Tag: پانامہ کیس

  • پاناما کیس، پی ٹی آئی کی چار رکنی وکلا ٹیم کا اعلان

    پاناما کیس، پی ٹی آئی کی چار رکنی وکلا ٹیم کا اعلان

    اسلام آباد : پاکستان تحریک انصاف نے پاناما کیس کی پیروی کے لیے چار رکنی وکلا ٹیم کا اعلان کردیا جس میں نعیم بخاری، بابر اعوان، سکندر مہمند اور ملائکہ بخاری شامل ہیں۔


    Imran Khan forms 4-member legal team over… by arynews

    یہ بات پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔

    چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے کہا ہے کہ پانامہ کیس کی پیروی نعیم بخاری کی سربراہی میں چار رکنی وکلاء کا پینل بنا رہے ہیں جس کا حصہ بابر اعوان بھی ہوں گے حامد خان میڈیا کی وجہ سےدستبردار ہوئے، جس پر ہمیں افسوس ہے اور حامد خان کی خدمات پر ان کے شکر گذار ہیں۔

    چیئرمین تحریک انصاف نے کہا کہ حامد خان کی کیس سے الگ ہونے کے بعد مرکزی کابینہ کی مشاورت کے بعد چار رکنی وکلاء کا پینل تشکیل دیا ہے، جس کی سربراہی نعیم بخاری کریں گے جب کہ بابر اعوان، سکندر رامنگ اور ملائیکہ بخاری رکن ہو ں گی یہ پینل مزید وکلاء کو بھی ٹیم میں شامل کر سکتا ہے۔

    تحریک انصاف کے وکلاء کی جانب سے سپریم کورٹ میں کمزور کارکردگی دکھانے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ میں کمزور ٹیم کے ساتھ بڑی ٹیموں کو ہرانے کا تجربہ رکھتا ہوں اس لیے آپ فکر نہ کریں مجھے اپنی ٹیم پر مکمل بھروسہ ہے۔

    سربراہ تحریک انصاف نے کہا کہ اپوزیشن کا کام ہوتا ہے کہ عوام کے پیسوں کی نگرانی کرے اور حکومت کا احتساب کرے اسی لیے بہ حثیت اپوزیشن پارٹی ہم نے پانامہ کیس لڑنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے لیے ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کہیں سنوائی نہیں ہوئی تو اسلام آباد لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تھا ۔

    انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ادارے اپوزیشن کے تابع نہیں ہوتے اس لیے اپوزیشن کا کام نہیں ہے کہ وہ ثبوت اکھٹے کرے، پانامہ پیپرز میں وزیر اعظم کے اہل خانہ کا نام ٓنے کے بعد اداروں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ شفاف تحقیقات کی جائیں۔

    لندن میں ثبوت اکھٹے کرنے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ لندن اپنے بچوں سے ملنے گیا تھا کہ کیوں کہ چار ماہ سے زائد عرصہ ہو گیا تھا بچوں سے ملاقات نہیں ہو سکی تھیاور بچوں کے پاس تو ثبوت نہیں ہو سکتے تھے۔

    شادی سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شادی سنت رسول ہے تا ہم ابھی توجہ پانامہ کیس پر مرکوز ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پانامہ پیپرز میں نام آنے کے بعد وزیراعظم نے چار مرتبہ قوم سے خطاب کیا لیکن ایک بار بھی قطر کے شہزادے کا ذکر نہیں کیا اب اچانک یہ کیسے آ گئے۔

    سربراہ تحریکِ انصاف عمران خان نے کہا کہ ہر فورم پر آواز اُٹھانے کے بعد ہماری امیدیں سپریم کورٹ سے لگی ہوئی ہیں،پارلیمنٹ سمیت ہر ادارے نے مایوس کیا کہیں سنوائی نہیں ہوئی اگر کہیں سے بھی انصاف نہیں ملے توبندوق اُٹھا کے خونی انقلاب کے علاوہ کیا راستہ رہ جاتا ہے؟

  • تلاشی مانگنےوالوں کی اپنی تلاشی ہوئی توبھاگ گئے، مریم اورنگزیب

    تلاشی مانگنےوالوں کی اپنی تلاشی ہوئی توبھاگ گئے، مریم اورنگزیب

    اسلام آباد : وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پہلے ہی دن فیصلہ کرلیا تھا کہ ثبوت عدالت میں دیں گے،اب جب کہ ثبوت دے دیے گئے ہیں تو الزام لگانے والے خاموش ہوگئے ہیں۔

