Tag: ٹلہ جوگیاں

  • سکندرِ اعظم کا اشتیاق اور تجسس

    سکندرِ اعظم کا اشتیاق اور تجسس

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوؤں کا ایک قدیم معبد قرار دیا ہے۔ اس قوم کے افراد ٹلہ کی بلند و بالا چوٹی پر بیٹھ کر سورج کی تپسیا کیا کرتے۔ انھوں نے ٹلہ میں ایک کمیٹی بھی بنائی ہوئی تھی جو ٹلہ پر آنے والے پجاریوں کے کھانے پینے کا انتظام کرتی اور سارا حساب رکھتی تھی۔ اس کمیٹی کے سربراہ کو ”مہنت“ کہتے تھے۔

    یہ جہلم میں واقع ہے اور ہزاروں سال پہلے جوگیوں کا مشہور استھان تھا، کہتے ہیں ایک زمانے میں یہ آفتاب پرست آریاؤں کا مرکز بھی رہ چکا تھا۔ ایک دور میں یہاں بدھوں کا زور رہا۔

    الغرض تاریخ بتاتی ہے کہ ٹلہ جوگیاں قبل مسیح ہی سے ایک مذہبی اور روحانی مرکز اور خاص شہرت کا حامل رہا ہے۔ اسے ”کوہِ بال ناتھ“ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ یہاں ہم سکندرِ اعظم کا ایک واقعہ پیش کررہے ہیں جس سے اس مقام کی اہمیت اور قدیم ہونے کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    سکندر اعظم جب سیکڑوں صدیوں پہلے پنجاب کے اس علاقے میں آیا تو ٹلہ کو بلندی سے دیکھا۔

    اسے بتایا گیا کہ ٹلہ میں درویشوں اور جوگیوں کا سب سے بڑا استھان ہے جہاں پورا پنجاب حاضری دیتا ہے۔ وہاں سیکڑوں جوگی ”الکھ“ جگانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ ہزاروں گائیوں کے پوتر دودھ سے وہ خوراک حاصل کرتے ہیں، وہ نہ صرف جڑی بوٹیوں کے خصائص سے واقف ہیں بلکہ ان سے لوگوں کا علاج معالجہ بھی کرتے اور ایک ”چٹکی سے روگ“ کا خاتمہ کردیتے ہیں۔

    یہی وہ عجیب غریب داستانیں تھیں جنھیں سن کر سکندر اعظم نے ٹلہ پر حاضری دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دل میں عجب اشتیاق پیدا ہوا اورقدرتی طور پر تجسس نے جنم لیا، وہ اس مقام کو دیکھنا چاہتا تھا۔اس کے لیے وہ ایک ہاتھی پر سوار ہوکر جوگیوں کے بتائے ہوئے راستے ٹلہ کی چڑھائی چڑھنے لگا۔

    گو، ٹلہ کوئی بہت زیادہ چڑھائی پر واقع نہیں ہے لیکن ہاتھی نہ چڑھ سکا اور راستے میں ہلاک ہوگیا۔ لہٰذا سکندر کو پیدل اور گھوڑے کی سواری کے ذریعے چڑھائی عبور کرنی پڑی۔ اسی جگہ چند خوں ریز معرکے بھی ہوئے اور یہ بہت ہی مقدس مقام بھی رہا ہے۔

  • صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    صدیوں‌ کی گود میں‌ سانس لیتا جوگیوں کا ٹیلا

    پنجابی زبان میں ٹیلے کے لیے لفظ ٹلہ برتا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ جوگیاں کا اضافہ کر لیں تو ہم اسے ٹلہ جوگیاں کہیں گے، یعنی ایک پہاڑی یا زمین سے کچھ اونچائی پر واقع جوگیوں کے اٹھنے بیٹھنے یا عبادت کرنے کی جگہ۔

    جہلم سے جنوب مغرب کی جانب لگ بھگ 35 کلو میٹر فاصلہ طے کریں تو آپ ٹلہ جوگیاں پہنچتے ہیں جہاں صدیوں پرانے آثار آپ کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں۔

    یہ سطح زمین سے بلند اور ایک پُرفضا مقام ہے جسے صدیوں پہلے جوگیوں نے اپنے لیے پسند کیا اور یہاں عبادت و ریاضت میں مشغول ہو گئے۔ محققین کے مطابق اس علاقے میں آریہ قوم نے لگ بھگ چار ہزار سال پہلے قدم رکھا تھا۔ اس قوم کے مذہبی پیشواﺅں نے پوجا پاٹ کے لیے اس بلند مقام کا انتخاب کیا۔

    آئین اکبری میں ابوالفضل نے ٹلہ کو ہندوﺅں کا ایک قدیم معبد لکھا ہے۔ کہتے ہیں یہاں بعد میں گرو گورکھ ناتھ آئے اور اس مقام پر ان کے پیرو کاروں نے قیام کیا۔ تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ سکندرِ اعظم نے بھی یہاں کے جوگیوں اور ٹلہ کے بارے میں مختلف پُراسرار باتیں سن کر یہاں کا دورہ کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ گرو نانک نے بھی ٹلہ میں قیام کیا تھا۔

    تاریخ میں اس مقام کو ٹلہ گورکھ ناتھ اور ٹلہ بالناتھ بھی لکھا گیا ہے جو دو مختلف ادوار میں جوگیوں کے پیشوا رہے۔
    تاریخی آثار کے علاوہ یہ ایک پُرفضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں گرمی اور سرد موسم میں ٹھنڈی ہوائیں آنے والوں کا استقبال کرتی ہیں۔ قریب ہی جنگل اور ہریالی سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے۔

    ٹلہ میں مختلف ادوار کے آثار موجود ہیں۔ ان میں مندر، سمادھیاں اور جوگیوں کے رہائشی غار بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہاں مغل طرز کا ایک تالاب بھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسے جوگیوں کی درخواست پر بادشاہ اکبر کے حکم سے تعمیر کیا گیا تھا۔

    اس خطے میں مختلف ادوار میں سلاطین اور امرا نے بھی ٹلہ کے مذہبی پیشواؤں اور جوگیوں کا خیال رکھا اور انھیں سہولیات فراہم کیں۔ کہتے ہیں کہ اکبر نے علاقہ نوگراں کو ٹلہ کی جاگیر کا درجہ دے کر اس کے محاصل سے ٹلہ اور مضافات کی تزئین و آرائش کا کام کروایا تھا۔