Tag: پارکنسن

  • پارکنسن : رعشے کی بیماری کیسے حملہ کرتی ہے؟ وجوہات اور احتیاط

    پارکنسن : رعشے کی بیماری کیسے حملہ کرتی ہے؟ وجوہات اور احتیاط

    پارکنسن کی بیماری ایک قسم کے اعصابی نظام کی خرابی کا نام ہے۔ اس کی وجہ ایک اعصابی کیمیکل ٹرانسمیٹر بنام "ڈوپامین” کی کمی ہے جو دماغ کے گہرے حصّے میں نمایاں ہوتی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ایم ڈی نیورولوجی پروفیسر ڈاکٹر عارف اور ماہر نفسیات ڈاکٹر انیل وادھوانی نے اس بیماری کی وجوہات اور اس کے علاج سے متعلق تفصیل سے بیان کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ اس بیماری میں مریض کے ہاتھوں میں لرزہ ہوجاتا ہے جسے رعشے کا مرض بھی کہتے ہیں۔ پاکستان میں پارکنسن کے ساڑھے چار لاکھ سے زائد مریض ہیں جبکہ دنیا بھر میں ان کی تعداد دس ملین یعنی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پارکنسن کا مرض زیادہ تر 60 سے 70 سال کے درمیان ہوتا ہے، اگر اس مرض کا فوری علاج شروع کردیا جائے تو اس پر کافی حد تک قاپو پایا جاسکتا ہے۔

    اس بیماری میں دماغ میں اعصابی خلیات (نیورون) آہستہ آہستہ ٹوٹ جاتے ہیں یا مرجاتے ہیں، دماغ میں کیمیکل میسنجر جو ڈوپامائن (ہیپی ہارمون) کے نام سے جانا جاتا ہے۔

    جب ڈوپامائن کی سطح میں کمی آتی ہے، تو یہ دماغ کی غیر معمولی سرگرمی کا باعث بنتی ہے جو پارکنسنز کی بیماری کی علامات کا باعث بنتی ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ پارکنسن کی بیماری کا فی الحال کوئی علاج نہیں ہے لیکن ان علامات کو کم کرنے اور معیار زندگی کو بہتر بناکر اس بیماری کو بڑھنے سے بچا سکتے ہیں۔

    اس مرض کی علامات میں ہاتھ، بازو، انگلیاں، ٹانگوں، پاؤں، جبڑے یا سر میں کپکپاہٹ،مریض کو عام طور پر جھٹکے محسوس ہوتے ہیں، یہ جھٹکے عام طور پر اس وقت لگتے ہیں جب وہ شخص تھکا ہوا، یا دباؤ کا شکار ہو۔ بعض جسمانی اعضاء اکڑ جاتے ہیں یہ سختی پٹھوں میں درد کا باعث بنتی ہے۔

  • کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    کیا جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری ہے؟ وائٹ ہاؤس ترجمان کا بیان جاری

    واشنگٹن: مباحثے میں کمزور کارکردگی بائیڈن انتظامیہ کے لیے درد سر بن گئی ہے، ترجمان وائٹ ہاؤس کی طرف سے مختلف وضاحتیں شروع ہو گئیں۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ترجمان وائٹ ہاؤس نے صدارتی حریف امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابل جو بائیڈن کی کمزور کارکردگی پر ایک بیان میں وضاحت کی ہے کہ صدر جو بائیڈن کو پارکنسن کی بیماری نہیں ہے۔

    نیویارک ٹائمز نے سرکاری وزیٹرز لاگ کے حوالے سے لکھا ہے کہ والٹر رِیڈ نیشنل ملٹری میڈیکل سینٹر کے ایک پارکنسنز ڈزیز کے ماہر نے گزشتہ 8 مہینوں میں 8 بار وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا ہے، ان میں سے کم از کم ایک ملاقات صدر بائیڈن کے معالج سے بھی ہوئی ہے۔

    یہ دورے ڈاکٹر کیون کینارڈ نے کیے جو ایک نیورولوجسٹ ہیں اور حرکت کے امراض میں مہارت رکھتے ہیں، حال ہی میں پارکنسنز پر ان کا ایک مقالہ شائع ہوا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ دستاویز کے مطابق یہ دورے جولائی 2023 سے رواں سال مارچ تک ہوئے۔

