Tag: پانی کی کمی

  • رمضان کے دوران جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے طریقے

    رمضان کے دوران جسم میں پانی کی کمی دور کرنے کے طریقے

    گزشتہ چند سال سے ماہ صیام گرمیوں کے موسم میں آرہا ہے جس میں سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ پورے ماہ خشوع وخضوع سے عبادت کی جاسکے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ سخت گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔

    اس کے علاوہ پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پیئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔

    رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب کے تجویز کردہ سات آسان طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

    سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ۔ یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے لیے جائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

    رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

  • پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    ہم میں سے اکثر افراد اپنے نلکوں سے ضائع ہوتے پانی سے پریشان رہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ نلکوں کو کم کھول کر استعمال کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیتے ہیں۔

    لیکن اس کے باوجود کچھ کاموں خاص طور پر کچن میں پانی ضائع ہونے کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے۔ پھل، سبزیوں اور برتن دھونے میں پانی کی خاصی مقدار خرچ ہوتی ہے جس میں سے 50 فیصد تو ضائع ہی ہوتی ہے۔

    water-post-1

    اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک ’آلٹرڈ‘ نامی امریکی کمپنی نے نلکوں پر لگانے کے لیے ایسا نوزل بنایا ہے جو اس نلکے سے خارج ہونے والے پانی کے استعمال میں 98 فیصد کمی کردیتا ہے۔

    دراصل یہ نوزل نلکے پر لگانے کے بعد پانی کو بے شمار قطروں میں تبدیل کردیتا ہے۔ یہ نوزل پانی کو زیادہ حجم میں بھی نکالتا ہے یعنی اس سے نکلنے والے پانی کی دھار تیز اور پھیلاؤ وسیع ہوگا۔

    اس طریقہ کار کے ذریعہ جب اس نوزل کے نیچے کسی پھل یا سبزی کو دھونے کے لیے رکھا جائے گا تو یہ زیادہ جلدی دھونے کی ضرورت کو پورا کردے گی اور ہم کم وقت میں زیادہ چیزوں کو دھونے کے قابل ہوں گے۔

    water-post-2

    water-post-3

    اسے بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ یہ نوزل تیار کر کے وہ ماحول سے محبت کرنے والے ان افراد میں شامل ہوگئے ہیں جو پانی سمیت دنیا بھر کے قدرتی وسائل کو بچانے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کا حصہ ہیں۔

    واضح رہے کہ دنیا بھر میں موجود آبی ذخائر میں سے صرف 2 فیصد حصہ ایسا ہے جسے میٹھا پانی کہا جاسکتا ہے اور جو پینے کے قابل ہے۔ یہ پانی دریاؤں اور گلیشیئرز کی صورت میں موجود ہے۔

    مزید پڑھیں: آبی مسائل کے باعث جنوبی ایشیائی ممالک میں تنازعوں کا خدشہ

    لیکن ماہرین کے مطابق میٹھے پانی کے ان ذخائر میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے جس کے باعث کئی ممالک میں پانی کی شدید قلت پیدا ہوچکی ہے۔ اگلے چند برسوں میں یہی صورتحال پاکستان سمیت دیگر کئی ملکوں میں پیدا ہوجائے گی۔

    دوسری جانب دنیا میں اس وقت تقریباً ایک ارب افراد ایسے ہیں جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔

  • روزے میں ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے طریقے

    روزے میں ڈی ہائیڈریشن سے بچنے کے طریقے

    رواں برس ماہ رمضان شدید گرمیوں کے موسم میں آیا ہے جس سے روزے داروں کے لیے بیک وقت دینی عبادت کرنا اور صحت کا خیال رکھنا ایک مشکل مرحلہ بن گیا ہے۔

    موسم گرما کے روزے میں سب سے مشکل کام جسم کو پانی کی کمی اور سارا دن پیاس نہ لگنے کے احساس سے بچانا ہے۔ خصوصاً ان افراد کے لیے جو دن کے اوقات میں سفر کے لیے نکلیں یا باہر کام کریں۔

    علاوہ ازیں گھریلو خواتین جن کا زیادہ تر وقت کچن میں چولہے کے آگے گزرتا ہے ان کے لیے بھی خود کو ہائیڈریٹ رکھنا بہت ضروری ہے۔

