اسلام آباد: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہناہے کہ پاناماکیس میں حکومت مزید دلدل میں پھنستی جارہی ہے۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت کےبعد میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے سراج الحق کا کہناتھاکہ کرپشن کے خاتمے کے لیے عدالت ایک روڈ میپ دے گی۔
جماعت اسلامی کے امیر کا کہناتھاکہ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63پرعمل نہیں ہوتا تو ہماری سیاست کرپشن سے پاک نہیں ہوسکتی۔
انہوں نےکہا کہ ہم سمجھتے ہیں کیس کا فیصلہ میرٹ پرہونا چاہیے،سپریم کورٹ تمام اداروں سے تعاون حاصل کرسکتی ہے۔
سراج الحق کا کہناتھاکہ سرکاربہت سے وکیل لائی،جس کامطلب ہے کافی ٹینشن موجود ہے،انہوں نے کہا کہ پاناما میں جن بھی لوگوں کانام آیا ان کااحتساب ہونا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہناتھاکہ اس کیس کوبنیاد بناکرکرپشن فری پاکستان بنانے کاموقع ملا ہے۔
واضح رہےکہ پاناما کیس میں آج وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیےجس کےبعد سماعت پیرتک کے لیے ملتوی کردی گئی۔
اسلام آباد : سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما کیس کی سماعت پیر تک کے لیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اگلی سماعت پر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے لارجر بینچ نےسماعت کی۔
پاناماکیس کی سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل62،63کے تخت نا اہلی کےلیے عدالت سے سزا یافتہ ہونا ضروری ہے۔
وزیراعظم کے وکیل کا کہناہےکہ تعلیمی قابلیت کے جعلی ہونے پرآرٹیکل 62کے تخت نااہلی ہوسکتی ہے،اثاثے چھپانے کے معاملے پر نااہلی آرٹیکل 62کے تحت ہو سکتی ہے۔
مخدوم علی خان کا کہناہےکہ الیکشن کے بعد نااہلی کا معیار کم نہیں ہوسکتا،الیکشن کے بعد کووارنٹو کی درخواست دائر ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتےہوئے کہاکہ جعلی ڈگری کے معاملات بھی ٹریبونل کی سطح پر طے ہوئے،جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ جن مقدمات کا حوالہ دے رہے ہیں وہ الیکشن کمیشن کے خلاف تھے۔
پاناماکیس کی سماعت کےدوران مخدوم علی خان نے جہانگیر ترین کیس کا حوالہ دیا،انہوں نے کہا کہ صدیق بلوچ کی نااہلی کا فیصلہ ٹریبونل سطح پر ہوا،جبکہ سپریم کورٹ نے ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیا تھا۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ اراکین اسمبلی کی نااہلی کے لئے ٹھوس شواہد کی ضرورت ہوتی ہے،ٹریبونل نے صدیق بلوچ سے انگریزی کے مضمون کے بنیادی سوال پوچھے تھے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سوالات کی بنیا د پر نااہلی کو ختم کیاتھا،سپریم کورٹ نے الیکشن کا دوبارہ حکم دیا تھا۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کے تعین کے لیے بھی ضابطہ موجود ہے،وزیراعظم کے قومی اسمبلی سے خطاب کو ماضی میں بھی چیلنج کیا گیا۔
جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ یہ شاید وہی خطاب تھا جو وزیراعظم نے دھرنے کے دوران کیا،جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ اس وقت بھی وزیراعظم پر سچ نہ بولنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ اسپیکر نے ڈیکلریشن کے بغیر ریفرنس مسترد کر دیا تھا،انہوں نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اسپیکر کے فیصلے کو قانون کے مطابق قرار دیا تھا۔
وزیراعظم کےوکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھاتھا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ اسپیکر کے خلاف درخواستیں خارج کرچکی ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے فیصلے میں قرار دیا نااہلی کے لیے مناسب فورم کون ساہے یہ طے کرنا باقی ہے۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف کے سربراہ عمران کا میڈیا سےبات کرتے ہوئے کہناتھاکہ میاں صاحب کےبینک اکاؤنٹ میں ڈیولپمنٹ نہیں ہورہی،جس پرمیاں صاحب کو مشکل ہورہی ہے۔
