Tag: ٹھٹھہ

  • ٹھٹھہ، زائرین کی کشتیوں کا حادثہ، 16 افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ، زائرین کی کشتیوں کا حادثہ، 16 افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ : ساحلی علاقے بوھارا کے قریب سمندر میں زائرین کی کشتیاں الٹنے  سے 16 افراد ڈوب کر جاں بحق ہوگئے ہیں جب کہ 20 افراد کو بچالیا گیا ہے.

    تفصیلات کے مطابق پیر پٹھو کے مزار جانے والے زائرین کی کشتیوں کو ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں حادثہ پیش آنے پر دونوں کشتیاں ڈوب گئیں جس کے نتیجے میں 60 افراد سمندر میں گر گئے جن میں 16 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں.

    ڈی سی ٹھٹھہ کے مطابق دو کشتیوں میں سوار زائرین پیر پٹھو کے مزار پر جارہے تھے کہ تیز ہواؤں کے سبب کشتیاں آپس میں ٹکرا گئیں اور کشتیوں میں سوار تمام افراد سمندر میں سے گر گئے.

    انہوں نے مزید بتایا کہ 16 زائرین کی لاش نکالی جا چکی ہے جب کہ 20 کو ڈوبنے سے بچالیا گیا ہے اور مزید افراد کی تلاش کا سلسلہ جارہی ہے جب کہ کچھ افراد اپنی مدد آپ کے تحت ساحل سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں.

    وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ڈپٹی کمشنر ٹھٹھہ کو فون کر کے واقعے کی مکمل تفصیلات حاصل کیں اور بعد ازاں کمشنر حیدرآباد کو ریسکیو کا کام تیز تر کرنے کی ہدایات جاری کیں.

    پولیس کے مطابق زائرین درگاہ پیر پٹھو کے میلے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے کہ بوھارا کے مقام پر حادثہ پیش آگیا، جاں بحق ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جنہیں شیخ زائد اسپتال ساکرو منتقل کردیا گیا ہے.

    ترجمان پاک بحریہ کا کہنا ہے کہ نیوی کی ٹیموں نے ٹھٹھہ کے قریب امدادی کاموں کا آغاز کردیا ہے اور غوطہ خوروں کی ٹیمیں جائے حادثہ پر روانہ کردی گئی ہیں، امدادی ٹیموں میں ریسکیو اہلکار اور میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہے۔

     

  • وزیر اعظم کا ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان

    وزیر اعظم کا ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان

    ٹھٹھہ: وزیر اعظم نواز شریف نے ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کو گیس دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے ٹھٹھہ کے لیے 500 بستروں کے اسپتال کے قیام کا اعلان بھی کیا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف آج ٹھٹہ کے دورے پر ہیں۔ دورے کے موقع پر انہوں نے مکلی کرکٹ گراؤنڈ میں جلسہ عام سے خطاب کیا۔

    خطاب کے دوران وزیر اعظم نے ضلع ٹھٹھہ اور سجاول کے لیے متعدد ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کیا۔

    انہوں نے ٹھٹھہ اور سجاول کی 50 کلو میٹرسٹرکوں کی تعمیر، سیوریج اور پینے کے پانی کے لیے 20، 20 کروڑ روپے، دونوں ضلعوں میں گیس کی فراہمی اور ٹھٹھہ میں 500 بستروں کے اسپتال کے قیام کا اعلان کیا۔

    علاوہ ازیں وزیر اعظم نے گھارو اور کے ٹی بندر کے منصوبے کے لیے بھی 50 کروڑ کی گرانٹ کا اعلان کیا۔

    جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہم سندھ کی تعمیر نو کریں گے۔ سندھ کے دیہاتوں، گوٹھوں اور قصبوں کونیا ولولہ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ٹھٹھہ والوں کو ہیلتھ کارڈ دیں گے۔ ہیلتھ کارڈ پر بیمار افراد کا مفت علاج کیا جائے گا۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ملک میں بجلی کی صورتحال مسلسل بہتر ہو رہی ہے۔ آپ سے گزارش ہے کہ بل ادا کریں تاکہ مسلسل بجلی مل سکے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی سے حیدر آباد تک موٹر وے بن رہی ہے۔ اب حیدر آباد سے سکھر تک موٹر وے کی تعمیر جلد شروع ہوگی۔ ٹھٹھہ اور سجاول میں بجلی، پانی اور گیس کے بعد یونیورسٹی بھی آئے گی۔

