Tag: ٹرمپ انتظامیہ

  • ٹرمپ انتظامیہ اپنی سخت امیگریشن پالیسی کے نتائج سے مطمئن

    ٹرمپ انتظامیہ اپنی سخت امیگریشن پالیسی کے نتائج سے مطمئن

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن قوانین سے متعلق اپنی سخت پالیسی کے ابتدائی نتائج کو سراہتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

    اگرچہ ان اقدامات پر قانونی عمل اور انسانی حقوق کے حوالے سے شدید تحفظات اور خدشات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

    وائٹ ہاؤس کے لان پر ان مبینہ مجرموں کی تصاویر لگائی گئی ہیں اور ایسے شہروں و ریاستوں کو نشانہ بنانے کا عندیہ دیا گیا ہے جو وفاقی امیگریشن حکام سے مکمل تعاون نہیں کرتے۔

    غیرملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان کیرولین لیوٹ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ 3 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کریں گے، جس کے تحت اٹارنی جنرل کو ایسے شہروں اور ریاستوں کی نشاندہی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جو وفاقی امیگریشن قوانین پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔

    دوسرا آرڈر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان روابط سے متعلق ہے اس کے علاوہ تیسرا حکم کمرشل ٹرک ڈرائیوروں کے لیے انگریزی زبان کی قابلیت سے متعلق ہے۔

    یاد رہے کہ دوسری مرتبہ صدارت کے عہدے پر فائز ہونے کے فوری بعد صدر ٹرمپ نے امیگریشن قوانین کے نفاذ کے لیے جارحانہ مہم شروع کی تھی جس میں جنوبی سرحد پر سیکیورٹی فورسز کی تعیناتی اور غیر قانونی تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کے وعدے شامل ہیں۔

    وائٹ ہاؤس میں ایک بریفنگ کے دوران امریکی حکام نے بتایا کہ صدر ٹرمپ کے ابتدائی تین ماہ میں غیر قانونی سرحدی داخلوں میں نمایاں کمی آئی ہے، حالانکہ انسانی حقوق کے کارکنوں اور قانون دانوں نے ان اقدامات کے تحت حراست میں لیے گئے افراد کے عدالتی حقوق پر تشویش کا اظہار کیا۔

    رپورٹ کے مطابق امریکی فوجیوں نے مارچ میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے والے 7200تارکین وطن کو گرفتار کیا جو سال 2000 کے بعد سے سب سے کم تعداد ہے اور دسمبر 2023 میں 2 لاکھ 50ہزار کی بلند ترین سطح سے کم ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کے اہلکار ٹام ہومن نے بریفنگ میں بتایا کہ ہمارے پاس ملکی تاریخ کی سب سے محفوظ سرحد ہے اور حالیہ اعداد و شمار اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

    دوسری جانب امریکی سول لبرٹیز یونین کے مطابق ڈیموکریٹس اور شہری حقوق کے وکلاء نے ٹرمپ کی نفاذ کی سخت حکمت عملیوں پر تنقید کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ کئی امریکی شہری بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ ملک بدر کردیا گیا، ان میں سے ایک بچہ ایک کینسر کا مریض بھی تھا۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کا محکمہ صحت کی فنڈنگ سے 40 ارب ڈالر کم کرنے کا فیصلہ

    ٹرمپ انتظامیہ کا محکمہ صحت کی فنڈنگ سے 40 ارب ڈالر کم کرنے کا فیصلہ

    واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی محکمہ صحت کی 40 ارب ڈالر کی فنڈنگ روکنے کی تیاری کر لی۔

    واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ محکمہ صحت اور دیگر سماجی اداروں کے لیے مختص فنڈز میں چالیس ارب ڈالر کی کٹوتی پر غور کر رہی ہے۔

    یہ کٹوتی محکمہ صحت کے صوابدیدی اخراجات میں تقریباً ایک تہائی کے قریب ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ صحت کے فنڈز میں کٹوتی کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے، جس کو آئندہ مالی سال کے بجٹ سے پہلے منظوری کے لیے کانگریس میں بھیجا جائے گا۔