عمران خان کا کہناتھاکہ میاں صاحب میری برائی کرتےہیں تو اپنےلئےاعزازسمجھتاہوں،اگروزیراعظم میری تعریف کریں گے تو میں گھبرا جاؤں گا۔
اس سےقبل گزشتہ سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیاہے۔الزام میں کہاگیا بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی۔
وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیارکیاتھا کہ الزام میں موقف میں اختیارکیاگیاکہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں،جبکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا تھاکہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےعدالت میں تسلیم کیاحسین نواز کا ٹیکس نمبر ہے۔
حکومت کے وکیل نے کہاتھا کہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں اور کہاگیاکہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اسمبلی رکنیت کے اہل نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں؟جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ عدالت کمیشن بنائےجو دوبئی جاکر جائزہ لے،جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وزیراعطم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے،اور اعتراف کے بعدبار ثبوت آپ پرہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا تھاکہ یہ بتائیں لندن جائیداد وزیر اعظم کے بچوں کی ہے یا کسی اور کی ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہوں گی۔
جسٹس گلزا ر نےاستفسار کیاتھا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاجانناچاہتے ہیں کاروبار میاں شریف کا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے لئے رقم کیسے گئی؟۔وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاتھا کہ دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرزمیاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے،آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو کہاتھا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہاتھا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی،اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔
اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہاتھا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا تھاکہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے،وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔
وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھاکہ صادق اور امین کی تشریح پرٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہوگا۔
واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے،آج بھی وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل دیں گے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کا کہناہے کہ پاناماکیس میں بار ثبوت اب وزیراعظم نوازشریف کے وکلا پر ہے۔
تفصیلات کےمطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کےلارجر بینچ نےپاناماکیس کی سماعت کی۔وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان آج کی سماعت میں اپنے دلائل دیے۔
سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام عائد کیا گیاہے۔الزام میں کہاگیا بیٹے حسین نواز نے باپ کو رقم تحفے میں دی۔
وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیارکیا کہ الزام میں موقف میں اختیارکیاگیاکہ تحائف دینے والے کا ٹیکس نمبر موجود نہیں،جبکہ حسین نواز کا ٹیکس نمبر موجود ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےعدالت میں تسلیم کیاحسین نواز کا ٹیکس نمبر ہے۔
حکومت کے وکیل نے کہا کہ یہ بھی الزام عائد کیا گیا کہ مریم نواز والد کے زیر کفالت ہیں اور کہاگیاکہ وزیر اعظم اثاثے ظاہر نہ کرنے پر اسمبلی رکنیت کے اہل نہیں۔
