Tag: پاناما پیپرز

  • پاناماعمل کیس: سماعت مکمل‘ سپریم  کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

    پاناماعمل کیس: سماعت مکمل‘ سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا

    اسلام آباد:  پاناما عمل درآمد کیس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نےسماعت مکمل کرتےہوئےعدالتی فیصلہ محفوظ کرلیا‘ فیصلہ سنانےکی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائےگا۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس اعجازافضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے3 رکنی عمل درآمد بینچ نےپاناما کیس کی سماعت مکمل کی۔

    سماعت مکمل کرکےمعزز جج صاحبان نے اپنی رائے دی کہ جو بھی کہنا سننا اور دیکھنا تھا وہ کرلیا‘ فیصلے کی تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔


    بچوں کے وکیل کے دلائل


    وزیراعظم کےبچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ سماعت کےآغاز پر اپنےدلائل دیتے ہوئےکہاکہ عدالت نےکل ٹرسٹ ڈیڈ پرسوال اٹھایاتھا،کہا گیا تھا بادی النظرمیں دستاویزات جعلی ہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ کل بھی کہا تھامعصومانہ وضاحت موجودہے،انہوں نےکہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ پرایک جیسےدستخط پرشریف خاندان خطاوار نہیں،ایسا سب کچھ غلطی سےہوا۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نےکہا کہ نیلسن نیسکول پرکومبرگروپ کی ٹرسٹ ڈیڈ سےمختلف دستخط ہیں،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ یہ بات توہم بھی دیکھ سکتےہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ اکرم شیخ نےغلطی سےصفحات غلط لگ گئےتھے،یہ غلطی اکرم شیخ کےچیمبرمیں ہوئی،کسی بھی صورت جعلی دستاویزات دینےکی نیت نہیں تھی۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نےکہاکہ ماہرین نےغلطی والی دستاویزات کا جائزہ لیا تھا،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ اب مسئلہ صرف فونٹ کا رہ گیا ہےجبکہ دوسرامعاملہ چھٹی کےروزنوٹری ہونےکا ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ سوشل میڈٰیا پربہت سےلوگوں نےمجھےلیگل فرم کےبروچربھیجے،انہوں نےکہا کہ لندن میں یہ معمول کا کام ہےچھٹی کےدن نوٹری ہوتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ حسین نواز نے واضح  کہا تھا چھٹی  کے دن  لندن میں  وقت  نہیں ملتا،انہوں نے کہا کہ حسین نواز نے چھٹی کے دن نوٹری سےملاقات کی تردید کی تھی۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نےکہا کہ حسین نوازسےعمومی سوال پوچھا گیا تھا جبکہ حسین نوازنےجواب بھی عمومی نوعیت کا دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ سوال عموعی نہیں واضح تھا۔

     جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ والیم10میں جےآئی ٹی خطوط کی تفصیل ہوگی جس سےبہت سی چیزیں واضح ہوجائیں گی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ خواجہ صاحب یہ والیم آپ کی درخواست پرکھولا گیا ہے،انہوں نےکہا کہ ہرکام عدالت میں شفافیت سےکرنا چاہتے ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ چھوٹی سے چھوٹی سچائی بھی سامنےلانا چاہتے ہیں،انہوں نے کہاکہ رات کو آپ سو بھی سکے تھے یا نہیں جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہا کہ یہ بات اپنے تک ہی  رکھنا چاہتا ہوں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ نوٹ کرلیا ہفتےکوسولیسٹردستیاب ہوتےہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیا تصدیق کرنے والاسولیسٹر بھی ہفتے کو کھلا ہوتاہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حسین نے نہیں کہا سولیسٹر چھٹی  کے روز دستیاب ہوتا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ خواجہ حارث سے پہلے والیم 10کسی کونہیں دکھائیں گے،جس پر وزیراعظم  کے وکیل نے کہا کہ عدالت کی صوابدید ہےجس کو چاہے دکھائیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ آج سلمان اکرم راجہ نے اچھی تیاری کی،عدالت نے خواجہ حارث کو والیم  10کی مخصوص دستاویز پڑھنے کو دی۔

    عدالت نے کہا کہ 23جون کو جے آئی ٹی  نے خط  لکھا جواب میں اٹارنی جنرل بی وی آئی کاخط آیا،جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ کیا اس  سے اتفاق  کرتے ہیں ریفرنس نیب کوبھجوا دیا جائے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہا کہ میراجواب ہے کیس مزید تحقیقات کا ہے،انہوں نے کہا کہ خطوط کو بطور شواہد لیا جاسکتاہے لیکن تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ شواہد کو تسلیم کرنا نہ کرنا ٹرائل کورٹ کا کام ہے،انہوں نے کہا کہ کل پوچھا تھا کیا قطری شواہد دینے کے لیے تیار ہے۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نےکہا کہ قطری کی جانب سےکچھ نہیں کہہ سکتا۔ جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ کل پوچھا تھا قطری شواہد دینے کےلیےتیارہے۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قطری کو ویڈیولنک کی پیشکش نہیں کی گئی تھی،انہوں نےکہا کہ   2004تک حسن اورحسین نواز کو سرمایہ ان کے دادا دیتےتھے۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل نے کہا کہ بچوں کےآمدن سےزائداثاثوں پرنوازشریف پرانگلی نہیں اٹھائی جاسکتی۔

    عدالت نےکہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کے اثاثے آمدن کے مطابق نہ ہوں تو کیا ہوگا؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نوازشریف نے اسمبلی میں واضح کہا تھا یہ  آمدن کے ذرائع  ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ نوازشریف نے کہا تھا منی ٹریل اورشواہد موجودہیں، جبکہ چند دستاویزات اسپیکرکو پیش کیے گئے جو کبھی سامنے نہیں آئے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ وزیراعظم نے فلیٹس اوربچوں کےذرائع آمدن بھی بتائے،انہوں نےکہا کہ وزیراعظم نےفلیٹس اوربچوں کےذرائع آمدن بھی بتائے جبکہ انہوں نے ہمارےکا لفظ استعمال کیاتھا۔


    اسحاق ڈار کےوکیل کےدلائل مکمل


    طارق حسن کےوکیل نےاسحاق ڈارکا34 سال کا ٹیکس ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔ جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ سوچ رہا ہوں یہ سیکیورٹی والوں سے کلیئرکیسےہوگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ یہ بڑ ابڑ اٹیکس ریکار ڈہمارے لیے لکھاہے،یہ سارا دن ٹی وی کی زینت بنا رہےگا۔

    طارق حسن نےکہا کہ سنا ہےجے آئی ٹی نے بھی ایسا ہی کیا تھا،جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہا کہ  کیا آپ بھی ان کے پیچھے چل رہےہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ آپ کا نکتہ تھا جےآئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا،انہوں نے کہا کہ تحقیقات میں آپ اثاثوں میں اضافے پرمطمئن نہیں کرسکےتھے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ یہ آپ کےخلاف نئی قانونی چارہ جوئی کی وجہ بھی بن سکتاہے،انہوں نے کہا کہ چلیں ایک منٹ کےلیےحدیبیہ پیپرملزکو چھوڑ دیتےہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ اسحاق ڈارکے خلاف کافی مواد ہے،آپ کا مؤقف ہے حدیبیہ پیپرز ملز دوبارہ نہیں کھولاجاسکتا۔
    جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ اسحاق ڈار کا ٹیکس ریکارڈ نہ ہونے کا بھی مسئلہ تھا،انہوں نےکہا کہ اب اسحاق ڈارکا ٹیکس ریکارڈ سامنے آگیا ہے۔

    اسحاق ڈار کے وکیل  نے کہا کہ اسحاق ڈارکھلی کتاب کی طرح ہیں کچھ نہیں چھپاتے،وہ ہمیشہ سے ٹیکس ریٹرن فائل کرتےہیں۔
    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ5 سال  میں  اثاثے9 ملین  سے837 ملین کیسےہوگئے،انہوں نے کہا کہ دبئی کےشیخ سےملنے والی تنخواہ اورتعیناتی کاریکارڈہے؟۔
    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دبئی کے شیخ کے3 خطوط کےعلاوہ کوئی اور مواد ہے؟جس پرطارق حسن نےکہا کہ مجھے یہ دستاویزات جمع کرانے کے لیےنہیں کہا گیا تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کےاثاثوں کا حساب ہو رہاہے۔انہوں نےکہا کہ کیا آپ کو ریکارڈ پیش نہیں کرنا چاہیےتھا۔

    اسحاق ڈار کے وکیل نے کہا کہ عربوں کے مشیربننے پر کیا کاغذی کارروائی ہوتی ہےمعلوم نہیں،اسحاق ڈار40 سال سے پروفیشنل اکاؤنٹینٹ ہیں۔

    طارق حسن نےکہا کہ بطور وکیل 2لاکھ کماتا ہوں توظاہرکرتاہوں۔ جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ آپ 2لاکھ سالانہ کماتے ہیں تو یہ شعبہ چھوڑدیں۔

    طارق حسن نےکہا کہ جے آئی ٹی کے پاس ریکارڈ نہیں تھا تو نتائج کیسے مرتب ہوئے۔ جسٹس عظمت نے کہا کہ کتنی بارکہہ چکے ہیں ہم رپورٹ پرفیصلہ نہیں کریں گے۔