  • ٹھٹھہ ۔ سجاول کے درمیان نئے دریا خان پل کا افتتاح

    ٹھٹھہ ۔ سجاول کے درمیان نئے دریا خان پل کا افتتاح

    کراچی: وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ٹھٹھہ میں دریا خان پل کا افتتاح کر دیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ پر پل بنانا وفاق کا کام تھا جو ہم نے کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سجاول میں نئے دریا خان پل کا افتتاح کردیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بذریعہ ہیلی کاپٹر سجاول پہنچے جہاں انہوں نے 2.9 بلین روپے سے تعمیر کیے جانے والے پل کا افتتاح کیا۔

    ایک کلو میٹر سے زیادہ طویل اس پل کی تعمیر سے ٹھٹھہ، سجاول، بدین، تھر پارکر کے درمیان آمد و رفت کی مشکلات ختم ہوجائے گی۔

    اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے شکوہ کیا کہ دریائے سندھ پر پل بنانا وفاق کا کام تھا جو ہم نے کیا۔ انہوں نے سندھ میں تعلیمی صورتحال میں بہتری لانے پر زور دیا۔

  • پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    پاکستان میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش

    کراچی: سندھ اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں غیر معمولی جسامت کی جیلی فش نے ماہی گیروں کو مشکل میں ڈال دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ٹھٹھہ اور بلوچستان کے ساحل پر متعدد جیلی فش دیکھی گئیں جن کی جسامت غیر معمولی طور پر بڑی ہے۔ چند روز قبل اسے کراچی سے 150 کلومیٹر دور ٹھٹھہ کے ساحلی علاقے میں دیکھا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں دریائے سندھ سمندر میں جا گرتا ہے۔

    آج دوبارہ اسے بلوچستان کے ساحلی علاقے ارماڑا میں بھی دیکھا گیا جہاں ماہی گیروں نے اس کی تصاویر بنائیں۔

    ادارہ برائے جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق ان جیلی فشوں کی جسامت غیر معمولی ہے اور اس جسامت کی جیلی فش اس سے قبل پاکستان میں نہیں دیکھی گئی۔ ان جیلی فش کی وجہ سے ماہی گیروں کو مشکلات کا سامنا ہے اور وہ مچھلیوں کے شکار کے لیے پانی میں جانے سے ڈر رہے ہیں۔

    جیلی فش کیا ہے؟

    جیلی فش تقریباً 92 فیصد پانی کی بنی ہوتی ہے اور اس کی 85 مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ اس جاندار کا دماغ، سانس، حسیات اور ہاضمے کا مکمل نظام موجود نہیں ہوتا اس کے باوجود جیلی فش دن کے 24 گھنٹے خوراک کھاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق جیلی فش آکسیجن کے بغیر، گندگی اور آلودگی میں بآسانی افزائش پاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصے میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے دنیا بھر میں جیلی فش کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

    جیلی فش کے جسم پر موجود لمبے لمبے دھاگے اس کا ہتھیار ہیں۔ ان دھاگوں کے اندر چھوٹے چھوٹے کانٹے ہوتے ہیں جو وہ حملے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ بظاہر خوشنما نظر آنے والی اس جیلی فش کا کاٹا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ اس کی بعض اقسام مہلک اور جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔

    کوریا، جاپان اور چین میں جیلی فش کو سکھا کر بطور خوراک بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

  • پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    پرندوں کے شکار کے لیے بچھائے گئے جال قانون کی گرفت میں

    ٹھٹھہ: محکمہ تحفظ جنگلی حیات سندھ نے کینجھر جھیل میں بچھائے گئے غیر قانونی جالوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 70 سے زائد جالوں کو اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔

    ترجمان محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے مطابق یہ کارروائی نئے سیکریٹری برائے جنگلات و جنگلی حیات منظور علی شیخ کے حکم کے بعد عمل میں لائی گئی۔ کینجھر جھیل میں بڑی تعداد میں زیر سمندر غیر قانونی طور پر جال بچھائے گئے ہیں جن کا مقصد ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کو پکڑنا ہے۔

    wildlife-2

    wildlife-4

    محکمہ کے کنزرویٹر سعید اختر بلوچ کی نگرانی میں کی جانے والی اس کارروائی میں 70 سے زائد جالوں کو قبضہ میں لے لیا گیا ہے۔

    محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے کالے ہرن کے شکار کی دعوت *

    ان کا کہنا ہے کہ پرندوں کے شکار کے لیے لگائے گئے آخری جال کو قبضہ میں لیے جانے تک آپریشن جاری رہے گا اور اس میں ملوث افراد و شکاریوں کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

    wildlife-5

    wildlife-3

    واضح رہے کہ کینجھر جھیل پاکستان کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے اور یہ کراچی اور ٹھٹھہ میں فراہمی آب کا ذریعہ ہے۔

    یہ جھیل ’رامسر‘ سائٹ میں سے ایک ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ ماحولیاتی حوالے سے ایک خوبصورت جھیل ہے۔

    keenjhar-1

    keenjhar-3

    سنہ 1977 میں اس جھیل کو ’وائلڈ لائف سینکچری‘ یعنی جنگلی حیات کی پناہ گاہ قرار دیا گیا۔

    کینجھر جھیل سائبیریا سے ہجرت کر کے آنے والے پرندوں کی میزبان جھیلوں میں سے ایک ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق یہاں آنے والے پرندوں کی تعداد 1 لاکھ تک ہے۔

    keenjhar-4

    ان پرندوں میں چیکلو، ڈگوش، آڑی، کونج، سرخاب، نیل سر، لال سر سمیت مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں جو اپنے محضوص راستے انڈس فلائی زون کے ذریعہ پاکستان آتے ہیں۔

    جنگلی حیات کے شکاریوں کو پکڑنے کے لیے خونخوار کتوں کی تربیت *

    بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان پرندوں کے شکار پر پابندی ہے تاہم ان کی آمد کے ساتھ ہی شکاری بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور یہ نایاب پرندے بے دردی سے شکار ہوتے نظر آتے ہیں۔

  • ٹھٹھہ میں بس اور ٹرالر میں تصادم،9افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ میں بس اور ٹرالر میں تصادم،9افراد جاں بحق

    ٹھٹھہ: صوبہ سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے قریب المناک ٹریفک حادثے میں 9افراد جاں بحق اور پچاس زخمی ہوگئے.

    تفصیلات کےمطابق سندھ کے شہر ٹھٹھہ کے علاقے جھرک کے قریب پیش آیا جہاں کراچی سے شہداد کوٹ جانے والی بس بے قابو ہوکر ٹریلر سے ٹکراگئی.

    حادثے میں9افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ پچاس مسافر زخمی بھی ہوئے جنہیں کراچی اور حیدر آباد کے اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا.زخمیوں میں دس افرادکی حالت تشویش ناک ہے.

    ریسکیواہلکار حادثے کی اطلاع ملتے ہی جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور امدادی کارروائیاں شروع کردیں،جبکہ ٹھٹھہ اور حیدر آباد کے اسپتالوں میں ایمر جنسی بھی نافذ کردی گئی.

    *دادو : انڈس ہائی وے پر ٹریفک حادثہ، پانچ افراد ہلاک

    یاد رہے کہ گزشتہ ماہ دادو میں آمری کے قریب انڈس ہائی وے پرمسافرکوچ تیز رفتاری کے باعث الٹ گئی جس کے نتیجے میں تین مسافرموقع پر ہی جاں بحق جبکہ تیس سے زائد زخمی ہوگئے تھے.

    واضح رہے کہ حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد میں دو بچے اور تین خواتین بھی شامل ہیں.

  • ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    ٹھٹھہ: دیہی خواتین کی زندگی میں آنے والی انقلابی تبدیلی

    کراچی سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ٹھٹھہ کا شہر گھارو ہے۔ اس مسافت میں بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں جن میں سے ایک، 370 لوگوں کی آبادی پر مشتمل گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو بھی ہے۔ ان دو شہروں کے بیچ میں واقع اس گاؤں میں جائیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کئی صدیوں پیچھے آگئے ہیں۔

    پاکستان کے ہر پسماندہ گاؤں کی طرح یہاں نہ پانی ہے نہ بجلی، نہ ڈاکٹر نہ اسپتال۔ معمولی بیماریوں کا شکار مریض شہر کے ڈاکٹر تک پہنچنے سے پہلے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔ گاؤں میں اسکول کے نام پر ایک بغیر چھت والی بوسیدہ سی عمارت نظرآئی۔ اندرجھانکنے پرعلم ہوا کہ یہ گاؤں کے آوارہ کتوں کی پناہ گاہ ہے۔

    یہاں موجود بیشتر گاؤں تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور جان کر حیرت ہوتی ہے کہ آج کے جدید دور میں بھی یہاں کے زیادہ ترباسیوں کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش اپنی زندگی میں ایک بار بجلی کا چمکتا ہوا بلب دیکھنا ہے۔

    یہاں کی عورتوں کے مسائل بھی الامان ہیں۔ سر شام جب مہمانوں کو چائے پیش کی گئی تو گاؤں کے تمام مردوں نے تو ان کا ساتھ دیا لیکن خواتین چائے سے دور ہی رہیں۔ ’ہم شام کے بعد چائے یا پانی نہیں پیتے۔‘ پوچھنے پر جواب ملا۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ ان کے گاؤں یا خاندان کی کسی قدیم روایت کا حصہ ہے جو صرف خواتین پر لاگو ہوتا ہے لیکن غربت سے کملائے ہوئے چہرے کے اگلے جملے نے میرے خیال کی نفی کردی۔ ’ہم رات کو رفع حاجت کو باہر نہیں جاسکتے۔ اندھیرا ہوتا ہے اور گاؤں میں بجلی نہیں ہے۔ رات کو اکثر سانپ یا کوئی کیڑا مکوڑا کاٹ لیتا ہے اوریوں رات کو رفع حاجت کے لیے جانے کی پاداش میں صبح تک وہ عورت اللہ کو پیاری ہوچکی ہوتی ہے‘۔

    اب میرا رخ خواتین کی طرف تھا۔ ’میری ایک بہن کو کوئی بیماری تھی۔ وہ سارا دن، ساری رات درد سے تڑپتی رہتی۔‘ایک نو عمر لڑکی نے اپنے چھوٹے بھائی کو گود میں سنبھالتے ہوئے بتایا۔ ’پیسہ جوڑ کر اور سواری کا بندوبست کر کے اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تو اس نے بتایا کہ اسے گردوں کی بیماری ہے‘۔


    پنتیس سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔


    دراصل گاؤں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں۔ مرد و خواتین رفع حاجت کے لیے کھلی جگہ استعمال کرتے ہیں۔ خواتین ظاہر ہے سورج نکلنے سے پہلے اور سورج ڈھلنے کے بعد جب سناٹا ہوتا ہے دو وقت ہی جا سکتی ہیں۔

    مجھے بھارت یاد آیا۔ پچھلے دنوں جب بھارت میں خواتین پر مجرمانہ حملوں میں اچانک ہی اضافہ ہوگیا، اور ان میں زیادہ تر واقعات گاؤں دیہاتوں میں رونما ہونے لگے تو صحافی رپورٹ لائے کہ زیادہ تر مجرمانہ حملے انہی دو وقتوں میں ہوتے ہیں جب خواتین رفع حاجت کے لیے باہر نکلتی ہیں۔ کیونکہ اس وقت سناٹا ہوتا ہے اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ گھات لگائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایک اکیلی عورت بھلا ایسے دو یا تین افراد کا کیا بگاڑ سکتی ہے جن پر شیطان سوار ہو اور وہ کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہوں۔

    اس کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر دیہاتوں میں باتھ رومز تعمیر کرنے کی مہم شروع ہوئی۔ نہ صرف سماجی اداروں بلکہ حکومت نے بھی اس طرف توجہ دی لیکن اب بھی بہرحال وہ اپنے مقصد کے حصول سے خاصے دور ہیں۔