    امریکا کا 9 مئی سے متعلق مؤقف سامنے آگیا

    نیویارک ٹائمز کے مطابق اگرچہ یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ڈاکٹر کینارڈ وائٹ ہاؤس میں صدر کے بارے میں خاص طور پر مشاورت کے لیے گئے تھے یا غیر متعلقہ ملاقاتوں کے لیے۔ تاہم ان کے لنکڈ اِن پروفائل پر لکھا گیا ہے کہ وہ گزشتہ 12 سال سے زیادہ عرصے سے ’’وائٹ ہاؤس میڈیکل یونٹ کے معاون‘‘ ہیں۔

    اگرچہ ڈاکٹر کینارڈ نے کئی بار رابطہ کیے جانے کے باوجود اس معاملے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم پیر کے روز وائٹ ہاؤس کے معالج ڈاکٹر کیون او کونر نے تصدیق کی ہے کہ ڈاکٹر کینارڈ نے بائیڈن کے دور صدارت کے دوران تین بار انھیں دیکھا۔ ڈاکٹر او کونر نے یہ بھی کہا کہ ڈاکٹر کینارڈ کے زیادہ تر دورے وائٹ ہاؤس میں کام کرنے والے دوسرے لوگوں کے علاج سے متعلق تھے۔

  • پارکنسن کے مریض عمر میں کیسے اضافہ کریں؟

    پارکنسن کے مریض عمر میں کیسے اضافہ کریں؟

    پنسلوینیا: امریکا کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کے نتائج میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسٹرابیری پارکنسن کے مریضوں کی عمر میں اضافہ کرتی ہے۔

    امریکی جریدے نیورولوجی میں شائع ہونے والے مقالے کے مطابق اسٹرابیریز کو روزانہ خوراک کا حصہ بنا کر پارکنسن کے مریض اپنی عمر میں اضافہ کر سکتے ہیں۔

    یہ تحقیق پنسلوینیا یونیورسٹی میں کی گئی، تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ہر دوسرے دن اسٹرابیری کی کچھ مقدار کھانا پارکنسن کے مریضوں کی زندگی کو بڑھا سکتا ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ چائے، سیب اور اورنج جوس پینے کے بھی یہی فائدے ہو سکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق یہ سب اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور ہوتے ہیں، اور یہ دماغی خلیات کو تباہ ہونے سے بچانے میں مدد کرتے ہیں، جو عام طور پر بیماری میں مر جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک فلے ونائڈز ہے، جس کی تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ یہ سوزش کو کم کرنے اور مختلف بیماریوں جیسا کہ ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا علاج کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ اور یہ مختلف قسم کے کھانوں میں پائے جا سکتے ہیں۔

    پنسلوینیا یونیورسٹی کے سائنس دان اس سلسلے میں 3 دہائیوں تک پارکنسن کے 1,250 مریضوں کی خوراک کا جائزہ لیتے رہے۔ جن لوگوں نے روزانہ کم از کم 673 ملی گرام فلے ونائڈز کا استعمال کیا، مطالعے کے اختتام تک ان میں زندہ رہنے کے امکانات 70 فی صد زیادہ پائے گئے۔ فلے ونائڈز کی مذکورہ مقدار اسٹرابیری کے ایک مکمل پیکٹ یا روزانہ 6 سیب کھانے کے برابر تھی۔

    محققین نے ان نتائج کو ‘دل چسپ’ قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہفتے میں صرف 3 سروِنگز بھی پارکنسن کے مریضوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں۔

    واضح رہے کہ پارکنسن یا ریشے کی بیماری ایک ایسی اعصابی بیماری ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج شدید تر ہوتی جاتی ہے کیوں کہ دماغ کے زیادہ تر خلیے مر جاتے ہیں، اور مریض روزمرہ کے کام انجام دینے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یہ پٹھوں کے مروڑ اور سختی کا باعث بن سکتی ہے اور ساتھ ہی پٹھوں کو تیزی سے حرکت کرنے میں دشواری کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ اس کا علاج فی الحال علامات کو کنٹرول کرنے پر ہی مرکوز ہے، اور ابھی تک اس حالت کا کوئی علاج دریافت نہیں کیا گیا ہے۔

    اس تحقیق کی قیادت کرنے والے ماہر وبائی امراض کے پروفیسر ژیانگ گاؤ نے اعتراف کیا کہ فلے ونائڈز نے اس حالت کو کم کرنے میں مدد کیوں کی؟ یہ جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ ان کا مطالعہ مشاہداتی تھا، یعنی اس میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ اسٹرابیری اور دیگر پھل پارکنسن کے مریضوں پر حفاظتی اثر کیوں کر ڈال سکتے ہیں۔ پروفیسر گاؤ نے کہا اگر پارکنسنز میں مبتلا کوئی شخص اپنی ہفتہ وار غذا میں بیر، سیب، موسمبی اور چائے شامل کرے، تو ہمارے نتائج بتاتے ہیں کہ اس سے ان کی حالت میں ممکنہ طور پر بغیر کسی نقصان کے بہتری آ سکتی ہے۔