سماعت کے دوران جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں؟جس پر حکومتی وکیل نے کہا کہ یہ ثابت کرنا درخواست گزار کا کام ہے۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ عدالت کمیشن بنائےجو دوبئی جاکر جائزہ لے،جس پر جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وزیراعطم نے خود دوبئی فیکٹری کا اعتراف کیا اور یہ بھی کہا کہ تمام ریکارڈ موجود ہے،اور اعتراف کے بعدبار ثبوت آپ پرہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بتائیں لندن جائیداد وزیر اعظم کے بچوں کی ہے یا کسی اور کی ؟۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو یہ معلومات آپ سے درکار ہوں گی۔
جسٹس گلزا ر نےاستفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا بھی یا نہیں ؟۔جسٹس اعجاز افضل نے کہاجانناچاہتے ہیں کاروبار میاں شریف کا تھا۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے لئے رقم کیسے گئی؟۔وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ دبئی فیکٹری قرض لے کر بنائی گئی تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ دبئی فیکٹری کے 25 فیصد شیئرزمیاں شریف کے نہیں طارق شفیع کے تھے،آپ کی دستاویزات سے بھی بظاہر واضح نہیں ہوتا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کو کہا کہ آپ عدالت کو مطمئن کریں۔
جسٹس عظمت سعید شیخ نےکہا کہ کیس یہ ہے کہ نواز شریف نے تقریر میں غلط بیانی کی،اگر غلط بیانی نہیں ہوئی تو آپ کو ثابت کرنا ہے۔
اس موقع پر جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں گے۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ تفصیلات کا نہ بتانا جھوٹ کے زمرے میں نہیں آتا، وزیراعظم پارلیمنٹ میں اپنے خاندان کے کاروبار کا عمومی جائزہ دے رہے تھے،وہ کسی دعویٰ کا بیان حلفی نہیں تھا کہ وہ کسی مخصوص سوال کا جواب دے رہے ہوں۔
وزیراعظم کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ صادق اور امین کی تشریح پرٹیسٹ صرف وزیراعظم نہیں تمام ارکان پارلیمنٹ کا ہوگا۔
کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی، وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سےگفتگو
پاناما کیس میں وقفے کے دوران میڈ یا سے گفتگو کرتے ہو ئے نعیم الحق کا کہناتھاکہ میاں شریف نے جتنے بھی کاروبار کیے،ان میں تمام بچوں کو حصہ دیا گیا۔
انہوں نےکہا نواز شریف چونکہ سیاست میں آچکے تھےاس لیے جان بوجھ کر ان کا نام باہر رکھا گیا۔
نعیم الحق کا کہناتھاکہ شریف خاندان میں روایت ہے کہ جو بھی کاروبار شروع کرتے ہیں،اس میں ساری فیملی شامل ہوتی ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کا کہناتھا کہ آج عدالت میں تین موضوعات پر بات ہوئی،جن میں حسین نواز کی جانب سے نواز شریف کو دیے جانے74کروڑ روپے پر ٹیکس ادا نہ کرنا ،مریم نواز کی کفالت اور وزیراعظم نواز شریف کی پارلیمنٹ اور قوم کے سامنے خطابات میں تضاد شامل ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنے والد اور بچوں کے پیسے کا حساب دینے کے ذمہ دار نہیں ہیں۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کی میڈیا سےگفتگو
مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیزکا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی اسمبلی میں تقریراورعدالت میں موقف میں کوئی تضادنہیں،ہمارے پاس تمام ثبوت موجود ہیں۔
دانیال عزیز کا کہناتھاکہ عدالت نے تسلیم کیا کہ وزیراعظم کے موقف میں کوئی تضاد نہیں۔پی ٹی آئی قیادت عدالتی کارروائی سے بھاگنا چاہتی ہے۔
سراج الحق کی میڈیا سےگفتگو
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےجماعت اسلامی کے امیرسراج الحق کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے وکیل نے شواہد کی بجائے الفاظ کا سہارا لیا۔سرکاری وکیل ایک کمزور کیس لڑ رہے ہیں۔