    اسحاق ڈار کےوکیل نے کہا کہ میرےموکل کے خلاف کوئی مقدمہ ہےنہ کوئی شواہد ہیں،جبکہ ریکارڈ جب جے آئی ٹی کودیا گیا توحوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔

    طارق حسن نےکہا کہ گوشواروں میں اپنی غیرملکی آمدن بھی ظاہرکردی ہے۔ جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں یہ کیس چلتا رہے کبھی ختم نہ ہو۔
    اسحاق ڈار کےوکیل نے کہا کہ بلاوجہ احتساب میں گھسیٹنا قبول نہیں،جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ یہ ڈرامائی کہانی ہے تو کیا آپ چاہتےہیں کہانی ڈرامےکی طرح ختم ہو۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ جو تحریری جواب آپ نے دیا یقین رکھیں اس کاجائزہ لیا جائےگا،انہوں نےکہا کہ تحریری جواب سے ہٹ کردلائل ہیں تووہ دیں ہم سنیں گے۔

    طارق حسن نےکہا کہ اسحاق ڈاربار باراسکروٹنی کرا کرتھک چکےہیں یہ سلسلہ بند ہوناچاہیے،جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ تمام تحریری مواد کاجائزہ لیں گے۔

    انہوں نےکہا کہ اسحاق ڈار جے آئی ٹی میں بطور گواہ پیش ہوئے تھے،اسحاق ڈار کےوکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایسا لگتا ہےکہ میرے موکل ملزم ہیں۔
    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اسحاق ڈار نے جے آئی ٹی میں استحقاق مانگتے رہے،سمجھ نہیں آتا استحقاق کیس چیز کا مانگا جاتاتھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اسحاق ڈار کے بیٹے نے ہل میٹل کو فنڈز فراہم کیے،جس پرطارق حسن نےکہا کہ اس نوعیت کی صرف ایک ہی ٹرانزیکشن تھی۔

    اسحاق ڈار کےوکیل نے کہا کہ ان کےموکل اس ٹرانزیکشن سے مجرم کیسےہوگئے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اسحاق ڈار کا بیٹا بیرون ملک کمپنی سےوالد کو پیسے بھیجتا رہا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ اسحاق ڈار کا اپنےبیٹے سے پیسے لینا ٹیکس بچانےکے لیےتھا۔

    عدالت نےکہا کہ کیا آپ ماضی کی طرح پھرشریف خاندان کے خلاف گواہ بنناچاہتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ علی ڈار نے والد اسحاق ڈار کو تحفے میں رقم دی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ جے آئی ٹی کےمطابق اسحاق ڈار نے رقم پرٹیکس ادا نہیں کیا،انہوں نےکہا کہ 7 سال میں اثاثوں میں 800 ملین کا اضافہ حیران کن ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ طارق حسن آپ نے اسحاق ڈار کے ساتھ انصاف کردیا ہے،ہمیں بھی ڈار صاحب کےساتھ انصاف کرنے دیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ وعدہ کرتے ہیں تحریری دلائل اور دستاویزات کا جائزہ لیں گے۔انہوں نےکہا کہ فریقین سن لیں کیس میں قانون سے باہرنہیں جائیں گے۔
    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ سب کے بنیادی حقوق کا احساس ہے،کیس میں ردعمل دیکھے بغیرصرف قانون پرچلے ہیں۔ انہوں نےکہا کہ اب بھی صرف قانون کا راستہ ہی اپنائیں گے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ فریقین ایک دوسرے کوبرابھلا کہتےہیں پرہمیں کچھ نہ کہیں،جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ اس وقت تک کیس سنیں گے جب تک آپ تھک نہ جائیں۔

    جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جس چیز کی آئین نےاجازت نہیں دی وہ نہیں کریں گے۔جسٹس شیخ عظمت نےکہا کہ کیس ختم ہوجائےگا آپ چلے جائیں گےمگرہماراکام جاری رہےگا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے تھے اسی لیے کیس روزانہ سنا۔ جسٹس عظمت سعید نےکہا کہ بہت زیادہ تفصیل دینا بھی کہانی کو برباد کردیتاہے۔


    ایڈیشنل اٹارنی جنرل راناوقارکےدلائل مکمل


                    ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نےکہاکہ عدالت نے تمام فریقین کو تمام مواقع دیے ہیں جبکہ عدالت کےپاس کچھ نیا مواد بھی سامنےآیا ہے۔

         رانا وقار نے کہاکہ عدالت قرار دے چکی ہےکہ جے آئی ٹی سفارشات پرعمل ضروری نہیں ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نےکہاکہ تحریری گزارشات ایک دن میں جمع کرادوں  گا ۔


    نیب کےقائم مقام پراسیکیوٹرجنرل کےدلائل


    جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ حدیبیہ کیس دوبارہ کھولناچاہتے ہیں؟جس پر نیب کےقائم مقام پراسیکیوٹرجنرل اکبرتارڑ نےکہا کہ حدیبیہ کیس اپنی مرضی سے نہیں کھول سکتے ہیں۔

    نیب کےوکیل نے کہا کہ حدیبیہ کیس میں اپیل دائر کرنے کا سوچ رہے ہیں،جس پرجسٹس اعجازافضل نےکہا کہ سوچنے کا عمل کتنا عرصہ چلےگا۔


    تحریک انصاف کےوکیل کےدلائل


    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف عدالت اور قوم کےسامنے صادق اور امین نہیں رہے۔انہوں نےکہا کہ ایف زیڈ ای کو نوازشریف نے ظاہرنہیں کیا۔

    نعیم بخاری نےکہا کہ نوازشریف نے ورک پرمٹ اور چیئرمین ہونا بھی چھپایا اور اس کے ساتھ ساتھ  تنخواہوں کی رسیدیں بھی چھپائیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ دوسری طرف کا موقف ہےکہ تنخواہ کبھی نہیں لی گئی،جس کےجواب میں نعیم بخاری نےکہا کہ تنخواہ وصول کرنے کی دستاویزات موجودہیں۔

    عدالت نےکہا کہ عوامی نمائندگی ایکٹ کااطلاق ہواتومعاملہ الیکشن کمیشن کونہیں جائےگا؟جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ کیا یہ سپریم کورٹ کےدائرہ اختیار میں آتاہے۔

    تحریک انصاف کےوکیل نےکہا کہ اثاثے ظاہرنہ کرنا آرٹیکل 62 اور 63 کےزمرے میں آتاہے۔انہوں نےکہا کہ الیکشن کےبعد بھی ایف زیڈ ای کمپنی کو ظاہرنہیں کیاگیا۔

    نعیم بخاری نےکہا کہ نوازشریف نےگلف ملزکی 33ملین فروخت کا بھی جھوٹ بولا جبکہ دبئی حکومت نے کہہ دیا کہ 12 ملین درہم منتقل نہیں ہوئے۔

    تحریک انصاف کےوکیل نےکہا کہ اسمبلی میں جدہ ملزکی 63 ملین ریال میں فروخت کا جھوٹ بولا گیا جبکہ جدہ ملزسے42ملین ریال ملے جو 3 حصہ داروں میں تقسیم ہوناتھے۔

    نعیم بخاری نےکہا کہ لندن فلیٹس حاصل تو بچوں کی عمریں کم تھیں اور نوازشریف کے بچوں کا ذریعہ آمدن نہیں تھا۔

    انہوں نےکہا کہ پہلے کبھی میاں شریف کو فلیٹس سے نہیں جوڑا گیا،پہلے کہا گیا تھا کہ قطری سرمایہ کاری کے نتیجے میں فلیٹس ملے۔

    تحریک انصاف کےوکیل نےکہا کہ حسین نواز نے نوازشریف کو 1ارب سے زائد کے تحائف دیے اور یہ تمام رقم نوازشریف کو ہل میٹل کے ذریعے ملی۔

    نعیم بخاری نےکہا کہ ہل میٹل اور حسین نواز 2 الگ الگ چیزیں ہیں جبکہ ہل میٹل سے ملنے والی رقم پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ یہ ناقابل یقین ہے ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نوازشریف کو مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر 88 فیصد نوازشریف کو ملا تو ہل میٹل کے پاس کیا بچا۔

    نعیم بخاری نے کہا کہ امریکہ سے بھی رقم موصول ہونےکے شواہد ملے جبکہ شیخ سعید نے بھی نوازشریف کو 10 ملین دیے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا عوامی عہدہ رکھنے والے پر ملازمت کی پابندی ہے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ معاملہ مفادات کے ٹکراؤ کا ہے۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا ججز پرتوآئین میں واضح پابندی موجود ہے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ وزیراعظم پرکوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ آپ کی درخواست میں ان باتوں کا ذکر نہیں، یہ سب معاملات جے آئی ٹی میں سامنے آئے ہیں ۔انہوں نےکہا کہ کیا دوسرے فریق کو سرپرائز دیا جاسکتا ہے۔