  • پاکستانی ڈاکٹرز کے ہاتھوں چوہدری شجاعت کا 2 گھنٹے طویل اور کامیاب آپریشن

    پاکستانی ڈاکٹرز کے ہاتھوں چوہدری شجاعت کا 2 گھنٹے طویل اور کامیاب آپریشن

    لاہور: پاکستان مسلم لیگ ق کے مرکزی صدر چوہدری شجاعت حسین آج 2 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد گھر واپس آ گئے۔

    تفصیلات کے مطابق چوہدری شجاعت آج لاہور میں کامیاب آپریشن کے بعد گھر منتقل ہو گئے، سینئر سیاست دان کا دو گھنٹے طویل آپریشن کیا گیا۔

    چوہدری شجاعت کو پارکنسن اور بولنے میں مشکلات درپیش تھیں، وہ کافی عرصے پارکنس میں مبتلا تھے، آج پاکستانی ڈاکٹرز نے بولنے میں مشکلات کے لیے کامیاب آپریشن کیا، جس پر انھوں نے ڈاکٹرز کو مبارک باد بھی دی ہے۔

    ڈاکٹرز نے چوہدری شجاعت حسین کو 2 ہفتے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے، انھوں نے گھر منتقلی پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا میں طویل عرصہ اس مرض میں مبتلا رہا، جرمنی، آسٹریا، انگلینڈ، فرانس اور امریکا سے علاج کروایا، لیکن پاکستانی ڈاکٹرز نے کامیاب آپریشن کیا۔

    چوہدری شجاعت نے کہا پاکستان میں انتہائی قابل اور ماہر ڈاکٹر موجود ہیں، ہم نے ہمیشہ پاکستانی ڈاکٹروں پر اعتماد کیا ہے۔

    یاد رہے کہ چوہدری شجاعت حسین 16 جنوری 2021 کو پاکستان مسلم لیگ ق کے بلامقابلہ مرکزی صدر منتخب ہوئے تھے۔ گزشتہ برس نومبر میں بھی چوہدری شجاعت کی طبیعت ناساز ہو گئی تھی جس پر انھیں سروسز اسپتال منتقل کیا گیا تھا، جہاں ایک ہفتہ زیر علاج رہنے کے بعد انھیں ڈسچارج کیا گیا تھا۔

  • کیا آنکھوں کے مسائل سے پارکنسن بیماری کی نشان دہی ہوتی ہے؟

    کیا آنکھوں کے مسائل سے پارکنسن بیماری کی نشان دہی ہوتی ہے؟

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ پارکنسن کی بیماری میں آنکھوں کے مسائل بھی لاحق ہوتے ہیں، آنکھوں میں خشکی اور دھندلا پن آجاتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں کی حرکت متاثر ہونے لگتی ہے۔

    پارکنسن کی بیماری دراصل دماغی مرض ہے، جو جسم کی حرکت کے نظام کو متاثر کرتا ہے، جس کی وجہ سے چلنے پھرنے، توازن اور ہم آہنگی پیدا کرنے میں دشواری اور سختی پیدا ہوتی ہے۔ اس کی علامات عام طور سے بتدریج شروع ہوتی ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ شدت اختیار کرتی ہیں۔ مرض بہت زیادہ بڑھنے سے مریض کو چلنے اور باتیں کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔

    ایک میڈیکل ویب سائٹ پارکنسنز نیٹ پر شایع شدہ ایک آرٹیکل کے مطابق پارکسن کی وجہ سے دماغ اور پٹھوں کے درمیان اشاروں کا عمل متاثر ہو جاتا ہے، اور متعدد معذوریاں سامنے آتی ہیں جو اکثر نقل و حرکت سے متعلق ہوتی ہیں۔

    طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اس کی علامات میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا جاتا ہے اور یہ آنکھوں کو بھی متعدد طریقوں سے متاثر کرتی ہے، پارکنسن کی بیماری میں آنکھوں میں خشکی اور دھندلا پن آ جاتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں کی حرکت متاثر ہونے لگتی ہے۔

