Tag: پاؤں

  • پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے پر شدید تکلیف کیوں ہوتی ہے؟

    پاؤں کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرانے پر شدید تکلیف کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ آپ کے پاؤں کی چھوٹی انگلی بے دھیانی میں کسی چیز سے ٹکرائی ہو اور آپ شدید تکلیف سے ناچ اٹھے ہوں؟

    ایسا اکثر ہوتا ہے کہ آپ گھر میں گھوم رہے ہیں اور اچانک پیر کی چھوٹی انگلی کسی چیز سے ٹکرا جائے اور اس کے ساتھ ہی شدید تکلیف کا جھٹکا پورے جسم میں دوڑنے لگے۔

    ایسا ہوتے ہی آپ کے منہ سے چیخ نکل جاتی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے اپنی جگہ منجمد ہوگئے ہیں۔

    درحقیقت کوئی بھی تکلیف ایسی نہیں ہوتی جتنی پاؤں کی چھوٹی انگلی کے کسی دروازے یا میز وغیرہ سے ٹکرانے سے ہوتی ہے، حیران کن طور پر عموماً چوٹ معمولی ہوتی ہے تو پھر ایسا کیوں لگتا ہے جیسے پیر میں کسی نے خنجر گھونپ دیا ہو؟

    اس سوال کا جواب پیروں میں اعصابی فائبرز کی اقسام اور تعداد میں چھپا ہوا ہے جو آپ کو تکلیف سے ناچنے پر مجبور کرتا ہے۔

    جسم میں تکلیف کا احساس اعصابی خلیات nociceptors سے پھیلتا ہے جس کے فائبر جلد، مسلز اور اندرونی اعضا تک پھیلے ہوتے ہیں اور متاثرہ خلیات سے سگنل کی شکل میں ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

    ان خلیات کی اقسام مختلف طرح کے نقصان پر الگ الگ ردعمل ظاہر کرتی ہیں، جیسے کسی گرم چیز کو چھونے پر thermal nociceptors متحرک ہوتے ہیں۔

    اسی طرح پیروں کی انگلیوں میں چوٹ لگنے پر mechanical nociceptors حرکت میں آتے ہیں، یہ خلیات دباؤ، زخم اور کٹ لگ جانے کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں۔

    جب یہ خلیات متحرک ہوتے ہیں تو یہ متاثرہ انگلی سے ایک پیغام ریڑھ کی ہڈی تک فائبر کے پیچیدہ جال سے بھیجتے ہیں، یہ پیغام دماغ تک پہنچتا ہے اور پھر cerebral cortex تک چلا جاتا ہے۔

    دماغ کا یہ حصہ لمس، درجہ حرارت اور تکلیف کے سگنلز پر ردعمل ظاہر کرتا ہے اور جسم کے اعضا کے حوالے سے مختلف احساسات پیدا کرتا ہے۔

    اس دماغی حصے میں پیروں اور اس کی انگلیوں سے متعلق مرکز بالکل درمیان ہوتا ہے جہاں 2 دماغی حصے ایک دوسرے سے مل رہے ہوتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق انگلیوں میں چوٹ لگنے سے دماغ تک سگنل بیک وقت نہیں پہنچتے۔

    چوٹ لگنے پر درد کا پہلا جھٹکا ایسے فائبر دماغ تک پہنچاتے ہیں جو سگنلز بھیجنے کے معاملے میں بہت زیادہ مؤثر نظام کے حامل ہوتے ہیں، اس کے چند سیکنڈ بعد دماغ کو درد کے سگنل سی فائبرز پہنچاتے ہیں۔

    یہ فائبر پیروں کی انگلیوں کے بیشتر حصے کو کور کرتے ہیں اور یہ تکلیف ورم کی شکل میں زیادہ بدتر ہوجاتی ہے۔

    پیر میں تکلیف محسوس کرنے والے اعصاب چوٹوں جیسے انگلی پر چوٹ کے حوالے سے بہت زیادہ حساس ہوتے ہیں، کیونکہ پیروں میں چربی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے جس سے جھٹکے کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔

    اسی طرح جب پیر کی انگلی کو چوٹ لگتی ہے تو زیادہ امکان یہ ہوتا ہے کہ جگہ متاثر ہوئی ہو جہاں اعصابی فائبر زیادہ متحرک ہوتے ہیں۔

    مگر اچھی بات یہ ہے کہ انگلی پر لگنے والی چوٹ سے ہونے والی شدید تکلیف عموماً چند منٹ یا گھنٹوں بعد ختم ہوجاتی ہے، مگر کبھی کبھار اس چوٹ سے سنگین انجری کا سامنا بھی ہوتا ہے یا ہڈی کا جوڑ اپنی جگہ سے ہٹ جاتا ہے۔

