Tag: ویکسین

  • بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    بریسٹ کینسر ویکسین کے پہلے ٹرائل کا اعلان

    دنیا بھر کی خواتین میں بریسٹ کینسر کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، حال ہی میں ماہرین نے اس کی روک تھام کے لیے تیار کی گئی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا کے کلیو لینڈ کلینک نے 26 اکتوبر 2021 کو ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کی روک تھام کرنے والی ویکسین کی انسانوں پر آزمائش کا اعلان کیا ہے۔

    بریسٹ کینسر کی اس قسم کے خلاف ہارمون یا ٹارگٹڈ ادویات کام نہیں کرتیں، اب تک بریسٹ کینسر کی اس خطرناک قسم کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی تیاری لیبارٹری اور جانوروں تک محدود تھی، مگر اب انسانوں پر ٹرائل اہم ترین پیشرفت ہے۔

    اس ٹرائل میں ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو ابتدائی مرحلے میں ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر سے نجات پاچکی ہیں مگر اس کے دوبارہ لوٹنے کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔

    ماہرین کو توقع ہے کہ اگلے مرحلے میں زیادہ خطرے سے دو چار صحت مند افراد کو شامل کیا جائے گا۔

    انہوں نے بتایا کہ طویل المعیاد بنیادوں پر ہمیں توقع ہے کہ یہ ایک مؤثر ویکسین ثابت ہوگی جس کے استعمال سے صحت مند خواتین بریسٹ کینسر کی اس جان لیوا قسم کا شکار ہونے سے بچ سکیں گی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یہ بریسٹ کینسر کی وہ قسم ہے جس کے خلاف علاج سب سے کم مؤثر ہیں۔

    ٹرپل نیگیٹو بریسٹ کینسر کا سامنا کینسر کی اس قسم کا سامنا کرنے والی 12 سے 15 فیصد خواتین کو ہوتا ہے اور تشخیص کے بعد ایک چوتھائی کے قریب مریض 5 سال کے اندر ہلاک ہوجاتے ہیں۔

    ٹرائل میں شامل رضا کاروں کو یہ ویکسین 3 خوراکوں میں استعمال کروائی جائے گی جس میں ایک ایسی دوا شامل ہے جو اس قسم کا خطرہ بڑھانے والے ایک مخصوص پروٹین کے خلاف مدافعتی نظام کو متحرک کرے گی۔

    ہر خوراک میں 2 ہفتے کا وقفہ ہوگا اور آغاز میں چند خواتین کو کم مقدار کی خوراک دی جائے گی جس کے بعد ان کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور پھر مقدار اور خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔

    ٹرائل میں 18 سے 24 ایسی خواتین کو شامل کیا جائے گا جو گزشتہ 3 برسوں کے دوران ابتدائی مرحلے میں کینسر کو شکت دے چکی ہوں گی۔

    ماہرین کے مطابق ایک بار ہم تعین کرلیں کہ کتنی مقدار میں ویکسین دی جانی چاہیئے، اس کے بعد ہم مدافعتی نظام پر اس کے اثرات کی جانچ پڑتال کریں گے، جس سے یہ تعین کرنے میں مدد ملے گی ویکسین کتنی کارآمد ہے۔

    اس حوالے سے تحقیق ستمبر 2022 تک مکمل ہونے کا امکان ہے اور اس کے لیے فنڈز امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے فراہم کیے جائیں گے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ویکسین کی یہ حکمت عملی ممکنہ طور پر دیگر اقسام کی رسولیوں پر بھی کام کرسکتی ہے، اگر ٹرائل کامیاب ہوا تو اس سے بالغ افراد میں کینسر کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکے گی۔

  • کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    پیرس: فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 فیصد تک کام کرتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا آزمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

    کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

    اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج آنے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

    کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر 2022 کے آغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین مارچ 2022 تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔

  • کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں بھی معاون

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے اس سے ملتے جلتے وائرسز سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس ویکسینز تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کرسکیں گی۔

    ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں، تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔

    کرونا وائرسز کی 3 بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس کوو 1، سارس کوو 2 (کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے، مگر اس سے ہٹ کر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔

    تحقیق میں کووڈ 19 ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد کے پلازما پر جانچ پڑتال کی گئی۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو 1 اور عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے بھی دیگر اقسام سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔

    تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ 19 ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ ملا جو زیادہ ٹھوس نہیں تھا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی اقسام 70 فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی وضاحت ہوتی ہے، اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔

    انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا وائرس ویکسین کے تصور کی دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔

  • امریکی ویکسینز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    امریکی ویکسینز کا ایک اور فائدہ سامنے آگیا

