Tag: پارلیمانی انتخابات

  • مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ

    مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی انتخابات کا مکمل بائیکاٹ

    سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے جانب سے رچائے جانے والے انتخابی ڈھونگ کے خلاف وادی میں مکمل ہڑتال ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے نام نہاد پارلیمانی انتخابات کے چوتھے مرحلے کے موقع پر ضلع کولگام میں آج مکمل ہڑتال ہے۔

    قابض انتظامیہ نے وادی میں بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کی ایک بڑی تعداد تعینات کر رکھی ہے۔ انتظامیہ نے وسطی اور جنوبی کشمیر میں انٹرنیٹ سروس بھی معطل کر دی ہے۔

    کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کے بائیکاٹ سے دنیا کو یہ پیغام دیا جائے گا کہ جموں وکشمیر کے عوام اپنے مادر وطن پر بھارتی تسلط سے نجات چاہتے ہیں۔

    تحریک حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین محمد اشرف صحرائی نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں اپنی ٹیمیں بھیجیں تاکہ وہاں قید کشمیر کے سیاسی قیدیوں کی حالت زار کا اندازاہ لگایا جاسکے۔

    بھارت میں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ووٹنگ جاری

    یاد رہے کہ بھارتی الیکشن کے پہلے مرحلے بالشمول مقبوضہ کشمیر سمیت مختلف ریاستوں میں پرتشدد واقعات میں چار افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔

  • یمن میں خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد

    یمن میں خانہ جنگی کے بعد پہلی مرتبہ پارلیمانی انتخابات کا انعقاد

    صنعاء : یمن کے اراکین پارلیمنٹ نے ملک میں خانہ جنگی کے بعد پہلی اجلاس کے دوران جنرل کانگریس (جی پی سی) کے سلطان البرکانی کو اسپیکر منتخب کرلیا۔

    تفصیلات کے مطابق یمن کے ایوان نمائندگان کے نومنتخب اسپیکر سلطان البرکانی نے اپنے انتخاب کے بعد کہا ہے کہ حوثی منصوبے کے ذریعے ایران یمن سے لبنان تک اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتا ہے۔

    عرب کا کہنا ہے کہ پارلیمان کے اجلاس میں 141 ارکان نے شرکت کی تھی، اجلاس میں صدر  عبد ربہ منصور ہادی اور یمنی حکومت کے بعض عہدے دار بھی شریک تھے۔

    نومنتخب اسپیکر  سلطان البرکانی نے کہا کہ حکومت حوثی بغاوت کو شکست دینے کے لیے پرعزم ہے تاکہ یمنی عوام اپنے ملک کو واگزار کراسکیں۔

    انھوں نے حوثیوں پر زور دیا کہ وہ امن کی حمایت کریں اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق تشدد کا سلسلہ بند کردیں۔

    سلطان البرکانی نے سرکاری اداروں کے سربراہان سے بھی کہا کہ وہ عارضی دارالحکومت عدن میں منتقل ہوجائیں تاکہ وہ اپنے فرائض انجام دے سکیں۔

    صدر ہادی نے پارلیمان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ اجلاس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حوثیوں کا تخریبی منصوبہ روز بروز روبہ زوال ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ نے حوثی ملیشیا سے مخاطب ہوکر کہا کہ ملک کے ماضی اور مستقبل کو دشمن کے ساتھ مل کر دا پر نہ لگائیں۔

    صدر منصور ہادی نے کہا کہ اب ان کی ترجیح حوثی بغاوت کو کچلنا اور سرکاری اداروں کی تعمیر ہے۔

    انھوں نے یمنیوں سے اپیل کی کہ وہ حوثیوں کی دھمکیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود امید کا دامن نہ چھوڑیں ۔

    یمنی صدر کا کہنا تھا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے ہیں اور اس سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔

  • افغانستان: طالبان نے پارلیمانی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے حملے شروع کردیے

    افغانستان: طالبان نے پارلیمانی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے حملے شروع کردیے

    کابل: افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کو ناکام بنانے کے لیے طالبان نے حملے شروع کردیے، ایک خود کش حملے میں 8 افراد ہلاک ہوگئے۔