سراج الحق کا مزید کہنا تھاکہ کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی عدالت میں دلائل کےساتھ موجود ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سماعت پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےپاناماکیس کی سماعت پر دلائل دیتے ہوئے کہاتھاکہ نوازشریف اور ان کے بچوں کےبیانات میں تضاد ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاتھا کہ بیریئر سرٹیفکیٹ پرائز بانڈ نہیں ہوتا جس کے پاس ہو آف شور کمپنی اس کی ہوگی،قانون کےمطابق بیریئر سرٹیفکیٹ سے متعلق آگاہ کرنا ضروری ہے۔
نعیم بخاری نے کہاتھا کہ قانون کے اطلاق سے فلیٹس کے ٹرانسفر تک بیریئر کا ریکارڈ دینا ہو گا،جس پرجسٹس گلزار احمدنے کہا کہ یہ قانون غالباً 2002 میں آیا تھا۔
تحریک انصاف کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاتھا کہ شریف خاندان کو سرٹیفکیٹ کا قطری خاندان کے پاس ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ رجسٹریشن کے نئے قانون کا اطلاق سب پر ہوتا ہے۔
نعیم بخاری کا کہناتھاکہ شریف خاندان کےبقول 2006 سےقبل بیریئر سرٹیفکیٹ قطری خاندان کےپاس تھے،انہوں نےکہاکہ شریف خاندان کو ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا ہر کام قانون کے مطابق ہوا۔
تحریک انصاف کے وکیل نےکہاتھا کہ بلیک لاڈکشنری کےمطابق زیرکفالت وہ ہوتا ہےجس کےاخراجات دوسرابرداشت کرے۔
انہوں نے کہا تھاکہ نواز شریف نے مریم کو کروڑوں روپے بطور تحفہ دیے،آف شور کمپنیوں کے لیے بھی مریم کو رقم نوازشریف نے دی۔
جسٹس شیخ عظمت نے استفسار کیا تھاکہ بخاری صاحب آپ کی تعریف مان لیں توکیامریم حسین نواز کےزیر کفالت ہیں؟۔
نعیم بخاری نے کہاتھاکہ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کی بیٹی کی شادی کے بعد کفالت اس کا شوہر کرے،جبکہ ریکارڈ کےمطابق کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی کوئی آمدن نہیں تھی۔
جسٹس عظمت شیخ نے ریماکس دیے کہ ابھی بھی یہ تعین ہونا باقی ہے کہ فلیٹس کب خریدے گئے؟۔جس پر نعیم بخاری نے کہاتھا کہ عدالت سے وزیر اعظم کی نا اہلی کا فیصلہ چاہتے ہیں۔
جسٹس عظمت نے کہاتھاکہ بخاری صاحب آپ کے بقول شریف خاندان نے فلیٹس1993 اور1996 کے درمیان خریدے،جبکہ شریف فیملی کے بقول انھیں فلیٹس 2006 میں منتقل ہوئے۔
سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریماکس دیےکہ یہ باتیں پہلے بھی ہو چکی ہیں کوئی نیا نقطہ بیان کریں۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نےاپنے دلائل مکمل کیےجس کےبعدعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اپنے دلائل کا آغازکیاتھا۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ ایک طرف مریم نواز کہتی ہے کہ ان کی آمدن نہیں دوسری طرف وہ امیر ترین خاتون ہیں، عدالت سب کچھ جانتی ہے ہم صرف معاونت کے لیے آتے ہیں اور یہ مقدمہ 20 کروڑ عوام کا ہے۔
عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید کا کہنا تھا کہ آپ نے انصاف فراہم کرنے کا حلف لیا ہے اور عوام کی نظریں عدالت پر ہیں۔
شیخ رشید کا کہنا تھا کہ وہ نعیم بخاری کے دلائل کی مکمل تائید کرتے ہیں اور اگر کوئی کسی کے زیر سایہ ہے تو وہ زیرِکفالت کہلائے گا۔
عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نےکہاتھاکہ وکالت کا تجربہ نہیں، غلطی ہو تو معافی چاہتا ہوں،میرا کوئی بچہ یا فیملی نہیں لیکن یہ قوم ہی میری فیملی ہے۔
شیخ رشیدنےکہاتھا کہ شریف خاندان قطری خط کے پیچھے چھپ رہا ہے جبکہ قطری خط رضیہ بٹ کا ناول ہے۔
انہوں نے کہا تھاکہ نواز شریف پاناما کیس میں براہ راست ملوث ہیں اور اسحاق ڈار نے خود اربوں روپے دبئی منتقل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔
شیخ رشید کے دلچسب دلائل پر عدالت میں قہقہے بلند ہونے پرجسٹس شیخ عظمت نے برہمی کا اظہار کیااور کہا کہ عدالت میں موجود لوگ سنجیدہ ہوں، ورنہ عدالت خود سنجیدہ کرے گی۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے مزید کہا تھاکہ نیب حدیبیہ پیپرملز کیس میں اپیل کرتا تو آج سپریم کورٹ نہ آتے۔
انہوں نےکہاتھا کہ بیوروکریسی نے کہا جو کرنا ہے کر لو،میں حلفیہ یہ کہتا ہوں کہ ساڑھے تین سال میں تمام تعیناتیاں وفاداری کی بنیاد پر ہوئیں اور تمام تحقیقاتی ادارے حکومت کی جیب میں ہیں۔
