Tag: پانی

  • نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    نیگلریا کا خطرناک جراثیم آپ کے گھر میں بھی ہوسکتا ہے

    معروف ثنا خواں ذوالفقار علی حسینی دماغ کی سوزش کے مرض نیگلریا کا شکار ہو کر جاں بحق ہوگئے، ماہرین نے اس موسم کے لیے نیگلیریا الرٹ جاری کرتے ہوئے لوگوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں جنرل فزیشن ڈاکٹر وجاہت نے گفتگو کرتے ہوئے اس مرض کے بارے میں بتایا۔ ڈاکٹر وجاہت کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مرض ہے جو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دیتا اور 2 سے 4 دن میں انسان کو موت کے منہ میں پہنچا دیتا ہے۔

    یہ مرض کس طرح اپنا شکار کرتا ہے؟

    ڈاکٹر وجاہت نے بتایا کہ نیگلیریا کا جراثیم بظاہر صاف دکھنے والے پانی میں موجود ہوتا ہے۔ وہ پانی جو میٹھا ہو، اور اس کا درجہ حرارت گرم ہو اس میں نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ جراثیم سوئمنگ پولز اور جھیلوں سمیت دیگر کھڑے ہوئے پانیوں میں ہوسکتا ہے۔

    اگر اس پانی میں نہایا جائے تو یہ ناک کے ذریعے جسم میں داخل ہوتا ہے اور دماغ کو سوزش کے مرض میں مبتلا کردیتا ہے۔ 4 سے 5 دن میں دماغ آہستہ آہستہ ختم ہوجاتا ہے جس کے بعد مریض کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    علامات

    اس جراثیم کے حملہ آور ہونے کا فوری طور پر علم نہیں ہوتا، تاہم یاد رکھیں اس مرض کی علامات میں:

    جھیل یا سوئمنگ پول میں نہانے کے 2، 4 دن کے اندر سونگھنے کی صلاحیت میں تبدیلی آنا

    گردن توڑ بخار ہونا

    گردن میں اکڑ محسوس ہونا

    چڑچڑا پن محسوس ہونا

    اور الٹیاں ہونا شامل ہے۔

    یاد رکھیں

    مندرجہ بالا علامات اگر اس وقت محسوس ہوں جب 2 یا 3 دن قبل آپ کسی جھیل یا سوئمنگ پول میں نہائے ہوں تو فوری طور پر الرٹ ہوجائیں اور ڈاکٹر کے پاس پہنچیں۔

    ان علامات کے لیے گھریلو ٹوٹکے اپنانے سے گریز کریں۔

    اگر 2 سے 3 دن کے اندر اس مرض کی تشخیص ہوجائے اور علاج شروع کردیا جائے تو اس کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

    احتیاطی تدابیر

    ماہرین کے مطابق گرم اور مرطوب موسم نیگلیریا جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ترین ہے چنانچہ اس موسم میں کھڑے پانی میں نہانے سے گریز کریں۔

    سوئمنگ کرتے ہوئے ناک کے لیے نوز پیڈز کا استعمال کریں۔

    پکنک پر جاتے ہوئے اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ جس پول میں نہا رہے ہیں اس میں کلورین کی مناسب مقدار موجود ہے۔ غیر محفوظ پولز کے قریب بھی نہ پھٹکیں۔

    کیا گھر میں بھی یہ جراثیم موجود ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کے مطابق ہمارے گھروں میں آنے والا پانی بھی نہایت غیر محفوظ ذرائع سے ہم تک پہنچتا ہے چنانچہ اس میں بھی نیگلیریا کی موجودگی کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

    اس سے بچنے کے لیے مرطوب موسم میں وضو کرتے ہوئے ناک میں ڈالنے کے لیے منرل واٹر یا ابلا ہوا پانی استعمال کریں۔

    گھر میں موجود پانی کے ذخائر میں مناسب مقدار میں کلورین شامل کریں۔

    کسی بھی قسم کے بخار کو معمولی مت سمجھیں اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

  • طوفانی بارشوں کے بعد حب ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ

    طوفانی بارشوں کے بعد حب ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ

    کراچی: باران رحمت کے زحمت بننے کے بعد کراچی کے شہریوں کو خوشخبری مل گئی، حب ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگیا جس کے بعد ضلع غربی اور دیگر علاقوں میں پانی کی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی اور حب میں طوفانی بارشوں کے بعد حب ڈیم میں پانی کی سطح میں اضافہ ہوگیا۔ حب ڈیم میں پانی کی سطح 307 فٹ تک پہنچ گئی۔

