Tag: ٹھنڈا گوشت

  • نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    نام وَر افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی برسی

    اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے ہم عصروں میں کئی نام وَر ہوئے، نہایت قابل اور باصلاحیت، تخلیقی جوہر سے مالا مال ادیب و شاعر منٹو کے رفیق اور ہم کار بھی رہے، مگر منٹو نے اپنی الگ راہ نکالی اور اپنی تخلیقات کے سبب پہچانے گئے۔

    منٹو کے افسانے، مضامین، ان کے خاکے صرف پڑھے نہیں جاتے بلکہ آج بھی ان کے موضوعات کو‌ زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ منٹو نے حقیقتوں، سچائیوں اور تلخیوں کو بیان کرنے میں کوئی رعایت نہیں کی۔ سماج کے ہر روپ کو قارئین کے سامنے لانے سے گریز نہیں‌ کیا۔

    آج اردو کے اس عظیم افسانہ نگار کا یوم وفات ہے۔ منٹو 11 مئی 1912ء کو ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی اور قلمی سفر کا آغاز لاہور کے رسائل سے وابستہ ہوکر کیا۔ پھر آل انڈیا ریڈیو دہلی سے وابستہ ہوگئے جہاں ڈرامے اور فیچر لکھے جو کام یاب ہوئے۔ بعدازاں بمبئی منتقل ہوگئے جہاں متعدد فلمی رسائل کی ادارت کی۔ اسی زمانے میں انھوں نے فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی لکھنے کا آغاز کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آگئے جہاں 18 جنوری 1955ء کو جگر کے عارضے کے باعث انتقال کیا۔

    منٹو کے موضوعات میں بڑا تنوع ہے۔ انھیں جنس نگاری اور تقسیم کے وقت کے فسادات کو اپنے افسانوں میں‌ ڈھالنے کی وجہ سے خوب شہرت ملی اور جہاں ان کی کہانیاں پسند کی گئیں، وہیں فحش نگاری کا الزام بھی لگا۔ لیکن منٹو کی حقیقت پسندی، جرأت و بے باکی ادیبوں کے لیے مثال بھی بنی۔

    منٹو کی چند تصاویر دیکھیے۔افسانے اور مختصر کہانیوں کے علاوہ منٹو کے لکھے ہوئے خاکے اور مختلف موضوعات پر ان کے مضامین بھی اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔

  • سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    سعادت حسن منٹو کو ہم سے بچھڑے 64 برس بیت گئے

    اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی آج 64 ویں برسی ہے، آپ کا نام اردو ادب کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں، آپ کے افسانے مضامین اور خاکے اردو ادب میں بے مثال حیثیت اورنمایاں مقام رکھتے ہیں۔

    ‎اردو زبان میں مختصرکہانیوں اورجدید افسانے کے منفرد اور بے باک مصنف سعادت حسن منٹو11 مئی 1912ء کو پنجاب ہندوستان کے ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔

    کشمیری النسل ‘ خوبرو‘ فیشن ایبل‘ صاف ستھرے کپڑے زیب تن کرنے والے اور مخصوص سنہری فریم کا چشمہ لگانے والے منٹو اپنے عہد کے ادیبوں میں انتہائی نمایاں شخصیت کے مالک تھے ‘ تاہم پاکستان آنے کے بعد انتہائی کسمپرسی کے حال میں دوستوں سے محروم اور دشمنوں کے نرغے میں گھرے ہوئے منٹو محض 43 سال کی عمرمیں اس دارِفانی کو الوداع کہہ گئے۔

    ‎منٹو کا قلم مخصوص طورپرتحلیلِ نفسی یا ذہنی ہیجانات اور فطرتِ انسانی کے امتزاج کی عکّاسی کرنے والا ایک ایسا نادر نمونہ تھا جس نے انہیں شہرت کے ساتھ ساتھ ذلت ورسوائی سے بھی دوچارکیا۔

    معاشرے کو اس کی اپنی ہی تصویر دکھانے والے عکّاس کو اس کی بے ساختگی پرجو تازیانے کھانے پڑے وہ ایک انمٹ داستان ہے لیکن اس بات سے کسی کو انحراف نہیں ہے کہ چھوٹے افسانوی نشتروں سے معاشرے کے پھوڑوں کی چیرہ دستی یا علاج کرنے والا یہ افسانہ نگار بیسویں صدی کی سب سے زیادہ متنازع فیہ شخصیت کا اعزاز یافتہ مصنف تھا جس نے طوائفوں پر‘ دلالوں پراورانسانی فطرت پرقلم اٹھایا جس کا مقابلہ ڈی ایچ لارنس سے کیا جاسکتا ہے اورڈی ایچ لارنس کی طرح منٹو نے بھی ان موضوعات کو مخصوص طور پرابھارا جو ہندوپاک کی سوسائٹی میں معاشرتی طور پرگناہ تصوّر کیے جاتے تھے۔

    منٹو کے مضامین کا دائرہ معاشرتی تقسیمِ زرکی لاقانونیت اور تقسیمِ ہند سے قبل اور بعد میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی رہا اور اسی طرح مزید متنازع فیہ موضوعات پرکھل کر ان قلم رقم طراز ہوتا رہا جن پر کئی بارانہیں عدالت کے کٹہرے تک بھی جانا پڑا مگرقانون انہیں کبھی سلاخوں کے پیچھے نہیں بھیج سکا۔

    سعادت حسن منٹو کا ہمیشہ یہی کہنا رہا کہ ’’میں معاشرے کے ڈھکے ہوئے یا پس پردہ گناہوں کی نقاب کشائی کرتا ہوں جو معاشرے کے ان داتاؤں کے غضب کا سبب بنتے ہیں اگر میری تحریرگھناؤنی ہے تو وہ معاشرہ جس میں آپ لوگ جی رہے ہیں وہ بھی گھناؤنا ہے کہ میری کہانیاں اُسی پردہ پوش معاشرے کی عکّاس ہیں، منٹو کی کہانیاں اکثرمِزاح کے پہلو میں معاشرتی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی تضحیک کرتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔

    ان کے تحریر کردہ افسانوں میں چغد‘ سیاہ حاشیے‘ لاؤڈ اسپیکر‘ ٹھنڈا گوشت‘ کھول دو‘ گنجے فرشتے‘ شکاری عورتیں‘ نمرود کی خدائی‘ کالی شلواراوریزید بے پناہ مقبول ہیں۔

    ‎ اپنی عمرکے آخری سات سالوں میں منٹو دی مال لاہورپرواقع بلڈنگ دیال سنگھ مینشن میں مقیم رہے۔ جہاں اپنی زندگی کا آخری دورانہوں نے انتہائی افسوس ناک حالت میں گزارا۔ سستی شراب کے بے پناہ استعمال سے ان کا جگر بے حد متاثرہوچکا تھا اورآخرکار18 جنوری 1955 کی ایک سرد صبح اہلِ لاہور نے بلکہ ہند و پاک کے تمام اہلِ ادب نے یہ خبر سنی کہ اردوادب کوتاریخی افسانے اور کہانیاں دینے والا منٹو خود تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ انہوں نے اپنے پسماندگان میں بیوی صفیہ اور تین بیٹیاں چھوڑیں تھی۔

    سعادت حسن منٹو کی پچاسویں برسی پرحکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی یاد میں پانچ روپے مالیت کا ڈاک ٹکٹ شائع کیا تھا۔