Tag: پاناماکیس

  • عمران خان اعصابی دباؤ اوربوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں‘سعد رفیق

    عمران خان اعصابی دباؤ اوربوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں‘سعد رفیق

    اسلام آباد: وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کاکہناہےکہ مخالفین مقدمہ عدالت کی بجائےسڑکوں،گلیوں میں لڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق اسلام آباد میں سپریم کورٹ کےباہر میڈیاسےگفتگوکرتے ہوئےوفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق نےکہاکہ عمران خان اعصابی دباؤاوربوکھلاہٹ کا شکار ہوچکے ہیں۔

    وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہناتھاکہ توقع ہےعدالت کا فیصلہ واضح ہوگا،ابہام نہیں ہوگا،انہوں نےکہا کہ عدالتی کارروائی نے مخالفین کی نیندیں اڑادیں ہیں۔

    مسلم لیگ ن کےرہنما خواجہ سعد رفیق کا کہناتھاکہ ہماری حکومت کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

    وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نےکہاکہ وکلا اور ججز کے درمیان گفتگو پرکوئی بات نہیں کریں گے،انہوں نے کہا کہ مخالفین کی جانب سے4سال سےجوالزامات لگائےگئےاب ان کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چوہدری کا کہناتھاکہ خان صاحب پانچ سال بعد قوم پوچھے گی تو کیا بتائیں گے کہ ایک درجن دھرنے دیے،2 درجن جھوٹے الزامات لگائے۔انہوں نےکہاکہ خان صاحب کوئی کام کریں،قوم کو کیا بتائیں گے۔

    واضح رہےکہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی طلال چوہدری کا کہناتھاکہ سپریم کورٹ کو جھوٹے الزامات لگانے والوں پربھی کارروائی کاحکم دیناچاہیے۔

  • پاناماکیس :سپریم کورٹ میں جائیداد کی تقسیم سےمتعلق تفصیلات طلب

    پاناماکیس :سپریم کورٹ میں جائیداد کی تقسیم سےمتعلق تفصیلات طلب

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامالیکس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیےملتوی ہوگئی،مریم نواز کے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناماکیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس میں سماعت کے آغاز پر مریم صفدر کےشاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ میری موکلہ کی جانب سےداخل جواب پرمیرےدستخط ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نے سوال کیا کہ میاں شریف کی وفات کےبعدان کی جائیدادکاکیابنا؟جس پرشاہدحامدنےکہاکہ شریف خاندان میں جائیداد کےحوالے سے سےجھگڑایاتنازع نہیں ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کیایہ ممکن ہے میاں شریف کی وفات کے بعدوراثتی جائیدادکی تقسیم سےمتعلق ایک دوروزمیں آگاہ کیاجاسکے۔مریم صفدر کے وکیل شاہد حامد نےکہاکہ نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں کہاوہ والدہ کےگھررہتےہیں۔

    انہوں نےکہا کہ اگرکوئی ٹیکس ریٹرن نہ جمع کرائےاسے28ہزارجرمانہ دیناپڑتاہے،ٹیکس ریٹرن فائل نہ ہونےپرنااہلی کاسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نےکہا کہ ٹیکس کا معاملہ ایف بی آرکے دائرہ اختیار میں آتا ہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ کیپٹن صفدرکےخلاف ریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواہے،انہوں نےکہا کہ الیکشن کمیشن کو ریفرنس پر فیصلہ دینے کا مکمل اختیار ہے۔

    جسٹس اعجاز نےکہا کہ ریفرنس میں سوال اٹھایاگیاتوسپریم کورٹ مداخلت کیوں کرے؟انہوں نےکہاکہ عدالت آرٹیکل184/3کےتحت متوازی کارروائی کیسےکرسکتی ہے؟۔

    مریم صفدر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ عدالت ریفرنس خود سنے تواس کی مرضی ہے،جس پر جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ جب متعلقہ فورم ہے تو مقدمات ہم کیوں سنیں؟۔انہوں نےکہاکہ دیگرادارےبھی ریاست نےآئین کےمطابق بنائےہیں۔

    شاہد حامد نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم ہو یا عام شہری، قانون سب کے لیے برابر ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ کسی رکن اسمبلی کے لیےکیا طریقہ کار ہے؟جس پر شاہد حامد نےکہاکہ منتخب نمائندےکی نااہلی کیلئےکو وارنٹو کی رٹ دائرکی جا سکتی ہے۔انہوں نےکہاکہ وزیراعظم کی نااہلی کےلیےریفرنس الیکشن کمیشن میں زیر التواہے۔

    مریم صفدر کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئےکہاکہ میری موکلہ کامؤقف ہےبیرون ملک کوئی جائیداد نہیں ہے۔مریم صفدر کےمطابق لندن فلیٹس بھائی کے نام پر ہیں۔

    شاہد حامد نےکہاکہ حسین نواز کا بھی یہ ہی موقف ہےکہ لندن فلیٹس ان کے نام پر ہیں،انہوں نےکہا کہ درخواست گزار کا اصرار ہےمریم بیرون ملک پراپرٹی کی مالک ہیں۔

    مریم صفدرکے وکیل نے کہاکہ میری موکلہ کو والد کے زیرکفالت بھی کہاجارہاہے،انہوں نےکہا کہ ایسااس لیے کیاجا رہا ہے والد کو پراپرٹی کےمعاملےمیں ملوث کیاجا سکے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگو

    وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہاکہ ڈرامہ کرنے والی جماعت کامقصد پاناماپرسیاست کرنا ہے۔انہوں نےکہا کہ الزامات لگانے والے مریم نواز سے خوفزدہ ہیں۔

    مریم اورنگزیب کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی نے ہمیشہ کی طرح عدالت میں غلط دستاویزات جمع کرائے،انہوں نےکہا کہ عمران خان 2018میں آپ کوعوام کی عدالت کاسامنا کرنا ہے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کا کہناتھاکہ عمران خان آپ کب تک عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکیں گے،انہوں نےکہاکہ یہ لوگ ثبوت نہ ہونے پرجھوٹے الزامات پراترے آئے ہیں۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ ہمت ہے تو عمران خان ٹوئٹ سے متعلق جواب دیں،انہوں نےکہا کہ عمران خان آپ جوگڑھے کھود رہے ہیں خوداس میں گریں گے۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما مائزہ حمید نےسپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتےہوئےکہاکہ گزرتے وقت کےساتھ پی ٹی آئی والوں کی شکلیں اترتی جارہی ہیں۔

    تحریک انصاف کے رہنما کی میڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کےرہنما فواد چودھری کا کہناتھاکہ عدالت کےاندر کچھ باہر آکرکچھ بات کی جاتی ہے،انہوں نےکہا کہ عدالت میں استثنیٰ مانگتے ہیں،باہر آکر انکار کردیتے ہیں۔

    فواد چودھری نےکہا کہ پاکستان کے لوگ سچ دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں،انہوں نےکہا کہ جنوری 2014سے پہلے کیپٹن صفدرٹیکس ادا نہیں کرتے تھے،انہیں این ٹی این ہی 28جنوری 2014کوجاری کیا گیا۔

    پی ٹی آئی کے رہنما کا کہناتھاکہ مریم نوازکے پہلے بیان میں قطری خط کاکوئی ذکر نہیں ہے،انہوں نےکہا کہ شریف خاندان نے مختلف دستاویزات پرمختلف لوگوں کے دستخط کرائے ہوئے ہیں۔

    جسٹس عظمت شیخ نے مریم صفدرکے وکیل کی توجہ ایک ای میل کی طرف دلائی،مریم نے2004 میں تسلیم کیا وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل اونر ہیں۔انہوں نےکہا کہ یہ دستاویز سب واضح کرتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیا ہم مریم کے دستخط اس دستاویز میں دستخطوں سے میچ کرسکتے ہیں، جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ دستاویزات کو دفن کرنے کی کوشش نہ کریں۔

    شاہد حامد نےکہا کہ عدالت مریم کے دستخطوں کا جائزہ لے سکتی ہے،انہوں نےکہا کہ مریم صفدرسے منسوب جس دستاویز کا حوالہ دیا جارہا اس پر مریم کے جھوٹے دستخط ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ دستخط کے معاملے پر کوئی ماہر ہی رائے دے سکتا ہے،انہوں نےکہاکہ ججز دستخط کی سائنس کے ماہر نہیں ہیں۔

