Tag: ویکسین

  • کرونا وائرس: آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس: آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کے حوصلہ افزا نتائج

    لندن: برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ محفوظ اور مؤثر ہے، برطانیہ کے ریگولیٹر ادارے کی جانب سے اس ڈیٹا کو دیکھا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق دی لانسیٹ میں شائع کرونا وائرس ویکسین کے ڈیٹا میں بتایا گیا کہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین محفوظ اور مؤثر ہے۔

    اس ڈیٹا کا حصہ بننے والے زیادہ تر افراد کی عمر 55 سال سے کم تھی مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ معمر افراد کے لیے کام کرے گی، ڈیٹا کے مطابق یہ ویکسین کووڈ کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے ساتھ بیماری اور موت سے بھی تحفظ فراہم کرسکے گی۔

    اس ڈیٹا کا تجزیہ ایسے سائنسدانوں نے کیا جن کا آکسفورڈ یونیورسٹی یا ایسٹرا زینیکا سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اس ٹرائل میں 20 ہزار سے زیادہ افراد شامل تھے۔

    برطانیہ کے ریگولیٹر ادارے کی جانب سے اس ڈیٹا کو دیکھا جارہا ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں اس کے استعمال کرنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    نومبر کے آخر میں آکسفورڈ یونیورسٹی اور سویڈش دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینیکا نے بتایا تھا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی روک تھام کے لیے 70 سے 90 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ٹرائل کے مطابق پہلے آدھی مقدار والا ڈوز اور پھر چند ہفتوں بعد مکمل ڈوز استعمال کرنے والے افراد میں ویکسین کی افادیت 90 فیصد تک رہی جبکہ 2 مکمل ڈوز لینے والے افراد میں یہ شرح 62 فیصد تک گھٹ گئی۔

    تو یہ سوال اب بھی باقی ہے کہ کون سا ڈوز دینا بہتر ہوگا اور کس کو تحفظ ملے گا۔

    لانسیٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق ہزاروں افراد میں سے 13 سو 67 کو پہلے آدھا اور پھر پورا ڈوز دیا گیا اور انہیں کووڈ کے خلاف 90 فیصد تک تحفظ ملا۔

    آدھے ڈوز کے ساتھ یہ ویکسین 55 سال سے زائد عمر کے افراد کو استعمال نہیں کروائی گئی اور معمر افراد میں ہی کووڈ کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہے۔

    جہاں تک اس کے محفوظ ہونے کی بات ہے تو صرف ویکسین کے زیادہ سخت اثر کو دیکھا گیا جو زیادہ درجہ حرارت تھا، جس کی تحقیقات ابھی کی جارہی ہے۔

    ایسٹرا زینیکا کے چیف ایگزیکٹو پاسکل سوریوٹ نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ویکسین کووڈ 19 کے خلاف مؤثر ہے، ویکسین لینے والوں میں بیماری کی سنگین شدت نظر نہیں آئی اور کسی کو بھی اسپتال میں داخل نہیں کرایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہم ڈیٹا کو دنیا بھر کی ریگولیٹری اتھارٹیز کے پاس جمع کروانے کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں تاکہ ابتدائی منظوری کے بعد عالمی سپلائی چین کو متحرک کر سکیں، جس کے تحت عالمی سطح پر کروڑوں ڈوز بغیر منافع کے فوری طور پر فراہم کیے جائیں گے۔

  • کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں کو روکنے کے لیے فیس بک سرگرم

    کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں کو روکنے کے لیے فیس بک سرگرم

    سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے کرونا وائرس ویکسین کے بارے میں جعلی خبروں اور دعووں کی روک تھام کے لیے کام شروع کردیا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق فیس بک نے کووڈ 19 کے بارے میں گمراہ کن تفصیلات کی روک تھام کی پالیسی کو اپ ڈیٹ کرتے ہوئے اب ویکسینز کے حوالے سے جعلی دعوے ہٹانے کا کام شروع کردیا ہے۔

    فیس بک کی جانب سے یہ اعلان اس وقت کیا گیا ہے جب برطانیہ میں فائزر کی کرونا وائرس ویکسین کے استعمال ک منظوری دی جا چکی ہے جبکہ امریکا اور دنیا کے دیگر حصوں میں جلد ایسا کیے جانے کا امکان ہے۔

