Tag: پانڈا

  • چینی پانڈا کی ہالینڈ آمد

    چینی پانڈا کی ہالینڈ آمد

    یورپی ملک ہالینڈ نے اپنے چڑیا گھر کی رونق بڑھانے کے لیے چین سے پانڈا درآمد کر لیے۔ ایئرپورٹ سے چڑیا گھر تک سب ہی نے پانڈوں کا پر تپاک استقبال کیا۔

    ایمسٹر ڈیم کے چڑیا گھر کی شان بڑھانے کے لیے انتظامیہ نے چین سے 2 نایاب پانڈے زنگ یا اور وہ وین منگوائے جن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بچے اور بڑے سب ہی امڈ آئے۔

    ایئرپورٹ سے چڑیا گھر تک کے راستے پر سب نے ہی پانڈو ں کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس موقع پر بچوں نے پانڈا والی کیپ پہن کر پانڈا کی من پسند غذا فضا میں لہرا لہرا کر خوشی کا اظہار بھی کیا۔

    چڑیا گھر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ پانڈوں کی آمد سے چڑیا گھر کی رونقیں دوبالا ہوجائیں گی۔

    یاد رہے کہ پانڈا صرف چین میں پایا جاتا ہے البتہ اسے اب امریکا سمیت دوسرے ممالک میں بھی بھیجا جارہا ہے جسے پانڈا ڈپلومیسی کہا جاتا ہے۔

    اس سے ایک طرف تو چین کے بین الاقوامی تعلقات خوشگوار ہوتے ہیں، دوسری جانب پانڈا کی ختم ہوتی نسل کو بھی دیگر مقامات اور آب و ہوا سے متعارف کروایا جاتا ہے تاکہ وہ مختلف موسموں سے مطابقت کرتے ہوئے اپنی نسل میں اضافہ کریں۔

    مزید پڑھیں: پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    اس سے قبل چین نے پانڈا کے ایک جوڑے کو امریکا بھی بھجوایا تھا۔ ان کے امریکا میں پیدا ہونے والے بچوں کو جب واپس چین بھیجا گیا تو وہ ’ہوم سکنس‘ کا شکار ہوگئے اور انہیں نئے ماحول سے مطابقت کرنے میں بے حد مشکل پیش آئی۔

  • وائلڈ لائف نگہبان ’پانڈا ڈیڈی‘ کے نام سے مشہور

    وائلڈ لائف نگہبان ’پانڈا ڈیڈی‘ کے نام سے مشہور

    ہم میں سے بہت سے افراد جانوروں سے محبت کرتے ہیں۔ لیکن کچھ افراد اس محبت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ اپنی زندگی انہی کے لیے صرف کردیتے ہیں۔

    چین کا زانگ یو بھی پانڈا سے محبت کرنے والا ایک ایسا ہی شخص ہے جسے انٹرنیٹ پر پانڈا ڈیڈی کا نام دیا جاچکا ہے۔

    panda-2

    چین کے صوبے سیچون میں پانڈا کی حفاظت اور اس کی افزائش نسل میں اضافے کے لیے بنائے گئے بریڈنگ سینٹر میں ملازم زانگ یو کے دن رات پانڈا کے ساتھ گزرتے ہیں۔

    panda-4

    پانڈا بھی اپنے اس نگران سے بے حد مانوس ہیں اور وہ اس کے ساتھ خوشی خوشی کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔

    panda-6

    زانگ یو پانڈاز کی تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔

    panda-5

    یہ صرف اس کی ملازمت نہیں بلکہ اس کا شوق بھی ہے جس کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ انہیں اپنے بچوں ہی کی طرح چاہتا اور ان کی دیکھ بھال کرتا ہے۔

    panda-3

    اور صرف ایک زانگ یو ہی نہیں بلکہ ان سینٹرز میں ملازمت کرنے والے اکثر افراد ان معصوم پانڈاز کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔

  • آنت میں بانس کا ٹکڑا پھنسانے والا پانڈا آپریشن کے بعد روبصحت

    آنت میں بانس کا ٹکڑا پھنسانے والا پانڈا آپریشن کے بعد روبصحت

    واشنگٹن: امریکا میں نیشنل زو میں رہائش پذیر پانڈا جس کا نام بیئی بیئی ہے، اپنی کامیاب سرجری کے بعد روبصحت ہے۔ پانڈا کو شکر قندی میں دوا چھپا کر دی جارہی تھی جو اس کے زخم کو تیزی سے بھر رہی ہے۔

