Tag: پائلٹ

  • ویڈیو : پائلٹ کی آخری کال، پراسرار آوازیں اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب

    ویڈیو : پائلٹ کی آخری کال، پراسرار آوازیں اور پھر ہمیشہ کے لیے غائب

    میلبورن : آج سے تقریباً 46 سال قبل دوران پرواز طیارے سمیت غائب ہونے والے 20 سالہ نوجوان پائلٹ کا کوئی سراغ نہیں مل سکا، پائلٹ کے آخری میسج نے بہت سارے سوالات کھڑے کردیے۔

    یہ کہانی 20 سالہ آسٹریلوی پائلٹ فریڈرک ویلنٹچ کی ہے جو سال 1978 میں ایک پرواز کے دوران ایسا غائب ہوا کہ آج تک اس کا کوئی سراغ نہ ملا۔

    اس سانحے میں ہونے والے واقعات اور پائلٹ کے ایئر ٹریفک کنٹرول کو کیے گئے آخری پیغام نے (ان آئی ڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹ، یو ایف او) اڑن طشتری اور خلائی مخلوق جیسے بہت سے توہمات اور قیاس آرائیوں اور نظریات کو تقویت فراہم کی۔

     Frederick Valentich
    Frederick Valentich

    ایک رپورٹ کے مطابق 21 اکتوبر 1978 کی شام ایک چھوٹا سیسنا طیارہ 182ایل جنوبی میلبورن کے مورابن ایئرپورٹ سے اڑایا گیا جس کا پائلٹ 20 سالہ فریڈرک ویلنٹچ تھا۔

    اس طیارے کو مقررہ وقت میں کنگ آئی لینڈ تک پہنچنا تھا، جب وہ بیس اسٹریٹ کے اوپر پرواز کر رہا تھا تو اس دوران اس نے ایئر ٹریفک کنٹرول کو ایک حیران کن پیغام بھیجا۔

    Mysterious Disappearance frederick valentich

    پائلٹ نے گھبرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ایک نامعلوم چیز مسلسل اس کا پیچھا کر رہی ہے، یہ ٹھہری ہوئی ہے لیکن یہ کوئی طیارہ ہرگز نہیں ہے۔

    اس کے بعد ریڈیو پر عجیب دھاتی قسم بھاری سی آوازیں سنائی دیں اور پھر رابطہ منقطع ہوگیا، یہی ویلنٹچ کے آخری الفاظ تھے جو اس نے آخری وقت ادا کیے جس کے بعد لاکھ کوشش کے باوجود آج تک نہ وہ ملا اور نہ ہی اس کا جہاز۔

    Last MSG ائلٹ کے آخری میسج فریڈرک ویلنٹچ

    اس دوران (ان آئی ڈینٹیفائیڈ فلائنگ آبجیکٹ، یو ایف او) ماہرین اور محققین کو یقین تھا کہ یہ واقعہ کسی خلائی مخلوق کے اغوا کا نتیجہ ہو سکتا ہے، کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا کہ اس دن علاقے میں ایک بڑی اڑن طشتری دیکھی گئی۔

    ایک مقامی شہری نے تیز رفتار روشنی کی تصاویر بھی لیں مگر وہ اتنی دھندلی تھیں کہ تصدیق نہ ہو سکی۔ ایک کسان نے تو یہاں تک کہا کہ اس نے اپنے کھیت کے اوپر 30 میٹر لمبا خلائی جہاز منڈلاتے دیکھا ہے لیکن وہ بھی کوئی ٹھوس ثبوت یا دلیل نہیں دے سکا۔

    ائلٹ کے آخری میسج فریڈرک ویلنٹچ

    ہر کوئی ان اڑن طشتریوں پر یقین نہیں کرتا اس لیے کچھ ماہرین نے دوسرے امکانات پر غور کرنا شروع کیا، کچھ نے کہا کہ شاید ویلنٹچ رات کے وقت اپنے ہی جہاز کی لائٹس دیکھ کر گھبرا گیا ہوگا۔

    ایک نے کہا کہ ممکن ہے کہ اس کا جہاز ایندھن ختم ہونے یا انجن فیل ہونے کی وجہ سے گہرے سمندر میں گر گیا ہو؟ کسی نے کہا کہ اس نے اپنی گمشدگی کا ڈرامہ کیا، مگر اس کا بھی کوئی ثبوت نہ ملا۔

