Tag: ٹرائل

  • بانی پی ٹی آئی کے دور میں بہت سے سویلینز کا فوجی ٹرائل کیا گیا: خواجہ آصف

    بانی پی ٹی آئی کے دور میں بہت سے سویلینز کا فوجی ٹرائل کیا گیا: خواجہ آصف

    اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے دور میں بہت سے سویلینز کا فوجی ٹرائل کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر دفاع خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید دونوں حصہ دار تھے۔

    وزیر دفاع نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان کے فوجی ٹرائل کے حوالے سے قانون فیصلہ کرے گا، بانی پی ٹی آئی کے دور میں بہت سے سویلینز کا فوجی ٹرائل کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ بانی کو اقتدار میں لانے کے حوالے سے اہم کردار فیض حمید کا تھا، جب ایسی شہادتیں سامنےآئیں گی تو لازمی بات ہے چیزیں دائیں بائیں جائیں گی۔

    خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ یہ پارٹنرشپ 2018 کے الیکشن سے پہلے سے چل رہی تھی ان کی پارٹنر شپ 2018 کے الیکشن اور 9 مئی کے بعد بھی چلتی رہی ہے۔

     ان کا کہنا تھا کہ ثبوت سامنے آئیں گے کہ کیسے آرٹی ایس بٹھا کر بانی کو اقتدار میں لایا گیا، کس طرح مخالفین کو قید کیا گیا سب سامنے آجائے گا، پی ٹی آئی نے تو پارلیمنٹ میں 12 شہدا کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی۔

    خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ گنڈا پور جب بھاگے تو ان کے گارڈز نے فائرنگ کی اور اپنے لوگوں کو مارا، پی ٹی آئی صوبائیت اور لسانیت کارڈ کھیل رہی ہے، یہ آخری کارڈ ہے پی ٹی آئی کا کہ اگر کوئی ہمارا ہاتھ نہیں پکڑتا تو ہم ایسا کریں گے۔

  • کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    کرونا وائرس کے خلاف ایک اور نئی ویکسین، حوصلہ افزا نتائج

    پیرس: فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 فیصد تک کام کرتی ہے۔

    کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔

    کمپنی کا دعویٰ ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

    والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا آزمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔

    کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95 فیصد تک بڑھ گئی تھی۔

    کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔

    کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔

    اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج آنے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

    کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر 2022 کے آغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین مارچ 2022 تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔

  • کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کووڈ 19 ویکسین: پہلی بار بچوں پر ٹرائل شروع

    کرونا وائرس نے درمیانی اور بڑی عمر کے افراد کو خاصا متاثر کیا ہے یہی وجہ ہے کہ اب تک جتنی ویکسینز بنائی گئیں انہیں اسی عمر کے افراد پر آزمایا گیا، اب کووڈ ویکسین کا بچوں پر ٹرائل کرنے پر غور کیا جارہا ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکی کمپنی موڈرنا نے 6 سے 12 سال تک کے بچوں پر کووڈ 19 ویکسین کا ٹرائل شروع کردیا ہے، کمپنی کی جانب سے اس ٹرائل میں 6 ہزار 750 بچوں کو شامل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

    کمپنی کے سی ای او اسٹیفن بینسل نے ایک بیان میں بتایا کہ ہم ایم آر این اے 1273 کووڈ ویکسین کا ٹرائل امریکا اور کینیڈا میں صحت مند بچوں پر شروع کر رہے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بچوں پر ہونے والی اس تحقیق سے اس عمر کی آبادی میں کووڈ 19 ویکسین کی افادیت اور محفوظ ہونے کے بارے میں جاننے میں مدد ملے گی۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بالغ افراد کے مقابلے میں کووڈ 19 سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد بہت کم ہے، مگر وہ اس بیماری کا شکار ہوسکتے ہیں اور وائرس کو آگے پھیلا سکتے ہیں۔