    اگر چوٹ کے بعد شدید تکلیف کا سامنا ایک یا 2 دن بعد بھی ہورہا ہو تو بہتر ہے کہ ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

  • خشک موسم میں ہاتھ پیروں کو خوبصورت بنانے کا طریقہ

    خشک موسم میں ہاتھ پیروں کو خوبصورت بنانے کا طریقہ

    موسم سرما میں جلد خشک ہوجاتی ہے اور ہاتھ پاؤں بھی پھٹے پھٹے سے ہونے لگتے ہیں، خاص طور پر پاؤں کی ایڑھیاں پھٹ جاتی ہیں اور وہاں زخم بھی بن جاتے ہیں۔

    ہاتھ پیروں کو خشکی سے بچانے، نرم و ملائم بنانے اور جلد کو صاف رکھنے کے لیے ڈاکٹر ام راحیل نے نہایت کارآمد نسخہ بتایا۔

    انار کے دانوں کو پیس کر ان کا پیسٹ بنا لیں، اس میں ملیٹھی کا پاؤڈر، گلاب کی پتیوں کا پاؤڈر، اور بادام کا پاؤڈر آدھا آدھا چمچ ملا لیں۔ اس میں فریش کریم شامل کریں اور اچھی طرح مکس کرلیں۔

    رات سونے سے قبل اس آمیزے سے ہاتھ پاؤں کا اچھی طرح مساج کریں اور مردہ جلد جھاڑ لیں، صبح اٹھ کر ہاتھ پاؤں دھو لیں، جلد نہایت شفاف اور نرم و ملائم ہوجائے گی۔

  • لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    لہروں کے ساتھ ساحل پر بہہ کر آنے والے انسانی پاؤں نے لوگوں کو خوفزدہ کردیا

    کیا ہوگا اگر آپ ساحل سمندر پر تفریح کے لیے جائیں اور وہاں آپ کو ایک جوگر اس طرح دکھائی دے کہ اس کے اندر ایک انسانی پاؤں بھی موجود ہو؟ ایسی ہی کچھ خوفناک صورتحال کچھ عرصے سے امریکن اور کینیڈین شہریوں کے ساتھ پیش آرہی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق امریکا اور کینیڈا میں بحیرہ سالیش کے ساحلی علاقوں میں 20 اگست 2007 سے کٹے ہوئے انسانی پیر لہروں کے ساتھ بہہ کر آرہے ہیں۔

    ویسے تو کسی بھی ساحل پر لہروں کے ساتھ بہہ کر آنے والے انسانی پیر دل ہلا دیتے ہیں مگر 2007 سے 2019 کے درمیان جوتوں کے ساتھ 21 پیروں کو اس ساحلی خطے میں دریافت کیا گیا۔

    جسم سے علیحدہ ہوجانے والے ان پیروں کو ساحل پر آنے والے افراد نے دریافت کیا اور اب تک معمہ بنا ہوا تھا کہ ایسا کیوں ہورہا ہے، تاہم سائنسدانوں نے اب اس معمے کو حل کرلیا ہے یا کم از کم ان کا دعویٰ تو یہی ہے۔

    سب سے پہلے 20 اگست 2007 کو ایک 12 سالہ بچی نے ایک نیلے و سفید جوگر کو برٹش کولمبیا کے ایک جزیرے جڈیڈہا کے ساحل پر دیکھا، بچی نے جوتے کے اندر جھانکا تو اس میں ایک جراب تھی اور جب اس نے جراب کے اندر دیکھا تو اس میں ایک پیر موجود تھا۔

    6 دن بعد ایک قریبی جزیرے گبرولا میں ایک جوڑا سیر کررہا تھا جب اس نے ایک بلیک اینڈ وائٹ جوگر کو دیکھا اور اس کے اندر سڑتا ہوا پیر موجود تھا۔

    دونوں جوتوں کا سائز 12 تھا اور یہ دائیں پیر کے تھے یعنی یہ واضح تھا کہ یہ 2 مختلف افراد کے ہیں۔ اس معاملے نے پولیس کو دنگ کردیا اور مقامی حکام نے اس وقت میڈیا کو بتایا کہ دونوں پیر گل سڑ چکے تھے مگر ان پر گوشت موجود تھا۔

