Tag: پائیدار ترقیاتی اہداف

  • غربت کے خاتمے کا عالمی دن: غریبوں کی نصف تعداد بھارت سمیت صرف 5 ممالک میں موجود

    غربت کے خاتمے کا عالمی دن: غریبوں کی نصف تعداد بھارت سمیت صرف 5 ممالک میں موجود

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج غربت کے خاتمے کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ترقی پذیر ممالک سے غربت کا خاتمہ اور غریبوں کا معیار زندگی بلند کرنا ہے۔

    غربت کے خاتمے کا یہ دن منانے کا آغاز سنہ 1993 سے ہوا۔ اس دن دنیا بھر میں غربت، محرومی اور عدم مساوات کے خاتمے، غریب عوام کی حالت زار اور ان کی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا پیغام اجاگر کیا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کا مرکزی خیال ہے کہ غریب بچوں اور ان کے خاندانوں کو خود مختار کرنے کے لیے کام کیا جائے تاکہ غربت کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

    اقوام متحدہ کے طے کردہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پہلا ہدف دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہے تاہم یہ ہدف ابھی بھی اپنی تکمیل سے کوسوں دور ہے۔

    عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں غریب افراد کی تعداد 3 ارب کے قریب ہے۔ ان افراد کی یومیہ آمدنی ڈھائی ڈالر سے بھی کم ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ گزشتہ 25 سال میں 70 کروڑ افراد غربت کی لکیر سے اوپر آگئے ہیں۔

    اقوام متحدہ کے مطابق ان غریب افراد کی نصف تعداد دنیا کے صرف 5 ممالک میں رہائش پذیر ہے جو بھارت، بنگلہ دیش، عوامی جمہوریہ کانگو، ایتھوپیا اور نائیجیریا ہیں۔

    ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی ایک تہائی سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے جبکہ صوبوں میں سب سے زیادہ غربت بلوچستان میں ہے۔

    رپورٹ کے مطابق صوبائی لحاظ سے غربت کی سب سے بلند شرح صوبہ بلوچستان میں ہے، دوسرے نمبر پر صوبہ سندھ، اس کے بعد صوبہ خیبر پختونخواہ اور سب سے کم صوبہ پنجاب میں ہے۔

    گزشتہ روز بھوک اور افلاس پر نظر رکھنے والے ادارے گلوبل ہنگر انڈیکس نے سالانہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق غربت کے حوالے سے پاکستان کی رینکنگ بہتر ہوئی جبکہ بھارت مزید تنزلی کا شکار ہوا۔

    گلوبل ہنگر انڈیکس کی جانب سے جاری ہونے والی رینکنگ میں 117 ممالک کا نام شامل ہے، جنوبی ایشیا میں بھارت کو سب سے زیادہ غربت و افلاس کا شکار ملک قرار دیا گیا اور تنزلی کے بعد اس کا نمبر 102 تک پہنچ گیا۔

    رینکنگ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی صورتحال بہتر ہے اور بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا نمبر 8 درجے اوپر یعنی 93 ویں پوزیشن پر ہے۔

  • پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    پائیدار ترقیاتی اہداف کا حصول: پاکستان کتنا کامیاب ہے؟

    آج اقوام متحدہ کا دن منایا جارہا ہے۔ آج سے 71 سال قبل آج ہی کے دن اقوام متحدہ کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا منشور نافذ العمل کیا گیا۔

    رواں برس یہ دن پائیدار ترقیاتی اہداف کے نام کیا گیا ہے۔ نئی صدی کے آغاز میں اقوام متحدہ نے دنیا بھر میں ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔

    یہ مدت ختم ہونے کے بعد گزشتہ برس سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    ان اہداف کو انگریزی حرف تہجی کے 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    اس میں کل 17 اہداف شامل ہیں جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے۔ دیگر اہداف یہ ہیں۔

