Tag: ٹیلی ویژن اداکار

  • ابراہیم نفیس: ورسٹائل فن کار، نفیس شخصیت

    ابراہیم نفیس: ورسٹائل فن کار، نفیس شخصیت

    معروف صدا کار اور اداکار ابراہیم نفیس 21 مئی 2012ء کو انتقال کرگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ ابراہیم نفیس نے اپنے دور میں ہر مقبول میڈیم میں‌ کام کیا اور اپنی صلاحیتوں کو منوایا۔ انھوں نے ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم، تھیٹر اور اسٹیج پر کئی کردار نبھائے اور شہرت و مقبولیت حاصل کی۔

    ابراہیم نفیس کا تعلق ہندوستان کے شہر آگرہ سے تھا۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم جون پور سے حاصل کی تھی۔ ہجرت کرکے پاکستان آئے تو یہاں 1955ء میں ریڈیو پاکستان، حیدر آباد سے انائونسر کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ اسی عرصے میں پاکستانی فلمی صنعت سے وابستہ ہونے کا موقع ملا اور وہ فلموں میں‌ ہیرو اور سائیڈ ہیرو، ولن اور کریکٹر ایکٹر کی حیثیت سے نظر آئے۔ انہوں نے فلموں اور اسٹیج ڈراموں میں سیکڑوں کردار ادا کیے۔

    ابراہیم نفیس نے برطانیہ سے اداکاری کی تربیت حاصل کی تھی۔ ان کی آواز منفرد، چہرے کے تاثرات اور کردار نگاری کے دوران اتار چڑھاؤ اور مکالمے کی ادائیگی کا انداز بہت خوب صورت تھا۔ ابراہیم نفیس نے اسٹیج ڈرامے بھی کیے اور ٹیلی ویژن پر متعدد ڈراموں‌ میں‌ کردار نبھائے۔

    اس باکمال فن کار نے ’’ ایک حقیقت سو افسانے ‘‘اور’’ افشاں‘‘ جیسے ڈراموں‌ میں کردار نبھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئے۔ اسٹیج ڈراموں میں ’’بکرا قسطوں پر‘‘ ان کا یادگار ڈراما تھا۔

    ابراہیم نفیس کو تھیٹر آرٹسٹ اور براڈ کاسٹر کی حیثیت سے بہت عزّت اور مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے زمانے کے نام ور فن کاروں کے ساتھ کام کیا جب کہ جونیئرز کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔

    ’’ہیرا اور پتھر ‘‘اور’’ احسان ‘‘ جیسی کام یاب فلموں میں ابراہیم نفیس نے اہم کردار ادا کیے۔ اس کے علاوہ ’’جب جب پھول کھلے‘‘،’’عندلیب‘‘،’’آگ ہی آگ‘‘ اور’’ بدلتے موسم‘‘ میں بھی شان دار اداکاری کی۔

    ابراہیم نفیس نے آرٹ، تھیٹر اور ثقافت کی ترقی اور فروغ کے لیے بھی خوب کام کیا۔ انہوں نے خواجہ معین الدین اسکول آف پرفارمنگ آرٹس قائم کیا جہاں اداکاری کی تربیت دی جاتی تھی۔

  • قاضی واجد، باکمال فن کار، شفیق انسان

    قاضی واجد، باکمال فن کار، شفیق انسان

    صدا کار و اداکار تو وہ تھے ہی باکمال، قاضی واجد کی صلاحیتوں کے معترف اور ان کے مداح تو ہم سب ہیں، لیکن ان کی شخصیت کا ایک روشن حوالہ ان کی عاجزی، خلوص اور دوسروں‌ سے تعاون اور مدد کا جذبہ بھی ہے۔


    قاضی واجد نہایت شفیق، سبھی سے پیار اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    سبھی کو پیار محبت سے، مل جل کر رہنے کی تلقین کرنے والے قاضی واجد کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت گئے۔

    آج ان کی برسی ہے اور ساتھی فن کاروں سمیت مداح ان سے وابستہ یادیں تازہ کر رہے ہیں۔

    ان اصل نام قاضی عبدالواجد انصاری تھا۔ قاضی واجد نے 1943 میں گوالیار کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی میں بس گیا۔

    ریڈیو سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے قاضی واجد نے بچوں کے پروگرام کے لیے صدا کاری کے بعد جب قاضی جی کا قاعدہ شروع کیا تو زبردست کام یابی نصیب ہوئی۔ یہ پروگرام کئی سال جاری رہا۔

    اسی دور میں فلم بیداری میں چائلڈ آرٹسٹ کے طور پر کام کیا۔ پھر تھیڑ کی طرف آنکلے اور 1967 میں پروگرام ”آج کا شعر“ سے ٹی وی کی دنیا میں قدم رکھ دیا۔

    اسٹیج پرفارمنس کی بات کی جائے تو انھوں نے خواجہ معین الدین کے مشہور ڈرامے’تعلیم بالغاں‘، ’وادیِ کشمیر‘، ’مرزا غالب بندر روڈ‘ میں کام کر کے خوب داد سمیٹی۔

    ٹی وی سے پیش کش گویا ان کے لیے ملک بھر میں پہچان کا وسیلہ بنی۔ ٹی وی کے لیے پہلا ڈراما ’ایک ہی راستہ‘ تھا، جس میں قاضی واجد نے منفی کردار نبھایا۔

    1969’خدا کی بستی‘ وہ ڈراما سیریل تھا، جس نے قاضی واجد کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ اس میں انھوں نے ’راجا‘ کا کردار ادا کیا تھا۔

    اس کے اگلے برسوں میں ’تنہائیاں‘، ’ان کہی‘، ’دھوپ کنارے‘، ’حوا کی بیٹی‘ اور ’چاند گرہن‘ جیسی لازوال اور یادگار کہانیوں میں انھوں نے اپنا کردار نبھایا اور ناظرین کو اپنا مداح بنا لیا۔

    قاضی واجد نے زیادہ تر سنجیدہ، منفی اور مزاحیہ کردار نبھائے اور اپنی جان دار اداکاری سے انھیں یادگار بنایا۔

    1988 میں انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا۔ 11 فروری 2018 ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