Tag: ٹیکس

  • 3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب کی ریکوری نہیں ہو سکی

    3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب کی ریکوری نہیں ہو سکی

    اسلام آباد: ایف بی آر ریکوریز میں ناکام ہو گیا ہے، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں ناقص کارکردگی کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔

    آڈٹ رپورٹ کے مطابق 3 ہزار سے زائد ایف بی آر نوٹسز کی میعاد گزرنے کے باوجود 80 ارب روپے کی ریکوری نہیں ہو سکی، 1173 ٹیکس دہندگان کی آمدنی پر درست حساب نہ ہونے سے 104 ارب کا نقصان ہوا۔

    ایف بی آر کے پاس متعدد نان ریکوریز کی وصولی کے لیے حتمی ڈیڈ لائن نہیں ہے، 519 ٹیکس دہندگان نے سروسز کی فراہمی، سپلائی اور کنٹریکٹس پر 41 ارب ود ہولڈنگ ٹیکس نہیں دیا۔

    آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس کی چوری پر ایف بی آر کی جانب سے کوئی اقدام نہیں کیا گیا، ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس ریفنڈ میں فراڈ پر اقدامات نہیں کیے جا رہے۔

    رپورٹ کے مطابق 2604 ٹیکس دہندگان پر لیٹ پیمنٹ ڈیفالٹ سرچارج نہ لگنے سے 11 ارب ریکور نہیں ہوئے، ریٹیلرز، ہول سیلرز اور ڈسٹری بیوٹرز کی جانب سے انکم ٹیکس ادا نہ کرنے سے 9 ارب کا نقصان ہوا۔

    آڈیٹر جنرل کی جانب سے گزشتہ برسوں کے دوران بھی نان ریکوریز کی نشان دہی کی گئی تھی۔

  • کینیا کی متنازعہ ٹیکس تجاویز کیا ہیں؟

    کینیا کی متنازعہ ٹیکس تجاویز کیا ہیں؟

    نیروبی: کینیا میں ایک غیر مقبول فنانس بل کے خلاف مظاہروں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جب کہ پارلیمنٹ کی عمارت کے ایک حصے کو مظاہرین نے نذر آتش کیا۔

    بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے جو بل منظور کیا اس سے عام شہریوں اور کاروباری اداروں پر ٹیکس کا بوجھ ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گا، جو پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔

    پولیس نے منگل کو مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ شدید عوامی رد عمل کے بعد حکومت نے کچھ متنازعہ تجاویز واپس لے لیے ہیں تاہم عوام نے پورے بل کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

    متنازعہ بل میں کیا ٹیکس تجاویز دی گئیں؟

    بنیادی اشیا پر ٹیکس

    بل میں ابتدائی طور پر روٹی پر 16 فی صد سیلز ٹیکس اور کوکنگ آئل پر 25 فی صد ڈیوٹی لگانے کی تجویز دی گئی تھی۔

    ایک منصوبہ بند طریقے سے مالیاتی لین دین پر بھی ٹیکس میں اضافہ تجویز کیا گیا تھا، اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی ملکیت پر گاڑی کی مالیت کا 2.5 فی صد نیا سالانہ ٹیکس بھی لگایا گیا تھا۔ تاہم عوامی مخالفت کے بعد حکومت نے کہا کہ وہ ان تجاویز سے دست بردار ہو جائے گی۔

    ایکو لیوی

    ایسی مصنوعات پر چارج لگانے کی تجویز دی گئی تھی جن سے ماحولیات کو نقصان پہنچتا ہے اور فضلے میں اضافہ ہوتا ہے، یہ بل کی ایک اہم شق تھی جس میں حکومت نے اب ترامیم تجویز کی ہیں۔

    ناقدین نے نشان دہی کی تھی کہ اس ٹیکس سے بچوں کی نیپیز کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈ جیسی ضروری اشیا کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا، ان کا کہنا تھا کہ لڑکیوں کی ایک کثیر تعداد کی پہنچ سے پہلے ہی سے یہ مصنوعات باہر ہیں، جس کی وجہ سے وہ اسکول جانے سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔

    تنقید کے بعد کینیا کی حکومت نے کہا کہ یہ محصول صرف درآمدی مصنوعات پر لاگو ہوگا۔

    ڈیجیٹل مصنوعات بشمول موبائل فونز، کیمرے اور ریکارڈنگ کا سامان بھی ایکو لیوی کا ہدف تھا، لیکن عوام کا کہنا ہے کہ وہ اپنی روزی روٹی کے لیے ان مصنوعات پر انحصار کرتے ہیں جو ڈیجیٹل معیشت کے لیے ضروری ہیں۔

    اسپیشلائزڈ اسپتالوں پر ٹیکس

    فنانس بل میں کم از کم 50 بستروں کی گنجائش والے اسپیشلائزڈ اسپتالوں کی تعمیر اور انھیں آلات سے لیس کرنے میں جس براہ راست سامان اور سروسز کی ضرورت پڑتی ہے، ان پر16 فی صد ٹیکس متعارف کرایا گیا ہے۔ تاہم عوام نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اس سے ہیلتھ کیئر کاسٹ بڑھ جائے گی۔

    اس سلسلے میں پارلیمانی فنانس کمیٹی کے چیئرمین نے صرف ایک دعوے کو ’جھوٹ‘ قرار دیا کہ اس بل کے ذریعے کینسر کے مریضوں پر ٹیکس لگایا جائے گا۔

    زیادہ درآمدی فیس

    بل میں درآمدی ٹیکس کی شرح 2.5 فی صد سے بڑھا کر 3 فی صد کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو درآمد کنندہ کو ادا کرنا ہوگا۔ ایک سال قبل ہی یہ شرح 3.5 سے 2.5 فی صد کی گئی تھی، اب اسے پھر بڑھایا جا رہا ہے، جس پر مظاہرین کا کہنا ہے کہ ان تبدیلیوں سے درآمدی مصنوعات کی قیمتیں بڑھ جائیں گی۔

    مظاہرین اب بھی ناراض کیوں ہیں؟

    اگرچہ حکومت نے کچھ تجاویز کو ختم کر دیا ہے لیکن کچھ باقی ہیں، بشمول اعلیٰ درآمدی ٹیکس۔ لیکن لوگوں کے خدشات اس بل سے کہیں زیادہ گہرے ہیں، کینیا کے عوام حکومت سے مایوس ہو چکے ہیں، وہ سوال اٹھا رہے کہ کینیا کے صدر کیوں چاہتے ہیں کہ لوگ ’ٹیکس مین‘ سے پیار کریں۔ انھوں نے دلیل دی کہ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں کینیا کے ٹیکس نسبتاً کم ہیں، لیکن مظاہرین اس دلیل سے قائل نہیں ہوئے ہیں۔

    آگے کیا ہوگا؟

    یہ بل اب منظور ہو چکا ہے، صدر 14 دنوں کے اندر اس پر دستخط کر سکتے ہیں، یا اسے مزید ترامیم کی تجویز کے ساتھ پارلیمنٹ کو واپس بھیج سکتے ہیں۔ حکومت دباؤ کو کم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کا بھی انتخاب کر سکتی ہے، بشمول بل کو مؤخر کرنا، تاہم بہ ظاہر اس کا امکان کم ہے۔

  • ’’تنخواہ دار طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے‘‘

    ’’تنخواہ دار طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے‘‘

    پی پی رہنما شازیہ مری نے کہا ہے کہ ایک طبقے کو ٹارگٹ نہ کریں جو پہلے سے ٹیکس دے رہا ہے، تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے گئے۔

    تفصیلات کے مطابق اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کی سینئر رہنما کا کہنا تھا کہ بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکس لگائے گئے، تنخواہ 37 ہزار رکھی ہے تو اس پر عمل بھی کرایا جائے، یہ بجٹ بلاول بھٹو کی سربراہی میں نہیں بنا، بہتر ہوتا بجٹ میں ٹیکسز کو بیلنس کیا جاتا۔

    شازیہ مری نے کہا کہ سیاسی لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لایا جاتا، کڑوا گھونٹ ہم نے پینا ہے یہ تو ہم نے مان لیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پیٹرول پر لیوی 60 سے بڑھاکر 80 روپے کردی گئی، وزیرخزانہ نےغلط بیانی کی کہ بلاول بھٹو کو بجٹ پر اعتماد میں لیا تھا، پنجاب میں ہمارے ارکان کو نظر انداز کیا جارہا تھا۔