    وزیرِمملکت مریم اورنگزیب نے یہ بات پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ کی پریس کانفرنس پر ردعمل دیتے ہوئے کہی، اُن کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپنی تقاریر میں ثبوت کا ذکر اس لیے نہیں کیا کیوں کہ ثبوت میڈیا یا اپوزیشن کے سامنے نہیں بلکہ عدالت کے سامنے رکھے جاتے ہیں۔

     اسی سے متعلق : کمزور ٹیم کےساتھ بڑی ٹیم کوشکست دیناجانتاہوں، عمران خان

    انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم پاکستان نےفلیٹ خریدنے کےحوالےسےثبوت سپریم کورٹ میں جمع کرادیے ہیں جس کے بعد سے الزام لگانےوالے خاموش ہوگئے ہیں۔

    مریم اورنگزیب نے عمران خان سے سوال کیا کہ عدالت میں اپنا جواب کیوں جمع نہیں کرایا،تلاشی مانگنےوالوں کی اپنی تلاشی ہوئی تو بھاگ گئے،قطری شہزادے سے پہلےخان صاحب کوخود کٹہرے میں آنا پڑےگا،خان صاحب پھرمت کہیےگا کہ سر پر چوٹ لگی تھی بھول گیا۔

    انہوں نے کہا کہ عمران خان جب بات کرتے ہیں توشرمندگی اور ناکامی کی تصویرنظر آتے ہیں،ان کے انداز و اطوار سے ناکامی کی خفگی نمایاں طور پر ظاہر ہوتی ہے۔

    عمران خان کی اپنی شادی کے حوالے کہے گئے ریمارکس پر مریم اورنگزیب نے کہا کہ خان صاحب شادی کی سنت ضرور ادا کریں لیکن جھوٹ اوربہتان سےمتعلق احادیث پر بھی غورکریں۔

  • پانامہ کیس میں وزیراعظم نااہل ہوسکتے ہیں، جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین

    پانامہ کیس میں وزیراعظم نااہل ہوسکتے ہیں، جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد نے کہا ہے کہ پانامہ کیس میں وزیراعظم نااہل ہوسکتےہیں، وزیراعظم کوثابت کرنا ہوگا کہ لندن فلیٹ کے لیےرقم کہاں سےآئی؟ رقم کاذریعہ ثابت نہ کرنے پر وزیراعظم صادق اورامین نہیں رہیں گے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں میزبان ماریہ میمن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

    جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد نے کہا کہ پاناما کیس کے تمام شواہد موجود ہیں، حسین نواز اعتراف کرچکے ہیں کہ لندن کے4 فلیٹ ان کےہیں۔ کرپشن سے فلیٹ خریدنے کے الزام ان کو ہی غلط ثابت کرنا ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ فلیٹ کی خریداری کے وقت حسین نواز بچے تھے، یہ فلیٹس حسین نواز نے کیسے خریدے یہ عدالت مین ثابت کرنا ہوگا، قانون کی رو سے فلیٹ نوازشریف کی ملکیت سمجھےجائیں گے۔

    انہوں نے کہا کہ پاناما کیس قتل کا نہیں چوری کا کیس ہے۔ یہ کیس آئین کے آرٹیکل 184 کے تحت ہے، وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کہ وہ منی ٹریل بتائیں۔

    ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قطری شہزادے کا خط وزیر اعظم کے بیانات کی تردید کرتا ہے، دونوں کے بیانات میں واضح تضاد ہے۔

  • پانامہ کیس، حمد بن جاسم کے خط کی کوئی اہمیت نہیں، اعتزاز احسن

    پانامہ کیس، حمد بن جاسم کے خط کی کوئی اہمیت نہیں، اعتزاز احسن

    اسلام آباد : پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء اور سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں پیش کیےگئے حمد بن جاسم کے خط کی کوئی اہمیت نہیں ہے یہ صرف اور صرف ردی کا ٹکڑا ہے۔

    سینیٹر اعتزاز احسن اے آر وائی نیوز سے بات کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ جب تک حمد بن جاسم خط کی تصدیق نہیں کرتے یہ خط ردی کے ایک ٹکڑے کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتا اور یہ خط خود نواز شریف کے بیان سے بھی متصادم ہے۔

    اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ پانامہ پپیپرز میں نواز شریف کے اہل خانہ کا نام آنے کے بعد سے دو مرتبہ وزیر اعظم قوم سے خطاب کر چکے ہیں اور دونوں مرتبہ حمد بن جاسم کے گروپ الثانی میں سرمایہ کاری کا ذکر تک نہیں کیا اور آج اچانک خط سامنے لے آئے ہیں جو کہ ناقابل فہم ہے۔