    تفصیلات کے مطابق افغان طالبان نے دھمکی دے رکھی ہے کہ کسی صورت افغانستان میں رواں ماہ ہونے والے پارلیمانی انتخابات کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان صوبے ہیلمند میں ایک انتخابی امیدوار پر خود کش حملہ ہوا جس کے باعث 8 افراد ہلاک جبکہ دس زخمی ہوگئے۔

    خود کش حملہ آور نے انتخابی امیدار کے دفتر میں گھس کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس کے نتیجے میں آٹھ افراد کی ہلاکتیں ہوئیں، حکام نے ہلاکتوں کی تصدیق کردی۔

    افغانستان میں پارلیمانی انتخابات، طالبان نے حملے کی دھمکی دے دی

    گذشتہ روز طالبان نے اپنے دھمکی بھرے بیان میں کہا ہے کہ رواں ماہ 20 اکتوبر کو افغانستان میں انتخابات ہونے نہیں دیں گے، اگر کسی نے اسے کامیاب بنانے میں حصہ لیا تو اسے نہیں چھوڑا جائے گا۔

    دوسری جانب افغان حکام نے دھمکیوں کے پیش نظر ملک میں سیکیورٹی سخت کردی ہے، ملک میں قائم ہزاروں پولنگ اسٹیشن پر تقریباً پچاس ہزار سیکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے۔

    اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال یکم جنوری سے 30 ستمبر تک افغانستان میں خود کش حملوں میں 3634 افراد مارے گئے، ہلاک ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔

    یاد رہے کہ گذشتہ ماہ افغانستان کے صوبے بغلان میں طالبان نے سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں پر حملہ کردیا تھا جس کے نتیجے میں 30 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

  • ترک صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان فتح یاب‘ دوسری بارصدرمنتخب

    ترک صدارتی انتخابات میں رجب طیب اردگان فتح یاب‘ دوسری بارصدرمنتخب

    انقرہ: ترکی کے الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ صدر رجب طیب اردگان صدارتی انتخابات پہلے مرحلے میں جیت گئے ہیں انہیں 53 فیصد ووٹ ملے ہیں۔

    ترک سرکاری میڈیا کے مطابق رجب طیب اردگان نے صدارتی انتخابات میں 53 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف محرم انسے 31 فیصد ووٹ ہی حاصل کرسکے ہیں تاہم نتائج حتمی اعلان 29 جون کو کیا جائے گا۔

    الیکشن کمیشن کے بیان سے قبل ہی صدر رجب طیب اردگان نے انتخابات میں اپنی کامیابی کے اعلان کے ساتھ پارلیمانی انتخابات میں اپنی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔

    ترک صدر کی جانب سے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں فتح کے اعلان کے بعد ان کے حامی جشن منانے کے لیے سڑکوں پرنکل آئے۔

    دوسری جانب حزب اختلاف محرم انسے نے اب تک رجب طیب اردگان کی کامیابی کو تسلیم کرنے کا اعلان نہیں کیا اور کہا کہ نتائج جو بھی ہوں وہ ملک میں جمہوریت کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

    سرکاری میڈیا کے مطابق صدارتی انتخابات کے علاوہ ملک میں پارلیمانی انتخاب بھی ہوئے اور اب تک گنے گئے 96 فیصد ووٹوں میں رجب طیب اردگان کی اے کے پارٹی 43 فیصد ووٹوں سے آگے ہے جبکہ محرم انسے کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 23 فیصد ووٹ ہیں۔

    خیال رہے کہ ترکی میں یہ انتخابات نومبر 2019 میں ہونے تھے لیکن ترک صدر نے انہیں قبل ازوقت کرانے کا فیصلہ کیا۔ اس انتخاب میں کامیابی کے بعد رجب طیب اردگان دوسری مرتبہ پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوگئے۔

    یاد رہے کہ ترکی میں 15 جولائی 2016 کو رجب طیب اردوان کا تختہ الٹنے کی کوشش میں کم سے کم 260 افراد ہلاک اور 2200 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس واقعے کے بعد سے ملک میں ایمرجنسی نافذ ہے۔

    واضح رہے کہ رجب طیب اردگان 2014ء میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیراعظم کےعہدے پرفائر رہ چکے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایران کے پارلیمانی انتخابات میں صدرحسن روحانی کے حامی پھرآگے

