Tag: ٹوائلٹ

  • بھاری کرایہ ادا نہ کرنےکی سکت، لڑکی نے ٹوائلٹ کو ہی مسکن بنا لیا

    بھاری کرایہ ادا نہ کرنےکی سکت، لڑکی نے ٹوائلٹ کو ہی مسکن بنا لیا

    مالی مشکلات انسان کو کس قدر مجبور کر دیتی ہیں اس کا اندازہ اس لڑکی سےلگایا جا سکتا ہے جو ایک بیت الخلا میں رہنے پر مجبور ہے۔

    یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز رہائش چین کی ایک لڑکی نے اختیار کی ہے۔ اس 19 سالہ لڑکی کے پاس بھاری کرایہ ادا کرنے کے لیے رقم نہیں۔ اس لیے اس نے دفتر کے ایک غیر استعمال شدہ 6 مربع فٹ کے ٹوائلٹ کو صرف 50 یوآن (7 ڈالر) ماہانہ کرائے پر اپنا گھر بنا لیا ہے۔

    لڑکی جس نے اپنا نام نہیں بتایا نے کہا کہ وہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور اس کے پاس 800 یوآن (تقریباً 110 امریکی ڈالر) یا اس سے زیادہ کا کرایہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں تھی لہذا اس نے اپنے باس سے دفتر میں رہنے کی اجازت طلب کی۔

    سوشل میڈیا پر اس لڑکی کی ویڈیو تیزی سے وائرل ہو رہی ہے اور صارفین اس سے ہمدردی کا اظہار بھی کر رہے ہیں جب کہ کئی لوگ اس کو صرف توجہ حاصل کرنے کا طریقہ قرار دے رہے ہیں۔

    تاہم لڑکی کے باس نے سوشل میڈیا پر اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہےکہ وہ لڑکی حقیقتاً فیکٹری کے 6 مربع فٹ غیر استعمال شدہ ٹوئلٹ میں رہ رہی ہے۔

    فیکٹری کے مالک نے یہ بھی بتایا کہ اس لڑکی نے اس رہائش کے عوض مجھے 50 یوآن دینے کی کہا تھا تاہم میں نے انکار کر دیا اور اس سے کوئی رقم نہیں لیتا۔

  • مسافر دوران پرواز طیارے کے ٹوائلٹ میں پھنس گیا

    مسافر دوران پرواز طیارے کے ٹوائلٹ میں پھنس گیا

    بھارتی مسافر دوران پرواز طیارے کے ٹوائلٹ میں پھنس گیا، سپائس جیٹ کی فلائٹ میں ٹوائلٹ کا دروازہ لاک ہوجانے پر مسافر ایک گھنٹے سے زیادہ ٹوائلٹ میں مدد کے لئے پکارتا رہا۔

    غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق فلائٹ نمبر SG-268 میں مذکورہ واقعہ پیش آیا، طیارے نے ممبئی ایئرپورٹ سے صبح 2 بجے اڑان بھری۔ ٹیک آف کے بعد سیٹ بیلٹ کی وارننگ ختم ہونے کے فوراً بعد ہی مسافر ٹوائلٹ چلا گیا۔

    سپائس جیٹ کے ترجمان کے مطابق مسافر کو سفر کے دوران کیبن کریو مدد فراہم کرتا رہا۔ جب عملے کو اس بات کا علم ہوا تو دروازہ کھولنے کی بہت کوشش کی گئی جو ناکام ثابت ہوئی۔

    مسافر کو تسلی دینے کے لیے ایک ایئر ہوسٹس نے واش روم کے دروازے کے نیچے سے کاغذ پر لکھا ایک نوٹ پھسلایا۔ تاکہ مسافر کو تسلی دے سکے۔

    بنگلورو ایئرپورٹ انتظامیہ کے مطابق مسافر رات دو بجے ممبئی کی فلائٹ سے روانہ ہوا تھا اور رات 3 بجکر 42 منٹ پر فلائٹ کے لینڈ کرنے تک ٹوائلٹ میں ہی دروازہ کھولنے کی جدوجہد میں مصروف رہا۔