    اس کے علاوہ خودکشی کا امکان بھی ظاہر کیا گیا لیکن اس کے دوستوں اور اہل خانہ نے اس امکان کو فوری طور پر مسترد کردیا۔

    یہ ایک ایسا راز ہے جو وقت کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ 46 سال گزرنے کے باوجود فریڈرک ویلنٹچ کی گمشدگی معمہ بنی ہوئی ہے، آج تک نہ سمندر سے اس کی کوئی نشانی ملی اور نہ ہی آسمان سے کوئی شواہد ملے۔

  • پائلٹ کی دوران لینڈنگ ہارٹ اٹیک سے موت

    پائلٹ کی دوران لینڈنگ ہارٹ اٹیک سے موت

    بھارت میں اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ایئر انڈیا ایکسپریس کا پائلٹ ارمان طیارے کی کامیاب لینڈنگ کے فوراً بعد دل کا دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہار گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق پائلٹ ارمان نے سری نگر سے دہلی کی طرف اڑان بھری تھی اور اندرا گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر طیارے کو بحفاظت لینڈ کیا تھا۔

    طیارے کی لینڈنگ کے بعد جب وہ ایئرپورٹ کے ڈسپیچ آفس پہنچے تو ان کی طبیعت اچانک خراب ہونے لگی، اسی اثناء میں وہ زمین پر غش کھا کر گر گئے، انتظامیہ نے انہیں فوری اسپتال منتقل کیا مگر راستے میں ہی ان کی موت ہوگئی۔

    رپورٹس کے مطابق جہاز کے دیگر عملے نے بتایا کہ ارمان نے دورانِ پرواز بھی طبیعت کی خرابی محسوس کی تھی۔ اس کے باوجود انہوں نے طیارے کو بحفاظت منزل مقصود تک پہنچا دیا۔

    اس سے قبل گزشتہ برس بھارت کے وزیرِاعظم نریندر مودی کے طیارے کو امریکی دورے سے قبل بم سے اُڑانے کی دھمکی موصول ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔

    پولیس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ممبئی پولیس کنٹرول روم میں ایک کال موصول ہوئی، جس میں یہ انتباہ دیا گیا تھا کہ مودی کے طیارے پر حملہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اُنکا ایک غیر ملکی سرکاری دورہ شیڈول ہے۔

    رپورٹس کے مطابق پولیس نے فون کرنے والے شخص کو گرفتار کرلیا ہے، کہا جارہا ہے کہ گرفتار شخص کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے۔

    نیویارک : ہسپانوی سیاح خاندان کا ہیلی کاپٹر دریائے ہڈسن میں گر کر تباہ، 6 افراد ہلاک

    پولیس نے معاملے کی سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیگر ایجنسیوں کو بھی آگاہ کیا اور تحقیقات شروع کردیں۔ پولیس نے بتایا کہ دھمکی دینے والے شخص کو چیمبور کے علاقے سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ جو ذہنی معذور ہے۔

  • ویڈیو: ہیلی کاپٹر بغیر پائلٹ کے گھومنا شروع ہوگیا

    ویڈیو: ہیلی کاپٹر بغیر پائلٹ کے گھومنا شروع ہوگیا

    امریکی ریاست پانامہ میں زمین پر کھڑا پہلی کاپٹر بغیر پائلٹ کے گھومنا شروع ہوگیا جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔

    ایکس پر ایوی ایشن نیوز نامی اکاؤنٹ نے ایک دل دہلا دینے والی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں دیکھا گیا کہ زمین پر کھڑا ہیلی کاپٹر بغیر پائلٹ کے گھومنا شروع ہوگیا۔

    ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب پائلٹ ہیلی کاپٹر کے دروازے کے قریب کھاڑا تھا اور ایک خاتون ہیلی کاپٹر سے جیسے ہی باہر آئیں تو ہیلی کاپٹر اچانک خود بخود گھومنا شروع ہوگیا۔

    ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون ہیلی کاپٹر سے بچ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگئیں اورفوری طور پر دوڑ لگاکر بھاگ گئیں تاہم پائلٹ نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیا۔

    پائلٹ نے ہیلی کاپٹر کو ہاتھوں سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا پھر اس نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر کسی طرح ہیلی کاپٹر کے اندر جانے کی کوشش کی اور ہیلی کاپٹر کو بند کیا۔

