Tag: پابلو پکاسو

  • پکاسو: جنگ اور نفرت کے خلاف رنگوں کو استعمال کرنے والا مصوّر

    پکاسو: جنگ اور نفرت کے خلاف رنگوں کو استعمال کرنے والا مصوّر

    شہرۂ آفاق مصوّر پابلو پکاسو کو دنیا امن کے پیام بر کی حیثیت سے بھی جانتی ہے بیسویں صدی کا لینن انعام یافتہ یہ مصوّر 8 اپریل 1973ء کو چل بسا۔ فنِ مصوّری میں پکاسو کو اس کے کمال کے سبب شہرت ہی نہیں ملی بلکہ اس کے فن پارے بھی مہنگے داموں فروخت ہوئے۔

    ہسپانوی مصوّر پکاسو کے فن پارے دنیا بھر کی مشہور و معروف آرٹ گیلریوں زینت ہیں اور آج بھی ان کی نمائش کے موقع پر بڑی تعداد میں لوگ ان گیلریوں کا رخ کرتے ہیں اور بڑے بڑے میوزیم میں پکاسو کے شاہ کاروں کے لیے ایک گوشہ مخصوص کیا گیا ہے۔

    پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک آرٹ ٹیچر تھے۔ پکاسو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین بچّہ تھا۔ اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا تھا جہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن میں‌ نئے تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ کم عمری ہی میں پکاسو ڈرائنگ میں‌ دل چسپی لینے لگا تھا اور اس کے والد نے اپنے بیٹے کے اس شوق کو دیکھتے ہوئے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اسے خاکہ نویسی اور ڈرائنگ سکھانا شروع کردی۔ والد نے پکاسو کو آرٹ اکیڈمی میں داخلہ دلوا دیا۔ وہاں پکاسو کو باقاعدہ ڈرائنگ اور فائن آرٹ سیکھنے اور بڑے بڑے مصوّرں کے فن کو جاننے اور سمجھنے کا موقع بھی ملا۔ بعد کے برسوں میں‌ پکاسو نے اپنے فن کی بدولت تجریدی آرٹ کی دنیا میں نام و مرتبہ پایا۔

    1900ء میں پکاسو پیرس چلا گیا جہاں بڑے بڑے مصوّر اور آرٹ کے قدر دان بھی موجود تھے۔ اس وقت تک پکاسو اپنے فنی سفر کا آغاز کرچکا تھا اور پیرس جاکر وہاں کی زندگی کو کینوس پر اتارنے لگا۔ پکاسو اسپین میں اس فن کی باریکیوں اور رنگوں کا استعمال اچھی طرح سیکھنے کے بعد جب پیرس پہنچا تو یہاں اسے فن و فکر کے نئے زاویے اور انداز کو قریب سے دیکھنے اور اسے سمجھنے کا موقع ملا اور پھر 1907ء میں اس کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ انھوں نے مل کر بڑا کام کیا اور پھر جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ اس دوران پکاسو نے مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا اور اسے خود بھی بہت کچھ سہنا پڑا جس کو پکاسو نے اپنی تصویروں میں اجاگر کیا۔ پکاسو نے پیرس کے مشہور فن کاروں سے تعلقات استوار کر لیے تھے اور ان کی حوصلہ افزائی سے پکاسو نے فن مصوّری میں مزید اپنی صلاحیتوں کو آزمایا۔

    ’’گورنیکا‘‘ اس کا وہ شاہ کار ہے جو 1937ء میں سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے اس نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کی انتہائی مؤثر تصویر پیش کی۔ یہ فن پارہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ پکاسو نے جنگ اور اس کی تباہ کاریاں دیکھی تھیں اور اسی لیے وہ امن کا داعی بن گیا تھا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہٹلر کی مخالف قوتوں کا مددگار رہا۔ پکاسو نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی اور اپنی فکر اور زاویۂ نگاہ سے دنیا کو متاثر کرنے والے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جنھیں آج بھی دنیا کی بڑی اور مشہور گیلریوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی امن پسندی اور اس کے لیے عملی کوششوں پر اسے لینن پرائز دیا گیا تھا۔