    واشنگٹن پوسٹ نے بدھ کے روز ابتدائی بجٹ دستاویز حاصل کی تھی، 64 صحفات پر مشتمل دستاویز میں نہ صرف کٹوتیوں بلکہ محکمہ صحت اور سماجی اداروں کی تنظیم نو کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔


    امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف خطرے کی گھنٹی بجادی


    ٹرمپ انتظامیہ کے بجٹ کی تجاویز میں مالی سال 2026 کے لیے ’ہیڈ اسٹارٹ‘ (کم آمدنی والے خاندانوں اور بچوں کے لیے) جیسے پروگراموں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جو ان کمیونٹی مینٹل ہیلتھ کلینک کے لیے فنڈنگ کرتا ہے جن کا مقصد نوعمری کے حمل کو روکنا ہے۔

    واضح رہے کہ اس بجٹ تجویز میں ’ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز‘ کے اندر ایک نئی ایجنسی (ایڈمنسٹریشن فار اے ہیلتھی امریکا) کے لیے تقریباً 20 ارب ڈالر مختص کیے جانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے، ایچ ایچ ایس کے سیکریٹری رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ انھوں نے کئی موجودہ ایجنسیوں کو اس نئے ادارے میں ضم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

    دستاویز کے مطابق ایچ ایچ ایس سیکریٹری کی طرف سے ٹرمپ انتظامیہ کے نام نہاد ’’میک امریکا ہیلتھی اگین‘‘ پروگرام کی حمایت کرنے والی سرگرمیوں کے لیے 500 ملین ڈالر مختص کرنے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔

  • امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف خطرے کی گھنٹی بجادی

    امریکی عدالت نے ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف خطرے کی گھنٹی بجادی

    واشنگٹن : امریکی عدالت کے جج نے متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف توہین عدالت کی کارروائی ممکن ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی عدالت کے ایک جج نے جبری ملک بدری کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا عندیہ دے دیا۔

    فیڈرل جج جیمز بواسبرگ نے کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے تارکین وطن سے متعلق ان کے حکم کی جان بوجھ کر خلاف ورزی کی ہے۔ عدالتی حکم عدولی پر انتظامیہ توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا کرسکتی ہے۔

    فیڈرل جج نے اپنے 46 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا ہے کہ اس معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کے لیے معقول جواز موجود ہے۔

    گزشتہ ماہ وفاقی عدالت کے جج نے اپنے فیصلے میں ٹرمپ انتظامیہ کو وینزویلا کے تارکین وطن افراد کو ایل سلواڈور بھیجنے سے روکا تھا لیکن ٹرمپ انتظامیہ نے ایک پرانے جنگی قانون کا سہارا لے کر انہیں ملک بدر کر دیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جج باسبرگ کے مواخذے کے مطالبے پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔

    یاد رہے کہ گذشتہ مہینے ڈونلڈ ٹرمپ نے 1798 کا ایک قانون نافذ کیا تھا کہ جس کے تحت دشمن ملک کے شہریوں اور مقامی افراد کو بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ملک بدر کیا جاسکتا ہے۔ اس سے قبل اس قانون کا اطلاق 1812 میں ہونے والی جنگ عظیم اول اور دوم کے دوران کیا گیا تھا۔

  • امریکی محکمہ خارجہ کی فنڈنگ نصف کرنے پر غور، ٹرمپ انتظامیہ کا ایک اور بڑا قدم

    امریکی محکمہ خارجہ کی فنڈنگ نصف کرنے پر غور، ٹرمپ انتظامیہ کا ایک اور بڑا قدم

    واشنگٹن: ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی محکمہ خارجہ کی فنڈنگ تقریباً نصف کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق محکمہ خارجہ اور یو ایس ایڈ کا اگلے سال مالی سال کا بجٹ 28.4 کروڑ ڈالر کرنے کی تجویز ہے، محکمہ خارجہ کے فنڈ میں 27 ارب ڈالر یعنی 48 فی صد کٹوتی کی تجویز ہے۔

