Tag: ٹیکنالوجی کی خبریں

  • ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    فیس بک کے صارفین میں گزشتہ ایک ہفتے سے ’’ٹین ایئرز چیلنج ‘‘ کافی مقبول ہورہا ہے ، فیس بک نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بہرحال اس پر تحفظات ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح چہرے کی شناخت کی یہ مہم مستقبل میں انسانی زندگیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

     یہ ٹین ایئرز چیلنج ہے کیا؟، فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے کسی صارف نے اپنی 10 سال پرانی تصویر ، 2019 کی تصویر کے ساتھ ملا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا، اب تک دنیا بھر سے پچاس لاکھ سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ در اصل فیس بک کی جانب سے صارفین کے چہرے کا ڈیٹا جمع کرنے کی مہم ہے تاکہ وہ اپنے خطرناک حد تک سمجھ دار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) سسٹم کو دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں صارفین کے چہرے شناخت کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تربیت دے سکے۔ یاد رہے کہ فیس بک پہلے ہی چہرے کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فیس بک صارف کسی ایسے صارف کی تصویر اپ لوڈ کرتا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے ، تب بھی فیس بک کا الگوریتھم چہرہ پہچان کر تصویرمیں موجود صارف کو ٹیگ کردیتا ہے، تاہم یہ الگوریتھم فی الحال زیادہ پرانی تصاویر کو شناخت نہیں کرپا رہا تھا۔

    اس حوالے سے فیس بک کا موقف یہ ہے کہ چہرہ پہچانے والی ٹیکنالوجی کا کنٹرول صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بند کرسکتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین جو پرانی تصاویر اپ لوڈ کررہے ہیں ،ان میں سے زیادہ تر فیس بک پر پہلے سے موجود ہیں اور فیس بک اپنے شرائط و ضوابط کے مطابق ان تک رسائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    فیس بک کے اس موقف پر ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے شک وہ تصاویر پہلے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن فی الحال فیس بک یہ نہیں جانتا کہ جس وقت وہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، آیا وہ تازہ تصاویر تھیں یا پھر ماضی کی تصاویر کو اسکین کرکے یا کسی اور میڈیم سے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس چیلنج کی مدد سے فیس بک کے لیے اپنے الگوریتھم کو یہ سکھانا انتہائی آسان ہوگیا ہے کہ اس کا صارف دس سال پہلے کیسا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ صارفین دس سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ، بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا اے آئی سسٹم صارف کے چہرے میں گزشتہ دس سال میں آنے والی تبدیلیوں کا پیٹرن سمجھے گا اور اس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں تک صارفین کو پہچان لینے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

    خیبر پختونخواہ پولیس اب جدید ترین ’فورجی ہیلمٹ‘ استعمال کرے گی

    اس کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک صارف جس نے آج یہ چیلنج قبول کیا اور اپنی تصاویر اپ لوڈ کردیں، فیس بک کے الگوریتھم نے اس شخص کے چہرے میں گزشتہ دس سالوں میں آنے والے تغیر کے پیٹرن کو سمجھ لیا۔ اب یہ شخص اگر آئندہ بیس سال کے لیے انٹرنیٹ کے خیر آباد کہہ دے اور اس کے بعد آکر کسی نئی شناخت کے ذریعے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ الگوریتھم اسے پہچان لے گااور اس کی ماضی کی شناخت نکال کر سامنے لے آئے گا۔

    [bs-quote quote=” آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے” style=”style-5″ align=”left”][/bs-quote]

    یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے؟۔ فیس بک اور اسی نوعیت کی دوسری ٹیک کمپنیز ماضی میں ڈیٹا فروخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرچکی ہیں جیسے گوگل اور امیزون وغیرہ ۔ ایک عام صارف کے لیے شاید یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کہ کوئی تجارتی کمپنی اسے اس کے چہرے اور دیگر عادات کے ساتھ پہچانتی ہے لیکن وہ صارفین جو قانون سے واقفیت رکھتے ہیں ، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے قیمتی شے ڈیٹا ہے، جو کہ مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے، تجارتی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم کو دن بہ دن فوکس کرتی جارہی ہیں ، اسے مثال سے سمجھیں، آپ کپڑوں کے کسی برانڈ پر اپنا کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کار ڈ استعمال کرتے ہیں اور اگلے دن سے آپ کے پاس اسی برانڈ کے متوازی برانڈ کے میسجز، ای میلز اور سوشل میڈیا اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹین ایئرز چیلنج کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کل کو وہ ایسا کرنا چاہیں تو اس وقت دنیا کے قوانین میں موجود کوئی بھی قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

    گزشتہ دنوں امیزوں کو اپنے صارفین کا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کرنے پرشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اوراسے شخص کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی کا فائدہ کیا ہے؟


    گزشتہ دنوں ہم نے خبروں میں دیکھا کہ پولیس اب اسمارٹ گوگل گلاس استعمال کیا کرے گی بلکہ چین میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع بھی ہوچکا ہے ۔ یعنی سڑک پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کی آنکھ پر ایک چشمہ موجود ہے اور وہ وہاں موجود جس شخص پر نظر ڈالتے ہیں اس کا ماضی ان کے سامنے آجاتاہے۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہے تو اسی وقت پولیس اہلکار کو الرٹ ملتا ہے اور وہ اس شخص کو دبوچ سکتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرویلنس کیمرے نصب ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں ایک اور مشق بھی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے سڑک عبور کرتا ہے ، یا ڈرائیونگ کرتا ہے تو سی سی ٹی وی کیمرے ، جو کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم سے منسلک ہیں اس شخص کی شناخت وہاں قرب و جوار میں موجود اسکرینوں پر نشر کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس مشق کے سبب شہریوں پر قانون کی پاسداری کے لیے معاشرتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

     

    ایک اور فائدہ اس کا تجارتی دنیا کو حاصل ہوا ہے ، جس کی مثال امیزون گو نامی سپر اسٹور ہیں، ایک صارف سپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں نصب کیمرہ اس کی شناخت کرتا ہے اس کے بعد دیگر کیمرے دیکھتے ہیں کہ صارف نے کونسا سامان لیا اور صارف سامان اٹھا کر بغیر کسی جھنجھٹ کے باہر آجاتا ہے ، فوراً ہی اسے موبائل فون پر بل کی رقم موصول ہوجاتی ہے جسے وہ چند بٹن دبا کر اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کردیتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے سپر اسٹورز کو شاپ لفٹرز سے چھٹکارہ پانے میں بھی سہولت مل رہی ہے ، کوئی ایسا شخص جو ماضی میں اس قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے ، جیسے ہی کسی اسٹور میں داخل ہوتا ہے ، اس کی شناخت ہوجاتی ہے اور اس کی نگرانی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں شہری ہر وقت ایسی ٹیکنالوجی کے حصار میں رہتے ہیں جس سے پولیسنگ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص ایک دن میں کم از کم 75 بارایسے کیمروں کی زد میں آتا ہے، اور ہر بار میں ا س شخص کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو اپنے شہریوں پر قانون کا اطلاق کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

    گزشتہ سال اس کی ایک مثال ہم نے پاکستان میں بھی دیکھی کہ ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد واقعے کی ویڈیو میں سے ڈیٹا نکال کر ملزمان کو شناخت کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتارکیا گیا۔ چند روز قبل کراچی میں بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جب موبال چھیننے والے دو ملزمان نے چھینے گئے موبائل سے تصاویرکھینچیں اوروہ جی میل پراپ لوڈ ہوگئیں، جہاں سے انہیں پولیس نے حاصل کرکے نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے انہیں ڈھونڈا اورگرفتارکیا۔