    ہیٹ ویو کے دوران اگر روزہ ہو تو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیئے کہ روزے دار ہیٹ اسٹروک کا شکار نہ ہو۔

    اس ضمن میں ضروری ہے کہ آپ کو ہیٹ اسٹروک کی علامات معلوم ہوں تاکہ ان کے ظاہر ہوتے ہی آپ فوری طور ہنگامی تدابیر اور احتیاط اپنا سکیں۔

    مزید پڑھیں: ہیٹ اسٹروک کی علامات اور بچاؤ

     

    کون زیادہ خطرے میں ہے؟

    ماہرین طب کے مطابق 60 سال سے زائد عمر کے افراد، اور ذیابیطس، امراض قلب اور ہائی بلڈ پریشر کے مریض افراد کا جسم کمزور ہوتا ہے اور یہ گرمی سمیت کسی بھی چیز کا اثر فوری طور پر قبول کرلیتے ہیں۔

    لہٰذا ایسے افراد خاص طور پر جسم کے اندر پانی کی کمی نہ ہونے دیں اور اس ضمن میں خصوصی احتیاط برتیں۔

    سحروافطارمیں کیا کھایا جائے؟

    دن بھر پانی کی کمی سے بچنے اور صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سحر و افطار میں ایسی غذاؤں کا استعمال کیا جائے جو جسم کی غذائی ضروریات بھی پوری کریں اور آپ کو توانائی پہنچائیں۔

    :ماہرین طب کے مطابق سحر وا فطار میں

    مائع اشیا جیسے پانی اور جوسز کا استعمال کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: افطار کے لیے مشروبات

    پانی والے پھلوں خاص طور پر تربوز کا استعمال کیا جائے۔ علاوہ ازیں کھیرا اور مختلف سلاد کا استعمال بھی کیا جاسکتا ہے۔

    سحری میں کیفین مشروبات، چائے کافی سے حتی الامکان پرہیز کریں۔

    مصالحہ دار اور چٹپٹی غذاؤں کے بجائے سادہ کھانے استعمال کیے جائیں۔

    سحری میں دہی اور لسی بہترین غذائیں ہیں۔

    سحری میں کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    مزید احتیاطی تدابیر

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    رات میں نماز تراویح یا کسی اور مقصد سے گھر سے باہرجائیں تو پانی کی بوتل ساتھ لے کر جائیں۔

    رات کو ایک پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

    ہیٹ اسٹروک کی صورت میں

    اگر روزے دار کو پسینہ آنا بند ہوجائے، جسم ایک دم گرم ہوجائے، چکر آنے لگے تو یہ ہیٹ اسٹروک کی علامت ہے۔

    ایسی صورت میں روزہ کو مزید برقرار نہ رکھنا بہتر ہے۔ ہیٹ اسٹروک کا شکار شخص کے جسم پر ٹھنڈا پانی ڈالیں، اسے ٹھنڈے پانی کے ٹب میں بٹھا دیا جائے اور گرمی سے بچایا جائے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سال 2025ء تک پاکستان میں‌ پانی کی کمی ہوسکتی ہے، ماہرین

    سال 2025ء تک پاکستان میں‌ پانی کی کمی ہوسکتی ہے، ماہرین

    کراچی: ماہرین زراعت نے کہا ہے کہ 2025ء میں پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے، حکومت پانی کے بے دریغ استعمال کو روکنے اور پانی کے ذخائر بڑھانے پر توجہ دے۔

    نیسلے پاکستان کے تحت پانی کی افادیت اور اسے محفوظ کرنے کے حوالے سے واٹر پلان فور پاکستان کے نام سے سیمینار کا انعقاد ہوا جس میں مستقبل میں پاکستان کو پانی کی کمی اور اسے درپیش چیلنجز کا سامنا اور زراعت میں پانی کے بے دریغ استعمال کے حوالے سے بات کی گئی۔

    شرکاء نے کہا کہ جس طرح پانی کا استعمال ہورہا ہے اس طرح 2025ء میں پاکستان کو پانی کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    ڈرپ ایری گیشن کے ذریعے پانی کو بچانے کا کام جاری ہے، ایم ڈی نیسلے