    واٹر بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ باران رحمت کی وجہ سے حب ڈیم میں مسلسل پانی بڑھ رہا ہے، ضلع غربی اور دیگر علاقوں میں پانی کی صورتحال بہتر ہوجائے گی۔

    ان کے مطابق حب ڈیم میں پانی کی سطح بلند ہونے سے شہر کو 2 سال تک پانی فراہم کیا جا سکتا ہے، حب ڈیم سے 10 کروڑ گیلن پانی یومیہ فراہم کیا جا رہا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ 2 روز میں کراچی میں طوفانی بارشیں ہوئی ہیں، بارشوں کے باعث سیلابی پانی نشیبی علاقوں میں داخل ہوگیا ہے جبکہ شہری سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

    مختلف ندی نالوں میں طغیانی کے بعد کئی ملحقہ سڑکیں زیر آب آچکی ہیں، جہاں سے جانے کا راستہ بند ہوچکا ہے۔ پانی کی وجہ سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا ور لوگ گھنٹوں تک سڑکوں پر کھڑے رہے۔

    پورے شہر میں بجلی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے، کئی علاقوں میں 36 گھنٹوں تک بجلی غائب رہی جبکہ بارشیں بند ہوجانے کے بعد بھی بجلی کی آنکھ مچولی جاری رہی۔

    مختلف علاقوں میں امدادی کارروائیوں کے لیے فوج کو طلب کرلیا گیا۔ متعدد سڑکوں پر تاحال نکاسی کا کام نہیں شروع کیا گیا۔

  • قبائلی اضلاع میں 55 فیصد اسکول بجلی سے محروم

    قبائلی اضلاع میں 55 فیصد اسکول بجلی سے محروم

    پشاور: حال ہی میں آزادانہ ذرائع سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ قبائلی اضلاع میں 5 ہزار 7 سو 88 اسکولوں میں 18 فیصد اساتذہ اور 62 فیصد طلبہ غیر حاضر، جبکہ 55 فیصد اسکول بجلی اور 51 فیصد پانی سے محروم ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق قبائلی اضلاع کے اسکولوں کی حالت زار پر مانیٹرنگ رپورٹ جاری کردی گئی۔ رپورٹ انڈپینڈنٹ مانیٹرنگ یونٹ کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق 5 ہزار 7 سو 88 اسکولوں میں 18 فیصد اساتذہ اور 62 فیصد طلبہ غیر حاضر ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا کہ 55 فیصد اسکولوں میں بجلی اور 51 فیصد میں پانی موجود نہیں۔ 30 فیصد اسکول بیت الخلا اور 18 فیصد باؤنڈری وال سے محروم ہیں۔

    وزیر اعلیٰ پختونخواہ کے مشیر تعلیم ضیا اللہ کا کہنا ہے کہ قبائلی اضلاع کے اسکولز میں بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائیں گے۔ قبائلی اضلاع کے تعلیمی شعبے کے لیے 36 ارب فنڈ مختص کیے گئے ہیں۔

    چند روز قبل اقوام متحدہ کی ایجوکیشن، سائنٹفک اور کلچرل آرگنائزیشن (یونیسکو) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2030 تک 4 میں سے ایک پاکستانی بچہ پرائمری اسکول مکمل نہیں کر پائے گا۔

    یونیسکو کے مطابق پاکستان ’12 سالہ تعلیم سب کے لیے‘ ہدف کا بھی نصف حصہ ہی حاصل کرسکے گا جبکہ موجودہ شرح میں اب بھی 50 فیصد نوجوان سیکنڈری سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔

  • چینی اور پانی سے بھرا چمچ گھر کے باہر رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

    چینی اور پانی سے بھرا چمچ گھر کے باہر رکھنے کا کیا فائدہ ہے؟

    ہماری زمین پر موجود ہر جاندار نہایت اہمیت کا حامل ہے، زمین پر موجود تمام جاندار آپس میں جڑے ہوئے ہیں لہٰذا کسی ایک جاندار کی نسل کو نقصان پہنچنے یا اس کے معدوم ہوجانے سے زمین پر موجود تمام اقسام کی زندگی خطرے میں آسکتی ہے۔