  • دوران پرواز پائلٹ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا

    دوران پرواز پائلٹ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گیا

    دوران پرواز پائلٹ دل کا دورہ پڑنے سے جان کی بازی ہار گیا، بتایا جارہا ہے کہ جس وقت ڈاکٹر کا انتقال ہوا وہ باتھ روم میں تھا، جبکہ اس وقت جہاز میں 200سے زائد مسافر موجود تھے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لٹام ائیر لائن کا 56 سالہ پائلٹ ایوان اینڈور 271 مسافروں کو لیکر میامی کی جانب رواں دواں تھا کہ طیارے کے اڑان بھرنے کے 40 منٹ بعد طیارے کے ساتھی پائلٹ نے طیارے میں موجود مسافروں سے پوچھا کہ کیا آپ میں سے کوئی ڈاکٹر ہے۔

    بد قسمتی سے اس وقت جہاز میں کوئی ڈاکٹر موجود نہیں تھا، جب پائلٹ ایوان کی طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو ساتھی پائلٹ نے طیارے کو ہنگامی طور پر لینڈ کرانے کا فیصلہ کیا۔

    رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ طیارے کی پناما کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کے بعد ایک نرس اور ایک ڈاکٹر پائلٹ کی جان بچانے غرض سے طیارے میں پہنچے تاہم پائلٹ کا انتقال ہوچکا تھا۔ کی

    ڈاکٹر نے کہا کہ طیارے کے لینڈ کرنے کے بعد ایوان اینڈور کا انتقال ہوا، جبکہ ان کے انتقال کی وجہ دل کا دورہ بنی، جس کے بعد اگلے روز طیارے کا آپریشن دوبارہ بحال کیا گیا۔

  • مسافروں کو دنیا کا انوکھا نظارہ دکھانے کے لیے پائلٹ نے جہاز موڑ دیا

    مسافروں کو دنیا کا انوکھا نظارہ دکھانے کے لیے پائلٹ نے جہاز موڑ دیا

    آئس لینڈ اور برطانیہ کے درمیان سفر کرنے والے ایک طیارے کے مسافر اس وقت زمین کا انوکھا اور خوبصورت ترین منظر دیکھنے میں کامیاب رہے جب پائلٹ نے تمام مسافروں کے لیے جہاز کو مکمل طور پر گھما دیا۔

    برطانوی ایئر لائن ایزی جیٹ کے ایک پائلٹ نے مسافروں کو ناردرن لائٹس کا مسحور کن نظارہ کروانے کے لیے جہاز کو مکمل طور پر 360 ڈگری کے زاویے پر گھما دیا۔

    یہ جہاز آئس لینڈ سے مانچسٹر جا رہا تھا جب برطانیہ کا آسمان اس خوبصورت منظر سے بھر گیا جسے ناردرن لائٹس کہا جاتا ہے۔

    ناردرن لائٹس، قدرت کا شاندار لائٹ شو ہے جسے ارورہ بوریلیس بھی کہا جاتا ہے، یہ نظارہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج کی سطح پر ہونے والے دھماکے، جنھیں سولر فلیئرز کہتے ہیں، زمین کی فضا میں موجود گیسوں سے ٹکرا کر سرخ، سبز اور جامنی رنگ کے چمکتے ہوئے بینڈ بناتے ہیں۔

    اس جہاز میں چیشائر سے تعلق رکھنے والے مسافر ایڈم گروز نے بتایا کہ یہ ناقابل یقین نظارہ ان کے چار راتوں والے سیاحتی دورے سے بڑھ کر محسور کن تھا۔

    گروز کا کہنا ہے کہ جب ان کے جہاز نے ریکجاوک سے اڑان بھری، وہ اور ان کی منگیتر جیسمین ماپ جہاز کے دائیں جانب بیٹھے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پائلٹ اتنے مہربان نہ ہوتے تو شاید وہ کبھی بھی یہ لائٹس نہیں دیکھ پاتے۔

    جہاز کے کپتان نے منظر کو اچھی طرح دکھانے کے لیے کیبن کی لائٹس کو مدھم کر دیا۔

    دراصل ہوا یوں تھا کہ جب طیارہ روشنیوں بھرے آسمان پر اڑ رہا تھا تب اس نظارے کو صرف ایک طرف بیٹھے افراد ہی دیکھ سکتے تھے، پائلٹ نے دوسری طرف بیٹھے افراد کو بھی یہ منظر دکھانے کے لیے جہاز کو گھما دیا۔