    دستاویز کی بنیاد پر امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ عالمی امن مشنز کے لیے فنڈنگ میں مکمل کٹوتی اور انسانی بنیادوں پر امداد میں 54 فی صد کمی کی تجویز ہے، گلوبل ہیلتھ فنڈنگ میں 55 فی صد کٹوتی کے علاوہ اقوام متحدہ، نیٹو اور 20 دیگر تنظیموں کی فنڈنگ ختم کرنے کی تجویز ہے۔


    ٹیرف کی جنگ پر اقوام متحدہ کا امریکا سے بڑا مطالبہ


    امریکن فارن سروس ایسوسی ایشن نے اپیل کی ہے کہ کانگریس کٹوتی کی تجاویز مسترد کر دے، کیوں کہ اگر فنڈز میں کٹوتیاں ہوئیں تو چین اور روس خلا پُر کر دیں گے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق 1946 سے جاری فل برائٹ پروگرام بھی ختم کرنے کی تجویزہے، تجاویز سے بھرے میمو پر وزیر خارجہ مارکو روبیو کا ردعمل آج آنے کا امکان ہے۔

  • امریکی عدالت کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کو ایک اور جھٹکا

    امریکی عدالت کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کو ایک اور جھٹکا

    امریکی عدالت کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ کو امریکی خبر ایجنسی پر عائد پابندی ہٹانے اور صدارتی تقریبات تک خبر ایجنسی کے نمائندوں کی رسائی کو بحال کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے وفاقی جج نے وائٹ ہاؤس کوحکم جاری کیا ہے کہ حکومت کو کسی میڈیا ادارے کو ان کے نظریات کی بنیاد پر پابندی لگانے کا حق حاصل نہیں ہے۔

    امریکی عدالت نے حکومتی فیصلے کو امریکی آئین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکی آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ جس کے باعث اس حکم کا معطل کررہے ہیں۔

    جج نے ٹرمپ انتظامیہ کو فیصلے پر عمل درآمد کے لیے 5 دن کی مہلت دے دی تاکہ وہ جواب دے یا اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرے۔

    واضح رہے کہ خلیجِ میکسیکو کا نام بدل کر خلیجِ امریکا نہ لکھنے پر وائٹ ہاؤس میں امریکی خبر ایجنسی کے صحافیوں اور فوٹو گرافر کو فروری کے وسط سے اوول آفس اور ایئر فورس ون پر سفر کرنے سے غیر معینہ مدت تک روک دیا گیا تھا۔

    دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے نیشنل ریپبلکن کانگریشنل کمیٹی کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہم مڈ ٹرم الیکشن جیت کر دکھائیں گے۔

    ٹرمپ کا کہنا تھا کہ وہ پورے امریکا میں مڈ ٹرم الیکشن کے لیے انتخابی مہم کی نگرانی کریں گے، انھوں نے کہا ڈیموکریٹس کے مقابلے ریپبلکن پارٹی کی پوزیشن بہت بہتر ہے، کانگریس میں اگلی بار ڈیموکریٹس پر 100 سے زائد نشستوں کی برتری حاصل کریں گے۔

    صدر امریکا نے کہا کہ ڈیموکریٹس پر عوام کا اعتماد ختم ہو چکا ہے، انھوں نے ٹیرف کے حوالے سے بھی کہا کہ وہ امریکیوں پر جو بڑے پیمانے پر درآمدی ٹیکس عائد کر رہے ہیں، وہ اگلے سال کے وسط مدتی انتخابات میں ان کی ریپبلکن پارٹی کے لیے زبردست فتح کا باعث بنے گی۔

    کیا آج سے چین پر محصولات کم از کم 104 فی صد تک بڑھ جائیں گے؟

    ایک طرف جب ماہرین اقتصادیات خبردار کر رہے ہیں کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ سے امریکی معیشت کو نقصان پہنچے گا، ٹرمپ کا کہنا ہے کہ ”مجھے واقعی لگتا ہے کہ ہمیں ٹیرف کی صورت حال سے بہت مدد ملی ہے، یہ بہت اچھا ہے۔“

