Tag: ٹوبیکو

  • تمباکو نوشی: نوجوان نسل کو اپنا شکار بنانے والی صنعت

    تمباکو نوشی: نوجوان نسل کو اپنا شکار بنانے والی صنعت

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج انسداد تمباکو نوشی کا عالمی دن (نو ٹوبیکو ڈے) منایا جارہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی ہر سال دنیا بھر میں 80 لاکھ افراد کی موت کی وجہ بن رہی ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ٹوبیکو ایکسپوزڈ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ٹوبیکو انڈسٹری کی جانب سے اپنی پروڈکٹ کی فروخت کے لیے جو تکنیکیں استعمال کی جاتی ہیں ان کا ہدف نوجوان ہیں۔

    اسی طرح اس انڈسٹری میں کام کرنے والے افراد بھی جن طبی پیچیدگیوں کا شکار ہوتے ہیں اس کا ادراک بھی ضروری ہے۔

    ماہرین کے مطابق تمباکو نوشی کے باعث ہر سال ہلاک ہونے والے 80 لاکھ افراد میں سے تقریباً 6 لاکھ کے قریب افراد ایسے ہیں جو خود تمباکو نوشی نہیں کرتے۔ ایسے افراد دوسروں کی تمباکو نوشی سے پیدا ہونے دھوئیں کے باعث مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو بعد ازاں جان لیوا ثابت ہوتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی صرف صحت کے لیے ہی مضر نہیں، بلکہ اس کی پیداوار، اسے بنانے کا عمل اور اس کا استعمال ماحولیاتی آلودگی کا سبب بھی بن رہا ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو نوشی ہر شعبہ زندگی کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے اور یہ غربت میں اضافے، جسمانی و دماغی کارکردگی میں کمی، صحت میں خرابی اور کسی جگہ کی فضائی آلودگی میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔

  • کرونا وائرس: تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ

    کرونا وائرس: تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ

    دنیا بھر میں کرونا وائرس کا علاج اور اس کی ویکسین تیار کرنے کی سر توڑ کوششیں کی جارہی ہیں، حال ہی میں سگریٹ بنانے والی ایک کمپنی نے کہا ہے کہ انہوں نے تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کی ہے۔

    دنیا کی دوسری بڑی ٹوبیکو کمپنی برٹش امریکن ٹوبیکو کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس کے خلاف ان کی ویکسین تیار ہوچکی ہے، ویکسین میں تمباکو کے پتوں میں موجود پروٹین شامل کیا گیا ہے جس سے ایک ٹیسٹ میں انسانی قوت مدافعت میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

    کمپنی کا کہنا ہے کہ جیسے ہی ان کی تیار کردہ ویکسین کو امریکی فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کی منظوری ملتی ہے وہ اس کی انسانی آزمائش کے پہلے مرحلے کا آغاز کردیں گے۔

    کمپنی نے اس سے قبل اپریل میں جب ویکسین بنانے کا اعلان کیا تھا تو اسے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، کمپنی کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ تمباکو کے پتوں سے ویکسین تیار کر رہے ہیں اور اگر اس کی حکومت سے منظوری مل گئی تو وہ ہر ہفتے 10 سے 30 لاکھ خوراکیں تیار کرسکتے ہیں۔

    خیال رہے کہ دنیا بھر میں کرونا وائرس کے خلاف مختلف ویکسینز اور علاج کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں کورین ماہرین نے کرونا وائرس کے مرض کے لیے ایسی دوا تلاش کر لی ہے جو ریمڈسیور سے بھی زیادہ مؤثر ہے۔

    اس دوا کا نام نیفاموسٹیٹ ہے اور یہ لبلبے (پنکریاز) کے کینسر کے علاج کے لیے استعمال کی جاتی ہے، یہ بیماری روکنے والی قوی اینٹی وائرل دوا ہے۔ یہ ان 24 ادویات میں سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوئی جن کا ویرو سیل کلچر کے ساتھ تجربہ کیا گیا تھا۔

    ویرو سیلز ان خلیات کا شجرہ نسب ہے جو افریقی سبز بندر کے گردے سے پیدا ہوتے ہیں، اور یہ سیل کلچرز (ٹیسٹس) میں تواتر کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔

  • تمباکو کا زیر کاشت رقبہ نصف رہ گیا

    تمباکو کا زیر کاشت رقبہ نصف رہ گیا

    اسلام آباد: گزشتہ 4 سال میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمباکو پر ٹیکس عائد کرنے سے تمباکو کا زیر کاشت رقبہ نصف رہ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ مستقل ٹیکسوں اور دیگر مسائل کی وجہ سے گزشتہ 4 سال میں صوبہ خیبر پختونخواہ میں تمباکو کا زیر کاشت رقبہ نصف رہ گیا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو دہشت گردی سے متاثرہ اس پسماندہ صوبہ کی صنعت و زراعت کو نقصان پہنچے گا اور ہزاروں افراد بے روزگار ہو جائیں گے، تمباکو کی فضل پر بار بار ٹیکس عائد کرنے سے یہ شعبہ زوال پذیر ہو سکتا ہے جس سے محاصل متاثر ہوں گے۔

    شاہد رشید کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ میں پہلے ہی 400 صنعتیں بند پڑی ہیں جن کی تعداد میں اضافہ نہ کیا جائے، مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی بھی زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا مگر 46 ہزار ہیکٹر پر اگائی جانے والے تمباکو کی فصل پر مختلف ٹیکس لگانا معمول بن چکا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ امتیازی سلوک ہے، اٹھارویں ترمیم سے قبل اس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد تھی جبکہ ترمیم کے بعد اس پر صوبائی حکومت نے ٹوبیکو سیس عائد کر دیا۔

    شاہد رشید نے مطالبہ کیا کہ سگریٹ بنانے والی کمپنیاں کاشت کاروں سے قرض پر 36 فیصد سود لیں نہ ان سے اونے پونے فصل خریدیں جبکہ پاکستان ٹوبیکو بورڈ بھی کاشت کاروں کا استحصال نہ کرے۔