    جسٹس گلزاراحمد نےکہا کہ بظاہر دستخط میں کافی فرق نظر آرہاہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ مریم نواز کی ذاتی معلومات کے فارم پر بھی دستخط موجود ہیں۔انہوں نےکہاکہ پاناماجا کرمریم نواز کی دستخطوں والی دستاویز نہیں دیکھی جا سکتی۔

    جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ منروا کمپنی کا خالی فارم ویب سائٹ سے مل جاتا ہے،انہوں نےکہا کہ منروا کمپنی کو 2006 میں ہائر کیا گیا تو2011 کی دستاویزات کیوں پیش کی گئیں۔

    مریم صفدر کے وکیل نےکہاکہ کسی نے میراپرسنل اکاؤنٹ بھی ہیک کرنے کی کوشش کی،انہوں نےکہاکہ مجھے ای میل آئی پاس ورڈ تبدیل کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ کیا آپ مریم نواز کے دستاویز سے انکار کرر ہے ہیں،جس پر مریم صفدر کےوکیل نےکہاکہ یہ تو کہہ دیا مریم نواز بینیفیشل مالک ہیں،لیکن یہ نہیں بتایاوہ نیسکول یانیلسن کمپنی کی مالک ہیں۔

    جسٹس عظمت سعیدنےکہا کہ اگر یہ دستاویز 2012 کی ہیں تو اس مقدمے سے اس کا کیا تعلق ہے،جسٹس اعجازاالاحسن نےکہاکہ تحریری جواب کے مطابق مریم نواز صرف نیسکول کی ٹرسٹی ہیں۔

    شاہد حامد نےکہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق مریم نواز نیسکول اور نیلسن کی ٹرسٹی ہیں،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ مریم نے تحریری بیان میں خود کو نیسکول کی ٹرسٹی تک کیوں محدود رکھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ کے تحریری جواب میں یکسانیت نہیں،انہوں نےکہا کہ مریم نواز نے کہاحسین نواز این ٹی این ہولڈر نہیں ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ مریم نواز 2006 سے ٹرسٹی ہیں تو یہ غلطی نہیں ہونی چاہیے۔

    مریم صفدر کےوکیل نےکہاکہ میری موکلہ کے حوالے سے جعلی دستاویز پیش کی گئیں،انہوں نےکہاکہ جعلی دستاویز پیش کرنے والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ تاثرملتا ہے کارروائی کےساتھ جوابات میں بھی بہتری لائی جارہی ہے،جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ ایشوایمانداری کا ہے،انہوں نےکہا کہ ہم سمجھنا چا رہے ہیں کہ سچ کیا ہے۔

    مریم صفدر کےوکیل نےکہاکہ تحقیقاتی ادارے کے پوچھنے پر مریم نواز کو کمپنیوں کا بینیفیشل مالک بتایا گیا،انہوں نےکہاکہ موزیک فونسیکا کے پاس معلومات تھیں تو منروا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ دستخطوں کے حوالے سے ایک معمہ ہے،جس پر شاہد حامد نےکہاکہ میرادعویٰ ہےدستاویز پر دستخط جعلی ہیں،انہوں نےکہاکہ آف شور کمپنیوں کے اصل مالک حسین نواز ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ بینک نے مریم نواز کے حوالے سے منروا کو کیوں خط لکھا ؟جس پر مریم صفدرکے وکیل نےکہاکہ منرواسروسز کمپنی کی خدمات حاصل کرنے پر بینک نے یہ خط لکھا۔

    شاہد حامد نےکہاکہ حسین نوازکے ورثا کے درمیان اثاثوں کی تقسیم کے لئے مریم کو ٹرسٹی بنایا گیا،انہوں نےکہاکہ حسین نواز کی دو شادیاں اور سات بچے ہیں،اثاثوں کی تقسیم کے لئے حسین نواز نے ٹرسٹ بنایا۔

    مریم صفدر کے وکیل نےکہاکہ حسین نواز کی دونوں بیویاں الگ ملکوں کی شہریت رکھتی ہیں،جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہاکہ مریم نے ٹی وی انٹرویو میں ٹرسٹی ہونے کا کیوں نہیں بتایا؟کیا مریم کو اپنے ٹرسٹی ہونے کا علم نہیں تھا؟۔

    مریم صفدر نےانٹرویومیں کہا کہ ان کی لندن میں کوئی جائیدادنہیں،والد کے ساتھ رہتی ہوں،جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مریم والد کے ساتھ کب رہتی تھیں، وہ تو دادی کے ساتھ رہتی تھیں۔

    واضح رہےکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ناماماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کردی گئی،مریم صفدر کے وکیل کل چوتھے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

  • ضرورت ہوئی تو نوازشریف کو عدالت بلائیں گے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    ضرورت ہوئی تو نوازشریف کو عدالت بلائیں گے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کےلیےملتوی ہوگئی،مریم نوازکے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے پاناماکیس کی سماعت کی۔

    جماعت اسلامی کےوکیل توفیق آصف نے پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر آج تیسرے روز وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے متعلق عدالت عظمیٰ میں اپنے دلائل دیے۔

    توفیق آصف نے پاناماکیس کی سماعت کے دوران دلائل دیتے ہوئےظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا،جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اس کیس میں خالدانورنواز شریف کے وکیل نہیں تھے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں خالد انور کے عدالت میں دلائل بیان کرنا چاہتاہوں،انہوں نے کہا کہ میں اس بات کواجاگرکروں گاخالدانور ان کی وکالت کرتےرہےہیں۔

    جسٹس آصف سعیدکھوسہ نےکہا کہ آپ عدالتی فیصلے کی فائنڈنگ بتائیں،انہوں نےکہا کہ وکیل کی کیااستدعا تھی یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ظفرعلی شاہ کیس میں نوازشریف کو فریق بنایا گیا تھا،جس پرعدالت نے اعتراض کیا تھامگر بات درست تھی۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ آپ کی درخواست میں بھی لکھاگیاتھاخالد انور وکیل تھے،جس پرتوفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کے فیصلے کو پڑھوں گا۔انہوں نے کہا کہ اس فیصلے میں ذکر ہےلندن فلیٹس شریف خاندان کے تھے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہماری دلچسپی اس مقدمے میں عدالتی فائنڈنگ پر ہے،جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ عدالت نے فیصلے میں مبینہ کرپشن کا ذکر کیا۔انہوں نےکہا کہ مبینہ کرپشن کو فیصلہ نہیں کہہ سکتے۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ خالد انور کس کی جانب سے پیش ہو رہے تھے،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وہ ظفر علی شاہ کے وکیل تھے۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ نہیں وکیل صاحب آپ کو پتہ ہی نہیں ہے،آپ نے فیصلہ بھی نہیں پڑھا اور حوالہ دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ فیصلے میں کہا گیا نواز شریف گڈگورننس میں ناکام ہوئے،جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ قانون کے بنیادی اصولوں کو نظرانداز کر رہے ہیں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ خالد انور نے نواز شریف کا دفاع کیا،خالد انور کے پاس نواز شریف کا وکالت نامہ نہیں تھا،انہوں نےکہا کہ لندن فلیٹس التوفیق کیس میں گروی رکھےگئے۔

    توفیق آصف نے کہا کہ مجھے پیراگراف 127 پڑھنے کی اجازت دیں،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جو دل کرتا ہے وہ پڑھتے رہیں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ یہ تو اس عدالت نے قوم پر بڑا احسان کیا ہے،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ جی ہاں ایسا ہی ہے۔

    جسٹس عظمت نےکہا کہ نہ آپ نے فائل دیکھی نہ فیصلہ پڑھا، آپ نے بے بس کر دیا،انہوں نے کہاکہ آپ نے بالکل ہی مذاق بنا لیا ہے کچھ تو پڑھ لیا ہوتا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ پانچ منٹ دیں درستی کرتا ہوں،جس پرجسٹس عظمت سیعد شیخ نےکہا کہ پڑھیں جو آپ کا دل کرتا ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ آپ نے کیس کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے،انہوں نےکہا کہ خالد انور نواز شریف کے نہیں درخواست گزار کے وکیل تھے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ شک ہے دبئی مل کی فروخت سے لندن فلیٹس خریدے گئے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ شک کا فائدہ کس کو جاتا ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ عدالت نواز شریف کو طلب کر کے بیان ریکارڈ کرے،انہوں نےکہا کہ نواز شریف پر تمام درخواست گزاروں کو جرح کا موقع دیا جائے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ جب ہم سب کوسن لیں گےتوفیصلہ کریں گے،انہوں نےکہا کہ ضرورت ہوئی تو نواز شریف کو بلائیں گے ورنہ نہیں۔

