Tag: پاناماکیس

  • سرکاری ادارے صرف غریبوں کے احتساب کےلیے ہیں‘سراج الحق

    سرکاری ادارے صرف غریبوں کے احتساب کےلیے ہیں‘سراج الحق

    اسلام آباد : جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کا کہناہےکہ آٹھ ماہ گزر گئے نیب کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی،نیب اب بھی معلومات جمع کررہاہے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران سپریم کورٹ کےباہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئےسراج الحق کا کہناتھاکہ آج عدالت نےچیئرمین نیب اورچیئرمین ایف بی آرکو طلب کیاتھا۔

    امیرجماعت اسلامی کا کہناتھاکہ چیئرمین ایف بی آر اور چیئرمین نیب کے بیانات سے ثابت ہوا ماضی میں فیصلےسیاسی بنیادوں پرکیےگئے۔انہوں نےکہاکہ ثابت ہورہاہےنیب،ایف بی آرنےپاناماکیس پرذمہ داری ادانہیں کی۔

    سراج الحق کاکہناتھاکہ سرکاری ادارے صرف غریبوں کے احتساب کے لیے ہیں،تمام ادارے فیصلے دیتے وقت حکومت کی طرف دیکھتے ہیں۔

    امیرجماعت اسلامی نےکہاکہ دہشت گرد اوران کے سہولت کار بھی مجرم ہیں، کرپشن کرنے والے لوگ اور ان کے سہولت کار بھی مجرم ہیں۔

    مزید پڑھیں: سرکاری وکیل کےپاس عدالت کےکسی سوال کاجواب نہیں‘سراج الحق

    واضح رہےکہ پاناماکیس کی گزشتہ سماعت پرجماعت اسلامی کےسربراہ سراج الحق نےکہاتھاکہ سرکاری وکیل کے پاس آج بھی عدالت کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

  • ٔسپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی

    ٔسپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی

    اسلام آباد: سپریم کور ٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت منگل تک ملتوی ہوگئی،سلمان اکرم راجہ اگلی سماعت پر اپنے دلائل کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےپاناماکیس کی سماعت کی۔

    تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان،عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید،جہانگیر ترین،سراج الحق اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اکرم راجہ سے کہاکہ کب اور کتنے جوابات جمع کرائے،جس پرحسین نواز کے وکیل نےکہاکہ تاریخوں کے حساب سے عدالت کو کچھ دیر میں آگاہ کروں گا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ زیادہ ترجوابات مشترکہ طور پرجمع کرائے گئے ہیں،انہوں نےکہاکہ منروا کےساتھ سروسزکا ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ میرے موکل نےایرینا کمپنی کی جانب سے معاہدہ کیا۔انہوں نےکہاکہ حسین نواز نےفیصل ٹوانہ کو بطور نمائندہ مقرر کیا تھا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ تمام دستاویزات گزشتہ رات لندن سے منگوائی ہیں،جبکہ منروا کمپنی کو ادائیگیوں کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کر دی ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ فیصل ٹوانہ حسین نواز کی جانب سے منروا کمپنی سےڈیل کرتے تھے،ہدایات حسین نواز دیتے تھے۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ جودستاویزات آپ دکھا رہے ہیں وہ آف شور کمپنیوں کےڈائریکٹرز کے نام ہیں؟سوال یہ ہےنیلسن اور نیسکول کا ڈائریکٹر کون تھا؟انہوں نےکہا کہ دستاویزات سےثابت کریں حسین نواز کمپنیاں چلا رہے تھے۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فروری 2006 سےجولائی 2006 تک مریم نواز بطور ٹرسٹی شیئر ہولڈر رہیں،جبکہ جولائی 2006 میں منرواکمپنی کے نام رجسٹرڈ شیئرز جاری ہوئے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ منروا کمپنی نے نیلسن اور نیسکول کے اپنے ڈائریکٹرز دیے،2014میں شیئرزمنروا سےٹرسٹی سروسز کو منتقل ہو گئے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ فروری سے جولائی تک شیئرز سرٹیفکیٹ مریم نواز کے پاس رہے،بیئریرسرٹیفکیٹ کی منسوخی سےمریم کی بطور شیئرز ہولڈرز حیثیت ختم ہو گئی۔

    انہوں نےکہاکہ مریم نےبیئریر سرٹیفکیٹ بطور ٹرسٹی اپنے پاس رکھے،جس پرجسٹس اعجاز افضل نےاستفسارکیاکہ شیئرز ٹرانسفر ہونے سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم ہو گئی؟۔

    سلمان اکرم راجہ نےدلائل دیتےہوئے کہاکہ مریم زیرکفالت ثابت بھی ہو تب بھی فلیٹس کی مالک ثابت نہیں ہوتیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ حسین نواز کے پاس لندن میں مہنگی جائیدادوں کےلیےسرمایہ کاری کو بھی دیکھنا ہے،انہوں نےکہاکہ مریم اگر حسین نوازکےبطورنمائندہ کام کرتی تھی تواس دستاویز کو بھی دیکھنا ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ وہ دستاویز ٹرسٹ ڈیڈ ہےجو حسین نواز اور مریم نواز کے درمیان 2006 میں ہوئی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ جولائی 2006 بیریئرسرٹیفکیٹ کی منسوخی کےلیےحسین نواز گئے یا مریم نواز؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ حسین نواز نےسرٹیفکیٹ منسوخ کرائے یا مریم نے اس سے فرق نہیں پڑتا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ اصغر خان کیس میں اسد درانی اور اسلم بیگ نے الزامات کو تسلیم کیا،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کیا اصغر خان کیس میں شواہد ریکارڈ ہوئے؟حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ الزام تسلیم کر لینے پر شواہد ریکارڈ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ سرٹیفکیٹ منسوخی سے ٹرسٹ ڈیڈ ختم نہیں ہوئی،جبکہ موزیک نے اپنی دستاویز سے لاتعلقی ظاہر کی تھی۔انہوں نےکہاکہ مریم نواز نے بھی کہہ چکی ہیں دستاویز پر دستخط ان کے نہیں ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےسوال کیاکہ یہ دستاویز آخر آئی کہاں سے؟جس کےجواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ لگتا ہے موزیک والی دستاویزات فراڈ کر کے تیار کی گئیں۔دستاویز کون کہاں سے لایا،کچھ علم نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ مریم کے بینفشیل مالک ہونے کی جعلی دستاویز عدالت میں جمع کرائی گئی،جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ کہنا چاہتے ہیں فلیٹس سے متعلق چین مکمل ہو چکی۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ حسین نواز کے پاس اتنی مہنگی جائیداد لینے کے لیے سرمایہ نہیں تھا،سلمان اکرم راجہ نے جواب میں کہاکہ جائیداد قطری سرمایہ کاری کے بدلے حسین نواز کو ملی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کیا سپریم کورٹ خود سے کمیشن تشکیل دے کر انکوائری نہیں کر سکتی،جس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آرٹیکل 10 اے میں شفاف ٹرائل کا کہا گیا ہے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ کمیشن کسی شخص کو سزا یا جزا نہیں دے سکتا،کمیشن انکوائری کےنتیجےمیں صرف اپنی رائے دے سکتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کمیشن کا کام شواہد اکٹھے کرنا ہے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ فوجداری معاملے کا ٹرائل کمیشن نہیں کر سکتا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہم یہاں شواہد ریکارڈ نہیں کر رہے،انہوں نےکہاکہ مقدمے کی نوعیت کیا ہے اس کا فیصلہ آخر میں کریں گے۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ آپ کہتے ہیں ہمیں سارا سرمایہ قطری نے دیا،جبکہ اتنے بڑے کاروبار اور لین دین کا آپ نے کوئی حساب نہیں رکھا۔سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت کو دیکھنا ہےکیا یہ جرم ہے یا ریکارڈ نہ رکھنے میں کوئی لاقانونیت ہے۔

