لندن: امیرجماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ حکومت تمام محازوں پرناکام ہوچکی ہے، حکومت دوقدم آگے جبکہ چارقدم پیچھے چلتی ہے۔
تفصیلات کے مطابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیرقانون پنجاب رانا ثنا اللہ کا اقتدارمیں رہنے کا کوئی جوازنہیں ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن پرپہلے دن سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ ہیں۔
امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ حکومت تمام محازوں پرناکام ہوچکی ہے، انہوں نے کہا کہ حکومت دوقدم آگے جبکہ چارقدم پیچھے چلتی ہے۔
سراج الحق نے کہا کہ متحدہ مجلس عمل کے نام سے دینی جماعتوں کا اتحاد فعال ہوچکا ہے، کسی مذہبی جماعت کے رہنما کا نام پانامہ یا نیب لسٹ میں نہیں ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے آئندہ انتخابات سے متعلق کہا کہ 2018 کے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد نہیں ہوگا۔
خیال رہے کہ 4 روز قبل جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ صرف نوازشریف کی نااہلی سےمسئلہ حل نہیں ہوگا، پانامہ اسکینڈل میں دیگر 436 افراد کا بھی احتساب کیا جائے۔
یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے مذہبی جماعتوں نے سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل کو مکمل طور پر بحال کرنے کا اعلان کرتے ہوئےالیکشن میں ایک نشان کتاب پر حصہ لینے کا اعلان کیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف نے اقامہ لینے کا اقرار کرتے ہوئے اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔
تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دبئی کے اقامے کی وضاحت کردی۔ ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروا دیا۔
جواب میں اعتراف کیا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف نے متحدہ عرب امارات کا اقامہ لیا تھا۔ اقامہ سنہ 2013 کے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیا تھا۔ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت اقامے اور ملازمت کو پاسپورٹ کی کاپی میں ظاہر کیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے جواب کے مطابق کاغذات نامزدگی میں کوئی خصوصی کالم نہیں تھا اس لیے اسے الگ سے ظاہر نہیں کیا گیا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ وہ جے آئی ٹی کے اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی ملازمت چھپائی گئی۔ اقامے کا معاملہ سامنے آنے پر سیاسی مخالفین نے وزیر اعظم نواز شریف پر سخت تنقید کی تھی۔
جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ نواز شریف چوہدری شوگر ملز کے چیف ایگزیکٹو نہیں رہے۔ وہ جون 2016 تک شیئر ہولڈر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف 1 سال تک وزیر اعظم ہونے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کمپنی میں ملازمبھی رہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم اگست 2006 سے اپریل 2014 تک کپیٹل ایف زیڈ ای کے چیئرمین رہے اور کمپنی سے 10 ہزار درہم تنخواہ وصول کرتے رہے جبکہ رہائش اور دیگر الاؤنسسز بھی حاصل کیے۔
اسلام آباد: چوہدری شوگر مل کی ریکارڈ ٹیمپرنگ کیس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی ایف آئی اے کے اسپیشل جج سینٹرل نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 5 لاکھ کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے چیئرمین کی جانب سے چوہدری شوگر مل کے ریکارڈ میں ٹیمپرنگ سے متعلق کیس کی سماعت اسپیشل جج سینٹرل کی عدالت میں ہوئی۔