    سپریم کورٹ کےباہرمسلم لیگ ن کے رہنما کی گفتگو

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے دانیال عزیز نےکہا کہ الیکشن کمیشن نے لکھا عمران خان نے تباہی مچائی ہوئی ہے،انہوں نےکہاکہ چھ مرتبہ عمران خان کولکھا گیامگرمنی ٹریل نہیں دی گئی۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناتھاکہ عمران خان نے امریکہ میں کمپنیاں بنائیں اورپیسے پاکستان لائے،انہوں نےکہا کہ عمران خان آپ کے پاس کیا کیا ہے،اب آپ کی تلاشی ہونی ہے۔

    دانیال عزیز نےکہا کہ ہمیں پتہ ہے آپ کی دائیں جیب میں کیا ہے اوربائیں میں کیا ہے،انہوں نےکہا کہ جہانگیرترین سند یافتہ کرپٹ آدمی ہیں،وہ اپنے ملازموں کے نام پر کاروبار کرتے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناتھاکہ استثنیٰ یہ مانگ رہے ہیں،نام نوازشریف کا لیا جارہا ہے،انہوں نےکہا کہ ہمارے وکلا اپنے اپنے حصے کاحصہ ضرور بتائیں گے۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ نوازشریف کے خلاف پہلے بھی دو مرتبہ ایسی چالیں چلی گئیں،انہوں نےکہا کہ جہاں جہاں انتخابات ہوئے مسلم لیگ(ن)کامیابی حاصل کرتی آئی ہے۔

    پاناماکیس میں شیخ احسن الدین نےکہا کہ ثبوت سامنے آگئے ہیں عدالت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے،جس پر جسٹس گلزاراحمدنے استفسارکیاکہ سارے ثبوت کون سے ہیں؟۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ آپ انہیں ثبوت نہیں میٹریل کہہ سکتے ہیں،جسٹس عظمت نےکہا کہ قانون شہادت کے تحت مواد پرکھنے پر معلوم ہوکہ بڑاحصہ فارغ ہےتو پھرکیاہوگا؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے عدالت کو کیا طریقہ اختیارکرنا چاہیے ؟جس پر شیخ احسن الدین نےکہا کہ میں طریقہ کار کا تعین کیسے کرسکتاہوں، یہ آپ نے دیکھنا ہے۔

    شیخ احسن الدین نےکہا کہ لغت کے مطابق زیر کفالت کی تشریح کرتا ہوں،ایسا شخص جو دوسرے شخص سے سہارا حاصل کرے۔

    توفیق آصف آپ کے زیر کفالت ہیں،جسٹس کھوسہ کے ریمارکس پر قہقہے،انہوں نےکہا کہ زیر کفالت پر کسی کی نااہلی کا فیصلہ بھی دکھا دیں۔

    شیخ احسن الدین نےکہا کہ 2012میں مریم کے نام پر نواز شریف نے مانسہرہ میں جائیداد خریدی،انہوں نےکہا کہ قطری خط کو ایک شعر میں بیان کروں گا۔

    شیخ احسن الدین نےکہاکہ خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو،ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ شیخ صاحب یہ شعر آپ کی عمر کے مطابق نہیں ہے۔

    مریم نوازکے وکیل کے دلائل کا آغاز

    پاناماکیس کی سماعت کے دوران مریم نوازکے وکیل شاہد حامد نے مریم نواز کا تحریری بیان عدالت میں پڑھ کر سنا یا جس میں کہاگیا ہےکہ میں شادی شدہ خاتون ہوں،میری شادی 1992میں پاک فوج کے حاضر سروس کیپٹن سے ہوئی۔

    مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے شوہر نے بعد میں سول سروس جوائن کر لی،انہوں نےکہا کہ کیپٹن صفدر 1986 میں آرمی میں بھرتی ہوئےآج تک ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے رائے ونڈ میں شمیم اینگری فارمز میں پانچ میں سے ایک رہائش گاہ حاصل کی،اس کی مالک میری دادی تھیں،میرے تین بچےدو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔

    انہوں نے اپنے تحریری بیان میں کہا کہ بیٹا زیر تعلیم اور ایک بیٹی کی شادی ہو چکی ہے،عدالت نے مریم نواز کا تحریری بیان مسترد کردیا۔

    سپریم کورٹ نے وزیراعظم نوازشریف کی بیٹی مریم نواز کا تحریری بیان مستردکرتے ہوئےکہا کہ اس پر مریم کے دستخط نہیں اس لیے اس کی اہمیت نہیں ہے۔

    مریم نوازکے بیان میں کہا گیاہےکہ 2000میں جلاوطن کیا گیا،میں والدین کے ہمراہ سعودی عرب چلی گئی،انہوں نےکہا کہ میرے شوہر بھی میرے ہمراہ تھے،والد اور شوہر کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔

    انہوں نےکہا کہ میرے شوہرکو غیر قانونی طور پر ملازمت سے برطرف کیا گیا،ہم جلاوطنی ختم کر کے واپس آئے اور دوبارہ شمیم ایگری فارم میں رہائش اختیار کی۔

    مریم نواز نے کہا کہ میرے شوہر دو ہزار آٹھ اور دو ہزار تیرہ میں ایم این اے منتخب ہوئے،انہوں نےکہا کہ میرے شوہر کی آمدن بطور گورنمنٹ سرونٹ آتی رہی۔

    وزیراعظم کی بیٹی نےکہاکہ میرے والد نے جو مجھے تحائف دیےوہ شفقت کے تحت دیے،انہوں نےکہا کہ دیےگئے تحفوں میں والدہ اور بھائیوں کی رضامندی شامل تھی۔

    انہوں نےکہا کہ 1992کے بعد سے میں کبھی بھی اپنے والد کے زیر کفالت نہیں رہی،انہوں نےکہا کہ 2013میں کاغذات نامزدگی داخل کرائے اس وقت بھی ان کے زیر کفالت نہیں تھی۔

    مریم نوازنےکہا کہ میں کبھی بھی لندن فلیٹس کی بینیفشل آنر نہیں رہی،نہ ہی ان فلیٹس سے کبھی کوئی مالی فائدہ کیا۔انہوں نےکہا کہ لندن فلیٹس کی بینیفیشل مالک ہونے کاجھوٹا الزام عائد کیاگیا۔

    انہوں نےکہا کہ درخواست گزار جس دستاویز پر انحصار کر رہا ہے اس کو پہلے ہی مسترد کر چکی ہوں،انہوں نےکہا کہ درخواست گزار جس نے الزام لگائے اس کا اپنا دامن بھی صاف نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ میرے بھائی حسین نواز نے 2 شادیاں کر رکھی ہیں،ایک اہلیہ سے چار اور دوسری سے تین بچے ہیں۔انہوں نےکہا کہ حسین نواز کی دونوں بیویاں مختلف ممالک کی شہریت رکھتی ہیں۔

    وزیراعظم کی بیٹی نے اپنے جواب میں کہا کہ حسین نواز اور الثانی خاندان کے درمیان سیٹلمنٹ جنوری 2006 میں ہوئی،انہوں نےکہا کہ سیٹلمنٹ کے بعد منروا کے ڈائریکٹرز کو تعینات کیاگیا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ ایک صفحے کا بیان جو آپ نے جمع کرایا اس پر کسی کے دستخط نہیں،اس لیے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

    مریم نوازشریف کے وکیل شاہد حامد نےکہا کہ میں دستخط کراکر بیان دوبارہ جمع کروا دوں گا،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہمارے سامنے اب فریقین کے 3بیان ہیں۔انہوں نےکہا کہ ایک جواب اور دو ضمنی جوابات اور بیانات ہیں۔

    شاہد حامد نے کہاکہ الزام ہے مریم کو دیے گئےتحائف کا ان کے شوہر کے ٹیکس گوشواروں میں ذکر نہیں،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ ضروری ہےاہلیہ کے تحائف کا شوہر گوشواروں میں ذکرکرے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ الزام ہے31ملین تحفوں کاٹیکس گوشواروں میں ذکر نہیں،جس پر شاہد حامد نے کہا کہ کیپٹن صفدر کا ٹیکس ان کی تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا تھا۔

    مریم نواز کے وکیل شاہد حامد نے کہا کہ جماعت اسلامی اور طارق اسد کی درخواستیں علیحدہ ہو چکیں ہیں،عمران خان کی درخواست میں مریم صفدر پر ٹیکس کی عدم ادائیگی اور زیر کفالت کا الزام ہے۔

