Tag: ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ

  • ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے  قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    ورلڈ کپ:جیت کے جنون اور فتح کی لگن سے قومی ٹیم نے شکست کو مات دے دی

    پاکستانی کرکٹ ٹیم ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل جیت کر اس تاریخی فتح کی یاد تازہ نہیں کرسکی جس کا جشن قوم نے آج سے تیس سال قبل منایا تھا، لیکن ٹیم نے جس شان سے اس ٹورنامنٹ کا اختتام کیا، اس نے کروڑوں پاکستانیوں اور دنیا بھر کے شائقین کرکٹ کے دل جیت لیے ہیں۔

    آسٹریلیا کے میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستانی ٹیم کے سامنے انگلینڈ کے کھلاڑی تھے اور ان کی ٹیم ورلڈ کپ کی فاتح بنی، لیکن ٹورنامنٹ کے فائنل سے قبل پاکستان جس طرح کھیلا اور سیمی فائنل تک پہنچا، اس نے دنیا بھر میں شائقینِ کرکٹ کو 1992ءکے ون ڈے ورلڈ کپ کی یاد دلا دی۔ اس ون ڈے اور حالیہ ٹورنامنٹ میں مماثلت ایک دل چسپ موضوع بن گیا اور ہر طرف اس پر بات ہونے لگی۔ پھر جب سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ سے ٹاکرا ہوا تو قومی ٹیم کی کام یابی سے ان میچوں میں مماثلت کی باتوں کو مزید تقویت ملی۔ دوسرے روز جب انگلینڈ نے آسان فتح کے ساتھ فائنل کے لیے کوالیفائی کیا تو پاکستانی شائقین کی توقعات اور ان کی خوش امیدی آسمان سے باتیں کرنے لگی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    اتوار کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بھی اسی میدان میں‌ کھیلا گیا جس میں‌ 1992ء میں پاکستان نے فتح حاصل کی تھی بلکہ حریف ٹیم بھی اسی ملک کی تھی جس کا سامنا پاکستانی کھلاڑیوں نے 30 سال پہلے کیا تھا۔ یعنی میلبرن میں ایک بار پھر پاکستان اور انگلینڈ آمنے سامنے تھے۔ قوم توقع کررہی تھی کہ جس طرح 1992ء میں عمران خان نے انگلینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ کی ٹرافی ہاتھوں میں تھامی تھی، اسی طرح بابر اعظم بھی ٹرافی لے کر قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے ساتھ شاداں و فرحاں وطن لوٹیں گے۔

    میدان میں اترنے سے قبل قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی اس عزم کا اعادہ کیا تھا کہ پوری ٹیم میدان میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اور تاریخ دہرانے کی کوشش کرے گی۔ پاکستانی ٹیم کی یہ کوشش نظر بھی آئی، لیکن قسمت میں فتح نہیں لکھی تھی۔ انگلینڈ کے ہاتھوں شکست سے پاکستانی شائقین کے دل ضرور ٹوٹے ہیں لیکن سب نے دیکھا کہ قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کا خوب مقابلہ کیا اور شکست کے باوجود سَر اٹھا کر میدان سے باہر آئے۔

    اس میچ میں‌ ٹاس جیت کر انگلینڈ نے پاکستان کو بیٹنگ کا موقع دیا تو نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل سمیت سپر 12 مرحلے میں جنوبی افریقہ اور بنگلہ دیش کے خلاف بیٹنگ اور کپتان بابر اعظم کی فارم میں واپسی کو مدنظر رکھتے ہوئے شائقینِ کرکٹ کو قومی ٹیم سے اچھے اسکور کی امید تھی لیکن انھیں مایوسی ہوئی۔ پاکستانی ٹیم نے انگلینڈ کو جیت کے لیے 138 رنز کا ہدف دیا جو مختصر طرز کے اس تیز ترین کرکٹ فارمیٹ میں قابلِ‌ ذکر ہدف نہیں تھا۔ بلّے بازوں کی ناکامی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کوئی بلّے باز نصف سنچری نہ بنا سکا اور نہ ہی کوئی 50 رنز کی پارٹنر شپ ہوسکی۔ رہی سہی کسر بیٹسمینوں نے 48 ڈاٹ بالز کھیل کر پورا کر دی۔ دوسرے لفظوں میں 8 اووروں میں گرین شرٹس کوئی رن نہ بنا پائی۔ بیٹنگ میں شاہینوں کی یہ کارکردگی اور انگلینڈ کے اوپننگ بلّے بازوں کی بھارت کے خلاف طوفانی بیٹنگ دیکھتے ہوئے فائنل میں شائقینِ کرکٹ ناامید ہو چلے تھے اور دوسری اننگ سے قبل یہ یکطرفہ مقابلہ لگ رہا تھا لیکن پاکستانی بولروں نے اس موقع پر دنیائے کرکٹ میں اپنی صلاحیتیوں کا بہترین مظاہرہ کیا اور اپنا نام اونچا کیا۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by ICC (@icc)

    پاکستانی بولروں نے 138 رنز کے آسان ہدف کا حصول انگلینڈ کے بلّے بازوں کے لیے ناکوں چنے چبوانے کے مترادف بنا دیا۔ انگلش اوپنرز جوز بٹلر اور ایلکس ہیلز جنھوں نے سیمی فائنل میں بھارتی بولروں کی خوب دھنائی کی تھی انھیں ابتدا ہی میں پویلین لوٹنے پر مجبور کر دیا۔ ایک موقع پر 84 رنز پر انگلینڈ کے 4 باصلاحیت بلّے باز آؤٹ ہوچکے تھے اور انگلش ٹیم کے لیے رنز کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا تھا۔ پھر قسمت نے انگلینڈ کا ساتھ اس طرح دیا کہ پاکستانی بولر شاہین شاہ آفریدی زخمی ہو کر میدان سے باہر ہوگئے۔ ان کے جانے سے جہاں قومی ٹیم کو دھچکا لگا وہیں انگلش بلّے بازوں کی جان میں جان آئی کیوں کہ ابھی ان کے دو اوورز باقی تھے۔