    انہی میں سے ایک اہم جاندار شہد کی مکھی ہے، خطرناک ڈنک مارنے والی شہد کی مکھیاں ہمارے اس دنیا میں وجود کی ضمانت ہیں اور اگر یہ نہ رہیں تو ہم بھی نہیں رہیں گے۔

    ماہرین کے مطابق ہماری غذائی اشیا کا ایک تہائی حصہ ان مکھیوں کا مرہون منت ہے۔ شہد کی مکھیاں پودوں کے پولی نیٹس (ننھے ذرات جو پودوں کی افزائش نسل کے لیے ضروری ہوتے ہیں) کو پودے کے نر اور مادہ حصوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اس عمل کے باعث ہی پودوں کی افزائش ہوتی ہے اور وہ بڑھ کر پھول اور پھر پھل یا سبزی بنتے ہیں۔

    شہد کی مکھیاں یہ کام صرف چھوٹے پودوں میں ہی نہیں بلکہ درختوں میں بھی سر انجام دیتی ہیں۔ درختوں میں لگنے والے پھل، پھول بننے سے قبل ان مکھیوں پر منحصر ہوتے ہیں کہ وہ آئیں اور ان کی پولی نیشن کا عمل انجام دیں۔

    تاہم نسل انسانی کے لیے ضروری یہ ننھی مکھیاں اس وقت کئی خطرات کا شکار ہیں۔ جانوروں کی دیگر متعدد اقسام کی طرح انہیں بھی سب سے بڑا خطرہ بدلتے موسموں یعنی کلائمٹ چینج سے ہے۔ موسمی تغیرات ان کی پناہ گاہوں میں کمی کا سبب بن رہے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں بڑھتی فضائی آلودگی بھی ان مکھیوں کے لیے زہر ہے اور اس کے باعث یہ کئی بیماریوں یا موت کا شکار ہورہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ 5 برسوں میں شہد کی مکھیوں کی ایک تہائی آبادی ختم ہوچکی ہے۔

    ان مکھیوں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    معروف محقق اور ماہر ماحولیات سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے مطابق ہمارا ایک معمولی سا عمل ان مکھیوں کو بچا سکتا ہے۔ سر ایٹنبرو کو ماحولیات کے شعبے میں کام اور تحقیق کے حوالے سے شاہی خاندان میں بھی خصوصی اہمیت حاصل ہے اور کئی بار ملکہ ان کے کام کو سراہ چکی ہیں۔

    ان کے مطابق شہد کی مکھیاں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے دور دور نکل جاتی ہیں اور بعض دفعہ وہ تھکن کا شکار ہو کر واپس اپنے چھتے تک نہیں پہنچ پاتیں۔

    ایسے میں اگر ہم اپنے گھر کے لان یا کھلی جگہ میں ایک چمچے میں ایک قطرہ پانی اور چینی کی تھوڑی سی مقدار ملا کر رکھ دیں گے تو یہ محلول ان مکھیوں کی توانائی بحال کر کے واپس انہیں ان کے گھر تک پہنچنے میں مدد دے سکتا ہے۔

    سر ایٹنبرو کے مطابق اگر شہد کی مکھیاں نہ رہیں تو ہم انسان صرف 4 برس مزید زندہ رہ سکیں گے، چنانچہ یہ معمولی سا قدم نہ صرف ان مکھیوں بلکہ ہماری اپنی بقا کے لیے بھی مددگار ثابت ہوگا۔

    نوٹ: بعد ازاں سامنے آنے والی رپورٹس سے علم ہوا کہ سر ڈیوڈ ایٹنبرو کے جس اکاؤنٹ سے یہ معلومات شیئر کی گئیں، وہ جعلی اکاؤنٹ تھا۔ سر ایٹنبرو نے ایسی کوئی بھی تجویز دینے کی تردید کی۔

  • کراچی میں 12 سال کے دوران پانی کی ایک بوند کا اضافہ نہیں ہوا، فردوس شمیم

    کراچی میں 12 سال کے دوران پانی کی ایک بوند کا اضافہ نہیں ہوا، فردوس شمیم

    کراچی: سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی کا کہنا ہے کہ کوڑا اٹھانے کی بات ہویا پانی کا مسئلہ ہم تہہ تک جاتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ شہر میں سب سے اہم مسئلہ پانی کا ہے، اہم منصوبو ں میں تاخیر نہیں کی جاسکتی۔