    اس بیماری کا اثر آنکھوں کی پلکوں پر بھی ہوتا ہے جس کے بعد پلکوں کے ہلنے میں دشواری ہوتی ہے، طبی ماہرین نے کہا کہ پارکنسنز کی بیماری آنکھوں یا پلکوں کے مسائل کا سبب بن سکتی ہے، اسی طرح اس کا علاج کرنے کے لیے استعمال ہونے والی دواؤں کے مضر اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔

    تاہم انھوں نے کہا ہے کہ آنکھوں میں اچانک تبدیلی آنے کی صورت میں فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اس لیے کہ پارکنسنز کی بیماری کی کئی علامات ایسی ہیں جن کی مکمل نشوونما میں وقت لگتا ہے، اور آنکھوں میں خشکی کے اسباب بھی مختلف ہوتے ہیں۔

    برطانوی ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں کچھ لوگوں کو کچھ رنگوں جیسا نیلے اور سبز رنگ میں فرق کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے، تاہم یہ مسئلہ ادویات کے استعمال سے ختم ہو سکتا ہے۔

    یہ سوال کہ پارکنسنز ڈیزیز کیوں لاحق ہوتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ فی الحال یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جینیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی عوامل کا امتزاج اس بیماری کی وجہ بن سکتا ہے۔

  • ہم آج کا کام کل پر کیوں ٹال دیتے ہیں؟

    ہم آج کا کام کل پر کیوں ٹال دیتے ہیں؟

    آج کے کام کو کل پر ٹالنا، یہ وہ عادت بد ہے جو تقریباً ہر شخص کو ہے۔ بہت کم افراد ایسے ہیں جو آج کا کام آج نمٹا دیتے ہیں لیکن ان کی زندگی میں بھی کبھی کبھار کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جب وہ کاہلی کا شکار ہو کر کام کو ٹال دیتے ہیں۔

    لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟

    اس کا جواب ہمیں ایک برطانوی مصنف اور تاریخ دان سرل نارتھ کوٹ پارکنسن نے سنہ 1942 میں پارکنسنز لا (پارکنسن کا قانون) نامی کتاب لکھ کر دیا۔ سرل پارکنسن کو مینجمنٹ کا ماہر کہا جاتا ہے، اس نے 60 کتابیں لکھیں جن میں سے پارکنسن لا کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہے جبکہ اس میں لکھا ایک جملہ محاورے کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔

    وہ کہتا ہے کہ جب ہم کسی کام کو کرنے کے لیے بہت سا وقت مختص کریں تو وہ کام پھیل جاتا ہے۔

    .Work expands so as to fill the time available for its completion

    اس کی مثال ہم یوں سمجھتے ہیں کہ فرض کریں آپ کو ایک خط لکھنا ہے جس کی ڈیڈ لائن رات 10 بجے ہے۔ آپ دوپہر 12 بجے سے اسے لکھنا شروع کردیتے ہیں لیکن آپ سب سے پہلے شاور لیتے ہیں۔

    اس کے بعد ایک گھنٹے تک بہترین کاغذ کا انتخاب کرتے ہیں، اگلا ایک گھنٹہ آپ ایک بہترین قلم منتخب کرنے میں گزارتے ہیں اور اس دوران مختلف پینز کو آزما کر دیکھتے ہیں اور انہیں رد کردیتے ہیں۔

    اس کے بعد آپ لکھنا شروع کرتے ہیں، لکھتے ہوئے آپ خوب سوچتے ہیں، ادھر ادھر سے ڈیٹا ڈھونڈتے ہیں، بہترین لفظ تلاش کرتے ہیں اور بالآخر رات کے 10 بجے تک آپ ایک بہترین خط لکھ لیتے ہیں۔

    اس کے برعکس وہی خط لکھنے کے لیے اگر آپ کے پاس صرف 10 منٹ کا وقت ہو، تو آپ شاور لینے کا خیال دل سے نکال کر، جو کاغذ قلم ہاتھ لگے اسی پر خط لکھ ڈالتے ہیں اور 10 منٹ میں بھی اسے پورا کرلیتے ہیں۔

    یہ وہی خط ہے جو وقت ہونے پر آپ نے 10 گھنٹوں میں لکھا، لیکن حقیقت میں یہ صرف 10 منٹ میں لکھا جاسکتا تھا، اور یہی وہ پارکنسن کا قانون ہے جس کے تحت جس کام کے لیے جتنا وقت مختص کیا جائے وہ کام اتنا ہی پیچیدہ اور وقت طلب بنتا جاتا ہے۔

