Tag: ویکسین

  • ڈینگی وائرس ویکسین کی یورپ میں استعمال کی منظوری

    ڈینگی وائرس ویکسین کی یورپ میں استعمال کی منظوری

    جاپان کی دوا ساز کمپنی کی جانب سے تیار کی گئی ڈینگی وائرس کی ویکسین کو یورپی یونین نے استعمال کی اجازت دے دی، سب سے پہلے اگست میں انڈونیشیا نے ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔

    خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جاپانی دوا ساز کمپنی کی جانب سے تیار کی گئی ڈینگی وائرس سے محفوظ رکھنے کی ویکسین کے کامیاب نتائج کے بعد یورپی یونین میں اس کے استعمال کی اجازت دے دی گئی۔

    جاپانی کمپنی ٹکیڈا نے چند ماہ قبل اپنی ویکسین کیو ڈینگا کے نتائج کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد رواں برس اگست میں سب سے پہلے انڈونیشیا نے ویکسین کے استعمال کی منظوری دی تھی۔

    اب یورپی یونین کی ہیلتھ ایجنسی نے بھی اسے محفوظ قرار دیتے ہوئے 4 سال سے زائد عمر کے افراد میں استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔

    یورپین یونین کے میڈیسن ریگولیٹری ادارے نے کیو ڈینگا کے استعمال کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ اسے 4 سال سے زائد عمر کے تمام افراد پر استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس کے ٹرائل کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ ویکسین چار طرح کے ڈینگی وائرسز پر اثر دکھاتی ہے۔

    ادارے کے مطابق مذکورہ ویکسین کے 19 ٹرائلز کیے گئے، جس دوران 15 ماہ سے 60 سال کی عمر کے 27 ہزار افراد کو ویکسین لگا کر ان میں اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    ادارے نے بتایا کہ ٹرائل کے نتائج سے معلوم ہوا کہ کیو ڈینگا لگوانے کے بعد ڈینگی کے شکار مریضوں کو اسپتال داخل کروانے کے امکانات 84 فیصد کم ہوجاتے ہیں جبکہ اس سے اگلے 4 سال تک ڈینگی کی علامات نظر نہ آنے کے امکانات بھی 60 فیصد تک کم ہوجاتے ہیں، یعنی ویکسی نیشن کے بعد ڈینگی کے مریض میں چار سال تک 60 فیصد کوئی علامات نظر نہیں آئیں گی۔

    ڈینگی وائرس دنیا بھر میں ملیریا کے بعد دوسرا وائرل مرض ہے جو مچھر کے کاٹنے سے پھیلتا ہے، اس سے دنیا بھر میں سالانہ 40 کروڑ افراد متاثر ہوتے ہیں جبکہ اس سے سالانہ 25 ہزار تک اموات ہوتی ہیں اور مرنے والے میں زیادہ تر نوعمر افراد ہوتے ہیں۔

    ڈینگی وائرس کا اس وقت کوئی مستند علاج موجود نہیں ہے لیکن بلڈ ٹیسٹ کے ذریعے دیگر متبادل ادویات کے ذریعے اس کا کامیاب علاج کیا جاتا ہے۔

    ڈینگی سے تحفظ کے لیے جاپانی کمپنی سے قبل امریکی کمپنی فائزر، سنوفی اور جی ایس کے نے بھی اس کی ویکسینز بنائی ہیں، تاہم تمام کمپنیز کی ویکسینز کو تاحال دنیا بھر میں عام استعمال نہیں کیا جا رہا ہے۔

    یورپی یونین کی جانب سے ڈینگی وائرس کی ویکسین کے استعمال کی اجازت دیے جانے کے بعد اب خیال کیا جا رہا ہے کہ اسے دنیا کے دیگر ممالک بھی استعمال کرنے کی اجازت دیں گے۔

  • منکی پاکس وائرس کی ویکسین تیار

    منکی پاکس وائرس کی ویکسین تیار

    دنیا بھر میں پھیلنے والے منکی پاکس وائرس کے لیے خصوصی ویکسین تیار کرلی گئی جس کے استعمال کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یورپی ملک ڈنمارک کی بائیوٹیکنالوجی کمپنی بائیو نارڈوک نے تیزی سے پھیلنے والی بیماری منکی پاکس کی خصوصی ویکسین تیار کرلی، جسے یورپین یونین (ای یو) نے استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دی۔