    ہم واپس اسی گاؤں کی طرف چلتے ہیں۔ باتھ رومز کی عدم دستیابی کے سبب خواتین میں گردوں کے امراض عام ہیں۔

    گاؤں اسحٰق محمد جوکھیو کا دورہ دراصل چند صحافیوں کو ایک تنظیم کی جانب سے کروایا گیا تھا جو ان گاؤں دیہاتوں میں شمسی بجلی کے پینلز لگانے، گھروں میں ہینڈ پمپ لگوانے اور گاؤں والوں کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کے لیے مدد اور سہولیات فراہم کرتی ہے۔ گو کہ گاؤں اور اس کے باشندوں کی حالت زار کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید ان کو جدید دور سے ہم آہنگ کرنے کے لیے کئی صدیاں درکار ہوں گی لیکن اس تنظیم اور اس جیسی کئی تنظیموں اور اداروں کی معمولی کاوشوں سے بھی گاؤں والوں کی زندگی میں انقلاب آرہا تھا۔

    یہیں میری ملاقات خورشیدہ سے ہوئی۔ 35 سالہ خورشیدہ کی آنکھوں میں چمک اور آواز میں جوش تھا اور جب وہ گفتگو کر رہی تھی تو اپنے پر اعتماد انداز کی بدولت وہاں موجود لوگوں اور کیمروں کی نگاہوں کا مرکز بن گئی۔ ’ہماری زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی آگئی ہے۔ اب ہمارے پاس موبائل فون ہے جس پر نیٹ بھی چلتا ہے۔ بجلی کی بدولت اب ہم رات میں بھی کام کرسکتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں ہینڈ پمپ کی سہولت بھی آچکی ہے۔ اب ہمیں پانی بھرنے کے لیے گاؤں کے کنویں تک آنے جانے کے لیے کئی گھنٹوں کا سفر اور مشقت طے نہیں کرنی پڑتی‘۔

    چونکہ ذہانت اور صلاحیت کسی کی میراث نہیں لہذاٰ یہاں بھی غربت کے پردے تلے ذہانت بکھری پڑی تھی جو حالات بہتر ہونے کے بعد ابھر کر سامنے آرہی تھی۔ خورشیدہ بھی ایسی ہی عورت تھی جو اب اپنی صلاحیتوں اور ذہانت کا بھرپور استعمال کر رہی تھی۔

    تمام مرد و خواتین صحافیوں کے سامنے وہ اعتماد سے بتا رہی تھی۔ ’ہم پہلے گھر کے کام بھی کرتے تھے جس میں سب سے بڑا اور مشکل کام پانی بھر کر لانا ہوتا تھا۔ گاؤں کا کنواں بہت دور ہے اور سردی ہو یا گرمی، چاہے ہم حالت مرگ میں کیوں نہ ہوں اس کام کے لیے ہمیں میلوں کا سفر طے کر کے ضرور جانا پڑتا تھا۔ گھر کے کاموں کے بعد ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے تھے جس سے معمولی ہی سہی مگر اضافی آمدنی ہوجاتی تھی۔ یہ سارے کام ہمیں دن کے اجالے میں کرنے پڑتے تھے۔ اندھیرا ہونے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے سوائے دعائیں مانگنے کے کہ اندھیرے میں کوئی جان لیوا کیڑا نہ کاٹ لے‘۔

    میں نے اس زندگی کا تصور کیا جو سورج ڈھلنے سے پہلے شروع ہوجاتی تھی اور سورج ڈھلتے ہی ختم۔ بیچ میں گھپ اندھیرا تھا، وحشت تھی، سناٹا اور خوف۔ مجھے خیال آیا کہ ہر صبح کا سورج دیکھ کر گاؤں والے سوچتے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا ایک اور سورج طلوع ہوا اور سورج کے ساتھ ان کی زندگی میں بھی روشنی آئی۔ ورنہ کوئی بھروسہ نہیں اندھیرے میں زندگی ہے بھی یا نہیں۔