    اس موقع پر نیسلے پاکستان کے ایم ڈی برونو اولیر ہویک کا کہنا تھا کہ 2018ء تک ہم ملک میں پینے کے صاف پانی کے 7 سینٹر تک بنالیں گے اور 2017ء کے آخر تک ڈرپ ایری گیشن کے ذریعے پانی کو بچانے کے لیے کام جاری ہے۔

    پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے، کیپٹن (ر) محمود

    ماہر زراعت کیپٹن (ر) محمد محمود نے کہا کہ پاکستان کو 2025ء میں پانی کی کمی کا سامنا ہوگا جس کے لیے بڑے ڈیم اور پانی ذخیرہ کرنے کے لیے اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔

    کیپٹن (ر) محمد محمود نے کہا کہ بڑے ڈیم نہ بننے کے باعث پانی کو ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہورہی ہے پاکستان میں صرف 30 دن کا پانی اسٹور کیا جا سکتا ہے جبکہ بھارت میں 200 اور امریکا میں 900 دن کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

    محمد محمود کا مزید کہنا تھا کہ بڑے ڈیموں کے ساتھ پانی کے چھوٹے اسٹوریج ریزر وائز بنانے کی ضرورت ہے۔

  • پاکستان میں سالانہ 25 ارب روپے کا پانی ضائع

    پاکستان میں سالانہ 25 ارب روپے کا پانی ضائع

    اسلام آباد: واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 25 ارب روپے کی مالیت کا پانی ضائع کردیا جاتا ہے۔

    وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے دوران واپڈا کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے دریاؤں میں ہر سال 14.5 کروڑ ایکڑ فٹ ( پانی کو ناپنے کا پیمانہ) پانی آتا ہے تاہم اس میں سے صرف 1.4 ملین ایکڑ فٹ پانی ہی مناسب طریقے سے محفوظ کیا جاتا ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر موجود ہے جہاں آبادی کے لحاظ سے آبی ذخائر پر شدید دباؤ ہے تتیجتاً پاکستان میں تیزی سے آبی قلت واقع ہورہی ہے اور بہت جلد پاکستان خشک سالی کا شکار ملک بن سکتا ہے۔

    بریفنگ میں واپڈا چیئرمین نے بتایا کہ تربیلا ڈیم کی بنیاد میں ریت جمع ہو رہی ہے جس کے باعث اس کے پانی اسٹور کرنے کی صلاحیت میں 36 فیصد کمی آگئی ہے۔

    ان کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت 96 لاکھ ملین ایکڑ فٹ سے گھٹ کر 66 لاکھ ملین ایکر فٹ ہوگئی ہے۔

    انہوں نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ گزشتہ 70 سالوں میں پاکستان میں صرف 2 ڈیم تعمیر کیے جاسکے ہیں۔

    پانی کی قلت ہماری اپنی پیدا کردہ

    ماہرین ماحولیات و آب کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کی صورتحال قدرتی نہیں بلکہ ہماری اپنی پیدا کردہ ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم فوری طور پر نئے آبی ذخائر بنانے پر توجہ دیں تو ہم ممکنہ خشک سالی سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔

    ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق بد انتظامی اور نئے ذخائر تعمیر نہ کرنے کے باعث سنہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی صف میں آگیا تھا جہاں آبادی زیادہ اور آبی ذخائر کم تھے جس کے باعث ملک کے دستیاب آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

    سنہ 2005 میں پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا۔

    اب ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں شدید قلت آب پیدا ہوجائے گی جس سے خشک سالی کا بھی خدشہ ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    سنہ 2025 تک پاکستان میں خشک سالی کا امکان

    اسلام آباد: پاکستان کونسل برائے تحقیقِ آبی ذخائر (پی سی آر ڈبلیو آر) نے متنبہ کیا ہے کہ سنہ 2025 تک پاکستان میں پانی کی شدید قلت واقع ہوجائے گی۔

    کونسل کی جانب سے جاری کی جانے والی حالیہ تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سنہ 1990 میں پاکستان ان ممالک کی صف میں آگیا تھا جہاں آبادی زیادہ اور آبی ذخائر کم تھے جس کے باعث ملک کے دستیاب آبی ذخائر پر دباؤ بڑھ گیا تھا۔