    بائیو نارڈوک نے کچھ عرصہ قبل ہی اموانیکس نامی ویکسین تیار کی تھی، جسے ابتدائی طور پر امریکا اور کینیڈا کی حکومتوں نے استعمال کی اجازت دی تھی۔

    امریکی ممالک کے بعد یورپین یونین کی ہیلتھ ایجنسی نے بھی اسے استعمال کرنے کی اجازت دی تھی، جس کے بعد 26 جولائی کو یورپین یونین نے اس کے ہنگامی استعمال کی اجازت دی۔

    کمپنی نے تصدیق کی ہے کہ یونین کی جانب سے اجازت ملنے کے بعد ویکسین کے ڈوز تمام یورپی ممالک کو فراہم کیے جائیں گے جبکہ پہلے ہی امریکا اور کینیڈا کو اس کے ڈوز فراہم کیے جا چکے ہیں۔

    یورپی یونین کی جانب سے منظوری سے قبل ہی مذکورہ ویکسین کو متعدد یورپی ممالک میں تقسیم کیا گیا تھا اور اسے منکی پاکس سمیت سمال پاکس کے مریضوں پر بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔

    یورپی یونین نے مذکورہ ویکسین کو استعمال کی اجازت ایک ایسے وقت میں دی ہے جب حال ہی میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے منکی پاکس کے پیش نظر عالمی سطح پر صحت کی ہنگامی صورت حال کا اعلان کیا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت نے 24 جولائی کو ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا تھا اور یورپین یونین نے 26 جولائی کو ویکسین کے استعمال کی اجازت دی۔

    منکی پاکس کے علاج کے لیے اب تک ماہرین خارش سمیت چکن پاکس کے علاج میں استعمال ہونے والی ویکسین کا استعمال کر رہے تھے۔

  • کورونا ویکسین کی 1کروڑ36 لاکھ خوراکیں کیوں ضائع ہوں گی؟

    کورونا ویکسین کی 1کروڑ36 لاکھ خوراکیں کیوں ضائع ہوں گی؟

    اوٹاوا : کورونا کی عالمی وباء پر قابو پانے کیلئے دنیا بھر میں حکومتوں نے اپنے عوام کو ویکسین کی سہولت کی فراہمی کیلئے بڑے بڑے اقدامات کیے۔

    عوام کی جانب سے برطانوی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین ایسٹرا زینیکا نہ لگوانے کے باعث کینیڈا کی حکومت کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کینیڈا ایسٹرا زینیکا کوویڈ 19 ویکسین کی ایک کروڑ36 لاکھ خوراکیں پھینکنے پر مجبور ہوگیا ہے کیونکہ اب کوئی بھی انہیں استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

    وزارت صحت کی جانب سے ویکسین کی یہ خوراکیں اپنے شہریوں کے علاوہ بیرون ملک دینے کی کوشش بھی کی گئی مگر کوئی بھی لینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

    کینیڈا نے2020 میں ایسٹرا زینیکا سے کوویڈ ویکسین کی دو کروڑ خوراکیں خریدنے کا معاہدہ کیا تھا جبکہ مارچ سے جون 2021 کے دوران 23 لاکھ شہریوں نے ویکسین کی کم از کم ایک خوراک بھی استعمال کرلی تھی۔

    مگر 2021 میں ایسٹرا زینیکا ویکسین کے استعمال کے ممکنہ مضر اثر کے خدشات کے باعث کینیڈا نے فائزر اور موڈرنا ایم آر این اے ویکسینز کا استعمال زیادہ شروع کردیا تھا۔

    جولائی2021 میں کینیڈا نے کہا تھا کہ وہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کی تمام ایک کروڑ77 لاکھ سے زیادہ خوراکیں عطیہ کردے گا۔

    مگر اب ہیلتھ کینیڈا نے بتایا ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود ایک کروڑ 36 لاکھ خوراکیں مدت ختم کرچکی ہیں اور انہیں تلف کیا جائے گا۔ کینیڈا کے 85 فیصد شہریوں کی کووڈ سے تحفظ کے لیے ویکسینیشن مکمل ہوچکی ہے۔

    اس کے مقابلے میں دنیا بھر کے 61 فیصد آبادی کی ویکسینیشن ہوئی ہے جن میں غریب ترین ممالک کے شہریوں کی تعداد محض 16 فیصد ہے۔