    نعیم بخاری نے کہا کہ نوازشریف نے 10 کروڑ دے کر ن لیگ سے ساڑھے چار کروڑ واپس لیے۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا نوازشریف یہ کہہ دیتے فلیٹس میاں شریف نے خریدے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نےکہا قطری خط کو باہر نکال دیں تو شریف خاندان ہی فلیٹس کا مالک ہے جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ جعلی ثابت ہوگئی ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہاکہ مریم بینفیشل اونر تسلیم کرلیں توزیرکفالت ہونے کا معاملہ آئے گا۔ انہوں نے کہا کہ درخواست میں مریم کو زیر کفالت ہونے کا کہا تھا۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ مریم کے زیرکفالت ہونے کے واضح شواہد نہیں ملے۔ عدالت نے کہا کہ دیکھنا ہوگا 90 کی دہائی میں نوازشریف کے بچوں کا ذریعہ آمدن تھا یا نہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہا کہ ذریعہ آمدن ثابت نہ ہوا تو اثر وزیراعظم پرہوگا۔ نعیم بخاری نے کہا کہ نوازشریف بطور رکن اسمبلی اہل نہیں رہے ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ جے آئی ٹی بنی تو سب نے کہاکہ آزادانہ کام نہیں کرسکے گی۔
    جسٹس اعجازافضل نے کہا کہ جےآئی ٹی نےاپنی حیثیت سےبڑھ کرکام کیا،ممکن ہےکچھ غلطیاں بھی ہوں۔

    انہوں نےکہا کہ مشکل حالات میں بھی جے آئی ٹی نےزبردست کام کیا،دیکھنا ہوگا جےآئی ٹی مواد کس حد تک قابل قبول ہے۔

    نعیم بخاری نے کہا کہ جےآئی ٹی ممبران کوکہاتھاشکرہےآپ جیسےلوگ موجود ہیں،جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ پاکستان میں اکثریت جےآئی ٹی جیسےلوگوں کی ہے۔

    تحریک انصاف کے وکیل نے کہا کہ اسحاق ڈار اور شریف خاندان نے اثاثے بڑھانے کا ایک طریقہ اپنایا۔ انہوں نے کہا کہ پیسہ پہلے باہر گیا پھر باہر سے واپس آیا۔

    نعیم بخاری نے کہاکہ بطوروزیرخزانہ اسحاق ڈارکے زیراثرتمام مالی ادارےہیں جبکہ عدالت کوفیصلہ کرناہےاسحاق ڈارعوامی عہدےکےاہل ہیں یانہیں۔

    تحریک انصاف کےوکیل نےکہا کہ عدالت میں کوئی مشہوربات کی نہ کبھی ٹی وی پرآیا،عدالت پرشبہ خود کو نیچا دکھانے کےمترادف ہے۔

    نعیم بخاری نے سپریم کورٹ سے استدعا کی کہ وزیراعظم نوازشریف اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نا اہل قرار دیا جائے۔


    شیخ رشید کے دلائل مکمل


    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے کہا کہ عظیم ججز کےسامنے پیش ہوا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سپرسکس نے ثابت کر دکھایا کہ پاکستان رہنے کے قابل ہے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لیے ایسے ہی افراد کا انتخاب کیا جاتاہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالت نے قطری کی سرمایہ کاری کا پوچھا جواب نہیں آیا۔

    شیخ رشید نے کہاکہ شریف خاندان نے 13 سوالوں کے جواب بھی نہیں دیے۔ انہوں نےکہا کہ مٹھائیاں بانٹی گئیں لگتا ہے میری طرح ان کی انگریزی کمزور ہے۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے کہاکہ جے آئی ٹی والوں کو وزیراعظم نے کل تقریر میں دھمکایا ہے۔
    شیخ رشید نے کہاکہ وزیراعظم نے کل جے آئی ٹی کو دھمکا کر توہین عدالت کی۔ انہوں نے کہا کہ صاد ق اور امین گلوبل تصور ہوتاہے۔

    انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ لاہور میں صادق اور اسلام آباد میں کرپٹ ہوں۔ شیخ رشید نے کہا کہ جس طرف دیکھو بے نامی دار ہیں۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ شریف فیملی پاناما سے اقامہ تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید نے مختلف اوقات میں پوچھے گئے 371 سوال پیش کردیے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ وزیراعظم نےتو دین والوں کو بھی چونا لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اقامہ لیتے وقت دبئی والوں کو نہیں بتایا گیا پاکستانی وزیراعظم ہیں۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے کہا کہ نوازشریف ، اسحاق ڈار کو اقامے پسند ہیں تو دبئی چلے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ یو اے ای میں تنخواہ کلیئر کیے بغیر کمپنی بند نہیں ہوسکتی۔

    شیخ رشید نے کہا کہ نوازشریف ہی ہل میٹل سے اصل فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الراجی بینک سے بھی 5 سال کا ریکارڈ مانگا جائے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ ہر تیسرے ہفتے قطری کو خط لکھنے کی روایت پڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ الراجی بینک کا معاملہ 62 اور 63 کا بہترین کیس ہے۔

    شیخ رشید نے کہا کہ نوازشریف نے بچوں کے موقف کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ سلمان بٹ نے اونٹوں پر منی ٹریل کی بات کی تھی۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے کہا کہ قطری خط نکال دیں تو کیس میں کچھ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے محل میں نہ جا کر درست فیصلہ کیا۔

    شیخ رشید نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران کی عدالت نے حفاظت نہ کی تو مسئلہ ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزرا جے آئی ٹی کے ٹرائل کی بات کر رہے ہیں۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ نے کہا کہ کیس کو ٹریک سے ہٹانے کے لیے50 ارب نکالے گئے۔ انہوں نے کہا کہ دعا مانگی تھی جج صاحب کیس کےدوران بیمار نہ ہوجائیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نے کہا شیخ صاحب ہمارے لیے دعا مانگتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف عہد ہ چھوٹ دیتے تو والد کی قبر تک نہ جانا پڑتا۔

    عوامی مسلم لیگ کےسربراہ شیخ رشید نے کہا کہ کیس لمبا ہونے سے عوام میں ہمیں فائدہ ہوا۔
    شیخ رشید نے کہا کہ وزیراعظم نا اہل نہیں ہوتے تو پھر انہیں معاف ہی کردیں۔ انہوں نے کہا کہ ماتحت عدلیہ میں اتنی ہمت نہیں کہ وزیراعظم کا مقابلہ کرے۔

    عوامی مسلم لیگ کے سربراہ نے کہا کہ کسٹم ایکٹ اور منی لانڈرنگ کےقوانین کو عدالت مد نظر رکھے۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ شیخ صاحب سب قوانین بتادیے موٹروہیکل قانون نہ ڈال دینا۔

    شیخ رشید نے کہا کہ یہ اصل میں موٹر سائیکل اور پلگ پانا چور ہیں۔


    جماعت اسلامی کےوکیل کےدلائل


    جماعت اسلامی کے وکیل نے کہاکہ عدالت نے نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کا جائزہ لینے کا حکم دیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ عدالت کا حکم تھا، نہ واپس لیا نہ لیں گے۔

    توفیق آصف نے کہا کہ ہم پہلے ہی نااہلی کے معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ گارنٹی دیتے ہیں نااہلی کا معاملہ زیرغور لائیں گے۔

    جماعت اسلامی کے وکیل نے جے آئی ٹی سفارشات کےبعد شکوک وشہبات دور ہوچکے۔ انہوں نے کہا کہ 2 ججز پہلے ہی نااہلی کافیصلہ دے چکے ہیں۔


    سابق قطری وزیراعظم کا تیسرا خط سپریم کورٹ میں پیش


    خیال رہےکہ گزشتہ روز سماعت سے قبل سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم الثانی کا جے آئی ٹی کو بھیجا گیا تیسرا خط بھی سپریم کورٹ میں پیش کیاگیا تھا، جس میں جے آئی ٹی کو آئندہ ہفتے کے آخر میں دوحہ مدعو کیا گیاتھا۔

    حماد بن جاسم کی جانب سے جے آئی ٹی کو یہ خط رواں ماہ 17 جولائی کو لکھا گیا تھا، جس میں پہلے بھیجے گئے 2 خطوط کی بھی تصدیق کی گئی تھی۔

    سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے مزید دستاویزات جمع کروائیں تھی،عدالتی بینچ نے دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

    جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیےتھے کہ تمام دستاویزات میڈیا پر زیر بحث رہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاتھا کہ میڈیا پر جاری ہونے والی دستاویزات میں ایک خط سابق قطری وزیراعظم کا بھی ہے۔

    جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا تو میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔

    وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا تھا کہ میڈیا پر دستاویزات میری جانب سے جاری نہیں ہوئیں۔


    منی ٹریل ثابت نہ ہوئی تونتائج وزیراعظم کوبھگتناہوں گے‘ جسٹس اعجازافضل


    جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ منی ٹریل کا جواب اگر بچے نہ دے سکیں تو اس کے نتائج پبلک آفس ہولڈر پر مرتب ہوں گے اور انہیں بھگتنا پڑے گا اورہم ان کے خلاف فیصلہ دینے پرمجبور ہوجائیں گے۔


    اسحاق ڈار کے وکیل نے دستاویزات جمع کرادیں


    واضح رہےکہ گزشتہ روز سپریم کورٹ میں اسحاق ڈار کے وکیل طارق حسن کی جانب سے مزید دستاویزات بھی جمع کرائی گئی تھیں، جن میں ٹیکس گوشوارے، دبئی کے شیخ کے خطوط، نیب اور ایف بی آر کی خط و کتابت شامل تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • حکومت کی طرف سےجمع کرائےگئےتمام دستاویزات جعلی ہیں‘ فواد چودھری