  • پاکستان  ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہشمند

    پاکستان ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہشمند

    اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ ملکر کام کرنےکی خواہش کا اظہار کردیا اور دونوں ممالک میں تجارت،سرمایہ کاری میں تعاون کے فروغ پر زور دیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستان منرلزانویسمنٹ فورم میں شرکت کیلئے پاکستان کے دورے پر آئے امریکی وفد سے ملاقات ہوئی ، وفدمیں ایرک میئر، سینئر بیورو آفیشل اورقائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری شامل تھے جبکہ بیورو آف ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشین افیئرز بھی وفد کا حصہ تھا۔

    وزیراعظم شہبازشریف نے فورم میں امریکی شرکت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کےمعدنیات کےشعبےمیں وسیع مواقع موجودہیں، امریکی کمپنیوں کوسرمایہ کاری کےمواقع سے مستفید ہونا چاہیے۔

    وزیراعظم نے ٹرمپ اور انتظامیہ سے ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک میں تجارت،سرمایہ کاری میں تعاون کے فروغ سمیت انسداد دہشت گردی اور باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی اہمیت پر زور دیا۔

    قائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری نے فورم کے کامیاب انعقاد پر پاکستان کو مبارکباد دیتے ہوئے معدنیات کےشعبےمیں وسیع مواقع کا اعتراف کیا۔

    ملاقات میں امریکی کمپنیوں کی جانب سے اس شعبےمیں سرمایہ کاری میں دلچسپی سے آگاہ کیا اور مشترکہ دلچسپی کے امور پر پاکستان سے ملکر کام کرنے کی امریکی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔

    قائم مقام اسسٹنٹ سیکرٹری کا کہنا تھا کہ امریکا پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کے مزید فروغ کا خواہاں ہے۔

    ملاقات میں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار ، وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور احد خان چیمہ سمیت دیگر وزرا اور متعلقہ حکام بھی موجود تھے۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کیلئے یمن پر حملے کا جنگی منصوبہ لیک ہونا درد سر بن گیا

    ٹرمپ انتظامیہ کیلئے یمن پر حملے کا جنگی منصوبہ لیک ہونا درد سر بن گیا

    واشنگٹن : ڈیموکریٹس کی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی میں یمن پر حملے کا جنگی منصوبہ لیک ہونے پر ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید کی۔

    تفصیلات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کیلئے یمن پر حملے کا جنگی منصوبہ لیک ہونا درد سر بن گیا۔

    ڈیموکریٹس کی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی میں ٹرمپ انتظامیہ پر کڑی تنقید کی گئی جبکہ نیشنل انٹیلی جنس، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے سربراہان سے پوچھ گچھ کی گئی۔

    نیشنل انٹیلی جنس، ایف بی آئی اور سی آئی اے کے سربراہان سینیٹ میں وضاحتیں دیتے رہے لیکن سینیٹ کمیٹی کے وائس چئیرمین نے چیٹ لیک کو لاپرواہی اور خطرناک قرار دیا۔

    امریکی انٹیلی جنس سربراہ تلسی گبارڈ نے کہا حوثیوں پر حملوں سے متعلق چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات نہیں تھیں ، جس پر کمیٹی کے سربراہ نے کہا اگر چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات نہیں تھیں تو وہ معلومات سینیٹ میں بھی شئیر کریں، جس پر تلسی گبارڈ خاموش ہوگئیں۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی انتظامیہ کے دفاع کیلئے میدان میں آگئے اور کہا سوشل میڈیا چیٹ میں خفیہ معلومات نہیں تھی،مشیر قومی سلامتی بہترین کام کر رہے ہیں، انھیں معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔

    یاد رہے یمن جنگ کا خفیہ منصوبہ لیک ہونے کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ کی سنگین غلطی پرامریکی سینیٹ کمیٹی میں انٹیلیجنس اداروں کے سربراہان پیش ہوئے۔

    کمیٹی ارکان کی جانب سےنیشنل انٹیلی جنس، سی آئی اے،ایف بی آئی، این ایس اے اورڈی آئی اے ڈائریکٹرزکو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔

    کمیٹی کےوائس چیئرمین نے کہا کہ صحافی کو خفیہ جنگی منصوبے کے چیٹ گروپ میں شامل کرنا ذہن کو جھنجھوڑنےوالا معاملہ ہے۔