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خلاف مختلف ویکسینز استعمال کی جارہی ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ موڈرنا، فائزر اور جانسن اینڈ جانسن کی ویکسینز جسم میں 8 ماہ بعد بھی ٹھوس مدافعتی ردعمل برقرار رکھتی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ موڈرنا، فائزر / بائیو این ٹیک اور جانسن اینڈ جانسن کووڈ 19 ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں 8 ماہ بعد بھی ٹھوس مدافعتی ردعمل موجود ہوتا ہے۔

    طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع تحقیق میں تینوں ویکسینز استعمال کرنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں بیماری کے خلاف مدافعت کے مخصوص عناصر کا تجزیہ کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ تینوں ویکسینز سے بیماری کی سنگین شدت سے ٹھوس اور دیرپا تحفظ جسم کو ملتا ہے۔

    مگر تحقیق میں ویکسینز سے اینٹی باڈیز بننے کے عمل میں فرق کا عندیہ بھی ملا، فائزر اور موڈرنا سے اینٹی باڈیز کی شرح بہت تیزی سے بڑھتی اور کم ہوتی ہے جبکہ جانسن اینڈ جانسن ویکسین سے اینٹی باڈیز کم ترین سطح سے شروع ہوتی ہیں مگر وقت کے ساتھ ان میں زیادہ استحکام آتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق 8 ماہ بعد تینوں ویکسینز کا اینٹی باڈی ردعمل موازنے کے قابل ہوتا ہے۔

    خیال رہے کہ موڈرنا اور فائزر میں ایک ہی قسم کی ٹیکنالوجی ایم آر این اے پر انحصار کیا گیا ہے جبکہ جانسن اینڈ جانسن میں مختلف ٹیکنالوجی وائرل ویکٹر کا استعمال کیا گیا ہے۔

    یہ دونوں ٹیکنالوجیز مختلف اقسام کے مدافعتی ردعمل کا باعث بنتی ہیں۔

    تحقیق میں صرف اینٹی باڈیز ہی نہیں بلکہ ٹی سیلز کا بھی براہ راست موازنہ کیا گیا، ٹی سیلز مدافعتی نظام کا بہت اہم حصہ ہوتے ہیں اور اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے بعد بھی ان سے دیرپا تحفظ ملنے کا امکان ہوتا ہے۔

    تحقیق میں شامل 31 افراد نے فائزر، 22 نے موڈرنا جبکہ 8 نے جانسن اینڈ جانسن ویکسین کا استعمال کیا تھا۔

    محققین نے بتایا کہ ایم آر این اے ویکسینز کا اینٹی باڈی ردعمل 6 ماہ بعد تیزی سے کم ہوتا ہے اور 8 ماہ کے عرصے میں مزید گھٹ جاتا ہے جبکہ سنگل ڈوز جانسن اینڈ جانسن ویکسین کا ابتدائی اینٹی باڈی ردعمل کم ہوتا ہے مگر یہ ردعمل وقت کے ساتھ بڑھتا ہے اور اس میں کمی کے شواہد نہیں ملے۔

    انہوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ موڈرنا ویکسین کا اینٹی باڈی ردعمل فائزر کے مقابلے میں زیادہ اور دیرپا ہوتا ہے۔

    مجموعی طور پر تینوں ویکسینز سے کورونا کی مختلف اقسام کے خلاف مدافعتی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔

  • ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    ایسٹرا زینیکا ویکسین کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق

    دنیا بھر میں کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے ایسٹرا زینیکا ویکسین استعمال کروائی جارہی ہے اور اب حال ہی میں اس کی افادیت کے بارے میں نئی تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق سے پتہ چلا کہ ایسٹرا زینیکا ویکسین کووڈ 19 کی علامات والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے 74 فیصد تک مؤثر ہے۔

    ایسٹرا زینیکا کی جانب سے جاری نتائج میں بتایا گیا کہ بیماری سے بچاؤ کی مجموعی افادیت 74 فیصد تھی مگر 65 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد میں یہ ویکسین تحفظ کے لیے 83.5 فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔

    اس سے قبل مارچ 2021 میں کمپنی کی جانب سے ٹرائل کے عبوری نتائج میں ویکسین کی افادیت 79 فیصد بتائی گئی تھی مگر کمپنی نے چند دن بعد گھٹا کر 76 فیصد کر دی تھی۔

    اس ٹرائل میں امریکا، چلی اور پیرو کے 26 ہزار سے زائد افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا جن میں سے 17 ہزار 600 کو ویکسین کی 2 خوراکیں ایک ماہ کے وقفے سے استعمال کروائی گئیں جبکہ 8500 کو پلیسبو استعمال کرایا گیا۔