    حکومت کی طرف سےجمع کرائےگئےتمام دستاویزات جعلی ہیں‘ فواد چودھری

    اسلام آباد : تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری کا کہناہےکہ عدالت نے خود کہا ہے کہ شریف فیملی کی جانب سے جعلی دستاویزات پیش کئے گئے ہیں اب ان پر476 اے کا مقدمہ بنتا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ کےباہرمیڈیا سےبات کرتے فواد چوہدری کا کہنا تھا اب شریف فیملی کے وکلا یہ چاہتے ہیں کہ یہ مقدمہ نیب کورٹ بھیج دیا جائےتاکہ یہ کیس دوبارہ سےشروع ہو اور یب پہلے خود تحقیقات کرے پھرملزمان سے پوچھ گچھ کی جائے اور بعد میں وہ عدالت کو رپورٹ پیش کریں۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ عدالت نے خود کہا ہے کہ شریف فیملی کی جانب سے جعلی دستاویزات پیش کئے گئے ہیں اب ان پر476 اے کا مقدمہ بنتا ہے جس میں مریم، حسین اور حسن نواز کو 7 سال قید بھی ہوسکتی ہے۔

    تحریک انصاف کےترجمان نےکہاکہ آج سپریم کورٹ میں پوری شریف فیملی کے وکلا پیش ہوئے لیکن کیپٹن (ر) صفدر کا کوئی وکیل نہیں آیا۔

    فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ابصارعالم اور دانیال عزیز میں کوئی فرق نہیں دونوں نے بی اے پاس اپنے پسندیدہ افراد کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا۔انہوں نےکہاکہ ابصار عالم کو بھی چیرمین پیمرا بنانے کے لئے ماسٹر ڈگری کی شرط ختم کرکے بی اے کردی گئی۔

    واضح رہےکہ تحریک انصاف کے ترجمان کا کہنا تھا پیمرا گزشتہ رات شریف خاندان کوبچانے کے لیے نئے آنے والے دستاویزات کو بڑھا چڑھا کر دکھانے والے میڈیا ہاؤسز کے خلاف بھی کارروائی کرے۔

  • منی ٹریل ثابت نہ ہوئی تونتائج وزیراعظم کوبھگتناہوں گے‘ جسٹس اعجازافضل

    منی ٹریل ثابت نہ ہوئی تونتائج وزیراعظم کوبھگتناہوں گے‘ جسٹس اعجازافضل

    اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی جےآئی ٹی رپورٹ پرسماعت کل تک ملتوی ہوگئی،وزیراعظم کےبچوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کےمطابق جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اورجسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے3 رکنی عمل درآمد بینچ نےپاناما کیس کی سماعت کی۔

    پاناماکیس کی سماعت کےآغاز پروزیراعظم کےبچوں کےوکیل سلمان اکرم راجہ نے قطری خط عدالت میں پیش کیا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ نےکل دستاویزات دینےکا وعدہ کیا تھا،عدالت سےپہلے دستاویزات میڈیا کو دے دیں۔ انہوں نےکہاکہ آپ میڈیا میں دلائل بھی دے دیتے,باہر ڈائس لگا ہےجا کر دلائل دے دیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےجواب دیاکہ مجھے دستاویزات میڈیاکو جانے کا علم نہیں، جس پر جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ جےآئی ٹی نے 2خطوط سربمہرلفافے میں بجھوائے ایک قطری کا خط ہے،دوسرا بی ڈی آئی سےآیاہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ دونوں دستاویزات عدالت میں ہی کھولیں گے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ تمام دستاویزات لیگل ٹیم سےہی میڈٰیاکوگئی ہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ آپ کےاطمینان تک آپ کی بات سنیں گے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی نےحکام سےدستاویزات کی تصدیق کرائی تھی۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ وزیراعظم کی بیٹی مریم نواز کےوکیل نےمنرواکی دستاویزات سےلاتعلقی ظاہرکی تھی۔ جےآئی ٹی نےاسی وجہ سےتصدیق کےلیےدستاویزات بھجوائیں تھیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ جےآئی ٹی نےیواےای کی وزارت انصاف کےخط پرنتائج مرتب کیے،انہوں نےکہاکہ خط پرحسین نوازسےکوئی سوال نہیں پوچھاگیا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسین نوازکےتصدیق شدہ دستاویزات کوبھی نہیں ماناگیا،انہوں نےکہاکہ جےآئی ٹی نےنتیجہ اخذکیاکہ مشینری باہرمنتقل کی گئیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ جےآئی ٹی نےان دستاویزات پرحسین نواز سےجرح نہیں کی،جس پرعدالت نےکہاکہ یواےای سےبھی حسین نوازکےدستاویزات کی تصدیق مانگی گئی تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےیواےای کی وزارت انصاف کاخط پڑھ کرسنایا،انہوں نےکہاکہ یواےای نےگلف ملزمعاہدےکاریکارڈنہ ہونےکاجواب دیا۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ 12ملین درہم کی ٹرانزیکشنزکی بھی تردیدکی گئی،انہوں نےکہاکہ خط میں کہاگیامشینری کی منتقلی کاکسٹم ریکارڈ موجود نہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یواےای محکمہ انصاف نےریکارڈموجودنہ ہونےکاکہا،جس پرجسٹس عظمت سعید نےکہاکہ انہوں نےکہاجونوٹری مہرہےوہ ہماری نہیں۔

    شیخ عظمت سعید نےکہاکہ نوٹری مہرکی تصدیق نہ ہونےکےاثرات زیربحث نہیں لاناچاہتا،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ایساکچھ نہیں ہوگاکچھ غلط فہمی ہوئی ہےغلطی ہوئی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حسین نواز،طارق شفیع سےپوچھاتوکہاہم نےنوٹری نہیں کرایا،انہوں نےکہاکہ سب نےکہانوٹری مہرنہیں جانتے،مطلب دستاویزات غلط ہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ کوچاہیےتھاتمام ریکارڈجےآئی ٹی کوفراہم کرتے،اب آپ نئےدستاویزات لےآئےہیں۔انہوں نےکہاکہ اب نئے دستاویزات کےکیس پراثرات دیکھیں گے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ 12مئی1988اور30مئی2016کودبئی حکام نےجعلی قراردیا جبکہ دبئی حکام نےدونوں نوٹری پبلک کوغلط اورجعلی قراردیا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دبئی حکام نےدبئی سےاسکریپ جدہ جانےکی تردیدکی،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ اسکریپ نہیں مشینری تھی،جےآئی ٹی نےغلط سوال کیے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی حکام کی بات سےاتفاق نہیں کرتا،جس پرجسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ اتفاق کرنایانہ کرناآپ کاحق ہے،مرضی ہےبرطانیہ،امریکہ یاکسی بھی ملک سےاتفاق نہ کریں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکسٹم حکام سےاسکریپ کاسوال پوچھاتھا،اسکریپ اورمشین میں زمین آسمان کافرق ہے۔انہوں نےکہاکہ کسٹم حکام کی نظرمیں اسکریپ اورمشینری الگ الگ ہوتےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جواب میں واضح کیاتھامشینری دبئی سےجدہ گئی تھی،انہوں نےکہاکہ اب کہتےہیں مشینری ابوظہبی سےجدہ گئی تھی۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ مشینری ابوظہبی سےدبئی اورپھرجدہ گئی،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دبئی کی حدودسےنکلتےہی اندراج ضروری ہوتاہے،اندراج نہیں ہوتاتوکسٹم حکام کاکیاکام ہے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ دبئی سےشارجہ کسٹم کااندراج نہیں ہوتا،انہوں نےکہاکہ حسین نوازسےاس نکتےپربھی مؤقف نہیں لیاگیا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یواےای سےباہرجانےپرہی کسٹم سےاندراج ہوتاہے،جس پرجسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ پہلےکبھی ابوظہبی سےمشینری کی منتقلی کی بات نہیں آئی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کوئی دستاویزات بھی فراہم نہیں کی گئیں،انہوں نےکہاکہ گزشتہ سال والےتحریری مؤقف میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ پہلےکسی نےاعتراض بھی نہیں کیاتھا،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ آدھاحصہ بتاکرکہتےہیں بہت کام کیاہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جب سوال پوچھاجاتاہےسابقہ تاریخ کی دستاویزات آجاتی ہیں،انہوں نےکہاکہ اب بھی آپ فروری2017کی دستاویزات لےآئےہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےآئی ٹی کےنتائج پرحملےنہ کریں دستاویزات کاجواب دیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عزیزیہ اسٹیل مل کابینک ریکارڈبھی موجودہے۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ کیافروخت کےوقت عزیزیہ پرکوئی بقایا جات تھے،جس کےجواب میں وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ جوبقایاجات تھےوہ اداکردیےگئے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دستاویزات کےمطابق21ملین ریال عزیزیہ کےبقایاجات تھے،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ دستاویزات ذرائع سےحاصل کیےگئےتھے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ جےآئی ٹی نےکہاعزیزیہ اسٹیل مل42ملین ریال میں فروخت ہوئی، انہوں نےکہاکہ 63 ملین ریال کی رقم عزیزیہ اسٹیل مل کےاکاؤنٹ میں آئی۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ بینک ریکارڈموجودہے،جس پرجسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ یہ بینک ریکارڈلےآئےہیں تودوسرابھی لےآئیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ نقطہ یہ ہے63ملین ریال اکاؤنٹ میں آئےاس سےآگےچلناہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ یہ اتناآسان نہیں ہےمیری جان جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیاعزیزیہ کےواجبات کسی دوسرےنےاداکیے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ معلوم کرکےبتاسکتاہوں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حسین،عباس،شہبازشریف کی بیٹی عزیزیہ کےحصہ دارتھے،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ کیس کی تاریخ یہ ہےخفیہ جگہوں سےادائیگیاں ہوتی ہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ جےآئی ٹی کوچاہیےتھاان پرسوالات کرتی،جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ کیااخبارمیں اشتہاردےکرسوال پوچھتے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ عزیزیہ آپ کی کمپنی تھی توآپ کوعلم نہیں واجبات کتنےتھے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےجواب دیاکہ میں وکیل ہوں گواہ نہیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہا وقفےکےدوران تلاش کرکےآگاہ کروں گا،انہوں نےکہاکہ ذرائع دستاویزات کےمطابق حسین نوازکو42ملین ریال ملے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عزیزیہ کےاکاؤنٹ میں63ملین ریال آنےکابینک ریکارڈہے،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ یہ کمپیوٹرائزڈبینک دستاویزات کی بھی نقل ہے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہا جوواجبات تھےوہ فروخت سےپہلےاداکردیےگئےتھے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ کہناچاہتےہیں کسی خفیہ شخص نےادائیگی کی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ اس کیس کی تاریخ یہ ہےخفیہ جگہ سےادائیگیاں ہوتی رہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ عزیزیہ کےنوازشریف،حسین شہبازشریف شیئرہولڈزتھے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ باقی دوحصہ داروں نےاپناحصہ آپ کودیااورآپ سےلےلیا۔ جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ باقی حصہ دارعدالت آکراپنامؤقف دےسکتےہیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ معاملےکی تہہ تک جاکرسب کچھ سامنےلاناچاہتےہیں،انہوں نےکہاکہ فلیٹس فنڈزکےذرائع کےلیےایک نہیں7،8لنک کوجوڑناپڑےگا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ لندن فلیٹس حمزہ،حسین،حسن سمیت دیگربچوں کےزیراستعمال رہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ لندن فلیٹس میں مستقل قیام نوازشریف کےبچوں کاہی ہے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہا کہ فلیٹس1993میں حسین نوازکےخریدنےکےالزام کومستردکرتےہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ لندن فلیٹس خریدنےکےذرائع آج تک سامنےنہیں آسکے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ موزیک فونیسکانےٹرسٹ کی تردیدکی مریم کوبینفشل اونرقراردیا،انہوں نےکہاکہ برٹش آئی لینڈکےسرکاری ذرائع سےدستاویزات موصول ہوئیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ مریم بینفیشل اونرنہیں تودستاویزات سےثابت کریں،انہوں نےکہا کہ کیاکوئی اوربینفیشل اونربھی ہےتوتبادیں۔