    بھوک کا خاتمہ

    بہتر صحت

    معیاری تعلیم

    صنفی برابری

    پینے اور صفائی کے لیے پانی کی فراہمی

    قابل برداشت اور صاف توانائی کے ذرائع

    باعزت روزگار اور معاشی ترقی

    صنعتوں، ایجادات اور انفراسٹرکچر کا فروغ اور قیام

    ہر قسم کے امتیاز کا خاتمہ

    sdg
    پائیدار شہری ترقی

    اشیا کا ذمہ دارانہ استعمال

    موسمیاتی (بہتری کے لیے کیا جانے والا) عمل

    آبی حیات کا تحفظ

    زمین پر پائی جانے والی حیات (درخت، جانور، پرندے) کا تحفظ

    امن، انصاف اور اداروں کی مضبوطی کے لیے اقدامات

    اہداف کی تکمیل کے لیے عالمی تعاون

    آج کے دن کا مقصد عام لوگوں میں ان تمام اہداف کے بارے میں آگاہی اور حکومتوں پر ان کی تکمیل کے لیے زور دینا ہے۔

    ماہرین کے مطابق پاکستان کو ان اہداف کی تکمیل کے لیے خطیر سرمایے، ان تھک محنت اور خلوص نیت کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے ایک طویل عرصہ درکار ہے۔

    اگر صرف پہلا ہدف یعنی غربت کا خاتمہ دیکھا جائے تو پاکستان اب تک اس کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات میں بری طرح ناکام ہے اور ملک کی 38 فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار ہے۔

    یہی حال تعلیم کا ہے۔ پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے تعلیم سے محروم ہیں جن میں بڑی تعداد لڑکیوں کی ہے۔

    اسی طرح پاکستان کے نوجوان، جو کہ ملک کی آبادی کا 63 فیصد ہیں، میں سے نصف بے روزگار ہیں جو باعزت روزگار اور معاشی ترقی کے ہدف میں ہماری ناکامی کا ثبوت ہیں۔

    صنفی امتیاز میں بھی پاکستان بہت آگے ہے۔ عالمی اقتصادی فورم کی جانب سے جاری کی جانے والی فہرست کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے جہاں صنفی بنیادوں پر تفریق اپنے عروج پر ہے۔

    جہاں تک بات ماحولیات اور جنگلی و آبی حیات کے تحفظ کی ہے، خوش قسمتی سے پاکستان ان ممالک میں تو شامل نہیں جو زہریلی اور مضر صحت گیسوں کا اخراج کر کے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ کر رہے ہیں، البتہ ان 12 ممالک میں ضرور شامل ہے جو اس اضافے سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں کچھوؤں کی غیر قانونی تجارت پر پڑھیں تفصیلی رپورٹ

    ملک میں جنگلی حیات کی کئی اقسام معدومی کے خطرے کا شکار ہیں تاہم ملک میں سرگرم عمل عالمی ادارہ برائے تحفظ جنگلی حیات آئی یو اسی این، ڈبلیو ڈبلیو ایف اور حکومتی کوششوں سے اس شعبہ میں کچھ بہتری نظر آتی ہے۔

  • پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    پاکستان میں صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی بڑی وجہ

    نیویارک: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہلی دفعہ منعقد کیے جانے والے گلوبل گولز ایوارڈز میں ایک پاکستانی ادارے ’ڈاکٹ ۔ ہرز‘ نے بہترین اور کامیاب کوشش کا ایوارڈ اپنے نام کرلیا۔

    یہ ایوارڈ اس ادارے یا فرد کو دیا جانا تھا جو خواتین اور کم عمر لڑکیوں کا معیار زندگی بہتر کرنے کے لیے کام کرے۔ ’ڈاکٹ ہرز‘ نامی یہ ادارہ غیر ترقی یافتہ اور مضافاتی علاقوں میں خواتین اور لڑکیوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

    نیویارک میں جاری جنرل اسمبلی اجلاس کے دوران منعقدہ ایوارڈز کی تقریب میں یہ ایوارڈ ادارے کی بانی ڈاکٹر سارہ سعید خرم نے وصول کیا۔

    اے آر وائی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے ادارے کے کام کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا کہ ان کا ادارہ طبی سہولیات سے محروم خواتین کو جدید ٹیکنالوجی سے جوڑ کر ان کی مدد کرتا ہے۔ یہ ادارہ موبائل، یا انٹرنیٹ سے ویڈیو کانفرنس / کال کے ذریعہ خواتین کو طبی آگاہی فراہم کرتا ہے اور ان کی مختلف بیماریوں کے لیے علاج تجویز کرتا ہے۔

