Tag: ٹیکس

  • بھائیو اب پیسے دینا پڑیں گے، 36 ہزار ٹیکس دیں گے تو جان چھوٹے گی: وزیر خزانہ

    بھائیو اب پیسے دینا پڑیں گے، 36 ہزار ٹیکس دیں گے تو جان چھوٹے گی: وزیر خزانہ

    اسلام آباد: وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے دکان داروں پر واضح کر دیا ہے کہ پیسے تو دینے پڑیں گے، اگر 36 ہزار روپے ٹیکس دے دیں گے تو جان چھوٹ جائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ملک میں مہنگائی کا اعتراف کر لیا، تاہم ذمہ داری پی ٹی آئی پر ڈال دی۔

    وزیر خزانہ نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کا بھی دعویٰ کیا، اور دوسری طرف کہا آئی ایم ایف کی ایک شرط باقی ہے، وہ بھی کل پوری ہو جائے گی۔

    انھوں نے کہا بھائیوں اب پیسے دینا پڑیں گے، اگر 36 ہزار ٹیکس دے دیں گے تو جان چھوٹ جائے گی، جو دکان دار 100 یا 150 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں ان پر ایف بی آر ٹیکس معاف ہوگا، انڈسٹریز، بینکرز کو بھی ٹیکس دینا پڑے گا۔

    وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ اگلے سال سے ایک اور ٹیکس ڈالنے لگا ہوں، جو مینوفیکچرنگ کمپنی اپنا 10 فی صد بھی ایکسپورٹ نہیں کر سکے گی، اس پر 5 فی صد اضافی ٹیکس ہوگا۔

    مفتاح اسماعیل نے کہا یہ بات درست ہے کہ مہنگائی بہت ہے، میری بہنیں بھی یہی بتاتی ہیں، لیکن بحثیت وزیر خزانہ کچھ نہیں کر سکتا، میرے ہاتھ بندھے ہیں، ہماری ترجیح مہنگائی روکنا اور گروتھ نہیں، ملک کو ڈیفالٹ سے بچانا ہے۔

    انھوں نے کہا اگست میں روپے سے پریشر کم ہو جائے گا، عمران خان حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک خسارے میں گیا، ہم نے ملکی مفادات کے لیے سیاسی مفادات نہیں دیکھے، پاکستان کو صحت مند معیشت دیں گے۔

  • رواں برس ریکارڈ ٹیکس وصولیاں، 6 کھرب روپے کا ٹیکس جمع

    رواں برس ریکارڈ ٹیکس وصولیاں، 6 کھرب روپے کا ٹیکس جمع

    اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے دوران ہدف سے زیادہ ریکارڈ ٹیکس وصولیاں کرلیں، ایف بی آر 6 کھرب 12 ارب 50 کروڑ روپے کا ریونیو جمع کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے دوران ریکارڈ ٹیکس وصولیاں کر لیں۔

    ایف بی آر نے نظر ثانی شدہ ہدف 61 ہزار ارب روپے سے زائد ٹیکس وصول کیا، ایف بی آر نے مالی سال 2022-2021 کے دوران 6 ہزار 129 ارب ٹیکس وصول کیا۔

    ایف بی آر کو گزشتہ سال کی نسبت 29.1 فیصد زائد ٹیکس وصولیاں ہوئیں۔

    ترجمان ایف بی آر کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکسز کی مد میں 32 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، انکم ٹیکس کی مد میں 2 ہزار 278 ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھے ہوئے، گزشتہ سال یہ رقم 17 سو 31 ارب روپے تھی۔

    سیلز ٹیکس کی مد میں 2 ہزار 525 ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھے ہوئے، گزشتہ سال سیلز ٹیکس کی مد میں 19 سو 83 ارب روپے حاصل ہوئے تھے۔ کسٹمز ڈیوٹی کی مد میں 1 ہزار ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھے ہوئے جو گزشتہ سال 747 ارب روپے تھے۔

    ترجمان کا کہنا ہے کہ ریفنڈز کی مد میں 33.3 فیصد زائد 335 ارب روپے تقسیم کیے گئے، گزشتہ سال مجموعی طور پر 251 ارب روپے کے ریفنڈز ادا کیے گئے تھے۔

    ترجمان کے مطابق جون 2022 میں ایف بی آر نے 763 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کیں جبکہ گزشتہ سال جون میں 580 ارب روپے کی ٹیکس وصولیاں کی گئی تھیں۔