    جسٹس عظمت نےکہاکہ اگلےمرحلےمیں ٹرسٹ ڈیڈکاجائزہ لیں گے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ الزام یہ نہیں کہ مریم نوازبینفشل اونرہیں،الزام1993سےفلیٹس کی ملکیت کاہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ یہ الزام نہیں موجوددستاویزات کےمطابق حقیقت ہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیاآپ اس حقیقت کوتسلیم کررہےہیں؟جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ہم بینفشل اونرکوہی تلاش کررہےہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ 1993میں بچوں کی عمریں دیکھیں تولگتاہےفلیٹ نہیں خریدسکتے،انہوں نےکہاکہ الزام ہےفلیٹ وزیراعظم نوازشریف نےخریدے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ درخواست گزارکہتےہیں وزیراعظم فنڈزبتائیں،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ لوگ پوچھتےہیں الزام کیاہےتوکہہ دیتے ہیں9اے5کاہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ 9اے5کامطلب ہوتاہےکرپشن اورکرپٹ پریکٹس، جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ الزام یہ ہےکہ بچےبےنامی دارہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ ٹھیک ہےنوٹ کرلیافلیٹ حسین نوازنےحاصل کیے،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ مریم،حسن ،حسین نےغلط کام نہیں کیاصرف شیئرزوصول کیے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ الزام ہےمریم وزیر اعظم کی کفالت میں ہیں،انہوں نےکہاکہ نعیم بخاری کاکہناہےمریم سچ نہیں بولیں گی تونتائج ہوں گے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ مریم پرجعلی دستاویزعدالت میں دینےکابھی الزام ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ مسٹرسلمان اکرم راجہ چکری سےآگےچلو۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ عدالت سوالیہ نشان لگارہی ہےتومجھےجواب کاموقع دیاجائے،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ گھنٹےسےدلائل دےرہےہیں لیکن نئی بات نہیں کی۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہا کہ عزیزیہ اسٹیل مل بنی اورکام شروع کردیا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ اورنقصان اٹھاناشروع کردیا۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ کےخلاف الزام نہیں توتوانائی کیوں خرچ کررہےہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ الزام غلط اورجعلی دستاویزات دینےکےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ٹھیک ہےمان لیارقم گلف اسٹیل مل سےگئی لیکن کیسے؟ انہوں نےکہاکہ ہم ڈیڑھ سال سےپوچھ رہےہیں رقم کیسےگئی،بتائیں کیسے؟۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ باہرجاکرکہہ رہے ہوتے ہیں عدالت نےیہ کیا کیا،انہوں نےکہاکہ وکلا جانتے ہیں نیب کا قانون کیا کہتا ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ فلیٹس کے حصول میں وزیراعظم کے بچوں کا کوئی کردار نہیں،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ کہنا چاہتےہیں فلیٹس وزیراعظم نےحاصل کیےہیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ میں یہ نہیں کہنا چاہتا،انہوں نےکہاکہ حسین نواز نے فلیٹس 2006 میں حاصل کیے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ وزیراعظم کے بچوں پر کوئی غلط کام کرنے کا الزام نہیں،جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ الزام ہے کہ مریم نواز وزیراعظم کی زیر کفالت ہیں۔

    جسٹس اعجاز افضل نےکہاکہ الزام مریم نواز پرموجود ہے،انہوں نےکہاکہ نعیم بخاری کے مطابق مریم نواز نے جعل سازی کی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ عدالت میں بوگس دستاویزات دینے کا بھی الزام ہے،انہوں نےکہاکہ جعل سازی پرفوجداری کارروائی کی استدعا بھی کی گئی ہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ بچےخریداری ثابت نہ کرسکےتوپبلک آفس ہولڈرسےپوچھا جائےگا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ منی ٹریل سےمتعلق ہمارےسوال اپنی جگہ پرموجودہیں۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ منی ٹریل ثابت نہ ہوئی تونتائج وزیر اعظم کوبھگتناہوں گے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ جےآئی ٹی نےخود نتیجہ نکال لیاحماد بن جاسم کےانٹرویوکی ضرورت نہیں،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ عدالت کہہ چکی ہےفیصلہ دستاویزات پرہوناہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ آپ دلائل دےرہےہیں کیس مزیدتحقیقات کابن چکاہے،وزیراعظم کےبچوں کے وکیل نےکہاکہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دادامحمدشریف نےزندگی میں حسن اورحسین کےلیےرقم کاانتظام کیا،جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ مزیدتحقیقات کاکہہ کرآپ نےنئی بات کردی۔

    وزیراعظم کےبچوں کے وکیل نےکہاکہ میں نےاپنےموکل سےپوچھاہےان کاکہناہے63ملین ریال ٹوٹل ہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ مسٹرسلمان یہ کیاکہہ رہےہیں آپ؟۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ موکل نےکہا21ملین ریال کی ادائیگی میری ذمہ داری تھی، سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دونوں فیملیزنے63ملین ریال استعمال کی اجازت حسین نوازکودی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ سب باتیں زبانی ہی ہیں،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ توخاندان کےاندرکی بات ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی کودستاویزنہیں دیں ہم کونہیں دکھائیں پھرکسےدیں گے،انہوں نےکہاکہ منی ٹریل کاایک سال سےپوچھ رہےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ سوال ایک ہی ہےرقم کہاں سےآئی؟کہہ رہےہیں منی ٹریل ہےکہاں ہے؟جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کیاآپ کسی متعلقہ فورم پردستاویزدیناچاہتےہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ بات عدالت پرچھوڑتا ہوں،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ ہل میٹل سےکس نےفائدہ اٹھایا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بارثبوت آپ پرہےجوکہ ابھی تک ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ باربارکہاجاتاہےمنی ٹریل موجودہے،انہوں نےکہاکہ حسین نےیہ بھی کہاسعیداحمدنےکوئی ادائیگی نہیں کی۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ ہل میٹل کےلیےرقوم کہاں سےآئی یہ بھی معلوم نہیں، انہوں نےکہاکہ ہل میٹل سےفائدہ کس نےاٹھایایہ سب کوعلم ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ فنڈزکےذرائع معلوم نہیں،فائدہ اٹھانےوالاسامنےہے،انہوں نےکہاکہ غلط کام کاثبوت نہیں توصیح کام کابھی نہیں ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کسی غلط کام کاثبوت نہیں ہے،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کسی صحیح کام کابھی ثبوت نہیں ہے۔