    یہ دراصل ہماری کام کو کل پر ٹالنے کی عادت نہیں، نہ ہی یہ ہماری کاہلی ہے، بلکہ یہ وہ غیر ضروری کام ہیں جو ہم صرف اس لیے کرتے رہتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس وقت ہے۔

    یہ قانون صرف انفرادی طور پر کسی کو اپنا نشانہ نہیں بناتا، بڑی بڑی کمپنیاں بھی اس کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اگر کسی کمپنی کے کسی پروجیکٹ کی ڈیڈ لائن اگلے ماہ ہے، تو وہ کمپنی روز روز تھوڑا تھوڑا کام کرتی ہے، اس دوران اس پروجیکٹ میں نئے لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے، طویل میٹنگز ہوتی ہیں، یہاں تک وہ پروجیکٹ 1 ماہ میں ہی ختم ہوتا ہے۔

    لیکن اگر ڈیڈ لائن اگلے ہفتے کی ہے، تو جادوئی طور پر وہ پروجیکٹ ایک ہفتے میں بھی مکمل ہوجاتا ہے۔

    اگر آپ اپنے آپ کو کسی کام کو کرنے کے لیے کم وقت دیں، اس دوران غیر ضروری کام کرنے سے گریز کریں تو کم وقت میں بھی آپ اچھا کام کرسکتے ہیں۔

    تو اب جب بھی آپ کسی کام کو ختم کرنے کی ڈیڈ لائن اگلے سال، اگلے ماہ، یا اگلے ہفتے رکھیں تو پارکنسن کے اس قانون کو ایک بار یاد کریں، کیا پتہ آپ وہ کام کل یا آج ہی ختم کرڈالیں۔

  • قریب المرگ خاتون کی آخری خواہش انوکھے انداز سے پوری

    قریب المرگ خاتون کی آخری خواہش انوکھے انداز سے پوری

    انسان کی خواہشات کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ وہ مرنے سے پہلے اپنی آخری خواہش کی تکمیل بھی چاہتا ہے جسے اس کے اہل خانہ اور عزیز و اقارب پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    نیدر لینڈز کی ایک قریب المرگ خاتون کی آخری خواہش بھی انوکھے انداز سے پوری ہوئی جس کے بعد ان کے اہل خانہ کو یقین ہے کہ اب وہ سکون سے اپنی آنکھیں بند کرسکیں گی۔

    یہ خاتون نیلی جیکبز ہیں جو پارکنسن کی بیماری کے باعث حرکت کرنے سے معذور ہیں۔ اس بیماری میں اعصاب کو نقصان پہنچتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ بے جان ہوتے جاتے ہیں نتیجتاً مریض حرکت کرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔

    وہ نیدر لینڈز کے ایک نرسنگ ہوم میں مقیم ہیں جہاں وہیل چیئر ان کی ساتھی ہے اور نرسنگ ہوم کا عملہ ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ نیلی کی آخری خواہش ایک آخری بار گھوڑے پر سواری کرنا ہے۔

    horse-5

    دراصل زندگی بھر نیلی کا سب سے پسندیدہ مشغلہ گھڑ سواری رہا۔ وہ اپنی نوجوانی میں ایک بہترین گھڑ سوار تھیں اور گھڑ سواری کے کئی مقابلے جیت چکی تھیں۔

    horse-4

    بڑھتی عمر اور کئی امراض کے باوجود وہ باقاعدگی سے گھڑ سواری کرتی تھیں حتیٰ کہ انہیں پارکنسن کے مرض نے جکڑ لیا اور وہ اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے بھی قاصر ہوگئیں۔

    تاہم ایک مقامی نجی ادارے نے ان کی آخری خواہش کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔

    اس ادارے نے ایک عارضی بیڈ بنایا اور اس پر نیلی کو لٹا دیا۔ یہ بیڈ دو گھوڑوں پر رکھ دیا گیا جسے لے کر گھوڑے کافی دیر تک ٹہلتے رہے۔

    horse-1

    اس سواری کے لیے خصوصی طور گھوڑوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم بھی نصب کیا گیا تاکہ بیڈ گرنے سے بچا رہے۔

    horse-3

    ان کے بیٹے جان کا کہنا ہے کہ گھڑ سواری کے دوران ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ گھوڑے کی سواری کے ہر لمحہ سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔

    horse-2

    نیلی اپنی اس خواہش کی تکمیل پر بے حد خوش تھیں۔ وہ بول نہیں سکتی تھیں مگر ان کی آنکھوں کی چمک سے ظاہر ہوتا تھا کہ گھوڑے پر ایک بار پھر ’سوار‘ ہو کر وہ بے حد خوش ہیں۔