Tag: پانی کا عالمی دن

  • سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی کمی کا شکار ہوجائے گی

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، اقوام متحدہ کے مطابق دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر آبی ذخائر میں خطرناک کمی آتی جارہی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس اس دن کو زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) سے منسوب کیا گیا ہے، زمین کے نیچے موجود پانی، سطح پر موجود پانیوں کی روانی کو برقرار رکھتا ہے اور زراعت اور شجر کاری کے پھلنے پھولنے میں مدد دیتا ہے۔

    زیر زمین پانی ۔ مال مفت دل بے رحم

    گزشتہ چند دہائیوں میں سطح پر موجود پانی کی کمی کی وجہ سے، بے تحاشہ زیر زمین پانی نکالا جاچکا ہے جس کے باعث اب اس کی کمی واقع ہونے لگی ہے۔

    اقوام متحدہ انوائرنمنٹ پروگرام کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی انسانوں، جانوروں اور نباتات کے لیے فراہمی آب کا اہم ذریعہ ہے لیکن اس کا بے تحاشہ اور غیر محتاط استعمال باعث تشویش ہے جبکہ انسانی سرگرمیاں اسے آلودہ بھی کر رہی ہیں۔

    ماہرین کے مطابق کسی شہر میں کئی دہائیوں تک زمینی پانی یعنی گراؤنڈ واٹر نکالا جاتا رہے تو اس شہر کی زیر زمین سطح کسی حد تک کھوکھلی اور غیر متوازن ہوجاتی ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق اس وقت جنوبی ایشیا میں زراعت کے لیے استعمال ہونے والا 90 فیصد پانی زمین سے نکالا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر ممالک میں کنویں اور دیگر آبی ذخائر خشک ہوتے جارہے ہیں۔

    پاکستان میں بھی دیہی علاقوں میں پینے کا 90 فیصد پانی زیر زمین ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے جبکہ دیگر ملک میں یہ شرح 70 فیصد ہے، علاوہ ازیں زراعت میں استعمال ہونے والا 50 فیصد پانی بھی زمین سے نکالا جاتا ہے۔

    پاکستان زراعت کے لیے زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے، ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کے مختلف علاقوں میں اس وقت 12 لاکھ سے زائد ٹیوب ویلز زمین سے پانی کھینچ رہے ہیں۔

    زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کا قدرتی ذریعہ باقاعدگی سے بارشیں ہونا ہے تاہم بدلتے ہوئے موسموں یا کلائمٹ چینج کی وجہ سے بارشوں کے پیٹرنز میں تبدیلی اور کمی اس اضافے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔

    واٹر ایڈ پاکستان کے مطابق زیر زمین پانی کی بحالی کے، جسے ری چارج کرنا کہا جاتا ہے اور بھی کئی طریقے ہیں جن میں سائنسی بنیادوں پر سسٹمز انسٹال کیے جاتے ہیں، علاوہ ازیں سینی ٹیشن کا پانی بھی ٹریٹ کرنے کے بعد زمین میں بھیجا جاسکتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کے لیے سب سے بڑا خطرہ اس کا بے قاعدہ اور بے تحاشہ استعمال ہے، پاکستان میں بغیر کسی قواعد و ضوابط کے زیر زمین پانی استعمال کیا جارہا ہے اور صوبائی و وفاقی حکومتیں اس ضمن میں تاحال کوئی جامع پالیسی اور قوانین مرتب کرنے میں ناکام رہی ہیں۔

    بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ملک میں زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے جس سے قلت آب کے دہانے پر کھڑا ملک مزید مشکلات کا شکار ہوسکتا ہے۔

    پاکستان میں پانی کی مجموعی صورتحال

    زیر زمین پانی کے علاوہ بھی ملک میں پانی کی مجموعی صورتحال زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے طے کردہ معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    دوسری جانب یونیسف کا کہنا ہے کہ اس وقت دنیا کی ایک تہائی آبادی یعنی 4 ارب افراد قلت آب کا شکار ہیں، 2 ارب افراد پانی کی کمی کا شکار ممالک میں رہتے ہیں، جبکہ سنہ 2025 تک دنیا کی نصف آبادی پانی کی شدید کمی کا شکار ہوجائے گی کیونکہ ان کے علاقوں، شہروں یا ممالک میں پانی کی کمی یا خشک سالی واقع ہوسکتی ہے۔

    زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے

    سائنٹفک جنرل نیچر میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق زیر زمین پانی کی کمی زلزلوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

    امریکی ریاست کیلی فورنیا میں قلت آب کے پیش نظر کی جانے والی اس تحقیق میں علم ہوا کہ ریاست کی زراعتی پٹی کو زیر زمین پانی فراہم کرنے کی وجہ سے سین انڈریس فالٹ لائن متحرک ہوسکتی ہے جس سے زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