    وزیراعظم کےبچوں کے وکیل نےکہاکہ کسی کابےنامی دارہونابھی ثابت نہیں،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جن کی جائیدادہوتی ہےان کووضاحت دینا پڑتی ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ یہ دیکھنا ہےکیس بنتاہےکہ نہیں،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ہزاروں پاکستانی ملک سےباہرکام کررہےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وہ ہزاروں پاکستانی وزیراعظم نہیں،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ نیب کاقانون9اے5دوبارہ کھول رہےہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ خواجہ حارث نےکل یہ قانون تفصیل سےپڑھاتھا،انہوں نےکہاکہ حسین نوازکابےنامی داراورزیرکفالت ہونا ثابت نہیں ہوا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جس کی جائیداد اس کوہی وضاحت دینی ہوتی ہے،وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ عدالت بیرون ملک مقیم پاکستانی کی کاروبارکی تحقیقات کا حکم نہیں دیتی۔

    عدالت عظمیٰ نےکہاکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کےہزاروں مقدمات زیرالتوانہیں،سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسین نوازوزیراعظم نہیں ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حسین نوازوزیراعظم کےصاحبزادےضرورہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ بتاناآپ کی ذمہ داری پیسہ کہاں سےآیا۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ ایک حصہ یہ تھاکیامقدمہ بنتاہے،دوسراحصہ یہ ہےکس مقدمےپرفیصلہ ہوناہے۔انہوں نےکہاکہ آپ کہناچاہتےہیں کیس احتساب عدالت بھیجاجائے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ مقدمہ احتساب عدالت ارسال کرنےکاکبھی نہیں کہا،انہوں نےکہاکہ صرف جامع تحقیقات کی بات کررہاہوں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وضاحت نہ آنےکامطلب ہےکوئی وضاحت موجودنہیں،انہوں نےکہاکہ کیاقطری کاتعلق قابل قبول وضاحت ہے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ حسین نوازنےآرنک کمپنی کومنرواکمپنی سےروابط کےلیےمقررکیا،جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ دستاویزات جمع کرانےمیں اتنی دیرکیوں کی؟۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ حسین نوازکی جانب سےفیصل ٹوانانےادائیگی منرواکوکی۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حسین نواز کےریکارد کےمطابق فیصل ٹوانادوست ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ بینفشل اونرمریم ہیں اس کی تصدیق شدہ دستاویزات ہیں،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ چاہتےہیں آپ کی غیرتصدیق شدہ نقول کایقین کرلیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ ہمارامؤقف اس سےمتعلق مزیدتحقیقات کاہے۔ عدالت نےکہاکہ آپ چاہتےہیں سرکاری سطح سےآنےوالی دستاویزات کایقین نہ کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیاآپ نےبرٹش آئی لینڈکوغلطی دورکرنےکیلئےرابطہ کیا،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ 2012کی دستاویزات ہیں اورآج2017ہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ تصدیق دستاویزات خفیہ تھیں جواب سامنےآئی ہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےپی سی اےکوحسین نوازپیسےدیتےتھے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےپی سی اےحسین نوازکےنکتےپرکچھ بھی لکھ کردےسکتی ہے،انہوں نےکہاکہ نجی کمپنی کےمقابلےسرکاری دستاویزات کیسےمستردکریں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ جےپی سی اےسےپہلےمنرواکامعاملہ حل کریں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےپی سی اےسےپہلےمنرواکامعاملہ حل کریں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ ہونےوالامعاہدہ سامنےلائیں، جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ منرواون مین کمپنی تھی انٹرنیٹ پردیکھ لیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ منرواکےبعدسروسزفراہم کرنےکامعاہدہ جےپی سی اےسےہوا۔جےپی سی اےنےواضح کیامریم کاان سےکبھی رابطہ نہیں ہوا۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ جےپی سی اےنےمریم سےکبھی خدمات ہی نہیں لیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ منرواکامسئلہ تاحال حل نہیں ہوسکا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ نوٹری کی تصدیق کرانےوالےوقاراحمدعدالت میں موجودہیں، انہوں نےکہاکہ وہ عدالت کوبیان دیناچاہتےہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ وقاربیان دیناچاہتےہیں اورحسین ان کابیان نہیں بتاناچاہتے،انہوں نےکہاکہ دبئی حکام کےپاس وقار احمد کا ریکارڈ موجود نہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ دبئی حکام سےغلطی ہوئی ہوگی،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ آپ کی بات سےلگتاہےدبئی حکام بہت غلطیاں کرتےہیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ بی وی آئی نے2012میں کمپنیوں کی تفصیلات چندگھنٹےمیں طلب کی جبکہ ایک خبرکےمطابق ان معلومات میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ 10دنوں میں12ای میلزکاتبادلہ ہوا، سلمان اکرم نےاخباری تراشےبھی حسین نوازکےدفاع میں پیش کردیے۔

    سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ ایف آئی اےنےتحقیقات شروع کی توبی وئی آئی میں ہل چل مچ گئی تھی،انہوں نےکہاکہ میڈیاکےمطابق ہل چل اورتحقیقات کےدوران بہت غلطیاں ہوئیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ آپ ہم سےاخباری تراشےپریقین کرنےکاکہہ رہےہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ موزیک فونیسکاسے12ای میلزکاتبادلہ ہوا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ ٹرسٹ ڈیڈکی پہلی کاپی عدالت کوکب دی گئی؟ انہوں نےکہا کہ پہلی ٹرسٹ ڈیڈعدالت کوکومبرگروپ کی دی گئی۔ جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ غلطی ہوگئی تھی۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جےآئی ٹی نےیہ دستاویزتصدیق کےلیےبھیجیں،انہوں نےکہایہ فونٹ2007 میں آیا جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ2006میں تیارہوئی۔

    عدالت کی جانب سے کہاگیاکہ فرانزک رپورٹ میں کہاگیادونوں کمپنیوں کی دستخط والا صفحہ ایک ہے،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ بادی النظرمیں جووہ کہہ رہےہیں یہ دستاویزات غلط ہیں۔

    ایڈیشنل اٹارنی جنرل راناوقارروسٹرم پر طلب کرکےعدالت نے سوال کیاکہ راناصاحب بتائیں غلط دستاویزات دی جائیں توکیاہوتاہےجس پرایڈیشنل اٹارنی جنرل جواب دیاکہ غلط دستاویزات پرمقدمہ درج ہوتاہے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ فرانزک آڈٹ میں فونٹ کاتبصرہ آیا جبکہ فرانزک میں دستخط والاصفحہ2مرتبہ استعمال ہونےکاانکشاف ہوا۔ انہوں نےکہاکہ رپورٹ میں مریم کےدستخط کوبنیاد بنایا گیا۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ ٹرسٹ ڈیڈکےوقت کیلبری فونٹ کااستعمال نہیں ہوسکتاتھا، انہوں نےکہاکہ ہرجگہ ایک جیسےایک سائزکےدستخط کیسےہوسکتےہیں؟۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ دستخط میں ایک جیسی غلطی دونوں دستاویزات پرکیسےہوسکتی ہے؟ انہوں نےکہاکہ فرانزک رپورٹ میں جوکہا وہ بکواس نہیں ہے۔

    جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ عدالت میں غلط دستاویزات دیناکیسےہوگیا،انہوں نےکہاکہ ہم توسوچ بھی نہیں سکتےآپ لوگوں نےکیاکردیا۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ چھٹی کےدن توبرطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا، جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ٹرسٹ ڈیڈکی تصدیق ہفتےکوکرائی گئی۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی کےرابطہ کرنےپرکمپنی نےجواب نہیں دیا،جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ دستاویزات اکرم شیخ نےجمع کرائی ہیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ معلوم کروں گایہ کیسےہواہے،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ جعلی دستاویزات کےمعاملےنےمیرادل توڑدیا۔انہوں نےکہاکہ جعلسازی پرقانون اپناراستہ خوداختیارکرےگا۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ تکنیکی بنیادپرکیلبری فونٹ کامعاملہ درست نہیں،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ گورےتوچھنک مارتےہیں تورومال لگالیتےہیں۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کیاکوئی قانونی فونٹ چوری کرےگا،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ ٹرسٹ ڈیڈکےساتھ بہت سےمسائل ہیں۔ انہوں نےکہاکہ ہرشخص کےآئینی اختیارات پرہم بہت محتاط ہیں۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ 4 فروری2006 ہفتےکو برطانیہ میں چھٹی تھی،آپ کےپاس اس کاکیاجواب ہے جس پر سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ ممکن ہےکوئی غلطی ہوگئی ہو۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ دستاویزات تیاراوراٹیسٹ کسی اوردن ہوئے،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ اپنی آنکھیں بندکیسےکرسکتےہیں نتائج اچھےنہیں ہوں گے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کیلیبری فونٹ کابیٹاورژن آئی ٹی ماہرین کودیاجاتاہے،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ قطری شہزادےکوکہاآجائیں پرانہوں نےکہامیں نہیں آتا،انہیں پاکستانی سفارت خانےآنےکاکہاگیاپروہ اس پربھی نہیں مانے۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ کیاہم سارےاب دوحہ چلےجائیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ خط میں حماد بن جاسم نےکہامیں پاکستانی عدالتوں کاپابند نہیں۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ حماد بن جاسم کی فیملی کی جانب سے3ادائیگیاں کی گئیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیایہ ادائیگیاں بھی نقدکی گئیں۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ یہ رقوم بینک کےذریعےمنتقل ہوئیں، انہوں نےکہاکہ پیسےکاسوال حماد بن جاسم سےہوسکتاہے۔ جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حمادبن جاسم نےخطوط میں رقوم بھیجنےکالفظ تک نہیں لکھا۔