    ایران کے پارلیمانی انتخابات میں صدرحسن روحانی کے حامی پھرآگے

    تہران: ایران کے پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بھی صدر حسن رو حانی کے حامیوں نے میدان مارلیا ہے ۔

    ایران کے پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق دوسرے مرحلے میں بھی صدرحسن روحانی کے حامیوں نے اکثر یت حا صل کرلی ہے۔

    مقامی میڈیا کے مطابق صدر حسن روحانی کے اصلا حات پسند گروہوں نے تیس سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے قدامت پسندوں کو شکست دی ہے۔

    انتخابات میں ایرانی عوام نے صدر حسن روحانی کی اعتدال پسندانہ پالیسیوں پربھرپوراعتمادکااظہارکیاہے،ایرانی الیکشن کمیشن کاکہناہے کہ حتمی نتائج کااعلان آئندہ چندروزمیں کردیاجائے گا ۔

  • برطانیہ: پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری

    برطانیہ: پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری

    لندن: برطانیہ میں پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹنگ جاری ہے، چھپن ویں پارلیمنٹ کے انتخاب کیلئے رجسٹرڈ ووٹرزکی تعداد پانچ کروڑ ہے۔

    مقامی وقت کے مطابق ووٹنگ صبح سات بجے شروع ہوئی، جو بغیر کسی وقفے کے رات دس بجے تک جاری رہے گی، پانچ کروڑ اہل ووٹرز کے لئے ملک بھر میں پچاس ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔

    پہلی بار برطانیہ میں آن لائن ووٹ ڈالنے کیلئے بھی رجسٹریشن ہوئی، انتخابات میں چھ سو پچاس نمائندے چنے جائیں گے، برطانوی آئین کے مطابق ملکہ برطانیہ اور شاہی خاندان کےافراد ووٹ نہیں ڈال سکیں گے۔

    انتخابات میں حصہ لینے والی اہم پارٹیوں میں ڈیوڈ کیمرون کی لیبر پارٹی، ایڈملی بینڈ کی کنزرویٹو پارٹی، نک کلیگ کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی اورنائیجل فراج کی یوکے انڈیپینڈنٹ پارٹی نمایاں ہیں تاہم لیبرپارٹی اور کنزرویٹو پارٹٰی میں سخت مقابلے کی توقع ہے۔

    سیاسی جماعتوں کو حکومت بنانےکے لئے تین سوچھبیس نشستیں جیتنا ضروری ہے۔

    تجزیہ کاروں کے مطابق کوئی موجودہ صورتحال میں کوئی بھی ضماعت سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکی گی، مخلوط حکومت کے قیام کے زیادہ امکانات ہیں۔

    انتخابات کے مکمل نتائج جمعے تک متوقع ہیں، برطانیہ کے موجودہ وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو جماعت نے دو ہزار دس کے الیکشن میں تین سو سات نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

    برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں کے لیے انتخابی تاریخ کا سخت ترین مقابلہ متوقع ہے، برطانیہ کی چار ریاستوں انگلینڈ، آئرلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں چار کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے، ایک امیدوار کو انتخابی مہم میں تیس ہزار سات سو پاؤنڈ خرچ کرنے کی اجازت ہے، عام انتخابات میں ایشین نژاد شہریوں کے ووٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہیں۔

    چھپن ویں انتخابات میں پانچ نمایاں سیاسی جماعتیں کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی، لیبر پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ پارٹی، اسکاٹش نیشنل پارٹی اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی حصہ لے رہی ہیں، 2010 میں کنزرویٹوپارٹی نے 307 نشستیں لے کر 57 نشستوں والی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ پانچ سال کے لئے اتحادی حکومت بنائی تھی جبکہ لیبرپارٹی نے 258 اور نیشنل اسکاٹش پارٹی نے 6 نشستیں حاصل کی تھیں۔

    وزیراعظم کیمرون کو معیشت کی بحالی، 20 لاکھ نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کر نے، عام آدمی کے لیے اپنا گھر اسکیم، پہلی اقلیتی مسلم خاتون کی کابینہ میں شمولیت، کم از کم تنخواہ میں اضافہ سمیت ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے بل کی وجہ سے برتری حاصل ہے جبکہ ویلفیئر اخراجات میں کٹوتی، یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف ٹھوس مؤقف اور ہیومن رائٹس ایکٹ بل پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