    شاہین شاہ آفریدی کا زخمی ہونا میچ کا ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوا۔ کیوں کہ ان کی میدان میں موجودگی کے وقت فتح کے لیے انگلش ٹیم کو 30 گیندوں پر 48 رنز درکار تھے لیکن شاہین شاہ میدان سے کیا لوٹے پاکستان کی تمام امیدوں اور خوشیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور بظاہر ایک مشکل ہدف کو انگلش بلّے بازوں نے ایک اوور قبل ہی حاصل کرلیا۔

    شکست کے باوجود پوری قوم اور ہمارے سابق کھلاڑیوں سمیت دنیا کے مشہور کرکٹروں نے پاکستانی بولروں کی کارکردگی کو سراہا ہے اور اسے کھیل کی دنیا کا سب سے خطرناک بولنگ اٹیک قرار دیا ہے۔

    اگر ہم آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ کے پورے ٹورنامنٹ میں گرین شرٹس کے سفر پر نظر ڈالیں تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر سفر شروع کیا۔ سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہارا ساتھ ہی اگلے میچ میں کمزور زمبابوے سے غیرمتوقع شکست کا زخم سہنا پڑا۔ اس اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کردیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔

    ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا لیکن اسی فضا میں قومی ٹیم نے اپنی محنت اور دعاؤں کی بدولت ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور بلاشبہ پوری ٹیم کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔

    ٹورنامنٹ اب ختم ہوچکا ہے۔ ٹرافی نہ جیتنے کا دکھ اپنی جگہ لیکن یہ کم نہیں کہ ہماری ٹیم دنیا کی 16 ٹاپ کرکٹ ٹیموں میں سے دوسری بہترین ٹیم ہے جس نے فائنل کے لیے کوالیفائی کیا۔ جہاں لوگ قومی ٹیم کی ستائش کر رہے ہیں وہیں ٹیم کے کپتان اور کھلاڑیوں کے لیے وہی آوازیں دوبارہ بلند ہونے لگی ہیں جو سیمی فائنل کے لیے کوالیفائی کرنے سے قبل سنائی دے رہی تھیں۔

    دیکھنا چاہیے کہ فتح اور شکست کی نوعیت کیا ہے۔ شرم ناک شکست وہ ہوتی ہے جہاں سپاہی لڑے بغیر ہتھیار ڈال دیں لیکن جہاں مقابلہ برابر کا ہو وہاں فتح و شکست نہیں جذبہ دیکھا جاتا ہے اور اس ٹورنامنٹ میں قومی ٹیم آخری لمحے تک جیت کے لیے جان لڑاتی نظر آئی۔

    اس ٹورنامنٹ سے ہمیں محمد حارث جیسا جارح مزاج بلّے باز ملا جس نے جنوبی افریقہ کے اہم میچ میں فتح میں اہم کردار ادا کیا۔ ان ہی کے ہم نام حارث رؤف اپنی ایک شناخت بنائی اور امید ہے کہ جس طرح 1992ء کے ورلڈ کپ میں نو آموز انضام الحق، مشتاق احمد، عامر سہیل بعد میں پاکستانی کرکٹ کے اہم ستون رہے، اسی طرح آج کے نو آموز کھلاڑی بھی وقت کی بھٹی سے کندن بن کر نکلیں گے۔ بلاجواز تنقید کے بجائے تعمیری رویّہ اپناتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور کمزوریوں کودور کرنے کی بات کی جائے۔

    سب سے پہلے تو قومی ٹیم کو بیٹنگ لائن پر توجہ دینا ہوگی۔ ہمیں‌ ایسے بہترین بلّے بازوں کی ضرورت ہے جو مستقل مزاجی سے پاکستان کے لیے رنز اسکور کریں۔ اس وقت بابر اعظم اور محمد رضوان کے علاوہ کوئی ایسا بلّے باز قومی ٹیم میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح ڈاٹ بال کھیلنے کی عادت ترک کرنا ہوگی۔ یہ اعتراف تو کپتان بابر اعظم بھی کرچکے ہیں کہ ہم نے فائنل میں بہت ڈاٹ بالز کھیلیں اور 20 رنز کم بنائے۔

    ہماری ٹیم میں اس وقت شاداب خان کے علاوہ کوئی مستند آل راؤنڈر نہیں ہے۔ ہماری ٹیم کو ایسے مزید آل راؤنڈرز کی ضرورت ہے جو کسی بھی پوزیشن پر پاکستان کے لیے اچھی پرفارمنس دے سکیں۔ اکھاڑ پچھاڑ اور غیر ضروری تبدیلیوں کے بجائے ٹیم کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے کوشش کرنا ہو گی، کیوں کہ آئندہ سال پاکستان کو ایشیا کپ کی میزبانی کرنی ہے۔ ایشیا کپ کے بعد اگلا بڑا مقابلہ ون ڈے ورلڈ کپ ہوگا جو بھارت میں کھیلا جائے گا اور اس کے لیے ابھی سے سوچنا ہوگا۔

  • 1992 کے ورلڈ کپ میں بھی نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کی تھی، وسیم اکرم

    1992 کے ورلڈ کپ میں بھی نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کی تھی، وسیم اکرم

    کراچی: آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے۔

    اے آر وائی کے اسپورٹس پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق کپتان وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ ٹاس ہار گئے کوئی بات نہیں، ٹاس ہارنے یا جیتنے سے فرق نہیں پڑتا۔

    وسیم اکرم کا کہنا تھا کہ  1992 کے ورلڈکپ میں بھی نیوزی لینڈ نے پہلے بیٹنگ کی تھی، لیکن آج بابر اعظم کی کپتانی کا امتحان ہے۔

    پینل میں موجود یونس خان کا کہنا تھا کہ پاکستان ٹیم کو پلاننگ کیساتھ کھیلنا ہوگا، بولرز کو کوشش کرنا ہوگی کم سے کم رنز پر آؤٹ کریں۔

    یونس خان نے کہا کہ پچ کے لحاظ سے  کنڈیشنز مختلف ہوتی ہیں، ٹاس جیتنا آج کے میچ میں ہمارے لئے اہم تھا، ٹاس ہار بھی گئے تو ایسا نہیں کہ ہم چیس نہیں کرسکتے۔

  • شاہینوں  نے بڑھادی قوم کی شان، فائنل میں پہنچ گیا پاکستان

    شاہینوں نے بڑھادی قوم کی شان، فائنل میں پہنچ گیا پاکستان

    سڈنی: آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو7وکٹ سےشکست دیدی ہے۔

    آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ کے پہلے سیمی فائنل میں آج پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں سڈنی کے میدان میں مدمقابل تھے جہاں نیوزی لینڈ نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا۔

    پاکستان کی اننگز:

     153 رنز کی تعاقب میں پاکستان نے سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کو7وکٹ سےشکست دیدی ہے، پاکستان نے 153رنز کا ہدف 5گیند پہلے حاصل کیا ۔

    دوسری اننگز کا آغاز بابر اعظم اور رضوان نے کیا، بابر اعظم 53 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے جب کہ محمد رضوان 57 رنز بناکر نمایا رہے جہاں وہ پلیئرآف دی سیمی فائنل قرار ہوئے ۔

    پندرہ ٹی ٹوئنٹی میچز کے بعد بابر اعظم اور محمد رضوان نے 100 رنز کی اوپننگ اسٹینڈ فراہم کیا، دونوں اوپنرز نے انگلینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے دوسرے ٹی ٹوئنٹی میں سو رنز کی شراکت قائم کی تھی۔

    بابر اعظم اور رضوان کے درمیان یہ 9ویں سنچری کی شراکت ہے، بابر اعظم اور رضوان کے درمیان یہ 9ویں سنچری کی شراکت ہے۔

    نیوزی لینڈ اننگز

    نیوزی لینڈ نے پہلےکھیل کر4 کھلاڑی آؤٹ پر152رنز اسکور کیے، نیوزی لینڈ کے اننگز کے آغاز پر شاہین شاہ آفریدی نے پہلے ہی اوور میں اوپنر فِن ایلن کو 4 رنز پر آؤٹ کیا جب کہ پاور پلے کے اختتام یعنی چھٹے اوور کی آخری گیند پر شاداب نے ڈیون کونوے کو رن آؤٹ کیا۔

    اس کے بعد محمد نواز نے گلین فلپس کو پویلین لوٹایا ،کیوی ٹیم کی چوتھی وکٹ 117 رنز پر گری جہاں کپتان ولیمسن 46 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے۔

    ڈیرل مچل نے نصف سنچری اور کین ولیمسن نے46 رنز بنا کر نمایا رہے جبکہ پاکستان کی جانب سے شاہین شاہ آفریدی نے شاندار بولنگ کرتے ہوئے  24 رنز کے عوض میں 2 شکار کیے، اور محمد نواز نے ایک کھلاڑی کو آؤٹ کیا۔

    پاکستانی ٹیم:

    قومی کرکٹ ٹیم میں کپتان بابراعظم، محمدرضوان، محمدحارث، شان مسعود، افتخاراحمد، محمدنواز،شاداب خان، شاہین آفریدی، حارث رؤف، وسیم جونیئر، نسیم شاہ پلیئنگ الیون کاحصہ ہیں۔

    نیوزی لینڈ کی ٹیم:

    نیوزی لینڈ ٹیم میں کپتان کین ولیمسن ، فن ایلن ، ڈیرل مچل ، گلین فلپس ، ڈیون کونوے،ٹرینٹ بولٹ ، ٹم ساؤتھی ، لوکی فرگوسن ، جمی نیشم ، مچل سینٹنراور ایش سودھی شامل ہیں۔

    کیوی کپتان کین ولیم سن نے ٹاس جیتنے کے بعد گفتگو میں کہا کہ سیمی فائنل کیلئےٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔

    پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابر اعظم کا کہنا تھا کہ ٹاس جیتتے تو ہم بھی بیٹنگ کرتے، قومی ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نیوزی لینڈ میں اچھے بیٹسمین اور بولرز ہیں، ہماری پوری توجہ سیمی فائنل ہیں، جیتنے کی پوری کوشش کرینگے۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں اب تک پاکستان اور نیوزی لینڈ 6 مرتبہ آمنے سامنے آئیں ہیں، جس میں 4 میچ پاکستان جبکہ 2 میچ نیوزی لینڈ نے جیتا ہے۔

    میڈیا رپورٹس کے مطابق سڈنی میں آج بارش کے 8 سے 24 فیصد امکانات ہیں، عام طور پر مطلع صاف رہے گا تاہم جزوی طور پر ابر آلود بھی ہوسکتا ہے۔

    دوسری جانب میڈیا رپورٹس میں سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کی پچ سے متعلق بتایا گیا ہےکہ اس گراؤنڈ کی پچ ہمیشہ بلے بازوں کے لیے بہترین رہی ہے اس لیے دونوں جانب سے  تابڑ توڑ رنز اسکور کیے جانے کا امکان ہے جب کہ پہلے بلے بازی کرنے والی ٹیم 170 سے 180 تک کا ٹارگٹ دے سکتی ہے۔

  • ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ:  کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ: کیا آسٹریلیا میں تاریخ خود کو دہرائے گی؟

    کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی غیر متوقع کارکردگی کے باعث کسی بھی میچ میں اس کی فتح اور شکست کی پیش گوئی بھی مشکل رہی ہے یہ وہ ٹیم ہے جو ایک میچ میں اگر کسی مضبوط حریف کو ہرا سکتی ہے تو اگلے ہی میچ میں ایک کمزور کرکٹ ٹیم سے شکست کھا کر دنیا کو حیران کر دیتی ہے۔

    آسٹریلیا میں ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے یہی کیا۔ کھیل کے دوران کشمکش کی فضا میں قومی ٹیم کے کھلاڑیوں نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا اور پاکستان سیمی فائنل میں پہنچ گیا۔

    ٹی ٹوئنٹی کے سپر 12 مرحلے کے آغاز سے قومی ٹیم کے سیمی فائنل تک پہنچنے کے لیے قوم نے جس طرح دعائیں کیں، اس سے 1992 کے ورلڈ کپ کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ اُس ایک روزہ ورلڈ کپ اور حالیہ مقابلے میں اتنی مماثلت پیدا ہو گئی ہے کہ قوم میں بھی ایک بار پھر وہی جوش و ولولہ اور وہ اضطراب نظر آرہا ہے جو آج سے 30 سال قبل دیکھا گیا تھا۔ اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستانی ٹیم 1992 کی تاریخ دہرا کر آسٹریلیا سے ٹرافی کے ساتھ وطن لوٹے گی۔