    حسین نواز کےوکیل نےکہا کہ عدالت کو دیکھنا ہےاس حوالےسے قانون کیا کہتا ہے،جسٹس کھوسہ نے کہاکہ آپ کےکیس میں 2 باتیں ہو سکتی ہیں،یا ہم قطری والا موقف تسلیم کریں یا نہ کریں۔

    انہوں نےکہاکہ آپ کے پاس ایک یہ ہی موقف ہےاور دستاویزات نہیں ہیں،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آپ قطری والا موقف تسلیم نہیں کرتے تو پھردرخواست ثابت کرے ہم نےجرم کیا۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اسی لیےتو کہہ رہا ہوں آپ جوا کھیل رہے ہیں اور جوا کسی کے حق میں بھی جا سکتا ہے،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ مقدمہ صرف یہ ہے کہ مریم جائیداد کی بینیفیشل ٹرسٹی ہیں یا نہیں ہیں۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ سراج الحق کہتے ہیں کرپشن نظر انداز نہ کی جائے،ملوث افراد کونا اہل قرار دیا جائے،انہوں نےکہاکہ اگر وہ ثابت کرتے ہیں تو ٹھیک،ورنہ سراج الحق کی درخواست سیاسی رقابت ہی سمجھی جائےگی۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ استغاثہ کی ذمہ داری ہے شک و شبہ سے بالا اپنا کیس ثابت کرے،جس کےجواب میں حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ جب کوئی جرم نہیں ہوا تو کمیشن بنانے کا بھی جواز نہیں۔

    انہوں نےکہاکہ اصغر خان کیس میں بھی عدالت نے متعلقہ اداروں کو تحقیقات کا حکم دیا تھا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اصغر خان کیس میں عدالت نے پہلے ڈیکلیریشن دیا تھا،جبکہ اصغر خان کیس کا کرمینل حصہ تحقیقات کے لیے بھجوایا گیا تھا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت نے ڈیکلیریشن اعترافی بیانات پر دیا تھا، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت عدالت ڈکلیریشن دے سکتی ہے۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ عدالت 184/3 میں کسی کو مجرم قرار نہیں دے سکتی،جرم کی تحقیقات متعلقہ اد ارے ہی کرتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ کے موکل نے بھی تو جائیداد یں ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ جائیداد کا اعتراف حسین نوا ز نے کیا،نواز شریف کا جائیداد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔جسٹس کھوسہ نےکہاکہ میاں شریف کا انتقال ہو چکا تھا،بچوں کی اس وقت آمدن نہیں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت اس بنیاد پر کچھ بھی فرض نہیں کر سکتی،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ جائیداد سے متعلق فنڈز کی تفصیلات بھی دستاویزنہیں ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ عدالت وضاحت مسترد کر دے تو بھی درخواست گزار کا موقف تسلیم نہیں کیا جا سکتا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ فلیٹس کے حوالے سے خاندان کے بیانات میں تضاد ہے۔

    انہوں نےکہاکہ امریکہ میں سربراہ مملکت کے خلاف تحقیقات ہوں تو اس کے لیے الگ ادارہ ہے،جس کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ امریکہ میں اس کام کے لیے الگ ادارہ قانون کے مطابق بنایاگیا۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ امریکہ میں یہ کام عدالتوں کے ذریعے نہیں ہوا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ جب تحقیقاتی ادارے آزاد تھے،تب عدالتیں مداخلت نہیں کرتی تھیں۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ وقت اور حالات کے مطابق عدالتوں کو مداخلت کرنا پڑی،انہوں نےکہاکہ ادارے لکھ دیں کچھ نہیں کر سکتے تو عدالت کیا کرے۔

    جسٹس اعجا ز افضل نےکہاکہ حدیبیہ مل کیس میں اپیل نہ کرنے کی نیب کی وجوہات ٹھوس نہیں،انہوں نےکہا طیارہ سازش کیس میں نواز شریف نے بھی مقررہ مدت کے بعد اپیل کی۔سپریم کورٹ نے تاخیر سے آنے والی اپیل بھی منظور کی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالتی کاروای پبلک ٹرائل بنتی جا رہی ہے،انہوں نےکہاکہ میڈیا اورہمارے ساتھی روزانہ شام کو فیصلہ سنا رہے ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نے کہاکہ ون ایٹی فور تھری کے تحت عدالت کوئی فیصلہ دے تو اپیل کا حق نہیں ہو سکتا،انہوں نےکہاکہ اپیل کے حق کا تصور اسلامی قوانین میں بھی موجود ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ عدالت کسی بھی شخص کو فیصلے کے خلاف اپیل کے حق سے محروم نہیں کر سکتی،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ 184/3کے تحت مقدمے میں عدالت متنازع حقائق میں نہیں جا سکتی۔

    جسٹس کھوسہ نےکہاکہ اسی لیے ہم اس مقدمے میں غیر معمولی احتیاط سے کام لے رہے ہیں،جس پر حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ شیطان کو بھی وضاحت کا موقع دیا گیا، مچھلیاں پکڑنے والی انکوائری نہیں کی جا سکتی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ شیطان کو صفائی موقع شریعیت کے قانون کے مطابق دیا گیا،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ آج بھی پی ٹی آئی نے 800 صفحات جمع کرائے ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ بھی اس کے جواب میں 80صفحات جمع کرا دیں،انہوں نےکہاکہ اتنی دستاویز آئیں گی تو کیس کیسے ختم ہوگا۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف،عوامی مسلم لیگ،جماعت اسلامی کے وکلا دلائل مکمل کرچکے ہیں،وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل کے دلائل کے بعداٹارنی جنرل اپنے دلائل دیں گے۔