    جسٹس شیخ عظمt نےکہا کچھ لوگوں کوپاکستان کےویزےسےبھی استثنیٰ حاصل ہے،انہوں نےکہاکہ اخبارکےمطابق تلور کےشکار کے لیے آنے والوں کےلیےویزہ نہیں ہوتا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ قطری توویڈیولنک پربھی آمادہ نہیں ہوا، انہوں نےکہاکہ قطری شاید زیادہ فوٹوجینک نہیں اس لیےآمادہ نہیں ہوئے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نےکہاکہ لافرم کااکاؤنٹ دکھادیں رقم کافلوواضح ہوجاتاہے۔

    جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ یہ افریقہ یاپانامانہیں انگلینڈہےتمام ریکارڈمل جاتا ہے،انہوں نےکہاکہ ریکارڈلادیں بات ختم ہوجاتی ہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ حماد دبن جاسم بیان ریکارڈکراتاتوکہانی ختم ہوجاتی،انہوں نےکہاکہ قطری تواپنےمحل سےباہرآنےکوتیارہی نہیں تھا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ جےآئی ٹی بیان ریکارڈکرنےکیلئےاورکیاکرتی،جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ قطری کوئی ریکارڈپیش کرتاتوشایدواقعی ضرورت نہ پڑتی۔ انہوں نےکہاکہ کیاقطری پاکستان آنےکیلئےتیارہے۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ قطری کوپیش کرناحسین نوازکی ذمہ داری تھی، انہوں نےکہاکہ قطری حسین نوازکاسب سےاہم ترین گواہ تھا۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ وزیراعظم اوران کےبچوں نےکوئی غلط کام نہیں کیا،انہوں نےکہاکہ ہماراموقف مستردکرناہےتوپہلےتحقیقات مکمل کی جائیں۔

    جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ دبئی میں حسن نوازکی کمپنی بھی ہے،کمپنی کیلئےفنڈکہاں سےآیا،انہوں نےکہاکہ کیانوازشریف کمپنی کےچیئرمین تھے۔

    وزیراعظم کےبچوں کےوکیل نےکہاکہ نوازشریف کمپنی کےچیئرمین تھے لیکن تنخواہ نہیں لیتےتھےجسٹس اعجازافضل نےکہاکہ تنخواہ نہ بھی لیں تویہ ان کےاثاثوں میں شمارہوتاہے۔

    جسٹس اعجازافضل نےکہاکہ 6ہزارپاؤنڈکہاں سےآئیں جوفلیگ شپ کومنتقل ہوئے،جس پرسلمان اکرم راجہ نےکہاکہ جواب لےکرکل آگاہ کردوں گا۔

    جسٹس اعجازالاحسن نےکہاکہ کیپٹن صفدرکی وکلالت کون کررہا ہے؟جسٹس شیخ عظمت نےکہاکہ کیاکوئی کیپٹن صفدرکی نمائندگی کےلیےموجودہے۔

    سلمان اکرم راجہ نےکہاکہ کیپٹن صفدرکےوکیل شاہدحامدچھٹی پرہیں،جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کل سےمتعلق کیپٹن صفدرکوپیغام پہنچادیں، کوئی آیاتوٹھیک ورنہ رہنےدیں۔

  • قطر کے وزیر خارجہ پاکستان پہنچ گئے

    قطر کے وزیر خارجہ پاکستان پہنچ گئے

    اسلام آباد: قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی پاکستان پہنچ گئے جہاں وہ وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قطر کے وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی پاکستان پہنچ گئے۔ ذرائع کے مطابق قطری وزیر خارجہ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ شیخ محمد بن عبد الرحمٰن الثانی سے ملاقاتوں میں قطر سعودی عرب تنازعے سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ ملاقات کے دوران قطری شہزادے کے خط سے متعلق بھی گفتگو کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ماہ سعودی عرب اور مصر سمیت 7 عرب ممالک نے سیکیورٹی وجوہات پر قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔ سعودی سربراہی میں قائم فوجی اتحاد نے قطر پر القاعدہ اور داعش کی حمایت کا الزام عائد کیا تھا۔

    مزید پڑھیں: سعودی عرب سمیت 7 عرب ممالک کے قطر سے سفارتی تعلقات منقطع

    گزشتہ ماہ مشیرخارجہ سرتاج عزیز نے کہا تھا کہ پاکستان قطر سعودی تنازعے میں غیر جانبداری کی پالیسی پر کاربند ہے اور دونوں ممالک سے خوشگوار تعلقات کا خواہاں ہے۔

    یہاں یہ بھی یاد رہے کہ رواں ماہ قطری شہزادے نے پاکستان اور سفارتخانے آنے سے انکار کردیا تھا اور وزیر اعظم نواز شریف کو بھیجے گئے خط کی تصدیق کے لیے پاناما جے آئی ٹی کو دوحہ آنے کی دعوت دی تھی۔

    پاناما جے آئی ٹی نے قطری شہزادے کو اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے 19 مئی کو خط لکھ کر 25 مئی کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم شہزادہ حماد بن جاسم نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے معذرت کرلی تھی۔


  • الزام تراشی کےماہرایک سیاستدان نےجھوٹ کےریکارڈتوڑدیے‘ شہبازشریف

    الزام تراشی کےماہرایک سیاستدان نےجھوٹ کےریکارڈتوڑدیے‘ شہبازشریف

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ چند سیاسی عناصر قوم کوغیر جمہوری طریقے سے یرغمال نہیں بناسکتے۔

    تفصیلات کےمطابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا کہنا ہے کہ الزام لگانے والے ماہر سیاستدان نے جھوٹ کے تمام ریکارڈ توڑ دیے جبکہ چند عناصر اقتدار کی سیاست کے لیے ملک و قوم کی تقدیر داؤ پر لگارہے ہیں۔

    شہازشریف کا کہناتھاکہ عوام نے دھرنوں، لانگ مارچ اور احتجاجوں سے لاتعلقی ظاہر کی لہذا ایسے عناصر قوم کو غیر جمہوری طریقے سے یرغمال نہیں بناسکتے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ عوام صرف ملک کی ترقی چاہتے ہیں اور اسی لیے مسلم لیگ (ن) کو عوام نے خدمت کا مینڈیٹ دیا،ہم نے ہمیشہ سچے دل کے ساتھ عوام کی خدمت کی۔

    شہبازشریف کاکہناتھاکہ ہمارا جینا مرنا ہمیشہ عوام کے لیے رہے گا تاہم ملک کی ترقی کا سفر روکنے رکاوٹ ڈالنے والے عوام پر رحم کریں۔


    امید ہے اگلے ہفتے نوازشریف کیلئے الوداعی تقریب ہوگی، عمران خان


    واضح رہےکہ گزشتہ روزعمران خان نے کہاتھا کہ مجھے امید ہے کہ اگلا ہفتہ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کا آخری ہفتہ ہوگا، اسلام آباد میں بڑی الوداعی تقریب منعقد ہوگی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

  • وزیراعظم نوازشریف کا مستعفی نہ ہونےکادوٹوک اعلان

    وزیراعظم نوازشریف کا مستعفی نہ ہونےکادوٹوک اعلان

    اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا کہناہےاندھیروں کو بستیوں،اپنےکارخانوں کارخ نہیں کردیں گے۔انہوں نےکہاکہ جمہوریت فروس سازشی ٹولے کے کہنے پر استعفیٰ کیوں دوں۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کےاجلاس کےدوران کہاکہ جےآئی ٹی رپورٹ مفروضوں،الزامات اوربہتانوں کامجموعہ ہے۔

    وزیراعظم پاکستان نےکہاکہ اربوں کےمنصوبے لگ رہےہیں کوئی بدعنوانی ثابت نہیں ہوئی۔ انہوں نےکہاکہ استعفےکامطالبہ کرنےوالوں کےمجموعی ووٹ سےزیادہ ووٹ لیے۔

    وزیراعظم نوازشریف نےکہاکہ ہمارضمیراور دامن صاف ہے،4سال میں ہم نےتعمیروترقی کااتناکام کیاجتنا2دہائیوں میں نہیں ہوا۔ا انہوں نےکہاکہ اندھیروں کوبستیوں،اپنےکارخانوں کارخ نہیں کرنےدیں گے۔

    وزیراعظم نے اجلاس کےدوران کہاکہ جمہوریت فروش سازشی ٹولےکےکہنےپراستعفیٰ کیوں دوں؟اللہ کےفضل وکرم سےمیرےضمیرپرکوئی بوجھ نہیں۔ انہوں نےکہاکہ1985سےآج تک ایک پیسےکی خوردبردبھی نہیں کی۔

    انہوں نےکہاکہ پاکستان ماضی میں ایسےتماشوں کی بھاری قیمت اداکرچکاہے،ایسےتماشوں کاسلسلہ اب بندہوناچاہیے۔

    وزیراعظم نوازشریف نے وفاقی کابینہ کےاجلاس میں مستعفی نہ ہونےکادوٹوک اعلان کردیا جبکہ وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کےاعلان کاخیرمقدم ڈیسک بجاکر کیا۔

    خیال رہے کہ اس ہنگامی اجلاس کو طلب کرنے کا فیصلہ وزیراعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک ’غیررسمی اجلاس‘ میں کیا گیا،اس اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے قریبی وزراء، اور اٹارنی جنرل اشتراوصاف علی سمیت قانونی ٹیم موجود تھی۔