    انہوں نے کہا کہ کوڑا اٹھانے کی بات ہویا پانی کا مسئلہ ہم تہہ تک جاتے ہیں، کراچی میں 12 سال کے دوران پانی کی ایک بوند کا اضافہ نہیں ہوا۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ کے 4 کا منصوبہ 20 فیصد سے زیادہ نہیں مکمل نہیں ہوا، کے 4 منصوبے پر پچھلے سال کئی سوال اٹھائے گئے تھے۔

    فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ حلف لینے کے بعد سب سے پہلے ایم ڈی واٹر بورڈ سے ملاقات کی، اب کے 4 منصوبے کے ڈیزائن کی تبدیلی کی بات ہورہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شہرکوآبادی کی تناسب سے ہزار ملین گیلن پانی ملنا چاہیئے، کراچی کو 450ملین گیلن پانی مل رہا ہے، کے فورمنصوبے کی لاگت 25 سے 100 بلین تک پہنچ گئی ہے، حکومت ڈیم کے لیے زمین لے سکتی ہے تو کے فورکے لیے بھی لی جاسکتی ہے۔

    فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ تاجروں کے مطالبات میں سے ایک تسلیم نہیں کیا گیا، 50 ہزارسے اوپر مال دیں گے تو این آئی سی کا نمبر دینا ہوگا۔

    اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم چاہتے ہر چیز ڈاکومنٹ ہو اور جو ٹیکس بنتا ہو وہ دیں، چاہتے ہیں جوٹیکس نیٹ سے باہر ہیں انہیں ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

    فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ مشکل حالات میں مشکل فیصلے کرنے پڑتے ہیں، ہڑتال کرنے والے وہ ہیں جو ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے انکاری ہیں۔

  • لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا

    لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں زہر ملا دیا

    اسلام آباد: لالچی ماہی گیروں نے راول ڈیم کے پانی میں ایک بار پھر زہر ملا دیا، محکمہ فشریز اور دیگر اداروں نے پر اسرار خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق محکمہ فشریز اور دیگر اداروں کی مبینہ نا اہلی سنگین رخ اختیار کر گئی ہے، مچھلیوں کے شکار کے لیے راول ڈیم کے پانی میں چوتھی بار زہر ملا دیا گیا ہے۔

    بتایا گیا ہے کہ ڈیم کے پانی میں زہر ملانے میں مقامی افراد اور کشتی مافیا ملوث ہیں، جن کے خلاف کئی ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔

    دوسری طرف ایف آئی آر درج کرائی جانے کے باوجود ملوث افراد کے خلاف کسی کارروائی کا نہ ہونا متعلقہ اداروں پر سوالیہ نشان بن گیا ہے۔

    شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پانی کو زہریلا بنانے والے عناصر کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت کارروائی کی جائے۔

    خیال رہے کہ ماضی میں بھی ماہی گیر مچھلیوں کے شکار کے لیے راول ڈیم میں زہر ملاتے رہے ہیں، جس کی وجہ سے راول جھیل کا پانی زہریلا ہو جاتا ہے اور مقامی آبادی کی صحت کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے۔

    ادھر اداروں نے پانی کو زہریلا بنانے والے مافیا کے خلاف چپ سادھ رکھی ہے، پانی میں زہر ملا کر ایک طرف اگر مچھلیوں کی نسلوں کو نقصان پہنچتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کی صحت بھی خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے۔

  • بھارت میں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

    بھارت میں پینے کا پانی حاصل کرنے کے لیے لڑائیاں اور اموات

    نئی دہلی : بھارت میں 16 کروڑ سے زائد لوگ صاف پانی سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے، پانی کا بحران انتہائی غیر منصفانہ ہے‘ امیر طبقے کو کوئی فرق نہیں پڑتابس غریب کو جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دو کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل بھارت کے گنجان آباد دارالحکومت نئی دہلی میں بد ترین خشک سالی امیر اور غریب طبقے کے درمیان پہلے سے موجود عدم مساوات کو مزید بڑھا رہی ہے۔

