Tag: ٹریفک اہلکار پر تشدد

  • ٹریفک پولیس افسر پر احاطہ عدالت میں وکلا کے تشدد کی فوٹیج سامنے آ گئی

    ٹریفک پولیس افسر پر احاطہ عدالت میں وکلا کے تشدد کی فوٹیج سامنے آ گئی

    کراچی: ٹریفک پولیس افسر پر احاطہ عدالت میں وکلا کے تشدد کی فوٹیج سامنے آ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سیکشن افسر پی آئی بی پر احاطہ عدالت میں تشدد کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آ گئی ہے، ویڈیو میں ایس او پر تشدد دیکھا جا سکتا ہے۔

    ویڈیو میں ٹریفک پولیس افسر اور وکیل سمیت 4 افراد کو دیکھا جا سکتا ہے، محمد یوسف اپنے موبائل میں کچھ دیکھ رہا تھا، ساتھ کھڑے وکیل نے اچانک چہرے پر زوردار تھپڑ مار دیا۔

    ویڈیو کے مطابق دوسرے زوردار تھپڑ میں یوسف کی ٹوپی پیچھے جا گری، ٹریفک افسر یوسف نے ہاتھ سے تھپڑ روکنے کی کوشش کی، وکیل نے ٹریفک افسر کے پیٹ میں لات دے ماری، درد کی شدت سے ٹریفک پولیس افسر زمین پر بیٹھ گیا۔

    ’’بچے مرتے ہیں تو مریں، ہم چالان نہیں کریں گے‘‘ وکلا کے ہاتھوں مبینہ پٹنے والے ٹریفک افسر کا بیان

    اس دوران ایک شخص مسلسل وکیل کو روکنے کی کوشش کرتا رہا، دیکھتے ہی دیکھتے بڑی تعداد میں وکلا اور دیگر جمع ہو گئے، ایک پولیس اہلکار وکیل کو بیچ بچاؤ کے بعد لے جانے لگا۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جاتے جاتے بھی اہلکار کو پیچھے سے تھپڑ مارے گئے۔ دوسری طرف محمد یوسف نے سٹی کورٹ تھانے میں واقعے سے متعلق مقدمہ درج کروا دیا ہے۔

  • ’’بچے مرتے ہیں تو مریں، ہم چالان نہیں کریں گے‘‘ وکلا کے ہاتھوں مبینہ پٹنے والے ٹریفک افسر کا بیان

    ’’بچے مرتے ہیں تو مریں، ہم چالان نہیں کریں گے‘‘ وکلا کے ہاتھوں مبینہ پٹنے والے ٹریفک افسر کا بیان

    کراچی: شہر قائد میں موٹر سائیکل چلانے پر ایک بچے کا چالان کرنے والے ٹریفک پولیس کے سیکشن افسر کو وکلا نے مبینہ طور پر نشانہ بنایا، جس پر رد عمل میں اہلکار نے کہا ’’بچے مرتے ہیں تو مریں، اب ہم چالان نہیں کریں گے۔‘‘

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اس واقعے کے خلاف ڈی ایس پی ٹریفک جمشید شبیر کی جانب سے کراچی کے علاقے جمشید کوارٹر میں ایک پریس کانفرنس بھی کی گئی، جس میں اہلکار کی پھٹی ہوئی یونیفارم بھی دکھائی گئی۔

    مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والے اہلکار محمد یوسف کے مطابق وہ حسب معمول تین ہٹی پر ڈیوٹی کے فرائض انجام دے رہے تھے، کہ اس دوران دو کم عمر بچے جو غلط سمت سے موٹر سائیکل پر آ رہے تھے، ان کو روکا گیا۔

    محمد یوسف نے بتایا کہ ٹریفک پولیس قوانین کے مطابق ان کے والدین کو حلف نامے سمیت طلب کیا گیا تاکہ آئندہ بچوں کو اس وقت تک ایسی سواری نہ دی جائے جب تک وہ قانون کے مطابق اس عمر تک نہیں پہنچ جاتے، لیکن اس دوران بچوں کا ماموں جس کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ وکیل ہے، نے ٹریفک پولیس کو تڑیاں دیں اور پھر ایس اے کے خلاف عدالت کے ذریعے قانونی کارروائی بھی کروا دی۔

    ایس او کا کہنا ہے کہ جب وہ عدالت پہنچے تو پہلے دو وکلا نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا، اس کے بعد درجن سے زائد وکلا اس پر پل پڑے اور احاطہ عدالت میں انھیں مارا پیٹا گیا، اور یونیفام پھاڑ دی۔

    ایس او محمد یوسف کے مطابق اگر بچوں کے چالان کاٹنے پر ایسے رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا تو ہم ڈی آئی جی اور بالا افسران کو کہہ دیں گے کہ چالان کرنے کی کیا ضرورت ہے، بچے مرتے ہیں تو مرنے دیں، اگر ہمیں ایک چالان کرنے پر ذلیل کیاجائے، مارا پیٹا جائے، تو ہم تو قانون پر عمل کروانے والے ہیں ہم تو قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے۔

    دوسری طرف ڈی ایس پی جمشید شبیر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ایس او کو احاطہ عدالت میں مارا پیٹا گیا، ہم نے تو بچوں کو ہراساں نہیں کیا تھا نہ مارا پیٹا تھا، جب اے آر وائی نیوز نے ٹریفک کے اعلیٰ افسر سے رابطہ کیا تو ان کی جانب سے بھی یہ بات کہی گئی کہ اب بچوں کی ڈرائیونگ پر چالان نہیں ہوں گے، نہ ہی ماتحت عملے کے ساتھ ایسے رویوں کو برداشت کیا جائے گا، اور اس عمل کی ہر فورم پر بھرپور مذمت کی جائے گی۔