    اس سے قبل پالیسی میں بتایا گیا تھا کہ ایسی پوسٹس کو سوشل نیٹ ورک سے ہٹا دیا جائے گا جس میں وائرس کے بارے میں جعلی تفصیلات دی جائیں گی جو نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

    اب فیس بک نے اس پالیسی کو توسیع دی ہے اور اب ایسی پوسٹس کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جن میں ویکسینز کے حوالے سے ایسے دعوے کیے جائیں گے جو تحقیقاتی نتائج کے متضاد ہوں گے۔

    فیس بک کی جانب سے ویکسینز کے حوالے سے سازشی خیالات جیسے ویکسینز میں مائیکرو چپس کی موجودگی کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا جبکہ ویکسین کے محفوظ ہونے، افادیت، اجزا یا سائیڈ افیکٹس کے بارے میں جعلی دعوے کرنے پر بھی صارفین کو کمپنی کے ایکشن کا سامنا کرنا ہوگا۔

    فیس بک کا کہنا تھا کہ پالیسی کا اطلاق راتوں رات نہیں ہوگا اور کووڈ 19 ویکسینز میں ارتقا کے ساتھ دعوؤں کی فہرست کو مسلسل اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔

    تاہم یہ واضح نہیں کہ اس پالیسی کو اختیار کرنے میں تاخیر کے نتیجے میں ویکسین کے حوالے سے پھیلنے والی گمراہ کن رپورٹس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کیسے ممکن ہوسکے گی۔

    برطانیہ کے حقائق جانچنے والے ادارے فل فیکٹ نے ایک بیان میں بتایا کہ اس وقت جب کرونا وائرس ویکسین ممکنہ طور پر چند ماہ میں متعارف ہوسکتی ہے، اس کے حوالے سے گمراہ کن رپورٹس اور تفصیلات کی لہر ویکسین کے حوالے سے لوگوں کے اعتماد کو ختم کرسکتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ پروجیکٹ ماضی کی اس طرح کی مہمات سے سیکھے گئے سبق کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا گیا ہے، تاکہ ہم اگلے بحران کو پیدا ہونے سے پہلے روکنے کے قابل ہوجائیں۔

  • سعودی عرب: کرونا وائرس ویکسین سے متعلق خوشخبری

    سعودی عرب: کرونا وائرس ویکسین سے متعلق خوشخبری

    ریاض: سعودی وزیر صحت نے کرونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے خوشخبری سناتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب ویکسین حاصل کرنے والے اولین ممالک میں سے ہوگا۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے کہا ہے کہ سعودی عرب ان ممالک میں شامل ہے جو سب سے پہلے کرونا ویکسین حاصل کریں گے۔

    کرونا کوائرس کے حوالے سے منعقدہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ترجمان وزارت صحت کا کہنا تھا کہ سعودی عرب نے ان اہم کمپنیوں سے معاہدے کر رکھے ہیں جو کرونا ویکسین پر کام کر رہی ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالعالی نے مزید کہا کہ جلد ہی کرونا ویکسین لینے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی اعلان کر دیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ہماری اولین ترجیجات میں شامل ہے کہ اس بات کا مکمل اطمینان کر لیا جائے کہ حاصل کی جانے والی ویکسین کسی بھی قسم کے سائیڈ افیکٹ سے محفوظ ہو۔ ویکسین کے حوالے سے مکمل طور پر اطمینان کر لینے کے بعد ہی اس کے بارے میں تفصیلی اعلان کیا جائے گا۔

    مملکت میں کرونا وائرس کیسز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ترجمان وزارت صحت کا کہنا تھا کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوگیا ہے جہاں کرونا وائرس کی وبا قابو میں ہے اور حالات تیزی سے بہتری کی جانب رواں دواں ہیں۔

    ایک سوال پر ترجمان نے مزید کہا کہ وزارت صحت نے جو احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں ان پر اسی طرح عمل کیا جائے جیسا کہا گیا ہے کیونکہ احتیاط کے ذریعے ہی اب تک ہم نے اس وبا پر قابو پایا اور آئندہ بھی بہتر نتائج کے منتظر ہیں۔