    شاہد حامد نےکہاکہ زیر کفالت پر مریم کا بیان پڑھ چکا ہوں،جبکہ ٹیکسوں کے حوالے سے دستاویزات جمع کروا دوں گا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آپ اپنی موکلہ کی جانب سے ان کے والد کی مدد کے لیے تو دلائل دیں گے؟ جس پر انہوں نے کہا کہ جی میری موکلہ والد کی مدد کریں گی۔

    انہوں نےکہا کہ مریم نواز کے 12-2011کے ٹیکس ریٹرن عدالت میں پیش کر دیے گئے،مریم پر ایک الزام والد کے زیر کفالت ہونےکا ہے۔یہ الزام بھی لگا کیپٹن صفدر نے مریم کے تحائف کا گوشواروں میں ذکر نہیں کیا۔

    شاہد حامد نےکہا کہ کیپٹن صفدر نے مریم کے گوشوارے بھی ساتھ ہی جمع کرائے تھے،جس پرجسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ الزام ہے ٹیکس گوشواروں میں مریم کے اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا قانونی طور پر اہلیہ کے اثاثے ظاہر کرنا لازمی ہے؟جس پر شاہد حامد نےکہا کہ قانونی طور پر لازمی نہیں کیونکہ مریم خود بھی ٹیکس دیتی ہیں۔

    مریم نواز کے وکیل نےکہا کہ ٹیکس گوشوارے کاغذات نامزدگی کے ساتھ جمع کرائے گئے تھے،انہوں نےکہا کہ کیپٹن صفدر1986 سے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، این ٹی این 2013 میں بنا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےاستفسار کیا کہ کیپٹن صفدر نے گوشوارے کب جمع کرانا شروع کیے، جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ درخواست گزاروں نے کاغذات نامزدگی کا الزام ہی نہیں لگایا۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاآپ پر الزام ٹیکس گوشواروں میں اثاثےظاہر نہ کرنے کا ہے،جس پر شاہد حامد نےکہا کہ مریم نواز عام شہری ہیں ان کے خلاف 184/3کے تحت سماعت نہیں ہو سکتی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ 184/3عام شہری کے حق میں اور حکومت کے خلاف عدالت کو اختیار سماعت دیتا ہے،انہوں نےکہا کہ تحفہ 2011 میں ملا،اس وقت کیپٹن صفدر کے پاس این ٹی این نہیں تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ نعیم بخاری نے کہا تھا کیپٹن صفدر ٹیکس ادا نہیں کرتے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ نعیم بخاری نے کہا کیپٹن صفدر کی کوئی آمدن نہیں۔انہوں نےکہا کہ آمدن نہ ہونے کے باعث کہاگیامریم والد کے زیر کفالت ہیں۔

    شاہد حامد نےکہا کہ ایم این اے بننے کے بعد کیپٹن صفدر کے گوشوارے جمع کرواچکاہوں،انہوں نےکہا کہ کیا الیکشن کمیشن سےریفرنس اٹھا کر 184/3 عدالت میں لایاجاسکتا ہے۔

    جسٹس آصف کھوسہ نےکہا کہ نوازشریف پر بعض الزمات مریم صفدر کے حوالے سے ہیں،مریم نواز کے وکیل نےکہا کہ مریم نواز کے خلاف درخواست گزاروں نے کوئی استدعا نہیں کی۔

    شاہد حامد نےکہا کہ شیخ رشید نے مریم،کیپٹن صفدر اور اسحاق ڈار کو فریق نہیں بنایا،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یعنی آپ صرف کیپٹن صفدر کے ٹیکس معاملے پر دلائل دے رہے ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہا کہ زیر کفالت ہونے کے معاملے پر بھی دلائل دینا ہوں گے،مریم نواز کےوکیل کے دلائل کے بعد سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کےلیےملتوی کردی گئی۔

  • وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں‘ وکیل جماعت اسلامی

    وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کریں‘ وکیل جماعت اسلامی

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک لیےملتوی ہوگئی،جماعت اسلامی کے وکیل کل بھی اپنے دلائل کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کےپانچ رکنی لارجربینچ نےپاناماکیس کی۔

    سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پرجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہا کہ گزشتہ سماعت کے سوالات سے تاثر ملاجیسے عدالت فیصلہ کر چکی ہے۔

    جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ہم سوالات صرف سمجھنے کےلیے پوچھتے ہیں،سوالات فیصلہ نہیں ہوتے۔انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کی تقریر پارلیمانی کارروائی کا حصہ تھی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر اسمبلی کے ایجنڈے کا حصہ نہیں تھی،انہوں نےکہا کہ استحقاق آئین اورقانون کے مطابق ہی دیا جا سکتا ہے۔

    انہوں نےکہا کہ منگل کو اسمبلی میں پرائیویٹ ممبر ڈے ہوتا ہے،جس پرجسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیا اسپیکر کے پاس اختیار نہیں رولز معطل کرکے کوئی اور کارروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ کیا اسپیکر نے وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دی تھی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ اگر وزیر اعظم نے ذاتی وضاحت دینی تھی تو ایجنڈے میں شامل ہونا ضروری تھا،جس پر جسٹس گلزاراحمد نےکہا کہ کیاوزیر اعظم کی تقریر پر کسی نے اعتراض کیا۔

    توفیق آصف نے کہا کہ اپوزیشن نے وزیراعظم کی تقریر کے بعد اسمبلی سے واک آؤٹ کیا تھا۔جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ توفیق آصف آپ آرٹیکل 69 پڑھیں،اس پر دلائل دیں،انہوں نے کہا کہ اس معاملے کو آرٹیکل 69 مکمل کر رہاہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر آرٹیکل 69 کے زمرے میں نہیں آتی،انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی تقریر ذاتی الزامات کے جواب میں تھی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اگر قواعد کی خلاف ورزی ہوئی توآپ کے اراکین نے آواز اٹھائی تھی،جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں اسپیکر کو وزیر اعظم کو تقریر کی اجازت نہیں دیناچاہیے تھی۔

    جسٹس گلزار نے استفسارکیا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ سے حذف کی گئی؟ جس پر توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر ریکارڈ کا حصہ ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ تقریر اسمبلی کارروائی کا حصہ ضرور ہے مگر اس کو استحقاق حاصل نہیں،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں تقریر پیر کے روز کی۔

    توفیق آصف نے کہا کہ اسپیکر منگل کے روز قواعد معطل کر سکتے ہیں،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا جس دن گوشت کا ناغہ ہوتا ہےاس دن تقریر نہیں ہو سکتی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے پارلیمانی استحقاق سے متعلق آسٹریلوی دانشور کا آرٹیکل پیش کر دیا،جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا یہ کوئی بریگزیٹ کی دستاویز ہے جو ہمیں پیش کی گئی؟۔

    جماعت اسلامی کے وکیل کی وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ اسپیکر سے طلب کرنے کی استدعا کردی جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا عمران خان نے تقریر کا جو ٹرانسکرپٹ لگایا ہے وہ غلط ہے؟۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ تقریر کےمتن سے کسی فریق کا اختلاف نہیں تو ریکارڈ کیوں منگوایا جائے؟۔جس پرممکن ہے ترجمہ کرتےوقت کوئی غلطی ہو گئی ہو۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ وزیراعظم کی تقریر کیس کا اہم ثبوت ہے،جس پر جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیا ہم یہاں شواہد ریکارڈ کر رہے ہیں۔

    توفیق آصف نے کہا کہ عدالت چاہے تو شواہد ریکارڈ کر سکتی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ ہم آپ کی جمع کرائی ہوئی تقریر کو درست مان لیتے ہیں۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ثبوت کا ذکر نہیں کیا، قانونی نکات کا انبار لگا دیا،جسٹس عظمت سیعد نےکہاکہ لگتا ہے باتیں دہرا کر آپ سماعت میں تاخیر کرنا چاہتے ہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ آپ عدالت سے کم اور میڈیا سے زیادہ مخاطب لگتے ہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ آپ چاہے جتنے دلائل دیں،ہم خاموشی سے سنیں گے۔