    ٹوائلٹ میں پھنسے مسافر کو فلائٹ کے بینگلورو ایئرپورٹ پر لینڈ کرتے ہی انجینئرز نے ریسکیو کیا اور طبی امداد فراہم کی۔

    ریسکیو اہلکاروں کا کہنا تھا کہ مسافر تقریباً دو گھنٹے تنگ جگہ میں پھنسے رہنے کے باعث شدید صدمے میں آچکا تھا۔

    انٹونی بلنکن کی سوئٹزر لینڈ سے واشنگٹن روانگی میں تاخیر کی وجہ سامنے آگئی؟

    انڈین میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سپائس جیٹ ایئرلائن نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے مسافر کو مکمل ٹکٹ ری فنڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

  • چھانگا مانگا: گھر میں واش روم نہ ہونے کا انجام، لڑکی کی زندگی برباد ہو گئی

    چھانگا مانگا: گھر میں واش روم نہ ہونے کا انجام، لڑکی کی زندگی برباد ہو گئی

    چھانگا مانگا: پنجاب کے ضلع قصور کے علاقے چھانگا مانگا کی ایک لڑکی کو تین درندہ صفت لڑکوں نے اس وقت زیادتی کا نشانہ بنایا جب وہ گھر میں واش روم نہ ہونے کے سبب کھیت میں گئی تھی۔

    تفصیلات کے مطابق چھانگا مانگا میں کوٹ وٹواں کے رہائشی طفیل کی 13 سالہ بیٹی سے 3 لڑکوں کی اجتماعی زیادتی کی افسوس ناک خبر سامنے آئی ہے، واقعے کا مقدمہ مقامی تھانے میں درج کروا لیا گیا ہے۔

    ایف آئی آر کے مطابق محنت کش طفیل کی بیٹی گھر میں واش روم نہ ہونے پر کھیت میں گئی تھی، فصلوں میں چھپے سیف اللہ، تنویر اور طاہر نے اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا، بعد ازاں، پولیس نے لڑکی کو تشویش ناک حالت میں ٹی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا۔

    ویمن میڈیکل آفیسر ٹی ایچ کیو اسپتال نے میڈیکل میں زیادتی کی تصدیق کر دی، میڈیکل آفیسر کا کہنا تھا کہ تیرہ سالہ بچی کی گردن اور جسم کے دیگر حصوں پر تشدد کے نشانات بھی موجود ہیں۔

    ڈی پی او قصور نے واقعے کا نوٹس لے لیا ہے، جن کے حکم پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے 6 رکنی ٹیم تشکیل دے دی گئی ہے، ترجمان پولیس کا کہنا تھا کہ محنت کش کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: بیت الخلا کی عدم دستیابی سے سیلاب متاثرین کی مشکلات دوہری

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: بیت الخلا کی عدم دستیابی سے سیلاب متاثرین کی مشکلات دوہری

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں حالیہ سیلاب سے بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد صحت و صفائی کی سہولیات سے محروم ہیں جس کے باعث ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔

    ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔

    مزید پڑھیں: ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

    یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں صورتحال مزید ابتر

    پاکستان میں رواں برس آنے والے سیلاب نے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد کو متاثر کیا ہے، کروڑوں افراد بے گھر ہوچکے ہیں اور ریلیف کیمپس میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

    ان کیمپس میں مناسب بیت الخلا کی عدم دستیابی کی وجہ سے صفائی کی صورتحال نہایت خراب ہے اور ریلیف کیمپس میں وبائی امراض بے قابو ہوچکے ہیں۔

    زیادہ تر کیمپس میں لوگ کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں جس سے کیمپس میں آلودگی پھیل رہی ہے نتیجتاً لٹے پٹے، بیمار اور کم خوراکی کا شکار سیلاب متاثرین اسہال، ٹائیفائڈ، جلدی اور سانس کے امراض اور دیگر بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں۔

    عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے اس صورتحال کو طبی ایمرجنسی قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل ہے تاکہ صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جاسکے۔

  • ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    ’گاؤں میں کچا پکا لیکن واش روم تھا تو سہی، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘

    31 سالہ زبیدہ صوبہ سندھ کے ضلع بدین کے ایک گاؤں حیات خاصخیلی کی رہائشی تھیں، مون سون کی طوفانی بارشوں کے بعد جب ان کے گاؤں میں سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو ان کا خاندان سب کچھ چھوڑ کر صرف اپنی جان بچا کر وہاں سے نکل آیا۔

    اب ان کا خاندان دیگر سینکڑوں خاندانوں کے ساتھ جھڈو (ضلع میرپور خاص) میں سڑک پر قائم ایک خیمہ بستی میں مقیم ہے۔ جب زبیدہ سے بیت الخلا کی دستیابی کے بارے میں دریافت کیا جائے تو وہ بھڑک اٹھتی ہیں، ’واش روم؟ وہ یہاں کہاں ہے، گاؤں میں تو ہم نے دو پیسے کما کر کچا پکا چند اینٹوں کا واش روم کم از کم بنا تو لیا تھا، یہاں تو سرے سے ہے ہی نہیں‘۔

    زبیدہ ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جو سیلاب زدہ علاقوں سے نکل کر اب ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں اور ایک وقت کھانے کے علاوہ انہیں کوئی سہولت موجود نہیں۔

    جھڈو کے قریب سڑک پر، اور اس سمیت پورے سندھ میں قائم خیمہ بستیوں میں بیت الخلا کا کوئی مناسب انتظام موجود نہیں جس سے تمام ہی افراد پریشان ہیں، تاہم خواتین اس سے زیادہ متاثر ہیں۔

    باقاعدہ بیت الخلا موجود نہ ہونے، اور آس پاس غیر مردوں کی موجودگی میں رفع حاجت کے لیے جانا سیلاب سے متاثر ہونے والی ان خواتین کے لیے آزمائش بن چکا ہے۔

    سیلاب متاثرہ علاقوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ ان خواتین نے رفع حاجت سے بچنے کے لیے پانی پینا اور کھانا کھانا بے حد کم کردیا ہے جس سے پہلے سے ہی کم خوراکی کا شکار یہ خواتین مزید ناتوانی کا شکار ہورہی ہیں، یاد رہے کہ ان میں درجنوں خواتین حاملہ بھی ہیں۔

    سکھر کی صحافی سحرش کھوکھر بتاتی ہیں کہ اکثر کیمپوں میں موجود خواتین چار، پانچ کا گروپ بنا کر ذرا سناٹے میں جاتی ہیں، اور چادروں یا رلی کی آڑ سے حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہی ہیں۔

    سڑک کنارے آباد ہوجانے والی خیمہ بستیوں میں لاکھوں سیلاب زدگان موجود ہیں

    سحرش کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 15، 20 روز سے سکھر اور ملحقہ علاقوں میں فلڈ ریلیف کیمپس کی کوریج کے لیے جارہی ہیں، نہ انہیں کہیں مناسب بیت الخلا کا انتظام دکھائی دیا، نہ ہی میڈیکل کیمپس میں لیڈی ڈاکٹرز موجود ہیں جو خواتین کی بیماریوں کا علاج کرسکے۔

    جھڈو کی خیمہ بستی میں بھی زیادہ تر افراد نے اپنے خیموں کے قریب رلیوں کے ذریعے ایک مخصوص حصہ مختص کر کے عارضی بیت الخلا بنایا ہوا ہے۔

    زبیدہ اور دیگر خواتین نے بتایا کہ انہیں بیت الخلا کے لیے پانی بھی دستیاب نہیں اور وہ آس پاس گڑھوں میں جمع بارش کا پانی جو اب گندا ہوچکا ہے، اس مقصد کے لیے استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