    اس سے قبل فائزر نے بھی فروری میں اعلان کیا تھا کہ وہ 5 سال یا اس سے زائد عمر کے بچوں پر ایک کووڈ ویکسین کی آزمائش کرے گی جبکہ آکسفورڈ / ایسٹرا زینیکا نے بھی 6 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی جانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے۔

    اسی طرح جانسن اینڈ جانسن بھی نومولود سے لے کر 18 سال کی عمر کے بچوں پر ایک سنگل ڈوز کووڈ ویکسین کی آزمائش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

  • 15 سال قبل سیاسی مخالفت پر قتل ہونے والے شہری کو انصاف مل گیا

    15 سال قبل سیاسی مخالفت پر قتل ہونے والے شہری کو انصاف مل گیا

    کراچی: صوبہ سندھ کے شہر محراب پور میں 15 سال قبل ہونے والے کیس کا دوبارہ ٹرائل، سیاسی مخالفت پر قتل کرنے والے کو عمر قید کی سزا دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ سندھ کے شہر محراب پور میں 15 سال پرانے قتل کیس کا ٹرائل دوبارہ کراچی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ہوا۔

    سنہ 2006 میں ہونے والے اس جرم میں سلیمان نامی شہری کو قتل کیا گیا تھا، استغاثہ نے بتایا کہ شہری کو سیاسی مخالفت پر قتل کیا گیا۔

    اے ٹی سی نے قتل کا جرم ثابث ہونے پر مجرم اختر علی کو عمر قید کی سزا سنادی، مجرم پر 2 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مجرم اختر علی کو 2 لاکھ روپے مقتول کے ورثا کو ادا کرنا ہوں گے۔

    مجرم کو غیر قانونی اسلحے کے مقدمے میں بھی 7 سال قید کا حکم دیا گیا ہے، مقدمے میں مفرور دیگر ملزمان عطا مری اور ریاض شاہ کو اشتہاری قرار دے دیا گیا۔

  • ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    ویکسین کے کلینیکل ٹرائلز کے کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    واشنگٹن: دنیا بھر میں کرونا وائرس کی مختلف ویکسینز کی تیاری پر کام جاری ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے آغاز سے لے کر اسے منظور کیے جانے تک کیا کیا مراحل ہوتے ہیں؟

    امریکی فوج کا والٹر ریڈ کا تحقیقی انسٹی ٹیوٹ کا کلنیکل آزمائشی تجربات کا مرکز، کوویڈ 19 کی ویکسینز کے کئی ٹرائلز کر رہا ہے۔ اس مرکز کی ڈائریکٹر، لیفٹننٹ کرنل میلنڈا ہیمر کہتی ہیں، ویکسین کے وسیع پیمانے پر کیے جانے والے کلینیکل آزمائشی تجربات انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ویکسین کی جانچ پڑتال کے عمل میں ہم انہیں انتہائی اہم قدم یا حتمی قدم کہتے ہیں۔

    ان سے خوراک اور دواؤں کا ادارہ یہ جان سکتا ہے کہ آیا کوئی ویکسین اتنی زیادہ محفوظ اور مؤثر ہے کہ اسے وسیع پیمانے کے عوامی استعمال کی اجازت دی جائے۔

    ماڈرینا کی کوویڈ 19 کے آزمائشی تجربات پر تحقیق کی سربراہ، میامی یونیورسٹی کی ڈاکٹر سوزین لوئس کہتی ہیں کہ حقیقی معنوں میں یہ بات بہت اہم ہے کہ یہ ویکسین ہر ایک کے لیے مؤثر ہو، یا اگر مؤثر نہیں ہے تو ہم سمجھ سکیں کہ کیوں نہیں ہے۔

    امریکا میں اگر یہ نتائج اس کے متعلق کافی معلومات فراہم کریں کہ ویکسین کس طرح کام کرتی ہے، کیا یہ محفوظ ہوگی اور متعدی بیماری کے خلاف انسانوں میں اچھی طرح کام کرے گی، تو ویکسین تیار کرنے والے ویکسین کے کلینیکل آزمائشی تجربات کے لیے ایف ڈی اے سے اجازت کی درخواست کرتے ہیں۔