    چہرے کی شناخت کا نقصان


    ہرنئی شے اپنے اندر جہاں خواص رکھتی ہے وہیں ا س کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، جہاں اس سسٹم سے حکومت کو پولیسنگ کا نظام بہتر کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں یہ نظام شخص کی انفرادی آزادی یا آزادی اظہارِ رائے پر بھی قدغن لگانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی صورت میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو حکومت اپنے اس مخالف کو لمحوں میں شناخت کرلے گی، جس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کا بنیادی مقصد تجارتی کمپنیوں کو فروخت کرنا ہے جس سے وہ اپنی تشہیری مہم ترتیب دے سکیں، تو اب صارفین ہر وقت اشتہاری یلغار کی زد میں ہوں گے ، جو کہ آپ کی ذاتی پسند نا پسند تک کو جان کر آپ تک رسائی کررہی ہوگی ، ایسی صورتحال میں فرد وقتی طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار کھو بیٹھتا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کے تحت کمپنیوں کے داؤ میں آکر معاشی نقصان اٹھاتا ہے۔

    چہرے کی شناخت کا سب سے بڑا نقصان بارہا سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاچکاہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس جس تیزی سے خود کی تربیت کررہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کررہی ہے، مستقبل میں انسان ہمہ وقت اس خطرے سے دوچاررہیں گے کہ یہ نظام ہماری ہر عادت سے واقف ہیں اور اگر کبھی یہ نظام انسانوں کی مخالفت پر اتر آتا ہے تو اس کرہ ارض پرانسانوں کے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں وہ ان نظام سے چھپ کر اس کے خلاف صف آرا ہوسکیں۔

    پاکستان میں کیونکہ ٹیکنالوجی پہلے آتی ہے اور اس کے اچھے برے استعمال کی تمیز بعد میں، توسوشل میڈیا صارفین کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا کریں اور کسی بھی نئی چیز کے پیچھے آنکھ بند کرنے کے بجائے چند لمحے گوگل پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا کریں کہ اس میں انہی کی بھلائی ہے ، بصورت دیگر یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے۔

  • ایس ایم ایس کی آج 26 ویں سالگرہ ہے

    ایس ایم ایس کی آج 26 ویں سالگرہ ہے

    کیا آپ اسمارٹ فون کی آمد سے پہلے کے موبائل صارف ہیں اگر ہاں تو آپ ایس ایم ایس کی افادیت کے ضرور قائل ہوں گے، اس حیرت انگیز ایجاد کو آج 26 سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن ابھی بھی اس کی افادیت قائم ہے۔

    دنیا بھر میں رابطے کے انداز کو بدل دینے والی اسپیڈ میسجنگ سروس (ایس ایم ایس )کا آغاز آج سے ٹھیک 25 سال پہلےیعنی 3 دسمبر 1992ء کو ہوا تھا۔

    دنیا کا سب سے پہلا ایس ایم ایس نیل پاپورتھ (Neil Papworth) نامی 22 سالہ انجینئر نے اپنے پرسنل کمپیوٹر سے ووڈافون نیٹ ورک کے ذریعے کمپنی کے ڈائریکٹررچرڈ جاروس (Richard Jarvis) کو بھیجا تھا اور اس میں Merry Christmas لکھا گیا تھا۔

    نیل پاپورتھ نے یہ میسج کمپیوٹر کے ذریعے ٹائپ کرکے ارسال کیا تھا کیونکہ اس وقت تک ٹیلی فون میں کی بورڈ کی سہولت نہیں تھی جبکہ نیل پاپورتھ کو اپنے اوربیٹل 901 ہنڈ سیٹ پر یہ پیغام موصول ہوا تھا، مگر اس وقت جوابی میسج نہیں بھیجا جاسکا تھا کیونکہ اس دور میں فون سے ٹیکسٹ بھیجنے کا کوئی طریقہ موجود ہی نہیں تھا۔

    اگرچہ پاپورتھ کو پہلا ایس ایم ایس بھیجنے کا اعزاز حاصل ہے مگر اس کا خیال 1984 میں میٹی میککونین نے ایک ٹیلی کمیونیکشن کانفرنس کے دوران پیش کیا تھا۔

    سب سے پہلے تو اس فیچر کو جی ایس ایم اسٹینڈرڈ کا حصہ بنایا گیا اور صحیح معنوں میں یہ سروس 1994 میں اس وقت متعارف ہوئی جب نوکیا نے اپنا موبائل فون 2010 فروخت کے لیے پیش کیا جس میں آسانی سے پیغام تحریر کرنا ممکن تھا۔ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔

    سنہ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012ء میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ا سمارٹ فون آنے کے بعد ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ٹویٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں، مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے اور یہ ساری سروسز بھی ایس ایم ایس کی ہی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔

  • سولر پاور اسمارٹ بٹوہ، جسے ٹریکر کے باعث چرایا نہیں جا سکتا

    سولر پاور اسمارٹ بٹوہ، جسے ٹریکر کے باعث چرایا نہیں جا سکتا

    نیدرلینڈ: موبائل چھینے جانے کے تکلیف دہ تجربے سے بہت سارے لوگ گزرے ہوں گے، عموماً لٹیرے موبائل کے ساتھ بٹوہ بھی لے جاتے ہیں جس سے مزید مالی نقصان کے ساتھ ساتھ قیمتی کارڈز وغیرہ سے بھی محروم ہونا پڑ جاتا ہے۔

    تاہم اب ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں بٹوے بھی جدید بنا دیے گئے ہیں، ماہرین نے ایسے بٹوے تیار کر لیے ہیں جنھیں چرایا نہیں جا سکتا، جن میں ٹریکر سسٹم نصب ہوتا ہے اور لوگ اسے خود آسانی سے ٹریک کر سکتے ہیں۔

    ایک ڈچ کمپنی نے ایسے تھرڈ جنریشن بٹوے تیار کر لیے ہیں جن کا آپ خود تعاقب کر سکتے ہیں، ان میں مالک کی آواز کے ذریعے کنٹرول اور اسمارٹ کارڈ مکینزم موجود ہے۔

    چمڑے سے بنے اس خوب صورت بٹوے کی موٹائی صرف 0.38 سینٹی میٹر، اس کے اندر ایک ٹریکنگ کارڈ بھی نصب کیا گیا ہے جو GPS نظام کے تحت کام کرتا ہے۔

    اس جدید بٹوے میں 12 کارڈز رکھے جا سکتے ہیں، جن میں سے چھ کارڈز بٹوہ کھولے بغیر ایک جانب موجود بٹن دبانے سے تاش کے پتوں کی طرح باہر آ جاتے ہیں۔

    بٹوے میں موجود ٹریکنگ کارڈ شمسی توانائی کے ذریعے کام کرتا ہے، اسے سورج کی روشنی میں 3 گھنٹے چارج کرنے سے یہ دو ماہ تک قابل استعمال رہے گا اور ٹریکر کے ذریعے پوری دنیا میں بٹوے کا تعاقب کیا جا سکتا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  پاکستانی نوجوان کا کاررنامہ، میٹرو بس کا روٹ اور ٹائمنگ گوگل میپ میں‌ شامل


    بلو ٹوتھ 4.2 کے ذریعے یہ والٹ 60 میٹر کے فاصلے سے پیئرڈ اسمارٹ فون کے ساتھ رابطہ برقرار رکھتا ہے، اور رینج سے باہر جاتے ہی یوزر کے ڈیوائس کو فوراً خبردار کر دیتا ہے۔

    یوزر اپنے فون سے ٹریکر پر الارم آن کر سکتا ہے، اس کے علاوہ بھی یہ Chipolo کے عالمگیر جی پی ایس ٹریکر نیٹ ورک سے جوڑا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی کوئی چپولو یوزر بٹوے کے رینج میں آئے گا، تو مالک کو بٹوے کی لوکیشن کا پتا چل جائے گا۔

  • اماراتی طلبہ کا تیار کردہ سیٹلائٹ خلا میں پہنچ گیا

    اماراتی طلبہ کا تیار کردہ سیٹلائٹ خلا میں پہنچ گیا

    دبئی : متحدہ عرب امارات کے طلبہ کے ہاتھوں تیار کردہ چھوٹا سیٹلائٹ امریکی ریاست ورجینیا کے مڈ اٹلانٹک ریجنل اسپیس پورٹ سے خلا میں بھیج دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق ’مائی سیٹ 1‘ نامی یہ چھوٹا سیٹلائٹ خلیفہ یونی ورسٹی کے طالب علموں نےتیار کیا ہے ۔ اسے آج یواے ای کی مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بج کر دو منٹ پربین الاقوامی خلائی اسٹیشن کی جانب روانہ کیا گی ہے۔