  • سرکاری وکیل کےپاس عدالت کےکسی سوال کاجواب نہیں‘سراج الحق

    سرکاری وکیل کےپاس عدالت کےکسی سوال کاجواب نہیں‘سراج الحق

    اسلام آباد: جماعت اسلامی کےسربراہ سراج الحق نےکہاکہ سرکاری وکیل کے پاس آج بھی عدالت کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔

    تفصیلات کےمطابق پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران سپریم کورٹ کے باہر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نےکہاکہ دہشت گردی اورکرپشن قومی مسائل ہیں،مسلح دہشت گردی کی طرح مالی دہشت گردی بھی قوم کےلیےخطرہ ہیں۔

    سراج الحق نےکہاکہ مسلح دہشت گردغاروں میں جبکہ مالی دہشت گرد ایوانوں میں ہوتےہیں،حالات کا تقاضاہےمالی دہشت گردوں کےخلاف بھی ایکشن پلان ہوناچاہیے۔

    انہوں نےکہاکہ اب یہ کام عدالتوں کاہے مالی دہشت گردوں کےخلاف کوئی پلان بنائیں،کرپشن ختم ہوجائےتوقوم کےبچوں کو مفت تعلیم دےسکتےہیں۔

    امیرجماعت اسلامی کا کہناتھاکہ آج اور کل کے چوروں میں سب کااحتساب چاہتے ہیں،انہوں نےکہا کہ عدالتی فیصلے سے کرپشن فری پاکستان ہمیں ملےگا۔

    سراج الحق نےکہاکہ سیاسی تعصب نہیں انصاف کی بات کرتا ہوں،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نوازشریف نے سرکاری حیثیت کا غلط استعمال کیا ہے۔

  • ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں‘ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں‘ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد : وزیراعظم نوازشریف کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،12ملین درہم کیسے ملے؟نظر نہیں آرہا،سپریم کورٹ نے پاناماکیس میں اہم سوالات اٹھادیے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجربینچ نے پاناماکیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجسٹس گلزاراحمدنےکہاکہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی،جس پر وقاص ڈارنے جواب دیاکہ ایسےلاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائرنہیں کی گئی۔

    وقاص ڈار نےکہاکہ ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ایسے بہت سے مقدمات ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اس پہلو کو زیر غور لائیں گے جب نیب کی بار آئے گی،جس پر پراسیکیوٹر نیب نےجواب میں کہاکہ ججز کے متفقہ فیصلے کی وجہ سے اپیل دائر نہیں کی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے فیکٹری کی فروخت سے 12 درہم ملین ملے،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ ہو سکتا یے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ75فیصد حصص کی فروخت سے21 ملین درہم قرض کی مد میں ادا کیے،انہوں نےکہاکہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا۔

    جسٹس اعجازافضل کے سوال کے جواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کاروبار پر کنٹرول میاں شریف کا تھا،انہوں نےکہاکہ طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کے مطابق بھٹو دور میں 6 نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے،جسٹس گلزار نےکہاکہ جب پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر میں قطری سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی مل ایک حقیقت ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہمیں کہاگیاسارے ثبوت موجود ہیں،ہمیں ثبوت نظر نہیں آرہے،انہوں نےکہا کہ غلطی ہوسکتی ہے کہ ہمیں نظرنہ آیا ہو۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا یہ سب دانستہ طور پر کیا گیا،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر ی سرمایہ کاری کا ذکر نہیں،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ قطری خاندان کی رضامندی کے بعد قطر سرمایہ کاری کا موقف سامنے لایا گیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ فیکٹری کی رقم کے12ملین درہم کیسے ملے،طارق شفیع جانتے تھے،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ عدالت طارق شفیع کو کٹہرے میں بلالے۔انہوں نےکہاکہ سلمان اکرم12 ملین درہم کیسے ملے یہ نظر نہیں آ رہا۔

    جسٹس عظمت سیعدنےکہاکہ فیکٹری کی فروخت کا معاہدہ موجود ہے،انہوں نےکہاکہ معاہدے میں لکھاگیا ہے12 ملین درہم ملے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ 12ملین درہم کی رقم نقد وصول کی تھی یا بینک کے ذریعے ؟جس پر حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ بیان حلفی میں طارق شفیع نے اس متعلق تفصیل بیان نہیں کی۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ جوسوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطورگواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں،ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ بارہ ہزار درہم کی رقم الثانی فیملی کو6اقساط میں سرمایہ کاری کےلیےدی گئی،انہوں نےکہا کہ بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم میری ان دو کتابوں سےزیادہ نہیں ہوگا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کرنسی اونٹوں پر لاد کر دینے کی بات بعید از قیاس ہے، انہوں نےکہاکہ شریف فیملی کا جہاز کراچی بندرگاہ روک لیا گیا جس سے 50 کروڑ کا نقصان ہوا۔

    انہوں نےکہاکہ شریف فیملی نے1993 سے1996 میں لندن کے فلیٹس نہیں خریدے،جبکہ لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ یہ فلیٹس شریف فیملی کے زیر استعمال کب آئے،جس پر حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ یہ کوئی راز نہیں،شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ 1993سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کا مالک کون تھا،جس پر سلمان اکرم نےکہاکہ شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے،انہوں نےکہاکہ 12ملین ریکارڈ میں ثابت ہےدیکھ لیں۔انہوں نےکہاکہ یہاں جرح یا ٹرائل نہیں ہو رہا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے یہ غیر متنازع حقائق ہیں،انہوں نےکہاکہ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے لیکن 12 ملین درہم کیش میں لے لیے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں، نقد رقم بھی لی جاتی ہے،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ پاناما کا مقدمہ اپنی نوعیت کا کیس ہے۔انہوں نےکہا کہ جو دستاویز لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ 1980میں دبئی میں 1000 درہم کا نوٹ موجود تھا،انہوں نےکہاکہ یہ اتنی بڑی رقم نہیں کہ اونٹوں پر لے جائی جاتی،جبکہ 2006سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے۔