    جماعت اسلامی کےوکیل نے وزیراعظم کی تقریر کے چند نکات پڑھے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ بتائیں وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کیا چھپایا ہے؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے دبئی فیکٹری کے افتتاح کی تصویر تقریر میں پیش کی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے دفاع کے لیے وزرا عدالت آ رہے ہیں،حکومتی مشینری کیس کا دفاع کر رہی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں عدالت کے باہر جو کچھ کہاجاچکا بہت ہے،انہوں نے کہا اب سب لوگ انتظار کریں،جس نے جو برا بھلا کہنا تھاکہہ دیا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ یہ کیس حکومت کی کارکردگی کے خلاف نہیں بلکہ ایک خاندان کے خلاف ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ پوری حکومت پر الزام نہیں پھر بھی ساری حکومت پاناما کادفاع کر رہی ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیس کو چلنے دیں،انہوں نے کہا کہ سارے لوگ اپنی کمنٹری خود تک رکھیں اور فیصلے کا انتظار کریں۔

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتےہوئےکہا کہ جج صاحب نےکہاسرکاری وکیل نےاب تک ثبوت نہیں دیے۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید نے کہا کہ 2ہفتےمیں پاناما کےہاتھی کی طرف کوئی نہیں آیا،کیس قانون اورضابطوں کی طرف جارہے ہیں۔

    شیخ رشید کا کہناتھاکہ ملکیت پرفیصلہ عدالت نے کرنا ہے،انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جےرپورٹ کومکمل طورپردرست مانتاہوں۔

    تحریک انصاف کے رہنمافواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے کہاکہ آج جرمن اخبار نےنئی دستاویزات جاری کیےہیں۔

    فواد چوپدری کا کہناتھاکہ اب لازم ہے مریم نوازکانام ای سی ایل میں ڈال دیاجائے،انہوں نےکہا کہ اربوں روپے کے تحائف کاتبادلہ ہوا، پیسے کہاں سے آئے۔

    تحریک انصاف کےرہنما کا کہناتھاکہ مریم نواز05-2004میں کمپنیاں کس طرح چلا رہی تھیں،انہوں نے کہا کہ قوم جاننا چاہتی ہے اربوں روپے کیسے باہرگیا اور پھر واپس آیا۔

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنماامیر مقام نے کہا کہ بغیرثبوت کے سیاسی قیادت پرالزامات لگائے جاتے ہیں،انہوں نے کہا کہ کسی کے پاس ثبوت ہیں توپیش کرے،عدالت فیصلہ کرے گی۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ میں جھوٹ بولا،انہوں نے کہا کہ پارلیمانی تقدس سے متعلق سپریم کورٹ کے کئی فیصلےہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کسی کا جھوٹ ثابت کرنے سے پہلے سچ ثابت کرنا پڑتا ہے،انہوں نےکہا کہ سچ ثابت کرنے کے لیےانکوائری کرنا ہوتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ جب جب حقیقت کا ہی پتہ نہیں چلا تو پھر جھوٹ کا تعین کیسے ہو گا،جس پر توفیق آصف نےرضوان گل جعلی ڈگری کیس کا حوالہ دیا۔جس پر جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ وہ مقدمہ الیکشن ٹریبونل سے شروع ہوا تھا سپریم کورٹ سے نہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ تحقیقات کے بعد عدالت نے کیس کا فیصلہ کیا،جس پر جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ وزیراعظم نےاپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے دائرہ اختیار پر دلائل دوں گا،جس پر جسٹس گلزار نےکہاکہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ ہم قرار دے چکے آرٹیکل 184/3 کے تحت سن سکتے ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ شریف خاندان کہتا ہے کاروبار میاں شریف کا تھا،انہوں نے کہا کہ اس سے وزیراعظم کا تعلق ثابت کریں۔

    جسٹس گلزار نےکہا کہ 2004میں میاں شریف کی وفات تک وہ کاروباردیکھتے رہے،انہوں نےکہا کہ کاروبار سے وزیراعظم کا تعلق کیسے بنتا ہے؟ جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ دبئی مل کا کچھ نہ کچھ ریکارڈ موجود ہے،انہوں نےکہا کہ ریکارڈ سچا ہے یا جھوٹا؟ کچھ تو ہے۔

    جسٹس گلزار نےکہا کہ کون سا ایسا ریکارڈ ہے جو نواز شریف نے جمع نہیں کرایا،جس پر توفیق آصف نے کہا کہ دبئی مل طارق شفیع کے نام ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ دبئی فیکٹری کی کوئی بینک ٹرانزیکشن نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ رقم دبئی سے جدہ جانے کا بھی ریکارڈ نہیں ہے۔

    سپریم کورٹ نے مخدوم علی خان سے استفسار کیاکہ کیا جماعت اسلامی کی درخواست پر وزیراعظم نے آپ کو کوئی ہدایت دی، جس پر وزیراعظم کےوکیل نےکہا کہ وزیراعظم بیرون ملک ہیں، آج واپس آئیں گے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےمخدوم علی خان سے کہا کہ جتنا جلدی ہو جماعت اسلامی کی درخواست پر جواب جمع کرائیں۔

    جسٹس عظمت سعید نے جماعت اسلامی کےوکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمارے سوالوں کا جواب نہیں دیتے،جس پر انہوں نے جواب دیاکہ ایک وقت میں ایک سوال ہو تو جواب دوں۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ ثبوت اسی نے دینا ہے جس پر الزام ہے،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نے خود کہاثبوت ہیں لیکن نہیں دیے۔

    توفیق آصف نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم خود عدالت میں پیش ہو کر وضاحت کر دیں اور قوم کو امتحان سے نکالیں۔

    جماعت اسلامی کےوکیل نے کہا کہ حضرت عمر نے کرتے کے سوال پر استثنیٰ نہیں مانگاتھا،وزیر اعظم یہاں روز استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔

    توفیق آصف نےکہا کہ یوسف رضاگیلانی کو بھی سپریم کورٹ نے نااہل کیا،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ این آر او کیس میں عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کا نوٹس ہوا۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے پر گیلانی کو توہین عدالت کا مجرم قراردیا گیا،انہوں نےکہانااہل کرنے سے پہلے گیلانی کے خلاف عدالتی فیصلہ موجود تھا۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت سچ جاننا عوام کا حق ہے،جس پر جسٹس عظمت سعیدنےکہاکہ کیا کسی خاندان کی زندگی کے بارے میں آرٹیکل 19اے لگایا جا سکتاہے۔انہوں نےکہا کہ کیا آپ پر آرٹیکل 19اے کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ وزیر اعظم عوامی عہدہ رکھتے ہیں جبکہ یہ ان کاذاتی معاملہ تھا،انہوں نےکہا کہ ایان علی دربدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہا کہ عتیقہ اوڈو اور ایان علی کو قومی اسمبلی تک رسائی ممکن نہیں،جس پر جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ طے کر لیں آپ ایان علی کے وکیل ہیں یاعتیقہ اوڈھوکے ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےجماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف سےکہا کہ آپ ہمیں مطمئن کریں،انہوں نےکہاکہ وزیراعظم نے کاغذات نامزدگی میں کیا چھپایا؟۔ جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ آپ نے اپنےمقدمے میں غلط روٹ اپنایا ہوا ہے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ میں عدالت کی معاونت کی کوشش کر رہا ہوں،جس پر جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ حدیبیہ پیپر ملز کیا پاکستان میں تھی؟۔انہوں نےکہا کہ مل پاکستان میں تھی تو التوفیق کیس لندن میں دائر کیوں ہوا؟۔

    توفیق آصف نےکہا کہ التوفیق کیس بارے شریف فیملی خود بتاسکتی ہے،جس پر جسٹس عظمت سیعد نے کہا کہ آپ کا نام توفیق ہے کیا التوفیق آپ کا بینک تو نہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ کیا آپ اپنی گزارشات پر ہم سے ڈیکلریشن چاہتے ہیں،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل نےکہا کہ بالکل چاہتا ہوں۔انہوں نےکہا کہ نواز شریف کے دونوں بیانات میں تضاد ہے۔

    توفیق آصف نےکہا کہ قطری خط نواز شریف کے بچوں نے پیش کیا،انہوں نےکہا کہ پارلیمنٹ میں نواز شریف نے اپنا اور خاندان کا دفاع کیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیوں سے متعلق بار ثبوت شریف خاندان پر ہے یہ باتیں ہوچکیں۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست کی سماعت پرجماعت اسلامی کے وکیل کی جانب سے دلائل دیے گئے جس کے بعد سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