  • غزہ کے لیے ہزاروں مظاہرین نے پابلو پکاسو کی مشہور پینٹنگ کیوں اٹھائی؟

    غزہ کے لیے ہزاروں مظاہرین نے پابلو پکاسو کی مشہور پینٹنگ کیوں اٹھائی؟

    میڈرڈ: دنیا بھر میں غزہ میں فوری جنگ بندی کے لیے بڑی تعداد میں مظاہرے ہو رہے ہیں اور رنگ، نسل اور مذہب سے بالاتر ہو کر لاکھوں لوگ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں لیکن گزشتہ روز سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکا نے جب فوری جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر دیا تو انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا۔

    غزہ کے مظلوم انسانوں کے حق میں بہت سے دیگر ممالک کی طرح اسپین میں بھی لوگ سراپا احتجاج ہیں، گزشتہ روز ہزاروں مظاہرین نے مل کر ایک انتہائی انوکھا احتجاج کیا، انھوں نے فنون کی تاریخ کے ایک عظیم پینٹر پابلو پکاسو کی مشہور ترین پینٹنگ ’گورنیکا‘ اٹھا کر انسانی سروں کے ساتھ فلسطینی جھنڈا بنایا اور دنیا کو اپنا ایک نیا پیغام دیا۔

    روئٹرز کے مطابق جمعہ کو اسپین کی خود مختار کمیونٹی باسک کنٹری میں ایک بہت بڑی تعداد میں فلسطینی حامیوں نے مظاہرے کے لیے پابلو پکاسو کی مشہور پینٹنگ گورنیکا سے مدد لی، پکاسو کی یہ پینٹگ جنگ مخالف فن پارہ ہے، جس کے ساتھ مظاہرین نے انسانی موزیک بنایا اور فن پارے کو غزہ سے جوڑ کر پیش کیا۔

    یہ مظاہرہ بھی گورنیکا شہر کے سابقہ مارکیٹ اسکوائر پر ہوا، جس پر 1937 میں ہسپانوی خانہ جنگی کے دوران نازی جرمنی کے تباہ کن جنگی فضائی ہتھیار ’لفٹوافے‘ نے بمباری کی تھی۔ پابلو پکاسو نے اس بمباری کی یاد میں اسی سال ہی ایک بہت بڑی بلیک اینڈ وائٹ آئل پینٹنگ تخلیق کی، جس کا شہرہ آج بھی پوری دنیا میں ہے۔

    امریکی وزیر خارجہ کے گھر کے سامنے اور دنیا بھر میں سفارتخانوں کے باہر غزہ کے لیے مظاہرے

    یہ پکاسو کے سب سے مشہور فن پاروں میں سے ایک ہے، جسے بہت سے آرٹ ناقدین تاریخ کی سب سے متحرک اور طاقتور اینٹی جنگ پینٹنگ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ فن پارہ میڈرڈ کے میوزیو رینا صوفیہ میں رکھا گیا ہے۔

    تل ابیب کو جلا کر راکھ کر دیں گے، حماس نے دشمن پر ہیبت طاری کرنے والی تیاری کی ویڈیو جاری کر دی

    مظاہرے کے دوران خطاب کرتے ہوئے خاتون رہنما فاطمہ الہوسری نے کہا کہ دنیا غزہ میں ’نیو گورنیکا‘ کو قبول نہیں کر سکتی۔ انھوں نے کہا فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے دنیا اور تاریخ قبول نہیں کر سکتی، دنیا اور تاریخ ایک نئی گورنیکا کو قبول نہیں کر سکتی۔

  • پکاسو کے تاریخی فن پارے 11 کروڑ ڈالرز میں فروخت

    پکاسو کے تاریخی فن پارے 11 کروڑ ڈالرز میں فروخت

    لاس ویگاس: امریکی شہر لاس ویگاس کے ایک ریستوران میں برسوں تک نمائش کے لیے پیش کیے جانے کے بعد، پابلو پکاسو کے 11 فن پاروں کا ایک انتخاب مجموعی طور پر 110 ملین ڈالرز سے زیادہ میں نیلام ہو گیا۔