    میڈیا ذرائع کا کہنا تھا کہ مرکزی دہلی کے وسیع و عریض گھروں اور لگڑری اپارٹمنٹس میں رہنے والے سیاستدان، سرکاری ملازمین اور کاروباری افراد پائپ لائن کے ذریعے مہینہ بھر اپنے واش رومز اور کچن کے استعمال کے علاوہ گاڑیاں دھونے، کتے نہلانے اور گھر کے باغیچے کو سیراب کرنے کے لیے لامحدود پانی صرف 10 سے 15 ڈالرز میں خرید سکتے ہیں۔

    دوسری طرف کچی آبادیوں یا مرکزی شہر کے گردونواح میں آباد نسبتاً غریب طبقے کی کالونیوں میں رہنے والوں کو محدود مقدار میں پانی لینے کے لیے روزانہ مشقت کرنا پڑتی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اس طقبے کو پانی کی سپلائی پائپ لائن سے نہیں بلکہ ٹینکرز کے ذریعے کی جاتی ہے اور دن بدن پانی کی کم ہوتی سپلائی کے ساتھ اس کی قیمت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

    خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق بھارت میں پانی کا بحران انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں امیر طبقے کو اس بحران سے کوئی فرق نہیں پڑتا جبکہ غریب عوام کو پانی کے حصول کی خاطر روزانہ جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔

    بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ سمیت زیادہ تر قانون سازوں کی سرکاری رہائش گاہیں مرکزی دہلی میں ہی ہیں، شاید یہی وجہ ہے کہ مودی کو پانی کے تحفظ کے لیے حکومتی سطح پر ایک بڑے پروگرام کا اعلان کرنے میں کئی سال لگے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہناتھا کہ دہلی کے مرکزی سرکاری ضلع اور آرمی کنٹونمنٹ کے علاقوں میں روزانہ کی بنیاد پر ہر رہائشی کو تقریباً 375 لیٹر پانی ملتا ہے جبکہ سنگم وہار کے ضلعے کے ہر رہائشی کے حصے میں یومیہ صرف 40 لیٹر پانی آتا ہے۔

    خبر رساں اداروں کا کہنا تھا کہ کنوؤں سے نکال کر یہ پانی شہر میں سرکاری ادارے دہلی واٹر بورڈ کی زیر نگرانی ٹینکرز کے ذریعے سپلائی کیا جاتا ہےلیکن مقامی رہائشی کہتے ہیں کہ پانی کے کچھ کنوؤں پر جرائم پیشہ گینگز اور مقامی سیاستدانوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے قبضہ کر رکھا ہے، ان گینگز کا غیر قانونی طور پر پانی کے پرائیویٹ ٹینکرز بیچنے میں بھی بڑا کردار ہے۔

    رپورٹ کے مطابق یہ سب ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب دہلی نے رواں سال جون میں خشک سالی کا 26 سالہ ریکارڈ توڑا ہے اور 10 جون کو یہاں 48 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا تھا۔

    برطانوی سماجی تنظیم ’واٹر ایڈ‘ کے مطابق بھارت میں لگ بھگ 16 کروڑ سے زائد لوگ (آبادی کا 12 فیصد) صاف پانی سے محروم ہیں اور یہ تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

  • پورا شہر لے کر نکلے تو حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی: خالد مقبول صدیقی

    پورا شہر لے کر نکلے تو حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی: خالد مقبول صدیقی

    کراچی: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ ابھی تو صرف ایم کیو ایم کے کارکنان آئے ہیں، پورا شہر لے کر نکلے تو حکمرانوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کنوینر ایم کیو ایم پاکستان نے کہا کہ یہاں 11 سال سے وڈیرے اور جاگیر داروں نے معاشی دہشت گردی مچا رکھی ہے، پاکستان کو بچانے کے لیے کراچی کو بچانا ضروری ہے۔

    ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم کچھ نہیں مانگتے، ہم تو اپنا لوٹا ہوا پیسا مانگتے ہیں، ایم کیو ایم کی بلدیاتی حکومت نے پہلا ماس ٹرانزٹ منصوبہ منظور کرایا، بد قسمتی سے تب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور یہ منصوبہ مکمل نہ ہو سکا۔

