Tag: ٹیکسز

  • بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟

    بجلی کے بھاری بل لوگوں کے گھروں پر قیامت ڈھانے لگے، لوگ بچوں کا پیٹ بھریں یا بل؟ سوال یہ ہے کہ ان سفید ہاتھیوں ’آئی پی پیز‘ کو ادائیگیاں کیسے روکی جائیں؟ یہ مسئلہ حل کیسے ہوگا؟

    بجلی کیوں مہنگی ہے؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک بجلی کے بل میں کتنے ٹیکسز ہوتے ہیں؟ اس کی تفصیل اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن کے اینکر وسیم بادامی نے بتائی۔

    انہوں نے بتایا کہ اس میں شامل ہے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ( بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن کی قیمت پر منحصر ہوتا ہے، دوسرا ہے فیول کاسٹ یعنی جو نجلی پیدا ہوئی اس کے ایندھن کی قیمت۔ سہہ ماہی ایڈجسٹمنٹ (بجلی کی قیمت میں رد و بدل)کا علیحدہ سے ٹیکس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ بجلی کی فی یونٹ لاگت کا الگ سے ٹیکس ہوتا ہے، پھر جنرل سیلز ٹیکس (جی اسی ٹی) اس کے بعد فیول پرائس ایڈجسمنٹ پر بھی ٹیکس لگتا ہے۔ اس کے ساتھ گردشی قرضے کی مد میں فنانسنگ کاسٹ چارجز بھی اسی بل مین شامل ہیں۔

    اسی بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی شامل ہے جو 25 ہزار سے زائد بل پر ساڑھے 7فیصد نان ٹیکس فائلر کیلئے ہے ٹی وی کی ماہانہ فیس بھی اسی بل میں لگ کر آتی ہے۔ اس کے ساتھ دیگر اور ٹیکسز بھی ہیں جس کی ایک طویل فہرست ہے۔

    اس مسئلے کا آخر حل کیا ہے؟

    اے آر وائی نیوز کی خصوصی ٹرانسمیشن میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما سید مصطفیٰ کمال نے بجلی کے ہوشربا بل اور اس مسئلے کا حل بیان کرتے ہوئے خودمختار گارنٹی پر بھی روشنی ڈالی۔

    پروگرام کے میزبان وسیم بادامی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ70فیصد آئی پی پیز لوکل ہیں، ان میں وفاق اور صوبائی حکومتوں کے شیئرز ہیں،جبکہ 23 فیصد آئی پی پیز چین کے ہیں۔

    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں جاری رہیں تو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، چالیس سال سے جو مٹی کارپیٹ کے نیچے ڈال رہے تھے اب وہ باہر آگئی ہے۔

    متحدہ رہنما نے بتایا کہ جہاں تک خود مختار گارنجٹی کی بات ہے، بیرون ممالک کو چھوڑ کر جتنے بھی لوکل آئی پی پیز ہیں ان کو بلا کر اس مسئلے پر بات کی جاسکتی ہے۔

  • بچوں کے پیٹ بھریں یا بجلی کے بل؟ لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں

    بچوں کے پیٹ بھریں یا بجلی کے بل؟ لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں

    موجودہ نئی حکومت کے نئے بجٹ میں عوام پر لگائے جانے والے ہوشربا ٹیکسز کے نفاذ کے بعد لوگ بجلی کے بل دیکھ کر اپنے ہوش کھو بیٹھے۔

    بجلی بھاری بھر کم بلوں کو دیکھ کر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا، ٹیکسز سے بھرے بلوں نے عوام کے اوسان خطا کر دیے۔

    عوام کی بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام سرعام میں گفتگو کرتے ہوئے کچھ خواتین اس بات پر رو پڑیں کہ ہم گھر چلائیں یا بجلی کے بل بھریں؟

    کچھ ایسا ہی کہنا بجلی کے بل کی قسطیں کروانے کیلئے آنے والے لوگوں کا تھا ایک شخص نے بتایا کہ 365 یونٹ پر 32 ہزار روپے بل آگیا۔ اتنی تو ہماری تنخواہ نہیں کوئی ہمیں بتائے کہ ہم یہ مسئلہ کیسے حل کریں؟

    ایک خاتون نے روتے ہوئے بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اور کمانے والا ایک ہی بیٹا ہے، ہم ایک وقت کھانا کھاتے ہیں ایک اور خاتون نے بتایا کہ بل کی قسطیں کروانے آئی تھی لیکن کسی نے کرکے ہی نہیں دیا۔