    ان انتخابات میں سب سے کم عمر امیدوار بیس سالہ خاتون مہیری بلیک ہیں جبکہ عمررسیدہ امیدوار چوراسی سالہ جیرالڈکوف مین ہیں، جو بارہویں بارانتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، ان امیدواروں میں چھبیس فیصد امیدوار خواتین ہیں، انتخابات میں حصہ لینے والے اکتیس فیصد امیدواروں نے نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، انیس سو اکتیس کے بعد پہلی بار جمعرات کے دن انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

  • برطانیہ میں نئے وزیرِاعظم کا چناؤ آج ہوگا

    برطانیہ میں نئے وزیرِاعظم کا چناؤ آج ہوگا

    لندن: برطانیہ میں انتخابات کی گھڑی آن پہنچی ہیں، چند گھنٹوں بعد پولنگ شروع ہوجائے گی۔

    برطانیہ میں چھپن ویں پارلیمانی انتخابات میں چند گھنٹوں بعد ووٹرز اپنے پسندیدہ امیداروں کے حق میں ووٹ کاسٹ کریں گے، ملکہ سمیت شاہی خاندان ووٹ نہیں ڈال سکے گا۔

    برطانیہ میں نئی حکومت بنانے کے لئے ایڈ ملی بینڈ، ڈیوڈکیمرون، نک کلیگ اور نائیجل فاراج میں تگ و دو جاری ہیں۔

    برطانیہ کے انتخابات کے لئے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، برطانوی ووٹرز آج چالیس ہزار پولنگ اسٹیشنز میں صبح سات بجے سے رات دس بجے تک اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔

    برطانیہ کے انتخابات میں چالیس ہزار پولنگ اسٹیشنز بنائے گئے ہیں۔ یہ پولنگ اسٹیشنز اسکولوں کی عمارتوں کے علاوہ فٹبال اورباکسنگ کلبس میں بھی بنائے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ چرچ، مساجد،اور بودھ مذہبی عمارتوں کو بھی پولنگ اسٹیشنز کے لئے استعمال کیا جائے گا۔

    برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی 650 نشستوں کے لیے انتخابی تاریخ کا سخت ترین مقابلہ متوقع ہے، برطانیہ کی چار ریاستوں انگلینڈ، آئرلینڈ ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز میں چار کروڑ سے زائد ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے، عام انتخابات میں ایشین نژاد شہریوں کے ووٹ کی اہمیت بڑھ گئی ہیں۔

    چھپن ویں انتخابات میں پانچ نمایاں سیاسی جماعتیں کنزرویٹو یعنی ٹوری پارٹی، لیبر پارٹی، لبرل ڈیموکریٹ پارٹی، اسکاٹش نیشنل پارٹی اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی حصہ لے رہی ہیں، 2010 میں کنزرویٹوپارٹی نے 307 نشستیں لے کر 57 نشستوں والی لبرل ڈیموکریٹ پارٹی کے ساتھ پانچ سال کے لئے اتحادی حکومت بنائی تھی جبکہ لیبرپارٹی نے 258 اور نیشنل اسکاٹش پارٹی نے 6 نشستیں حاصل کی تھیں۔

    دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں ڈیوڈ کیمرون کی ٹوری 280، ایڈ ملی بینڈ کی لیبر 268، نکولا سٹرجن کی نیشنل اسکاٹش پارٹی 50، نک کلیگ کی لبرل ڈیموکریٹ 27 اور یوکے انڈیپینڈنس پارٹی کو 3 نشستیں ملنے کی توقع ہے۔

    وزیراعظم کیمرون کو معیشت کی بحالی، 20 لاکھ نئی نوکریوں کے مواقع پیدا کر نے، عام آدمی کے لیے اپنا گھر اسکیم، پہلی اقلیتی مسلم خاتون کی کابینہ میں شمولیت، کم از کم تنخواہ میں اضافہ سمیت ہم جنس پرستوں کی شادیوں کے بل کی وجہ سے برتری حاصل ہے جبکہ ویلفیئر اخراجات میں کٹوتی، یورپی یونین سے علیحدگی کے خلاف ٹھوس مؤقف اور ہیومن رائٹس ایکٹ بل پر شدید مخالفت کا سامنا ہے۔

