Tag: ویکسین

  • کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    کیا ویکسین کرونا وائرس کی نئی اقسام سے بھی تحفظ دے سکے گی؟

    واشنگٹن: کرونا وائرس کی نئی اقسام نے اب تک بننے والی ویکسینز کی اثر انگیزی پر تحفظات کھڑے کردیے تھے اب حال ہی میں ایک اور تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی نئی اقسام جو امریکی ریاست کیلی فورنیا، ڈنمارک، برطانیہ، جنوبی افریقہ، جاپان اور برازیل میں دریافت ہوئی ہیں، سائنسدانوں کی جانب سے یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ویکسینز ان کے خلاف کس حد تک مؤثر ہیں۔

    حال ہی امریکا میں اس حوالے سے ہونے والی ایک طبی تحقیق کے نتائج سامنے آئے ہیں۔

    میساچوسٹس انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی، میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل اور ہارورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ برازیل اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام فائزر اور موڈرنا کی کووڈ ویکسینز سے وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کو کم مؤثر بناسکتی ہیں۔

    تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز وائرس کی اصل قسم اور نئی اقسام پر کس حد تک مؤثر طریقے سے کام کرتی ہیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ جب ہم نے نئی اقسام پر وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی تو دریافت کیا کہ جنوبی افریقی قسم اینٹی باڈیز کے خلاف 20 سے 40 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔

    اسی طرح برازیل اور جاپان میں دریافت 2 اقسام پرانی قسم کے مقابلے میں اینٹی باڈیز کے خلاف 5 سے 7 گنا زیادہ مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اینٹی باڈیز وائرس کو سختی سے جکڑ کر انہیں خلیات میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، جس سے بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔

    مگر یہ عمل اسی وقت کام کرتا ہے جب اینٹی باڈی کی ساخت وائرس کی ساخت سے مثالی مطابقت رکھتی ہو، اگر وائرس کی اس جگہ کی ساخت مختلف ہو جہاں اینٹی باڈیز منسلک ہوتی ہیں، یعنی کرونا وائرس کا اسپائیک پروٹین، تو اینٹی باڈیز اسے مؤثر طریقے سے شناخت اور ناکارہ بنانے سے قاصر ہوجاتی ہیں۔

    اسی کے لیے ویکسین کے خلاف وائرس کی مزاحمت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    تحقیق کے مطابق جنوبی افریقہ کی 3 اقسام ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خلاف سب سے زیادہ مزاحمت کرتی ہیں اور ان سب کے اسپائیک پروٹین کے مخصوص میں ایک جیسی 3 میوٹیشنز موجود ہیں، جو ممکنہ طور پر اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت کرتی ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ نئی اقسام کی جانب سے اینٹی باڈیز کے خلاف مزاحمت قابل تشویش ضرور ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ویکسینز مؤثر نہیں۔

  • آئرلینڈ میں آکسفورڈ کی ویکسین کا استعمال کیوں روکا گیا؟

    آئرلینڈ میں آکسفورڈ کی ویکسین کا استعمال کیوں روکا گیا؟

    ڈبلن: آئر لینڈ نے آکسفورڈ اور ایسٹرا زینکا کی ویکسین کا استعمال روک دیا، یہ فیصلہ ویکسین لگائے جانے والے افراد میں خون جمنے کی شکایات کے بعد کیا گیا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق آئر لینڈ نے خون جمنے کے خدشات کے باعث احتیاط کے طور پر آکسفورڈ ایسٹرا زینکا ویکسین کا استعمال معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

    ملک کے ڈپٹی چیف میڈیکل افسر کا کہنا ہے کہ ویکسین کے حوالے سے آئر لینڈ کی مشاورتی باڈی نے سفارش کی ہے کہ ایسٹرا زینکا کا استعمال فی الفور عارضی طور پر معطل کردیا جائے، اگرچہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ویکسین خون جمنے کا سبب ہے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت اور ویکسین بنانے کی کمپنی نے تمام خدشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ویکسین اور خون میں پھٹکیاں بننے کا کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔

    ایسٹرا زینکا نے حال ہی میں ایک اور بیان میں کہا ہے کہ ویکسین لینے والے افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لینے سے ابھی تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ اس ویکسین سے خون جمنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    ایسٹرا زنیکا کے ایک ترجمان کے مطابق 10 ملین سے زیادہ حفاظتی ڈیٹا کے تجزیے میں کسی بھی عمر، جنس اور کسی مخصوص ملک میں خون کے جمنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔

    عالمی ادارے صحت کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں اب تک 260 ملین سے زیادہ کرونا وائرس کی خوراکیں دی گئی ہیں اور اس ویکسین سے کوئی موت واقع نہیں ہوئی۔

    اس سے قبل ڈنمارک، ناروے اور آئس لینڈ میں بھی خون جمنے کی شکایات سامنے آنے کے بعد احتیاط کے طور پر ایسٹرا زنیکا کی ویکسین کا استعمال روک دیا گیا تھا۔

  • پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    پوری دنیا کو ویکسین کب تک لگ سکتی ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک دنیا بھر کی آبادی کو ویکسین لگ سکتی ہے، تاہم ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک پہلے ہی اپنے لیے مختص کرچکے ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق معروف بین الاقوامی ہیلتھ کیئر ماہرین نے ایک ورچوئل سیشن سے خطاب کرتے ہوئے دنیا بھر میں ویکسی نیشن کے یکساں مواقعوں کی فراہمی پر زور دیا۔

    عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ویکسین کی 12 ارب میں سے 9 ارب ڈوزز مغربی ممالک نے مختص کرلی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر دنیا میں ویکسین کی مناسب تقسیم ہو تو سنہ 2022 تک عالمی سطح پر ویکسی نیشن کا مناسب امکان ہے۔

    سیشن کے شرکا میں سینی گال کے صدر میکی سال، ڈی پی ورلڈ کے گروپ چیئرمین اور سی ای او سلطان احمد بن سلیم، یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہینرئیٹا ہولسمین فور اور عالمی ادارہ صحت کے کرونا وائرس سے متعلق خصوصی ایلچی ڈاکٹر ڈیوڈ نابارو شامل تھے۔

    شرکا نے اس امید کا اظہار کیا کہ ہر کسی کو ویکسین تک یکساں رسائی حاصل ہونی چاہیئے جس کے بعد ہی سنہ 2022 تک سب کو ویکسی نیشن کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

    شرکا کے مطابق جب عالمی سطح پر خسرہ، پولیو، ایبولا اور سارس جیسی بیماریوں کے خلاف کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے تو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیوں نہیں کیا جاسکتا۔

  • کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا ویکسین کے بعد الرجی کی شکایت: نئی تحقیق نے حوصلہ افزا خبر سنا دی

    کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز لگوانے کے بعد بعض افراد میں الرجی کی شکایت سامنے آئی تاہم اب نئی تحقیق نے اس حوالے سے حوصلہ افزا پہلوؤں کی طرف اشارہ کیا ہے۔

    امریکا میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسینز سے الرجی کا شدید ردعمل کبھی کبھار سامنے آسکتا ہے اور جلد ختم ہوجاتا ہے۔

    میسا چوسٹس جنرل ہاسپٹل کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19 ایم آر این اے ویکسینز اپنی طرز کی اولین ویکسینز ہیں اور ان کی افادیت حیران کن ہے جبکہ تمام افراد کے لیے محفوظ ہیں۔

    تحقیق کے مطابق یہ ضروری ہے کہ ان ویکسینز سے متعلق الرجک ری ایکشن کے بارے میں مستند تفصیلات جمع کی جائیں، کیونکہ یہ ویکسین پلیٹ فارم مستقبل میں وباؤں سے متعلق ردعمل کے لیے بھی بہت اہم ثابت ہوگا۔

    اس تحقیق کے دوران 52 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا جن کو ایم آر این اے کووڈ ویکسین کا ایک ڈوز استعمال کروایا گیا تھا، ان میں سے 2 فیصد میں الرجی ری ایکشن نظر آیا جبکہ اینافائیلیکس کی شرح ہر 10 ہزار افراد میں 2.47 فیصد تھی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ اینافائیلیکس کی اس شرح کا موازنہ عام بائیوٹیکس ادویات کے استعمال سے کیا جاسکتا ہے، فائزر / بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی کووڈ 19 ویکسینز کی تیاری کے لیے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کا استعمال ہوا۔

    اینافائیلیکس سے مراد ایسا شدید الرجک ری ایکشن ہے جس میں مختلف علامات جیسے جلد پر نشانات، نبض کی رفتار کم ہوجانا اور شاک کا سامنا ہوتا ہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ ویکسی نیشن سے الرجی کے ان واقعات کو شامل نہیں کیا گیا تھا جن میں لوگوں کو ویکسین کے استعمال سے قبل اینافائیلیکس کا سامنا ہوا تھا۔

    تحقیق کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ شدید الرجی کے تمام کیسز جلد صحت یاب ہوگئے اور کسی کو بھی شاک یا سانس لینے میں مدد فراہم کرنے والی نالی کا سہارا نہیں لینا پڑا۔