    خورشیدہ کی بات جاری تھی۔ ’ جب سے ہمارے گھر میں بجلی آئی ہے ہم رات میں بھی کام کرتے ہیں۔ اجالے کی خوشی الگ ہے۔ گھروں میں بھی اب ہینڈ پمپ ہیں چنانچہ پانی بھرنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ گئی۔ جو وقت بچتا ہے اس میں ہم اپنا سلائی کڑھائی کا کام کرتے ہیں جس سے گھر کی آمدنی میں خاصا اضافہ ہوگیا ہے اور ہماری زندگیوں میں بھی خوشحالی آئی ہے‘۔

    بعد میں خورشیدہ نے بتایا کہ اس نے اپنی کمائی سے ایک موبائل فون بھی خریدا جس سے اب وہ انٹرنیٹ استعمال کرتی ہے۔ اس انٹرنیٹ کی بدولت وہ اپنے ہنر کو نئے تقاضوں اور فیشن کے مطابق ڈھال چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے رابطے بھی وسیع کر لیے ہیں اور چند ہی دن میں وہ اپنے ہاتھ کے بنائے ہوئے ملبوسات بیرون ملک بھی فروخت کرنے والی ہے۔

     میں نے اپنا اکاؤنٹ بھی کھلوا لیا ہے شہر کے بینک میں۔‘خورشیدہ کی آواز میں آنے والے اچھے وقت کی امید تھی۔ ’گاؤں میں بہت ساری لڑکیاں میرے ساتھ کام کر رہی ہیں۔ جنہیں سلائی کڑھائی نہیں آتی ہم انہیں بھی سکھا رہے ہیں اور بہت جلد ایک مکان خرید کر ہم باقاعدہ اپنا ڈسپلے سینٹر بھی قائم کریں گے‘۔

    واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ موجود صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ گاؤں کی عورتوں کے لیے پانی بھر کر لانا ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔ بعض حاملہ عورتیں تو راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    مجھے خیال آیا کہ دنیا کا کوئی بھی مسئلہ ہو، غربت ہو، جہالت ہو، کوئی قدرتی آفت ہو، یا جنگ ہو ہر صورت میں خواتین ہی سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔ جنگوں میں خواتین کے ریپ کو ایک ہتھیار کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے۔ پرانے دور کے ظالم و جابر بادشاہوں اور قبائلی رسم و رواج کا دور ہو یا جدید دور کی پیداوار داعش اور بوکو حرام ہو، خواتین کو ’سیکس سلیوز‘ (جسے ہم جنسی غلام کہہ سکتے ہیں) کی حیثیت سے استعمال کیا جاتا رہا۔

    جنگوں میں مردوں کو تو قتل کیا جا سکتا ہے یا زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپاہج ہوسکتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے خلاف جنسی جرائم انہیں جسمانی، نفسیاتی اور معاشرتی طور پر بری طرح متاثر کرتے ہیں اور ان کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کسی عورت پر پڑنے والے برے اثرات اس کے پورے خاندان کو متاثر کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ جنگ کے بعد جب امن مذاکرات ہوتے ہیں تو اسی صنف کی شمولیت کو انتہائی غیر اہم سمجھا جاتا ہے جو ان جنگوں سے سب زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

  • کینجھر جھیل میں واقع مزار سے 5  لاشیں برآمد

    کینجھر جھیل میں واقع مزار سے 5 لاشیں برآمد

     

     ٹھٹہ کے قریب  کینجھر جھیل میں واقع مزار سے پانچ لاشیں ملی ہیں،مرنے والوں کا تعلق  کراچی سے  بتایا جاتا ہے۔

    کینجھر جھیل  کےقریب واقع نوری  جام تماچی  کے مزار میں پانچ افراد کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والےمحمد علی ، عرفان اور سہیل کا تعلق کراچی سے جبکہ بلاول کا راولپنڈی اور  جہانگیر اختر کا  گلگت سے ہے، لاشوں کو سول اسپتال  ٹھٹہ پہنچا دیا گیا ہے جہاں پوسٹ مارٹم کے بعد سول اسپتال کراچی روانہ کر دیا جائے گا۔   

    پولیس نے  نامعلوم قاتلوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