    پولیس کا کہنا تھا کہ اتنے کم وقت میں 2 پیروں کا ملنا کافی چونکا دینے والا ہے، اس طرح تو کسی ایک پیر کے ملنے کا امکان 10 لاکھ میں سے ایک فیصد ہوتا ہے، مگر 2 کی دریافت تو حیران کن ہے۔

    اگلے سال یعنی 2008 میں قریبی کینیڈین ساحلوں میں 5 مزید پیروں کو دریافت کیا گیا اور اس کے نتیجے میں لوگوں میں خوف پھیل گیا جبکہ میڈیا کے قیاسات بڑھنے لگے، جیسے کیا کوئی سیریل کلر آزاد گھوم رہا ہے جو پیروں کا دشمن ہے؟

    اگلے 12 برسوں میں کینیڈین ساحلوں پر مجموعی طور پر 15 جبکہ امریکی ساحلی علاقوں میں 6 پیروں کو جوتوں کے ساتھ دریافت کیا گیا۔

    جوگرز پہنے یہ پیر بہت زیادہ مشہور ہیں اور وکی پیڈیا پر ان کا اپنا ایک پیج بھی ہے، اس شہرت کے نتیجے میں افواہوں میں بھی اضافہ ہوا جبکہ کچھ لوگ جوتوں میں مرغیوں کی ہڈیاں بھر کر کینیڈین ساحلوں پر چھوڑنے لگے۔

    کچھ کا خیال تھا کہ یہ مافیا گروپس کا کارنامہ ہے جو لاشوں کو ٹھکانے لگارہے ہیں۔ لوگوں کی جانب سے پولیس سے رابطہ کر کے ان پیروں کے حوالے سے متعدد خیالات ظاہر کیے گئے۔

    پولیس حکام کے مطابق ہمیں سیریل کلرز کے بارے میں کافی دلچسپ تفصیلات ملیں یا یہ بتایا گیا کہ تارکین وطن سے بھرے ہوئے کنٹینرز سمندر کی تہہ میں موجود ہیں۔ مگر اس طرح کے اسرار کے لیے پولیس کی بجائے سائنسی تحقیقات کی ضرورت ہوتی ہے۔

    مختلف سوالات جیسے پورے جسم کی بجائے صرف پیر ہی کیوں ساحل پر بہہ کر آرہے ہیں اور وہ مخصوص ساحلی پٹی پر ہی کیوں دریافت ہورہے ہیں؟ کے جواب اب سائنسدانوں نے دے دیے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ کسی نامعلوم سیریل کلر کا کام نہیں جو جوگرز سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس معمے کے پیچھے ایک سادہ وجہ ہے اور وہ ہے جوتوں کی صنعت میں آنے والی ایک تبدیلی۔

    اس تبدیلی سے پہلے چند اہم نکات جان لیں تاکہ سائنسدانوں کی وضاحت زیادہ آسانی سے سمجھ سکیں۔

    جب کوئی فرد حادثاتی یا خودکشی کے باعث سمندر میں مرتا ہے تو لاش یا تو تیرتی ہے یا ڈوب جاتی ہے۔

    اگر وہ تیرتی ہے تو ہوا کا بہاؤ اسے سطح پر لے آتا ہے اور وہ جلد ساحل تک پہنچ جاتی ہے جبکہ ڈوبنے کی صورت میں وہ ایک جگہ رہ سکتی ہے۔

    ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر پھیپھڑوں میں ہوا ہو تو جسم کے تیرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ہوا سے خالی پھیپھڑے جیسے لاشوں کا ڈوبنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ بالخصوص اگر ان کے جسموں پر بھاری ملبوسات یا پھیپھڑوں میں پانی بھر جائے تو لاش ڈوب جاتی ہے اور تہہ میں پہنچ جاتی ہے۔

    کورنرز سروس کی محقق یازدجیان نے اس معمے پر کافی کام کیا اور ان کا کہنا تھا کہ گہرے پانیوں میں پانی کا شدید دباؤ لاشوں کو بہنے سے روکتا ہے۔

    وہاں ایک مختلف قسم کا جراثیمی عمل ہوتا ہے اور لاش کے ٹشوز کو ایک چربیلے مادے ایڈیپوسیرے میں بدل دیتا ہے جو کم آکسیجن والے ماحول میں برسوں بلکہ صدیوں تک رہ سکتا ہے۔

    بحیرہ سالیش میں دریافت ہونے والی پیروں میں یازدجیان نے ایسا ہی کچھ دیکھا اس پر ایڈیپوسیرے کو دیکھا، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ جسم کے ڈوبنے کے بعد وہ گلنے سڑنے کے دوران زیرآب رہا، جس سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ ڈوب گئے اور وہی پھنسے رہے، مگر پھر کیا پیروں کو بھی جسم کے ساتھ ہی نہیں جڑے رہنا چاہیئے؟