    انہوں نےکہاکہ رحمان ملک رپورٹ کے مطابق 93 میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ تسلیم نہیں کر رہا رپورٹ آئی تو ذکر کیا۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ الثانی خاندان نے 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ حماد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے،جسٹس گلزار نےکہاکہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 میں ان فلیٹس میں حسن، حسین رہتے تھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ بڑےگہرے تعلقات تھے،شریف فیملی 13 سال تک رہائش پذیر رہی،جس پر حسین نواز کے وکیل نے جواب دیاکہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا۔انہوں نےکہاکہ الثانی خاندان کےپاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے،انہوں نےکہاکہ لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ کیا شیزی نقوی پاکستانی شہری ہے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ شیزی نقوی پاکستانی ہے اور ابھی تک التوفیق کمپنی سے وابستہ ہے۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ کیا شیزی نقوی کے بیان حلفی کی نقل کاپی موجود ہے،جس پر حسین نواز کےوکیل نےکہاکہ نقل کاپی موجود ہے، تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ شیزی نقوی کی برطانوی عدالت میں دی گئی بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان پر فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا،کیادوسری پارٹی کی عدم موجودگی پر یہ حکم دیا گیا؟جس پر حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ التوفیق کمپنی کےواجبات 34 ملین ڈالر کے نہیں تھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا،سلمان اکرم راجہ نےجواب دیاکہ التوفیق کیس سے ثابت نہیں ہوتا شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ 13سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہانگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ یقیناً آپ کو قدموں پرکھڑاہونا ہے،گھٹنوں پرنہیں۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ التوفیق کمپنی نے16 ملین ڈالر قرض کے لیے برطانوی عدالت میں مقدمہ کیا،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہمیں بتایا گیا قرض کی رقم 34 ملین ڈالرز تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ 34 ملین ڈالرز قرض کا معاملہ نہیں تھا،جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ التوفیق کمپنی سے قرض کی سیٹلمنٹ حتمی طور پر کتنی رقم پر ہوئی۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ 8ملین ڈالرز قرض کی سیٹلمنٹ ہوئی،جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ قرض کے لیے کیا گارنٹی دی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حدیبیہ مل کی مشینری کو بطور گارنٹی رکھاگیاتھا،جسٹس عظمت نےکہاکہ یہ تمام ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس بھی ہونا چاہیے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ التوفیق کمپنی سے جب سیٹلمنٹ ہوئی کیا حسن اور حسین برطانیہ میں تھے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسین نواز پاکستان میں حراست میں تھے۔

    انہوں نےکہاکہ حسین نواز کو سیٹلمٹ کا مکمل علم نہیں کیونکہ یہ 2000 کے آوائل میں ہوئی،حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ اکتوبر1999 سے دسمبر 2000 تک پوری فیملی حراست میں تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسن نواز 1999 میں لندن میں تھے،جسٹس عظمت نےکہاکہ مطلب یہ ہے8ملین ڈالرز شریف فیملی نےادا نہیں کیے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ ادارے کچھ نہیں کر رہے تو یہ چیز عدالت کے راستے میں رکاوٹ نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ معاملہ اگر چیف ایگزیکٹو کاہوتوکیا کیاجائے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ چیف ایگزیکٹو اداروں کےسربراہ کا تقرر اپوزیشن کی مشاورت سے کرتے ہیں،انہوں نےکہاکہ عدالت اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ اگر آپ عدالت کو دائرہ سماعت پر جانے کا کہیں گے تو میں اس کا حامی نہیں،جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ
    واپس جانے کو تیار نہیں آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ میں تو صرف قانون پر عملدرآمد کا کہہ رہا ہوں،انہوں نےکہاکہ عدالت 184/3 کے مقدمےمیں سزا نہیں دے سکتی۔انہوں نےکہاکہ فیصلوں میں موجود ہےعدالت نے درست تحقیقات کو یقینی بنایا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کو دیکھنا ہےتو ریکارڈ کو سامنے رکھا جائے،انہوں نےکہاکہ کیاعدالت وزیراعظم کی تقریر اور ریکارڈ کو دیکھ کر نا اہلی کا فیصلہ کر سکتی ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا عدالت شواہد ریکارڈ کیے بغیر اتنے سنجیدہ ایشو پر فیصلہ دے سکتی ہے،انہوں نےکہاکہ عدالت صرف غیر متنازع حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حقائق متنازع نہیں تھے اس لیے مشرف کے خلاف عدالت نے براہ راست فیصلہ دیا،انہوں نےکہاکہ عمران خان نے عدالت میں کہہ دیا ہمارا کام الزام لگانا ہے۔

    حسین نوازکے وکیل نےکہاکہ دوسری جانب سے کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا،انہوں نےکہاکہ یہاں ٹرائل نہیں ریکارڈ کا جائزہ لیا جا رہاہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ حسین نواز اگرکچھ چھپا رہے ہوں توکیا سزا وزیراعظم کو دی جا سکتی ہے؟ انہوں نےکہاکہ وزیراعظم کی تقریر کو مسترد نہیں کر سکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کے پہلے وکیل نے تقریر کو سیاسی کہا،انہوں نےکہاکہ مخدوم علی خان نے بہتر الفاظ استعمال کیےاورکہاکہ تقریر عمومی نوعیت کی تھی۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اگرنتیجے پر پہنچیں تو حسین نواز نے پورا سچ نہیں بولا،جسٹس کھوسہ نےکہاکہ وزیراعظم کے وکیل نےعدالت میں کہا جائیداد بچوں کی ہے ان سے پوچھیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوس نےکہاکہ مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں،اب آپ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہیں۔اگر عدالت کو کچھ نہیں بتانا اور کہیں کر لیں جوکرنا ہے۔

    سلمان اکرم نےکہاکہ جو معاملہ شیخ جاسم اور میاں شریف کے درمیان تھا اس کی توقع نہ کی جائے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ آپ بہت بڑا جو کھیل رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ کیامیاں شریف نے سرمایہ کاری پربچوں کو آگاہ نہیں کیا تھا،سرمایہ کاری کی رقم 20 سال قطر پڑی رہی۔انہوں نےکہاکہ کاروباری شراکت دار نے تفصیلات کیوں نہیں دیں۔

  • پاناماکیس میں اگلے3دن نہایت اہم ہیں‘شیخ رشید

    پاناماکیس میں اگلے3دن نہایت اہم ہیں‘شیخ رشید

    اسلام آباد : عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہناہےکہ مقدمے میں سرکار کی طرف سے کوئی مدلل ثبوت پیش نہیں کیاگیا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کے آغاز سے قبل عدالت کےباہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ باہرجس چیزکاشورکیاوہ ابھی تک سپریم کورٹ میں پیش نہیں کی۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کاکہناتھاکہ پانامالیکس سے متعلق سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ میں ججز کے58سوالات میں سے کسی ایک کابھی جواب نہیں دیا گیا۔شیخ رشید کا کہناتھاکہ پاناماکیس میں اگلے تین دن نہایت اہم ہیں۔

    مزید پڑھیں:پاناما پیپرز اللہ کا ازخود نوٹس ہے، شیخ رشید

    اس سے قبل گزشتہ روزعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا تھا کہ پاناما کیس اللہ کا ازخود نوٹس ہے،اب وزیراعظم کے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو استعفیٰ دیں یا اسمبلی تحلیل کردیں۔

    واضح رہےکہ شیخ رشید نےقومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھاکہ آپ کہتے ہیں کہ عدالت میں جا کر بات کریں جبکہ وہ کہتے ہیں کہ عدالت میں استثنیٰ حاصل ہے اس لیے اسمبلی میں جا کر بات کریں کچھ کرلیں یہ معاملہ نہیں رکے گا۔

  • پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    پاناماکیس:شواہدفراہم کرناالزام لگانےوالےکی ذمہ داری ہے‘سلمان اکرم راجہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم نوازشریف کے بیٹوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجز بینچ نے پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

    وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے پاناماکیس میں اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ اسحاق ڈارکےخلاف نااہلی کی درخواست،انٹراکورٹ اپیل خارج ہوئی۔

    نیب نے اسحاق ڈارکی معافی سےمتعلق ریکارڈ عدالت میں جمع کرادیا،عدالت نے نیب سےریکارڈ طلب کر رکھا تھا۔ریکارڈ کےمطابق 20اپریل 2000 کو اسحاق ڈار نے معافی کی درخواست دی۔

    چیئرمین نیب نے21اپریل کومعافی کی درخواست منظور کی،جبکہ 24اپریل کو تحقیقاتی افسر نے بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست دی۔نیب ریکارڈ کےمطابق 25اپریل کواسحاق ڈار کااعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ ہوا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل شاہد حامد نےکہا کہ نواز شریف،دیگر کے خلاف ریفرنسز خارج کرنے کا فیصلہ رپورٹ کیا جا چکاہے،جس پرجسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ فیصلے میں ریفرنس خارج اور تفتیش نہ کرنے کا کہا گیا؟۔

    وفاقی وزیر خزانہ کے وکیل نے جسٹس آصف کھوسہ کے سوال کے جواب میں کہاکہ دوبارہ تفتیش کرانے کےمعاملے پر2رکنی بینچ میں اختلاف تھا اس لیے فیصلہ ریفری جج نے سنایا۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ منی لانڈرنگ کیس میں ریفری جج کو اپنی رائے پر فیصلہ دینا تھا؟جس پرشاہد حامد نے جواب دیاکہ ریفری جج نے نیب کی دوبارہ تحقیقات کی درخواست مسترد کی۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ کیا اس عدالتی فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا؟جس پر اسحاق ڈارکے وکیل نےکہاکہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیاگیا۔

    وفاقی وزیرخزانہ کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا وقت ختم ہو چکا،جس پرجسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ آپ دلائل مکمل کر لیں پھر پراسیکوٹر جنرل نیب سے پوچھیں گے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کااعترافی بیان وعدہ معاف گواہ بننے کے بعد ریکارڈ ہوا،جس پر شاہد حامد نےجواب دیاکہ اسحاق ڈار پر منی لانڈرنگ کیس ختم ہو گیا ہےاب صرف الزام کی بنیاد پر نااہل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

    اسحاق ڈارکے وکیل نے کہاکہ یہ 25 سال پرانا معاملہ ہے جسے 13 سے زائد ججز سن چکے ہیں،انہوں نےکہاکہ منی لانڈرنگ کے الزام کے وقت اسحاق ڈار کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا،جبکہ نیب کے ریکارڈ کے مطابق اسحاق ڈار اب ملزم نہیں رہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کی حفاظت کے لیے اسے تحویل میں رکھا جاتا ہے،جس پر شاہد حامد نے جواب دیاکہ لاہور ہائی کورٹ کے5 ججز نے کہا ایف آئی اے کو بیرونی اکاؤنٹس کی تحقیقات کا اختیار نہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا بیان ریکارڈ کرنے والا مجسٹریٹ احتساب عدالت میں پیش ہوا،جس کےجواب میں شاہد حامد نےکہاکہ اس وقت نیب قوانین کے تحت مجسٹریٹ کا پیش ہونا ضروری نہیں تھا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ اسحاق ڈار کو مکمل معافی دی گئی،انہوں نےکہا کہ اسحاق ڈار نے چیئرمین نیب کو معافی کی تحریری درخواست خود دی؟ معافی کےبعد اسحاق ڈار ملزم نہیں رہے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ وعدہ معاف گواہ بننے والے کابیان حلفی اس کے خلاف استعمال نہیں ہوسکتا، جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ بیان اسحاق ڈار نہیں وزیر اعظم کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہا کہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 26کے تحت اسحاق ڈار کا دوبارہ ٹرائل نہیں ہو سکتا،جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ یہاں ہم اسحاق ڈار کے اعترافی بیان پر غور نہیں کریں گے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ چاہے درخواست گزار ایسا کرنے کی استدعا ہی کیوں نہ کرے،انہوں نےکہاکہ اسحاق ڈار پر ڈبل جیو پرڈی کا اصول لاگو ہوگا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار کو اس کیس میں سزا نہیں ہوئی،انہوں نےکہاکہ اس لیے یہاں ڈبل جیوپرڈی کااصول نہیں لگے گا۔

    جسٹس عظمت نےاسحاق ڈارکے وکیل سے کہاکہ آپ اس نکتے پر دلائل دیں ایک شخص کا 2 مرتبہ ٹرائل ہو سکتا ہےیا نہیں،جس پر شاہد حامدنےکہاکہ اسحاق ڈار سے بیان یہ کہہ کر لیا گیا بیان نہ دیا تو اٹک قلعے سے نہیں جانے دیا جائے گا۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان میں پراسیکیوٹر جنرل نیب نے اسحاق ڈار کیس کی تفصیلات بیان کیں۔عدالت نےاسحاق ڈارکی بریت کے خلاف اپیل دائرنہ کرنے پرتحریری جواب منی لانڈرنگ کیس میں طلب کیا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ نیب،ایس ای سی پی اور اسٹیٹ بینک نے اپیل دائر کیوں نہیں کی،جس پر اٹارنی جنرل نےکہا کہ میں اس کاتحریری جواب دوں گا۔

    سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت میں وقفے کے دوران اعتزازاحسن نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئےکہاکہ قطری شہزادےکاخط اوپن منی لانڈرنگ کااعتراف ہے۔

    اعتزازاحسن کا کہناتھاکہ شریف خاندان کاکون ساشخص ہےجوان کےکاروبارکی دیکھ بھال کرتاہے،پیپلزپارٹی کے رہنمانےکہاکہ نوازشریف اعتراف کرچکےہیں کہ انہوں نےاربوں کاکاروبارکیا۔

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہناتھاکہ قطری اور سونے کاانڈا دینے والی مرغی میں کوئی فرق نہیں،انہوں نےکہا دوسری منی ٹریل اسحاق ڈار کے اردگرد گھومتی ہے۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ حدیبیہ پیپرمل کے نام سےجعلی مل بنائی گئی،اور پیسہ باہربھیج کرحدیبیہ پیپرمل کے ذریعےوائٹ کیاگیا۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما انوشا رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ 2نجی اداروں کےدرمیان نجی طورپرٹرانزیکشنزہوئیں،انہوں نےکہاکہ جوٹرانزکشنز ہوئیں وہ عوام کاپیسہ تھانہ ہی بینکوں سےلیاگیاتھا۔