    اسی طرح لبرل ڈیموکریٹ بھی اپنے سابقہ اتحادی سے دور جاتی نظر آتی ہے، ٹوری پارٹی کو یو کے انڈیپینڈنس پارٹی کے ساتھ الحاق پر بھی تنقید کا سامنا ہے، جو برطانیہ کو یورپی یونین سے الگ کرنے کی حامی ہے۔

    انتخابات میں لیبر اور اسکاٹش نیشنل پارٹی کے مابین اتحادی حکومت تشکیل دیئے جانے کے زیادہ امکانات ہیں۔

    ایک امیدوار کو انتخابی مہم میں تیس ہزار سات سو پاؤنڈ خرچ کرنے کی اجازت ہے۔

    ان انتخابات میں سب سے کم عمر امیدوار بیس سالہ خاتون مہیری بلیک ہیں جبکہ عمررسیدہ امیدوار چوراسی سالہ جیرالڈکوف مین ہیں، جو بارہویں بارانتخابات میں حصہ لےرہے ہیں، ان امیدواروں میں چھبیس فیصد امیدوار خواتین ہیں، انتخابات میں حصہ لینے والے اکتیس فیصد امیدواروں نے نجی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے، انیس سو اکتیس کے بعد پہلی بار جمعرات کے دن انتخابات کا انعقاد کیا جارہا ہے۔

    سنہ دوہزار دس میں پینسٹھ فیصد ووٹرز نے اپناحق رائے دہی استعمال کیا تھا۔

  • مصر کے پارلیمانی انتخابات تاخیر کا شکار

    مصر کے پارلیمانی انتخابات تاخیر کا شکار

    مصر: سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابی قانون کو غیر آئینی قرار دیئے جانے کے بعد ملک کے پارلیمانی انتخابات تاخیر کا شکار ہوگئے ہیں۔

    مصر میں اکیس مارچ سے شروع ہونے والے پارلیمانی انتخابات متعدد مرحلوں میں ہونا تھے تاہم سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکام کو اپنے منصوبوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔

    مصر کے موجودہ صدر عبدالفتاح السیسی نے دو ہزار بارہ میں مصر کے صدر محمد مرسی کو معزول کرنے کے بعد اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔

    مصری صدر نے گذشتہ برس دسمبر میں پارلیمان کی پانچ سو سڑسٹھ نشستیں تخلیق کرنے کے لیے حلقۂ انتخاب کے قانون کی منظوری دی تھی۔

  • بحرین میں آج پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں

    بحرین میں آج پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں

    بحرین: خلیجی ریاست بحرین میں آج پارلیمانی انتخابات ہورہے ہیں، دوہزار گیارہ کے ملک گیر احتجاج کے بعد بحرین میں یہ پہلے انتخابات ہیں۔

    غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق چالیس نشستوں کے لئے تین لاکھ سے زائد افراد ووٹ دیں گے۔ اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کوڈھونگ قراردیتے ہوئے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ حکومت نے تمام جماعتوں پر زوردیا ہے کہ وہ اتنخابات میں حصہ لیں۔

    بحرین کے وزیرِاطلاعات کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں تاہم کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

  • تیونس: پارلیمانی انتخابات میں جماعت انہدا کو شکست

    تیونس: پارلیمانی انتخابات میں جماعت انہدا کو شکست

    تیونس : تیونس کی اعتدال پسند اسلامی جماعت انہدا نے پارلیمانی انتخابات میں شکست تسلیم کر لی ہے۔

    تیونس کے پارلیمانی انتخابات میں سابق حکمران جماعت انہدا نے شکست تسلیم کرتے ہوئے مخلوط حکومت بنانے کا عندیہ دے دیا ہے،  انتخابات میں انہدا ستر نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی جبکہ اس کے مقابلے میں سیکولرجماعت ندا تونس نے اسی سے زائد نشستیں حاصل کی ہیں۔

    دو ہزار گیارہ میں عرب ممالک میں آنے والے انقلاب کے بعد تیونس میں دوسری جمہوری حکومت قائم ہوگی۔