    ایزی جیٹ کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ ہمیں خوشی ہے کہ کپتان کنٹرولڈ طریقے سے جہاز گھمانے میں کامیاب رہا تاکہ مسافروں کو قدرت کے عظیم ترین مقامات میں سے ایک پر شاندار منظر دیکھنے کو مل سکے۔

    ترجمان کے مطابق ہمارا عملہ ہمیشہ اپنے مسافروں کے لیے بڑھ چڑھ کر خدمات فراہم کرنا چاہتا ہے اور ہمیں خوشی ہے کہ ہم ان کے ساتھ یہ خاص منظر شیئر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

  • برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    برمودا ٹرائی اینگل سے بچ نکلنے والے پائلٹ نے کیا دیکھا؟

    جنگ عظیم دوئم کے زمانے سے برمودا ٹرائی اینگل ساری دنیا کی توجہ کا خصوصی مرکز رہا ہے اور اس کے بارے میں غیر ماورائی معاملات مشہور ہیں۔

    برمودا ٹرائی اینگل بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) کے ایک مثلث کی طرح کے علاقے کو کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کا ایک کونا برمودا میں، دوسرا پورٹوریکو میں اور تیسرا کونا میامی، فلوریڈا کے قریب ایک مقام میں واقع ہے۔ برمودا ٹرائی اینگل انہی تین کونوں کے درمیانی علاقے کو کہا جاتا ہے۔

    اس مقام سے وابستہ چند داستانیں ایسی ہیں جن کے باعث اس کو شیطانی مثلث بھی کہا گیا ہے، ان داستانوں میں انسانوں کا غائب ہوجانا اور بحری اور فضائی جہازوں کا کھو جانا جیسے غیر معمولی واقعات شامل ہیں۔

    اب تک اس مقام پر 2 ہزار بحری جہاز اور 200 طیارے لاپتہ ہوچکے ہیں۔

    اس علاقے میں پیش آنے والا ایک اور واقعہ ایسا ہے جس کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، یہ واقعہ ایسا ہے جسے سن کر ریڑھ کی ہڈی میں سرد سی لہر دوڑ جاتی ہے۔

    4 دسمبر 1970 کی ایک روشن صبح بروس گارنن نامی ایک پائلٹ نے بہاماس کے جزیرے اینڈروس سے اڑان بھری، اس کے چھوٹے جہاز میں صرف 2 مسافر سوار تھے اور ان کی منزل فلوریڈا کا شہر میامی تھا۔

    یہ ایک معمول کی پرواز تھی جس پر بروس اس سے پہلے درجنوں بار جاچکا تھا۔

    جب طیارہ 1 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو طیارے کے سامنے ایک چھوٹا سا سیاہ بادل آگیا جو دیکھتے ہی دیکھتے ہی اپنا حجم بڑھانے لگا، بروس کو مجبوراً اس بادل کے اندر سے گزرنا پڑا۔

    آگے جا کر جب طیارہ 11 ہزار 500 فٹ کی بلندی پر پہنچا تو پائلٹ کے سامنے ایک اور پراسرار سیاہ بادل آگیا۔ یہ بادل بہت بڑا تھا اور طیارے کو اس کے اندر سے گزارنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

    بروس نے طیارے کو بادل کے اندر داخل کردیا، اندر سیاہ گھپ اندھیرا تھا لیکن یہ طوفانی بادل نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد اچانک بادل کے اندر سفید روشنی کے جھماکے سے ہونے لگے۔ پائلٹ نے لمحے میں جان لیا کہ یہ روشنی آسمانی بجلی نہیں تھی، کچھ اور تھی۔

    بادل کے اندر طیارے کا سفر نصف گھنٹہ جاری رہا، اچانک بروس کو محسوس ہوا کہ یہ وہی بادل تھا جو 10 ہزار فٹ کی بلندی پر اس سے ٹکرایا تھا اور یہ احساس ہوتے ہی اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔

    بادل اب ایک سرنگ کی سی شکل اختیار کرچکا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اب یہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ اچانک پائلٹ کو سامنے روشنی کی ہلکی سی کرن دکھائی دی جس کا مطلب تھا کہ بادل کی سرنگ ختم ہورہی ہے۔

    پائلٹ کے جسم میں نئی جان دوڑ گئی، لیکن جیسے جیسے روشنی قریب آنے لگی اچانک طیارے کے آلات ایک کے بعد ایک خرابی کا سگنل دینے لگے۔