کیس کی سماعت جج طاہر محمود نے کی۔ چیرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی اپنے وکلا کے ہمراہ پیش ہوئے۔
عدالت نے چیئرمین ظفر حجازی کی 21 جولائی تک ضمانت منظور کرتے ہوئے 5 لاکھ کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 21 جولائی تک ملتوی کر دی۔
ضمانت منظور ہونے کے بعد میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے ظفر حجازی کا کہنا تھا کہ میرے خلاف پیش ہونے والے گواہوں کو اللہ پوچھے گا۔ مقدمہ درج ہونے سے کیا ہوا میں پھر بھی اپنےعہدے پر کام کر سکتا ہوں۔
یاد رہے چند روز قبل ایس ای سی پی کے 3 افسران علی عظیم اکرم، عابد حسین اور ماہین فاطمہ نے ایف آئی اے کے روبرو چوہدری شوگر ملز کےریکارڈ میں ٹیمپرنگ کا اعتراف کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ کام انہوں نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے ایما پر کیا۔ چیئرمین کی جانب سے چوہدری شوگر ملز کیس کی فائل بند کرنے کے لیے سخت دباؤ تھا، اور حکم عدولی پر انہوں نے مذکورہ افسران کو گلگت بلتستان سمیت دور دراز علاقوں میں تبادلوں کی دھمکی دی تھی۔
ریکارڈ ٹیمپرنگ کا انکشاف سامنے آنے کے بعد سپریم کورٹ نے چیئرمین ایس ای سی پی ظفر حجازی کے خلافمقدمہ درج کرنے اور تحقیقات کا حکم دے دیا۔
کیس کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ظفر حجازی نے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔ 11 جولائی کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی 17 جولائی تک کی ان کی عبوری ضمانت منظور کی تھی۔
اسلام آباد: پاناما کیس کی تحقیقات میں مصروف جے آئی ٹی کو حدیبیہ پیپرز ملز کا ریکارڈ موصول ہوگیا۔ ٹیم نے وزیر اعظم اور اسحٰق ڈار کے بیانات قلمبند کرنے سے متعلق طریقہ کار پر غور شروع کردیا۔
تفصیلات کے مطابق پاناما کیس کی جے آئی ٹی کو حدیبیہ پیپرز ملز کا ریکارڈ موصول ہوگیا جس میں بتایا گیا ہے کہ 640 ملین روپے کیسے اکھٹے ہوئے؟ حالات کیا تھے اور کیا کیا واقعات رونما ہوئے تھے؟
ڈائریکٹر ایف آئی اے واجد ضیا کی زیر صدارت چھٹے اجلاس میں حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق نیب کی تفتیشی رپورٹ بھی ٹیم نے حاصل کرلی۔ نیب دستاویزات میں اسحٰق ڈار کا سابق چیئرمین نیب کو ہاتھ سے لکھا 20 اپریل سنہ 2000 کا بیان بھی شامل ہے۔
ریکارڈ کی جانچ کے ساتھ جے آئی ٹی ممبران وزیر اعظم نواز شریف، اسحٰق ڈار اور کیپٹن صفدر کے بیانات قلمبند کرنے سے متعلق طریقہ کار وضع کریں گے۔
آج ہونے والے اہم اجلاس میں تفتیشی ٹیم وزیر اعظم اور ان کے داماد کیپٹن صفدر کے اثاثوں کی تفصیلات کا جائزہ لینے کے ساتھ ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے لیے ماہرین کی معاونت لینے پر مشاورت کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ ایک روز قبل جے آئی ٹی نے الیکشن کمیشن سے وزیر اعظم اور ان کے داماد کیپٹن صفدر کے گوشوارے بھی طلب کیے ہیں۔
ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے 1985 سے لے کر اب تک کی تمام تفصیلات طلب کی ہیں اور اس کے لیے الیکشن کمیشن کو 3 دن کی مہلت دی ہے جو کل ختم ہوجائے گی۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
اسلام آباد: پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی جانے والی جے آئی ٹی کے اجلاس جاری ہیں تاہم نیب کی نمائندگی کرنے والے افسر عرفان نعیم منگی مسلسل غیر حاضر ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاناما کیس پر بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی 60 روزہ تفتیشی مدت کا آغاز ہوچکا ہے۔ اب تک جے آئی ٹی کی 6 رکنی ٹیم کے 3 اجلاس منعقد ہوچکے ہیں۔