    انسانوں پر کلینیکل آزمائشی تجربات اس لیے کیے جاتے ہیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ ویکسین انسانوں کے لیے محفوظ اور مؤثر ہے یا نہیں۔ عام طور پر اس کے 3 مراحل ہوتے ہیں۔

    پہلے مرحلے میں رضا کاروں کے ایک چھوٹے گروپ کو ویکیسن لگائی جاتی ہے تاکہ محققین ویکسین کی مختلف خوراکوں سے اس کے محفوظ ہونے کا جائزہ لے سکیں۔

    محققین یہ معلوم کرتے ہیں کہ آیا ویکسین کی خوراکوں کے بڑھانے سے منفی ردعمل پیدا ہوسکتے ہیں، اور اگر ممکن ہو تو ویکسین سے پیدا ہونے والے مدافعتی ردعمل کی حد کے بارے میں ابتدائی معلومات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔

    دوسرے مرحلے میں بے ترتیب اور محدود جائزوں میں کئی سو رضا کاروں کو یا تو ویکسین یا پلیسبو (نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی جاتی ہے۔

    اس مرحلے پر محققین سلامتی پر نظر رکھے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ مختصر مدت کے ذیلی اثرات یا خطرات اور ویکسین کے مؤثر پن کے بارے میں ابتدائی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    تیسرے مرحلے میں عام طور پر ہزاروں افراد کو ویکسین لگائی جاتی ہے۔ ویکسین کے بعض کلینیکل تجربات میں کئی ہزار افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کی ایک مثال کوویڈ 19 ویکسین کے جاری تجربات ہیں جس میں لاکھوں کے حساب سے لوگ حصہ لے رہے ہیں۔

    اس مرحلے پر توجہ مؤثر پن یا بیماری کو روکنے کی استعداد پر مرکوز ہوتی ہے اور اس میں ویکسین لگوانے والے لوگوں کا موازنہ ان لوگوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کو پلیسبو ( نقلی ویکسین) یا ایف ڈی اے کی منظور شدہ کوئی ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    ماڈرینا کی تیارکردہ ایم آر این اے ویکسین کے ایلی نوائے یونیورسٹی کے تیسرے مرحلے کے تجربات کی سربراہی کرنے والے، رچرڈ ایم نواک کہتے ہیں، ان لوگوں کے مقابلے میں جنہوں نے پلیسبو لگوائی ہوتی ہے، ہمیں ایسے لوگوں میں کم سے کم تر تعداد میں قابل تشخیص بیماریوں کی توقع ہوتی ہے جن کو ویکسین لگائی گئی ہوتی ہے۔

    نواک کہتے ہیں کہ متنوع قسم کے افراد کو کوویڈ 19 کی ویکسین کے آزمائشی تجربات میں شامل کرنا ضروری ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہاں امریکا میں رنگ دار لوگوں میں کرونا وائرس کے انفیکشن غیر متناسب طور پر زیادہ رونما ہو رہے ہیں، لہٰذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ویکسین کے آزمائشی تجربات لوگوں کے متنوع گروہوں پر کریں۔

    جب ویکسین بنانے والی کمپنی ویکسین کی تیاری کا اپنا پروگرام کامیابی سے مکمل کر لیتی ہے اور سلامتی اور مؤثر پن کا معقول مقدار میں ڈیٹا جمع کر لیتی ہے تو کمپنی ویکسین کو امریکا میں تقسیم کرنے اور مارکیٹ میں لانے کے لیے ایف ڈی اے کو درخواست کر سکتی ہے۔

    ایف ڈی اے یہ وضع کرنے کے لیے کہ ویکسین کا محفوظ اور مؤثر استعمال عملی طور پر ثابت ہو چکا ہے، مقررہ مدت میں ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا ہے۔

    کوویڈ 19 کی ویکسینز کے معاملے میں محققین ہنگامی استعمال کے اجازت نامے کی درخواست بھی کر سکتے ہیں۔ مگر بعض حالات میں انہیں اس کی تائید میں عوامی صحت کی ہنگامی حالت جیسی دلیل پیش کرنا ہوتی ہے۔