    تمام انڈیکیٹرز جلنے بجھنے لگے اور کچھ دیر بعد پائلٹ طیارے پر سے اپنا کنٹرول کھو بیٹھا، لیکن طیارہ تب بھی اڑتا رہا۔

    بروس کا کہنا تھا کہ اس وقت ایسا لگ رہا تھا جیسے طیارے کو کوئی اور قوت چلا رہی ہو، یا آسمان میں کوئی کرنٹ ہو جس کے باعث طیارہ خود بخود اڑ رہا ہو۔

    کچھ دیر بعد طیارہ بالآخر بادل کی سرنگ سے نکل آیا، اور اس کے ساتھ ہی طیارے کے آلات ایسے کام کرنے لگے جیسے ان میں کبھی کوئی خرابی ہوئی ہی نہیں تھی۔

    بادل سے نکلنے کے بعد بھی طیارہ کچھ منٹ مزید گہری سفید دھند میں سفر کرتا رہا۔ اس دوران اس نے گراؤنڈ کنٹرول سے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ اسے اس کی موجودہ لوکیشن بتائیں۔

    گراؤنڈ کنٹرول کی جانب سے جواب ملا کہ طیارہ ریڈار پر دکھائی نہیں دے رہا جس سے بروس پریشان ہوگیا۔ پھر اچانک دبیز دھند ختم ہوگئی اور بروس نے دیکھا کہ وہ عین میامی یعنی اپنی منزل کے اوپر تھا۔

    یہ ایک اور حیران کن بات تھی، یہ فاصلہ 217 میل تھا جسے ایک گھنٹہ 15 منٹ میں طے کیا جانا تھا، لیکن طیارے کو اپنا سفر شروع کیے صرف 47 منٹ ہی گزرے تھے۔

    بہرحال طیارہ بحفاظت میامی ایئرپورٹ پر لینڈ کر گیا۔

    لینڈ کرتے ہی بروس نے طیارے کا فیول چیک کیا تو وہ اتنا خرچ نہیں ہوا تھا جتنا طے شدہ فاصلے کے مطابق اسے خرچ ہونا چاہیئے تھا۔

    بروس نے سفر سے متعلق تمام دستیاب معلومات چیک کیں تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا طیارہ سفر کے نصف وقت میں اپنی منزل پر پہنچا۔

    اس نے فوری طور پر ایوی ایشن ماہرین نے رابطہ کیا اور انہیں خود پر گزرنے والی صورتحال بتائی، لیکن کوئی بھی اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکا۔

    بالآخر بروس نے خود ہی اس بارے میں معلومات جمع کیں اور ان سے ایک نتیجہ نکالا کہ بادل کے اندر روشنی کے سفید جھماکے دراصل الیکٹر ک فوگ تھی۔

    کچھ افراد نے ایک ممکنہ خیال پیش کیا کہ بروس ڈارک انرجی کی وجہ سے وقت کو جلدی طے کرنے میں کامیاب ہوا، یہ وہی توانائی ہے جس کی وجہ سے ہماری کائنات پھیلتی ہے۔

    یہ توانائی بلیک ہول کی طرح وقت اور مقام میں خلل (ٹائم ٹریول قسم کے حالات) پیدا کرسکتی ہے، اسی کی وجہ سے بادل کی ایک سرنگ پیدا ہوئی، بروس اتفاق سے اس سرنگ میں جا نکلا اور خوش قسمتی سے زندہ سلامت نکلنے میں کامیاب رہا۔

    کچھ ماہرین کے مطابق اس نوعیت کے بادل اس علاقے میں عام ہیں اور اکثر پائلٹس کو ان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    تاہم اس کی وضاحت کوئی نہ دے سکا کہ بروس نے اپنے سفر کا نصف وقت کیسے پار کرلیا، بروس گارنن کی یہ فلائٹ آج بھی ایک راز ہے جو حل طلب ہے۔

  • وہ علاقہ جہاں ہر گھر میں طیارہ پارک کرنے کی جگہ موجود ہے

    وہ علاقہ جہاں ہر گھر میں طیارہ پارک کرنے کی جگہ موجود ہے

    دنیا بھر میں بعض اوقات منفرد قسم کے چھوٹے چھوٹے رہائشی علاقے قائم کیے جاتے ہیں جن میں کوئی نہ کوئی انفرادیت ہوتی ہے، آج ہم آپ کو ایسے ہی ایک منفرد رہائشی علاقے کے بارے میں بتانے جارہے ہیں۔

    جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا بھر میں مضافاتی علاقوں میں رہائش کا رجحان بڑھ گیا تھا تاکہ جنگ کی تباہ کاریوں سے ہونے والے ذہنی تناؤ سے نجات حاصل کی جاسکے اور ذہنی صحت کو بہتر کیا جاسکے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں بھی ایسے ہی ایک مضافاتی علاقے میں فلائی ان کمیونٹی بنائی گئی جس کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں رہنے والے افراد اپنے گیراج میں گاڑیوں کے بجائے طیارے پارک کرتے ہیں۔

    کیمرون پارک ایئرپورٹ کے نزدیک قائم یہ رہائشی علاقہ کیمرون ایئر پارک اسٹیٹ کہلاتا ہے اور یہاں رہنے والوں کی زیادہ تر تعداد یا تو پروفیشنل پائلٹ ہے یا پھر جہاز اڑانے کی شوقین ہے اور اپنا ذاتی طیارہ رکھتی ہے۔

    تقریباً ہر گھر میں ایک بڑا سا گیراج (یا ہینگر) ہے جہاں طیارہ پارک کیا جاسکتا ہے۔

    یہاں کی سڑکوں پر طیاروں کی آمد و رفت اتنی ہی معمول کی بات ہے جتنی کسی دوسری جگہ پر گاڑیوں کی نقل و حرکت۔

    اس علاقے میں ایک گھر کی قیمت کم از کم 15 لاکھ ڈالرز ہے اور علاقے میں کل 124 گھر موجود ہیں۔ یہاں کی سڑکیں 100 فٹ تک چوڑی ہیں تاکہ طیاروں کو آرام سے ٹیکسی کیا جاسکے۔

    کیمرون پارک ایئرپورٹ مینیجر کے مطابق علاقے کی سڑکیں ایئرپورٹ رن وے سے زیادہ چوڑی ہیں کیونکہ ان سڑکوں پر طیاروں کا باقاعدہ ٹریفک چلتا ہے اور وہ ایک دوسرے کے سامنے سے گزرتے ہیں، اس کے برعکس ایئرپورٹ رن وے پر ایک وقت میں ایک ہی طیارہ اڑان بھرنے کی تیاری کرسکتا ہے۔

    یہاں نصب اسٹریٹ سائنز اور میل باکسز بھی بہت نیچے لگائے گئے ہیں تاکہ یہ طیاروں سے نہ ٹکرائیں، اکثر میل باکسز طیاروں ہی کی شکل کے ہیں۔

    اس علاقے کے اکثر رہائشی اپنے کام پر جاتے ہوئے ذاتی طیاروں کا استعمال کرتے ہیں، زیادہ تر افراد کی ملازمت قریب واقع شہری آبادیوں میں ہے جہاں تک جانے کے لیے انہیں ڈھائی سے 3 گھنٹے کی ڈرائیو کرنی پڑسکتی ہے۔

    اس کی جگہ وہ اپنے طیارے میں سوار ہو کر صرف 40 منٹ کے اندر وہاں پہنچ سکتے ہیں۔

    یہ علاقہ اس لیے بھی منفرد ہے کیونکہ یہاں رہنے والے زیادہ تر افراد ایوی ایشن سے تعلق یا اس کا شوق رکھتے ہیں۔

    ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ جب ہم کسی پارٹی میں جاتے ہیں تو وہاں جنگ عظیم دوئم یا ویتنام جنگ کے پائلٹ سے لے کر نوجوان شوقیہ پائلٹ تک موجود ہوتے ہیں۔

    یہاں رہنے والے 100 فیصد افراد اپنے ذاتی طیارے کے مالک نہیں، کچھ افراد کار بھی رکھتے ہیں اور آمد و رفت کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں تاہم آمنے سامنے ہونے کی صورت میں کار سوار اور طیارے کا پائلٹ دونوں نہایت دھیان سے اپنی سواری گزارتے ہیں۔

    ایک رہائشی کے مطابق جب وہ طیارے پر اپنے گھر کے قریب پہنچتا ہے تو اسے فضا سے اپنے گھر کا کچن دکھائی دیتا ہے، چنانچہ وہ ریڈیو کے ذریعے اپنی اہلیہ کو اطلاع کرتا ہے، طیارہ لینڈ ہونے کے وقت اہلیہ اسے کچن کی کھڑکی سے ہاتھ ہلانے لگتی ہے۔