ان 3 اجلاسوں میں تحقیقات کا طریقہ کار بھی طے ہوگیا جبکہ کیس میں آگے بڑھنے پر بھی مشاورت ہوگئی۔
تاہم نیب کی نمائندگی کرنے والے افسر عرفان منگی ایک بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ نیب کے افسر عرفان نعیم منگی بیرون ملک دورے پر ہیں۔
یاد رہے کہ پاناما کیس میں نامزد افراد سے پوچھ گچھ اور منی ٹریل کی کھوج لگانے کے لیے نیب اہم ترین ادارہ ہے۔
یاد رہے کہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے نیب کی کارکردگی پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے منی لانڈرنگ سے متعلق اعترافی بیان پر کارروائی نہ کرنے پر بھی نیب کی سرزنش کی جا چکی ہے اور اب پاناما کیس کی تفتیش کے اہم مراحل میں بھی نیب افسر غیر حاضر ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
پاناما دستاویزات میں جائیدادوں اور اثاثوں کی فہرستوں کو منظر عام پر آئے ایک سال مکمل ہوگیا۔ پاناما کے انکشافات نے کئی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ پاکستان میں پاناما کیس کا فیصلہ تاحال محفوظ ہے جس کے منظر عام پر آنے کا سب کو انتظار ہے۔
پاناما دستاویز کے تہلکہ خیز انکشافات کو منظر عام پر آئے ایک سال مکمل ہوگیا۔ بحر اوقیانوس کے کنارے واقع ملک پاناما کی فرم موساک فونیسکا کے ڈیڑھ لاکھ خفیہ دستاویزات نے دنیا کی کئی حکومتوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
بعض ممالک کے صدور اور وزرائے اعظم، اور وزرا کو گھر جانا پڑا۔
یورپی ملک آئس لینڈ کے وزیر اعظم سگمندر گنلگسن کے بارے میں انکشاف ہوا کہ وہ اور ان کی اہلیہ آف شور کمپنی وینٹرس کے مالک تھے۔ انکشاف ہوتے ہی آئس لینڈ میں طوفان کھڑا ہوگیا اور بے پناہ عوامی دباؤ کے باعث وزیر اعظم کو مستعفی ہونا پڑا۔
دستاویزات میں برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے والد کا نام بھی آگیا جس کے بعد برطانیہ میں ان کے خلاف تحقیقات شروع ہوگئیں۔ برطانوی وزیر اعظم کو عدالتوں میں پیش ہو کر صفائیاں دینی پڑیں۔
وزیر اعظم پاکستان بھی شامل
پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے خاندان کا نام پاناما پیپرز میں آیا تو ملکی سیاست میں ہلچل مچ گئی۔ وفاقی وزرا اپنی ذمہ داریاں بالائے طاق رکھ کر حکمران خاندان کے دفاع میں بیانات دینے لگے جبکہ اپوزیشن نے بھی معاملے پر بھرپور جواب دیا۔
وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ عدالت میں جا پہنچا۔
کیس کی سماعت کے لیے بینچ تشکیل دیا گیا، تاہم سابق چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد بینچ ختم ہوگیا۔ نئے سال سے نئے بینچ نے نئے سرے سے سماعت شروع کی۔
پاناما کیس کا فیصلہ عدالت میں محفوظ ہے اور تاحال اسے عوام کے سامنے نہیں لایا گیا۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناماکیس کی سماعت کل تک کے لیےملتوی ہوگئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی اپنےدلائل جاری رکھیں گے۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے کی۔
سپریم کورٹ میں پاناماکیس سے متعلق درخواستوں کی سماعت پرعدالت نے جماعت اسلامی کی وزیر اعظم سے متعلق نااہلی کی درخواست منظور کرکے وزیر اعظم نوازشریف سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل سے کہا کہ کیا آپ درخواست پر دلائل دینے کیلئے تیار ہیں؟جس پر وکیل جماعت اسلامی نے کہا جی بالکل تحریری دلائل تیار ہیں ابھی دے سکتا ہوں۔