    ایسے حالات میں ایف ڈی اے کے ثابت شدہ فوائد کے مقابلے میں ویکسین کے ممکنہ نقصانات کا جائزہ لینے سے پہلے قانونی تقاضے ہر حال میں پورے کرنا ہوتے ہیں۔

    ہیمر کا کہنا ہے کہ جس تیز رفتاری سے کوویڈ 19 کی ویکسینز تیار کی جا رہی ہیں اس کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ کہتی ہیں کہ ہم کئی ایک ویکسینز کو ابتدائی آزمائشی تجربات سے، پہلے انسانی تجربات اور پھر تیسرے مرحلے کے بنیادی آزمائشی تجربات تک ایک سال سے بھی کم عرصے میں جاتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ ایک حیران کن بات ہے۔ ایف ڈی اے نے ان ٹیموں کی کام کرنے میں حقیقی معنوں میں مدد کی ہے۔ اس کا مقصد یہ یقینی بنانا ہے کہ ان کے آزمائشی تجربات کے طریقہ کار نہ صرف محفوظ ہوں اور ان سے مطلوبہ ڈیٹا جمع ہوتا ہو بلکہ وہ محفوظ ترین ممکنہ طریقوں سے کیے بھی جا سکتے ہوں۔

  • آکسفورڈ یونیورسٹی نے ویکسین کا ٹرائل دوبارہ شروع  کر دیا

    آکسفورڈ یونیورسٹی نے ویکسین کا ٹرائل دوبارہ شروع کر دیا

    لندن: آکسفورڈ یونیورسٹی نے کرونا ویکسین کا ٹرائل ایک ہفتے کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی استرا زینیکا کی کرونا وائرس کی ویکسین کا ٹرائل ایک ہفتے کے تعطل کے بعد دوبارہ شروع کر دیا گیا۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ دنیا بھر میں 18 ہزار افراد کو ٹرائلز کے دوران ویکسین استعمال کرائی گئی، اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والے ٹرائل میں یہ ممکن ہے کہ کچھ رضا کاروں کی طبعیت خراب ہوجائے۔

    استرازینیکا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ وہ دنیا بھر میں حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے تاکہ وہاں طبی ٹرائلز دوبارہ شروع کرنے کے حوالے سے رہنمائی فراہم کی جاسکے۔

    کمپنی نے مزید کہا کہ بڑے ٹرائلز میں اتفاقیہ طور پر بیماریاں ہوں گی لیکن آزادانہ طور پر اور احتیاط سے ان کا جائزہ لیا جائے گا۔

    استرازینیکا نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم آزمائشی ٹائم لائن پر کسی بھی ممکنہ اثر کو کم کرنے کے لیے ایک ہی پروگرام سے متعلق جائزے کو تیز کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، ہم اپنے ٹرائلز میں شرکا کی حفاظت کے پابند ہیں۔

    واضح رہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کا ٹرائل آخری مرحلے سے گزر رہا ہے اور پہلے کہا جا رہا تھا کہ یہ ستمبر تک تیار ہوسکتی ہے، مگر اب اس میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

  • چین کی تیار کردہ 4 کرونا وائرس ویکسینز ٹرائلز کے آخری مرحلے میں داخل

    چین کی تیار کردہ 4 کرونا وائرس ویکسینز ٹرائلز کے آخری مرحلے میں داخل

    بیجنگ: چین میں تیار کردہ 4 کرونا وائرس ویکسینز کے ٹرائلز آخری مرحلے میں داخل ہوگئے، آخری مرحلے میں یہ ویکسینز 30 ہزار افراد کو دی جا رہی ہیں۔

    مقامی میڈیا کے مطابق چین میں تیار کردہ کرونا وائرس کی 4 مختلف ویکسینز انسانوں پر تجربات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہوگئیں۔ تیسرا مرحلہ ستمبر کے اوائل میں مکمل ہوگا، ویکسین کے تجربات مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکا میں جاری ہیں۔