    وائٹ ہاؤس نےبھی اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹر انچیف جیفری گولڈبرگ کو اُس گروپ چیٹ میں شامل ہونے کی تصدیق کی ہے، جہاں امریکی حکام حوثیوں کے خلاف حملوں کے منصوبے کے بارے میں بات چیت کررہےتھے۔

    ڈیموکریٹ رہنماؤں نےاس اقدام کو قومی سلامتی کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

    یاد رہے اٹلانٹک میگزین کے ایڈیٹرانچیف جیفری گولڈبرگ نے دعوی کیا تھا کہ انہیں یمن پر حملے سے متعلق دو گھنٹے پہلے ہی پتاچل گیا تھا کیونکہ انہیں ایک ایسے مسیجنگ گروپ پر شامل کیا گیا، جہاں وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نےتمام تر منصوبہ ٹیکسٹ پیغام میں غلطی سے بھیجا تھا۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف ایک اور عدالتی فیصلہ

    ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف ایک اور عدالتی فیصلہ

    امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کیخلاف ایک اور عدالتی فیصلہ سامنے آگیا، ٹرمپ انتظامیہ کو آزاد اور غیرسرکاری ادارے امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس پر قبضے سے روک دیا گیا۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وفاقی جج نے حکومتی کارکردگی کے محکمے ڈاج کی مداخلت کی درخواست مسترد کردی۔

    یاد رہے ایلون مسک نے غیر سرکاری ادارے کے سربراہ سمیت عہدیداران کو برطرف کردیا تھا، جس پر انسٹیٹیوٹ آف پیس کے ملازمین نے برطرفی کیخلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔

    وائٹ ہاؤس نے معاملے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے بیان جاری کیا کہ بد دیانت بیوروکریٹس کے ہاتھوں انتظامیہ یرغمال نہیں ہوگی۔

    اس سے قبل بھی امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جان رابرٹس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف حکم جاری کرنیوالے جج کا مواخذہ کرنے سے انکار کردیا۔

    امریکی صدر کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ انکے خلاف حکم جاری کرنیوالے واشنگٹن ڈی سی ڈسٹرکٹ کورٹ کے چیف جج James E. Boasberg کا مواخذہ ہونا چاہئے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کو جج نے حکم دیا تھا کہ وہ حالت جنگ کے دور کی متنازعہ اتھارٹی استعمال کرکے وینزویلا کے گینگ اراکین کو اس وقت تک ڈیپورٹ نہ کریں جب تک کہ کارروائی کا سلسلہ جاری ہے۔

    جج کا کہنا تھا کہ ڈیپورٹ کیے جانیوالے ایسے افراد کو لے جانے والے طیاروں کو واپس موڑنا چاہیے تاہم وائٹ ہاؤس نے اگلے روز کہا تھا کہ 137 افراد کو ملک بدر کردیا گیا ہے۔

    یوکرینی صدر کا روس سے عارضی اور محدود جنگ بندی پر اتفاق

    امریکی صدر نے الزام لگایا ہے کہ جج Boasberg انتہائی دائیں بازو کے پاگل شخص ہیں اور ان ٹیڑھے دماغ کے ججوں میں سے ہیں جن کے سامنے انہیں پیش ہونا پڑا تھا، انکا ہرصورت مواخذہ ہونے کی ضرورت ہے۔

    واضح رہے کہ امریکا میں ججوں کے مواخذہ کی کارروائی شاذونادر ہی کی جاتی ہے، امریکا میں 1804ء سے ابتک صرف 15ججوں کا مواخذہ کیا گیا ہے، آخری بار یہ اقدام 2010ء میں کیا گیا تھا۔

  • ٹرمپ انتظامیہ کی  سفری پابندیاں لگانے والے ممالک کی فہرست تیار، کیا پاکستان شامل ہے؟

    ٹرمپ انتظامیہ کی سفری پابندیاں لگانے والے ممالک کی فہرست تیار، کیا پاکستان شامل ہے؟