  • موڈرینا کی کرونا وائرس ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟

    موڈرینا کی کرونا وائرس ویکسین کتنی مؤثر ہوگی؟

    واشنگٹن: امریکی کمپنی موڈرینا کی کووڈ 19 ویکسین کرونا وائرس سے کم از کم 3 ماہ تک تحفظ فراہم کرسکے گی، اس ویکسین کی منظوری کے لیے رواں ماہ 17 تاریخ کو متعلقہ حکام کا اجلاس منعقد ہوگا۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں امریکا کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار الرجیز اینڈ انفیکشیز ڈیزیز (این آئی اے آئی ڈی) کے محققین نے 34 بالغ افراد میں ویکسین کے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ ان افراد کو ایم آر این اے 1273 کے پہلے ٹرائل کے دوران ویکسین کے 2 ڈوز دیے گئے تھے۔

    تحقیق کے مطابق ان افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح کی جانچ پڑتال دوسری بار ویکسین کے ڈوز دینے کے 90 دن (پہلے ڈوز کے 119 دن بعد) کی گئی۔

    محققین نے دریافت کیا کہ 3 ماہ بعد بھی خون میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں اور اس سے عندیہ ملا کہ اتنے مہینوں بعد بھی کووڈ 19 کے خلاف جسم کو کسی حد تک مدافعتی تحفظ حاصل تھا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین سے ایک مخصوص قسم کے ٹی سیلز کا ردعمل متحرک ہوتا ہے، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ کسی حد تک طویل المعیاد مدافعت حاصل ہوسکتی ہے۔

    موڈرینا کے چیف میڈیکل آفیسر ٹال زاکس کا کہنا ہے کہ ویکسین کے ٹرائل کے پہلے مرحلے کے ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ہماری ویکسین ہر عمر کے افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی پائیدار اینٹی باڈیز بناتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ڈیٹا سے مزید امید بڑھتی ہے کہ یہ کووڈ 19 سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہوگی۔

    امریکا میں موڈرینا کی ویکسین کے استعمال کی منظوری کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا اجلاس 17 دسمبر کو ہوگا۔

    کمپنی کے مطابق وہ سنہ 2020 کے آخر تک 2 کروڑ ڈوز امریکا میں ترسیل کرے گی اور توقع ہے کہ اگلے سال 50 کروڑ سے ایک ارب ڈوز دنیا بھر میں تیار کیے جائیں گے۔

  • بحرین نے فائزر کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی

    بحرین نے فائزر کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی

    مناما: بحرین فائزر کی ویکسین کے استعمال کی منظوری دینے والا دنیا کا دوسرا ملک بن گیا، بحرین نیشنل ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق کووڈ 19 ویکسین کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر گروپس کے لیے استعمال ہوگی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق بحرین، امریکی فارماسیوٹیکل کمپنی فائزر اور جرمن شراکت دار بائیو این ٹیک کی بنائی جانے والی ویکسین کو منظور کرنے والا دنیا کا دوسرا ملک بن گیا، مذکورہ ویکسین کو سب سے پہلے برطانیہ نے استعمال کے لیے منظور کیا تھا۔

    بحرین کا کہنا ہے کہ اس نے فائزر کی تیار کردہ کررونا ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے۔

    بحرین کی نیشنل ہیلتھ ریگولیٹری اتھارٹی (این ایچ آر اے) کا کہنا ہے کہ فائزر کی کووڈ 19 ویکسین کرونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر گروپس کے لیے استعمال ہوگی۔

    بحرین نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے کتنی ویکسینز خریدی ہیں اور عملی طور پر اس ویکسین کی کب شروعات ہوگی۔

    بحرین کے لیے فوری چیلنج وہ شرائط ہوں گی جن میں یہ ویکسین رکھنا ضروری ہے، ماہرین کے مطابق ویکسین کو محفوظ رکھنے اور کئی دن تک قابل استعمال بنانے کے لیے تقریباً منفی 70 ڈگری سینٹی گریڈ کے انتہائی سرد درجہ حرارت میں رکھنا ہوگا۔