    شازیہ مری نے کہا کہ پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو ہی ٹیکس کامزید رگڑا لگ رہا ہے، ہیلتھ سیکٹر پر 18 فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔

    سندھ میں ہمارے پاس 10 این آئی سی وی ڈی اسپتال ہیں، این آئی سی وی ڈی سے ہر سال 23 لاکھ لوگ علاج کراتے ہیں، اس میں بڑی تعداد دوسرے صوبے سے آنے والوں کی ہے۔

    شازیہ مری نے کہا کہ بلاول نے کہا ایک این آئی سی وی ڈی جیسا اسپتال بنا کر دکھائیں، اگر بنا نہیں سکتے تو جو ہیں ان پر بوجھ نہ ڈالیں۔

  • ہم نے مہنگائی کی کمر نہیں تو ٹانگ ضرور توڑی ہے، خرم دستگیر

    ہم نے مہنگائی کی کمر نہیں تو ٹانگ ضرور توڑی ہے، خرم دستگیر

    وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ مہنگائی اب آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوگئی ہے، ہم نے اس کی کمر نہیں تو کم از کم ٹانگ ضرور توڑ دی ہے۔

    یہ بات انہوں نے اے آر وائی نیوز کی بجٹ کے حوالے سے کی جانے والی خصوصی ٹرانسمیشن میں میزبا وسیم بادامی سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

    ن لیگ کے مرکزی رہنما نے کہا کہ کچھ سیکٹر میں ٹیکس لگانے کی بات ہوتی ہے تو اس کا سخت ردعمل آتا ہے تاہم حکومت کیلئے یہ بات اہم ہے کہ ٹیکس نظام میں بہتری کیسے لانی ہے۔

    ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جو لوگ پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان پر ایک روپیہ بھی مزید ٹیکس نہیں لگنا چاہیے، ایسے لوگوں پر مزید ٹیکس لگانے سے اجتناب کرنا پڑے گا۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ریئل اسٹیٹ سیکٹر بغیر ٹیکس کے چل رہا ہے، ریئل اسٹیٹ گروتھ اور انویسٹمنٹ کا بڑا سورس ہے یہ ایک نشہ بن چکا ہے، اس شعبے پر ٹیکس لگانے کی بات کرتے ہیں تو مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ ریاست اور اداروں کو مضبوط کرنا ضروری ہے، حکومت کو ایف بی آر کی اخلاقی اہمیت کو بھی دیکھنا پڑے گا۔

    مختلف اداروں کی نجکاری سے متعلق بات کرتے ہوئے خرم دستگیر نے کہا کہ اس وقت پرائیوٹائزیشن کا عمل بھی حکومت کیلئے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت مختلف بین الاقوامی ماحول میں اپنی معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش کررہا ہے، ہمیں باہر سے سرمایہ کاری لانی ہے یا خود جنریٹ کرنی ہے۔

    وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ پاکستان استحکام کی جانب بڑھ رہا ہے اس کی ایک مثال اسٹیٹ بینک کا کل کا فیصلہ بھی ہے، کل اسٹیٹ بینک نے شرح سود کو ڈیڑھ فیصد کم کیا، ماہ مئی میں مہنگائی کی شرح 11.8فیصد کے اعداد و شمار آئے ہیں جو خوش آئند ہے۔

  • کتنے فیصد پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے حامی ہیں؟

    کتنے فیصد پاکستانی ٹیکس ادا کرنے کے حامی ہیں؟

    اسلام آباد : پاکستانیوں کی بڑی تعداد ٹیکس چوری کی مخالف ہے ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس چوری کو ملکی معیشت کےلیے نقصان دہ ہے۔

    اس حوالے سے گیلپ پاکستان نے عوامی آرا پر مبنی نیا سروے جاری کیا ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملکی آبادی کے 84 فیصد شہریوں نے ٹیکس چوری کی شدید مخالفت کی جبکہ 11فیصد نے اس کے خلاف بیان دیا۔

    گیلپ پاکستان سروے میں ملک بھر سے 1 ہزار سے زائد شہریوں نے حصہ لیا، یہ سروے 29فروری سے 15مارچ 2024 کےدرمیان کیا گیا تھا۔