    اسپین کے فن کار پابلو پکاسو 20 ویں صدی کے پہلے نصف کے سب سے غالب اور با اثر آرٹسٹ تھے، ان کی گیارہ پینٹنگز لاس ویگاس میں 11 کروڑ ڈالرز (17 ارب روپے) میں نیلام ہو گئیں۔

    سوتھ بے کی نیلامی لاس ویگاس کے بیلاگیو ہوٹل میں ہوئی، جہاں پکاسو کے یہ فن پارے سالوں سے آویزاں تھے، یہ نیلامی 25 اکتوبر کو ہسپانوی آرٹسٹ پکاسو کی 140 ویں سالگرہ سے 2 روز قبل منعقد ہوئی تھی۔

    پکاسو کی محبت میری تھریس والٹر کی 1938 کی پینٹنگ سب سے زیادہ قیمت میں فروخت ہوئی، ایک کروڑ کے لگائے گئے تخمینے کے بعد یہ پینٹنگ 4 کروڑ ڈالر میں فروخت ہوئی۔ پکاسو اور میری کے درمیان تعلق 1920 کے بعد دس سال تک رہا اور ان کی ایک بیٹی بھی ہوئی۔

    بڑے سائز کے پورٹریٹس ’مرد اور بچہ‘ اور ’بسٹ ڈی ہوم‘ 2 کروڑ 44 لاکھ اور 95 لاکھ ڈالرز میں فروخت ہوئے۔

  • 8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    8 اپریل: ’’گورنیکا‘‘ کے خالق نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لیں

    بیسویں صدی کے مشہور مصوّر پابلو پکاسو 8 اپریل 1973ء کو دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج بھی دنیا بھر میں‌ اس ہسپانوی مصوّر کے فن پاروں کی نہ صرف نمائش کی جاتی ہے بلکہ مشہور میوزیموں میں پکاسو کے فن پاروں کے لیے ایک گوشہ مخصوص ہے۔

    پابلو پکاسو 1881ء میں ملاگا، اسپین میں ایک آرٹ ٹیچر کے ہاں پیدا ہوا۔ وہ غیر معمولی ذہین تھا۔ اس کا خاندان بارسلونا منتقل ہو گیا جہاں فرانس اور شمالی یورپ سے آرٹ اور اس فن میں‌ نئے تصورات پر مباحث شروع ہوچکے تھے۔ پکاسو نے کم عمری ہی میں ڈرائنگ میں‌ اپنی دل چسپی ظاہر کردی تھی اور والد نے بھی اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے اسے آگے بڑھنے کا خوب موقع دیا۔

    وہ اس کی مدد کرتے، سکھاتے اور سمجھاتے جس کے بعد اس نے اکیڈمی میں داخلہ لے کر آرٹ سیکھا اور تصویریں بنانے لگا۔ بعد میں اس کے حصّے میں‌ وہ شہرت آئی جو اس زمانے کے کسی اور مصوّر کو نہیں ملی، اسے تجرید کا بانی بھی کہا جاتا ہے۔

    1900ء میں پکاسو پیرس گیا۔ اس زمانے میں اس نے پیرس کی زندگی کو کینوس پر اتارا۔ وہ اس وقت تک فن کی بعض باریکیوں اور رنگوں کے استعمال کو اچھی طرح سمجھ چکا تھا اور 1907ء میں پکاسو کی ملاقات ایک اور مصوّر براک سے ہوئی۔ دونوں نے مل کر ایک طرز ایجاد کی، یہ سفر جاری رہا، جنگِ عظیم شروع ہوئی۔ مختلف سیاسی نظریات، سماجی تبدیلیوں اور بہت کچھ سہنے اور دیکھنے والے پکاسو نے اپنی تصویروں میں اس کا اظہار کیا۔