  • سعودی عرب: ٹیکس دہندگان کو 6 ماہ کے لیے جرمانوں سے استثنیٰ

    سعودی عرب: ٹیکس دہندگان کو 6 ماہ کے لیے جرمانوں سے استثنیٰ

    ریاض: سعودی عرب میں کرونا وبا کے دوران ہونے والے مالی نقصانات کو مدنظر رکھتے ہوئے ٹیکس دہندگان کے لیے جرمانوں اور مالی پابندیوں سے استثنیٰ کی پالیسی جاری کی گئی ہے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی زکوٰۃ، ٹیکس اور کسٹم اتھارٹی نے کہا ہے کہ کرونا وبا کے پیش نظر ٹیکس دہندگان کو جرمانوں اور مالی پابندیوں سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، یکم جون سے 30 نومبر 2022 تک 6 ماہ استثنیٰ کے ہوں گے۔

    اتھارٹی کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ تجارتی اداروں پر کرونا وبا کے منفی اثرات کے پیش نظر کیا گیا ہے، کوشش ہے کہ اداروں کی مشکل آسان کی جائے۔

    اتھارٹی نے کہا کہ کسٹم نظام میں اندراج میں تاخیر کا جرمانہ نہیں لیا جائے گا، ادائیگی میں تاخیر، کسٹم سسٹم کا اقرار جمع کروانے میں تاخیر، ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے اقرار نامے میں ترمیم نیز ای بل سسٹم پر عمل درآمد میں پکڑی جانے والی خلاف ورزیوں پر جرمانے نہیں ہوں گے۔ ان سے 6 ماہ استثنیٰ رہے گا۔

    اتھارٹی کی جانب سے تمام صارفین سے کہا گیا ہے کہ جرمانے سے استثنیٰ کے فارمولے کی تفصیلات حاصل کرلی جائیں، گائیڈ بک جاری کردی گئی ہے جو ویب سائٹ پر موجود ہے۔

    اتھارٹی کا کہنا ہے کہ ٹیکس سے بچنے والی خلاف ورزیوں پر جو جرمانے مقرر ہیں وہ استثنیٰ میں شامل نہیں۔

    اسی طرح جو جرمانے استثنیٰ انشٹیو پر عمل درآمد کی تاریخ سے قبل جمع کرادیے گئے ہوں گے وہ بھی استثنیٰ سے خارج ہوں گے۔

    اصل ٹیکس سے منسلک ادائیگی میں تاخیر کے جرمانے بھی استثنیٰ پالیسی سے خارج ہوں گے۔

    اتھارٹی نے کہا ہے کہ صارفین کے ذہنوں میں استثنیٰ پروگرام کے بارے میں جو استفسارات ہوں وہ رابطہ مرکز سے جواب حاصل کر سکتے ہیں، یہ سروس ہفتے کے ساتوں دن 24 گھنٹے مہیا ہے۔

    اتھارٹی کی ویب سائٹ، ای میل یا ٹویٹر پر فوری رابطہ کر کے بھی استفسار کا جواب حاصل کیا جاسکتا ہے۔

  • 22 کروڑ روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنے والے تاجر کے خلاف موبائل چھیننے کا مقدمہ

    22 کروڑ روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنے والے تاجر کے خلاف موبائل چھیننے کا مقدمہ

    کراچی: شہر قائد میں ایک ایسے تاجر کے خلاف موبائل فون چھیننے کا مقدمہ قائم کیا گیا ہے جو سالانہ 22 کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتے ہیں، سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کو بھی کیس پر برہمی کا اظہار کرنا پڑا، اور کیس کے تفتیشی افسر کو ایک گھنٹے میں معطل کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق بائیس کروڑ روپے سالانہ ٹیکس ادا کرنے والے کراچی کے ایک تاجر ریاض شہزاد کے خلاف موبائل چھیننے کا مقدمہ سامنے دیکھ کر سندھ ہائی کورٹ نے اظہار حیرت کیا، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ تاجر نے کراچی سے خیرپور جا کر ڈکیتی کی۔

    سندھ ہائی کورٹ میں سماعت کے دوران جسٹس اقبال کلہوڑو نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ آپ نے یہ مقدمہ بنانے کے لیے کتنے پیسے لیے ہیں؟ کیا خدا کے پاس نہیں جانا، کیا قبر یاد نہیں رہتی؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا میں کلمہ پڑھ کر کہتا ہوں کہ ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔

    عدالت نے کہا ہمیں کلمہ پڑھ کر متاثر کرنے کی کوشش نہ کریں، جسٹس کلہوڑو نے کہامیں سول جج رہا ہوں، ہر پولیس اہل کار کلمہ پڑھ کر جھوٹی گواہی دیتا تھا۔

    عدالت نے تفتیشی افسر سے پوچھا کہ آپ نے ڈکیتی کے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات کس قانون کے تحت شامل کیں؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا ڈکیتی ہائی وے کے قریب ہوئی اس لیے دہشت گردی کے الزامات شامل کیے گئے، یہ شکایت ایک پرائیویٹ شہری کی شکایت پر درج کی گئی ہے، اور مجھے ابھی تک نہیں پتا کہ ملزم کہاں ہے۔

    جج نے کہا انسداد دہشت گردی ایکٹ نکالیں اور بتائیں کس شق کے تحت ہائی وے پر رہزنی دہشت گردی ہے، آخر آپ کس کے لیے کام کرتے ہیں، خدا کو جواب دینا ہے یا ان آدمیوں کو؟

    مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس کلہوڑو نے آئی جی سندھ کے فوکل پرسن کو ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اس تفتیشی افسر کو ایک گھنٹے میں معطل کر کے رپورٹ دیں۔

    خواجہ شمس الاسلام ایڈووکیٹ نے عدالت میں کہا یہ پولیس وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ اور انور مجید کے ماتحت کام کر رہی ہے، عدالت نے کہا اتنی بڑی وردی ہے، اتنے پھول لگے ہیں، پھر بھی قوم کا اعتماد پامال کر رہے ہو، وکیل نے کہا تاجر ریاض شہزاد کے خلاف کاروباری رقابت پر مسلسل مقدمات بنائے جا رہے ہیں، ایک مقدمے میں ضمانت ہوتی ہے تو اسی الزام میں کہیں اور دوسرا مقدمہ بنا دیا جاتا ہے۔

    وکیل نے بتایا کہ ریاض شہزاد کی اب تک 4 مقدمات میں ضمانت ہو چکی ہے، اور پھر جمعۃ الوداع کو سانگھڑ میں نوکیا موبائل چھیننے کا مقدمہ درج کرا دیا گیا، ریاض شہزاد کو سزا دینے کے لیے ایک کروڑ روپے فیس دے کر وکیل کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔

    وکیل نے تفتیشی افسر سے متعلق کہا یہ بہت بہادر تفتیشی افسر ہے جو جیل کے دروازے پر گرفتاری کے لیے بیٹھا رہتا ہے۔

    عدالت نے سماعت کے بعد حکم جاری کیا کہ تفتیش کسی دوسرے افسر کو دے کر اس کیس کی رپورٹ 9 مئی کو پیش کی جائے، گودام میں موجود ٹریکٹرز کو عدالت کی اجازت کے بغیر کہیں منتقل نہ کیا جائے، اور ریاض شہزاد کے اہل خانہ اور ملازمین کو ہراساں نہ کیا جائے۔

  • متحدہ عرب امارات: جون 2023 سے کاروباری منافع پر 9 فیصد ٹیکس

    متحدہ عرب امارات: جون 2023 سے کاروباری منافع پر 9 فیصد ٹیکس

    ابو ظہبی: متحدہ عرب امارات میں وزارت خزانہ نے جون 2023 سے کاروباری منافع پر 9 فیصد وفاقی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے، 3 لاکھ 75 ہزار درہم سے زائد منافع پر ٹیکس لاگو ہوگا، اس سے کم پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں وزارت خزانہ نے جون 2023 سے کاروباری منافع پر 9 فیصد وفاقی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    امارات نے کمپنیوں پر ٹیکس پالیسی دنیا میں رائج بہترین ضوابط کے تحت تیار کی ہے، ٹیکس میں استثنیٰ پالیسی بھی نافذ ہوگی جبکہ محدود دائرے میں ترامیم بھی ہوں گی۔

    وزارت خزانہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کمپنی ٹیکس تمام تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر لاگو ہوگا، اس سے قدرتی وسائل نکالنے والی سرگرمیاں مستثنیٰ ہوں گی اور وہ ریاست کی سطح پر رائج کمپنی ٹیکس کے ماتحت ہوں گی۔

    وزارت خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ 3 لاکھ 75 ہزار درہم سے زائد منافع پر ٹیکس لاگو ہوگا، اس سے کم پر کوئی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