    دنیا بھر میں اس نوعیت کے 640 فلائی ان رہائشی علاقے موجود ہیں تاہم یہاں کے رہنے والوں کا ماننا ہے کہ ان کا علاقہ خوبصورتی اور سہولت کے اعتبار سے بہترین ہے۔

    تصاویر بشکریہ: انسائیڈر

  • بھارتی بحریہ کے حادثے کا شکار طیارے کے قریب سے انسانی باقیات برآمد

    بھارتی بحریہ کے حادثے کا شکار طیارے کے قریب سے انسانی باقیات برآمد

    نئی دہلی: بھارتی بحریہ کا کہنا ہے کہ اسے 10 روز قبل بحیرہ عرب کے اوپر حادثے کا شکار ہوئے مگ 29 کے لڑاکا طیارہ کے ملبے کے قریب انسانی باقیات ملے ہیں جنہیں ڈی این اے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بحریہ کا مگ 29 کا ٹرینی طیارہ 26 نومبر کو بحیرہ عرب میں گوا کے نزدیک حادثے کا شکار ہوگیا تھا، طیارے میں سوار ایک پائلٹ کو بحفاظت بچا لیا گیا تھا۔

    طیارے میں سوار دوسرا پائلٹ کمانڈر نشانت حادثے کے بعد لاپتہ تھا، بحریہ نے اسی روز اس کا پتہ لگانے کے لیے تلاش مہم کا آغاز کیا تھا۔

    بھارتی بحریہ کے مطابق 11 روز کی مستقل مہم کے بعد آخر کار آج بحیرہ عرب میں گوا سے 30 سمندری میل کے فاصلے پر بحیرہ میں تقریباً 70 میٹر نیچے طیارے کے ملبے کے پاس ایک انسانی جسم کی باقیات پائی گئی ہیں جنہیں ڈی این اے کے لیے بھیجا گیا ہے۔

    ڈی این اے ٹیسٹ سے حادثے میں لاپتہ پائلٹ کی شناخت کی جا سکے گی۔

    بھارتی بحریہ نے پائلٹ کی تلاش کے لیے وسیع مہم کا آغاز کیا تھا، اس میں جنگی جہازوں، آبدوزوں، ہیلی کاپٹروں اور جاسوسی طیاروں کی مدد لی گئی تھی۔

    اس دوران بحریہ کے غوطہ خوروں نے بھی تلاش کا کام جاری رکھا، طیاروں اور ہیلی کاپٹروں نے تلاشی مہم کے دوران 270 گھنٹے سے زائد وقت تک اڑان بھری۔

  • غیر ملکی ایئر لائن نے خسارے سے نکلنے کے لیے انوکھا پیکج پیش کر دیا

    غیر ملکی ایئر لائن نے خسارے سے نکلنے کے لیے انوکھا پیکج پیش کر دیا

    بینکاک: تھائی ایئر ویز نے خسارے سے نکلنے کے لیے انوکھا قدم اٹھاتے ہوئے مسافروں کو ’پائلٹ‘ بنانے کا پیکج متعارف کرا دیا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق تھائی لینڈ کی فضائی سروس تھائی ایئر ویز نے اب مسافروں کو ’پائلٹ‘ بنانے کا دل چسپ پیکج پیش کر دیا ہے، پائلٹ بننے کا شوق رکھنے والے مسافر اس کے تحت جہاز چلانے کا تجربہ کر سکتے ہیں۔

    تھائی ایئر ویز نے یہ پیکج ادارے کو خسارے سے نکالنے اور اپنے عملے کے حوصلے بلند کرنے کے لیے متعارف کرایا ہے، اس پیکج کے تحت تھائی ایئر ویز مسافروں کو فلائٹ سیمولیٹر پر وقت فروخت کر رہی ہے۔

    خیال رہے کہ فلائٹ سیمولیٹر ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس پر بیٹھنے والے کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ جہاز چلا رہا ہے، پائلٹ بھی ابتدائی طور پر اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جہاز اڑانا سیکھتے ہیں۔