    واشنگٹن : ٹرمپ انتظامیہ نے سفری پابندیاں لگانے والے ممالک کی فہرست تیار کرلی ، اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا پاکستان اس فہرست میں شامل ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق دنیا بھر سے امریکا آنے والوں کی سخت جانچ پڑتال کے منصوبے کے تحت امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ مختلف ممالک پر سفری پابندیاں عائد کرنے پرغورکررہی ہے، جس میں پاکستان سمیت اکتالیس ممالک شامل ہیں۔

    رائٹرز کو ملنے والی انٹرنل میمو کی تفصیلات میں بتایا گیا کہ مجموعی طور پراکتالیس ممالک کو تین الگ الگ گروپوں میں تقسیم کیا گیا ہے، تاہم میمو ابھی باضابطہ طور پر جاری نہیں کیا گیا۔

    میمو میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اُس گروپ کا حصہ ہے جس میں اگر حکومتوں نے سکیورٹی امور بہتر نہ کیے تو ان ممالک کے شہریوں کو امریکی ویزا پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    پہلا گروپ وہ ہے جس میں مکمل ویزا معطلی ہوگی، اس گروپ میں افغانستان، ایران، شام، کیوبا اور شمالی کوریا سمیت دس ممالک شامل ہیں۔

    دوسرا گروپ جزوی ویزا معطلی والا ہے، جس میں اریٹیریا، ہیٹی، لاؤس، میانمار اور جنوبی سوڈان کے شہریوں کو سیاحتی، تعلیمی اور امیگریشن ویزوں میں محدود پابندیوں کا سامنا ہوگا۔

    May be a graphic of text

    تیسرا گروپ مشروط ویزا معطلی کا ہے، جس میں پاکستان، بیلاروس اور ترکمانستان سمیت چھبیس ممالک شامل ہیں، ان ممالک کو ساٹھ روز میں سیکیورٹی سکریننگ اور ویزا پراسیسنگ کے معیار میں بہتری کی ہدایت دی گئی ہے، اگر ان ممالک نے اس معاملے پر توجہ نہ دی تو ان کے شہریوں کے لیے امریکی ویزوں پر جزوی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

    دوسری جانب نیویارک ٹائمزکے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نےتینتالیس ممالک پر سفری پابندیوں سےمتعلق ڈرافٹ تیارکیا ہے، جو ریڈ، اورنج اور یلو فہرست پر مشتمل ہے، پاکستان اورنج لسٹ میں شامل ہے، جس کا مطلب ہے پاکستان کے شہریوں کیلئے ویزہ پابندیاں سخت ہوں گی۔

    امریکی اخبار کا کہنا تھا کہ اس فہرست میں تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سمیت انتظامیہ کی جانب سے ابھی اس فہرست کی منظوری نہیں دی گئی

  • ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل مخالف مظاہروں میں ملوث طلبا کیخلاف گھیرا تنگ

    ٹرمپ انتظامیہ کا اسرائیل مخالف مظاہروں میں ملوث طلبا کیخلاف گھیرا تنگ

    واشنگٹن : امیگریشن حکام نے کولمبیا یونیورسٹی مظاہرے کی قیادت کرنیوالے طالبعلم کو گرفتار کرلیا، گرفتار طالبعلم کا گرین کارڈ منسوخ کیا جارہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں میں ملوث طلبہ کیخلاف گھیرا تنگ کر دیا۔

    امیگریشن حکام نے کولمبیا یونیورسٹی مظاہرے کی قیادت کرنیوالے طالبعلم کو گرفتار کرلیا، ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کی چار سو ملین ڈالر کی فنڈنگ پہلے ہی بند کر دی تھی۔

    امریکی میڈیا نے بتایا کہ گرفتار طالبعلم محمود خلیل کے پاس گرین کارڈ ہے، جس کو محکمہ خارجہ کی ہدایت پر منسوخ کیا جا رہا ہے۔

    گرفتار طالب علم محمود خلیل کو نیوجرسی کے امیگریشن حراستی مرکزمیں رکھا گیا ہے، شام میں پیدا ہونے والے محمود خلیل کے وکلا نے امیگریشن حکام کیخلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔

    طالب علم کی رہائی کیلئے آج نیویارک اور نیو جرسی میں طلبہ تنظیموں نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