    سنہ 2005 میں پاکستان پانی کی کمی والے ممالک کی صف میں آکھڑا ہوا۔ اب ماہرین کے مطابق یہ صورتحال مزید جاری رہی تو بہت جلد پاکستان میں شدید قلت آب پیدا ہوجائے گی جس سے خشک سالی کا بھی خدشہ ہے۔

    یاد رہے کہ یہ کونسل وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے زیر سرپرست ہے جو آبی ذخائر کے مختلف امور اور تحقیق کی ذمہ دار ہے۔

    کونسل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال سے بچنے کے لیے فوری طور پر اس کا حل تلاش کرنے کی ضروت ہے۔

    پاکستان پانی کی کمی کا شکار ملک

    واضح رہے کہ پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان کے قیام کے وقت ملک میں ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک یہ 8 سو کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    مزید پڑھیں: پاکستان میں صاف پانی کا حصول خواب بن گیا

    گزشتہ برس انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں متنبہ کیا تھا کہ ملک میں پانی کی کمی بجلی کی کمی سے بھی بڑا مسئلہ بن چکا ہے اور حکومت کو فوری طور پر اس طرف توجہ دینا ہوگی۔

    رپورٹ کے مطابق مالی سال 16-2015 میں زرعی پیدوار میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی تھی جس کی ایک بڑی وجہ پانی کی کمی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • پانی ضائع کرنے والوں پر جرمانہ عائد

    پانی ضائع کرنے والوں پر جرمانہ عائد

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بڑھتی ہوئی پانی کی قلت کو دیکھتے ہوئے مقامی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پانی ضائع کرنے والے گھروں پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

    یہ فیصلہ اسلام آباد میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ارکان کی آٹھویں میٹنگ میں کیا گیا جس کا تمام افراد نے خیر مقدم کیا۔

    اسلام آباد کے میئر شیخ انصر عزیز کی جانب سے کیے جانے والے اس فیصلے کے تحت ان تمام گھروں پر 5 ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا جو پانی کا غیر ضروری استعمال اور اسے ضائع کرتے ہوئے پائے جائیں گے۔

    مزید پڑھیں: پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    تاہم اس بات کا تعین نہیں کیا گیا کہ پانی کا حساب چیک کرنے کے لیے کیا معیارات و اقدامات استعمال کیے جائیں گے۔

    اسلام آباد کے یوسی ناظمین کا کہنا ہے کہ ان کے سیکٹرز میں پانی کی فراہمی کا ایک بڑا ذریعہ ٹیوب ویل ہیں۔ تاہم بیشتر ٹیوب ویل خستہ حال اور ناکارہ ہیں جس کی وجہ سے پانی کی فراہمی بے حد کم ہوگئی ہے۔

    انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر صورتحال یہی رہی تو اگلے سال گرمیوں کے موسم میں پانی کی شدید کمی واقع ہوجائے گی جب پانی کی طلب میں اضافہ ہوجائے گا۔

    مزید پڑھیں: پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    اسلام آباد میں پانی کی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ڈپٹی میئر ذیشان نقوی نے ہر دو یونین کونسلز کے درمیان ربڑ ڈیم بنانے کا خیال بھی پیش کیا۔ یہ ربڑ کے بڑے بڑے پائپ ہوتے ہیں جو آبی ذرائع جیسے دریا، ندی یا بہر میں بچھا دیے جاتے ہیں اور یہ پانی کی رسد فراہم کرتے ہیں۔

    دوسری جانب دارالحکومت میں نکاسی آب کی خراب صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میئر شیخ انصر عزیز کا کہنا تھا کہ وہ شہر میں نکاسی آب کے نظام کی بہتری کے لیے بھی اقدامات اٹھا رہے ہیں جس کے نتائج بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔

  • کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    کلائمٹ چینج مسلح تصادم کو فروغ دینے کا سبب

    واشنگٹن: ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ موسمیاتی تغیر یا کلائمٹ چینج کے باعث آنے والی قدرتی آفات مستقبل قریب میں مختلف ممالک میں مسلح تصادم کو فروغ دے سکتی ہیں اور پہلے سے جاری تصادموں میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