  • کینسر کی نئی ویکسین کے حوالے سے مثبت پیش رفت

    کینسر کی نئی ویکسین کے حوالے سے مثبت پیش رفت

    امریکی سائنسدان کینسر کی نئی ویکسین کے جانوروں پر کامیاب تجربے کے بعد انسانوں پر کامیاب آزمائش کے لیے بھی پرامید ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی ماہرین نے کینسر کے ہر طرح کے ٹیومر کے خاتمے کے لیے بنائی گئی ویکسین کی جانوروں پر کامیاب آزمائش کے بعد امید ظاہر کی ہے کہ اس کی آزمائش انسانوں پر بھی کامیاب ہوگی۔

    طبی جریدے نیچر میں شائع رپورٹ میں کہا گیا کہ امریکی ماہرین کی جانب سے چوہوں اور بندروں پر کی جانے والی تحقیق کے حوصلہ افزا نتائج کے بعد اب کینسر ویکسین کی انسانوں پر آزمائش شروع کی جائے گی۔

    ماہرین نے کینسر کے ہر طرح کے ٹیومر ختم کرنے کے لیے بنائی گئی ویکسین کو مختلف کینسرز میں مبتلا چوہوں اور بریسٹ کینسر میں مبتلا بندروں پر آزمایا اور دیکھا کہ کیا ان کے ٹیومرز ختم ہو رہے ہیں؟ اور اگر ختم ہو رہے ہیں تو انہیں ویکیسن کے بعد بھی سرجری کی ضرورت پڑ رہی ہے؟

    تحقیق کے دوران ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ سرجری کے بعد اگر کینسر سے متاثرہ جانوروں کو ویکسین لگائی جائے تو اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں؟

    ماہرین نے دیکھا کہ ویکسین لگائے جانے سے ہر طرح کے ٹیومر کے کینسر یا تو ختم ہو رہے ہیں یا پھر کینسر واپس لوٹ جاتا ہے جبکہ آپریشن کے بعد ویکسین لگانے کے ایک ماہ کے اندر ہی کینسر کے غائب ہوجانے کے نشانات ملے۔

    ماہرین کی جانب سے تیار کردہ ویکسین کینسر کے مریضوں کے مدافعتی نظام کو طاقتور بنا کر ان کے جسم میں دو خصوصی پروٹین (MICA and MICB) تیار کرتی ہیں جو انسان کے مدافعتی نظام میں پہلے سے موجود ٹی سیلز اور نیچر کلر (این کے سیلز) کو مدد فراہم کرتی ہیں، جس کے بعد دونوں نظام متحد ہو کر کینسر سیلز پر حملہ کرتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اگر انسانی جسم میں پہلے سے ہی خصوصی پروٹین (MICA and MICB) کی زیادہ مقدار موجود ہو تو وہ مدافعتی نظام میں پہلے سے موجود ٹی سیلز اور نیچر کلر (این کے سیلز) کو مدد فراہم کریں تو کینسر کے سیلز شروع میں ہی ختم ہوجاتے ہیں، کیوں کہ انسانی جسم میں موجود مذکورہ پروٹینز اور سیلز کا کام کینسر کے سیلز اور بیماری سے جنگ کرنا ہوتا ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ اگرچہ مذکورہ ویکسین کے جانوروں پر تجربے کے نتائج انتہائی حوصلہ بخش ہیں مگر اس کے انسانوں پر نتائج محدود ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق انسانوں میں پائی جانے والی غدودی کینسر مختلف ہو سکتی ہیں اور ان کا مدافعتی نظام بھی مختلف ہے، اس لیے ویکیسن کے نتائج انسانوں پر محدود اور مختلف ہو سکتے ہیں، تاہم اس حوالے سے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔

    سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مذکورہ ویکسین ہر طرح کے کینسر ٹیومر کو کنٹرول یا ختم کرنے کے کام آسکتی ہے، کیوں کہ اس کے ابتدائی نتائج حوصلہ مند ہیں۔

  • کرونا ویکسین کا جعلی اندراج اور ضیاع، عدالت نے فریقین کو طلب کرلیا

    کرونا ویکسین کا جعلی اندراج اور ضیاع، عدالت نے فریقین کو طلب کرلیا

    لاہور: صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ہائیکورٹ میں کرونا ویکسین کے جعلی اندراج اور ضیاع کے خلاف کیس میں عدالت نے نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ میں کرونا ویکسین کے جعلی اندراج اور ویکسین ضائع کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔

    درخواست گزار نے کہا کہ محکمہ صحت کے ملازمین جعلی ویکسین کا اندراج کرتے رہے ہیں، محکمہ صحت کے اہلکاروں نے مردہ افراد کو بھی ویکسین لگا دی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ کرپٹ افراد نے انتہائی قیمتی کرونا ویکسین ضائع کی، محکمہ صحت کے افسران کسی بھی قسم کی کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ عدالت کرونا ویکسین ضائع کرنے اور جعلی اندراج کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے۔

    لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد وحید نے نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کرلیا۔

  • ڈریپ نے جانوروں کی جلدی بیماری کی ویکسین منگوانے کی منظوری دے دی

    ڈریپ نے جانوروں کی جلدی بیماری کی ویکسین منگوانے کی منظوری دے دی

    اسلام آباد: ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے جانوروں کی لمپی اسکن بیماری کی ویکسین منگوانے کی منظوری دے دی، کراچی اور پنجاب کی 2 کمپنیوں کو ویکسین منگوانے کی منظوری دی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) نے جانوروں کی لمپی اسکن بیماری کی ویکسین منگوانے کی منظوری دے دی، ویکسین منگوانے کی منظوری ڈریپ رجسٹریشن بورڈ کے اجلاس میں دی گئی ہے۔

    ڈریپ کا کہنا ہے کہ کراچی اور پنجاب کی 2 کمپنیوں کو ویکسین منگوانے کی منظوری دی گئی، لمپی اسکن نامی بیماری سے اس وقت پاکستان میں ہزاروں مویشی متاثر ہیں۔

    خیال رہے کہ صوبے میں جانوروں میں جلدی بیماری کی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے، بیماری سے مرنے والے جانوروں کی تعداد 171 ہوچکی ہے۔

    صوبائی ٹاسک فورس کے اعداد و شمار کے مطابق متاثرہ جانوروں کے 318 نئے کیسز سامنے آئے ہیں جس کے بعد متاثرہ جانوروں کی تعداد 25 ہزار 2 سو 66 سے تجاوز کر گئی۔

    بیمار جانوروں کی تعداد سب سے زیادہ کراچی میں ہے جہاں 15 ہزار 899 جانور متاثر ہیں۔

  • فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    فائزر ویکسین کے بچوں اور بڑوں پر اثرات مختلف

    کرونا ویکسین اب دنیا بھر میں بچوں کو بھی لگائی جارہی ہے، تاہم اب حال ہی میں ایک تحقیق میں بچوں اور بڑوں پر اس کے مختلف اثرات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق فائزر / بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ 19 ویکسین 5 سے 11 سال کے بچوں میں، نوجوانوں اور بالغ افراد کے مقابلے میں کم مؤثر ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ پبلک ہیلتھ کے تحت ہونے والی تحقیق کرونا وائرس کی قسم اومیکرون کی لہر کے دوران ہوئی تھی۔

    تحقیق میں 13 دسمبر 2021 سے 30 جنوری 2022 کے دوران کووڈ کیسز اور اسپتال میں داخلے کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی تھی۔

    ان میں سے 8 لاکھ 52 ہزار 384 کیسز ویکسی نیشن کروانے والے 12 سے 17 سال کی عمر کے بچے تھے جبکہ 5 سے 11 سال کی عمر کے ویکسی نیشن کروانے والے بچوں کی تعداد 3 لاکھ 65 ہزار 502 تھی۔

    تحقیق کے نتائج سے انکشاف ہوا کہ اومیکرون کی لہر کے دوران 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد اسپتال میں داخلے کے خطرے سے تحفظ کی شرح 85 فیصد سے گھٹ کر 73 فیصد ہوگئی۔

    مگر 5 سے 11 سال کی عمر میں ویکسین کی یہ افادیت نمایاں حد تک کم ہوگئی جو 100 فیصد سے گھٹ کر 48 فیصد رہ گئی۔

    اسی طرح 12 سے 17 سال کی عمر میں بیماری سے تحفظ کی شرح 65 سے کم ہو کر 51 فیصد ہوگئی جبکہ 5 سے 11 سال کے گروپ میں یہ شرح 68 فیصد سے گھٹ کر 12 فیصد تک پہنچ گئی۔