    ویکسین استعمال کرنے والے افراد میں سے کسی میں بھی کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا جبکہ پلیسبو گروپ میں ایسے 8 کیسز دریافت ہوئے۔

    پلیسبو گروپ کے 2 افراد بیماری کے باعث ہلاک ہوئے جبکہ ویکسین گروپ میں کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔

    تحقیق میں شامل جونز ہوپکنز یونیورسٹی کی ڈاکٹر اینا ڈیوربن نے بتایا کہ یہ ویکسین بیماری کی سنگین شدت اور اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    ٹرائل میں شامل کسی رضا کار میں بلڈ کلاٹنگ کا مضر اثر سامنے نہیں آیا جو اکثر اس ویکسین سے منسلک کیا جاتا ہے۔

    جولائی 2021 میں ایسٹرا زینیکا نے کہا تھا کہ وہ یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن سے ویکسین کی ہنگامی استعمال کی منظوری کی بجائے مکمل منظوری کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

    کمپنی کی جانب سے ویکسین کے بوسٹر ڈوز کے اثرات کی جانچ پڑتال بھی ایسے افراد میں کی جارہی ہے جن کو ایسٹرا زینیکا ویکسین یا فائزر یا موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کروائی جاچکی ہیں۔

  • ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    ایک اور چینی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار

    بیجنگ: چینی کمپنی کین سائنو کی کووڈ 19 کی ایک خوراک والی ویکسین بچوں کے لیے محفوظ قرار دی گئی ہے، تحقیق کے مطابق ویکسین کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چینی کمپنی کین سائنو کی ایک خوراک والی کووڈ 19 ویکسین کو کم مقدار میں بچوں کو دینا محفوظ اور بیماری سے بچاؤ کے لیے مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتا ہے۔

    چین میں ہونے والی اس تحقیق میں 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں کو بالغ افراد کے مقابلے میں ویکسین کی کم خوراک کا استعمال کروایا گیا تھا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ بہت کم بچوں میں ویکسی نیشن کے بعد بخار اور سر درد کی علامات ظاہر ہوئیں جن کی شدت لیول 2 تھی۔

    تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی خوراک کی کم مقدار سے بھی بچوں میں بالغ افراد سے زیادہ تعداد میں اینٹی باڈیز بن گئیں۔ اس تحقیق میں 150 بچوں اور 300 بالغ افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں علم ہوا کہ ویکسین کی کم مقدار والی ایک خوراک سے ہی بچوں میں ویکسی نیشن کے 56 دن بعد بالغ افراد کے مقابللے میں زیادہ طاقتور اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوا۔

    مگر فی الحال یہ واضح نہیں کہ ویکسین سے بچوں کو کووڈ 19 کے خلاف کس حد تک تحفظ حاصل ہوتا ہے۔

    کین سائنو کو ابھی تک چین میں بچوں کے لیے استعمال کرنے کی منظوری نہیں دی گئی بلکہ سائنو ویک اور سائنو فارم کو 3 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو استعمال کرانے کی اجازت دی گئی ہے۔

  • جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی ایک خوراک ناکافی؟

    جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی ایک خوراک ناکافی؟

    امریکا میں اس وقت جانسن اینڈ جانسن ویکسین کی صرف ایک خوراک استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور حال ہی میں کمپنی نے ایک تحقیق میں بتایا کہ ان کی ویکسین کی 2 خوراکیں غیر معمولی حد تک مؤثر ہوسکتی ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جانسن اینڈ جانسن نے اعلان کیا ہے کہ اس کی کووڈ 19 ویکسین بیماری کی معتدل سے سنگین شدت سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔

    بیان کے مطابق امریکا میں تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین کی دوسری خوراک سے کووڈ 19 کی معتدل سے زیادہ شدت کے حوالے سے 94 فیصد سے تحفظ ملا، اسی طرح عالمی سطح پر اضافی خوراک سے ملنے والے تحفظ کی شرح 74 فیصد تھی۔

    کمپنی کے مطابق دوسری خوراک کے استعمال کے 14 دن بعد لوگوں کو کووڈ 19 کی سنگین شدت کے خلاف 100 فیصد تحفظ ملا۔

    بیان میں مزید بتایا گیا کہ ویکسین کی دوسری خوراک ٹرائل میں شامل رضا کاروں کو پہلی خوراک کے 2 ماہ بعد دی گئی تھی۔

    ویکسین کی افادیت کے یہ اعداد و شمار 30 ہزار افراد پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا سے حاصل ہوئے جن کو ویکسین کی دوسری خوراک 56 دن کے وقفے کے دوران دی گئی تھی۔