    آسٹریلیا میں گزشتہ ماہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ شروع ہوا تو پاکستان نے 4 فیورٹ ٹیموں میں سے ایک ٹیم کے طور پر اس کا سفر شروع کیا، سپر 12 مرحلے میں پاکستان اور بھارت کا ہائی وولٹیج میچ ٹورنامنٹ کا سب سے سنسنی خیز میچ ثابت ہوا جس کا فیصلہ آخری گیند پر ہوا، پاکستان میلبرن کے میدان میں جیتا ہوا میچ ہار گیا۔

    اگلا میچ زمبابوے سے تھا اور سب کو یقین تھا کہ پاکستان حریف کو باآسانی پچھاڑ کر اپنی فتح کے سفر کا آغاز کرے گا لیکن غیر متوقع اور اپ سیٹ شکست نے نہ صرف پاکستانی شائقین بلکہ دنیائے کرکٹ کو بھی حیران کر دیا کیونکہ پاکستان اس میچ میں 131 رنز کا آسان ہدف بھی حاصل نہیں کرسکا تھا۔ ابتدا ہی میں دو میچ ہارنے کے بعد پاکستان کی سیمی فائنل تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا اور معاملہ اگر مگر پر آگیا۔قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی کے لیے بھاری مارجن سے جیت ضروری تھی جس کے لیے قوم دل کی گہرائیوں سے دعا گو تھی اور اس موقع پر 1992ء کے ورلڈ کپ کی یاد تازہ ہوگئی۔

    اگلے میچز میں شاہین بیدار ہوئے اور فتوحات کی ہیٹ ٹرک کے ساتھ سیمی فائنل کا ٹکٹ بھی کٹوا لیا، پہلے جنوبی افریقہ کو ہرایا، پھر نیدر لینڈز کو پچھاڑا۔ اتوار کی صبح نیدر لینڈز نے جنوبی افریقہ کو اپ سیٹ شکست دے کر پاکستانی قوم کو ایک خوشی سے ہمکنار کردیا۔

    جنوبی افریقہ کی اس شکست نے پاکستان کا اگلے مرحلے کے لیے سفر مزید آسان کر دیا اور رن ریٹ کا گورکھ دھندا ختم ہوگیا اب صرف پاکستان نے بنگلہ دیش کو شکست دینا تھی اور سیمی فائنل میں پہنچنا تھا اور یہ کام قومی ٹیم نے باآسانی کرلیا جس کے ساتھ ہی وہ کچھ ہوا جس کی بہت سارے لوگوں نے امیدیں چھوڑ دی تھیں اور ایسا ہی کچھ 1992 میں پاکستانی ٹیم کے ساتھ ہوا تھا۔

    25 مارچ 1992 کو ایک شکستہ ٹیم، جس کے بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم پوزیشن ون ڈاؤن پر کوئی قابلِ ذکر بلے باز دستیاب نہیں تھا، دو فاسٹ بولرز کے بعد تیسرا کوئی فاسٹ بولر نہیں تھا، 50 اوورز کے کوٹے کو جزوقتی بولر عامر سہیل اور اعجاز احمد کی مدد سے پورا کیا جاتا تھا، جس کے لیے ایئن چیپل اور رچی بینو جیسے ماہرین نے ایک دو میچوں میں ہی کامیابی کی پیشگوئی کی تھی، اس ٹیم نے سارے اندازوں کو غلط ثابت کر دکھایا۔

    پاکستان کے کپتان عمران خان جو اپنے سخت اور انوکھے فیصلوں کے لیے مشہور تھے اس ورلڈ کپ میں ایک ایسی بیٹنگ لائن لے کر گئے تھے جس میں جاوید میاں داد کے علاوہ کوئی قابلِ اعتماد بلّے باز نہ تھا۔ آخری پانچ میچوں میں تو وہ خود بیٹنگ کا بوجھ اٹھاتے رہے، بولنگ میں سارا بوجھ وسیم اکرم کے کاندھوں پر تھا لیکن یہ ٹیم جب واپس آئی تو صرف ورلڈ کپ لے کر نہیں آئی بلکہ اپنے ساتھ انضمام الحق، عامر سہیل، عاقب جاوید اور مشتاق احمد جیسے جوہرِ قابل لے کر آئی جو بعد میں ٹیم کے اہم ستون بن گئے۔

    اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر مایوس کن تھا۔ اپنے افتتاحی میچ میں قومی ٹیم ویسٹ انڈیز سے شکست کھا گئی جس کا ذمے دار ٹیم اوپنر (موجودہ چیئرمین پی سی بی) رمیز راجا کی سست بیٹنگ کو قرار دیا گیا تھا۔ اگلا میچ بھارت کے ساتھ تھا اور کسی بھی عالمی کپ میں یہ دونوں روایتی حریف پہلی بار مدمقابل آ رہے تھے، یہ میچ بھارت نے جیتا اور اگلے میچ میں جنوبی افریقہ نے بھی پاکستان کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔

    ابتدائی دو میچز ہارنے کے بعد قومی ٹیم کی سیمی فائنل تک رسائی ناممکن دکھائی دے رہی تھی لیکن عمران خان کی قیادت اور کھلاڑیوں کی انتھک محنت اور خوش قسمتی سے پاکستان کی یہ منزل کچھ اس طرح آسان کی کہ سب حیران رہ گئے۔

    پاکستان نے اگلے میچ میں آسان حریف زمبابوے کو شکست دے کر ٹورنامنٹ میں پہلی فتح حاصل کی، لیکن ٹورنامنٹ کا ٹرننگ پوائنٹ پاکستان اور انگلینڈ کے خلاف کھیلا گیا میچ تھا جو بارش کے باعث نامکمل رہا اور دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا اور یہی ایک پوائنٹ آخر میں اتنا اہم ہوا کہ پاکستان بڑی ٹیموں کو روندتا ہوا عالمی چیمپئن بن گیا۔