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ پانڈا اپنے معمول کے مطابق اپنی پسندیدہ غذا بانس کھا رہا تھا جس کا ایک ٹکڑا اس کی آنت میں پھنس گیا۔

    bei-bei-4

    انتظامیہ نے پانڈا کو تکلیف میں پایا تو اسے جانوروں کے اسپتال لے جایا گیا جہاں الٹرا ساؤنڈ سے پتہ چلا کہ اس کی آنت میں پھنسنے والا ٹکڑا غذا کو ہضم کرنے میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے ہنگامی طور پر اس کا آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا جو کامیاب رہا۔

    bei-bei-3

    چڑیا گھر کی انتظامیہ کے مطابق بانس کا ٹکڑا پانڈا کی آنت میں سے نکال دیا گیا ہے اور اب اس کے آپریشن کا زخم تیزی سے بھر رہا ہے۔ اس مقصد کے لیے پانڈا کو شکر قندی میں دوا ملا کر دی گئی جسے پانڈا نے شوق سے کھایا۔

    بیئی بیئی کو فی الحال بانس سے دور رکھا گیا ہے کیونکہ یہ اسے ہضم نہیں کر پارہا۔ پانڈا کو میٹھے بسکٹ اور شکر قندی کھلائی جارہی ہے۔

    bei-bei-2

    واضح رہے کہ اس پانڈا کی ماں چین میں پیدا ہوئی تھی۔ اسے پانڈا ڈپلومیسی کے تحت امریکا بھیجا گیا جہاں اس نے بیئی بیئی کو جنم دیا۔ بیئی بیئی کو 4 سال کی عمر کا ہونے کے بعد واپس چین بھیج دیا جائے گا۔

  • پانڈا کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگی

    پانڈا کو اپنے گھر کی یاد ستانے لگی

    آپ جب بھی کسی جگہ سے نئی جگہ منتقل ہوتے ہوں گے تو آپ کو نئی جگہ سے مطابقت پیدا کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا۔ کچھ افراد جب گھر سے دور ہوتے ہیں تو انہیں بری طرح گھر کی یاد ستاتی ہے اور وہ ہوم سکنیس کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    یہ صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ جانوروں کا بھی مسئلہ ہے۔ ایسی ہی ہوم سکنیس کا شکار آج کل دو پانڈا بھی ہیں جو امریکا سے چین لائے گئے ہیں اور یہ اپنے گھر کو بری طرح یاد کر رہے ہیں۔

    panda-3

    یہ جڑواں پانڈا می لن اور می ہان جن کی عمریں 3 سال ہیں ان پانڈا میں سے ہیں جو امریکا میں پیدا ہوئے اور بغیر کسی بیماری کے 3 سال کی عمر تک پہنچ گئے۔ ان پانڈا کی مزید بہتر طریقے سے دیکھ بھال کرنے کے لیے انہیں چین کے تحقیقی مراکز برائے پانڈا میں منتقل کیا گیا ہے۔

    یاد رہے کہ چین اس وقت پانڈا کی نسل کے تحفظ کے لیے بے شمار اقدامات اٹھا رہا ہے جن کی وجہ سے چین میں ان کی آبادی میں اضافہ ہوگیا ہے اور اب یہ نسل معدومی کے خطرے سے باہر نکل آئی ہے۔

    ان دونوں پانڈا کے والدین چینی النسل ہی تھے تاہم ان کو بہتر تعلقات کے قیام کے لیے ’پانڈا ڈپلومیسی‘ کے تحت امریکا بھجوایا گیا تھا جہاں ان دونوں کی پیدائش ہوئی۔ تاہم اب آبائی وطن کو واپس لوٹنا ان پانڈا کے لیے کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہے اور یہ بری طرح سے اپنے پرانے گھر کو یاد کر رہے ہیں۔