    سیلاب زدہ علاقوں میں کام کرنے والے فلاحی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیت الخلا کی عدم دستیابی سے خواتین عدم تحفظ اور بے پردگی کا شکار ہوگئی ہیں، ان کی کوشش ہے کہ رفع حاجت کے لیے وہ دن کی روشنی میں نہ جائیں اور وہ اندھیرا ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں، تاہم کئی علاقوں میں ہراسمنٹ کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے خواتین مزید خوفزدہ ہوگئی ہیں۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں فلاحی اداروں کے ساتھ کام کرنے والی ڈاکٹر ساجدہ ابڑو بتاتی ہیں، کہ رفع حاجت کی ضروریات سے نمٹنے کے لیے سب سے آسان طریقہ تو ان لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت کا نظر آرہا ہے۔

    اب چونکہ وہاں لوگوں نے رہائش بھی اختیار کر رکھی ہے، تو کھلے میں رفع حاجت وہاں پر بیماریوں کا باعث بن رہی ہے، کھڑے پانی کی وجہ سے ویسے ہی وہاں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر مختلف وبائی امراض اور جلدی انفیکشنز کا باعث بن رہے ہیں جس کا شکار ان کیمپوں میں موجود ہر تیسرا شخص دکھائی دے رہا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ رفع حاجت روکنے اور اس کے لیے گندا پانی استعمال کرنے، اور چونکہ یہ لوگ بے سرو سامانی کی حالت میں اپنی جانیں بچا کر نکلے ہیں تو خواتین کے پاس مناسب ملبوسات بھی نہیں، تو خواتین میں پیشاب کی نالی میں انفیکشنز کی شکایت عام دیکھی جارہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رفع حاجت روکنے کی وجہ سے، یا گندے پانی کے استعمال سے ہونے والا انفیکشن بڑھ کر گردوں تک کو متاثر کرسکتا ہے۔

    ڈاکٹر ساجدہ کا کہنا ہے کہ جھجھک کی وجہ سے خواتین یہ مسئلہ لیڈی ڈاکٹرز تک کو نہیں بتا پاتیں، جس کی وجہ سے اس کا علاج نہیں ہوتا اور مرض بڑھتا رہتا ہے۔ بعض علاقوں میں لیڈی ڈاکٹرز سرے سے موجود ہی نہیں، چنانچہ یہ توقع رکھنا بے کار ہے کہ خواتین مرد ڈاکٹرز سے اپنا علاج کروائیں گی۔

    اس بات کی تصدیق صحافی سحرش کھوکھر نے بھی کی کہ متعدد علاقوں میں کیمپس کے قریب لیڈی ڈاکٹر تو کیا سرے سے میڈیکل کیمپ ہی موجود نہیں، اکثر میڈیکل کیمپ شہر کے مرکز میں لگائے گئے ہیں اور سیلاب متاثرین کو وہاں آنے کے لیے کہا گیا ہے، اب ان سیلاب متاثرین کا پاس وہاں تک جانے کا کرایہ ہی نہیں تو وہ جا کر کیسے اپنا علاج کروائیں گے۔

    سیلاب سے سندھ کے 23 اضلاع تباہی و بربادی کی تصویر بن چکے ہیں

    دوسری جانب محکمہ صحت کے ضلعی رین ایمرجنسی فوکل پرسن ڈاکٹر زاہد اقبال نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ضلعے میں 5 مخصوص مقامات پر فکسڈ میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں، جبکہ کئی موبائل کیمپس بھی ہیں جو مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ہر فکسڈ میڈیکل کیمپ میں 2 مرد اور 2 خواتین ڈاکٹرز موجود ہیں۔

    ڈاکٹر زاہد کا کہنا ہے کہ آلودہ پانی پینے کی وجہ سیلاب زدگان میں ڈائریا کا مرض بے تحاشہ پھیل رہا ہے، صفائی کے فقدان سے جلدی بیماریاں اور مچھروں کی بہتات کے باعث ملیریا بھی زوروں پر ہے جبکہ حاملہ اور دیگر خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ دستیاب وسائل میں تمام امراض کا علاج کرنے اور سیلاب زدگان کو طبی سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    خواتین کی ماہواری ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب

    پچھلے دنوں سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑی ہوئی دکھائی دی جس میں پہلے تو کہا گیا کہ سیلاب سے بے گھر ہوجانے والی خواتین کو ماہواری کے لیے بھی سامان درکار ہے، لہٰذا اس بات کی ترغیب دی گئی کہ سیلاب متاثرین کو بھجوائے جانے والے امدادی سامان میں سینیٹری پیڈز بھی شامل کیے جائیں۔ تاہم اس پر تنقید کرتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے سینیٹری پیڈز کو شہری خواتین کی عیاشی قرار دیا اور کہا کہ دیہی خواتین اس کا استعمال تک نہیں جانتیں۔

    جھڈو میں سڑک کنارے قائم خیمہ بستی میں خواتین سے جب اس حوالے سے دریافت کیا گیا، تو زیادہ تر خواتین نے سینیٹری پیڈز سے لاعلمی کا اظہار کیا، تاہم انہوں نے ماہواری کے دنوں کو اپنی آزمائش میں اضافہ قرار دیا۔

    26 سالہ ہاجرہ نے کہا، ’یہاں چاروں طرف لوگ موجود ہیں، واش روم کے لیے جانا ویسے ہی بہت مشکل ہے، اوپر سے ان دنوں میں مشکل اور بھی بڑھ جاتی ہے‘۔

    انہوں نے بتایا کہ عام حالات میں وہ ماہواری کے لیے سوتی کپڑا استعمال کرتی تھیں، عموماً تمام خواتین ہی ان کپڑوں کو دوبارہ دھو کر استعمال میں لاتی ہیں، لیکن اب کیمپ میں سامان کی بھی کمی ہے، پھر دھونے کے لیے گڑھوں میں موجود بارش کا گندا پانی ہی دستیاب ہے، ’کیا کریں، کہاں جائیں، بس مشکل ہی مشکل ہے‘، ہاجرہ نے بے بسی سے کہا۔

    کیمپ میں موجود 15 سالہ یاسمین البتہ سینیٹری پیڈز سے واقف تھی۔ یاسمین نے ٹی وی پر ان کے اشتہارات دیکھ رکھے تھے، اور ایک بار انہیں استعمال بھی کرچکی تھی۔ یاسمین نے بتایا کہ سینیٹری پیڈز استعمال کرنے کے بعد اس نے انہیں دھو کر تلف کیا تھا۔ ’کیونکہ دھوئے بغیر پھینکنا گناہ ہے‘، اس نے بتایا۔

    سندھ کے سیلاب متاثرہ علاقوں میں مصروف عمل سماجی کارکن فریال احمد کا کہنا ہے کہ ان کے ادارے نے نہ صرف خواتین میں سینیٹری پیڈز تقسیم کیے ہیں بلکہ انہیں استعمال کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔

    دوسری جانب ڈاکٹر ساجدہ ابڑو کا کہنا ہے کہ ماہواری کے دوران صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ تولیدی اعضا میں مختلف انفیکشنز اور بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے، اس کا اثر بعض اوقات آگے چل کر حمل کے دوران بھی ہوسکتا ہے جس سے دوران حمل یا بچے کی پیدائش میں مختلف پیچیدگیاں جنم لے سکتی ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض صورتحال میں ماہواری کے دوران ہونے والے مسائل بانجھ پن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔

    15 سالہ یاسمین کا کہنا ہے، ’ہم ماہواری کے لیے بار بار نئے کپڑوں کا استعمال نہیں کرسکتے اسی لیے استعمال شدہ کپڑے دھو کر دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جو امیر ہیں ان کی جیب انہیں ایک دفعہ کی استعمال شدہ اشیا پھینک دینے کی اجازت دیتی ہے، لیکن ہم غریب ہیں، مجبوری میں استعمال شدہ سامان دوبارہ استعمال کرتے ہیں‘۔

  • قیدی جیل کا ٹوائلٹ توڑ کر فرار

    قیدی جیل کا ٹوائلٹ توڑ کر فرار

    بیلجیئم میں گرفتار ہونے والا ایک ملزم تھوڑی دیر بعد ہی جیل کا ٹوائلٹ توڑ کر فرار ہوگیا، قیدی قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں میں ملوث تھا۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق بیلجیئم کے شہر برسلز میں 25 سالہ شخص گرفتاری کے چند گھنٹے بعد ہی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، اس نے دیوار کے ساتھ نصب ٹوائلٹ توڑا اور سیوریج کا سورخ بڑا کر کے فرار ہو گیا۔