    یہ تحقیق امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس کی جانب سے کی گئی۔ ماہرین نے اس کے لیے دنیا بھر میں جاری جنگ زدہ علاقوں کی صورتحال، ان کی وجوہات، اور مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگوں / تنازعوں کی وجوہات کا جائزہ لیا۔

    کلائمٹ چینج سے مطابقت کیسے کی جائے؟ *

    تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس وقت دنیا میں جاری خانہ جنگیوں میں سے ایک تہائی کی بنیادی وجہ وہاں ہونے والے موسمی تغیرات اور ان کے باعث ہونے والی ہجرتیں ہیں۔

    ماہرین نے واضح کیا کہ شدید گرمی کی لہریں (ہیٹ ویو)، سیلاب اور طوفان مستقبل میں جنگوں کی وجہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ امکان ان مقامات پر زیادہ ہے جہاں آبادی زیادہ اور کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔

    کلائمٹ چینج کے باعث امریکی فوجی اڈے خطرے کی زد میں *

    کلائمٹ چینج پر کام کرنے والے سائنسدانوں کے مطابق کلائمٹ چینج قدرتی آفات جیسے زلزلہ، سیلاب، طوفان اور قحط یا خشک سالی کی وجہ بن رہا ہے۔ ان آفات کے باعث بہتر طرز زندگی کے حامل پورے پورے شہر اجڑ سکتے ہیں ا ور ان میں رہنے والے افراد بھوک، پیاس، بے روزگاری اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    نتیجتاً وہ شدت پسند رویوں کا شکار ہو کر شدت پسندی، مسلح لڑائیوں، جرائم اور دہشت گردی کی جانب متوجہ ہوں گے۔

    گرم موسم کے باعث جنگلی حیات کی معدومی کا خدشہ *

    تحقیق میں واضح کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسندی اور مسلح تصادم افریقہ اور جنوبی ایشیا کو خاص طور پر متاثر کریں گے۔

    اس سے قبل کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کلائمٹ چینج اور اس کی وجہ سے ہونے والے مختلف مسائل کے باعث جنوبی ایشیا میں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش مختلف تنازعوں کا شکار ہوجائیں گے جس سے ان 3 ممالک میں بسنے والے کروڑوں افراد کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

    اس تحقیق میں پانی کی کمی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا جس کے باعث پانی کے حصول کے لیے تینوں ممالک آپس میں برسر پیکار ہوسکتے ہیں۔

  • سندھ حکومت کراچی کے مسائل اچھی طرح سمجھتی ہے، شرجیل میمن

    سندھ حکومت کراچی کے مسائل اچھی طرح سمجھتی ہے، شرجیل میمن

    کراچی : صوبائی وزیر بلدیات شرجیل میمن کا کہنا ہے شہریوں کو پانی کی کمی کے درپیش کے حل کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کمیٹی قائم کردی ہے۔

    تفصییلات کے مطابق سندھ کےوزیر بلدیات شرجیل انعام میمن نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ الزام تراشیوں کی سیاست کی بجائے تعمیری باتوں پر توجہ دے۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا، ایک سوال کے جواب میں شرجیل میمن نے کہا کہ فاروق ستار خود یہ بات تسلیم کر چکے ہیں کہ شہر کراچی میں پانی کی فراہمی طلب سے آدھی ہے۔

    سندھ کے وزیر بلدیات کا کہنا ہے کہ حکومت کراچی کے شہریوں کو پانی پہنچانے کیلئے تمام اقدامات بروئے کار لارہی ہے۔ پانی کی عدم فراہمی اور دیگر شکایات دور کرنے کے لئے واٹر بورڈ میں مرکز شکایات قائم کردیا گیا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حکومت کراچی کے مسائل اچھی طرح سمجھتی ہے۔کمشنر کراچی کی سربراہی میں پانی کی منصفانہ تقسیم کے لئے کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

    شرجیل میمن نے بتایا کہ کے فور منصوبے اور دھابیجی سے شہر کو پانی کی فراہمی میں پینسٹھ ایم جی ڈی اضافے کے منصوبوں پرکام کا آغاز کردیا گیا ہے۔