    یہی نہیں یہ ادارہ کئی بیروزگار اور معاشی پریشانی کا شکار خواتین کو بھی مختلف طبی ٹریننگز دے کر ان کے ذریعہ روزگار کا سبب بن رہا ہے۔

    ادارے سے منسلک ڈاکٹرز گھر بیٹھ کر بھی انٹرنیٹ کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرسکتی ہیں۔ ان ڈاکٹرز کو ماہر کمیونٹی ہیلتھ ورکرز اور مڈ وائفس کے ذریعہ تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ روبرو بھی مریضوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔

    ادارے کے آغاز کے بارے میں بتاتے ہوئے ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہ ادارہ ڈاکٹر اشعر حسین اور انہوں نے 2014 میں ایک کمیونٹی ہیلتھ پروجیکٹ کے تحت تجرباتی طور پر شروع کیا۔ آغاز میں کراچی کے مضافاتی علاقہ سلطان آباد میں ویڈیو کنسلٹنگ کے ذریعہ خواتین کو طبی امداد فراہم کی گئی۔ اس دوران 6 ماہ میں 100 خواتین اس سے مستفید ہوئیں۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا، مزید لوگ بھی شامل ہوتے گئے اور انہوں نے ڈاکٹر عفت ظفر کے ساتھ اس کا دائرہ ملک بھر میں وسیع کردیا جس کے بعد اب پاکستان میں ان کے 9 ٹیلی کلینکس کام کر رہے ہیں۔ 6 کراچی کے مضافاتی علاقوں کورنگی، وائے ایریا لانڈھی، نیو لیاری، ضیا کالونی، بن قاسم اور بلدیہ ٹاؤن میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، 2 صوبہ خیبر پختونخوا کے شہروں دادار اور مانسہرہ جبکہ ایک پنجاب کے علاقہ حافظ آباد میں واقع ہے جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ ادارہ ایک  سال میں 22 ہزار افراد کو بالواسطہ اور ایک لاکھ افراد کو بلا واسطہ طبی امداد، طبی تربیت اور مختلف طبی سیشن فراہم کرچکا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں حاملہ خواتین کے لیے خصوصی بائیک ایمبولینس

    پاکستانی خواتین فلاحی اسپتالوں کی کیوں محتاج ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر سارہ نے بتایا کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل پی ایم ڈی سی کے اعداد و شمار کے مطابق 18 کروڑ سے زائد آبادی والے اس ملک میں لائسنس یافتہ ڈاکٹرز کی تعداد صرف 1 لاکھ 57 ہزار 206 ہے یعنی 11 ہزار افراد کے لیے ایک ڈاکٹر۔ ان میں 74 ہزار خواتین ڈاکٹرز ہیں۔ پاکستان کے دیہی اور غیر ترقی یافتہ حصوں میں رہنے والوں میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ افراد کو کسی قسم کی کوئی طبی امداد میسر نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس میں بڑی تعداد خواتین کی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ جن خواتین کو ان کا ادارہ طبی امداد فراہم کرتا ہے ان میں 80 فیصد خواتین ایسی ہیں جنہیں اگر اس ادارے کا آسرا نہ ہو تو انہیں زندگی بھر کوئی اور طبی امداد مل ہی نہیں سکتی۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق ہمارے ملک میں جاری بدترین صنفی تفریق خواتین کے طبی مسائل کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ’ہمارے گھروں میں لڑکوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، اچھا کھانا بھی ان کے لیے، اچھی تعلیم بھی ان کے لیے، تمام سہولیات بھی انہیں میسر، اور اگر وہ بیمار پڑجائیں تو ہزاروں روپے خرچ کر کے بہترین ڈاکٹر سے ان کا علاج کروایا جائے گا‘۔ ’اگلی نسل کی ضامن ہونے کے باوجود لڑکیاں کم اہمیت کی حامل سمجھی جاتی ہیں اور اس کا آغاز سب سے پہلے ان کے اپنے گھر سے ہوتا ہے‘۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ یہی صنفی تفریق لڑکیوں کی کم عمری کی شادی کی وجہ ہے جیسے لڑکی کوئی بوجھ ہو جس کی جلد سے جلد شادی کر کے بوجھ سے جان چھڑائی جائے۔