    As sad as it is to see the Meis leave, it is an important step for them and for their species. In another couple years they will be of breeding age and therefore be able to contribute to their species and carry on the Yang-Lun legacy. If they were to stay here they would not have the ability to reproduce as there are no unrelated males here and only space for one breeding pair. After their flight and routine quarantine period, I have no doubt that they will adjust to their new life in China. There is a very dedicated group of people that work at the Chendgu Research Base and I have all the confidence that they will help the girls adjust as they have with our previous three cubs. Our new twins will have big shoes to fill, but I’m sure as they get older, they will bring as much joy and laughter as the Meis have. – Shauna D., Keeper II, Mammals #MeiDays #ZAPandas

    A photo posted by Zoo Atlanta (@zooatl) on

    سب سے پہلے تو ان پانڈا کو زبان کا مسئلہ پیش آرہا ہے۔ یہ پانڈا صرف انگریزی زبان سمجھتے ہیں اور اب ان کی دیکھ بھال کرنے والوں کو پریشانی کا سامنا ہے کیونکہ یہ ان کی چینی زبان نہیں سمجھ پا رہے۔

    panda-4

    اسی طرح یہ پانڈا اس غذا کو بھی مسترد کرچکے ہیں جو مقامی طور پر چین میں پانڈا کو کھلائی جاتی ہے۔

    panda-5

    انتظامیہ کا کہنا ہے کہ امریکا میں یہ پانڈا امریکی خستہ بسکٹ کھانے کے بے حد شوقین تھے اور ان کی دیکھ بھال کرنے والے افراد کو ان کی ہر خوراک میں خستہ بسکٹ شامل کرنے پڑتے تھے۔

    تحقیقی ادارے میں موجود انتظامیہ آہستہ آہستہ ان پانڈوں کی عادات بدلنے پر کام کر رہی ہیں تاکہ انہیں چین کے مقامی طرز زندگی کے مطابق بنایا جائے۔

    واضح رہے کہ مختلف علاقوں اور ممالک کے درمیان تبادلے کے بعد جانوروں کو اکثر اسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے قبل بھارت میں بھی ایک سفید شیر کو راجھستان سے چنائے منتقل کیا گیا تو اس شیر اور اس کی دیکھ بھال کرنے والوں کے درمیان زبان کی رکاوٹ کھڑی ہوگئی۔

  • پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر

    ماحولیات اور جنگلی حیات کے ماہرین نے تصدیق کی ہے کہ چین کا پانڈا معدومی کے خطرے کی زد سے باہر نکل آیا ہے اور اب اس کی نسل کو معدومی کا خدشہ نہیں ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات آئی یو سی این نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پانڈا کی نسل کو اب مکمل معدومی کا خطرہ نہیں ہے البتہ اسے خطرے سے دو چار یا غیر محفوظ جنگلی حیات کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔

    panda-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی حکومت نے پانڈا کے تحفظ کے لیے ان کی پناہ گاہوں اور رہنے کے جنگلات میں اضافہ کیا اور غیر معمولی کوششیں کی جس کے باعث پانڈا کی آبادی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔

    گزشتہ عشرے میں پانڈا کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جس کے بعد اب ان کی تعداد 2000 ہوگئی ہے۔

    panda-2

    جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیم ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق یہ ایک حوصلہ افزا صورتحال ہے۔ ان کے مطابق اس میں حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں اور مقامی آبادیوں کی کاوشیں بھی شامل ہیں۔

    panda-4

    آئی یو سی این کے مطابق کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کے باعث پانڈا کے رہائشی جنگلات میں ایک تہائی کمی ہوسکتی ہے۔ پانڈا اپنی رہائش مخصوص درختوں کے جنگلات میں رکھتا ہے جنہیں بمبو فاریسٹ کہا جاتا ہے۔

    panda-5

    اس سے قبل امریکی ریاست کیلیفورنیا میں پائی جانے والی لومڑیوں کی ایک قسم بھی معدومی کے خطرے کی زد سے باہر آچکی ہے۔ ان لومڑیوں کا قد چھوٹا ہوتا ہے اور انہیں ننھی لومڑیاں کہا جاتا ہے۔

    حکام کے مطابق ان لومڑیوں کو اگلے عشرے تک معدومی کا 50 فیصد خطرہ تھا اور اسے شدید خطرے سے دو چار نسل کی فہرست میں رکھا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ درجہ حرارت میں اضافے یعنی گلوبل وارمنگ کے باعث دنیا میں موجود ایک چوتھائی جنگلی حیات 2050 تک معدوم ہوجائے گی۔