شیخ رشید نے کہا کہ قطری نوازشریف کو انتخابات میں بھی مدد فراہم کرتے ہیں جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے انہیں قانونی باتوں پر آنے کا مشورہ دیا۔
عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے عدالت سے درخواست کی کہ اسحاق ڈار کو بھی شامل تفتیش کیا جائے جس پر جسٹس آصف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار پہلے ہی مقدمہ میں فریق ہیں۔
حکومتی وکیل کے دلائل
بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کے وکیل مخدوم علی خان نے اختتامی وقت میں دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میں سات روز سے دلائل سن رہا ہوں اور اب تمام حقائق سے پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ خود کوصرف وزیراعظم تک محدود رکھیں گے۔
تحریک انصاف کے رہنماؤں کی میڈیا سے گفتگو
سماعت میں وقفے کے دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے وکیل نعیم بخاری نے امید ظاہر کی کہ سپریم کورٹ جلد ہی کیس کا فیصلہ سنادے گا اور یہ فیصلہ پاناما کا سچ قوم اور دنیا کے سامنے ظاہر ہوجائےگا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادےکو فلیٹس کی ملکیت ظاہرکرنی ہوگی کیونکہ نائن الیون کے بعد بیریئرسرٹیفکیٹس کی رجسٹریشن لازمی قراردی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال عزیز کی میڈیا سےگفتگو
مسلم لیگ (ن) کے رہنما دانیال گیلانی کا میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کل نعیم بخاری کہہ گئے تھے وکیل نہیں موکل ہارتا ہے مگر آج ہم نے وکیل کو ہارتے دیکھا، ہم دعا کرتے ہیں اللہ نعیم بخاری کو صحت اور ہدایت دے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما دانیال گیلانی نے شیخ رشید کی غیرسنجیدگی پر عدالت کےبرہم ہونےکا حوالہ بھی دیا۔
واضح رہےکہ پاناماکیس میں تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری،جماعت اسلامی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے اپنے دلائل مکمل کرلیے،آج وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان اپنے دلائل دیں گے۔
لاہور : عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا کہناہےکہ جو مرضی کرلیں نوازشریف کی 2018میں حکومت نہیں ہوں گی۔
تفصیلات کےمطابق عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ایئرپورٹ پر میڈیا سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے ملکی قرضے میں 900 ار ب کا اضافہ کیا۔حکومت روز نئے نوٹ چھاپ رہی ہے۔
شیخ رشید کا کہناتھا کہ امیدہے جنوری میں پانامہ کیس کا فیصلہ ہوجائے گا۔کل سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی باری ہوگی اس کے بعد ہم اپنا موقف پیش کریں گے۔
عوامی مسلم لیگ کےسربراہ کا کہناتھاکہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گی ہمیں قبول ہوگا۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران شیخ رشید کا کہنا تھا کہ عدلیہ کرپشن کےخلاف دیوار چین ہے،سپریم کورٹ سے ہی احتساب کا پرچم بلند ہوگا۔
واضح رہےکہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کےترجمان فواد چوہدری نے کہا ہےکہ پانامہ کیس فائنل راؤنڈ میں داخل ہوچکا ہےاورتوقع ہےکہ آئندہ دو ہفتوں میں پانامہ لیکس کے معاملے پر تمام عدالتی کارراوائی مکمل کرلی جائےگی۔
اسلام آباد: پاناماکیس میں سپریم کورٹ نےتین سوال اٹھادیےاور سماعت کل صبح تک کےلیے ملتوی کردی گئی۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس سےمتعلق درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کی۔
عمران خان کی جانب سے نعیم بخاری اور وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے سلمان اسلم بٹ پیش ہوئے،اس موقع پر چیئرمین تحریک انصاف عمران خان اور پارٹی رہنماؤں سمیت حکومتی وزراء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل اور وزیراعظم نوازشریف کے وکیل کی جانب سے دلائل سننے کے بعدجسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے3 سوالات اٹھائےگئے۔