    مزید پڑھیں: کم عمری کی شادیاں پائیدار ترقی کے لیے خطرہ

    انہوں نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ کم عمری کی شادیاں خواتین کے 70 فیصد طبی مسائل کی جڑ ہیں۔ کم عمری کی شادی کی وجہ سے لڑکیوں میں خون کی کمی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں۔ کم عمری میں شادی ہوجانے والی 42 فیصد لڑکیاں 20 سال کی عمر سے قبل ہی حاملہ ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں بچوں کی قبل از وقت پیدائش اور پیدائش کے وقت بچوں کے وزن میں غیر معمولی کمی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

    یہی نہیں کم عمری کی شادیاں خواتین پر جنسی و گھریلو تشدد کا باعث بھی بنتی ہیں۔

    ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ دوران علاج اکثر انہیں خواتین نے کمپیوٹر کی اسکرین پر اپنے مسائل بتانے، یا تکلیف کا شکار کوئی جسمانی حصہ دکھانے سے اس لیے انکار کردیا کیونکہ انہیں ’اجازت‘ نہیں تھی۔

    انہوں نے ایک بین الاقوامی ادارے کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں مردوں کی نسبت خواتین میں اوسٹوپروسس (ہڈیوں کی بوسیدگی / ٹوٹ پھوٹ کا عمل) کا مرض زیادہ ہے۔ اسی طرح پاکستانی خواتین اپنے ہم عمر مردوں کی نسبت 20 سے 30 فیصد زیادہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہونے کے خطرے کا شکار ہیں۔

    کام کے دوران ان کی ٹیم کو کن خطرات کا سامنا ہوتا ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر سارہ کا کہنا تھا کہ اکثر مضافاتی علاقے مختلف سیاسی پارٹیوں کا گڑھ ہیں تاہم  ڈاکٹر سارہ کی ٹیم علاقہ کی تمام پارٹیوں سے غیر جانبدارانہ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

    لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ ملک میں جاری پولیو ورکرز پر حملوں کے بعد ان کی ٹیم نے بھی غیر معمولی احتیاط کرنی شروع کردی ہے۔ علاوہ ازیں خواتین عملہ کو ان علاقوں میں جانے کے بعد خراب ماحول کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ عموماً اپنے مرد ساتھیوں کے ساتھ جانے کو ہی ترجیح دیتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: پولیو ٹیم پر حملہ، 4 ورکرز جاں بحق

    اقوام متحدہ میں ملنے والا یہ ایوارڈ ڈاکٹر سارہ اور ان کی ٹیم کے خلوص اور انتھک محنت اور کاوشوں کا اعتراف ہے۔ ’یہ ایوارڈ ان آوازوں کے نام ہے جنہیں کوئی نہیں سنتا، ان خوابوں کے نام ہے جو پورا ہونا چاہتے ہیں مگر ہو نہیں پاتے، ان مریضوں کے نام ہیں جو قابل علاج بیماریوں کا بھی علاج نہیں کر سکتے اور ان عناصر کے خلاف ایک مزاحمت ہے جو ڈاکٹرز کو ان کے بنیادی فرض یعنی علاج کرنے سے روکتے ہیں‘۔

    اقوام متحدہ کی جانب سے گلوبل گولز ایوارڈز گزشتہ برس مقرر کیے گئے پائیدار ترقیاتی اہداف کے تحت غربت اور عدم مساوات کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں دیے گئے۔

    ان کے تحت مزید 2 ایوارڈز ’دا گرل ایوارڈ‘ اور ’دا سوشل چینج ایوارڈ‘ بھی دیا گیا۔ دا گرل ایوارڈ 16 سالہ شامی مہاجر لڑکی یسریٰ ماردینی کو دیا گیا جس نے شام سے ہجرت کے دوران اپنی کشتی کو حادثہ پیش آنے کے بعد جان جوکھم میں ڈالتے ہوئے پانی میں چھلانگ لگائی اور تیرنے والے افراد کی رہنمائی کی۔ بعد ازاں اس لڑکی نے مہاجرین کی ٹیم میں شامل ہوکر ریو اولمپکس میں بھی شرکت کی۔