    اس بات کا جواب کورنرز سروس کے محقق بارب میکلنٹوک نے دیتے ہوئے بتایا کہ ہمیں لگتا ہے کہ ہم اب جان چکے ہیں کہ ایسے ہر کیس میں کیا ہوا۔

    ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ سنہ 2016 میں جب مزید پیر ساحل پر بہہ کر آئے تو ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ یہ قتل کا نتیجہ ہیں بلکہ اس کی ایک متبادل اور قابل قبول وضاحت موجود ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جب کوئی سمندر میں ڈوب کر تہہ میں پہنچ جاتا ہے تو ان کی جانب مردار خور لپکتے ہیں۔

    مگر یہ مردار خور کافی سست رفتاری سے کھاتے ہیں اور جسم کے سخت کی بجائے نرم حصوں کو ترجیح دیتے ہیں اور انسانوں کے نرم حصوں میں ٹخنے میں بھی شامل ہوتے ہیں۔

    ٹخنے نرم ٹشوز اور ہڈیوں پر مشتمل ہوتے ہیں جب ان کو یہ مردار خور چبا لیتے ہیں تو پیر لاش کے زیادہ گلنے سے قبل ہی تیزی سے الگ ہوجاتے ہیں۔

    آسان الفاظ میں پورا جسم ڈوب جاتا ہے مگر پیروں کو مچھلیاں جسم سے الگ کردیتی ہیں جو تیر کر ساحل پر پہنچ جاتے ہیں۔

    مگر یہاں یہ سوال بھی ذہن میں آسکتا ہے کہ 2007 سے قبل ایسا کیوں دیکھنے میں نہیں آتا تھا تو اس کی وجہ حالیہ برسوں میں جوگرز ٹیکنالوجی میں پیشرفت ہے۔

    اس طرح کے جوتے اب زیادہ نرم فوم سے بنتے ہیں جبکہ ان میں ایئر پاکٹس بھی موجود ہوتے ہیں۔

    بارب میکلنٹوک نے بتایا کہ ماضی میں ایسا نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ پہلے کبھی ایسے رننگ شوز موجود نہیں تھے جو اتنی اچھی طرح تیر سکتے ہیں، اسی لیے پہلے پیر بھی جسم کے ساتھ سمندر کی تہہ تک ہی محدود رہتے تھے۔

  • پاؤں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی عام مشکلات اور ان کا حل

    پاؤں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی عام مشکلات اور ان کا حل

    موسم گرما ایسا سیزن ہے جس میں ہمارے جسم کے کئی حصے دھوپ کی براہ راست زد میں ہوتے ہیں کیونکہ گرمی کے باعث ہم انہیں ڈھکنے سے گریز کرتے ہیں۔

    انہی میں ہمارے پاؤں بھی شامل ہیں جو موسم سرما میں تو بند جوتوں اور موزوں کی وجہ سے محفوظ رہتے ہیں تاہم گرمیوں میں ان کی حفاظت کرنی ذرا مشکل ہوجاتی ہے جو مستقل گرد و غبار اور سورج کی تیز روشنی کی زد میں رہتے ہیں۔

    مستقل کھلی ہوا میں رہنے کی صورت میں ہمارے پاؤں اکثر اوقات چند مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں اور آج ہم انہی سے بچنے کی احتیاط اور علاج بتا رہے ہیں۔


    جوتوں کا انتخاب

    ایک عام خیال ہے کہ اونچی ایڑھی کے جوتے پیروں کو بے حد نقصان پہنچاتے ہیں لہٰذا ان کی جگہ چپٹے یا فلیٹ جوتے اور چپلیں استعمال کرنے چاہئیں۔

    مزید پڑھیں: جتنی اونچی ہیل، اتنا امیر شہر

    لیکن ماہرین طب کا کہنا ہے کہ بالکل ہموار سطح کے فلیٹ جوتے بھی پاؤں کو اتنا ہی نقصان پہنچاتے ہیں جتنا اونچی ایڑھی کے جوتے۔

    دراصل بہت زیاہ فلیٹ جوتے بھی پاؤں پر دباؤ ڈالتے ہیں جس کے باعث انہیں اپنے کام انجام دینے میں زیادہ قوت صرف کرنی پڑتی ہے او یوں ہم پاؤں کی تکلیف کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