    بحرین مشرق وسطیٰ کا ایسا ملک ہے جہاں موسم گرما میں تقریباً 40 ڈگری سینٹی گریڈ (104 ڈگری فارن ہائیٹ) سے زائد درجہ حرارت ریکارڈ کیا جاتا ہے۔

  • ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز کی تیاری پر کام جاری ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے آغاز سے لے کر اسے منظور کیے جانے تک کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    امریکی فوج کا والٹر ریڈ کا تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کا کلنیکل آزمائشی تجربات کا مرکز، کوویڈ 19 کی ویکسینز کے کئی ٹرائلز کر رہا ہے۔ اس مرکز کی ڈائریکٹر، لیفٹننٹ کرنل میلنڈا ہیمر کہتی ہیں، ویکسین کے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے کلینیکل آزمائشی تجربات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ویکسین کی جانچ پڑتال کے عمل میں ہم انہیں انتہائی اہم قدم یا حتمی قدم کہتے ہیں۔

    ان سے خوراک اور دواؤں کا ادارہ یہ جان سکتا ہے کہ آیا کوئی ویکسین اتنی زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے کہ اسے وسیع پیمانے کے عوامی استعمال کی اجازت دی جائے۔

    ماڈرینا کی کوویڈ 19 کے آزمائشی تجربات پر تحقیق کی سربراہ، میامی یونیورسٹی کی ڈاکٹر سوزین لوئس کہتی ہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ ویکسین ہر ایک کے لیے مؤثر ہو، یا اگر مؤثر نہیں ہے تو ہم سمجھ سکیں کہ کیوں نہیں ہے۔

    امریکا میں اگر یہ نتائج اس کے متعلق کافی معلومات فراہم کریں کہ ویکسین کس طرح کام کرتی ہے، کیا یہ محفوظ ہوگی اور متعدی بیماری کے خلاف انسانوں میں اچھی طرح کام کرے گی، تو ویکسین تیار کرنے والے ویکسین کے کلینیکل آزمائشی تجربات کے لیے ایف ڈی اے سے اجازت کی درخواست کرتے ہیں۔

    انسانوں پر کلینیکل آزمائشی تجربات اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ہے یا نہیں۔ عام طور پر اس کے 3 مراحل ہوتے ہیں۔

    پہلے مرحلے میں رضا کاروں کے ایک چھوٹے گروپ کو ویکیسن لگائی جاتی ہے تاکہ محققین ویکسین کی مختلف خوراکوں سے اس کے محفوظ ہونے کا جائزہ لے سکیں۔

    محققین یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا ویکسین کی خوراکوں کے بڑھانے سے منفی ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی حد کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

    دوسرے مرحلے میں بے ترتیب اور محدود جائزوں میں کئی سو رضا کاروں کو یا تو ویکسین یا پلیسبو (نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی جاتی ہے۔

    اس مرحلے پر محققین سلامتی پر نظر رکھے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مختصر مدت کے ذیلی اثرات یا خطرات اور ویکسین کے مؤثر پن کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تیسرے مرحلے میں عام طور پر ہزاروں افراد کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ویکسین کے بعض کلینیکل تجربات میں کئی ہزار افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کوویڈ 19 ویکسین کے جاری تجربات ہیں جس میں لاکھوں کے حساب سے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

    اس مرحلے پر توجہ مؤثر پن یا بیماری کو روکنے کی استعداد پر مرکوز ہوتی ہے اور اس میں ویکسین لگوانے والے لوگوں کا موازنہ ان لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کو پلیسبو ( نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    ماڈرینا کی تیارکردہ ایم آر این اے ویکسین کے ایلی نوائے یونیورسٹی کے تیسرے مرحلے کے تجربات کی سربراہی کرنے والے، رچرڈ ایم نواک کہتے ہیں، ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے پلیسبو لگوائی ہوتی ہے، ہمیں ایسے لوگوں میں کم سے کم تر تعداد میں قابل تشخیص بیماریوں کی توقع ہوتی ہے جن کو ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    نواک کہتے ہیں کہ متنوع قسم کے افراد کو کوویڈ 19 کی ویکسین کے آزمائشی تجربات میں شامل کرنا ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہاں امریکا میں رنگ دار لوگوں میں کرونا وائرس کے انفیکشن غیر متناسب طور پر زیادہ رونما ہو رہے ہیں، لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ویکسین کے آزمائشی تجربات لوگوں کے متنوع گروہوں پر کریں۔