جماعت اسلامی کے وکیل سے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کی پہلی درخواست یکسر مختلف تھی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جماعت اسلامی کے وکیل سےکہا کہ وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان کے بعد آپ دلائل دیں۔انہوں نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ درخواست گزاروں کے دلائل مکمل ہوں،تب فریقین کو سنا جائے۔
وزیراعظم کے وکیل نے دلائل کا آغاز کردیا
وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ مریم نواز اپنے والد کی زیر کفالت نہیں،وزیر اعظم نے مریم نواز کو تحائف بینکوں کے ذریعے دیے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیر اعظم پر ٹیکس چوری کا الزام غلط ہے،جبکہ وزیراعظم اور بچوں کے درمیان رقوم کا تبادلہ بینک کے ذریعے ہوا۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ بینک ریکارڈ کی تصدیق کیوں نہیں کرائی گئی،انہوں نے کہا کہ آپ کو دستاویزات اپنے جواب کے ساتھ جمع کرانی چاہیے تھیں۔
وزیراعظم کے وکیل نے جواب میں کہا کہ عدالت چاہے تو بینکوں سے ریکارڈ کی تصدیق کرا سکتی ہے،انہوں نے کہا کہ عدالت سے کچھ چھپانا نہیں چاہتے۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ تمام بینکوں سے سرٹیفکیٹ لینا مشکل عمل تھا،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ تصدیق کے بغیر دستاویزات قبول کر لیں تو دوسرے فریق کی ماننا پڑیں گی۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کے لئے پیمانہ ایک ہی ہوگا۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ بینک ریکارڈ خفیہ رکھنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے،اس کا مطلب یہ نہیں عدالت سے کچھ چھپانا چاہتے ہیں۔
مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کے اکاؤنٹ سے 3لاکھ 10 ہزار ڈالر مریم کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے ویلتھ اور اِنکم ٹیکس گوشوارے عدالت میں جمع ہیں،جبکہ تحائف کا ذکر وزیر اعظم کے گوشواروں میں موجودہ ہے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ وزیراعظم پر الزام ہے آمدن کو تحائف ظاہر کرکے ٹیکس چھپایا گیا ہے،تحائف کو تب آمدن تصور کیا جائے گا جب یہ ایسے شخص کی ہو جس کا ٹیکس نمبر نہ ہو۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ اِنکم ٹیکس قوانین کے تحت بیرون ملک سے آنے والے تحائف ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں،انہوں نے کہا کہ مانتا ہوں وزیر اعظم نے تحائف لیے لیکن بینک کے ذریعے لئیے گئے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ دیکھنا چاہیں گے یہ رقم 1.5ملین ڈالر بینکس کے ذریعے آئی،جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ تحائف کی وصولی تسلیم کرتا ہوں اس کے دستاویز کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت کے طلب کرنے پر اکاونٹس کی تفصیل فراہم کر دیں گے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے ٹیکس گوشوارے جمع ہوئے یا نہیں،جسٹس اعجازالاحسن نےکہا کہ حسین نواز کی جانب سے یہ تحائف2010 میں دیے گئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جدہ اسٹیل مل 2005 میں فروخت ہوئی۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کے سعودی عرب میں اور بھی کاروبار ہیں،انہوں نےکہا کہ حسین نواز کے وکیل یہاں موجود ہیں وہ وضاحت دیں گے۔
وزیراعظم کے وکیل نے پانامالیکس کی درخواست کی184/3کے تحت سماعت کوچیلنج کردیا،سرکاری اداروں کی رپورٹ آنے تک 184/3کے تحت سماعت نہیں ہوسکتی۔
سپریم کورٹ کے باہر شیخ رشید کی میڈیا سے گفتگو