  • تحریک انصاف سمجھتی ہے جھوٹ سے سب کوگمراہ کرلیاجائے گا‘مریم اورنگزیب

    تحریک انصاف سمجھتی ہے جھوٹ سے سب کوگمراہ کرلیاجائے گا‘مریم اورنگزیب

    اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ نوازشریف نے پارلیمنٹ اورقوم سے خطاب میں کوئی غلط بیانی نہیں کی،انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی سمجھتی ہےکہ جھوٹ بول کر سب کوگمراہ کرلیاجائےگا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے بعد عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگزیب نے کہا کہ پٹیشن اور دائر کی گئی،اس سےمتعلق ثبوت کوئی نہیں جمع کرایاگیا۔

    وفاقی وزیراطلاعات مریم اورنگزیب نےکہاکہ خان صاحب مریم نواز مہذب والد کی مہذب بیٹی ہیں،انہوں نے کہا کہ ہمارے اجلاسوں میں توں توں کی باتیں نہیں ہوتی ہیں۔

    مریم اورنگزیب کا کہناتھاکہ تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کو کنٹینرز پرکھڑے ہوکر باتیں کرنے کی عادت ہے،انہوں نے آج کی سماعت میں کسی قسم کا ثبوت فراہم نہیں کیاگیا۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما سلیم ضیا نے کہا کہ سمجھ نہیں آرہا کہ سراج الحق کس کے ساتھ ہیں،انہوں نے کہا کہ آزادکشمیرکے انتخابات میں جماعت اسلامی کےامیر ہمارے اتحادی ہیں جبکہ خیبرپختونخواہ میں وہ تحریک انصاف کے اتحادی ہیں۔

    مزید پڑھیں:کروڑوں کے تحائف مغل شہزادے اپنے والدین کونہیں دیتے تھے‘شیخ رشید

    واضح رہےکہ اس سےقبل عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کا کہناتھاکہ کروڑوں کےتحائف مغل شہزادوں بھی اپنے والدین کو نہیں دیتے تھے۔

  • کروڑوں کے تحائف مغل شہزادے اپنے والدین کونہیں دیتے تھے‘شیخ رشید

    کروڑوں کے تحائف مغل شہزادے اپنے والدین کونہیں دیتے تھے‘شیخ رشید

    اسلام آباد: عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید احمدکا کہناہےکہ لندن کے فلیٹوں کے مالکوں کاتابوت سپریم کورٹ سے نکلے گا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کے باہر پاناماکیس کی سماعت کےبعد میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید نے کہا کہ سرکاری ایجنسی سے جھوٹ پر مبنی خبر جاری کرائی گئی۔بی بی سی نے ان کے منہ پرطمانچہ مارا ہے۔

    شیخ رشید کا کہناتھاکہ کروڑوں کے تحائف مغل شہزادے اپنے والدین کونہیں دیتے تھے،انہوں نے کہا کہ آئی سی آئی جے کے بیان کی یہ تردیدکریں میں کیس واپس لےلوں گا۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نےکہا کہ گیند سمیع اللہ نےکلیم اللہ کو دی،کلیم اللہ نے پھرسمیع اللہ کودے دی،انہوں نےکہا کہ چار سینٹرفارورڈ کھلاڑی ہیں،والد ان کا بیکر ہے۔

    تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے کہا کہ مسلم لیگ ن نے ہمیشہ غلیظ زبان کا استعمال کیا اور انتخابی دھاندلی پر ان لوگوں نے پردہ ڈالنے کی کوشش کی۔

    نعیم الحق کا کہناتھاکہ پاکستان میں غلط زبان استعمال کرنے کی ذمہ داری ن لیگ پرڈالتا ہوں،انہوں نے کہاکہ شہبازشریف نے سیاست میں گندی زبان استعمال کی۔

    تحریک انصاف کے ترجمان کا کہناتھاکہ مسلم لیگ(ن)کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں گے جبکہ ہم گالی گلوچ کے خلاف اورذاتیات پر حملہ نہیں کرتے۔

    نعیم الحق نے کہا کہ مسلم لیگ ن کے کچھ لوگوں نے دھمکیاں دینا شروع کردی ہیں جس کی میں مذمت کرتاہوں۔انہوں نے کہاکہ پاناما کیس ختم ہوچکا،عوام کو آگاہی دینا ہمارا فرض ہے۔

    پی ٹی آئی کے ترجمان کا کہناتھاکہ اپنی سفارشات اور خدشات سے عوام کوآگاہ کرتے رہیں گےجب بھی انصاف کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی ہم آوازبلندکریں گے۔

    واضح رہےکہ تحریک انصاف کے رہنما نے کہا کہ ٹیکس چوروں کو مراعات دینے کے خلاف بھی کیس کریں گے،انہوں نے کہا کہ قانونی چارہ جوئی ہمارا حق ہے، جس کواستعمال کرتے رہیں گے۔

  • وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کوذاتی مفاد کےلیےاستعمال کیا،سراج الحق

    وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کوذاتی مفاد کےلیےاستعمال کیا،سراج الحق

    اسلام آباد: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہناہےکہ سپریم کورٹ میں ہماراکیس فرد نہیں کرپشن کے خلاف ہے،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے سرکاری حیثیت کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کیا۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے بعد میڈیا سےگفتگوکرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے کہا کہ ہمارا کیس ملک کو خوشحال بنانے کے لیے ہیں۔

    سراج الحق کا کہناتھاکہ جب کسی بڑے کوسزا ہوئی قانون کی عملداری قائم ہوجائے گی،انہوں نے کہا کہ اچھی قوم بننے کے لیے صاف ستھری قیادت کی ضرورت ہے۔

    جماعت اسلامی کے امیر نے کہاکہ ہم سمجھتے ہیں حکومت پاناما اسکینڈل میں بری طرح پھنس گئی ہے،جبکہ حکومت کے پاس سچ بولنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔

    سراج الحق نے کہا کہ وکیل پرپورا اعتماد ہے وہ بھرپور تیاری کےساتھ بول رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ حق وسچ کافیصلہ کرے گی۔

    واضح رہےکہ پاناماکیس میں جماعت اسلامی کے وکیل نے وزیراعظم کی نااہلی سے متعلق درخواست پر دلائل دیے جس کے بعد سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

  • آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں‘ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے‘جسٹس آصف سعید کھوسہ

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کل تک کے لیےہوگئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نےکی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر مریم صفدر کے وکیل کی جانب سے وزیراعظم کی بیٹی کے نام خریدی گئی جائیداد کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئی۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے کہاکہ والد نے بیٹی کے نام زمین خریدی،مریم نے قیمت ادا کی تو جائیداد بیٹی کو ٹرانسفر کر دی گئی۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ الزام بے نامی جائیداد کی خریداری کا ہے،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ان عدالتی فیصلوں میں دو فریقین کے درمیان تنازع تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اس کیس میں فریقین کے درمیان جائیداد کی ملکیت کا کوئی تنازع نہیں،جسٹس گلزاراحمد نےکہاکہ زیر کفالت ہونے کا فیصلہ حقائق کی بنیاد پر کرسکتے ہیں۔

    جسٹس گلزار احمد نےکہا کہ ہماری تشویش زیر کفالت سے متعلق حقائق پر ہے،اس حوالے سے حقائق پیش کیے جائیں۔جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ مریم نواز کسی کے کفالت نہیں ،مالی طور پر خود مختار ہیں۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ مریم کے اثاثوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہےوہ اخراجات کیسے برداشت کرتی ہیں،انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں مزید حقائق شامد حامد پیش کریں گے۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ ہر ٹرانزیکشن کو بے نامی نہیں کہا جاسکتا،جبکہ بے نامی ٹرانزیکشن کی قانون میں باقاعدہ تعریف ہے۔

    وزیر اعظم کے وکیل نے بے نامی جائیداد سے متعلق ایک فیصلے کا حوالہ بھی دیا،جس پر جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وکیل صاحب آپ نے خود کہا جائیداد نام پر رکھی گئی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہاکہ مریم کو تحفے میں رقم دی گئی جو اس نے بعد میں والد کوواپس کی،انہوں نے کہا کہ تحفے میں دی گئی رقم کی واپسی کے بعد جائیداد مریم کو مل گئی۔اس سے لگتا ہے مریم نواز والد کی زیر کفالت ہیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نےکہا کہ مریم نواز کے مالی حالات میں 2011 کے بعد بہت تبدیلی آئی،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز 2010 میں بھی والد کے زیر کفالت نہیں تھیں۔