    ایشکن اسکول آف میڈیسین کے امیونولوجسٹ فلورینا کرامر نے بتایا کہ دونوں گروپس میں ویکسین کی افادیت کا فرق چونکا دینے والا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 12 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں کو ویکسین کی 30 ملی گرام مقدار استعمال کروائی جاتی ہے جبکہ اس سے کم عمر کے گروپ میں یہ مقدار 10 ملی گرام ہوتی ہے۔

    نیویارک اسٹیٹ ڈپٹی ڈائریکٹر آف سائنس ایلی روسنبرگ نے بتایا کہ ویکسین کی افادیت میں کمی مایوس کن ضرور ہے مگر یہ تسلیم کیا جانا چاہیئے کہ فائزر ویکسین وائرس کے ابتدائی ورژن کے ردعمل میں تیار ہوئی تھی۔

    انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ تعین کیا جاسکے کہ بچوں کی کتنی مقدار میں ویکسین کی خوراک دینا بہتر ہوسکتا ہے۔

  • ایک دن میں 22 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم

    ایک دن میں 22 لاکھ سے زائد افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ ایک دن میں 22 لاکھ 40 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کرلیا گیا، ملک میں ویکسین لگانے کی اہل آبادی کے 58 فیصد افراد کی ویکسی نیشن مکمل ہوچکی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ٹویٹ میں کہا کہ ایک دن میں 22 لاکھ 40 ہزار افراد کو ویکسین لگانے کا ریکارڈ قائم کرلیا گیا۔

    اسد عمر کا کہنا تھا کہ مسلسل پچھلے 4 دن میں ہم نے ہر روز 20 لاکھ سے زائد ویکسین کی خوراکیں لگائیں۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسی نیشن کے اہل ہر 4 میں سے 3 پاکستانیوں کو کم از کم ایک خوراک لگ چکی ہے، 58 فیصد افراد کو مکمل طور پر ویکسین لگ چکی ہے۔

    یاد رہے کہ ملک میں اب تک 11 کروڑ 52 لاکھ 38 ہزار 268 افراد کو ویکسین کی ایک ڈوز جبکہ 8 کروڑ 98 لاکھ 53 ہزار 639 افراد کو ویکسین کی دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

  • ویکسین پیٹنٹ پر ‏ماریہ  سید کی چبھتی ہوئی تحریر

    ویکسین پیٹنٹ پر ‏ماریہ سید کی چبھتی ہوئی تحریر

    ہمیں چند امیر ممالک کی طرف سے برقرار ایک غیر منصفانہ نظام کے ذریعے ناکام بنایا جا رہا ہے جس کی تازہ مثال ویکسین بنانے کے نسخے کو پیٹنٹ کے نظام کے ذریعے استعمال کرنے سے روکا جانا ہے جو بڑی دوا ساز کمپنیوں کے دانشورانہ ملکیت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

    اس کے نتیجے میں الکھوں لوگوں کی اموات کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ھے ۔ ویکسین کی عدم مساوات سے منافع خوری اتنی سنگین ہے کہ اسے انسانیت مخالف جرم قرار دیا جاسکتا ہے۔

    یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ جدت طرازی کی معاشیات پر کمزور  دلائل کو تعینات کیا جا رہا ھے۔ کوویڈ-19 کے متعدد معاشی خرافات کو زندگی بچانے والے ٹیکوں کے لئے عالمی تجارتی تنظیم )ڈبلیو ٹی اوWTO )میں انٹلیکچوئل پراپرٹی رائٹس)TRIPSٹرپس( کے تجارت سے متعلق پہلوؤں کی چھوٹ کو روکنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مختصر مدت میں وبا سے متعلق ویکسین اور عالج کے لئے ٹرپس کی چھوٹ بہت ضروری ہے۔

    دنیا بھر کے بیشتر ممالک کو آہستہ آہستہ یہ احساس ہوا ہے کہ ملٹی نیشنل فارما سٹوڈیکل کمپنیوں )بگ فارما( کی دانشورانہ ملکیت کا تحفظ صرف ان کمپنیوں کے منافع میں اضافہ کر رہا ہے اور دنیا کو زیادہ غیر مساوی اور کم محفوظ بنا رہا ہے۔ صرف یورپی کمشن، برطانیہ، جرمنی، سوئٹزرلینڈ اور ناروے، ٹرپس کی چھوٹ کی مخالفت میں رہتے ہیں، بنیادی طور پر انسانیت کے تحفظ پر ناحق منافع کا تحفظ کرتے ہیں۔ آکسفیم)Oxfam )کے مطابق