    علاوہ ازیں ملازمت سے ہونے والی ذاتی آمدنی پر کمپنی ٹیکس لاگو نہیں ہوگا، اسی طرح غیر منقولہ جائیدادوں کے کاروبار یا دیگر سرمایہ کاریوں سے ہونے والی ذاتی آمدنی پر بھی ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

    سیکریٹری خزانہ کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات ملکی و بین الاقوامی کاروبار کا حجم بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے، کمپنی ٹیکس مسابقتی درجے کا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت کمپنی ٹیکس مقرر کر کے ٹیکس نظام میں بین الاقوامی شفافیت کی پابند رہے گی اور نقصان پہنچانے والی ٹیکس سرگرمیوں کو روکا جائے گا۔

    سیکریٹری خزانہ نے مزید کہا کہ امارات میں کمپنی ٹیکس نافذ کرنے کے لیے تمام فریقوں کو تیاری کا مناسب وقت دیا جائے گا، کمپنی ٹیکس سے متعلق مزید معلومات کے لیے ویب سائٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

  • عمران خان، شہباز، زرداری، بلاول، بزدار نے کتنا ٹیکس دیا؟

    عمران خان، شہباز، زرداری، بلاول، بزدار نے کتنا ٹیکس دیا؟

    اسلام آباد: ایف بی آر کی جانب سے  اراکین پارلیمان کی سال 2019 کی ٹیکس ڈائریکٹری جاری کر دی گئی، 80 سینیٹرز اور 312 اراکین قومی اسمبلی نے 2019 میں ٹیکس گوشوارے جمع کرائے۔

    ٹیکس ڈائریکٹری 2019 کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے 2019 میں 98 لاکھ 54 ہزار 959 روپے ٹیکس دیا، وزیر اعظم نے 2018 میں 2 لاکھ 82 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا تھا، جب کہ ان کی آمدن 4 کروڑ 45 لاکھ روپے ہے۔

    اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی قابل ٹیکس آمدن 3 کروڑ 50 لاکھ ہے، انھوں نے 2019 میں 71 لاکھ 5 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا، جب کہ 2018 میں 97 لاکھ 30 ہزار روپے ٹیکس جمع کرایا تھا۔

    28 کروڑ سے زائد آمدن والے آصف زرداری نے 22 لاکھ 18 ہزار 229 روپے ٹیکس دیا، آصف زرداری نے 2018 میں 28 لاکھ 91 ہزار 455 روپے ٹیکس جمع کرایا تھا، بلاول بھٹو کی کل آمدنی 3 کروڑ 80 لاکھ روپے ہے، انھوں نے 5 لاکھ 35 ہزار 245 روپے ٹیکس جمع کرایا۔

    وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صرف 2 ہزار روپے ٹیکس ادا کیا، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے 19 لاکھ 21 ہزار 914 روپے ٹیکس دیا، وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے 66 ہزار 258 روپے ٹیکس دیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان قدوس بزنجو نے 10 لاکھ 61 ہزار 777 روپے انکم ٹیکس دیا، جب کہ سابق وزیر اعلیٰ جام کمال نے ایک کروڑ 17 لاکھ 50 ہزار 799 روپے ٹیکس دیا۔

    وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے 8 لاکھ 51 ہزار 955 روپے ٹیکس دیا، وزیر خزانہ شوکت ترین نے 2 کروڑ 66 لاکھ 27 ہزار 737 روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا، جب کہ فیصل واوڈا نے 11 لاکھ 62 ہزار 429 روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا۔

    فروغ نسیم نے 2019 میں 42 لاکھ 85 ہزار 201 روپے کا انکم ٹیکس ادا کیا، اعظم نذیر تارڑ نے 25 لاکھ 40 ہزار 126 روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔ سینیٹر احمد خان نے 23 لاکھ 88 ہزار 362 روپے انکم ٹیکس، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے 13 لاکھ 99 ہزار 327 روپے، سینیٹر طلحہ محمود نے 3 کروڑ 22 لاکھ 80 ہزار 549 روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔

    سینیٹر شبلی فراز نے 8 لاکھ 85 ہزار 451 روپے انکم ٹیکس، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے 5 لاکھ 55 ہزار 794 روپے انکم ٹیکس، جب کہ ایسوسی ایشن آف پرسن سے انھوں نے 14 لاکھ 34 ہزار ٹیکس ادا کیا۔

    وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے 42 لاکھ 72 ہزار 426 روپے انکم ٹیکس، اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے 1 لاکھ 36 ہزار 808 روپے انکم ٹیکس ادا کیا۔

    سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے سال 2019 میں کوئی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔

  • صرف سانس لینے اور توشہ خانہ کی گھڑیاں لینے پر ٹیکس نہیں: مفتاح اسماعیل

    صرف سانس لینے اور توشہ خانہ کی گھڑیاں لینے پر ٹیکس نہیں: مفتاح اسماعیل

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ حکومت نے کھانے پینے کی اشیا پر ظالمانہ اور مجرمانہ ٹیکسز لگا دیے ہیں، صرف سانس لینے اور توشہ خانہ کی گھڑیاں لینے پر ٹیکس نہیں ہے۔

    حکومت کے معاشی اقدامات کے سلسلے میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کہا کہ اس حکومت نے کھانے پینے کی اشیا، سولرپینلز پر ٹیکس لگا دیا ہے، پاکستان ہر سال ساڑھے 3 ارب ڈالر کا کھانے کا تیل امپورٹ کرتا ہے، اور عمران حکومت نے تیل کے بیج پر ٹیکس لگا دیا ہے۔

    مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ حکومت آئی ایم ایف سے مل کر عوام سے لڑ رہی ہے، حکومت جو کر رہی ہے میں اسے ظالمانہ اور مجرمانہ ٹیکس سمجھتا ہوں، نواز شریف کے دور میں خوردنی تیل 150 روپے کا ہوتا تھا۔

    ن لیگی رہنما نے مزید کہا شکر ہے انھوں نے سانس لینے پر ٹیکس نہیں لگایا، صرف ایک سانس لینے اور دوسرا توشہ خانہ کی گھڑیوں پر ٹیکس نہیں ہے،موبائل لوڈ پر ٹیکس ڈبل کر دیا گیا، لال مرچ پر بھی ٹیکس لگا دیا گیا، سب ٹیکس لگا کر پھر کہتے ہیں ہم نے اتنا ٹیکس نہیں لگایا، توشہ خانہ کی گھڑیاں وزیر اعظم لے جائے تو اس پر ٹیکس نہیں ہے۔

    مفتاح اسماعیل نے کہا اسٹیٹ بینک کا گورنر 5 سال کے لیے ہوگا اور ایکسٹینشن بھی 5 سال ہوگی، ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک بھی گورنر لگائے گا، گورنر اسٹیٹ بینک کی مکمل اجارہ داری ہوگی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نہیں رہا بلکہ اسٹیٹ بینک آف آئی ایم ایف بنا دیا گیا، دنیا کے کسی ملک میں شاید ہی ایسا قانون ہو جو یہاں بنایا گیا ہے۔

    مفتاح اسماعیل نے کہا اسٹیٹ بنک اب حکومت کو قرض نہیں دے سکتا، حکومت نے آئی ایم ایف کی ایما پر اپنے ہاتھ خود باندھ دیے ہیں، پارلیمنٹ ان سے مشورے کے بغیر کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی، اسٹیٹ بینک جو سمری اور ریفرنس بھیجے گا وزارت خزانہ کو من و عن آگے بھیجنا ہوگا۔

    انھوں نے کہا پاکستان کی تاریخ میں تو دور یہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا، آپ اپنے قرضوں کے تحت آئی ایم ایف کی غلامی کر رہے ہیں۔

  • ملک میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس مہنگی ہونے کا امکان

    ملک میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ سروس مہنگی ہونے کا امکان

    اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکس نہ بڑھانے کے فیصلے سے بھی یوٹرن لے لیا، منی بجٹ میں ٹیلی کام سروسز پر ٹیکس میں اضافے کا امکان ہے جس کے بعد ملک میں ٹیلی کام اور انٹرنیٹ سروس مہنگی ہوجائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ٹیلی کام سروسز پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں 5 فیصد اضافے کا امکان ہے، حکومت نے ود ہولڈنگ ٹیکس 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کرنے پر غور شروع کردیا۔

    ذرائع ٹیلی کام سیکٹر کا کہنا ہے کہ ود ہولڈنگ ٹیکس بڑھنے سے پاکستان میں ٹیلی کام خدمات اور انٹرنیٹ بھی مہنگا ہوجائے گا۔