    اسی سے متعلق : حمد بن جاسم کون ہیں ؟

    انہوں نے مزید کہا کہ حمد بن جاسم سے منت سماجت کر کے خط لیا گیا ہو گا تا ہم اب انہیں پاکستان آنا چاہئے اور سپریم کورٹ میں باقاعدہ جرح ہونی چاہئے ایسا ہوا تو میں وکلاءکو بتاﺅں گا کہ حمد بن جاسم سے کیا سوالات کرنے ہیں۔

    یہ پڑھیے : پاناما کیس، وزیراعظم کےبچوں نے دستاویزی ثبوت سپریم کورٹ میں جمع کرا دیئے

    اعتزاز احسن نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ خط تو پتہ نہیں ثابت ہو گا یا نہیں ہو گا لیکن پاکستان میں یہ بات مشہور ہے کہ لندن کے فلیٹس موٹر وے کی تعمیر کے دوران لیے گئے کمیشن سے خریدے گئے ہیں۔

  • پاناما لیکس: ذرائع آمدنی نہ بتانے پرجائیداد بے نامی ہونے کا امکان

    پاناما لیکس: ذرائع آمدنی نہ بتانے پرجائیداد بے نامی ہونے کا امکان

    اسلام آباد : وزیر اعظم کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور صاحبزادی مریم صفدر کو اپنی جائیداد بنانے کے ذرائع کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کرنا ضروری ہوگا اگر ایسا نہیں ہوا تو نیب آرڈیننس کے مطابق ان کی جائیداد بے نامی قرار دی جاسکتی ہے۔

    پاناما پیپرز میں وزیر اعظم کے اہل خانہ کی جانب سے آف شور کمپنیاں بنانے کے انکشاف کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال یہ معاملہ سپریم کورٹ تک لے گئی اور اس کیس کے قانونی پہلوؤں پر قانون دانوں اور ماہرین کی رائے ہر جگہ موضوع بحث ہے۔

    اسی حوالے سے معروف تجزیہ نگار اور سینیئر صحافی اسد کھرل نے اے آر وائی سے گفتگو میں کہا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں کی جائیدادیں بے نامی قرار دے دی گئیں تو اس کا براہ راست اثر وزیر اعظم پر بھی پہنچے گا اور نیب کے قوانین کی رو سے وزیراعظم سزا کے مستحق بھی بن سکتے ہیں۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ ماضی قریب میں بھی اور آج بھی وفاقی وزراء پریس کانفرنس میں کہہ رہے تھے کہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کا نام نہیں ہے ان جائیدادوں سے بھی وزیر اعظم کا تعلق نہیں ہے یہ وزیر اعظم کے بچوں کی جائیدادیں ہیں اور بچے وزیراعظم کے زیر کفالت نہیں۔

    تجزیہ نگار اسد کھرل نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ نیب قوانین کے آرٹیکل 9 سب سیکشن 5 کے تحت کسی بھی پراپرٹی،جائیداد یا آف شور کمپنی اگر کسی پبلک آفس ہولڈر کے ساتھ منسلک ہو جائے چاہے پبلک آفس ہولڈر کے ورثاء کے نام پر ہی کیوں نہ ہو تو ورثاء کو ذرائع آمدنی بتانا ہوں گے اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو ایسی جائیداد کو بے نامی جائیداد قرار دے دیا جا سکتا ہے۔

    اسد کھرل کا کہنا تھا کہ اگر کسی پبلک آفس ہولڈر کے اہل خانہ اپنی جائیدادوں کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور یہ جائیداد بے نامی قرار پا گئی تو نیب آرڈینینس کی کلاز 9 سب سیکشن 5 کا اطلاق ہوجائے گا اور ایسی صورت میں پبلک آفس ہولڈر کو 21 سال تک کی کسی بھی عوامی نمائندگی سے نااہلی سمیت سزا اور جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے۔

    ممتاز صحافی نے انکشاف کیا کہ اب تک نیب میں کلاز 9 سب سیکشن 5 کے تحت جتنے بھی کیس میں سزائیں ہوئی ہیں ان میں سے اکثریتی پبلک آفس ہولڈرز نے اپنی جائیدادیں اپنے اہل خانہ کے نام سے بنائی ہوئی تھیں۔