    شہریوں کا کہنا تھا کہ اتنی مہنگائی کے دور میں اتنے زائد بل کہاں سے جمع کرائیں؟ بجلی کے بل بھریں یا دال روٹی سے گزر بسر کریں، بجلی کے بل گھر کی اشیا بیچ کر ادا کرنے پر مجبور ہیں، اعلیٰ حکام ہم مزدوروں اور غریب طبقے پر رحم کریں اور زائد بل کا نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لیں۔

  • بجلی کے بلوں، کے الیکٹرک، ٹیکسز کے خلاف پیر کو مارکیٹوں میں احتجاج ہوگا

    بجلی کے بلوں، کے الیکٹرک، ٹیکسز کے خلاف پیر کو مارکیٹوں میں احتجاج ہوگا

    امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے بجلی کے بلوں، کے الیکٹرک اور ٹیکسز کے خلاف مشاورتی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ پیر کو کراچی کی تمام مارکیٹ میں بیک وقت احتجاج ہو گا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق بجلی کے بلوں، کےالیکٹرک اور مختلف ٹیکسوں کی بھرمارکے خلاف سول سوسائٹی، تاجروں اور مختلف طبقات کے ساتھ جماعت اسلامی نے مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا، حافظ نعیم الرحمان نے پیر کو کراچی کی تمام مارکیٹ میں بیک وقت احتجاج کرنے کا عندیہ دے دیا۔

    انھوں نے کہا کہ احتجاجی مظاہروں کے ساتھ کراچی میں ہڑتال بھی کی جائے گی، ستمبر کے شروع کے دنوں میں پہیہ جام اور شٹرڈاؤن کریں گے، جماعت اسلامی کی پہیہ جام ہڑتال پرامن ہوگی، گورنر کراچی کے نمائندے ہیں وہ وفاق میں کراچی کی نمائندگی کریں، گورنرعوام کا مسئلہ حل کریں اور معاملے کو سنجیدہ لیں ورنہ ہم گورنر ہاؤس کا گھیراؤ کریں گے۔

    حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ ہم قانون کو ہاتھ میں لینا نہیں چاہتے، عملےکوعوام کے ساتھ مت لڑائیں، 15 دن تک کراچی میں کےالیکٹرک کی کوئی گاڑی میٹر کاٹنے نہیں آنی چاہیے، عملے اور عوام کو لڑا کر مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی تو حالات کی ذمہ دار حکومت ہوگی۔

    انھوں نے کہا کہ کےالیکٹرک 800 ارب کا نادہندہ ہے لیکن اس کا لائسنس منسوخ نہیں ہوتا، کراچی کا شہری ایک ماہ کا بل اد انہ کرے تو اس کا کنکشن کیوں کاٹا جاتا ہے۔

    حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ چیمبرآف کامرس انڈسٹری میں بہت اہم اہمیت رکھتا ہے، کراچی چیمبر اور فیڈریشن چیمبر کو بھی بجلی کے بلوں کے خلاف سامنے آنا ہوگا، کراچی کے ساڑھے 3 کروڑ عوام پریشانی کا شکار ہیں،

    انھوں نے کہا کہ مسئلہ کراچی کے عام شہری، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کا ہے، بجلی کے بل میں 7.50 اضافہ فوری طور پر واپس لیا جائے، بجلی کے بل میں غیرمنصفانہ ٹیکس لگائے گئے ہیں،

    امیرجماعت اسلامی کراچی نے کہا کہ کراچی میں رہنے والا بہت بڑاطبقہ کرائے کے گھروں میں ہے، فیول ایڈجسمنٹ چارجز کے نام پر کراچی کے عوام سے اربوں لوٹے گئے۔

    انھوں نے کہا کہ کےالیکٹرک کی مونوپولی کسی صورت قبول نہیں، نگراں وزیراعظم دانشورانہ سوچ کے حامل ہیں، دانشورانہ سوچ اور باتوں سے بھوکے کی بھوک ختم نہیں ہوسکتی، جن کی 25 ایکٹر سے زائد زمین ہے ان سے بھی ٹیکس لیا جائے۔

    حافظ نعیم نے کہا کہ نگراں وزیراعظم ذاتی استعمال کے لیے ایک ہزارسی سی گاڑی استعمال کریں، وزرا، مشیر اور افسران کے لیے بھی ہزار سی سی گاڑی کا انتخاب کریں۔

  • گھر بنانا مشکل ہوگیا، تعمیراتی صنعت تباہی کے دہانے پر

    گھر بنانا مشکل ہوگیا، تعمیراتی صنعت تباہی کے دہانے پر

    ملک بھر میں تعمیراتی سامان کی لاگت میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا جس کے بعد تعمیراتی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔

    تفصیلات کے مطابق حکومت کی جانب سے ٹیکسز میں بے تحاشہ اضافے کے بعد ہر شعبے کی طرح تعمیراتی شعبہ بھی ٹھپ ہوگیا۔

    عام شہری کا گھر بنانا خواب ہوگیا جبکہ بلڈرز نے بھی اپنے پروجیکٹس ادھورے چھوڑ دیے۔

    تعمیرات میں استعمال ہونے والے سریے، بجری اور سیمنٹ وغیرہ کی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں، صرف ایک ماہ قبل ڈیڑھ لاکھ روپے فی ٹن ملنے والا سریا 3 لاکھ روپے میں فروخت ہورہا ہے۔

    تعمیراتی سامان فروخت کرنے والے دکاندار بھی پریشان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قیمتیں بڑھنے کے بعد سامان کی کھپت نصف ہوچکی ہے۔

    عام افراد اور بلڈرز کا کہنا ہے کہ ٹیکسز میں کمی کی جائے اور پائیدار معاشی حکمت عملی اپنائی جائے تاکہ ملک بھر میں ٹھپ پڑا کاروبار کا پہیہ پھر سے چل سکے۔

  • سال 22-2021: بجٹ میں کتنے ٹیکسز لگیں گے؟

    سال 22-2021: بجٹ میں کتنے ٹیکسز لگیں گے؟

    اسلام آباد: آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ کے خدوخال سامنے آگئے، سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 506 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی حکومت کے آئندہ مالی سال 22-2021 کے بجٹ کے خدوخال سامنے آگئے، وفاقی بجٹ میں 24 فیصد گروتھ کے ساتھ خالص ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 ہزار 829 ارب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ براہ راست ٹیکس انکم ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 182 ارب مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ان ڈائریکٹ ٹیکسوں میں سے سیلز ٹیکس کی مد میں وصولیوں کا ہدف 2 ہزار 506 ارب ہے۔

    فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 356 ارب روپے، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں وصولیوں کا ہدف 785 ارب، انکم ٹیکس وصولیوں کے لیے گروتھ کا ہدف 22 فیصد اور سیلز ٹیکس وصولیوں میں گروتھ کا ہدف 30 فیصد رکھا جائے گا۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں گروتھ کا ہدف 29 فیصد رکھا جائے گا، کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں گروتھ کا ہدف 12.1 فیصد مقرر کرنے، اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں 2 ہزار 503 ارب 39 کروڑ وصول کرنے کا ہدف مقرر کرنے اور سروسز پر سیلز ٹیکس وصولیوں کا ہدف 2 ارب 61 کروڑ مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بیوریجز سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 5 ارب 13 کروڑ 50 لاکھ، بیوریجز کنسٹریٹ سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 33 ارب 64 کروڑ 60 لاکھ، سیمنٹ سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 1 کھرب 2 ارب 41 کروڑ 50 لاکھ جبکہ ٹوبیکو سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 1 کھرب 34 ارب 54 کروڑ 10 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قدرتی گیس سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 11 ارب 97 کروڑ 20 لاکھ روپے، پیٹرولیم مصنوعات سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 4 ارب 32 کروڑ 80 لاکھ روپے، درآمدی اشیا سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 2 ارب 17 کروڑ روپے اور سروسز سیکٹر سے فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا ہدف 14 ارب 95 کروڑ 50 لاکھ روپے مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

  • ٹیکس کی وصولی میں‌ خوش گوار اضافہ

    ٹیکس کی وصولی میں‌ خوش گوار اضافہ

    اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے نے مالی سال جولائی تا فروری ہدف سے زائد ریونیو حاصل کر لیا۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ایف بی آر نے مالی سال کے پہلے 8 ماہ میں حاصل کردہ محصولات کی تفصیلات جاری کر دی۔

    ایف بی آر نے جولائی تا فروری 2916 ارب روپے کا نیٹ ریونیو حاصل کیا، یہ ٹیکس وصولیاں اس عرصے کے مقرر کردہ ہدف 2898 ارب روپے سے زائد ہے، اور پچھلے برس حاصل کردہ ریونیو 2570 ارب کے مقابلے میں 6 فی صد اضافہ حاصل ہوا۔

    ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ماہ فروری میں ریونیو نیٹ کلیکشن 343 ارب روپے رہا، فروری کے لیے مقرر کردہ ہدف 325 ارب روپے تھا، اس طرح مقرر کردہ ہدف کے مقابلے میں 106 فی صد اضافہ حاصل ہوا، اور پچھلے سال فروری کے حاصل کردہ نیٹ ریونیو کے مقابلے میں 8 فی صد اضافہ ہوا۔

    ایف بی آر کے مطابق رواں مالی سال اب تک 152 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے جاچکے ہیں، پچھلے سال اس عرصے میں ریفنڈز کا حجم 79 ارب روپے تھا، اس سال اب تک ریفنڈز کے اجرا میں 97 فی صد اضافہ حاصل ہوا۔

    دوسری طرف 2020 کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد 26 لاکھ 23 ہزار ہو چکی ہے، یہ تعداد پچھلے برس اس عرصے تک 24 لاکھ 30 ہزار تھی، یوں ٹیکس گوشوارے داخل کرنے والوں کی تعداد میں بھی 8 فی صد اضافہ حاصل ہوا ہے۔

  • ملک بھر میں اگست میں ایف بی آر کی وصولیوں میں اضافہ

    ملک بھر میں اگست میں ایف بی آر کی وصولیوں میں اضافہ

    کراچی: ماہ اگست میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی وصولیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، ایف بی آر کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس وصولی میں 12 فی صد اضافہ نوٹ کیا گیا۔

    ایف بی آر کے مطابق انکم اور سیلز ٹیکس 30 اعشاریہ 4 فی صد سے بڑھ کر 42 اعشاریہ 7 فی صد ہو گیا، اس سلسلے میں چیف کمشنر آر ٹی او 2 بدر الدین قریشی کو اسلام آباد سے مبارک باد کا خط لکھا گیا۔

    ایف بی آر نے ہدایت کی ہے کہ آنے والے مہینوں میں مزید محنت کر کے ریونیو بڑھایا جائے۔

    واضح رہے کہ ہفتے کو چیئرمین ایف بی آر نے کہا تھا ٹیکس بیس میں اضافے کے لیے طریقۂ کار آسان بنانے کی ضرورت ہے، پاکستان کی خوش حالی کے لیے سب کو ٹیکس میں اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، اس سلسلے میں تاجروں کے ساتھ مثبت مذاکرات جاری ہیں۔

    ایف بی آر کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ برآمدات بڑھانے کے لیے اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز (ایس ایم ایز) کے لیے قواعد میں تبدیلی کی گئی ہے، نوٹیفیکشن بھی جاری کر کے کہا گیا کہ برآمدات اسکیم میں آسانی کی گئی جس سے بزنس کمیونٹی کو فائدہ ہوگا۔

    یہ بھی پڑھیں:  ایف بی آر کا کے الیکٹرک اور سوئی گیس کے لاکھوں صارفین کو نوٹس

    بتایا گیا کہ پورٹ پر کلیئرنس کے سسٹم کو بھی خود کار کر دیا گیا ہے، اس سے ہیومن انٹر ایکشن میں کمی اور کاروباری ماحول بہتر ہوگا۔

    یاد رہے کہ 3 ستمبر کو ایف بی آر نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف بڑی کارروائی کا فیصلہ کرتے ہوئے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے تجارتی اور صنعتی صارفین کو نوٹسز جاری کیے، اس سلسلے میں کے الیکٹرک کے ڈھائی لاکھ تجارتی اور صنعتی صارفین کو نوٹسز جاری ہوئے۔

    ایف بی آر کی جانب سے سوئی گیس کے بھی 4700 تجاتی اور صنعتی صارفین جو رجسٹرڈ نہیں تھے، کو نوٹس جاری کیے گئے۔

  • ایف بی آر نے موٹر سائیکل اور رکشوں پر بھاری ٹیکسز عائد کرنے کی تردید کر دی

    ایف بی آر نے موٹر سائیکل اور رکشوں پر بھاری ٹیکسز عائد کرنے کی تردید کر دی

    کراچی: گزشتہ روز موٹر سائیکل اور رکشوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد ہونے کی خبریں سامنے آنے کے بعد فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اس قسم کے کسی بھی ٹیکس عائد کرنے کی تردید کردی۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے موٹر سائیکل یا رکشوں پر بھاری ٹیکسز عائد کرنے کی تردید کر دی۔

    گزشتہ روز میڈیا کے ذریعے اس قسم کی خبریں سامنے آئی تھیں کہ ایف بی آر نے موٹر سائیکل اور رکشوں کی رجسٹریشن پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کر دیا ہے جس کے بعد موٹر سائیکل کی رجسٹریشن فیس 3 ہزار 400 روپے بڑھ کر 20 ہزار 900 روپے ہو جائے گی۔