    برسلز پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ مفرور ملزم نے سیوریج ہول کو توڑ کر صرف اتنا ہی سوراخ بڑا کیا، جتنا کہ اے فور سائز کا پیپر ہوتا ہے۔

    ترجمان کے مطابق اس سوراخ کے ذریعے اس قیدی نے جیل میں موجود زیر زمین راہداری تک رسائی حاصل کی، جہاں وہ ایک کھڑکی سے باہر سڑک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا۔

    اس واقعے کے وقت حراستی سیل میں موجود سیکیورٹی کیمرے کام نہیں کر رہے تھے۔

    مشتبہ شخص قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں اور منشیات سے متعلق الزامات میں ویسٹ فلینڈرز پراسیکیوٹر کے دفتر کو مطلوب تھا۔

    اس شخص کو پولیس کے سامنے پیش ہونے کے حکم کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں رواں ہفتے پیر کے روز گرفتار کیا گیا تھا، جس کے چند گھنٹے بعد ہی وہ جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: وہ سہولت جس نے انسان کی عمر میں 20 سال اضافہ کیا

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: وہ سہولت جس نے انسان کی عمر میں 20 سال اضافہ کیا

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    ٹوائلٹ کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    ٹوائلٹ کی موجودگی انسانی تہذیب کے لیے کس قدر ضروری ہے، اس بات کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ 200 برسوں کے دوران ٹوائلٹ کی سہولت نے انسان کی اوسط عمر میں 20 سال کا اضافہ کیا ہے۔

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 3 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں مناسب بیت الخلا یا ہاتھ دھونے کی سہولیات حاصل نہیں یعنی ہر 3 میں سے 1 شخص، جبکہ 1 ارب سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 700 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    صحت و صفائی کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1 کروڑ 60 لاکھ سے زائد افراد بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں۔

    واٹر ایڈ کے مطابق ان میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔

    یونیسف کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    عدم توجہی کا شکار سینیٹری ورکرز

    ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ 290 ارب کلو انسانی فضلہ پیدا ہوتا ہے جنہیں ٹھکانے لگانے والے سینیٹری ورکرز بدترین حالات کا شکار ہیں۔

    پاکستان میں کرونا وبا کے دوران جہاں ہر اس شعبے میں کام کرنے والے افراد کی تکریم کی گئی جو اس وبا کے دوران گھروں سے نکلے اور نہایت ضروری خدمات انجام دیں، وہیں اس سارے عرصے کے دوران سینیٹری ورکرز کی جانب ذرا بھی توجہ نہیں دی گئی جو صفائی ستھرائی کا عمل سر انجام دے کر کووڈ کی وبا کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

    حفاظتی آلات کے بغیر کام کرنے والے سینیٹری ورکرز ایک طرف تو سخت معاشی مسائل کا شکار ہیں وہیں سماجی طور پر بھی ان سے بدترین رویہ رکھا جاتا ہے۔

    سینیٹری ورکرز کے حوالے سے کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق حفاظتی لباس اور آلات کے بغیر لوگوں کی غلاظت اور گندگی کو صاف کرنے والے خاکروب عام طور پر سانس اور پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی ہیلتھ انشورنس بھی نہیں دی جاتی۔

    اس تحقیق کے مطابق پاکستان بھر میں 1998 سے 2007 تک 70 سیورمین گٹروں کو صاف کرنے کے دوران حادثاتی طور پر انتقال کرگئے۔

    صرف پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں 1988 سے 2012 تک 70 سینیٹری ورکرز اور سیورمین کام کے دوران ہلاک ہوئے جبکہ 2011 سے 2019 تک پاکستان بھر میں بند گٹروں کو کھولنے کی کوشش کے دوران بھی 16 گٹر مین ہلاک ہوئے۔

    واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان میں صحت و صفائی کے لیے کیے جانے والے اقدامات اس وقت تک ناکام ہیں جب تک سینیٹری ورکرز کو کام کے لیے محفوظ ماحول فراہم نہیں کیا جاتا، ان کے معاشی مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اور ان سے برتی جانے والی سماجی تفریق ختم نہیں کی جاتی۔

  • ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور

    ٹوائلٹ کا عالمی دن: پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور

    دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے، پاکستان کی 10 فیصد آبادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم اور کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 2013 میں کیا گیا جس کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔

    سنہ 2015 میں اقوام متحدہ نے ہر شخص کے لیے ٹوائلٹ کی فراہمی کو عالمگیر انسانی حقوق میں سے ایک قرار دیا تاہم اکیسویں صدی میں بھی دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد بنیادی بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔

    دنیا بھر میں 60 کروڑ سے زائد افراد کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہیں اور دنیا کی صرف 45 فیصد آبادی کو صاف ستھرے اور محفوظ ٹوائلٹ میسر ہیں۔ علاوہ ازیں دنیا بھر میں 3 ارب افراد کو ہاتھ دھونے کی بنیادی سہولت بھی میسر نہیں۔

    صحت و صفائی کے اس ناقص نظام کی وجہ سے دنیا بھر میں 5 سال کی عمر سے کم روزانہ 800 بچے، اسہال، دست اور ٹائیفائڈ کا شکار ہو کر موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔

    اسی طرح گندے پانی سے ہونے والی بیماریاں ہر سال دنیا بھر میں 8 لاکھ 29 ہزار افراد کی جان لے لیتی ہیں۔

    پاکستان میں بیت الخلا کا استعمال

    ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 10 فیصد آبادی کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور ہے، یہ تعداد 2 کروڑ سے زائد ہے اور زیادہ تر دیہات یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صفائی کی ناقص صورتحال اور گندے پانی کی وجہ سے روزانہ 5 سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست، ٹائیفائڈ اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔

    یونیسف کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔

    دوسری جانب سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔

    وزیر اعظم عمران خان نے بھی سنہ 2023 تک ملک کی تمام آبادی کے لیے ٹوائلٹس تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سیاحت میں کمی کی وجہ پبلک ٹوائلٹس کی عدم فراہمی بھی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل اپنے ایک خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ ملک کے تمام پیٹرول پمپس اور سی این جی اسٹیشنز کو اپنے واش رومز صاف رکھنے کا آرڈر چلا گیا ہے، ہر ٹوائلٹ کے باہر ایک واٹس ایپ نمبر دیا جائے گا جس پر گندے ٹوائلٹس کی تصاویر بھیجی جاسکیں گی، اس کے بعد مذکورہ پمپس اور اسٹیشن مالکان کو جرمانہ کیا جائے گا۔

  • ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں اس وقت ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ٹوائلٹ پیپر اور دیگر صفائی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیا کی خریداری کر رہے ہیںِ۔

    لوگ نہ صرف خریداری کر رہے ہیں بلکہ ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ خریدنے کے چکر میں ان کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں، ایسے ہی کچھ واقعات امریکا اور برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں بھی پیش آرہے ہیں جہاں لوگ ٹوائلٹ رول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

    امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔

    آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔

    اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

    یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔

    سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔

    اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔

    اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟

    اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔

    اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔

    امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔

    اب اس وقت کرونا وائرس کے بعد ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر دنیا امریکیوں کو ویسے بھی لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین نے بھی کہا ہے ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال اس وائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

  • گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    گاؤں دیہات میں بیت الخلا کی عدم دستیابی ۔ کیا وجہ صرف غربت ہے؟

    32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔

    رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔

    رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔

    یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔

    صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔

    مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے

    گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔

    طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔

    اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

    کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔

    گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘

    رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ

    یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔

    گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔

    باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔

    ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔

    نو تعمیر شدہ بیت الخلا
    نو تعمیر شدہ بیت الخلا

    اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘

    منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔

    کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟

    حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘

    عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔

    بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟

    محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔

    لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘

    ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔

    انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔

    ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔

    ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔

    گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