    جب ویکسین بنانے والی کمپنی ویکسین کی تیاری کا اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیتی ہے اور سلامتی اور مؤثر پن کا معقول مقدار میں ڈیٹا جمع کر لیتی ہے تو کمپنی ویکسین کو امریکا میں تقسیم کرنے اور مارکیٹ میں لانے کے لیے ایف ڈی اے کو درخواست کر سکتی ہے۔

    ایف ڈی اے یہ وضع کرنے کے لیے کہ ویکسین کا محفوظ اور مؤثر استعمال عملی طور پر ثابت ہو چکا ہے، مقررہ مدت میں ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔

    کوویڈ 19 کی ویکسینز کے معاملے میں محققین ہنگامی استعمال کے اجازت نامے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔ مگر بعض حالات میں انہیں اس کی تائید میں عوامی صحت کی ہنگامی حالت جیسی دلیل پیش کرنا ہوتی ہے۔

    ایسے حالات میں ایف ڈی اے کے ثابت شدہ فوائد کے مقابلے میں ویکسین کے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے سے پہلے قانونی تقاضے ہر حال میں پورے کرنا ہوتے ہیں۔

    ہیمر کا کہنا ہے کہ جس تیز رفتاری سے کوویڈ 19 کی ویکسینز تیار کی جا رہی ہیں اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم کئی ایک ویکسینز کو ابتدائی آزمائشی تجربات سے، پہلے انسانی تجربات اور پھر تیسرے مرحلے کے بنیادی آزمائشی تجربات تک ایک سال سے بھی کم عرصے میں جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک حیران کن بات ہے۔ ایف ڈی اے نے ان ٹیموں کی کام کرنے میں حقیقی معنوں میں مدد کی ہے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے آزمائشی تجربات کے طریقہ کار نہ صرف محفوظ ہوں اور ان سے مطلوبہ ڈیٹا جمع ہوتا ہو بلکہ وہ محفوظ ترین ممکنہ طریقوں سے کیے بھی جا سکتے ہوں۔

  • ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟

    ویکسین کیسے کام کرتی ہے؟

    ویکسین بیماری کے ایجنٹس کی ہو بہو نقل کرتی ہے، اور ان کے خلاف دفاع قائم کرنے کے لیے مدافعتی نظام کو ابھارتی ہے۔

    یہاں آپ کو ایسے اینی میشن دکھائی دیں گے جن میں یہ دکھایا گيا ہے کہ مدافعتی نظام کے مختلف حصے کیسے ویکسی نیشن کے ذریعے ردِ عمل کرتے ہیں اور یہ ردِ عمل کیسے مستقبل میں جسم کا کسی مخصوص بیماری سے تحفظ کرتا ہے۔

    ویکسین کا ٹیکہ لگایا گیا

    ویکسین ایک دھوکے کا کام کرتی ہے، ویکسین لگنے کے بعد جسم کا مدافعتی نظام سمجھتا ہے کہ کوئی مخصوص بیکٹیریا یا وائرس حملہ آور ہو گیا ہے، لیکن اس ویکسین سے جسم بیمار نہیں ہوتا۔

    اینٹی جن پریزنٹنگ سیل (APC)

    یہ خلیات (اے پی سی) جسم میں حملہ آوروں کے خلاف گھومتے رہتے ہیں، جب یہ کسی حملہ آور اینٹی جن (antigen) کو پاتے ہیں تو اسے اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور انھیں توڑ کر اپنی سطح پر اس کے حصوں کو نمایاں کرتے ہیں۔

    ٹی ہیلپر سیل ایکٹویشن

    اے پی سیز اینٹی جن کو نمایاں کرتے ہوئے ان جگہوں سے گزرنے لگتے ہیں جہاں مدافعتی خلیات جمع ہوتے ہیں، جیسا کہ لمف نوڈز۔ اینٹی جن کا تدارک کرنے والے مخصوص ٹی سیلز (naive T cell) انھیں چوں کہ باہر سے آنے والے سمجھتے ہیں اس لیے فوری طور پر فعال ہو جاتے ہیں۔ ٹی ہیلپر سیلز (ایک قسم کے فعال ٹی سیلز) قریبی خلیات کو حملہ آور کی موجودگی سے خبردار کر دیتے ہیں۔