    Moderna کے ساتھ ویکسین کے منافع سے 9 نئے ارب پتی پیدا ہوئے، جبکے فائزر اور بائیو این ٹیک نے 2020 میں مجموعی طور پر 34 ارب ڈالر کا قبل از ٹیکس منافع کمانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

    ٹرپس چھوٹ کی مخالفت کرنے کی اپنی مہم میں بگ فارما اور ان حفاظت کرنے والے ممالک جدت طرازی اور زیادہ تر دالئل گمراہ کن ہیں اور فوری عالمی ویکسین تک رسائی کے لئے ضروری تعمیری سوچ کا فقدان ہے۔ بگ فارما اور طاقتور ترین ممالک کو وبا کی مشکالت سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دیئے بغیر عالمی سطح پر ویکسین کی اختراع کی حوصلہ افزائی کرنا ضروری ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں سب سے پہلے چند چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔

    مفروضہ نمبر ایک: جدت کے لیے منافع، پیٹنٹ اور کارپوریٹ مفادات ضروری ھیں

    ہماری بین االقوامی ایمرجنسی کے دوران دانشورانہ املاک کو اپنی جگہ پر رکھنے کے لئے معاشی استدلال کے طور پر کچھ کہانیاں بیان کی جارہی ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ اگر نجی کمپنیاں ان سے منافع کمانے کے قابل نہیں بنائی جائیں گی تو اس عمل میں رکاوٹ آئے گی

    ۔ کوویڈ-19 وبا کے معاملے میں، اس کہانی میں دم نہیں ہے۔ ویکسین اور نئے ٹیکوں کی تخلیق کیٹیکنالوجی کے اختراعی عمل کی حوصلہ افزائی کرنے والی فنڈنگ کی اکثریت ٹیکس ادا کرنے والے کی جیب سے آتی ھے۔

    ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ٹیکس دہندگان حکومت کو وہ فنڈز دیتے ہیں جو وہ متعدد سماجی اشیاء کی ادائیگی کے لئے استعمال کرتے ہے، بشمول ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ )آر ڈی( جو اختراع کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے کوویڈ-19 ویکسین کی ترقی اور مینوفیکچرنگ پر براہ راست عوامی اخراجات کا تخمینہ 18 ارب ڈالر سے 5.39 ارب ڈالر کے درمیان ہے۔

    جددت ایک نیا عمل یا مصنوعات بنانے کا عمل ہے، جسے معاشی ماہرین  Push and Pullمراعات کہہ سکتے ہیں۔  مراعات”وہ بنیادی معلومات ہیں جو theoryاور فارمولے بنانے کی بنیاد رکھتی ہیں۔ ان میں ریسرچ لیبز اور یونیورسٹیوں کو آر ڈی گرانٹ شامل ہے جو ویکسین  جیسی چیزوں میں تحقیقی منصوبوں کے لئے ادائیگی کرتی ہیں۔ یہ مراعات ایجاد ہونے اور کمرشلائز ہونے سے پہلے دی جاتی ہیں۔

    زیادہ تر یہ حکومت اور یونیورسٹیوں کی طرف سے آتا ہے جن کے تمام آر ڈی پر مشترکہ اخراجات کا تخمینہ 2019 میں تقرییا€205 ارب لگایا گیا ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ویکسین کی حوصلہ افزائی کی گئی اور اجارہ داری کا اختیار اب بھی بگ فارما کو پیٹنٹ کے ذریعے مراعات کے طور پر دیا گیا تھا جس کی انہیں ضرورت بھی نہیں تھی۔

    آخر میں ہم نے انہیں کسی نہ کسی طرح بین االقوامی تباہی سے فائدہ حاصل کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ ہمارے وقت کے سب سے بڑے بین االقوامی گھوٹالے سے دھوکہ دیا گیا ہے تو آپ اکیلے نہیں ہیں۔ یہ واقعات کا ایک بدقسمت موڑ ہے کیونکہ عالمی برادری وبا کے تناظر میں ویکسین کی اختراع کو فروغ دینے کے لئے ایک مشترکہ وسائل کا پول بنانے کی صالحیت رکھتی ہے۔