  • کرونا وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    کرونا وائرس میں ہونے والی تبدیلیاں: ماہرین نے خطرے کی گھنٹی بجا دی

    لندن: ماہرین کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس میں آنے والی نئی تبدیلیاں ویکسین کی اثر انگیزی کو کم کرسکتی ہیں، ماہرین کے مطابق وائرس کی تبدیلیوں پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

    حال ہی میں برطانیہ میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے والی کرونا وائرس کی نئی اقسام موجودہ ویکسینز اور مخصوص مونوکلونل اینٹی باڈیز طریقہ علاج کی افادیت کو کم کرسکتی ہیں اور ان سے کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں دوبارہ بیماری کا خطرہ بھی ہوسکتا ہے۔

    اس تحقیق کے نتائج نووا واکس ویکسین کے ٹرائل کے نتائج پر مبنی ہیں۔

    28 جنوری کو کمپنی نے اپنی ویکسین کے ٹرائل کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ ویکسین برطانیہ میں ٹرائل کے دوران لگ بھگ 90 فیصد تک مؤثر رہی تھی مگر جنوبی افریقہ میں یہ افادیت محض 49.4 فیصد رہی تھی، جہاں بیشتر کیسز نئی قسم بی 1351 کے تھے۔

    محققین نے بتایا کہ ہماری تحقیق اور نئے کلینکل ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس اس سمت کی جانب سفر کر رہا ہے جو اسے موجودہ ویکسینز اور طریقہ علاج سے بچنے میں مدد فراہم کر سکتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اگر وائرس کا پھیلاؤ تیز رفتاری سے جاری رہا اور اس میں مزید میوٹیشنز ہوئیں تو ہمیں مسلسل کرونا وائرس کی تبدیلیوں کو نظر میں رکھنا ہوگا، جیسا انفلوائنزا وائرس کے ساتھ ہوتا ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ اس خیال کو دیکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ جس حد تک جلد ممکن ہو وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جائے، تاکہ وہ اپنے اندر مزید تبدیلیاں نہ لاسکے۔

  • ایک اور چینی ویکسین 80 فیصد سے زیادہ مؤثر قرار

    ایک اور چینی ویکسین 80 فیصد سے زیادہ مؤثر قرار

    چین کی سینوویک بائیو ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین وائرس کی روک تھام کے لیے 80 سے زائد فیصد تک مؤثر قرار دی گئی ہے، حالیہ ٹرائل ترکی میں کیے گئے تھے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین کی کمپپنی سینوویک بائیو ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین مرض کی روک تھام کے لیے 83.5 فیصد تک مؤثر قرار دی گئی ہے۔ ترکی میں اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے حتمی نتائج جاری کیے گئے ہیں۔

    ترکی میں ابتدائی نتائج میں اس ویکسین کو 91.25 فیصد تک مؤثر قرار دیا گیا تھا۔

    ٹرائل کے دوران مجموعی طور پر 41 افراد میں کووڈ کی تشخیص ہوئی جن میں سے 32 پلیسبو گروپ سے تھے۔

    ٹرائل میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ویکسین کی افادیت کا تعین دوسری خوراک کے استعمال کے 14 دن بعد کم از کم ایک علامت اور مثبت پی سی آر ٹیسٹ کی بنیاد پر کیا گیا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ 100 فیصد کیسز میں بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے کی روک تھام میں کامیاب ثابت ہوئی، جو 6 افراد اسپتال میں داخل ہوئے وہ سب پلیسبو گروپ کا حصہ تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹرائل کے دوران کوئی خاص مضر اثرات دریافت نہیں ہوئے اور ویسے بھی ترکی میں اسے عام استعمال کیا جارہا ہے اور اب تک کوئی سنگین مضر اثرات رپورٹ نہیں ہوئے، تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ ویکسین محفوظ ہے۔

    ترکی میں دسمبر میں ویکسین کے ابتدائی نتائج میں 29 کیسز کو رپورٹ کیا گیا تھا اور اس کی افادیت 91.25 فیصد قرار دی گئی تھی۔ اس کا حتمی ٹرائل ستمبر 2020 کے وسط میں شروع ہوا تھا اور اس میں 10 ہزار 216 افراد شامل تھے جن میں سے 6 ہزار 648 کو ویکسین فراہم کی گئی۔

    ٹرائل میں مردوں کی تعداد 58 فیصد اور خواتین کی 42 فیصد تھی اور انہیں ویکسین کی 2 خوراک 14 دنوں کے وقفے میں استعمال کروائی گئی تھیں۔