    اس کو خوش قسمتی کی انتہا نہ کہیں تو اور کیا کہیں کہ پاکستان کی پوری بیٹنگ لائن انگلینڈ کے خلاف 74 رنز پر ڈھیر ہوگئی تھی اور انگلینڈ آسان ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ بھی شروع کرچکا تھا کہ اچانک بارش آسمان سے پاکستان کے لیے رحمت بن کر اتری اور اس وقت تک واپس نہ لوٹی جب تک میچ ختم کرنے کا اعلان نہیں کر دیا گیا۔

    اس کے بعد پاکستانی شاہین اسی طرح جاگے جیسے حالیہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں مسلسل دو شکستوں نے ان کو بیدار کیا، 92 کے ورلڈ کپ میں پاکستان نے پہلے آسٹریلیا اور سری لنکا کو زیر کیا اور پھر راؤنڈ میچ میں اپنا آخری میچ نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلا جو کہ اس وقت تک ٹورنامنٹ کی ناقابل شکست ٹیم تھی اور جس کو ورلڈ کپ میں دیگر 7 ٹیمیں نہیں ہرا سکی تھیں اسے قومی ٹیم نے زیر کرلیا۔ پاکستان نے اپنے مجموعی پوائنٹ 9 کر لیے۔

    جس طرح ہم اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں کشمکش اور تذبذب کا شکار رہے اور اگر مگر کی کشتی میں ڈولتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی جیت کے ساتھ دیگر ٹیموں کے لیے بھی من چاہے نتائج کی دعائیں کرتے ہوئے دن گزارے یہ سب کچھ نوے کی دہائی میں بھی ہوا تھا۔ اس وقت راؤنڈ میچ میں پاکستان نو پوائنٹس کے ساتھ اسی روز ہونے والے ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے آخری میچ پر انحصار کر رہا تھا۔ آسٹریلیا کے 6 پوائنٹ اور ویسٹ انڈیز کے 8 پوائنٹس تھے، پاکستان اسی صورت سیمی فائنل میں پہنچ سکتا تھا کہ جب آسٹریلیا کالی آندھی کو زیر کر لے۔ دوسری صورت میں ویسٹ انڈیز 10 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل پہنچتا اور پاکستان خالی ہاتھ گھر واپس آتا۔

    92 کا ورلڈ کپ اپنے مکمل ہوش و حواس میں دیکھنے والوں کو یاد ہوگاکہ اس میچ میں آسٹریلیا گویا پاکستانیوں کی قومی ٹیم بن گئی تھی جس کی فتح کے لیے ہر پاکستانی دعائیں کررہا تھا جو قبول ہوئیں اور میچ کا نتیجہ آسٹریلیا فتح کی صورت نکلا۔

    پھر کیا تھا پاکستان سیمی فائنل میں گیا، دوبارہ نیوزی لینڈ مدمقابل تھا اور پاکستان نے یہ میچ جیت کر اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ ٹیم نے فائنل میں انگلینڈ کو 22 رنز سے ہرا کر ایک تاریخ رقم کی اور دنیا نے پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان کو ورلڈ کپ کی ٹرافی تھامے دیکھا۔

    آج دیکھیں تو کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اُس ورلڈ کپ کی طرح آسٹریلیا میں کھیلا جا رہا ہے، میزبان آسٹریلوی ٹیم پہلے کی طرح فائنل فور سے قبل ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکی ہے، پاکستانی ٹیم بھی تاریخ دہراتے ہوئے اگر مگر کے کانٹوں سے الجھتی اس مرحلے تک پہنچی ہے، اس وقت بھی پاکستان کا سیمی فائنل نیوزی لینڈ سے تھا اور اس بار بھی سیمی فائنل میں یہی دونوں ٹیمیں مدمقابل ہیں۔

    اگر سیمی فائنل میں پاکستان نیوزی لینڈ کو ہرا دے اور دوسرے سیمی فائنل میں انگلینڈ بھارت کو پچھاڑ دے تو پھر فائنل بھی 30 سال قبل کھیلے گئے ورلڈ کپ کا ری پلے ثابت ہو سکتا ہے اور ٹرافی کے لیے مقابلہ پاکستان اور انگلینڈ کے مابین ہوگا۔

    کھیلوں کی دنیا میں حالیہ مقابلے اور 1992ء کے ورلڈ کپ میں اس قدر مماثلت نے قوم کی امیدوں کو بھی دو چند کردیا ہے۔ ٹرافی کے حصول کے لیے چار ٹیمیں میدان میں ہیں اور تین میچوں کے بعد فیصلہ ہو جائے گا کہ کون یہ ٹرافی اٹھا کر اپنے وطن لے جائے گا۔

    صرف کرکٹ کے پاکستانی شائقین ہی کی نہیں، پوری قوم کی آرزو ہے کہ ہماری ٹیم تاریخ کو دہراتے ہوئے میدان مار لے اور ہمارے کھلاڑی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی ٹرافی لے کر وطن لوٹیں۔ ہماری دعائیں قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔

  • T20 ورلڈ کپ میں پاکستان کا حیران کن سفر

    T20 ورلڈ کپ میں پاکستان کا حیران کن سفر

    آسٹریلیا میں جاری ٹی 20 ورلڈ کپ میں پاکستان ٹیم نے جس طرح اپنے سفر کے آغاز میں بڑا دھچکا کھایا، اسی طرح ٹیم پاکستان سیمی فائنل مرحلے سے آؤٹ ہونے سے بھی بال بال بچی، اور پوائنٹس گیم نے آخر کار اسے فائنل فور تک پہنچا ہی دیا۔

    بھارت اور زمبابوے کے خلاف آخری گیندوں پر شکست پاکستانی شائقین کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی، اور ایسا لگتا تھا کہ ٹورنامنٹ میں آگے بڑھنے سے قبل ابتدا ہی میں پاکستان کی امیدیں ختم ہو گئی ہیں، لیکن اب بابر اعظم اور ان کی ٹیم سڈنی میں نیوزی لینڈ کے خلاف سیمی فائنل میں ٹکرائے گی۔

    بھارت سے مقابلہ – 4 وکٹوں سے شکست

    ابتدائی کھیل میں ہار ہمیشہ مایوس کن ہوتی ہے، لیکن ایک پُر ہجوم کراؤڈ کے سامنے بھارت جیسے روایتی حریف کے خلاف کھیل کا نتیجہ آخری گیند پر آنا واقعی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے۔