    کمپنی نے بتایا کہ ویکسین کی 2 خوراکیں استعمال کرنے والے 14 افراد میں کووڈ 19 کی معتدل سے زیادہ شدت کی تشخیص ہوئی تھی جبکہ پلیسبو استعمال کرنے والے 52 افراد کو بیماری کا سامنا ہوا، ان میں سے کسی مریض کو سنگین پیچیدگیوں کا سامنا نہیں ہوا۔

    اس ڈیٹا کو ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں کیا گیا اور نہ ہی طبی ماہرین نے اس کی جانچ پڑتال کی ہے۔

    امریکا میں جانسن اینڈ جانسن کی صرف ایک خوراک استعمال کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور دوسری خوراک کی اجازت نہیں۔

  • کینسر کے مریضوں کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن مؤثر قرار

    کینسر کے مریضوں کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن مؤثر قرار

    ماہرین کا کہنا ہے کہ مختلف بیماریوں بشمول کینسر کا شکار افراد کووڈ 19 کے خطرے کا زیادہ شکار ہوتے ہیں، حال ہی میں ایک تحقیق میں علم ہوا کہ کینسر کا شکار افراد کے لیے بھی کووڈ ویکسی نیشن ضروری ہے۔

    حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 سے تحفظ کے لیے ویکسی نیشن کینسر کے مریضوں کے لیے بھی عام افراد جتنی محفوظ اور مؤثر ثابت ہوتی ہے۔

    یورپین سوسائٹی فار میڈیکل آنکولوجی کی سالانہ کانفرنس کے دوران ان تحقیقی رپورٹس کو پیش کیا گیا جن کے مطابق ویکسی نیشن سے کینسر کے مریضوں میں کووڈ 19 کے خلاف تحفظ فراہم کرنے والا مدافعتی ردعمل بنا جبکہ عام مضر اثرات سے زیادہ کوئی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کینسر کے مریضوں میں کووڈ 19 ویکسی نیشن کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

    ان تحقیقی رپورٹس پر کام اس لیے کیا گیا کیونکہ ویکسینز کے ٹرائلز کے دوران کینسر کے مریضوں کو شامل نہیں کیا گیا تھا جس کی وجہ کینسر کے علاج کے باعث مدافعتی نظام کمزور ہونا تھا۔

    ایک تحقیق میں 3 ہزار 813 افراد پر مبنی تھی جن میں کینسر کی تاریخ تھی یا وہ اب بھی کینسر کے شکار تھے۔

    ان افراد پر فائزر / بائیو این ٹیک کووڈ 19 ویکسین کا کنٹرول ٹرائل کیا گیا اور دریافت ہوا کہ ان افراد میں ویکسی نیشن کے بعد ظاہر ہونے والے مضر اثرات معمولی اور لگ بھگ ویسے ہی تھے جو ویکسین کے 44 ہزار سے زائد افراد کے ٹرائلز میں دریافت ہوئے تھے۔

    ایک اور تحقیق میں نیدر لینڈز کے مختلف ہسپتالوں کے 791 مریضوں کو شامل کرکے 4 گروپس میں تقسیم کیا گیا۔

    ایک گروپ ایسے افراد کا تھا جن کو کینسر نہیں تھا، دوسرا امیونو تھراپی کرانے والے کینسر کے مریضوں، تیسرا کیموتھراپی کرانے والے مریض اور چوتھا ایسے مریضوں کا تھا جن کا کیمو اور امیونو تھراپی علاج ہورہا ہے۔

    ان افراد میں موڈرنا ویکسین کی 2 خوراکوں سے بننے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کی گئی۔

    دوسری خوراک کے 28 دن بعد کیمو تھراپی کرانے والے 84 فیصد، کیمو امیمونو تھراپی کرانے والے 89 فیصد اور 93 فیصد امیونو تھراپی کرانے والے مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی مناسب سطح کو دریافت کیا گیا۔

    یورپین انسٹی ٹیوٹ آف آنکولوجی کے ماہر ڈاکٹر انٹونیو پاسارو جو تحقیق کا حصہ نہیں تھے، نے بتایا کہ نتائج 99.6 فیصد تک ان افراد کے گروپ کے اینٹی باڈی ردعمل سے مماثلت رکھتے ہیں جن کو کینسر نہیں تھا۔

    انہوں نے کہا کہ ویکسین کی افادیت ٹرائل کے شامل تمام افراد میں بہت زیادہ دریافت کی گئی۔

    تیسری تحقیق میں برطانیہ کے کینسر کے 585 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو ایسٹرا زینیکا یا فائزر ویکسین کا استعمال کرایا گیا تھا۔