    ذرائع کے مطابق پاکستان میں 187 ملین ٹیلی کام سروس استعمال کرنے والے افراد میں سے 98 فیصد پری پیڈ صارفین ہیں، کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھنے والے صارفین ود ہولڈنگ ٹیکس ایڈجسٹ نہیں کروا سکیں گے۔

    یاد رہے کہ وفاقی حکومت نے 21-2020 کے بجٹ میں ود ہولڈنگ ٹیکس 12 فیصد سے کم کر کے 10 فیصد کیا تھا اور اسے مزید کم کر کے 8 فیصد تک لانے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

    ذرائع ٹیلی کام سیکٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیلی کام سیکٹر پر ٹیکسوں کی بلند شرح کے حامل ممالک میں شامل ہے، جنوبی ایشیا میں ٹیکسز کی بلند شرح کے لحاظ سے پاکستان کا نمبر دوسرا ہے۔

  • ایف بی آر کو 4 ماہ میں 18 سو ارب سے زائد ٹیکس وصول

    ایف بی آر کو 4 ماہ میں 18 سو ارب سے زائد ٹیکس وصول

    اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں 18 سو 41 ارب کے محصولات جمع کرلیے، یہ محصولات ہدف سے 233 ارب روپے زائد ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں 18 سو 41 ارب کے محصولات جمع کیے، رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کا ایف بی آر محصولات کا ہدف 16 سو 8 ارب روپے تھا۔

    ایف بی آر کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایف بی آر نے ہدف سے 233 ارب روپے زائد محصولات حاصل کیے، ایف بی آر کے محصولات میں 36.6 فیصد کی گروتھ ہوئی۔

    اعلامیے کے مطابق گزشتہ مالی سال اسی عرصے میں 13 سو 47 ارب کے محصولات جمع کیے گئے تھے، عبوری اعداد و شمار کے مطابق ایف بی آر نے اکتوبر میں 440 ارب ٹیکس حاصل کیا۔

    اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ سال اکتوبر میں ایف بی آر نے 337 ارب کا ریونیو جمع کیا تھا، ایف بی آر نے رواں مالی سال 91 ارب روپے کے ریفنڈز بھی جاری کیے۔ گزشتہ سال اسی عرصے میں 66 ارب روپے کے ریفنڈز جاری کیے گئے تھے۔

  • آخری تاریخ، لاکھوں ٹیکس دہندگان گوشوارے جمع کرانے سے محروم

    آخری تاریخ، لاکھوں ٹیکس دہندگان گوشوارے جمع کرانے سے محروم

    کراچی: ایف بی آر کے ٹیکس سافٹ ویئر میں کوئی مسئلہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں ٹیکس دہندگان گوشوارے جمع کرانے سے محروم رہ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق ٹیکس گوشوارے جمع کرانے میں صارفین کو مشکلات کا سامنا ہے، جس کے باعث لاکھوں ٹیکس دہندگان گوشوارے جمع نہیں کرا سکے ہیں۔

    چھوٹے شہروں اور قصبات میں ٹیکس دفاتر نہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس دہندگان آن لائن سسٹم بند ہونے کے باعث دستی درخواست جمع نہیں کرا سکتے۔

    ایف بی آر کا ٹیکس جمع کرنے والا سافٹ ویئر تاحال بند ہے، جب کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی آج آخری تاریخ ہے۔

    دوسری طرف کراچی چیمبر، کراچی ٹیکس بار، ایف پی سی سی آئی اور تاجر تنظیموں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں توسیع کی درخواست کر رکھی ہے۔

    ایف بی آر کا ٹیکس جمع کرنے والاسافٹ ویئر بیٹھ گیا ،تاریخ میں توسیع کا امکان

    ادھر رش بڑھ جانے کے سبب ایف بی آر کی ویب سائٹ چوک ہو چکی ہے، صدر ٹیکس بار ایسوسی ایشن ذیشان مرچنٹ کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کے اعلیٰ افسران سمیت کوئی اہل کار بھی ویب سائٹ تک رسائی نہیں کر پا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ ایف بی آرنے ویڈیو لنک کانفرنس طلب کرلی ہے، جس میں ٹیکس جمع کرنےوالےسافٹ ویئر بیٹھنےکی شکایت کاجائزہ لیا جائے گا۔ تاجر تنظیمیں ٹیکس ریٹرن جمع کرنےکی تاریخ میں توسیع کا مطالبہ کر رہی ہیں، ویڈیو لنک کانفرنس میں ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کی تاریخ میں توسیع کا امکان ہے۔