    یاد رہےکہ گزشتہ روزوزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہاتھا کہ وزیراعظم مستعفی نہیں ہوں گے، کیا نواز شریف کو اس لیے استعفیٰ دے دینا چاہیے کیونکہ ان کے خلاف عوامی دولت کے غلط استعمال کا کوئی بھی الزام ثابت نہیں ہوا؟۔


    وزیر اعظم استعفیٰ دیں گے نہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی: اجلاس میں فیصلہ


    واضح رہےکہ گزشتہ روزوزیر اعظم کی زیر صدارت مشاورتی اجلاس میں طے ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیں گے نہ اسمبلیاں تحلیل ہوں گی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • وزیراعظم کےصاحبزادےحسین نوازلندن سےاسلام آباد پہنچ  گئے

    وزیراعظم کےصاحبزادےحسین نوازلندن سےاسلام آباد پہنچ گئے

    اسلام آباد: وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کےبڑے صاحبزادے حسین نواز لندن سے وطن واپس پہنچ گئے۔

    تفصیلات کےمطابق جے آئی ٹی کی جانب سے پانماما لیکس تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانےسےچند گھنٹےقبل وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اسلام آباد پہنچ گئے۔

    حسین نوازپی آئی اے کی پرواز پی کے786کےذریعےلندن سےوطن واپس پہنچے،ان کی آمد پربینظیر بھٹو انٹرنیشنل ایئر پورٹ پرسیکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیےگئے تھے۔

    ذرائع کا کہنا ہےکہ حسین نواز نے پاناما لیکس کیس کےحوالےسےلندن میں اہم شخصیات سےملاقاتیں اورمشاورت کی جس کے بعد وہ آج وطن واپس پہنچے ہیں۔


    پاناماکیس:جےآئی ٹی آج رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی


    دوسری جانب پاناماکیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کیس کی تحقیقاتی رپورٹ آج سپریم کورٹ میں جمع کرائی جائے گی۔

    واضح رہے کہ جسٹس اعجازافضل کی سربراہی میں 3رکنی جے آئی ٹی عملدرآمد بینچ آج دوپہرایک بجےسماعت کرےگا۔خصوصی بینچ میں جسٹس عظمت سعید شیخ اورجسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگرآپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئرکریں۔

  • قطری شہزادہ شکار کے لیے آسکتا ہے مگر بیان دینے کے لیے نہیں، جسٹس وجیہہ الدین

    قطری شہزادہ شکار کے لیے آسکتا ہے مگر بیان دینے کے لیے نہیں، جسٹس وجیہہ الدین

    کراچی: جسٹس وجیہہ الدین صدیقی نے کہا ہے کہ جس فریق کا کیس کمزور ہوتا ہے وہ عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے، قطری شہزادہ شکار کے لیے تو آسکتا ہے مگر بیان دینے کے لیے نہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جسٹس وجیہہ الدین صدیقی نے کہا کہ پاناما کیس کی انکوائری بہتر اور اعتدال کے ساتھ کی گئی، بینچ نے کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے کوئی سخت الفاظ استعمال نہیں کیے۔

    انہوں نے کہا کہ پاناما کیس کا فیصلہ اکثریتی ججز کا ہوگا، قانون کے تحت 5 رکنی بینچ کی مدت میں توسیع نہیں ہوسکتی، جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ پر عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔

    جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا کہ قطری شہزادہ شکار کے لیے آسکتا ہے مگر بیان کے لیے نہیں آرہا، شہزادے خط کی تصدیق اور لین دین کے حوالے سے بیان ریکارڈ کرنے کے لیے عدالت میں ضرور آنا چاہیے کیونکہ قطری شہزادے کے 2 خط منظر عام پر آئے اور انہوں نے خطوط کی تصدیق خود بھی کی۔

    قبل ازیں حکومتی وزراء نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے جے آئی ٹی پر سوالات اٹھائے اور خواجہ آصف نے کہا کہ اگر جے آئی ٹی قطری شہزادے سے تفتیش نہیں کرے گی تو ہم اُس رپورٹ کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

    ویڈیو دیکھیں


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • جے آئی ٹی سپریم کورٹ نہیں، صرف عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے، رانا ثنا

    جے آئی ٹی سپریم کورٹ نہیں، صرف عدالت کا فیصلہ تسلیم کریں گے، رانا ثنا

    لاہور: وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نہیں، عدالتِ عظمیٰ سے آنے والے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گے۔

    لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جے آئی ٹی نے اپنی شفافیت کے بارے میں خود ہی تضاد اور شکوک و شبہات پیدا کیے، پاناما کی تحقیقات کرنے والی ٹیم متنازع تھی اور رہے گی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کسی کی لکھی ہوئی رپورٹس پر سائن کرتی ہے، جے آئی ٹی افسران کو چاہیے کہ جدہ لندن اور گلف جاکر پاناما کی تفتیش کریں، ہم نے پہلے ہی دن سے جے آئی ٹی کے حوالے سے اٹھنے والے تحفظات کو آن ریکارڈ بیان کیا۔

    پڑھیں: منظر نامے سے لگتا ہے کہ وزیراعظم نااہل ہوجائیں گے، ظفرعلی شاہ

    رانا ثناء اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی جسے مخالفین عدالت سمجھ کر اپنے آپ میں خوش ہورہے ہیں، مخالفین یاد رکھیں کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نہیں ہم بس عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ تسلیم کریں گے۔

    مزید پڑھیں: مریم نواز، بی ایم ڈبلیو موٹر سائیکل کے نام پر رجسٹرڈ ہونے کا انکشاف

    یاد رہے پاناما کیس کی مزید تفتیش کے لیے سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دی تھی جسے 60 دن میں مکمل رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے، بیرونِ ملک اثاثوں کے حوالے سے جے آئی ٹی کی تفتیش جاری ہے جس میں وزیراعظم، اسحاق ڈار، کیپٹن صفدر، مریم نواز، حسین نواز اور حسن نواز پیش ہوچکے ہیں۔

  • برملاکہتاہوں کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں توکارروائی کریں،حسین نواز

    برملاکہتاہوں کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں توکارروائی کریں،حسین نواز

    اسلام آباد : وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا کہنا ہے کہ جو سوالات ہم سے کیے جاتے رہے وہ دو پیشیوں کے سوالات تھے، برملا کہتا ہوں کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو کارروائی کریں، آپ کے پاس ثبوت نہیں تو شکوک وشبہات پیدا کرنے کی اجازت نہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پاناماکیس میں جے آئی ٹی کے سامنے پیشی کے بعد جوڈیشل اکیڈمی کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نوازشریف کے بڑے صاحبزادے نے کہا کہ آج جےآئی ٹی کے سامنے میری چھٹی پیشی تھی، جو سوالات ہم سے کیے جاتے رہے وہ دو پیشیوں کے سوالات تھے، ان سوالات کے لیے 6پیشیوں کی ضرورت نہیں تھی۔

    حسین نواز نے کہا کہ ہمارافیصلہ تھا کہ جےآئی ٹی کے ساتھ بھرپور تعاون کریں گے، جے آئی ٹی کے تمام سوالات کا جواب دیا اور انتظار بھی کیا، جےآئی ٹی رپورٹ فائنل کرکے سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔

    انکا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کو میرےخاندان کے کسی فرد کے بارے میں ثبوت نہیں ملے گا، جس چیز کا وجود ہی نہیں تو اس کا ثبوت آپ کو کیسے ملے گا، منی لانڈرنگ کی ہی نہیں تو ثبوت کس چیز کا ملے گا، برملا کہتا ہوں کہ آپ کے پاس ثبوت ہیں تو کارروائی کریں، آپ کے پاس ثبوت نہیں تو شکوک و شبہات پیدا کرنے کی اجازت نہیں۔

    وزیراعظم کے صاحبزادے نے کہا کہ سچائی یہ ہے کہ ان لوگوں کو کچھ نہیں ملے گا، بھٹو کیس اور طیارہ سازش کیس میں بھی ایسے معاملات آتے ہیں، جس کا مقصد ابہام پیدا کرنا اور سازشیں تیار کرنا ہے، معلوم نہیں کیا معاملات ہو رہے ہیں صرف متنبہ کر رہا ہوں، مینڈیٹ سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی اور نہ دی جائے گی۔

    حسین نواز کا مزید کہنا تھا کہ طیارہ سازش کیس میں سلطانی گواہ پیش کئےجاچکے ہیں، جو بعد میں جھوٹ نکلا، کل آپ بھی ان ہی عدالتوں میں کھڑے ہونگے، آپ سے بھی سوالات ہونگے اس کو مدنظر رکھیں، خلاف قانون کام کیا تو یہ نہ سمجھیں آپ بچ کرنکل جائیں گے۔

    وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے کہا کہ مطالبات کرتا ہوں نوازشریف کا غیرملکی اثاثوں سے تعلق پبلک کیا جائے، نوازشریف کا غیرملکی اثاثوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، جےآئی ٹی کے ممبران کے قطرجانے سے متعلق نہیں جانتا، معلوم نہیں مجھے6 مرتبہ جوڈیشل اکیڈمی کیوں بلایا گیا۔

    انھوں نے کہا کہ ، ان کے پاس ثبوت نہیں معاملات الجھانے کیلئے بار بار بلایا جاتا رہا ہے، سلطانی گواہ بنا دینا،شکوک و شبہات اور ابہام پیدا کرنا پرانا طریقہ کارہے، اس کیس کو طیارہ سازش کیس نہیں بننےدیں گے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