    سوشل چینج ایوارڈ تنزانیہ سے تعق رکھنے والی وکیل ربیکا گیومی کو دیا گیا جنہوں نے تنزانیہ میں چائلڈ میرج کے خلاف انتھک کوششیں کیں۔

  • دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    کراچی: ماہرین کے مطابق دنیا کا مستقبل 5 ’پیز‘ پر مشتمل ہے۔ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک۔ یہ 5 ’پی‘ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف یعنی سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کا حصہ ہیں اور تمام اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی کی جامعہ این ای ڈی میں سسٹین ایبل ترقیاتی اہداف پر تربیتی ورکشاپ منعقد ہوئی۔ ورکشاپ میں تمام شعبہ جات کے ماہرین، این جی اوز کے نمائندے، سول سوسائٹی کے ارکان اور میڈیا اراکین نے شرکت کی۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ ویو سے بچاؤ کے طریقے

    اس موقع پر شہری ترقیاتی امور کے ماہر فرحان انور نے سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے بارے میں بتایا کہ اقوام متحدہ نے ترقیاتی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز مقرر کیے تھے جن کی مدت 2001 سے 2015 تک تھی۔ یہ مدت ختم ہونے کے بعد اب سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز یعنی پائیدار ترقیاتی اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا۔ اب یہ تمام شعبوں اور اداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان اہداف کو 5 ’پیز‘ میں تقسیم کردیا گیا ہے تاکہ ان اہداف کی تکمیل میں آسانی ہو۔ یہ ’پیز‘ پروسپیرٹی یعنی خوشحالی، پیپل یعنی لوگ، پلینٹ یعنی کرہ ارض، پیس یعنی امن، اور پارٹنر شپ یعنی اشتراک پر مشتمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: کلائمٹ چینج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر

    ورکشاپ میں کراچی کی ہیٹ ویو بھی موضوع بحث رہی۔ ہیٹ ویو کلائمٹ چینج کا حصہ ہے۔ کلائمٹ چینج اور ماحولیات کا تعلق سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز میں سے پلینٹ یعنی کرہ ارض سے ہے۔ اس موقع پر پیرس میں ہونے والی کلائمٹ ڈیل بھی زیر بحث آئی جس میں عالمی درجہ حرارت 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ اضافہ نہ کرنے پر 195 ممالک نے اتفاق کیا۔ یہ ڈیل بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت، ماحولیاتی نقصانات، اس کی وجہ سے قدرتی آفات اور قحط یا خشک سالی جیسے خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔

    تمام ممالک نے اس بات پر بھی اتفاق کیا ہے کہ اس ڈیل پر ہنگامی بنیادوں پر عمل درآمد شروع کیا جائے اس سے پہلے کہ ماحولیاتی نقصانات شدید ہوتے جائیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں پیس دراصل عالمی بھوک، وسائل کی کمی، قحط اور تعلیم کی کمی کی طرف اشارہ ہے کیونکہ انہی کی عدم فراہمی شدت پسندی کو فروغ دیتی ہے اور القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ تنظیمیں ایسے ہی محروم لوگوں کو اپنا ہدف بنا کر ان کا برین واش کرتی ہیں۔

    مزید پڑھیں: گلوبل وارمنگ سے گردوں کے امراض میں اضافے کا خطرہ

    ترقیاتی اہداف میں شامل پروسپیرٹی ڈویلپمنٹ سیکٹر کا احاطہ کرتی ہے۔ پیپل یعنی لوگوں کے اہداف ان کی صحت، تعلیم اور بنیادی ضروریات کی فراہمی ہے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف میں پارٹنرشپ اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ اب تمام ممالک کو مل کر کام کرنا ہے چاہے وہ ایشیا کے ہوں یا افریقہ کے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی افریقی ملک میں کوئی آفت آئے تو امریکہ یا ایشیا اس سے محفوظ رہے۔ تمام ممالک کو علاقائی سطح پر تعاون کر کے اپنے مسائل کو حل کرنا ہوگا۔