    بی سیل ایکٹویشن

    naive بی سیلز ویکسین اینٹی جن کے خلاف اس وقت رد عمل دکھاتے ہیں جب یہ جسم میں داخل ہوتے ہیں، جن اینٹی جن کو اے پی سیز نمایاں کرتے ہیں انھیں بی خلیات پہچان لیتے ہیں، ان اینٹی جنز کو بھی یہ پہچان لیتے ہیں جو جسم میں آزادانہ طور پر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ پھر ایکٹیو بی سیلز تقسیم کے مرحلے سے گزرتے ہیں، اور ایسے مزید فعال سیلز پیدا کرتے ہیں جو ویکسین اینٹی جن سے مخصوص ہوتے ہیں۔ جیسے ہی یہ اینٹی جن پر ظاہر ہوتے ہیں ان میں سے کچھ پختہ ہو کر پلازمہ بی سیلز میں بدل جاتے ہیں اور کچھ میموری بی سیلز میں۔

    پلازمہ بی سیلز

    ویکسین اینٹی جن کے ذریعے فعال ہونے اور فعال شدہ ٹی ہیلپر سیلز سے سگنل موصول کرنے کے بعد، کچھ خلیات پلازمہ بی خلیات میں بدل جاتے ہیں، جو کہ مدافعتی نظام کی اینٹی باڈی فیکٹری ہیں۔ پلازمہ بی سیلز ویکسین اینٹی جن کے لیے اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں۔

    پلازمہ بی سیلز اینٹی باڈیز خارج کرتے ہیں

    انگریزی حرف وائی ’Y‘ کی شکل کے پروٹین جن کو اینٹی باڈیز کہا جاتا ہے، ہر سیکنڈ بڑی تعداد میں خارج ہوتے ہیں، انسانی جسم میں لاکھوں کی تعداد میں متعدد قسم کی اینٹی باڈیز موجود ہیں، جو متعدد اقسام کے اینٹی جن کے ساتھ تعامل اور ملاپ کو ممکن بناتی ہیں۔

    اینٹی باڈیز

    ہر اینٹی باڈی ایک مخصوص اور ہدف شدہ اینٹی جن کے ساتھ سختی سے جڑی ہوتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح تالا اور چابی۔ یہ عمل اینٹی جن کو کسی خلیے میں داخل ہونے یا اینٹی جن کی تباہی سے روکتا ہے۔

    کیلر ٹی سیل رسپانس

    اگر ویکسین میں بہت ہی پتلے وائرس ہوں تو ویکسین وائرس سیلز میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جب کہ کیلر ٹی سیلز حملہ آور سیلز کو تلاش کر کے ہلاک کر دیتے ہیں۔ naive کیلر ٹی سیلز کو فعال ہونے سے پہلے ایک اینٹی جن کو نمایاں کرنے کے لیے ایک اے پی سی کی ضرورت ہوتی ہے۔

    ٹی سیلز متاثرہ خلیات کو تباہ کرتے ہیں

    ویکسین اگر وائرس پر مشتمل ہے تو یہ ویکسین وائرس متاثرہ خلیات کو تلاش کرتے ہیں اور انھیں تباہ کر دیتے ہیں۔

    میموری سیلز کی رکاوٹ

    ویکسین اینٹی جن کے ذریعے بڑی تعداد میں میموری سیلز پیدا کیے جاتے ہیں، اگر حقیقی جراثیم مستقبل میں جسم میں داخل ہو جاتے ہیں تو یہ میموری سیلز ان کو پہچان لیتے ہیں۔ لہٰذا جسم کا رد عمل مستحکم اور تیز تر ہوگا، حالاں کہ اس سے قبل ان کا سامنا کسی حقیقی پیتھوجن سے نہیں ہوا ہوتا۔

    ویکسی نیشن کے دوران تخلیق شدہ میموری ٹی سیلز، اے پی سی کا سامنا کرتے ہیں، اور ان اینٹی جن کی پہچان کرتے ہیں جن کو وہ نمایاں کر رہے ہیں۔ میموری ٹی ہیلپر سیلز ویکسی نیشن کے عمل میں دیگر مدافعتی سیلز کو خبردار کرنے کے لیے اشارے جاری کرتے ہیں، اور رد عمل پر آمادہ کرتے ہیں۔