    مذکورہ سروے میں شامل 84 فیصد پاکستانیوں نے ٹیکس دینے کی حمایت کی اور ٹیکس چوری کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس چوری سے ملکی معیشت کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے البتہ 11فیصد افراد ٹیکس دینے کے مخالف نظر آئے۔

    سروے میں 2 فیصد پاکستانیوں نے موقع ملنے کے باوجود ٹیکس نہ دینے پر درمیانہ مؤقف اختیار کیا، انہوں نے نہ تو ٹیکس دینے کی کھل کر حمایت کی اور نہ ہی مخالفت میں رائے دی۔

  • بابا رام دیو کو اب ٹیکس ادا کرنا پڑے گا

    بابا رام دیو کو اب ٹیکس ادا کرنا پڑے گا

    بھارت کے مشہور یوگا گرو بابا رام دیو کو سپریم کورٹ نے ایک اور جھٹکا دے دیا ہے، اب انھیں سروس ٹیکس بھی ادا کرنا ہوگا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایلوپیتھی کے خلاف گمراہ کن اشتہارات کے معاملے کے بعد سپریم کورٹ نے رام دیو کے خلاف یوگا کیمپوں کو سروس ٹیکس کے زمرے میں لانے والے ٹربیونل فیصلے کی توثیق کر دی ہے۔

    اپیلٹ ٹربیونل نے فیصلے میں کہا تھا کہ پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ کی جانب سے رہائشی اور غیر رہائشی دونوں جگہوں پر یوگا کیمپوں کے انعقاد کے لیے انٹری فیس وصول کی جاتی ہے، اس لیے وہ سروس ٹیکس ادا کرے گا۔

    یوگا گرو بابا رام دیو کی قیادت میں ٹرسٹ کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے عدالتی بنچ نے کہا ’’ٹربیونل نے بجا طور پر کہا ہے کہ کیمپوں میں فیس کے عوض یوگا کرانا ایک سروس ہے، اس لیے اپیل خارج کی جاتی ہے۔‘‘

    واضح رہے کہ پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ رام دیو کے یوگ کیمپ میں شریک ہونے والوں سے داخلہ فیس لیتا ہے، ٹریبونل نے کہا کہ ٹرسٹ یوگا تربیت کے شرکا سے چندے کی صورت میں رقم وصول کرتا ہے، لیکن درحقیقت یہ سروس فراہم کرنے کے لیے انٹری فیس ہے۔

    یاد رہے کہ میرٹھ رینج کے کسٹمز اور سینٹرل ایکسائز کے کمشنر نے پتنجلی یوگ پیٹھ ٹرسٹ کو اکتوبر 2006 اور مارچ 2011 کے درمیان منعقد کیے گئے ایسے کیمپوں کے لیے جرمانے اور سود سمیت تقریباً 4.5 کروڑ روپے ادا کرنے کو کہا تھا، تاہم ٹرسٹ نے دلیل دی تھی کہ وہ ایسی خدمات فراہم کر رہا ہے جو بیماریوں کے علاج کے لیے ہیں اور یہ ’ہیلتھ اینڈ فٹنس سروسز‘ کے زمرے میں نہیں آتا، مگر ٹربیونل نے کہا کہ مخصوص بیماریوں کے علاج کے دعوے کا کوئی بھی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔

    ٹربیونل کے مطابق کیمپوں میں یوگا اور مراقبہ کسی ایک شخص کو نہیں بلکہ پورے گروپ کو ایک ساتھ سکھایا جاتا ہے، اور کسی فرد کی مخصوص بیماری/شکایت کی تشخیص یا علاج کے لیے اسے کوئی نسخہ نہیں لکھا جاتا۔

  • جس دن حکومت ٹیکس اسکیم لاگو کرنے کی کوشش کرے گی ریٹیلرز دکانیں بند کر دیں گے، شبر زیدی

    جس دن حکومت ٹیکس اسکیم لاگو کرنے کی کوشش کرے گی ریٹیلرز دکانیں بند کر دیں گے، شبر زیدی