    مفروضہ # 2 – ترقی پذیر ممالک اپنے ویکسین تیار کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

    دوسری کہانی جو ہمیں بتائی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ پیٹنٹ چھوٹ سے ویکسین کی پیداوار میں عالمی کمی حل نہیں ہوگی کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں ان کی پیداوار کی صالحیت نہیں ہے۔ یہ ایک دھوکہ دہی کی دلیل ہے۔ یہ سچ ہے کہ ٹرپس معاہدہ صرف رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ کچھ اور بھی ہیں، لیکن ان میں سے زیادہ تر پر قابو پایا جا سکتا ہے. آخر میں، اگر پیٹنٹ مسئلہ نہیں ہیں، تو کیوں نہ صرف پیٹنٹ معاف کر دیں؟ یہ بالکل سچ نہیں ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں اتنی صالحیت نہیں ہے کہ وہ عالمی طلب کو پورا کرنے کے لئے مناسب مکدار میں ویکسین تیار کر سکیں۔

    صرف ہندوستان نے 2020 سے پہلے دنیا کے 60 فیصد ٹیکے تیار کیے تھے۔ پیٹنٹ کے ذریعہ محفوظ علم تک رسائی اور ضروری ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ، گلوبل ساؤتھ میں دوا ساز کمپنیاں بین االقوامی طلب کو پورا کرنے کے لئے ویکسین بنانے کا طریقہ سیکھ سکتی تھیں۔ درحقیقت گلوبل ساؤتھ میں کم از کم 120 مینوفیکچررز ویکسین کی پیداوار کی صالحیت ھے جن میں جنوبی افریقہ، بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، سینیگال،

    ارجنٹائن اور برازیل جیسے ممالک شامل ہیں۔ کچھ نامور ماہرین معاشیات نے اندازہ لگایا کہ ٢٠٢١ کے آخر تک ہم دنیا کی آبادی کو vaccinate کر سکتے تھے۔ ہمیں جس ویکسین کی قلت کا سامنا ہے وہ مصنوعی ہے، یہ چند امیر ممالک اور عالمی صحت پر بگ فارما کے منافع کے تحفظ کے نام پر ایک آدمی تباہی ہے۔

    مفروضہ #3 – عالمی ویکسین کی مانگ چیرٹی (خیرات) کے ذریعے پوری کی جا سکتی ہے۔

    ٹرپس چھوٹ کے خالف دیگر دالئل صرف توجہ ہٹانے اور دھوکہ دینے کی ایک یقینی کوشش ھے۔ ان میں یہ کہانیاں بھی شامل ہیں کہ کس طرح رضاکارانہ لائسنس کے اقدامات اور ڈبلیو ایچ اوز ویکسین شیئرنگ میکانزم )کوویکس( موجودہ نظام میں بڑے پیمانے پر خال کو پر کرنے کے لئے کافی ہیں۔ ایک بار پھر – یہ ایک مفروضہ ہے –

    جیسا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقی دنیا میں  کم آمدنی والے ممالک میں 98 فیصد افراد کوواکس )Covax)کے ساتھ ٹیکا نہیں لگایا گیا جو عالمی سطح پر لگائے جانے والے تمام ٹیکوں میں 5 فیصد سے بھی کم پر مشتمل ہے۔ ویکسین بانٹنے کا طریقہ کار اور ویکسین تیار کرنے کا علم ظاہر ہے کام نہیں کر سکا کیونکہ ادارہ جاتی یکجہتی کے بجائے خیرات پر انحصار کیا گیا ہے۔

    اس کا حل نکاال جا سکتا ھے

    نوجوانوں کو موجودہ نسل کے لیڈروں کے ذریعہ ناکام کیا جا رہا ہے جو ریت پر بنائے گئے ان معاشی دلائل کو بناتے اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔ انہیں ٹھوس اور طویل مدتی حل بنانے میں ناکام ہوتے دیکھنا مایوس کن ہے۔

    طلباء، سول سوسائٹی )CivilSociety ،)قانونی ماہرین کی آواز جو ایک ایسے نظام کا مطالبہ کر رہی ہے جو  کہ اختراعی بھی ہو اور منصفانہ بھی۔