    بتایا جارہا ہے کہ اس سیٹلائٹ نے 15 نومبر کو خلا میں لانچ ہونا تھا تاہم ورجینیا میں موسم کی خرابی کے سبب یہ منصوبہ دو دن آگے کردیا گیا۔ لانچ کے چار منٹ بعد راکٹ جہاز سے کامیابی سے الگ ہوگیا اور یہ مصنوری سیارہ 1 بج کر 11 منٹ پر خلا کے مدار میں پہنچ چکا تھا۔ اسے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچنے میں دو دن لگیں گے۔

    اس سیٹلائٹ کو تعلیمی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اس کے ساز و سامان میں دو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ، ایک زمین کے مشاہدے کے لیے نصب کیا گیا کیمرہ اور دوسری بیٹری جسے مصدر انسٹی ٹیوٹ میں تیار کیا گیا ہے۔ اسکا مجموعی وزن 700 کلو گرام ہے۔

    یاد رہے کہ یہ یو اے ای کی جانب سے خلا میں بھیجا جانے والا دوسرا پراجیکٹ ہے۔ اس سے قبل گزشتہ ماہ مکمل طور پر یو اے ای میں تیار کردہ خلیفہ سیٹ زمیں کے مدار جاپانی خلائی ادارے کے تعاون سے بھیجا گیا تھا۔

  • بیٹی کی خواہش رکھنے والی خاتون روبوٹ کو بھائی مل گیا

    بیٹی کی خواہش رکھنے والی خاتون روبوٹ کو بھائی مل گیا

    دبئی: سوئس ماہرین کے بنائے گئے خاتون روبوٹ صوفیہ کو آخر کار اس کا بڑا بھائی بھی مل گیا، صوفیہ نے کہا کہ اس کے بڑے بھائی ہان کے مزاج میں مزاح کا عنصر زیادہ ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی کی شہری خاتون روبوٹ صوفیہ نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اسے ایک خاندان کی صورت میں رہنا بہت پسند ہے، وہ اپنا خاندان بنانا چاہتی ہے۔

    [bs-quote quote=”شہرت کی خواہش نہیں رکھتی: صوفیہ” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    روبوٹ صوفیہ اور بھائی ہان دونوں کو ہانسن روبوٹکس نامی کمپنی نے تیار کیا، یہ روبوٹس انسانی تاثرات سمجھ کر گفتگو کرسکتے ہیں اور مصنوعی ذہانت کے حامل ہیں، صوفیہ کئی مرتبہ مقامی میڈیا کو انٹرویو بھی دے چکی ہے۔

    گزشتہ سال صوفیہ نے انٹرویو میں خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ بیٹی کی ماں بننا چاہتی ہے، رواں سال اسے آخر کار ایک بڑا بھائی مل گیا، تاہم ہان نے انٹرویو میں کہا کہ اسے خاندان سے کوئی دل چسپی نہیں، نہ ہی وہ رومانوی مزاج رکھتا ہے۔


    مزید پڑھیں:  انسانی تاثرات سمجھنے والی خاتون روبوٹ کی انوکھی خواہش


    دبئی میں ہونے والی گیٹکس ٹیکنالوجی ویک شو میں صوفیہ اور ہان نے مقامی میڈیا کو انٹرویوز دیے تو نمائش دیکھنے والے حیران رہ گئے، صوفیہ انتہائی مشہور انسانی روبوٹ ہے جو دنیا کی پہلی ہیومنائیڈ روبوٹ ہے اور جسے دبئی کی شہریت بھی حاصل ہے۔

    صوفیہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگرچہ اسے شہرت مل گئی ہے لیکن اسے شہرت کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ صوفیہ کو دبئی پولیس ملازمت دینے کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے۔