دہی کی جائے گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  انسداد پولیو مہم ملک بھر میں کامیاب، 99 فیصد بچوں کو قطرے پلانے کی تصدیق

    خیال رہے کہ چند دن قبل وزارت صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انسداد پولیو مہم ملک بھر میں کام یاب ہو گیا ہے، مہم کے دوران 99 فی صد بچوں کو قطرے پلائے گئے، اس مہم میں مجموعی طور پر 2 لاکھ 65 ہزار پولیو ورکرز نے حصہ لیا تھا۔

    انسداد پولیو مہم کے خاتمے پر معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ رواں سال اب تک 111 پولیو کیس رپورٹ ہوئے جس کے بعد مہم کی اہمیت اور بڑھ گئی تھی، بلوچستان اور خیبر پختون خواہ کے اضلاع سے ابھی اعداد و شمار آنا باقی ہیں مگر ابھی تک سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق 39.1 ملین (99 فی صد) بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جا چکے ہیں۔

  • ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی میں بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق

    ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی میں بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق

    کراچی: ملک میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آ گیا، کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے 6 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے۔

    ذرایع کے مطابق کراچی کے علاقے گلشن اقبال کے 6 ماہ کے بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ہو گئی ہے جس کے بعد ملک میں پولیو کیسز میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا ہے۔

    ذرایع نے بتایا کہ پولیو سے متاثرہ بچے کے والدین ویکسین پلانے سے انکاری تھے، بچے کے نمونے 8 مئی کو قومی ادارہ صحت بھجوائے گئے تھے جہاں سے وائرس کی تصدیق ہوئی۔

    ملک میں رواں برس سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد 17 ہو گئی ہے، رواں برس کے پی سے 11، پنجاب اور سندھ سے تین تین پولیو کیس سامنے آ چکے ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  سندھ میں خطرے کی گھنٹی بج گئی، پولیو کا ایک اورکیس سامنے آگیا

    یاد رہے کہ 7 مئی کو لاڑکانہ میں تین سالہ بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوگئی تھی، تین سالہ فضا کو 10 بار پولیو سے بچاؤ کے قطرے اور بچوں کے حفاظتی ٹیکے بھی لگائے جا چکے تھے۔

    اس سے قبل 21 مارچ کو کراچی کے علاقے لیاری سنگولین کی ساڑھے 3 سال کی صفیہ میں پولیو کی تصدیق ہوئی تھی، بچی نے پولیو سے بچاؤ کی ویکسین کی تمام خوراکیں پی رکھی تھیں۔

    یہ بھی ملاحظہ کریں:  کراچی: ساڑھے 3 سال کی بچی میں پولیو وائرس کی تصدیق

    خیال رہے اس وقت دنیا میں صرف 2 ممالک پاکستان اور افغانستان ایسے ہیں جہاں اب تک پولیو کا مرض مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکا ہے۔

  • حکومت سندھ کی مفت ادویات کی کھلے عام فروخت

    حکومت سندھ کی مفت ادویات کی کھلے عام فروخت

    کراچی: اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ کی ٹیم نے کراچی میں اسٹنگ آپریشن کر کے ناقابل فروخت ویکسی نیشن خرید لیں۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ کی ہیپاٹائٹس بی، تپ دق، خسرہ اور پولیو کے امراض کی ناقابل فروخت ویکسینیشن فروخت کی جارہی ہے جس کی نشاندہی آے آر وائی کے پروگرام ’ذمہ دار کون‘ کی ٹیم نے کی جس کے بعد پولیس بھی حرکت میں آگئی۔

    یہ ادویات صوبائی حکومت کی جانب سے مختلف امراض کی ویکسینیشن مہمات کے دوران استعمال کی جاتی ہیں اور عام عوام تک ان کی فراہمی مفت کی جاتی ہے۔ تاہم ذمہ دار کون کی ٹیم کو اطلاع موصول ہوئی کہ یہ ادویات فروخت کی جارہی ہیں۔


    Detailed Report: Fake drugs to treat life… by arynews

    ان ادویات کی مالیت 8 لاکھ کے قریب تھی۔ خریدی جانے والی ادویات کی قیمت ڈھائی سو سے شروع تھی اور اس کے بعد ان کی قیمت بڑھتی گئی۔ یہ ادویات پرائیوٹ اسپتالوں میں بھی فروخت کی جاتی ہیں جہاں یہ 4 سے 5 ہزار روپے میں عوام کو لگائی جاتی ہیں۔

    ٹیم نے ان ادویات کو خریدنے کی کوشش کی جس میں انہیں کامیابی ہوئی جس کے بعد پولیس کو مطلع کیا گیا۔ پولیس اور ذمہ دار کون کی ٹیم نے مشترکہ اسٹنگ آپریشن کرتے ہوئے 3 سرکاری اہلکاروں کو تحویل میں لے لیا۔

    ذمہ دار کون کی ٹیم نے ای پی آئی، ایکسٹینڈڈ پروگرام آن امیونائزیشن اور محکمہ صحت سے بھی رابطہ کیا اور جاننے کی کوشش کی کہ یہ ادویات کس ادارے یا اسپتال کو دی گئی تھیں تاکہ اس جرم میں ملوث ذمہ داران کو گرفتار کیا جاسکے تاہم کوئی بھی اس کا تعین کرنے میں ناکام رہا۔

    واضح رہے کہ ایک منظم عمل کے تحت یہ ادویات ای پی آئی اسلام آباد سے صوبوں میں آتی ہیں جس کے بعد یہ ٹاؤن اور میونسپلز میں فراہم کی جاتی ہیں اور اس کے بعد یہ سرکاری و نجی ڈسپنسریز میں تقسیم کی جاتی ہیں۔