    ویرات کوہلی والی بھارتی ٹیم کے ہاتھوں اس طرح ہارنے کے اثرات نے پاکستان کا توازن ہی بگاڑ دیا تھا، بالکل اسی طرح جیسے پاکستان ٹیم نے 12 ماہ قبل اپنے پڑوسیوں کے ساتھ کیا تھا۔

    زمبابوے سے مقابلہ – ایک رن سے شکست

    کچھ حوالوں سے زمبابوے کے خلاف آخری گیند پر شکست بھارت کے ہاتھوں شکست سے بھی زیادہ تباہ کن تھی، نیوزی لینڈ ایسی ٹیم تھی جسے شاہینز شکست دینے کی توقع رکھتے تھے، لیکن مڈل اور لوئر آرڈر نے میچ کو ایک دردناک شکست کی طرف دھکیل دیا۔

    کسی ٹیم کو گروپ اسٹیج سے باہر جانے کے لیے اکثر 2 شکستیں کافی ہوتی ہیں۔ ایک شکست آسٹریلیا کو گروپ 1 میں سیمی فائنل میں جگہ دینے سے انکار کرنے کے لیے کافی تھی، اور اس کے نتیجے میں پاکستانی اسکواڈ افسردگی کا شکار تھا، وہ جانتے تھے کہ ان کو ٹورنامنٹ میں ایسی پوزیشن سے بچانے کے لیے کرکٹ کے معجزے کی ضرورت ہے۔

    نیدرلینڈز سے مقابلہ – 6 وکٹوں سے فتح

    اس میچ کے ساتھ پاکستان ٹیم جیت کی راہ پر چل پڑی، اور پاکستان نے اپنے رن ریٹ کو بہتر کرنا شروع کر دیا، بولرز نے ڈچ ٹاپ آرڈر کو تہس نہس کرتے ہوئے جیت کی راہ ہموار کی، باس ڈی لیڈ کو چہرے پر چوٹ لگنے کے بعد ریٹائر ہونے پر مجبور کیا گیا، اور نیدرلینڈز کو انھوں نے صرف 91/9 تک محدود کر دیا، ہدف کے تعاقب میں پاکستان ٹیم نے اسے صرف 13.5 اوورز میں حاصل کر لیا۔

    جنوبی افریقہ سے مقابلہ – 33 رنز سے فتح (DLS طریقہ)

    یہ وہ میچ تھا جس نے پاکستان ٹیم کے کھیل کو خود اعتمادی دلائی، پاکستان کو معلوم تھا کہ فائنل تک پہنچنا ہے تو انھیں جیتنا ہے، اور انھوں نے جیتا۔ افتخار احمد اور شاداب خان کی شان دار نصف سنچریوں نے پاکستان کو 185/9 تک پہنچایا، اور محمد حارث کی جانب سے 11 گیندوں پر 28 رنز کی دھواں دار بیٹنگ نے اسے مستحکم کر دیا۔

    شاداب خان نے خاص طور پر دلکش کھیل کھیلا، انھوں نے صرف 22 گیندوں پر 52 رنز بنائے، صرف یہی نہیں، جب وہ بولنگ کرنے آئے تو انھوں نے ٹیمبا باؤما اور ایڈن مارکرم کو آؤٹ بھی کیا۔ شاہین آفریدی نے 14 رنز دے کر 3 وکٹیں لیں اور یوں پروٹیز کو ہدف کا تعاقب مشکل بنا دیا۔

    دوسری طرف بارش نے بھی کھیل کو مختصر کر دیا تھا، لیکن میچ تاخیر سے پہلے جس پوزیشن پر تھا، اسے دیکھتے ہوئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس سے صرف جنوبی افریقہ کی شکست کی شدت کم ہوئی۔

    جنوبی افریقہ بمقابلہ نیدرلینڈز – ڈچ کی 13 رنز سے فتح

    پاکستان جب ایڈیلیڈ میں گھبراہٹ کے ساتھ یہ میچ دیکھ رہا تھا، تو اسے شاید ہی اُس بات پر یقین رہا ہو جو انھوں نے ہوتے دیکھی، ڈچ کھلاڑیوں نے ایک اچھا اوپننگ اسٹینڈ دیا اور آخر میں کچھ پاور ہٹنگ نے انھیں 158 کے ہدف تک پہنچا دیا، اس ہدف کا دفاع ممکن تھا لیکن یہ بھی سچ تھا کہ اسے چیز کیا جا سکتا تھا، لیکن اس کے باوجود جنوبی افریقہ کی بیٹنگ لائن جو ٹورنامنٹ میں کسی کو بھی شکست دینے کی طاقت رکھتی تھی، وہ 13 رنز کی شکست سے دوچار ہو گئی۔

    پاکستان کو اسی اپ سیٹ نتیجے کی ضرورت تھی، اور پہلی بار اچانک پاکستان کی امید کا دیا پھر سے روشن ہونے لگا۔

    بنگلا دیش سے مقابلہ – پانچ وکٹوں سے فتح

    اس میچ میں شاہینوں نے دکھایا کہ وہ حریف کے مقابل ایک بڑی ٹیم ہیں، شاہین شاہ آفریدی نے اپنی گیند سے حریف ٹیم کی بیٹنگ لائن کو چیر کر رکھ دیا، انھوں نے 22 رنز دے کر 4 وکٹیں لیں، اور ٹائیگرز کو 127 رنز تک محدود کر دیا۔ اگرچہ پاکستان نے میچ جیت لیا لیکن ہدف کے لیے ان کا تعاقب بہت سست رہا۔ رضوان اور بابر اعظم کی جوڑی کی جانب سے مایوس کن پرفارمنس جاری رہی۔

    فائنل فور: نیوزی لینڈ کے ساتھ

    اس میچ میں بہت کچھ شاہین اور شاداب کی بولنگ پر منحصر ہوگا، اگر پاکستان کے یہ بہترین بولرز ٹاپ آرڈر کی وکٹیں لے سکتے ہیں تو یہی چیز نیوزی لینڈ کو خاص طور پر کمزور بنا سکتی ہے، بابراور رضوان کی اوپننگ جوڑی سے امید کی جائے گی کہ وہ اپنی جدوجہد کو پیچھے چھوڑ دیں اور بڑے کھلاڑیوں کی طرح کھیل کر دکھائیں۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کا سفر تمام، انگلینڈ ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی

    ٹی 20 ورلڈ کپ: دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کا سفر تمام، انگلینڈ ٹیم سیمی فائنل میں پہنچ گئی

    سڈنی: آئی سی سی ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے اہم میچ میں  انگلینڈ نے سری لنکا کو شکست دے دی۔

    انگلینڈ نے سری لنکا کو ہرا کر سیمی فائنل میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوگئی ہے، میگا ایونٹ میں دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کاسفر تمام ہوگیا جبکہ سری لنکا اس ایونٹ میں پہلے ہی باہر ہوگئی تھی۔

    سری لنکا نے انگلینڈ کے خلاف ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے۔سری لنکا نے پہلےکھیل کر 8 وکٹوں کے نقصان سے 141 رنز بنائے۔

    141 رنز کے تعاقب میں انگلینڈ کی ٹیم 6 وکٹ کے نقصان پر 144 رنز اسکور کیے، انگلینڈ کے ایلکس ہیلز 47،  بین اسٹوکس 42 رنز بنا کرنمایاں رہے جبکہ سری لنکا کی جانب سے ہسارنگا، کمارا اور دھننجیا نے 2،2 وکٹیں حاصل کیں۔

    انگلینڈ کی جانب سے عادل رشید کو عمد بولنگ پر پلیئرآف دی میچ قرار دیا گیا، انہوں نے سری لنکا کی 3 اہم وکٹیں حاصل کی۔

    سری لنکن ٹیم کے پاتھم نسانکا نے45 گیندوں پر67 رنز اسکور کیے، بھانوکارا جاپکسے  22 اور کوشل مینڈس 18رنز بنا سکے، جبکہ ووڈکی 3،راشد ،ووکس، اسٹوکس اور کرن نے 1،1وکٹ لی۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا یہ میچ انگلش ٹیم کے لیے انتہائی اہم ہے کیونکہ اگر انگلینڈ ٹیم یہ جیتنے میں کامیاب ہوتی ہے تو  سیمی فائنل میں پہنچ جائے گی۔

    اور اگر آج کا میچ سری لنکا جیت جاتی ہے تو دونوں ٹیموں کی اپنے وطن واپسی کا ٹکٹ کنفرم ہوگا ہوجائے گا۔

    گروپ ون سے نیوزی لینڈ پانچ میچز میں 7 پوائنٹس کے ساتھ سیمی فائنل میں پہنچنے والی پہلی ٹیم بن گئی ہے، انگلینڈ آج کا میچ جیتنے کے بعد پوائنٹ ٹیبل پر دوسری پوزیشن حاصل کرتے ہوئے سیمی فائنل میں پہنچ گئی ہے، سری لنکا کی شکست کے بعد اب میزبان ٹیم ایونٹ سے باہر ہوگئی۔

    گروپ ون سے سری لنکا، افغانستان اور آئرلینڈ کی ٹیموں کیلئے ایونٹ ختم ہو گیا تھا۔

  • محمد حارث کا شاٹ پلے آف دی ڈے قرار

    محمد حارث کا شاٹ پلے آف دی ڈے قرار

    سڈنی: گزشتہ روز فخر زمان کی انجری کے بعد محمد حارث کو جنوی افریقہ کے خلاف ٹیم میں شامل کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور سے تعلق رکھنے والے وکٹ کیپر بیٹسمین محمد حارث فخر زمان کے ان فٹ ہونے پر اچانک پاکستانی ٹیم میں شامل ہوئے اور چند گھنٹے بعد انہیں ورلڈ کپ میں جنوبی افریقا کے خلاف کھیلنے کا موقع ملا۔

    محمد حارث نے جنوبی افریقہ کے خلاف دھواں دھار بیٹنگ کرتے ہوئے تین چھکوں اور دو چوکوں کی مدد سے 11گیندوں پر28 رنز  بنائے۔

    جس کے بعد محمد حارث نے ایک شاندار چھکا لگایا، ان کا اس شاٹ کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ 2022 میں پلے آف دی ڈے قرار دیا گیا۔

  • ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان اور جنوبی افریقہ میچ میں ہونے والی بارش رک گئی، میچ دوبارہ شروع

    ٹی 20 ورلڈ کپ: پاکستان اور جنوبی افریقہ میچ میں ہونے والی بارش رک گئی، میچ دوبارہ شروع

    سڈنی: آسٹریلیا میں جاری ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان اور جنوبی افریقہ کا میچ میں ہونے والی بارش روک گئی، جس کے بعد میچ دوبارہ شروع ہوگیا۔

    تفصیلات کے مطابق سڈنی کرکٹ گراؤنڈ میں قومی کپتان بابر اعظم نے ٹاس جیتا اور جنوبی افریقہ کو فیلڈنگ کی دعوت دی، قومی ٹیم نے 20 اوورز میں 9 وکٹ کے نقصان پر 185 رنز بنائے، جس کے بعد جنوبی افریقہ کو جیت کیلئے 186 رنز کا ہدف دیا۔

    جنوبی افریقہ نے 186 رنز کے تعاقب میں 9 اوورز میں 4 وکٹوں کے نقصان پر 69 رنز بنائے ، بارش نہ رکی تو پاکستان کو فاتح قرار دیا جائے گا۔

    جنوبی افریقہ کے خلاف اننگز کے آغاز پر ہی محمد رضوان نے چوکا مارا اور 4 رنز بناکر وین پرنیل کی گیند پر بولڈ ہوگئے, محمد حارث نے 11 گیندوں پر 28 رنز کی دھواں دھار اننگز کھیلی جس میں 3 چھکے اور 2 چوکے شامل تھے۔

      کپتان بابر اعظم 6 رنز بناکر آؤٹ ہوئے، شان مسعود  2 اور محمد نواز 28 رنز بناکر پویلین لوٹے۔

    محمد نواز کے آؤٹ ہونے کے بعد افتخار احمد اور شاداب خان کے درمیان بھی اچھی پارٹنرشپ قائم ہوئی۔ اس دوران شاداب خان نے جارحانہ انداز بھی اپنایا۔

    شاداب خان 22 گیندوں پر 52 رنز جبکہ افتخار احمد 35 گیندوں پر 51 رنز بناکر آؤٹ ہوئے اس کے بعد حارث رؤف 3 اور محمد وسیم صفر پر آؤٹ ہوئے۔