    جسٹس شیخ عظمت کہا کہ معاملہ الیکشن کا نہیں نواز شریف کی بطور وزیر اعظم اہلیت کا ہے،وزیر اعظم کے عہدہ رکھنے کو چیلنج کیا گیاہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ محمود اختر نقوی کیس میں ارکان اسمبلی کو نااہل کیا گیا تھاوزیر اعظم کو نہیں،نواز شریف کی نااہلی بطور رکن اسمبلی ہو سکتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ دوسرے فریق کا کہنا ہےنواز شریف اب رکن قومی اسمبلی نہیں رہے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ یہاں پر معاملہ رٹ آف کو وارنٹو سے بالاتر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے۔

    پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کےدوران مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دانیال عزیز کا کہناہے کہ کل کےدلائل پرآج وضاحت دی گئی،انہوں نے کہا کہ عمران خان اپنی پٹیشن میں کرپشن، ٹیکس چوری سے ہٹ چکے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہناتھا کہ عمران خان کہتے ہیں ہمارا کیس غلط بیانی کا ہے،انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہے کہ تحریک انصاف مقدمے سے متعلق تذبذب کا شکار ہے،انہوں نے کہا کہ نوازشریف عدالت کے سامنے سرجھکائے کھڑے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہناہے کہ عمران خان کہتے ہیں میں پاناما پرکمیشن نہیں بننے دوں گا،انہوں نےکہا کہ گالی گلوچ کے ذریعے اداروں کودباؤ میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    دانیال عزیز کا کہناہےکہ وزیراعظم کے خلاف بغیرثبوت مقدمہ چلایا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ منفی ہتھکنڈے اور وارداتیں کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری کا کہناہےکہ تحریک انصاف مقدمے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ پی ٹی آئی کا ہر لیڈر سماعت کو اپنا ایک رنگ دیتا ہے۔

    طارق فضل چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف عدالت عظمیٰ کو دباؤ میں لانے کی کوشش کررہی ہے،انہوں نےکہا کہ عدالتیں دباؤ میں نہیں آیا کرتیں لیکن پی ٹی آئی کی کوشش پوری ہے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئےکہا کہ وزیراعظم کے وکیل نے ایک بھی سوال کاحقائق پرمبنی جواب نہیں دیا۔

    فواد چودھری کا کہناتھاکہ یہ کہتے ہیں وزیراعظم کی تقریر کو ریکارڈ پرنہ لایا جائے،انہوں نے کہا کہ پہلے پیسے باہر گئے،پھر بیٹے نے اپنے والد کو بھیجے۔والد نے اپنی بیٹی کو دیے،بیٹی نے والد سے زمین خریدلی۔

    پاناماکیس کی سماعت کی وقفے کےبعد دوبارہ آغاز پر جسٹس آٓف سعید کھوسہ نے کہا کہ آف شور کمپنیاں بنانا غیر قانونی نہیں،انہوں نے کہا کہ ٹیکس اور اثاثے چھپانا غیر قانونی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 184/3کا اختیار یقینی طور پر عدالت قانون کے مطابق استعمال کرے گی۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاکہ جب تک کسی دستاویز کی تصدیق نہ ہو جائے فیصلے کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ دوسری جانب سے کتابوں کے حوالے دیے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں بھی کتاب عدالت کے سامنے رکھتا ہوں۔جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کتاب میں مصنف کی رائے پر یقین نہیں کر سکتے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ مقدمہ ہائی کورٹ میں ہو اور سپریم کورٹ میں آجائے تو کیا کہیں گے،انہوں نے کہا کہ 1993میں نواز شریف حکومت کے خاتمے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سناگیا۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہو تو کیاپھربھی ایسا کیس سپریم کورٹ سن سکتی ہے،انہوں نے کہاکہ فوجداری کیس میں کسی کتاب کے مصنف کو بھی بلانا پڑتا ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ معاملات برسوں ہائی کورٹ میں رہیں تو سپریم کورٹ سماعت کر سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے تحت اخباری خبریں شواہد نہیں،قانون شہادت کے تحت خبروں کو قانون کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ 184/3کے تحت اخباری خبر کوعدالت مختلف انداز سے دیکھتی ہے،جس پر جسٹس عظمت شیخ نے کہاکہ 184/3کے کچھ مقدمات میں سپریم کورٹ نے اپنے اختیار کو وسیع کیا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ان مقدمات میں شواہد کا جائزہ لے کرحقائق تک پہنچاگیا۔عدالت نےکہا کہ اٹھاون ٹوبی کے تحت سپریم کورٹ نےحکومتوں کی برطرفی کے مقدمات سنےاورفیصلے کیے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہا کہ کیا عدالت واقعاتی یا نتیجہ شہادت کا جائزہ نہیں لے سکتی ہے،جس پران مقدمات میں جائزہ لیا فیصلہ لیتے وقت صدرکے سامنے کوئی مواد تھا یا نہیں۔جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ جرم کی سزا پانچ سال ہے تو براہ راست نااہلی کی سزا ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

    واضح رہے کہ پاناما کیس میں وزیراعظم کے دلائل مکمل ہوگئے،سپریم کورٹ نے سماعت کل تک لیے ملتوی کردی۔

  • عمران خان تنکوں اورجھوٹ کاسہارا لیکر کیس بنارہے ہیں‘خواجہ آصف

    عمران خان تنکوں اورجھوٹ کاسہارا لیکر کیس بنارہے ہیں‘خواجہ آصف

    اسلام آباد: وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہناہےکہ عمران خان تنکوں اور جھوٹ کا سہارا لےکر کیس بنارہے ہیں،جبکہ نوازشریف ایک مرتبہ پھر فتح یاب ہوں گے۔

    تفصیلات کےمطابق پاناماکیس میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ مخالفین کے پاس رونے دھونے اورجھوٹ کے سوا کچھ نہیں رہا۔

    خواجہ آصف کا کہناتھاکہ عمران خان پہلے شوکت خانم کے پیسے سے متعلق جواب دیں کہ اسپتال کا پیسہ مسقط اور فرانس کیسے گیا۔

    وفاقی وزیردفاع کا کہناتھاکہ عمران خان اور دیگر مخالفین کے پلے کیا ہے، جھوٹ کی کہانیاں؟انہوں نے کہا نوازشریف آج بھی وزیراعظم ہیں اور2023تک رہیں گے۔

    خواجہ آصف نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں اپنا ایک کارنامہ بتادیں جوانہوں نے کیاہو،انہوں نےکہا کہ تین گھنٹے کی کارروائی میں 100کے قریب وہ اٹھے اوربیٹھے ہیں۔

    مزید پڑھیں:عمران خان کو نواز شریف فوبیا ہوگیا ہے،خواجہ سعد رفیق

    واضح رہےکہ اس سےقبل سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کے وقفے کے دوران خواجہ سعد رفیق کا کہناتھاکہ عمران خان کو نواز شریف فوبیا ہوگیا ہے،خواب میں بھی نظرآتے ہیں،عمران خان کا بچپن کا خواب وزیراعظم بننا پورا نہیں ہوگا۔

  • پاناماکیس: وزیراعظم کے وکیل بھارتی آئین کےحوالے دینے لگے

    پاناماکیس: وزیراعظم کے وکیل بھارتی آئین کےحوالے دینے لگے

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی ہوگئی،وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کل بھی اپنےدلائل دیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجربینچ نے کیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل سے کہاکہ آپ کو کتنا وقت لگےگا،جس پر انہوں نے کہا کہ تقاریر میں تضاد،زیر کفالت اور دائرہ اختیار پر بات کروں گا۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ کوشش ہوگی آج63،62پردلائل مکمل کروں،جبکہ انہوں نے کہا کہ وکلا نے آج عدالت میں داخلے سےروکا۔وکلاکاکہناہےشام تک مطالبات منظورنہ ہوئےتوکل نہیں آنےدیں گے۔

    وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ وعدہ کرتا ہوں بطور وکیل اپنے دلائل نہیں دہراؤں گا۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئےڈاکٹرمبشرحسن کیس کافیصلہ پڑھ کرسنایا،مبشرحسن کیس میں وفاق کو جاری ہدایت پرعمل نہ ہوا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ یکم اپریل کوعدالت نےوفاق کوسوئس حکام کوخط لکھنےکاکہا تو26اپریل 2012 کووزیر اعظم کوسزاسنائی گئی۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 4مئی کواسپیکر نےرولنگ دی تومعاملہ سپریم کورٹ آیا،جبکہ 19جون کوعدالت نےیوسف رضاگیلانی کوہٹانے کاحکم دیا۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ نااہلی کےتمام مقدمات میں فیصلہ شواہدریکارڈکرنےکےبعدہوا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ دہری شہریت کافیصلہ سپریم کورٹ نےکیاتھا،آپ اس نکتےکوکیوں بھول جاتےہیں؟۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یوسف رضا گیلانی کیس میں 7رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا،لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ آیا۔

    وزیراعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل ڈائس پر آگئے،انہوں نے کہاکہ جن فیصلوں کاحوالا دیا جارہا ہے ان کی نقول فراہم کی جائیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ اپنا کیس پیش نہیں کررہے تو نقول کاکیاکریں گے،جس پر جماعت اسلامی کے وکیل توصیف آصف نے کہا کہ ایک2 روز میں درخواست جمع کر ادیں گے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ دہری شہریت کے حوالے سے آرٹیکل تریسٹھ ون سی واضح ہے،جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ دہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہےعدالت دائرہ اختیاررکھتی ہے۔

    جسٹس عظمت نے کہا کہ عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے ریکارڈ سے کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں،جس کےجواب میں وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ عدالت نے ہر کیس کا حقائق کے مطابق جائزہ لیا تھا۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ دہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیا گیا،دہری شہریت کے فیصلےکی بنیاد پر تقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ عدالت نے اپنے اطمینان کے بعد کیسوں کی سماعت کی،جن اراکین نے دہری شہریت سے انکار کیا ان کے مقدمات بھی سنے گئے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ میرے دلائل کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ سپریم کورٹ کیس نہیں سن سکتی،انہوں نے کہا کہ 62/1ایف، 63/1اطلاق کے طریقے کار مختلف ہیں۔

    جسٹس آصف سیعد کھوسہ نے کہا کہ62/1 کے حوالے سے کوئی طے شدہ پیٹرن نہیں،ممکن ہے اس حوالے سے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔انہوں نے کہا کہ 62،63 کا اطلاق کیس کے حقائق کے مطابق ہوتا ہے۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف آبزرویشن دی،جس کے باوجودراجہ پرویز اشرف کے خلاف نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا۔

    سپریم کورٹ کےباہرتحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو

    تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق کا سپریم کورٹ کےباہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہناتھاکہ سپریم کورٹ بار کےساتھ دھوکا کرنے والوں کو شرم آنی چاہیے۔

    تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق کا کہناتھاکہ پاناما کیس کاتاریخی فیصلہ اسی ہفتے آئے گا۔بعدازاں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہناتھاکہ مخدوم علی خان کہہ رہے ہیں عدالت سچ تک نہ پہنچے۔

    انہوں نے کہا کہ مخدوم علی خان جوکتابیں پڑھ رہے ہیں ان کاکیس سے تعلق نہیں،جبکہ مخدوم علی خان کے دلائل کے دوران لوگ سو رہےتھے۔

    تحریک انصاف کے رہنما کا کہناتھاکہ سپریم کورٹ کا وقت قیمتی ہے اس کوضائع نہ کیاجائے،انہوں نے کہا کہ امید کرتے ہیں مخدوم علی خان ٹیکنیکل باتوں کے پیچھے نہیں چھپیں گے۔

    فواد چوہدری کا کہناتھاکہ نوازشریف کے بچوں کے پاس اربوں روپے کہاں سے آئے،وزیراعظم کےوکیل کو چار سوالات کاجواب ضروردیناہوگا۔

    سپریم کورٹ کے بعد مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی میڈیاسےگفتگو

    سپریم کورٹ کےباہر میڈیا سےگفتگوکرتےہوئےمسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کاکہناتھاکہ عمران خان کے پیش کئے گئے ثبوت غیرمعیاری ہیں،وزیراعظم کے وکیل نے کیس کوقابل سماعت ہونے کوچیلنج نہیں کیا۔

    دانیال عزیز کا کہناتھاکہ پی ٹی آئی والے مانتے ہیں نوازشریف کاپاناما میں نام نہیں ہے،انہوں نے کہا کہ یہ لوگ عوام کو ایک شکل دکھاتے ہیں،عدالت میں بھیس بدل کرآتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے پاس کسی قسم کاکوئی ثبوت نہیں ہے،یہ لوگ حیلے بہانوں سے عدالت کی کارروائی سے فرار ہورہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کا کہناتھاکہ وزیراعظم نے پہلے دن کہاتھا وہ خودکوعدالت کے سامنے پیش کرتے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کی رہنما مائزہ حمید کا کہناتھاکہ عمران خان اپنی جائیدادیں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں،انہوں نے کہاکہ خان صاحب یہ چھپنے والا نہیں سب کچھ عدالت میں آگیا ہے۔

    پاناما لیکس سےمتعلق درخواست پروقفے کےبعد دوبارہ سماعت پرعدالت نےکا کہاکہ آپ کہنا چارہے ہیں 184/3کے تحت عدالت تصدیق شدہ حقائق سن سکتی۔

    مخدوم علی خان نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ تقریر، ٹیکس،مریم نوازکا زیر کفالت ہونا تین مختلف معاملات ہیں،ہر پہلو پر الگ الگ دلائل دوں گا۔

    وزیراعظم کےوکیل نے دلائل دیتےہوئے کہا کہ جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ سپریم کورٹ ایک عدالت ہے اور کئی کیسز میں ڈکلیریشن دے چکی ہے۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدلیہ مخالف تقاریر پر رفیق تارڑ کے کاغذات مسترد ہوئے تھے،عدالت نےقرار دیا اخباری تراشوں پر کسی کو ڈی سیٹ نہیں کیا جاسکتا۔

    جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ صدر رفیق تارڑ نے کیا اپنی تقریر کی تردید کی تھی،کیا آپ وزیر اعظم کی تقریر کی تردید کر رہے ہیں؟۔

    جسٹس اعجاز الاحسن استفسار کیا کہ آپ انٹرویوز سے انکار کر رہے ہیں جو تقریر کے مطابق نہیں؟جس پرمخدوم علی خان آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیر اعظم نے خود ہی استثنیٰ لینے سے انکار کیا تھا،جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ کیا اس استثنیٰ کو ختم کیا جاسکتا ہے؟۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ یہ استثنیٰ پارلیمنٹ کو حاصل ہے وہی اس کو ختم کر سکتی ہے،جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ استثنیٰ اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے؟۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کو تعین کرنا ہوگا دو افراد میں کون سچا ہے۔

    جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ زیر سماعت مقدمہ مختلف نوعیت کاہے،انہوں نےکہا کہ تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی گئی تھی۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا دوسری طرف استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔جسٹس گلزار نے کہا کہ آرٹیکل 66 کو شامل کرنے کا مقصد اراکین کو آزادی اظہار رائے کا حق دینا تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار رائے الگ تقریر عدالتی کارروائی میں شامل کرنا الگ ہے۔

    جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ان تقاریر سے صرف معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے،جس پر وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی۔

    مخدوم علی خان نے کہا کہ مجلس شوری میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوتی ہے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیر اعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں،عدالت میں وزیراعظم کی تقریر پر انحصار کیا جارہا ہے۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی،بعد میں کہہ رہے ہیں اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو استثنیٰ حاصل ہے۔

    جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اسمبلی میں تقریر کو استثنیٰ حاصل ہے،انہوں نے کہاکہ کیا اس تقریر کو عدالت میں کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے؟۔

    جسٹس آصف کھوسہ نے کہاکہ عدالت میں معاملہ صرف تقریر پر کارروائی کا نہیں ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعیدنے کہا کہ آرٹیکل باسٹھ بھی آئین کا ہی حصہ ہے،جس پر مخدوم علی خان نے کہاکہ آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پر عدالتی فیصلے موجود ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا کہ کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا؟۔جس پر وزیراعظم کےوکیل نے کہا کہ بھارتی عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اطلاق نہیں ہوتا۔

    جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ کیا بھارتی آئین میں بھی آرٹیکل باسٹھ ہے؟ ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ بھارتی آئین میں صادق اور امین کے الفاظ موجود ہیں۔

    وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے بیان میں نہ کوئی تضاد ہے نہ غلط بیانی،انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کوئی جھوٹ نہیں بولا۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی،کل بھی وزیراعظم کے وکیل اپنے دلائل دیں گے۔