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد کا کہناہےکہ پاناماکیس دنیا کادلچسپ ترین کیس بنتا جارہا ہے،انہوں نے کہا کہ عدالت نے کہا ہے آپ پرمنی لانڈرنگ کے بھی الزامات ہیں۔
شیخ رشید احمد کا کہناتھاکہ مخدوم علی خان میرے خیال میں کل تک دلائل مکمل کریں گے،بچے پیسے کیسے لےکر گئے،کاروبار کیسے کیا پھراس پردلائل شروع ہونگے۔
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کا کہناتھا کہ پوری امید ہے کیس میں انصاف ہوگا،انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کیس اس مہینے کے آخر تک ختم ہوجائے گا۔
سپریم کورٹ کے باہر تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کی گفتگو
سپریم میں پاناماکیس کی سماعت کےوقفے کے دوران تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری نےمیڈیا سے بات کرتےہوئے کہا کہ اربوں روپے بیرون ملک سے واپس کیسے آئے،انہوں نے حسین نواز کے پیسے اربوں روپے کہاں سے آئے۔
فواد چودھری کا کہناتھاکہ اربوں روپے باہر کیسے گئے اورواپس کیسے آئے اہم جزو ہے،انہوں نے کہا کہ پشاورکے حوالہ ڈیلرز کے ذریعے اربوں روپے بیرون ملک بھیجے گئے۔
تحریک انصاف کے رہنما کاکہناتھاکہ مخدوم علی خان کہہ رہے ہیں عدالت اس کی تحقیقات نہیں کرسکتی،انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں دلائل کی شکل میں لطیفے سنائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے ڈیوس میں کرپشن کے خاتمے پربات کی ہے،ڈیوس میں مقررین نے کہا پاناماپیپرز کرپشن کی بڑی داستان ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کا کہناتھاکہ وزیراعظم کی ڈیوس میں تقریر سے جگ ہنسائی ہوئی ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کی سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو
پاناما کیس کی سماعت میں وقفے کے دوران وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے میڈیا سے گفتگوکرتےہوئے کہا کہ عمران خان کو نواز شریف فوبیا ہوگیا ہے،خواب میں بھی نظرآتے ہیں،عمران خان کا بچپن کا خواب وزیراعظم بننا پورا نہیں ہوگا۔
وفاقی وزیر ریلوے نے کہا کہ عمران خان خیبرپختونخوا والوں کی خدمت نہیں کریں گے بلکہ وہ اداروں کو دباؤ میں لانے کی سازش کرتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ عمران خان جانتے ہیں 2018میں لوگ نوازشریف کوووٹ دیں گے۔
مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا ہے کہ سراج الحق جہاں حکمران ہیں وہاں ان کی زبان بندی ہو چکی ہے لیکن جہاں اپوزیشن میں ہیں وہاں چھلانگیں مار رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب خیبرپختونخواہ میں انصاف کچلا جا رہا تھا اور ان کا وزیر خیبر بینک پر دباﺅ ڈال کر لوٹ مار کر رہا تھا تب سراج الحق کہاں تھے۔
سپریم کورٹ میں پاناماکیس کی سماعت میں وقفے کےبعدوزیراعظم کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ٹیکس فارم میں کالم نہ ہونے پرمریم کا نام زیر کفالت کے خانے میں لکھا گیا۔
مخدوم علی خان نےکہاکہ مریم نواز کا نام اس خانے میں لکھنے کا مقصدیہ یہ نہیں کہ وہ زیر کفالت ہیں،جس پر جسٹس گلزار نےاستفسار کیا کہ ٹیکس فارم میں ترمیم2015 میں ہوئی، پاناما کب سامنے آیا۔
وزیراعظم کے وکیل نےجواب میں کہا کہ پانامہ کا معاملہ اپریل2016 میں سامنے آیا، فارم میں ترمیم اس سے پہلے ہو چکی تھی،انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے 2011 میں مریم نواز کے نام زمین خریدی تھی۔
جسٹس گلزاراحمد نےاستفسارکیا کہ کیا یہ جائیداد بے نامی تو نہیں تھی؟ کیا 2011سے 15 کے دوران یہ جائیداد اسی طرح کالم میں ظاہر کی گئی؟ ۔