    انوشارحمان کا کہناتھاکہ بندوق کےزور پر لیےگئے بیانات کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کی توپوں کارخ اب اسحاق ڈارکی طرف ہوگیا ہے۔

    وزیراعظم کے بیٹوں حسین اورحسن نوازکے وکیل کے دلائل شروع

    حسین اورحسن نواز کےوکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کا لندن فلیٹ سے کوئی تعلق نہیں،انہوں نےکہاکہ فلیٹ کےمالک حسین نواز ہیں پوری فیملی کوملزم بنادیاگیا۔

    سپریم کورٹ نےسلمان اکرم راجہ کے دلائل پرریماکیس دیےکہ آپ کو یہ بات ثابت کرناہو گی فلیٹس حیسن نواز کی ملکیت ہیں،اوران کےوالد کاان فلیٹس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےعدالت عظمیٰ میں دلائل دیتے ہوئےکہا کہ میرے کیس کے تین پہلو ہیں،تینوں پہلوؤں پر دلائل دوں گا،انہوں نےکہاکہ حسین نواز لندن فلیٹس کے بینیفیشل اونر ہیں۔

    وزیراعظم کے بیٹوں کے وکیل نےکہاکہ الزام ہے حسین نواز کی بے نامی جائیدادہے،اصل مالک نواز شریف ہیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگاجائیدادیں آپ کی ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ درخواست گزار چاہتا ہےلندن کی جائیداد ضبط کی جائے،انہوں نےکہاکہ درخواست گزار کی استدعا میں تضاد ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ درخواست گزار چاہتا ہے لوٹی گئی رقم سے متعلق تحقیقات کی جائیں،جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ الزام ہےلوٹی ہوئی رقم سے منی لانڈرنگ کی گئی۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ منی لانڈرنگ کا تعین آرٹیکل 184/3 کے مقدمے میں نہیں ہوسکتا،انہوں نےکہاکہ آرٹیکل 184/3میں عدالتی اختیارات وسیع ہے۔

    حسین نواز کے وکیل نےکہاکہ دوسرے اداروں کا کام عدالت نہیں کرسکتی،انہوں نےکہا کہ الزام لگانے والوں نے عدالت کے سامنے شواہد نہیں رکھے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ یہ حقیقت ہے حسین نواز وزیراعظم کے بیٹے ہیں،انہوں نےکہاکہ آپ کے موکل کہتے ہیں وہ کمپنیوں کے بینیفیشل مالک ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ ریکارڈ سامنے لائیں تو حقائق کا پتا چل سکتا ہے،انہوں نےکہاکہ کیا کمپنیوں کےریکارڈ تک رسائی حسین نواز کو ہے۔

    انہوں نےکہاکہ آف شور کمپنیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا جائے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت پہلے قانون کو دیکھ لے،انہوں نےکہا کہ شواہد فراہم کرنا الزام لگانے والے کی ذمہ داری ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ملزم الزام ثابت ہونے تک معصوم ہوتا ہے،جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نےاستفسارکیاکہ گلف فیکٹری کب سے کمرشلی آپریشنل ہوئی؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیےقرض کب لیا؟انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے لیے قرض کن شرائط پر لیا گیااور کس چیز پر لیاگیا یہ تو واضح ہی نہیں ہے۔

    حسین اور حسن نواز کے وکیل نےکہاکہ یہ میاں شریف کا پرانا ریکارڈ ہےجو پیش کررہا ہوں،انہوں نےکہاکہ قرض سےمتعلق کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ تسلیم شدہ ہےدبئی کی گلف فیکٹری 1973 میں قائم کی گئی،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کے 75 فیصد شیئرز کی رقم بینک قرضے کی مد میں واپس کردی گئی۔

    جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ گلف فیکٹری کےواجبات 36 ملین درہم تھے،انہوں نےکہاکہ گلف فیکٹری کی مکمل قیمت فروخت 33.375 ملین درہم بنتی ہے۔

    انہوں نےکہا کہ فیکٹری کے واجبات کیسے ادا ہوئے،بتایا جائے،جسٹس گلزار نےکہاکہ بظاہرتو کمپنی خسارے میں چل رہی تھی تو12 ملین درہم کا منافع کیسے ہوا؟۔جس پر حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ نئی کمپنی نے جب گلف فیکٹری کا انتظام سنبھالا تو خسارہ نہیں تھا۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ 1978میں فیکٹری کے75 فیصد حصص فروخت کرکے15 ملین واجبات باقی تھے،انہوں نےکہاکہ کیا آپ کو کوئی اندازہ ہے کہ باقی واجبات کیسے ادا ہوئے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ کوئی اندازہ نہیں صرف قیاس آرائیاں ہیں۔

    وزیراعظم کے بچوں کےوکیل نے کہاکہ کلثوم نوازاس کیس میں فریق نہیں ان کے بیان کا بھی حوالہ دیا گیا،انہوں نےکہاکہ میاں شریف کو لوہے کے کاروبارکا چار دہائیوں کا تجربہ ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ‏فیکٹریاں قومیائے جانے کےباعث 1973میں دبئی کی رائل فیملی سے رابطہ کیاگیا،انہوں نےکہاکہ دبئی کی رائل فیملی نےاسٹیل پلانٹ لگانے کےلیے میاں شریف کوویلکم کیا۔

    حسین نوازکےوکیل نےکہاکہ‏1975 میں گلف اسٹیل کے 75 فیصد شیئر فروخت کیے،انہوں نےکہاکہ ‏1980میں فیکٹری کےباقی 25فیصد شیئرز کی فروخت سے 12ملین درہم ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہاں میاں شریف مرحوم کا ٹرائل ہورہا ہے،انہوں نےکہاکہ 1970کی دہائی میں میاں شریف نے فیکٹری لگائی۔

    انہوں نےکہا کہ چالیس سالہ ریکارڈ سنبھالنے کی کیا ضرورت تھی،یہ اکاؤنٹ میاں شریف کے تھے،حسن اور حسین کے نہیں،انہوں نےکہاکہ بارہ ملین درہم شریف فیملی کو فیکٹری کی فروخت سے ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ان چیزوں کا ریکارڈ مانگا جارہا ہے جن کا تعلق میاں شریف مرحوم سے ہے،انہوں نےکہاکہ 1980میں دبئی اسٹیل کی فروخت کے دستاویز پر طارق شفیع نےخود دستخط کیے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ طارق شفیع کےدستخطوں میں بہت زیادہ فرق لگتا ہے،انہوں نےکہاکہ طارق شفیع کے بیان حلفی اور فیکٹری فروخت کے معاہدے پر دستخط میں فرق واضح ہے۔