    کراچی: سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے خبردار کیا ہے کہ جس دن حکومت ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اسکیم لاگو کرنے کی کوشش کرے گی، ریٹیلرز دکانیں بند کر دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے شبر زیدی نے کہا کہ ایف بی آر نے ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی اسکیم تیار کی ہے لیکن 1992 سے یہ کوشش کی جا رہی ہے، اور ہر حکومت اس میں ناکام ہوئی۔

    انھوں نے کہا اگر صرف خانہ پری کرنی ہے تو ایف بی آر اسکیم کا کوئی فائدہ نہیں، فکسڈ ٹیکس ریٹیلرز پر لگانے کا قائل نہیں، چھوٹے دکان دار پر لگ سکتا ہے، لیکن اربوں روپے کے کاروبار کرنے والے پر کیسے فکسڈ ٹیکس لگائیں گے؟ انھوں نے کہا دکان داروں پر فکسڈ ٹیکس کی باتیں لوگوں کو بے وقوف بنانے کی باتیں ہیں۔

    شبر زیدی کا کہنا تھا کہ ریٹیلرز کی شٹر ڈاؤن طاقت ایسی تمام اسکیموں کو ختم کر دیتی ہے، میں چیئرمین ایف بی آر تھا تو میرے خلاف مظاہرے ہوئے اور مجھے عہدہ چھوڑنا پڑا، جس دن حکومت اسکیم لاگو کرنے کی کوشش کرے گی ریٹیلرز دکانیں بند کر دیں گے۔

    سابق چیئرمین ایف بی آر نے کہا ’’جب مارکیٹ بند ہو، لوگوں کو دودھ اور گوشت نہ ملے تو کون سی حکومت ان کے سامنے کھڑی ہو پائے گی۔‘‘

  • فلسطین سے جمع ہونے والے ٹیکس فنڈز سے متعلق افسوسناک خبر

    فلسطین سے جمع ہونے والے ٹیکس فنڈز سے متعلق افسوسناک خبر

    تل ابیب: اسرائیلی کابینہ نے فلسطین سے جمع ہونے والے ٹیکس فنڈز ناروے کے پاس رکھنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیلی حکام نے اتوار کو بتایا کہ کابینہ نے حماس کے زیرِ انتظام غزہ کی پٹی کے لیے مختص کردہ ٹیکس فنڈز کو فلسطینی اتھارٹی کو منتقل کرنے کی بجائے ناروے کے پاس رکھنے کے منصوبے کی منظوری دے دی۔

    1990 کے عشرے میں طے پانے والے عبوری امن معاہدوں کے تحت اسرائیل کی وزارتِ خزانہ فلسطینیوں کی جانب سے ٹیکس جمع کرتی ہے اور پھر یہ فنڈز مغربی حمایت یافتہ افراد کو ماہانہ بنیاد پر منتقل کر دیتی ہے۔

    اس فنڈز کے انتظامات پر مسلسل جھگڑے ہوتے رہے ہیں، اسرائیل کا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ یہ فنڈز حماس تک نہ پہنچیں۔ واضح رہے کہ حماس نے ایک مختصر خانہ جنگی اور اسرائیل کے آباد کاروں اور فوجی دستوں کے انخلا کے دو سال بعد 2007 میں مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اٹھارٹی سے غزہ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

    وزیر اعظم نیتن یاہو کے ایک بیان کے مطابق ٹیکس فنڈز کے بارے میں کابینہ کے اس فیصلے کو ناروے اور امریکا کی حمایت حاصل ہے۔

    نیتن یاہو کا حماس کی شرائط پر رد عمل

    تاہم فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل حسین الشیخ نے ایکس پر اتوار کے روز کہا کہ ’’ہمارے مالی حقوق میں سے کوئی بھی کٹوتی یا اسرائیل کی طرف سے عائد کردہ کوئی بھی شرائط، جو غزہ کی پٹی میں ہمارے لوگوں کو ادائیگی کرنے سے روکیں، ہم انھیں مسترد کرتے ہیں۔‘‘

    اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ نے کہا ’’ایک بھی شیکل اب غزہ نہیں جائے گا۔‘‘