مخدوم علی خان نےدلائل دیتے ہوئے کہا کہ 2012میں یہ جائیداد مریم نواز کے اثاثہ جات میں شامل کردی گئی تھی،جبکہ 2012/13کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے خانے میں مریم نواز کانام تھا۔
انہوں نے کہا کہ اسی لیے مریم نواز کا نام زیر کفالت کے خانے میں نہیں تھا، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسفسار کیا کہ وزیراعظم نے حسین نواز سے تحفے میں رقم لی،کیا اس رقم کا کچھ حصہ بیٹی کو دیا یہ کب ہوا؟ ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کہنا چارہے ہیں بیٹی کے نام کی جائیداد ظاہر کرنا نیک نیتی ہے؟ہوسکتا ہے اس طرح جائیداد خریدی جارہی ہو اور احتیاط بھی برتی جارہی ہو۔
انہوں نےکہا ممکن ہے مریم نے والد کی جانب سے دی گئی رقم سے ہی جائیداد خریدی ہو،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ ہوسکتا ہے رقم غیر قانونی طریقے سے بیٹے کو منتقل کی گئی ہو۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ریکارڈ پر رقم کی منتقلی کی کوئی دستاویز نہیں،انہوں نے کہا کہ زمین کی خریداری کی تاریخیں اور بیٹے کے تحائف کی تاریخیں اہم ہیں۔
جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت کو تمام تحائف سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا جائے،جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ حسین نواز کی جانب سے تمام تحائف کا ذکر گوشواروں میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ حسین نواز نے بیس کروڑ کی رقم 2012 میں بھیجی،حسین نوازنے12کروڑ 98لاکھ 2012 میں گفٹ کیے۔جس پر جسٹس عظمت نے کہاکہ زمین کی خریداری کی تاریخ اور بیٹے سے والد کو تحفہ دینے کی تاریخیں اہم ہیں۔
جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ اسٹام پیپرز کے مطابق یکم مارچ کو سودا طے ہوا توفروری میں ڈرافٹ ڈید کیسے ہوئی۔
جسٹس گلزار نےکہا کہ زمین کی خریداری سے متعلق دستاویزات جمع نہیں ہوئیں، جس پروزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ مریم نواز کے وکیل شاہد حامد تمام دستاویزات ریکارڈ پر لائیں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ تحفے میں کوئی گھڑی نہیں دی گئی رقم ہی دی گئی،انہوں نے کہا کہ ہو سکتا ہے امیروں کے تحفے ایسے ہی ہوتے ہوں۔
جسٹس عظمت سعید نےکہاکہ کسی نہ کسی نے تو رقم کا جواب دینا ہے،جبکہ ریکارڈ کے مطابق آف شور کمپنیوں سے آمدن نہیں ہوئی۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی فیصلے پر نہیں پہنچے،سوالات اٹھا کر کیس واضح کر رہے ہیں،جس پرمریم نواز کے وکیل نے جواب دیاکہ جس جائیداد پر سوال آیا ہے،کل کااغذات پیش کروں گا۔
وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ نواز شریف نے کبھی اپنے بیٹے حسین نواز کی تردید نہیں کی،جس پر جسٹس عظمت نے کہا کہ ہم اگر تقریر پر جاتے ہیں تویہ آپ کے خلاف جاتی ہیں۔
جسٹس عظمت نے کہا کہ درخواست گزاروں نے کبھی نہیں کہا فلیٹ نواز شریف نے خریدے،درخواست گزار کا کہنا ہےنواز شریف مالک نہیں مریم نواز بینیفیشل اونر ہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ پاناما پیپرز میں لائی گئی جائیدادوں کے نواز شریف نا مالک ہیں اور نہ ہی حصہ دار جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ تقاریر میں کچھ کہا گیا اور عدالت کو کچھ کہا گیاہے۔
سپریم کورٹ نےنوازشریف کی تقاریر اور عدالتی موقف میں تضاد پروضاحت مانگ لی،جسٹس آصف سعید کھوسہ نےکہاکہ نوازشریف کی تقاریر اور عدالت میں موقف میں تضاد پر کل وضاحت دیں۔