    سلمان اکرم راجا نےکہاکہ وقت گزرنے کےساتھ دستخط میں فرق آہی جاتا ہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ 1972میں فیکٹری کا پیسہ دبئی گیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کوئی وضاحت نہیں کی گئی پیسہ کہاں سے آیا،صرف کہا گیا قرض لےکر فیکٹری لگائی،جس کےجواب میں سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی فیکٹری کے لیے پیسہ پاکستان سے دبئی نہیں گیا۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں پانامالیکس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیےملتوی کردی گئی،حسین اور حسن نواز کے وکیل کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

  • پاناماکیس میں ہم سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہیں گے‘سراج الحق

    پاناماکیس میں ہم سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہیں گے‘سراج الحق

    اسلام آباد : جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہناہےکہ چیئرمین نیب کوخط لکھاتھا کہ پاناماکی تحقیق کرکےعدالت میں کیس دائرکریں۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےبات کرتے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہناتھاکہ چیف جسٹس اورصوبائی ہائی کورٹس کےچیف جسٹس چیئرمین نیب کی تقرری کریں۔

    سراج الحق کا کہناتھاکہ چیئرمین نیب کسی کےاحسان مندنہ ہوتےتواتنےعرصےسےانکوائری کیوں نہیں کرسکے،انہوں نےکہاکہ چیئرمین نیب کوخط لکھاتھاپاناماکی تحقیق کرکےعدالت میں کیس دائرکریں۔

    جماعت اسلامی کے امیر کا کہناتھاکہ حکمران اپنےاثاثہ جات کی تفصیل دینےمیں ناکام ہوگیاہے،انہوں نےکہاکہ عدالت یہ کیس جلدمکمل کرلے،قوم انتظارمیں ہے۔

    سراج الحق نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اراکین کا استحقاق مجروع ہوا،انہوں نےکہا کہ جب آپ آپس میں لڑتےہیں توقوم سمجھتی ہے یہ جمہوریت کچھ دینےکےقابل نہیں ہے۔

    انہوں نےکہا کہ جب تک قوم ایمانداروں کوووٹ نہیں دینگےتقدیرنہیں بدلےگی،کرپٹ لوگ آئین کے آرٹیکل 62،63کو نکالنا چاہتے ہیں۔

    واضح رہےکہ سراج الحق کا کہناتھاکہ آزادکشمیرمیں جماعت اسلامی اوروہاں کی ن لیگ نےایڈجسٹمنٹ کی تھی،تاہم پاناماکیس میں ہم سچ کوسچ اورجھوٹ کوجھوٹ کہیں گے۔

  • قطری خط پارٹ ٹوسےقوم کامذاق اڑایاگیاہے‘عمران خان

    قطری خط پارٹ ٹوسےقوم کامذاق اڑایاگیاہے‘عمران خان

    اسلام آباد: چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کا کہناہےکہ قطری بزنس پارٹنر ہےاس لیے خط دے رہاہے،انہوں نےکہا کہ اسحاق ڈاران کےلیےمنی لانڈرنگ کرتےتھے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہناتھاکہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ سے متعلق مجسٹریٹ کواعترافی بیان دیاتھا۔

    تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نےکہاکہ نوازشریف نےنیب کاسربراہ مقررکیا،انہوں نےنوازشریف کےخلاف اپیل نہیں کی،انہوں نےکہا کہ آج سے20سال پہلےایک اعشاریہ2ارب روپےکی منی لانڈرنگ ہوئی۔

    عمران خان نےکہاکہ آج سپریم کورٹ میں کیس نہ ہوتایہ باتیں سامنےنہ آتیں،انہوں نےکہاکہ رحمان ملک نےتفتیش کی تھی،چارٹرآف مک مکاتھااس لیےکچھ نہیں کیا۔

    مزید پڑھیں:ایوان میں ہنگامہ آرائی ، عمران خان کا اسمبلی کو بند کرنے کا مطالبہ

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت سے قبل چیئرمین تحریک انصاف عمران خان ایوان میں ہنگامہ آرائی پر پھٹ پڑے اور اسمبلی کو بند کرنے کا مطالبہ کردیاتھا۔

  • وعدہ معاف گواہ کامعافی کے بعد بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    وعدہ معاف گواہ کامعافی کے بعد بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت پیر تک کےلیے ملتوی کردی گئی،اسحاق ڈار کے وکیل پیرکو اپنے دلائل کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجز بینچ نے پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پروزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے عدالت عظمیٰ میں جائیداد کی تقسیم اورتحائف کے تبادلوں کی تفصیلات جمع کرانےکےلیے پیر تک مہلت مانگ لی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ پہلے کہاگیاکہ تمام دستاویزات ہیں، پیش کر دی جائیں گی،انہوں نےکہاکہ اب آپ دستاویزات پیش کرنے کے لیے وقت مانگ رہے ہیں۔

    اسحاق ڈار کے وکیل شاہد حامد نے دلائل کا آغاز کردیا

    وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کےوکیل شاہد حامد نےدلائل دیتے ہوئےکہاکہ میرے موکل پرالزام ہے پچیس اپریل دوہزار کومجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان دیا۔

    شاہد حامد نے کہا کہ اعترافی بیان میں 14.866ملین روپے کی منی لانڈرنگ کا اعتراف کیاگیا،انہوں نےکہاکہ الزام میں کہا گیاوزیراعظم کے بھائی کے لیےاکاؤنٹ کھلوائے گئے۔

    جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا اسحاق ڈار اپنے بیان حلفی سے انکاری ہیں؟جس پر شاہد حامد نےکہاکہ اسحاق ڈار اپنے بیان کی مکمل تردید کرتے ہیں۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہا کہ فوجی بغاوت کے بعد میرے موکل کو پہلے گھرمیں نظر بند رکھا گیا،اور انہیں تعاون پر حکومت میں شمولیت کی پیش کش کی گئی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ پہلے سے لکھے گئے ایک بیان پر زبردستی دستخط کرائے گئے،بیان لینے کے بعد دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔انہوں نےکہا کہ میرے موکل کو 2001تک حراست میں رکھاگیا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہا کہ رہائی کے بعد تفصیلی انٹرویو میں میرے موکل نے اپنے بیان کی تردید کی،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ مجسٹریٹ تصدیق نہ کرتا تو اس کی حیثیت کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں۔

    شاہد حامد نے کہاکہ 15اکتوبر 1999کواسحاق ڈار کو حراست میں لیاگیا۔انہوں نےکہاکہ 1994میں حدیبیہ انجینئرنگ اورحدیبیہ پیپرملزکے خلاف مقدمہ ہوا۔