    دنیا کے دیگر حصوں میں اس ویکسین کی افادیت کی شرح مختلف دریافت ہوئی تھی۔

  • سعودی عرب: گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ویکسین لگوانا ممکن

    سعودی عرب: گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ویکسین لگوانا ممکن

    ریاض: سعودی وزارت صحت نے ویکسین کے لیے ڈرائیو ان سروس شروع کردی، ویکسین لگوانے والے اب اپنی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ویکسین لگوا سکتے ہیں۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی وزارت صحت نے صحتی ایپ کے ذریعے رجسٹریشن کروانے والوں کو بذریعہ کار ویکسین لگانے کی خدمات فراہم کی ہیں، اس کا آغاز 4 شہروں ریاض، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور ابہا سے کیا گیا ہے۔

    وزارت صحت نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ صحتی ایپ کے ذریعے کرونا ویکسین لینے کے لیے ایپ پر رجسٹریشن کروائیں۔

    وزارت صحت نے سعودی شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں کو مشورہ دیا کہ وہ 937 پر رابطہ کر کے طبی مشورہ بھی حاصل کرسکتے ہیں، یہ سروس 24 گھنٹے دستیاب ہے۔

    وزارت صحت نے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ کرونا وائرس کی علامتیں محسوس کرنے پر تطمن کلینک سروس سے فائدہ اٹھائیں، کرونا کی نمایاں علامتیں درجہ حرارت بڑھ جانا، سانس لینے میں دشواری، سینے کا درد، کھانسی، گلے میں گھٹن، اسہال، سونگھنے اور چکھنے کی صلاحیت سے محروم ہوجانا ہیں۔

    وزارت صحت کے مطابق تطمن کلینکس رجوع کرنے والوں کو طبی نگہداشت اور ضروری علاج فراہم کی جا رہی ہے۔

    وزارت کی جانب سے کہا گیا کہ تطمن کلینکس پہلے سے وقت لیے بغیر جا سکتے ہیں، یہ کلینکس بعض ہیلتھ سینٹرز اور اسپتالوں میں مملکت بھر میں موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر کلینکس 24 گھنٹےاور دیگر 16 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔

  • سعودی حکام کی کرونا ویکسی نیشن کے حوالے سے اہم وضاحت

    سعودی حکام کی کرونا ویکسی نیشن کے حوالے سے اہم وضاحت

    ریاض: سعودی حکام نے وضاحت کی ہے کہ کرونا وائرس ویکسین کے دونوں انجیکشن لگوانے والے ہی وائرس سے محفوظ سمجھے جائیں گے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق توکلنا ایپ کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جو لوگ کرونا ویکسین کے دونوں انجیکشن لگوالیں گے انہیں ایپ میں محفوظ کیٹگری میں دکھایا جائے گا۔

    توکلنا ایپ سے ایک شخص نے استفسار کیا تھا کہ اس نے پہلا انجیکشن لگوا لیا ہے مگر ابھی تک ایپ میں اسے محفوظ کیٹگری میں شامل نہیں کیا گیا، اس کی کیا وجہ ہے۔

    ایپ انتظامیہ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ دونوں انجیکشن لگوانے کے بعد ایپ میں صارف کو محفوظ کیٹگری میں شامل کیا جائے گا۔

    خیال رہے کہ توکلنا ایپ میں صارفین کی مختلف کیٹگریز ہیں، جن لوگوں کو کرونا وائرس نہیں ہوا انہیں گرین کیٹگری میں رکھا گیا ہے۔

    ویکسین کا کورس مکمل کرنے والوں کو محفوظ کیٹگری میں شامل کیا جارہا ہے جس کا رنگ گہرا سبز ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ صارف ویکسین لگوا کر وائرس سے محفوظ ہوگیا ہے۔

  • بھارت: کچی آبادی کے مکینوں پر دھوکے سے کرونا ویکسین کا تجربہ

    بھارت: کچی آبادی کے مکینوں پر دھوکے سے کرونا ویکسین کا تجربہ

    نئی دہلی: بھارت میں مقامی طور پر تیار کردہ کرونا ویکسین کا تجربہ دھوکے سے کچی آبادی کے رہائشیوں پر کردیا گیا، دھوکے سے کیے گئے کلینیکل ٹرائل میں آدھے لوگوں کو تجرباتی ویکسین اور بقیہ نصف کو انجیکشن میں بے ضرر سیال دیا گیا۔