    تاہم اب ایف بی آر نے اپنے وضاحتی بیان میں موٹر سائیکل اور رکشوں پر ود ہولڈنگ ٹیکسز عائد کرنے کی تردید کردی ہے۔

    ایف بی آر کی پالیسی انکم ٹیکس کے رکن عتیق سرور نے کہا کہ موٹر وہیکل ٹیکسز پر رد و بدل کا اطلاق کم آمدن والے طبقے کے لیے نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ موٹر سائیکل پر ود ہولڈنگ ٹیکس کسی افسر کی ذاتی تشریح ہو سکتی ہے، ایف بی آر پالیسی نہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ٹیکس اضافے کی کوشش میں چھوٹے طبقے کو چھوٹ دینا حکومت کی ترجیح ہے۔

  • وزیر اعظم کی ایف بی آر کو بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف ہنگامی اقدامات کی ہدایت

    وزیر اعظم کی ایف بی آر کو بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف ہنگامی اقدامات کی ہدایت

    اسلام آباد: وزیر  اعظم عمران خان نے بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف ایف بی آر کو ہنگامی اقدامات کی ہدایت کر دی.

    تفصیلات کے مطابق آج وزیرِ اعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا، جس میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اصلاحات سے متعلق معاملات پر غور ہوا، وزیرِ خزانہ اسد عمر، وزیرِ مملکت برائے ریونیو حماد اظہر اور چیئرمین ایف بی آر جہانزیب خان سمیت سینئر افسران کی شرکت کی.

    اجلاس میں وزیراعظم عمران خان کی بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف کاروائی اور نان ٹیکس فائلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ایف بی آر کو ہدایات جاری کیں.

    [bs-quote quote=”ماضی کی حکومتوں نے ٹیکس نظام میں موجود خرابیوں کو  نظر انداز کیا” style=”style-7″ align=”left” author_name=”وزیر اعظم عمران خان”][/bs-quote]

    وزیرِ اعظم کو پاکستانی شہریوں کی بیرون ملک جائیدادوں اور  بیرون ملک اثاثوں پر ملکی قوانین کے تحت قابلِ وصول ٹیکسز کی وصولی کے لئے کیے جانے والے اقدامات پر بریفنگ دی گئی.

    ایف بی آر نے وزیر اعظم کو  آگاہ کیا کہ بیرون ملک اثاثوں کی تفصیلات موصول ہو رہی ہیں، تفصیلات کا جائزہ شروع کر دیا، قانون کے مطابق ٹیکس کی وصولی کے لئے سیکڑوں افراد کو نوٹس جاری کیے گئے.

    اجلاس میں‌ ملک کے چھ بڑے شہروں میں آف شور  ٹیکسیشن کمشنریٹ قائم کرنے پر اتفاق ہوا ، کمشنریٹ لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور ملتان میں قائم ہوں گے، وزیراعظم عمران خان کی بیرون ممالک اثاثہ جات سے متعلقہ کیسز کو جلد منطقی انجام تک پہنچانے کی ہدایت کی۔

    مزید پڑھیں: برف پوش پہاڑوں پر فرائض انجام دینے والے پولیو ورکرز کی وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات

     وزیر اعظم نے کہا کہ آف شور ٹیکسیشن کمشنریٹس کو افرادی طور پر مزید مستحکم کیا جائے، ایف بی آر میں اصلاحات حکومت کے ریفارمز ایجنڈے کا اہم جزو ہے، ماضی کی حکومتوں نے ٹیکس نظام میں موجود خرابیوں کو  نظر انداز کیا، ٹیکس نیٹ بڑھانے کے طریقہ کار پر بھی توجہ نہیں دی گئی، ملکی اخراجات کا تیس فیصد محض قرضوں پر جمع شدہ سود کی ادائیگیوں پر خرچ ہو رہا ہے.

    وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ٹیکس وصولیوں کا عمل پیچیدہ بنایا گیا، عام شہریوں کا ٹیکس کے نظام اور ایف بی آر سے اعتماد اٹھ چکا ہے، جسے بحال کرنے کی ضرورت ہے.

    بیرون ملک جائیدادوں سے متعلق کیسز کی چھان بین کے دوران اہم معلومات مل گئیں، وزیراعظم کا کیسز کو حتمی انجام تک پہنچانے کے لئے ملک کے چھ بڑے شہروں میں آف شور ٹیکسیشن کمشنریٹ قائم کرنے کی ہدایت