     پاکستان نے ٹورنامنٹ میں اپنا سفر آگے جاری رکھنا ہے تو اسے میچ میں ہر حال میں بھاری مارجن سے فتح اپنے نام کرنا ہوگی، شکست قومی ٹیم کو ٹورنامنٹ سے باہر کردے گی جب کہ جنوبی افریقہ سیمی فائنل میچ میں پہنچ جائے گا۔

    دونوں ٹیموں نے اپنی پلیئنگ لائن اپ میں ایک تبدیلی کی ہے، پاکستانی اسکوڈ میں فخرزمان انجری کے باعث ورلڈ کپ ٹی ٹوئنٹی سے باہر ہوگئے ہیں ان کی جگہ محمد حارث کو اسکوڈ میں شامل کیا گیا ہے، جبکہ جنوبی افریقی ٹیم میں ڈیوڈ ملر کی جگہ ہینرک کلاسن کو شامل کیا گیا ہے۔

    آج کے ڈو ایڈ ڈائی میچ میں  پاکستان کی قیادت بابر اعظم اور جنوبی افریقا کی کپتانی ٹیمبا باوما کر رہے ہیں۔

    پاکستان پلیئنگ الیون میں کپتان بابر اعظم، محمد رضوان، شان مسعود، محمد حارث، شاداب خان، محمد نواز، افتخار احمد، شاہین شاہ آفریدی، محمد وسیم، حارث رؤف، نسیم شاہ ٹیم میں شامل ہیں۔

    ٹاس جیتنے کے بعد بابر اعظم کا کہنا تھا کہ پچ بہت اچھی ہے بڑا اسکور کرنے کی  100 فیصد کوشش کرینگے، ،تمام کھلاڑی پر اعتماد ہیں۔

    جنوبی افریقا کے کپتان کا کہنا تھا کہ ٹاس جیتتے تو ہم بھی بیٹنگ کرتے، کوشش کرینگے پاکستان کو کم رنز پر روکیں۔

    ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں جنوبی افریقا کی ٹیم اب تک ناقابل شکست ہے جبکہ پاکستان ٹیم گروپ ٹو میں اس وقت پانچویں نمبر پر موجود ہے۔

  • فخر زمان کی جگہ محمد حارث اسکواڈ میں شامل

    فخر زمان کی جگہ محمد حارث اسکواڈ میں شامل

    سڈنی: انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی ) کی ٹینیکل کمیٹی نے پاکستان ٹیم کے اَن فٹ فخر زمان کی جگہ محمد حارث کو اسکواڈ میں شامل کرنے کی منظوری دیدی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز پاکستانی ٹیم انتطامیہ نے آئی سی سی ٹیکنیکل کمیٹی سے فخر زمان کا متبادل کھلاڑی مانگا تھا۔

    یاد رہے کہ فخر زمان کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے ان فٹ عثمان قادر کی جگہ ورلڈ کپ اسکوڈ میں شامل کیا گیا تھا۔گھٹنے کی انجری کی تکلیف دوبارہ بڑھنے کے باعث وہ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے باہر ہو گئے ہیں۔

    فخر زمان اسکواڈ کا حصہ تو تھے لیکن انہیں بھارت اور زمبابوے کے خلاف اہم میچز میں آرام دیا گیا تھا تاہم انہیں نیدرلینڈ کے خلاف میچ میں موقع دیا گیا جہاں وہ دوبارہ انجرڈ ہوگئے۔

    جس کے بعد ٹیم کے ڈاکٹر نجیب سومرو نے گزشتہ روز سڈنی میں میڈیا سے گفتگو میں تسلیم کیا تھا کہ انجری کا شکار فخر زمان کو کھلا کر رسک لیا گیا جس میں کبھی کامیابی تو  کبھی ناکامی ملتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہا کہ فخر زمان کی انجری کے بعد ٹیم مینجمنٹ نے آئی سی سی کی ٹیکنیکل کمیٹی سے ریزرو کھلاڑیوں کی فہرست میں شامل محمد حارث کو شامل کرنے کی درخواست کی تھی جو منظور کرلی گئی ہے۔

  • پاکستانی اوپنر کی وکٹیں جلد لے کر مڈل آرڈر پر پریشر ڈالنے کی کوشش کریں گے، ڈیوڈ ملر

    پاکستانی اوپنر کی وکٹیں جلد لے کر مڈل آرڈر پر پریشر ڈالنے کی کوشش کریں گے، ڈیوڈ ملر

    سڈنی: جنوبی افریقا کے بیٹر ڈیوڈ ملر نے کہا ہے کہ پاکستان کے اوپنر کی وکٹ جلد لے کر میڈل آرڈر پر پریشر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈیوڈ ملر نے سڈنی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں معلوم ہے، پاکستان ٹیم کے کپتان بڑا اسکور نہیں کرپارہے، اس چیز کا فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کریں گے۔

    انکا کہنا تھا کہ ٹیم کے اوپنر بابر اعظم اور محمد رضوان کو جلد آؤٹ لے کر پاکستانی ٹیم کے مڈل آڈر پر پریشر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔

    جنوبی افریقا کے بیٹر کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے ورلڈ کپ کا پر میچ اہم ہے، پاکستان ایک بہترین ٹیم ہے، جس کے پاس اہم میچز کے ونزز ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے یہ میچ جیتنا ضروری ہے، لیکن ہماری ٹیم بھی مشکل صورت حال سے میچز جیتنا جانتی ہے، ہماری ٹیم ہر صورتحال کے لیے تیار ہے۔

    ڈیوڈ ملر کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے پیس اٹیک نے گزشتہ چند ماہ میں زبردست پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے، ہماری ٹیم برصغیر کے اسپنرز کو کھیلنے کے لیے تیار ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستانی ٹیم کو کل اپنا اہم میچ جنوبی افریقا کے ساتھ کھیلنا ہے، پاکستان کو ٹورنامنٹ میں واحد فتح نیدر لینڈ کے خلاف ملی ہے اور اس کو سیمی فائنل دوڑ میں شامل رہنے کے لیے کل سڈنی میں میچ میں بڑے مارجن سے فتح حاصل کرنی ہے۔