    امریکی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھوپال میں لوگوں کو دھوکا دے کر کرونا ویکسین کا تجربہ کیا گیا، بھوپال کی کچی آبادی شنکر نگر کے غریب لوگوں کو اس کے بدلے 750 روپے دیے گئے۔

    امریکی میڈیا کا کہنا تھا کہ یہ بھارت کی مقامی کوویڈ ویکسین کوویکسن کا کلینیکل ٹرائل تھا جس میں قواعد کی خلاف ورزی کی گئی، شنکر نگر کے غریب رہائشیوں کو کوویڈ ویکسین کا کہہ کر ان پر کلینیکل تجربہ کیا گیا۔

    متاثرین کا کہنا ہے کہ انہیں کہا گیا کہ اگر ویکسین نہ لگوائی تو کرونا وائرس ہوجائے گا، کلینیکل ٹرائل میں آدھے لوگوں کو تجرباتی ویکسین اور بقیہ نصف کو انجیکشن میں بے ضرر سیال دیا گیا۔

    مذکورہ ’ویکسین‘ لینے کے بعد لوگوں کی اکثریت یہ سمجھتی رہی کہ وہ کوویڈ 19 سے محفوظ ہو گئے ہیں اور انہوں نے حفاظتی اقدامات کم کر دیے۔

    اس سے قبل بھارت میں تیار ایسٹرا زینیکا ویکسین غیرمؤثر ثابت ہونے پر جنوبی افریقہ سے واپس کردی گئی تھی۔

    جنوبی افریقہ نے خط لکھ کر بھارتی حکام کو آگاہ کیا تھا کہ سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا میں بنی ویکسین کرونا وائرس کی نئی قسم پر ‏اثر نہیں کرتی اس لیے وہ اپنے ویکسی نیشن پروگرام میں بھارت سے ملنے والی ویکسین کے استعمال کو روک رہے ہیں۔

    جنوبی افریقہ نے ایک ملین ‏ویکسین بھارت سے خریدی تھی جو فروری کے پہلے ہفتے جنوبی افریقہ پہنچی تھی، 5 لاکھ مزید ویکسین جلد ہی جنوبی افریقہ پہنچنے والی تھی جس کی ترسیل فوری طور پر روک دی گئی ہے۔

  • سعودی عرب: کرونا وائرس ویکسین لگوانے والے شہری حکومت کے شکر گزار

    سعودی عرب: کرونا وائرس ویکسین لگوانے والے شہری حکومت کے شکر گزار

    ریاض: سعودی عرب میں کرونا وائرس ویکسین لگوانے والے شہری حکام کے نہایت شکر گزار ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ ویکسی نیشن کا عمل نہایت سہولت سے انجام پایا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق الجوف ریجن میں کرونا ویکسین لینے کے بعد ایک خاتون نے اپنے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سعودی قیادت اور وزارت صحت کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔

    سکاکا شہر کے ویکسی نیشن سینٹر میں موجود لوگوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی اعلیٰ قیادت نے کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے مثالی خدمات انجام دی ہیں۔

    کرونا کی ویکسین لینے والی ایک خاتون نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب میں ویکسین لینے کے لیے آرہی تھی تو بہت خوفزدہ تھی لیکن جب ویکسی نیشن سینٹر میں داخل ہوئی اور یہاں کا ماحول دیکھا تو میرا خوف ختم ہوگیا۔

    اس سے ملتے جلتے خیالات دیگر افراد کے بھی تھے، لوگوں کا کہنا تھا کہ وزارت صحت کی جانب سے جس طرح کے انتظامات کیے گئے ہیں وہ مثالی ہیں خاص کر ویکسین لینے کے لیے پیشگی وقت لینے کا سسٹم بہت بہترین ہے۔

    ایک اور خاتون کا کہنا تھا کہ کرونا ویکسین لینے سے قبل جو نفسیاتی طور پر ایک الجھن تھی وہ ختم ہوگئی جبکہ سینٹر میں کام کرنے والوں کی جانب سے جب ویکسین کی اہمیت و افادیت کے بارے میں معلوم ہوا تو جو تھوڑی بہت پریشانی تھی وہ بھی دور ہوگئی۔

    خیال رہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے لوگوں کو کرونا مفت ویکسین مفت فراہم کیے جانے کے لیے مختلف شہروں میں خصوصی طور پر ویکسی نیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں انتہائی منظم انداز میں لوگوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔

    سعودی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے شروع کیا جانے والا مفت ویکسی نیشن پروگرام مملکت میں موجود ہر شخص کے لیے ہے، مملکت میں مقیم غیر ملکی بھی اس سے مستفید ہو رہے ہیں۔