Tag: ٹھٹھہ شہر

  • شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی اور جام تماچی

    شیخ حماد بن رشید الدین جمالی سندھ کے اولیا کبار میں سے تھے اور اُچ کے مشہور درویش شیخ جمال کے نواسے تھے۔ موجودہ ٹھٹھہ سے متصل "ساموئی” کے دامن میں ان کی خانقاہ تھی۔

    حدیقتہُ الاولیا میں کا مصنف لکھتا ہے کہ جام تماچی اور اس کے فرزند صلاح الدین کو آپ سے بڑی عقیدت تھی اور وہ روزانہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ جام جونہ نے سازش تیار کی جس کے مطابق خاموشی سے ان دونوں (تماچی اور اس کے بیٹے) کو دہلی بھیج دیا گیا جہاں وہ نظر بند رہے۔

    اتفاق سے بزرگ (شیخ حماد) نے ان دونوں کی غیر حاضری محسوس کر کے انھیں یاد کیا۔ مگر ان کے بارے میں کوئی بھی نہ بتا سکا۔ بعد میں بزرگ نے اپنا خاص آدمی بھیج کر ان کی حویلی سے معلوم کروایا جس پر حویلی والوں نے بصد عجز و بے قراری تمام ماجرا بزرگ کو کہلوا بھیجا جسے سنتے ہی شیخ حماد کو جوش آگیا اور وہ بے قراری سے کھڑے ہو گئے اور اپنے حجرے میں ٹہلنے لگے اور سندھی زبان میں ایک شعر کہنے لگے جس میں جام تماچی کے ساتھ محبت اور اس کے واپس آنے کی تمنّا ظاہر کی گئی تھی۔

    جام جونہ نے جب وہ شعر سنا تو اسے بہت پریشانی ہوئی اور وہ شیخ حماد کے پاس آیا مگر ناامید ہو کر واپس لوٹا۔ اس سندھی شعر کا اردو میں مفہوم کچھ یوں ہے:

    جام جونہ کم عقل ہے (جس نے ایسا کام کیا) اے جام تماچی تُو جلدی پہنچ۔ اللہ تعالیٰ راضی ہوا ہے کہ تمام ٹھٹھہ (جام جونہ سے منحرف ہوکر) تیرا طرف دار ہو گیا ہے۔

    (ممتاز ماہرِ تعلیم و لسانیات، ادیب اور محقق ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تصنیف سے ایک ورق جس کے اردو مترجم شذرہ سکندری ہیں۔ یہ اقتباس سندھ کی تاریخ کے مشہور کردار اور سیاسی و سماجی حالات کی ایک جھلک ہے)

  • ٹھٹھہ شہر کس نے آباد کیا؟ صدیوں کی گرد میں‌ اٹا ہوا ایک سوال

    ٹھٹھہ شہر کس نے آباد کیا؟ صدیوں کی گرد میں‌ اٹا ہوا ایک سوال

    یہ 1494 کی بات ہے جب مکلی کی پہاڑی کے ساتھ جام نظام الدین نے ایک شہر آباد کیا، چوں‌ کہ یہ پہاڑی کے نیچے واقع تھا، اس لیے مقامی لوگوں‌ نے اسے ‘‘تہ تہ‘‘ کہنا شروع کر دیا جو بعد میں ٹھٹھہ ہو گیا۔

    یہ سندھ کا قدیم اور مشہور شہر ہے جو منسوب تو جام نظام الدین سے ہے، مگر بعض مؤرخین کے مطابق ٹھٹھہ پہلے سے آباد ایک بستی تھی۔ مختلف حوالوں اور تذکروں کے مطابق محمد شاہ تغلق کے زمانے میں بھی اس شہر کا ذکر ملتا ہے۔ قرین قیاس یہ ہے کہ ٹھٹھہ آباد تو بہت پہلے ہوا تھا، مگر اسے جام نظام الدین نندا نے اپنے دور میں تعمیر و توسیع کے عمل سے گزارا اور یوں یہ شہر جام نظام الدین نندا سے منسوب ہو گیا۔

    اس شہر میں کئی تاریخی آثار اور اس زمانے کی یادگاریں موجود ہیں جب کہ سندھ کے کئی عالم، درویش، حاکم اور امرا یہاں دفن ہیں۔

    تاریخی کتب میں لکھا ہے کہ کئی نام وَر اس سرزمین سے اٹھے۔ یہ اہلَ علم و فنون بھی تھے اور ہنر مند بھی۔

    ٹھٹھہ کا ذکر کینجھر جھیل اور شاہ جہاں مسجد اور مکلی کے قبرستان کے بغیر ادھورا ہے۔ یہ جھیل ٹھٹھہ سے 18 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اور ایک خوب صورت تفریحی مقام ہے جس کی مناسب اور ضروری دیکھ بھال نہ ہونے سے اس کا حُسن ماند پڑ رہا ہے۔

    شہرہ آفاق مسجد کو چوں کہ شاہ جہاں کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا، اس لیے یہ شاہ جہاں مسجد کہلائی۔ کہتے ہیں یہ مسجد ٹھٹھہ کے صوبے دار میر ابوالبقا نے بنوائی تھی۔ اس کی تعمیر کا سن 1644 بتایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس زمانے میں اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش پر 9 لاکھ خرچ ہوئے تھے۔

    مکلی کا قبرستان بھی ٹھٹھہ کی ایک وجہِ شہرت ہے۔ اس قدیم اور تاریخی قبرستان میں حضرت مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی، مخدوم ابو القاسم نقشبندی، مخدوم آدم نقشبندی، سید عبداللہ شاہ اصحابی، حضرت شاہ مراد شیرازی کے مزارات ہیں۔ یہ تمام مزارات اور دیگر قبریں اس دور کے فنِ سنگ تراشی اور نقاشی کا نمونہ ہیں۔

    جام نظام الدین نندا بھی اسی شہر میں آسودۂ خاک ہیں۔