    مقامی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان میں سے بعض ویکسینز کے انسانوں پر تجربات کا تیسرا مرحلہ ستمبر کے اوائل میں مکمل ہو جائے گا جبکہ اس مرحلے کے حوالے سے ڈیٹا نومبر میں موصول ہونے کی توقع ہے۔

    رپورٹ کے مطابق تیسرے مرحلے میں یہ ویکسینز 30 ہزار افراد کو دی جا رہی ہیں، اس مرحلے میں انسانوں کے لیے ان کے محفوظ ہونے کی تصدیق کی جا رہی ہے۔

    چونکہ چین میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت کم رہ گئی ہے اس لیے چاروں ویکسینز کے تیسرے مرحلے کے تجربات بیرون ملک کیے جا رہے ہیں، چائنا نیشنل بائیو ٹیک گروپ کی طرف سے تیار کردہ 2 ویکسینز کے انسانوں پرتجربات کا تیسرا مرحلہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی امریکی ممالک میں جاری ہے۔

    ماہرین کے مطابق ویکسین کے عام استعمال سے قبل اس کے انسانوں پر تجربات کے 4 مراحل مکمل ہونا ضروری ہیں اور اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ویکسین متعلقہ مرض سے انسان کو کم از کم 6 ماہ تک محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔

  • روس: کرونا ویکسین ٹیسٹ کا دوسرا مرحلہ کامیاب

    روس: کرونا ویکسین ٹیسٹ کا دوسرا مرحلہ کامیاب

    ماسکو: روس میں کرونا ویکسین کے دوسرے مرحلے میں کامیابی کے ساتھ کلینکل ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔

    روس کا’اسٹیٹ ریسرچ سینٹر آف وائرولوجی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی ویکٹر ‘کرونا ویکسین کے دوسرے مرحلے کا ٹیسٹ کر رہا ہے اور اس میں حصہ لینے والے رضا کاروں کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہے۔

    روس کے واچ ڈاگ روسپوٹریبنڈزر سربراہ انا پوپووا کا کہنا ہے دوسرے مرحلے میں کامیابی کے ساتھ کلینکل ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ جن لوگوں نے ویکسین کی خوراک لی ہے انہیں کسی طرح کا مسئلہ نہیں ہوا۔

    انا پوپووا کا کہنا تھا کہ رضا کاروں کے جسم میں جس جگہ انجیکشن لگایا گیا وہاں پر کسی طرح کے نشان بھی نہیں ہوئے،تمام رضا کاروں کے جسم کا درجہ حرارت بھی نارمل ہے۔

    روس کے واچ ڈاگ روسپوٹریبنڈزر سربراہ نے کہا کہ روس کو وبا کے بحران سے موثر انداز میں نمٹنے کے لیے کرونا کی کئی ویکسین تیار کرنے کی ضرورت ہے اور اس وقت سائنسدان مختلف ویکسین بنانے کی جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں۔

    انا پوپووا کا کہنا تھا کہ یہ بالکل یقینی ہے کہ روس سمیت ہر ملک میں مختلف ویکسین موجود ہونی چاہیے۔

    روس نے دنیا کی پہلی کرونا وائرس ویکسین تیار کر لی

    یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے 11 اگست کو روس نے دنیا کی پہلی کرونا ویکسین استعمال کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

  • کیا یہ دو دوائیں کرونا وائرس کے خلاف کارگر ہیں؟ آزمائش شروع

    کیا یہ دو دوائیں کرونا وائرس کے خلاف کارگر ہیں؟ آزمائش شروع

    لندن: برطانیہ اور تھائی لینڈ میں ہیلتھ ورکرز کو وڈ 19 کی دو دواؤں کی آزمائش میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ یہ اینٹی ملیرائی ادویات کرونا وائرس کو روک سکتی ہیں، ان میں سے ایک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی لے رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کرونا وائرس کی دو دواؤں کی آزمائش میں یورپ، ایشیا،افریقا اور جنوبی امریکا سے 40 ہزار سے زائد ہیلتھ ورکرز حصہ لے رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ کیا کلوروکین اور ہائیڈروکسی کلورو کوائن کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں کردار ادا کرسکتی ہیں۔