پہلاسوال وزیراعظم کے بچوں نے کمپنیاں کیسے بنائیں؟۔دوسراسوال زیر کفالت ہونے کا معاملہ؟ جبکہ تیسراسوال وزیراعظم کی تقریروں میں سچ بتایا گیا ہے یا نہیں؟۔
خیال رہے کہ اس سے قبل پاناماکیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس انور ظہیرجمالی نے ریماکس دیےکہ نیب،ایف بی آراور ایف آئی اے نے کچھ نہیں کیا،جب ہم نےدیکھا کہ کہیں کوئی کارروائی نہیں ہورہی تو یہ معاملہ اپنے ہاتھ لیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ادارےقومی خزانےپربوجھ بن گئے ہیں،اگر انہیں کوئی کام نہیں کرنا توان کو بند کردیں۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کےدلائل
تحریک انصاف کے وکیل نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کہ وزیر اعظم کی پہلی تقریر میں سعودیہ مل کی فروخت کی تاریخ نہیں دی گئی جبکہ لندن فلیٹس سعودی مل بیچ کر خریدے یا دبئی مل فروخت کرکے بیان میں تضاد ہے۔
نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف نےکہاتھا کہ لندن فلیٹ جدہ اور دبئی ملوں کی فروخت سےلیے۔انہوں نے کہاکہ 33 ملین درہم میں دبئی اسٹیل مل فروخت ہوئی اور یہ قیمت وزیر اعظم نے بتائی۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے سماعت کے دوران دلائل دیےکہ حسین نواز کےمطابق لندن فلیٹ قطرسرمایہ کاری کے بدلے حاصل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے مسلسل ٹیکس چوری کی ہے جبکہ2014 اور 2105 میں حسین نواز نے اپنےوالد نوازشریف کو 74 کروڑ کے تحفے دیئےجس پر وزیراعظم نے ٹیکس ادا نہیں کیا۔
جسٹس اعجاز الحسن نے استفسار کیا کہ وزیر اعظم کے گوشواروں میں کہاں لکھا ہے کہ مریم نواز ان کے زیر کفالت ہیں۔جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ ان کے پاس مریم کے والد کے زیر کفالت ہونے کے واضع ثبوت ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ کے د لائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریم نواز زیر کفالت ہیں لیکن ابھی یہ تعین کرنا ہے کہ مریم نواز کس کے زیر کفالت ہیں۔
جسٹس شیخ عظمت نے ریمارکس دیئےکہ زیر کفالت ہونے کا معاملہ اہمیت کا حامل ہے،ہمیں جائزہ لینا ہوگا کہ ملک کے قانون میں زیر کفالت کی کیا تعریف کی گئی ہے۔
حکومت وکیل سلمان اسلم بٹ کے دلائل
دوسری جانب وقفے کے بعد جب کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیئے اور کہا کہ درخواست گزاروں نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے۔
سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ 1992 میں مریم نواز کی شادی کےبعد وہ وزیراعظم کی زیر کفالت نہیں، اس طرح یہ دلائل کےمریم نواز 2011 اور 2012 میں وزیر اعظم کے زیر کفالت تھیں، درست نہیں ہیں۔
سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت صرف بیگم کلثوم نواز زیر کفالت تھیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پیسہ کہاں سے آیا یہ آپ نے ثابت کرنا ہے۔
سلمان اسلم بٹ نے کہا کہ مریم نواز کی جائیداد کی تفصیلات فراہم کرنے کے لیےکوئی اورکالم موجود نہیں تھا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ اگر کوئی مخصوص کالم نہیں تھا تو نام لکھنےکی کیا ضرورت تھی،اگر نام لکھنا ضروری تھا تو کسی اور کالم میں لکھ دیتے۔
بعدازاں عدالت نے پوچھے گئے تینوں سوالوں کا جواب مانگتے ہوئے کیس کی سماعت کل7 دسمبرتک کے لیے ملتوی کردی،سلمان اسلم بٹ کل اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
یاد رہےکہ اس سےقبل وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں حسین،حسن اور مریم نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیاتھاکہ پاناما کیس انتہائی اہم کیس اور تاثردیا جارہا کہ وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے تاریخیں لی جارہی ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم کے بچوں نےسپریم کورٹ سے استدعا کی ہےکہ پاناماکیس کی سماعت روزانہ کی بنیادوں پر کی جائے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانامالیکس کیس کی سماعت 6دسمبرتک ملتوی کردی۔