    مشق

    ویکسی نیشن مدافعتی نظام کو پیتھوجن کے ایک کم زور یا ہلاک شدہ ورژن پر مشق کرا کر اس طرح تیار کرتا ہے کہ وہ کسی مخصوص ایجنٹ کو یاد رکھ سکے، اسے کسی پیتھوجن کے خلاف ابتدائی رد عمل کہا جاتا ہے۔

    میموری بی سیلز فعال پلازمہ سیلز بن جاتے ہیں

    میموری بی سیلز پلازمہ بی سییلز کو فعال کر کے اور ان میں تفریق پیدا کر کے ایک اینٹی کی موجودگی کے خلاف ردعمل کرتے ہیں۔ پلازمہ بی سیلز اس اینٹی جن کے خلاف مخصوص اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے اور خارج کرتا ہے جس نے انھیں دوبارہ فعال کیا۔تاہم ثانوی رد عمل میں پلازمہ سیلز مزید اینٹی باڈیز پیدا کرتے ہیں اور ابتدائی رد عمل سے تیز شرح پر پیدا کرتے ہیں۔

    اینٹی باڈیز پیتھوجن پر حملہ کرتے ہیں

    اینٹی باڈیز پیتھوجن کی سطح سے جا کر منسلک ہو جاتے ہیں، پیتھوجن اور اس کے خلاف پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی اقسام کے لحاظ سے اس کے مختلف اثرات ہو سکتے ہیں، یہ پیتھوجن کو کسی سیل میں داخل ہونے سے روک سکتا ہے، یا مدافعتی نظام کے دیگر سیلز کے ذریعے خاتمہ اور ہلاک کرنے کے لیے اس کو نشان زد کر سکتا ہے۔

    کیلر ٹی سیل رد عمل کرتے ہیں

    اگر ویکسی نیشن کے عمل میں ایک کیلر ٹی سیل رد عمل شامل ہو تو پھر اس قسم کے میموری سیلز مزاحمت کریں گے اور اینٹی جن کی زد میں آنے سے فعال ہو جائیں گے۔

  • برطانیہ نے کرونا وائرس ویکسین کی کروڑوں خوراکوں کا معاہدہ کرلیا

    برطانیہ نے کرونا وائرس ویکسین کی کروڑوں خوراکوں کا معاہدہ کرلیا

    لندن: برطانیہ نے کرونا وائرس ویکسین کی 350 ملین (35 کروڑ) خوراکوں کا معاہدہ کرلیا، یہ ڈوزز برطانوی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوں گی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی محکمہ صحت نے انکشاف کیا ہے کہ 6 مختلف ڈیولپرز کے ساتھ کرونا وائرس کے خلاف تیار کی جانے والی ویکسین کی 350 ملین خوراکوں کا معاہدہ طے کیا جا چکا ہے جو برطانوی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوگا۔

    ترجمان محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کی خوراک این ایچ ایس کی طرف سے متاثرین کو مفت مہیا کی جائے گی، نجی کمپنیوں کے لیے ویکسین پہلے آئیں پہلے پائیں کی بنیاد پر دستیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔ گھروں سے تاخیر سے نکلنے والے اس سہولت سے محروم رہ سکتے ہیں۔

    ڈپٹی چیف میڈیکل آفیسر پروفیسر جوناتھن وان تام کے مطابق کرونا وائرس سے سب سے زیادہ خطرے کا شکار جیسے بزرگ افراد اور کینسر کے مریضوں کو اولین ترجیحات پر معیاری ویکسین دی جائے گی۔

    ادویات ساز کمپنیوں فائزر اور بائیو ٹیک نے اپنی تیار کردہ ویکسین کی 90 فیصد مؤثر ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے اگلے ماہ سے اسے فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، ویکسین کو کب، کہاں، کیسے اور کتنی مقدار میں تقسیم کیا جائے گا اس کا حتمی فیصلہ حکومتی مشینری کرے گی۔

    برطانوی عوام نے کرونا وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ویکسین کی دستیابی سے برطانیہ پہلے کی طرح معمول کی زندگی کی جانب لوٹ آئے گا۔