    امریکی صدر کی جانب سے گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے بیان کے بعد ہائیڈروکسی کلورو کوائن کی مانگ میں اضافہ ہوگیا تھا۔ڈونلڈ ٹرمپ ڈاکٹروں کی جانب سے واضح ہدایات کے باوجود روزانہ ملیریا کی دوا لے رہے ہیں۔

    کرونا کی دو دواؤں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں شامل یونیورسٹی آف آکسفورڈ کے پروفیسر نکولس وائٹ کا غیرملکی خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم ابھی تک نہیں جانتے یہ فائدہ مند ہے یا نہیں۔

    بنکاک میں مہیڈول آکسفورڈ ٹراپیکل میڈیسن ریسرچ یونٹ میں کام کرنے والے پروفیسر نکلولس وائٹ کا کہنا تھا کہ بڑے پیمانے پر کلینیکل ٹرائل کر کے ہی پتہ لگایاجا سکتا ہے کہ یہ دوائیں کتنی سود مند ثابت ہوسکتی ہیں۔

    سی او پی سی او وی ٹیم کے مطابق لیبارٹری شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ اینٹی ملیرائی دوائیں کرونا وائرس کی روک تھام یا علاج میں موثر ثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ملا۔

    یاد رہے کہ 18 مئی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ وہ ڈاکٹرز کی تنبیہ کے باوجود ملیریا کی دوا ہائیڈروکسی کلورو کوائن کا استعمال کر رہے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ ہر روز کووڈ 19سے نجات پانے کے لیے ہائیڈروکسی کلورو کوائن لے رہے ہیں۔امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ میں گزشتہ دو ہفتوں سے یہ دوا روزانہ کھا رہا ہوں۔

  • اماراتی عدالت نے شوہر کو قتل کی دھمکیاں دینے والی خاتون کو ٹرائل پر بھیج دیا

    اماراتی عدالت نے شوہر کو قتل کی دھمکیاں دینے والی خاتون کو ٹرائل پر بھیج دیا

    ابو ظبی : اماراتی محمکہ انصاف نے شوہر کو دھمکانے اور اس کے اہل خانہ کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنے والی خاتون کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق متحدہ عرب امارات کی عدالت نے مبینہ طور پر اپنے شوہر کے اہل خانہ کی تصاویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپلوڈ کرنے اور قتل کی دھمکیاں دینے والی فلپائنی خاتون کو ٹرائل پر بھیج دیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ 34 سالہ فلپائنی خاتون کو قتل کی دھمکیاں دینے، زبانی ہراساں کرنے اور بغیر دوسرے کی تصاویر نام کے ساتھ سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے مقدمات کا سامنا کرنا ہے۔

    پبلک پراسیکیوٹر نے عدالت نے اپیل کی ہے کہ مذکورہ خاتون کو اماراتی قوانین کے مطابق سخت سزا سنائی جائے۔

    پبلک پراسیکیورٹی کی دستاویزات کے مطابق خاتون اپنے شوہر کو واٹس ایپ، میسنجر اور اسنیپ چیٹ کے ذریعے ہراسگی کے پیغامات بھیجتی تھی۔

    متاثرہ یمنی شخص نے عدالت کو بتایا کہ میرے دوست نے سوشل میڈیا پر میرے نام سے ایک اکاؤنٹ دیکھا جس پر میرے اہکل خانہ کی تصاویر شائع تھیں، جس کے بعد میں سماجی رابطے کی تمام سائٹس پر میرے نام سے بنائے گئے اکاؤٹنس چیک کیے جو میری ملزمہ نے بنائے تھے۔

    پبلک پراسیکیورٹ نے عدالت بتایا کہ ملزمہ نے دوران تفتیش شکایت کنندہ کے نام سے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹس بنانے اور اس پر بغیر اجازت والد والدہ اور دوسری اہلیہ کی تصاویر شائع کرنے کا اعتراف کیا۔

    اماراتی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ پولیس نے فپلائنی خاتون کو گزشتہ برس 16 دسمبر کو گرفتار کیا تھا۔