واضح رہےکہ پاناماکیس کی سماعت کل تک کےلیے ملتوی کردی گئی،وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ کراچی مسائل کا گڑھ بن چکا ہےجب تک کراچی کےعوام احتجاج نہیں کریں کے انتظامیہ کو کوئی فرق نہیں پڑےگا۔انہوں نے کہا کہ 2017انصاف کاسال ہوگا۔
تفصیلات کےمطابق کراچی میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا کہناتھا کہ کراچی 60 فیصد محصولات دیتا ہے لیکن یہ مسائل کا گڑھ بن چکا ہےجہاں عوام کو پینے کا صاف پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔
عمران خان نے کہا کہ جب تک کراچی کے عوام احتجاج نہیں کریں گے،انتظامیہ کو فرق نہیں پڑے گا۔انہوں نےکہا کہ کراچی کے عوام کو اکٹھا کر کے بڑا مظاہرہ کریں گے اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالیں گے کیونکہ صاف کراچی لوگوں کا حق ہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ کا کہناتھاکہ حکومت کا ایک فرنٹ مین ہے جس کے ذریعے سارا پیسہ لوٹا جا رہا ہے اور کراچی کا پیسہ لوٹ کردبئی میں پراپرٹی خریدنے کےلیےاستعمال ہورہا ہے۔
عمران خان کا کہناتھا کہ تحریک انصاف کسی ایسی جماعت سے اتحاد نہیں کرے گی جس پر کرپشن کے مقدمات ہیں،ایسی جماعت کےساتھ پانامہ کے علاوہ کسی بات پر اتحاد نہیں ہوسکتا۔
جاوید ہاشمی سےمتعلق سوال پرعمران خان کا کہناتھاکہ جاوید ہاشمی کا دماغی توازن درست نہیں،انہوں نے جھوٹ پلس بولا ہے۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کو سینیٹ اورقومی اسمبلی میں ٹف ٹائم دینےکافیصلہ کیا ہے۔
تفصیلات کےمطابق اسلام آباد میں تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی زیر صدارت پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کا مشترکہ اجلاس ہوا۔
اجلاس میں پانامالیکس اورکوئٹہ کمیشن کےحوالے سے منظر عام پر آنےوالی رپورٹ اوراس پر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار کےگزشتہ روز کے بیان پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب پاناما لیکس کے حوالے سےوزیراعظم پر لگے الزامات اور ان کے پارلیمنٹ میں دیئے گئے بیان کو قومی اسمبلی کے علاوہ سینیٹ میں بھی بھرپور انداز میں اٹھایا جائے گا۔
پاناما ایشو کے حوالے سے حکومتی اور اپوزیشن کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر بحث کی جائےگی۔
واضح رہے کہ دو روز قبل پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے چوہدری نثار سے استعفے کا مطالبہ کیاتھا۔ ان کا کہناتھا کہ کوئٹہ کمیشن رپورٹ حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔
اسلام آباد : پانامہ کے وزیرخزانہ نے تہلکہ خیز دعویٰ کیا ہے کہ ان سے پاکستانی وزیر خزانہ نے ملاقات کی ہے۔ جبکہ پاکستانی وزارت خزانہ کے حکام کا کہنا ہے کہ وزیر خزانہ نے پانامہ کے کسی وزیر سے ملاقات نہیں کی۔
تفصیلات کے مطابق لاطینی امریکا کے چھوٹے سے ملک پانامہ نے ہنگامہ کھڑا کررکھا ہے۔ اسی ملک کے وزیر نےایک اورتہلکہ خیز دعوٰی کردیا۔
سی این این کے مشہورومعروف صحافی رچرڈ کوئسٹ نےپانامہ کےوزیر معیشت سے پوچھا کہ آپ کے پاس پانامہ پیپر پانامہ پیپرزرکرتا کون کون آیا۔
پانامہ کے وزیرکا جواب کسی بم دھماکے سے کم نہ تھا۔ آئیون زرک نے دعوٰی کیا کہ کوئی اورنہیں پاکستانی وزیرخزانہ آئے تھے۔
پاکستانی حکومت نے یہ دعوٰی فوری طور پرمسترد کردیا،ترجمان وزارت خزانہ نےکہا کہ وزیرخزانہ سے پاناما کے وزیرکی ملاقات کی خبربےبنیاد ہے۔
اسحاق ڈاربیرون ملک گئےہی نہیں،انہوں نےواشنگٹن کا دورہ منسوخ کردیا۔ان کی جگہ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹروقارمسعود گئے ہیں۔