    تحقیق میں کہا گیا کہ پانی کی کمی زمین کی اندرونی سطح میں بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے جس سے زمینی ارتعاش یعنی زلزلوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

  • دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ویلیونگ واٹر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 7 ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد سنہ 2050 تک بڑھ کر 9 ارب ہونے کی توقع ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور 2 ارب 70 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان بھی دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی بنانے، زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، ماہرین کے مطابق موسموں میں تیزی سے رونما ہوتا تغیر یعنی کلائمٹ چینج پانی کی قلت کی وجہ بنے گا۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’پانی اور کلائمٹ چینج‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • عالمی یوم آب: ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

    عالمی یوم آب: ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ ماہرین کے مطابق سنہ 2025 تک پاکستان خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے، اس وقت ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • حکومت کوشاں ہے کہ ہرشہری کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے‘ فیصل واوڈا

    حکومت کوشاں ہے کہ ہرشہری کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے‘ فیصل واوڈا

    کراچی: وفاقی وزیرآبی وسائل فیصل واوڈا کا کہنا ہے کہ گزشتہ 50 سال میں کسی حکومت نے آبی ذخائرکی تعمیرکوسنجیدگی سے نہیں لیا۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا نے پانی کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہا کہ پینے کا صاف پانی ایک بنیادی حق ہے۔

    انہوں نے کہا کہ کراچی کو برسوں سے پانی کی قلت کا سامنا ہے، حکومت کوشاں ہے کہ ہرشہری کو پینے کا صاف پانی مہیا کیا جائے۔

    فیصل واوڈا نے کہا کہ پاکستان ان ملکوں میں شامل ہے جنہیں پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، اربوں کا میٹھا پانی ہرسال سمندرمیں گرکر ضائع ہوجاتا ہے۔

    وفاقی وزیر نے کہا کہ پانی بچانا وقت کی ضرورت ہے، آبی ذخائر کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیح ہے، گزشتہ 50 سال میں کسی حکومت نے آبی ذخائرکی تعمیرکوسنجیدگی سے نہیں لیا۔

    واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پانی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 1993 میں ہرسال ’پانی کا عالمی دن‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پوری دنیا میں یہ دن 22 مارچ کو منایا جاتا ہے

    اقوامِ متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

  • پانی کے کم ہوتے ذخائر کو محفوظ بنانا قومی ذمےداری ہے‘ عثمان بزدار 

    پانی کے کم ہوتے ذخائر کو محفوظ بنانا قومی ذمےداری ہے‘ عثمان بزدار 

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ حکومت آنے والی نسلوں کے لیے نئے آبی ذخائر بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پانی کی اہمیت وافادیت کے عالمی دن پراپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان قدرتی خزانوں کے ساتھ بہترین آبی وسائل سے مالامال ہے۔

    انہوں نے کہا کہ آبی وسائل کوبروئے کار لاکرخوشحال اورترقی یافتہ بنایا جاسکتا ہے، پانی کے کم ہوتے ذخائر کو محفوظ بنانا قومی ذمےداری ہے۔

    وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے کہا کہ حکومت آنے والی نسلوں کے لیے نئے آبی ذخائر بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔

    واضح رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھرمیں پانی کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد پینے کے پانی کی اہمیت اجاگر کرنے کے ساتھ اسے محفوظ بنانے کی ضرورت پر زور دینا ہے۔

    اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی جانب سے 1993 میں ہرسال ’پانی کا عالمی دن‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا جس کے بعد پوری دنیا میں یہ دن 22 مارچ کو منایا جاتا ہے

    اقوامِ متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق ہرانسان روزانہ دو سے چار لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان سترہ ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قِلت کا شکار ہیں۔

  • عالمی یوم آب: دنیا بھر میں 2 ارب افراد صاف پانی سے محروم

    عالمی یوم آب: دنیا بھر میں 2 ارب افراد صاف پانی سے محروم

    آج دنیا بھر میں عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 2 ارب سے زائد افراد پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال بائیس مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’قدرت برائے پانی‘ نیچر فار واٹر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 7 ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد سنہ 2050 تک بڑھ کر 9 ارب ہونے کی توقع ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق ہر انسان روزانہ 2 سے 4 لیٹر پانی پیتا ہے جس میں خوراک میں موجود پانی بھی شامل ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    خوراک کا دار و مدار بھی پانی پر ہی ہوتا ہے اس لیے پانی کے مزید ذخائر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ سنہ 1976 کے بعد سے ملک میں پانی کا کوئی اہم ذخیرہ تعمیر نہیں ہوا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے معیار کے مطابق پاکستان کی صرف 15 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ پانی اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