    اسحاق ڈار کےوکیل نےکہاکہ میاں شریف، حسین نواز، عباس ، نواز ، شہباز شریف اورحمزہ شہباز نامزد تھے،انہوں نےکہاکہ ان ایف آئی آرز پر چالان پیش ہوا اور کیس کا فیصلہ 1997 میں ہوا۔شاہد حامد نےکہاکہ1997میں ماتحت عدالت نے تمام نامزدملزمان کے خلاف چالان ختم کرکے بری کر دیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ اس کیس میں صرف چالان ختم ہوا، ایف آئی آر موجود ہیں،انہوں نےکہاکہ ایک درخواست میں صرف چالان ختم ہوا اور ملزمان بری ہو گئے یہ کیسے ممکن ہوا؟۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ عدالت عالیہ رٹ پٹیشن میں ایسا فیصلہ کیسے دے سکتی ہے؟جس پر شاہد حامدنےکہاکہ یہ بیان صرف کاغذ کا ٹکڑا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ یہ کاغذ کا ٹکڑا نہیں،شواہد کا حصہ ہےجس پر کبھی کارروائی نہیں ہوئی،انہوں نےکہاکہ نیب ریفرنس تحقیقات قانون کے تحت نہ ہونے پر خارج ہوا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ہائی کورٹ نے اس کیس کو تکنیکی بنیادوں پر ختم کیا تھا،جس پر شاہد حامد نےکہا کہ نیب ریفرنس میں بھی وہی الزامات لگائے گئے تھے جو ایف آئی اے نے لگائے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ 1997میں عدالت عالیہ ان الزامات پر ملزمان کو بری کر چکی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ اسحاق ڈار کے خلاف2ججز نے انٹراکورٹ اپیل سنی جو عموماً5ججز سنتے ہیں۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہاکہ پروٹیکشن قانون کے تحت ایک الزام میں بری ہونے پر دوبارہ کارروائی نہیں ہو سکتی،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ پروٹیکشن قانون بنا تو نواز شریف وزیراعظم اور اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے؟۔

    شاہد حامد نےکہاکہ اسحاق ڈار نہ ہی وزیرخزانہ تھے اور نہ ہی قواسمبلی کےممبر تھے۔جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ اسحاق ڈار منی لانڈرنگ کیس میں چیئرمین نیب کو اپیل کرنی چاہیے تھی۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ چیئرمین نیب اپیل میں سپریم کورٹ آتے تو ہم دوبارہ تفتیش کرنے کا حکم دیتے،انہوں نےکہاکہ شریف فیملی کے خلاف 1994 کی ایف آئی آر اور 2000 کی ایف آئی آر میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کا تعلق شریف فیملی کے فنانشل کرائم سے بھی نہیں۔جسٹس آصف کھوسہ نےکہاکہ کیا کسی بھی ملزم کو شامل تفتیش کیے بغیر کیس ختم کر دیا گیا؟۔

    شاہد حامد نےکہا کہ اس وقت حمزہ شہباز کے علاوہ سب لوگ بیرون ملک تھے،جس پر جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ اگر کوئی شامل تفتیش نہ ہو تو 12 ارب کا معاملہ ختم کر دیا جائےگا۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا فارن کرنسی اکاؤنٹس کو اکنامک ریفارمز میں پروٹیکشن دی گئی ؟انہوں نےکہا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹس جو پاکستان میں ہوں ان کو پروٹیکشن دی گئی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ کیس دو گراؤنڈز پر ختم کیا گیا،جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ کیا اسحاق ڈار کو بیان سے پہلے وعدہ معاف گواہ بنایا گیا یا بعد میں؟جس پرشاہد حامدنےکہاکہ اسحاق ڈار کو اعترافی بیان دینے سے پہلے وعدہ معاف گواہ بنایاگیا تھا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نےکہاکہ حدیبیہ پیپر ملز کا ابتدائی ریفرنس 27 مارچ 2000 کو بنایا گیا،جبکہ حتمی ریفرنس 16 نومبر 2000 کو بنایا گیا۔

    شاہد حامدنےکہاکہ تین دسمبر 2012 کو ریفرنس ہائی کورٹ نے ختم کیا دوبارہ تفتیش پر اختلاف کیا،انہوں نےکہاکہ ریفری جج نے2014 میں دوبارہ تفتیش کے اختلافی فیصلے میں تفتیش نہ کرانے کا فیصلہ دیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ کیا اسحاق ڈار کو معافی دی گئی تھی ؟انہوں نے کہا کہ اگرمعافی نہیں دی گئی تو یہ ایک ملزم کا بیان ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ وعدہ معاف گواہ کامعافی کے بعد بیان ریکارڈ کیا جاتا ہے،انہوں نےکہاکہ اس طرح کے معاملے میں ملزم کو معافی کی پیشکش کی جاتی ہے۔انہوں نےکہاکہ معافی قبول کرنے کےبعدایسا بیان دیا جاسکتا ہے۔

    انہوں نےکہا کہ کئی کیسز میں ملزم معافی کی پیش کش قبول نہیں کرتے،اس کیس میں یہ معاملہ بہت اہم ہے،انہوں نےکہاکہ نیب کے سیکشن 26 ای کے تحت دو طرح کی معافی ہوتی ہے۔

    سپریم کورٹ آف پاکستان نے پراسیکیوٹر جنرل نیب سے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کاریکارڈ طلب کرلیا۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت پیرتک کےلیے ملتوی کردی گئی،اسحاق ڈار کے وکیل اپنے دلائل اگلی سماعت پر جاری رکھیں گے۔

  • لمبےلمبےخط شہزادہ سلیم نےبھی انارکلی کونہیں لکھے تھے‘شیخ رشید

    لمبےلمبےخط شہزادہ سلیم نےبھی انارکلی کونہیں لکھے تھے‘شیخ رشید

    اسلام آباد : عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کا کہناہےکہ وزرااپنےبیانات میں تلخی پیدا کررہے ہیں،جبکہ انصاف کودھمکانے اور مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کے باہر شیخ رشید نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئےکہا کہ کل جوکچھ قومی اسمبلی میں ہواوہ بلاوجہ نہیں ہوا،انہوں نےکہا کہ وزرا اپنے بیانات میں تلخی پیدا کررہے ہیں۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہناتھاکہ لمبےلمبےخط شہزادہ سلیم نےبھی انارکلی کونہیں لکھے تھے،انہوں نےکہاکہ تمام خریدوفروخت کےپیچھےقطری چہرہ نظرآرہاہے۔

    شیخ رشیدنےکہاکہ کرپشن کاتابوت یہیں سےنکلےگا،20کروڑلوگوں میں شریف خاندان بےنقاب ہوچکاہے،انہوں نےکہاکہ شریف خاندان نےدولت کےلئےاپنی عزت داؤپرلگادی ہے۔

    مزید پڑھیں:وفاقی وزراء کی زبان ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جا رہی ہے، شیخ رشید

    واضح رہےکہ گزشتہ روز عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید احمد نےکہاتھاکہ ہم پاناما کیس عدالت میں انصاف،ثبوت اور دلائل کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