    جوتوں کا انتخاب کرتے ہوئے خیال رکھیں کہ جوتوں میں 2 سے 3 سینٹی میٹر کی ہیل ضرور ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رکھیں کہ وہ ہیل پاؤں کے لیے آرام دہ ہو اور انہیں تکلیف میں مبتلا کرنے کا سبب نہ بنے۔


    پھٹی ایڑھیاں

    پاؤں کی ایڑھیاں پھٹ جانا ایک عام مسئلہ ہے جو نہ صرف سردیوں بلکہ گرمیوں میں بھی پیش آسکتا ہے۔

    ایڑھیاں خشک ہو کر اس وقت پھٹتی ہیں جب ایڑھیوں کے ٹشو خشک ہوجاتے ہیں۔

    ایسا گرمیوں میں کھلے جوتے پہنے کے باعث گرد و غبار پڑنے اور ایڑھیوں پر میل جم جانے کے باعث ہوتا ہے۔ بڑھتی عمر کے ساتھ بھی یہ مسئلہ پیش آسکتا ہے۔

    پھٹی ایڑھیوں کی طرف اگر فوری طور پر توجہ نہ دی جائے تو یہ سخت اور کھردری ہوجاتی ہیں جس کے باعث چلنے پھرنے اور جوتے پہننے میں نہایت تکلیف کا سامنا ہوتا ہے۔ بعض اوقات ان سے خون بھی رسنے لگتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ پھٹی ایڑھیوں سے نجات پانے کے لیے ایسی کریم استعمال کریں جس میں یوریا شامل ہو۔ یوریا جسم کی چکنائی میں اضافہ کر کے اس کی خشکی اور الرجی کو کم کرتا ہے اور جلد کو ہموار بناتا ہے۔


    ناخن کا گوشت کے اندر بڑھنا

    پاؤں کو تکلیف میں مبتلا کرنے والی ایک اور مشکل ناخنوں کا گوشت کے اندر بڑھنا ہے۔ یہ عمل اس انگلی کی سوجن اور تکلیف کا سبب بنتا ہے۔ بعض اوقات مذکورہ انگلی سے خون بھی نکل آتا ہے اور تکلیف شدید ہونے کی صورت میں انگلی انفیکشن کا شکار ہوجاتی ہے۔

    اس کی عام وجوہات میں تنگ جوتے پہننا، ناقص طرح سے ناخن کاٹنا، یا پاؤں میں پسینہ آنا شامل ہے تاہم بعض افراد کو پیدائشی طور پر بھی یہ مسئلہ لاحق ہوسکتا ہے۔

    اس مسئلے سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ مذکورہ انگلی کے ناخن کا خیال رکھا جائے اور جیسے ہی یہ ایک حد سے بڑھ جائے اسے فوراً کاٹ دیا جائے۔

    ناخن کو بہت زیادہ اندر تک نہ کاٹا جائے۔ اس سے ناخن کی افزائش کی جگہ پر جلد کو بڑھنے کا موقع مل سکتا ہے۔


    فنگل نیل

    پاؤں کے ناخنوں کا پیلا، سخت اور بدبودار ہوجانا انفیکشن کی ایک قسم ہے جو زیادہ تر کھلاڑیوں کے پاؤں میں ہوجاتی ہے۔

    اس کا آغاز ناخنوں سے دور جلد سے ہوتا ہے اور اگر یہ زیادہ عرصے تک رہے تو ناخنوں کو بھی متاثر کرتا ہے۔

    فنگل میں مبتلا ناخنوں کا جلد سے جلد علاج کرنا بہتر ہوتا ہے۔

    شروع میں یہ انفیکشن اس طرح دکھائی دیتا ہے کہ جیسے ناخن کے اوپر ٹیلکم پاؤڈر چھڑکا گیا ہو۔ ایسی صورت میں ڈاکٹر کا تجویز کردہ اینٹی فنگل نیل وارنش استعمال کر کے اس سے چھٹکارہ پایا جاسکتا ہے۔

    اگر یہ مرض بڑھ جائے تو ڈاکٹر کی مدد سے ناخن میں ننھے ننھے سوراخ کر کے ان کے اندر ادویات کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے تاکہ وہ ناخن کے اندر کی جلد تک پہنچ سکیں۔

    اس مرض کے علاج کی گولیاں صرف ڈاکٹر کے تجویز کرنے کے بعد ہی کھائی جائیں جو اس وقت تجویز کی جاتی ہیں جب مرض اپنی انتہا پر پہنچ جائے۔ اینٹی فنگل ادویات جگر کو تباہ کرسکتی ہیں لہٰذا اس ضمن میں بہت احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