    وبائی مرض کے بارے میں صحیح معنوں میں بین االقوامی ردعمل حاصل کرنے میں ناکامی کے نتیجے میں ہمارے بین االقوامی صحت عامہ کا المیہ ہوا ہے۔ ریاستوں، خاص طور پر امیروں نے، ایک طویل مدتی بین االقوامی حل کی قیمت پر اپنی قلیل مدتی خود غرضی کا انتخاب کیا ہے جو ہر کسی کو بہتر بنا سکتا ہے۔ ویکسین کی ذخیرہ اندوزی، Covax WTO پروجیکٹ کے لیے قطار میں کودنا اور خاص طور پر پیٹنٹ کے استعمال نے ترقی پذیر دنیا کو اپنی ویکسین تیار کرنے سے روکنے کے لیے ہر چیز کو مشکل بنادیا گیا ہے۔

    حل نکالنے کے لئے  ایک مشترکہ وسائل کا پول قائم کیا جا سکتا ہے جس میں ممالک اپنے قومی بجٹ کا ایک حصہ اپنی آمدنی اور آبادی کے تناسب کے مطابق دیں گے۔ اس وسائل کے پول کو پھر حکمت عملی سے تحقیق اور ترقی کی ترغیب دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اسے اہم ایجادات کے لیے پیٹنٹ خریدنے یا تبدیل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے-

    ریفرینسز

    Kamal, Kristin, Joao, Maria and Zeno are from South Africa, Norway, Brazil, Pakistan and

    Switzerland respectively.The authors are currently pursuing masters degrees in Economic

    Policies for the Global transition (EPOG) in Paris.

    Key References

    Gosh, J. 2021. Nobody is Safe if Someone is Unsafe. Institute for New Economic Thinking. A

    dialogue between Jayati Ghosh, Rohinton Medhora, Joseph E. Stiglitz, coordinated by Robert Johnson

    at the 2021 Trento Economics Festival, 17 June 2021.[Accessed] 20 June 2021 [Available online]

    INET. 2021. The Pandemic and the Economic Crisis: A Global Agenda for Urgent Action. Institute

    for New Economic Thinking. [Accessed] 20 June 2021. [Available online]

    https://www.ineteconomics.org/research/research-papers/the-pandemic-and-the-economic-crisis-a-glo

    bal-agenda-for-urgent-action

    Kremer, M. and Glennerster, R., 2004. Strong medicine: creating incentives for pharmaceutical

    research on neglected diseases. Princeton University Press.

    Scotchmer, S., 2004. Innovation and incentives. MIT press. Pg 54

  • امریکا: کرونا ویکسین نہ لگوانے والے فوجیوں کی برطرفی کا فیصلہ

    امریکا: کرونا ویکسین نہ لگوانے والے فوجیوں کی برطرفی کا فیصلہ

    واشنگٹن: امریکی فوج میں شامل ایسے فوجیوں کو، جو کرونا وائرس کی ویکسی نیشن نہیں کروا رہے، برطرف کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے، امریکا میں اب تک 64.1 فیصد آبادی کو مکمل طور پر ویکسی نیٹ کیا جاچکا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ملک میں کرونا وائرس کی ویکسین نہ لگوانے والے فوجیوں کی برطرفی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    امریکی آرمی سیکریٹری کرسٹین ورمتھ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے انکاری فوجیوں کے خلاف کارروائی شروع کریں گے، فوج کی تیاری کا انحصار ان سپاہیوں پر ہے جو لڑنے اور جیتنے کے لیے تیار ہیں۔

    کرونا ویکسی نیشن سے انکار پر امریکی سپاہیوں کی اس سے قبل تحریری سرزنش کی جا چکی ہے۔

    یاد رہے کہ امریکا کرونا وبا کے آغاز سے اس سے بہت متاثر رہا ہے، 2 سال میں امریکا میں 7 کروڑ سے زائد افراد کووڈ 19 سے متاثر ہوئے جبکہ 9 لاکھ افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔

    امریکا میں اس وقت کرونا وائرس کے فعال کیسز کی تعداد 2 کروڑ 89 لاکھ 15 ہزار 847 ہے جبکہ 4 کروڑ 73 لاکھ 13 ہزار افراد اس مرض سے صحت یاب ہوچکے ہیں۔

    اس وقت امریکا میں 64.1 فیصد آبادی کو مکمل طور پر ویکسی نیٹ کیا جاچکا ہے۔