    بحیرہ عرب میں لاپتا اہلکاروں سے متعلق امریکی فوج کا اہم بیان سامنے آ گیا

  • ٹیکس دہندگان کو ٹیکس حکام کی ہراسانی سے بچانے کے لیے اہم اعلان

    ٹیکس دہندگان کو ٹیکس حکام کی ہراسانی سے بچانے کے لیے اہم اعلان

    اسلام آباد: وفاقی ٹیکس محتسب کے رجسٹرار ماجد قریشی نے کہا ہے کہ اگر کوئی ٹیکس دہندہ ری فنڈز کے لیے ٹیکس محتسب سے درخواست کرے تو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کیس ختم ہونے تک اس کا آڈٹ نہیں کر سکتا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں رجسٹرار وفاقی ٹیکس محتسب ماجد قریشی اور میڈیا ہیڈ ناظم سلیم نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس محتسب کو درخواست کرنے والوں کو ٹیکس حکام کی ہراسانی سے بچایا جائے گا۔

    ماجد قریشی نے کہا کہ ٹیکس محتسب کو ٹیکس افسران کی بد انتظامی کی وجہ سے نا انصافیوں کا ازالہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے، سال 2023 کے دوران وفاقی ٹیکس محتسب کی کارکردگی کو اجاگر کیا جائے گا۔

    ماجد قریشی نے کہا کہ ایف ٹی او آفس میں تقریباً 60,000 کالز موصول ہوئیں، واٹس ایپ نمبر 0334-0544460 پر بھی 80,000 کالیں موصول ہوئیں، رجسٹرار ٹیکس محتسب کے مطابق ایف بی آر ایف ٹی او کی سفارشات پر مثبت جواب دے رہا ہے۔

    ایف بی آر نے ایک ماہ میں ٹیکس وصولی کا نیا ریکارڈ قائم کردیا

    ماجد قریشی نے بتایا کہ فوت شدہ ٹیکس دہندگان کے NTN/STRN کی ڈی رجسٹریشن کے کا طریقہ کار آسان بنایا گیا ہے، مشتبہ / اسمگل شدہ نان کسٹم ڈیوٹی پیڈ (NCP) گاڑیوں کو روکنے کے بعد کیسز نمٹانے کے ایس او پی جاری کیے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ایف بی آر نے تنخواہ دار افراد اور پنشنرز کے لیے ریٹرن فائل کرنے اور ٹیکس کی ادائیگی کا آسان طریقہ کار جاری کر دیا ہے۔

  • رواں مالی سال کے 6 ماہ میں ایف بی آر نے کتنا ٹیکس اکھٹا کیا؟

    رواں مالی سال کے 6 ماہ میں ایف بی آر نے کتنا ٹیکس اکھٹا کیا؟

    کراچی: رواں مالی سال کے 6 ماہ میں ایف بی آر نے 4.44 کھرب روپے کا ٹیکس جمع کر لیا۔

    ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے چھ ماہ میں ایف بی آر نے 4.44 کھرب روپے اکھٹے کر لیے ہیں، آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو 4.425 کھرب روپے جمع کرنے کا ٹارگٹ دیا تھا، جو گزشتہ سال کے چھ ماہ کے مقابلے میں 1.15 کھرب (35 فی صد) زائد تھا۔

    ذرائع کے مطابق انکم ٹیکس کی مد میں 730 ارب روپے اضافے کے ساتھ 2.13 کھرب روپے جمع ہوئے، سیلز ٹیکس کی مد میں 1.5 کھرب روپے، فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 265 ارب روپے جمع ہوئے، کسٹم ڈیوٹی کی مد میں 540 ارب روپے اکھٹا ہوئے، جو ہدف سے 100 ارب روپے کم ہیں۔

    آخری دو دنوں میں 50 ارب روپے مزید جمع کرنے کا ہدف رکھا گیا ہے، تمام ایف بی آر دفاتر اور بینکوں کو ٹیکس جمع کرنے کے لیے ہفتہ، اتوار کو دیر تک کھلے رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

    پاکستانی کرنسی مسلسل ساتویں سال بھی گراوٹ کا شکار

    ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے ایف بی آر کو رواں مالی سال 9.415 کھرب روپے کا ٹارگٹ دیا ہے، جسے ایف بی آر آسانی سے حاصل کر لے گا، جنوری 2024 سے 60 لاکھ لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے گا۔

    واضح رہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ٹیکس نادہندگان کے ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرانے پر فون، بجلی اور گیس کنکشن کاٹ دیے جائیں گے۔