    ان میں سے 31 فیصد کو کووڈ 19 کا سامنا ہوچکا تھا اور ان میں ویکسی نیشن کے بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح کو بہت زیادہ دیکھا گیا۔

  • بوسٹر ڈوز کے حوالے سے چین میں نئی تحقیق

    بوسٹر ڈوز کے حوالے سے چین میں نئی تحقیق

    امریکی طبی ماہرین نے کووڈ ویکسین کی بوسٹر ڈوز کے حوالے سے فیصلہ کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ تمام شہریوں کو تیسری خوراک نہ دی جائے، بوسٹر ڈوز کے حوالے سے چین کی بھی ایک تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق چین میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ سائنو فارم کی کووڈ 19 ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے چند ماہ بعد وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں آنے والی کمی بوسٹر ڈوز سے دور کی جاسکتی ہے۔

    سن یاٹ سین یونیورسٹی کی تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوئی کہ ویکسین کی تیسری خوراک سے کرونا وائرس کے خلاف خلیات پر مبنی مدافعتی ردعمل بھی مضبوط ہوتا ہے۔

    یہ نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب چین میں بیماری کے زیادہ خطرے سے دو چار افراد کو بوسٹر ڈوز دینے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔

    یہ فیصلہ وقت کے ساتھ ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں کمی کے خدشات پر کیا گیا۔

    سائنو فارم ویکسین پاکستان سمیت متعدد ممالک میں کووڈ کی روک تھام کے لیے استعمال کی جارہی ہے اور چین کی ویکسی نیشن مہم میں اسے مرکزی حیثیت حاصل ہے۔

    ویکسی نیشن کروانے والے ہیلتھ ورکرز کے نمونوں کے تجزیے کے بعد تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سائنو فارم کی دوسری خوراک کے استعمال کے 5 ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی شرح میں 70 فیصد تک کمی آئی۔

    مگر ویکسین کی تیسری خوراک کے استعمال کے ایک ہفتے بعد اینٹی باڈیز کی شرح میں 7.2 گنا اضافہ ہوگیا۔

    تحقیق میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اینٹی باڈیز کی سطح میں تبدیلی سے ویکسین کی افادیت پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں یا کورونا کی نئی اقسام کے خلاف کتنا تحفظ ملتا ہے۔

  • چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چینی ویکسین 3 سال کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار

    چین میں تیار کی جانے والی ایک کووڈ 19 ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے بھی قابل استعمال قرار دی گئی ہے، چین میں اس ویکسین کا استعمال فی الحال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق چین کی ایک کمپنی کی تیار کردہ کووڈ ویکسین 3 سال تک کے بچوں کے لیے محفوظ ہے، یہ بات سائنو فارم ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے کلینکل ٹرائلز کے نتائج میں سامنے آئی۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ انفیکشیز ڈیزیز میں ٹرائلز کے نتائج شائع ہوئے جس کے مطابق یہ ویکسین 3 سے 17 سال کی عمر کے رضاکاروں میں محفوظ ثابت ہوئی۔

    چین میں اس ویکسین کا استعمال 12 سال کی عمر کے بچوں میں ہورہا ہے۔

    ٹرائلز میں دریافت کیا گیا کہ 2 خوراکوں والی یہ ویکسین بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل اور بالغ افراد جتنی وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں۔

    کمپنی اور چائنا سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ تیسرے مرحلے کے ٹرائلز کا ڈیٹا متحدہ عرب امارات سے اکٹھا کیا جائے گا جہاں 3 سال کے بچوں کو ویکسی نیشن پروگرام کا حصہ بنایا جارہا ہے۔

    چائنا سینٹر فار ڈیزیز اینڈ پریونٹیشن کے ویکسی نیشن پروگرام کے سربراہ وانگ ہواچنگ نے بتایا کہ چین میں ایک ارب افراد کی ویکسی نیشن مکمل کرنے کا سنگ میل طے کرلیا گیا ہے مگر اب بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ اب بھی 12 سال سے کم عمر بچوں کی ویکسی نیشن نہیں ہوسکی ہے اور ان کو اس پروگرام کا حصہ بنایا جانا چاہیئے۔

    ان ٹرائلز کے پہلے مرحلے میں 288 جبکہ دوسرے مرحلے میں 720 بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔

    نتائج میں بتایا گیا کہ ویکسین سے ہونے والا مضر اثر بیشتر بچوں میں معمولی سے معتدل تھا، بس ایک بچے کو شدید الرجک ری ایکشن کا سامنا ہوا جس میں پہلے سے فوڈ الرجی کی تاریخ تھی۔