    برطانیہ میں کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے باعث معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی کی کرونا وائرس ویکسین کا ٹرائل دوبارہ شروع

    آکسفورڈ یونیورسٹی کی کرونا وائرس ویکسین کا ٹرائل دوبارہ شروع

    واشنگٹن: آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ کرونا وائرس ویکسین کا ٹرائل امریکا میں دوبارہ شروع کردیا گیا، ویکسین کے ٹرائل کو برطانیہ میں ایک رضا کار میں منفی اثرات سامنے آنے کے بعد روک دیا گیا تھا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق برطانوی دوا ساز کمپنی ایسٹرا زینکا اور آکسفورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کرونا وائرس کی ویکسین کا ٹرائل امریکا میں دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

    ایسٹرا زینکا نے بتایا کہ امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) نے کرونا وائرس کے خلاف بنائی گئی ویکسین کے ٹرائل کی دوبارہ اجازت دے دی ہے، اس سے قبل حالیہ ہفتوں میں دیگر کئی ممالک بھی مذکورہ ویکسین کے ٹرائل کی دوبارہ اجازت دے چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ اس ویکسین کے ٹرائل کو برطانیہ میں ایک رضا کار میں منفی اثرات سامنے آنے کے بعد روک دیا گیا تھا۔

    ماہرین کے مطابق یہ ویکسین مکمل طور پر کام کرتی ہے اور وائرس کا مقابلہ مؤثر انداز میں کرتی ہے، محققین نے امید ظاہر کی ہے کہ یہ انفیکشن کی شدت کو کافی حد تک کم کر سکتی ہے۔

    اس ویکسین کی آزمائش پر پوری دنیا کی نظریں مرکوز ہیں اور خیال کیا جارہا ہے کہ مغربی ممالک میں آکسفورڈ اور آسٹرازینیکا کے اشتراک سے ہونے والی آزمائش عالمی طور پر استعمال ہونے والی ویکسین کے لیے ایک مضبوط امید ہے۔

  • ملک بھر میں ہیپاٹائٹس ویکسین کی شدید قلت

    ملک بھر میں ہیپاٹائٹس ویکسین کی شدید قلت

    اسلام آباد: ملک بھر میں ہیپاٹائٹس اور انفلوئنزا سمیت مختلف بیماریوں کی ویکسینز کی شدید قلت پیدا ہوگئی، مختلف اقسام کی ویکسینز بلیک میں 3 سے 5 ہزار میں فروخت کی جارہی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ملک بھر میں مختلف بیماریوں کی ویکسین اور دواؤں کی شدید قلت کا سامنا ہے، ہیپاٹائٹس اور انفلوئنزا سمیت مختلف ویکسینز مارکیٹ سے غائب ہیں۔

    میڈیکل اسٹورز کیمسٹس کا مؤقف ہے کہ ویکسین کی تیاری کا مواد مہنگا ہونے کی وجہ سے ویکسین کی قلت پیدا ہوئی، رواں برس حج اور عمرے کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے ویکسینز کی فراہمی پر توجہ نہیں دی گئی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف اقسام کی ویکسینز بلیک میں 3 سے 5 ہزار میں فروخت کی جارہی ہیں۔

    خیال رہے کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا شکار دوسرا بڑا ملک ہے، پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

    پاکستان میں اس مرض کی صرف 2 اقسام بی اور سی کے ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔

    رواں برس کے آغاز میں محکمہ صحت نے پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد بڑھنے کا انکشاف کیا تھا، اس حوالے سے محکمہ صحت نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) سے مدد طلب کی تھی۔

    محکمہ صحت کی جانب سے مراسلے میں کہا گیا تھا کہ ہر سال 2 لاکھ 40 ہزار نئے مریض ہیپاٹائٹس بی اور سی کا شکار ہو رہے ہیں، پنجاب میں 60 سے 70 فیصد افراد اس مرض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔

    مراسلے میں کہا گیا تھا دسمبر 2019 کے آخر تک 10 لاکھ افراد کا چیک اپ کیا گیا تھا، چیک اپ کے دوران 30ہزار افراد ہیپاٹائٹس بی اور سی میں مبتلا پائے گئے تھے۔