    ’پائلٹ ایکسپیرینس‘ کا یہ پیکج چار دن پر مشتمل ہے، فلائٹ سیمولیٹر یوں تو اس پیکج کا حصہ ہے لیکن اس پر پیکج سے ہٹ کر بھی آدھا گھنٹا خریدا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ایئر بس اے 380 پر 20 ہزار بھات یا 640 ڈالرز میں آدھے گھنٹے کے لیے جہاز اڑانے کا لطف بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔

    دراصل کرونا وبا کی وجہ سے سفری پابندیوں کی وجہ سے دنیا کی صف اول کی ایئرلائنز میں شمار ہونے کے باوجود تھائی ایئرویز کو بھی مالی خسارے کا سامنا ہے، جس سے نکلنے کے لیے مذکورہ پیکج متعارف کرایا گیا ہے، اب تک تقریباً سو افراد پیکج کے تحت ورچول ٹیک آف کا لطف اٹھا چکے ہیں۔

    پیکج لینے والے پائلٹس کا کہنا تھا فلائٹ سیمولیٹر کا کاک پٹ بالکل اصلی جیسا ہے، یہاں تک کے اس کے بٹن بھی اصلی معلوم ہوتے ہیں۔ پیکج لینے والوں میں 77 برس کے مسافر سے لے کر 7 سال تک عمر تک کے مسافر شامل تھے۔

  • پی آئی اے پروازوں پر یورپی ممالک میں پابندی کے خاتمے کے لیے اہم قدم

    پی آئی اے پروازوں پر یورپی ممالک میں پابندی کے خاتمے کے لیے اہم قدم

    اسلام آباد: پی آئی اے پروازوں پر یورپی ممالک میں پابندی کے خاتمے کے سلسلے میں اہم قدم سامنے آیا ہے، اس حوالے سے جرمنی میں پاکستانی سفیر نے یورپی یونین ایئر سیفٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے ملاقات کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پی آئی اے کے پائلٹس اور پروازوں پر برطانیہ اور یورپی یونین ممالک میں پابندی کے معاملے میں پاکستانی سفیر نے یورپی یونین ایئر سیفٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سے ملاقات کی، جس میں پابندی کے خاتمے کے لیے پی آئی اے کی جانب سے ایاسا کو ورکنگ پلان دینے پر اتفاق کیا گیا۔

    قومی ایئر لائن کی جانب سے یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) کو پابندیوں کے خاتمے کے لیے ایک ورکنگ پلان بنا کر دیا جائے گا، اس سلسلے میں وزارتِ خارجہ نے سول ایوی ایشن اتھارٹی کے ذریعے پی آئی اے کے سی ای او کو مراسلہ جاری کر دیا ہے۔

    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ورکنگ پلان ایاسا سے ہونے والے مذاکرات کے نکات پر مبنی ہوگا، پلان میں 6 ماہ میں ایاسا کے اعتراضات دور کرنے کے اقدامات کی تفصیل درج کی جائے گی۔ پائلٹس اور ٹیکنیکل اسٹاف کی ہائرنگ پر خامیوں کو دور کرنے کی تفصیلات، اور مشتبہ لائسنس پر بھرتیوں کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی تفصیلات دی جائیں گی۔

    پائلٹس کے مشتبہ لائسنس: ایاسا نے 40 فیصد لائسنس جعلی ہونے کا دعویٰ کردیا

    مراسلے میں کہا گیا ہے کہ عالمی ایوی ایشن آرگنائزیشن کے قوانین پر عمل درآمد کی تفصیلات فراہم کی جائیں، متعلقہ حکام پی آئی اے کی ساکھ کی بحالی پر مبنی اقدامات کریں، اکاؤ کی جانب سے پی آئی اے کی ساکھ کی بحالی کے لیے اقدامات میں اس کی مدد کی جائے، سی اے اے اور پی آئی اے کی جانب سے ساکھ بحالی کے لیے اقدامات کی تشہیر کی جائے، تشہیر کے لیے تمام حکومتی ادارے بھی معاونت کریں۔

    مراسلے میں ہدایت کی گئی ہے کہ پروازوں کی بحالی کے نکات پر عمل درآمد کے سلسلے میں بریفنگ کے لیے پروفیشنل ٹیکنیکل وفد روانہ کیا جائے، کرونا تناظر میں وفد کی روانگی میں مشکلات پر ویڈیو بریفنگ کا ممکنہ انتظام کیا جائے، 6 جولائی کو ایاسا اجلاس کی کارروائی، سفارشات اور تجاویز کی تفصیلات بھی شیئر کی جائیں۔