    1937ء میں اس کا شاہ کار فن پارہ ’’گورنیکا‘‘ سامنے آیا جس میں کٹے ہوئے سر والے بیل، کٹے ہوئے ہاتھ اور پیر کی ایک شکل کے ذریعے اس نے فاشزم اور جنگ کی بربریت اور تباہ کاریوں کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کیا۔ اس فن پارے کو دنیا بھر میں شہرت ملی۔ وہ امن کا داعی تھا، وہ ہٹلر کی مخالف طاقتوں کی مدد کرتا رہا۔ اس نے فاشزم کے خلاف مزاحمت کی۔ غرض یہ کہ پکاسو نے ہر سطح پر اپنی فکر اور زاویہ نگاہ سے دنیا کو متاثر کیا، اس نے سیکڑوں تصویریں اور خاکے بنائے جو دنیا کی بڑی اور مشہور گیلریوں میں موجود ہیں۔

    اس نے اپنی امن پسندی اور اس کے لیے عملی جدوجہد پر لینن پرائز بھی حاصل کیا، اس نے رنگوں کے علاوہ شاعری کو اپنے افکار اور جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ آرٹ کی دنیا اسے باکمال آرٹسٹ اور اس کے فن پاروں کو لازوال مانتی ہے۔

  • وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    وہ امیر ترین امریکی جو اپنی کہنی کی وجہ سے مذاق کا نشانہ بنا!

    دولت اور جائیداد تو اصل میں اسٹیو وین نے اپنے جوئے خانوں کی کمائی سے بنائی ہے، مگر امریکا میں اسے ریئل اسٹیٹ دنیا کا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ فائن آرٹ کا دلداہ اور فن و ثقافت کا بڑا قدر دان بھی ہے۔

    اس کے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار اور آرٹ میں دل چسپی کی اصل وجہ سبھی جانتے ہیں، یعنی غیرقانونی اور ناجائز طریقے سے اکٹھی کی گئی دولت اور خود کو قانون کی گرفت سے بچانے کے لیے اس نے یہ سب کر رکھا ہے۔

    اسٹیو وین دنیا بھر کے نام وَر آرٹسٹوں کے فن پارے خریدنے کے لیے بھی مشہور ہے۔ وہ کوئی بھی تخلیق منہ مانگے داموں خرید کر اپنی آرٹ گیلری میں منتقل کر لیتا ہے۔

    چند سال پہلے تک شہرہ آفاق مصور پابلو پکاسو کی مشہورِ زمانہ پینٹنگ لیغیو بھی اس کی آرٹ گیلری کی زینت تھی۔

    یہ 2006 کی بات ہے جب اسٹیو وین کے ایک کاروباری شناسا نے اس شاہ کار کو خریدنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسٹیو وین نے ہامی بھر لی۔

    سودا طے ہوا اور ایک شام اپنے چند دوستوں کے ساتھ وہ خواہش مند اسٹیو وین کی آرٹ گیلری میں اسی پینٹنگ کے قریب کھڑا تھا۔ ان کا موضوعِ بحث پابلو پکاسو، اس کا فن اور وہی پینٹنگ تھی جو چند گھنٹوں بعد اسٹیو وین کی ملکیت نہ رہتی، مگر ایک حادثے نے ان کے ارادوں اور خواہشات پر پانی پھیر دیا۔

    دورانِ گفتگو پینٹنگ کے نزدیک موجود اسٹیو وِن اچانک پیچھے ہٹا اور اپنی کہنی کو کچھ اس زور سے حرکت دی کہ وہ اس تصویر میں گویا گڑ گئی اور اس میں سوراخ ہوگیا۔

    پینٹنگ کا سودا اُسی وقت منسوخ ہوگیا۔ میڈیا نے اسٹیو وین کو چار کروڑ ڈالر کی کہنی والا کہہ کر اس واقعے کی تفصیلات ناظرین تک پہنچائیں۔ امریکا بھر میں اس امیر ترین شخص اور آرٹ کے قدر دان کا مذاق اڑایا گیا۔

    ماہرین نے اسٹیو وین کی خواہش پر اس فن پارے کو اصل حالت میں‌ لا کر دوبارہ گیلری میں سجا دیا۔

    دل چسپ بات یہ ہے کہ چند سال بعد یعنی 2013 میں اسٹیو وین نے اُسی کاروباری دوست کے ہاتھوں‌ وہی فن پارہ پچھلے سودے کی نسبت کئی گنا زیادہ پر فروخت کردیا۔

    (تلخیص و ترجمہ: عارف حسین)