تفصیلات کےمطابق پانامالیکس کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور مسلم لیگ ن کے وزراء بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
عدالت میں پی ٹی آئی کی نمائندگی نعیم بخاری اور بابر اعوان نے کی جبکہ وزیراعظم کے وکیل سلمان اسلم بٹ اور ان کے بچوں کے وکیل اکرم شیخ بھی عدالت میں موجود تھے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت کروں گا کہ وزیراعظم نے غلط بیانی کی اورٹیکس چوری کے مرتکب ہوئےہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 13 اپریل 2016 کو قوم سے خطاب کیا اورقوم سے جھوٹ بولا، دوسرے خطاب میں بھی وزیراعظم نے سچ نہیں بتایا۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے بیٹے سے پیسے لئے جبکہ وزیراعظم کے صاحبزادے کا این ٹی این نمبرہی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار نے منی لانڈرنگ کیس میں اعترافی بیان دیاجس پر جسٹس عظمیت سعید شیخ نے کہا کہ اس کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔
تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نےاپریل1980میں 33 ملین درہم میں فیکٹری فروخت کرنےکا بتایا لیکن دبئی میں فیکٹری کب بنائی گئی یہ نہیں بتایا۔
نعیم بخاری نے دوران سماعت کہا کہ تمام دستاویزات موجود ہیں،شہباز شریف نے طارق شفیع بن کر دستاویزات پر دستخط کیے۔
عمران خان کےوکیل نے کہا کہ وزیراعظم کے بقول تمام دستاویزات موجود ہیں جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ دستاویزات ہر جگہ موجود ہوں گی لیکن عدالت میں موجود نہیں ہیں۔
نعیم بخاری نے کہا کہ دبئی سے پیسہ کب، کیسے اور کس بینک اکاؤنٹ کے ذریعے منتقل ہوا اس کی تفصیل نہیں بتائی گئی جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ قطر سے پیسہ لندن کیسے گیا یہ بھی نہیں بتایا گیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کو 2006 سے پہلے شریف خاندان کی آف شور کمپنیو ں کی ملکیت ثابت کرنا ہوگی،اگر یہ ثابت ہوجائے تو سارا بوجھ شریف خاندان پر ہوگا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ 21 جولائی 1995 کو فلیٹ نمبر 16 اور 16 اے خریدے گئے جب کہ فلیٹ 17 اے 2004 میں خریدا گیا۔جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ فلیٹس کتنے میں خریدے گئے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حماد بن جاسم کی تاریخ پیدائش بھی انٹر نیٹ سے ڈھونڈیں جس پر نعیم بخاری نے کہا کہ الثانی فیملی کے مردوں کے نام ایک جیسے ہیں اس لئے جاسم کی تاریخ پیدائش جاننا مشکل ہے۔
پاناما کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت میں پیش کئے گئے ضمنی جواب اور تقاریر میں تضاد ہے۔
نعیم بخاری کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے موقف سے مختلف ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب اور دیگر ادارے اپنا کام کرنے میں ناکام رہےہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نیب وزیر اعظم کو بچانے میں لگارہا،نیب چیئرمین کے خلاف آرٹیکل 209 کے تحت کارروائی کی جائے۔
پاناما کیس کی سماعت کے دوران طارق اسد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ میڈیا میں حامد خان سے متعلق بہت باتیں آئی ہیں،تبصروں سے کیس پر اثر پڑے گا،میڈیا کو کیس پر تبصروں سے روکا جائے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان بہت سینیئرقانون دان ہیں،قانون پرکتابیں لکھ چکے ہیں ان سے متعلق میڈیا میں باتوں سے ان کی ساکھ متاثر نہیں ہوتی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے بعد آج بھی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے فیصلہ نہ ہوسکا۔