    ایم کیو ایم کے سربراہ نے کہا کہ ہم نے پاکستان بنایا تھا اور ہم پاکستان کو بچائیں گے، یہ شہر صوبے کو 95 فی صد اور وفاق کو 70 فی صد دیتا ہے، اور اب وفاق کہتا ہے کہ پانی کا منصوبہ کراچی کے لیے قابل عمل نہیں ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  کراچی کو سازش کے تحت پانی فراہم نہیں کیا جا رہا: خالد مقبول صدیقی

    وفاقی وزیر برائے آئی ٹی خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ کراچی پیسا دیتا ہے تو وفاق پلتا ہے، وزیر اعظم صاحب ہمیں صرف انصاف چاہیے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز پریس کلب پر پانی کی عدم فراہمی کے سلسلے میں احتجاجی مظاہرے سے خطاب میں خالد مقبول نے کہا کہ کراچی کو سازش کے تحت پانی فراہم نہیں کیا جا رہا، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ تحفظ فراہم کرے، اگر لوگ اپنی جماعت کو چھوڑ کر جا رہے ہیں تو یہ بھی عدم تحفظ کی دلیل ہے۔

  • کراچی: ایم کیو ایم کا پانی کے بحران کے خلاف احتجاج کا اعلان

    کراچی: ایم کیو ایم کا پانی کے بحران کے خلاف احتجاج کا اعلان

    کراچی: ایم کیو ایم پاکستان نے شہر قائد میں پانی کے بحران کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا.

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں قلت آب کا مسئلہ گمبھیر شکل اختیار کر گیا، عوام پانی کی بوند بوند کو ترس گئے.

    ایم کیو ایم پاکستان سندھ حکومت اور واٹربورڈ کے خلاف میدان میں آ گئی ہے، پارٹی کی جانب سے پانی کی چوری اور غیرمنصفانہ تقسیم کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کیا گیا ہے.

    پانی کے بحران کے خلاف  ایم کیو ایم یکم جولائی کو پریس کلب کے سامنے احتجاج کرے گی، پارٹی کی جانب سے عوام کو مظاہرے میں بھرپور شرکت کی اپیل کی گئی ہے.

    ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عوام احتجاج کا حصہ بن کر سندھ حکومت اورواٹربورڈ پراپنےعدم اعتماد کا اظہار کریں.

    مزید پڑھیں: شہر قائد میں ایک بار پھر بجلی اور پانی کا بحران : بیشتر علاقوں میں اندھیرے کا راج

    پارٹی کے اعلامیہ کے مطابق سندھ حکومت کی نااہلی کے باعث عوام پانی سے محروم ہیں، پانی بحران کے خلاف ایم کیو ایم احتجاجی تحریک پھیلانے پر بھی غور کر رہی ہے.

    پارٹی ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان ایم ڈی واٹربورڈ کے دفتر اور وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر بھی احتجاج کی حکمت عملی پرغور کر رہی ہے.

  • کراچی واٹر بورڈ کے تمام اسٹریٹجک تنصیبات پرمتواتر بجلی کی فراہمی جاری ہے، ترجمان کے الیکٹرک

    کراچی واٹر بورڈ کے تمام اسٹریٹجک تنصیبات پرمتواتر بجلی کی فراہمی جاری ہے، ترجمان کے الیکٹرک

    کراچی: کے الیکٹرک کی جانب سے دھابیجی، گھارو اور پیپری پمپنگ اسٹیشنز سمیت کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے تمام اسٹریٹجک تنصیبات پرمتواتر بجلی کی فراہمی جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے الیکٹرک انتظامیہ کا کہنا ہے ان کے ادارے کی جانب سے واٹر بورڈ کی تمام اسٹریٹجک تنصیبات کو بجلی کی متواتر فراہمی یقینی بنانے کے علاوہ واٹر بورڈ کے عملے کوہرممکن تکنیکی معاونت فراہم کی جاتی ہے جبکہ کے الیکٹرک کا عملہ واٹر بورڈ حکام کے ساتھ مسلسل رابطے میں بھی رہتا ہے۔

    منگل کے روز دھابیجی اور پیپری پمپنگ اسٹیشنز پر آنے والے تعطل کو ترجیحی بنیادوں پر درست کیا گیا۔اس حوالے سے پاور یوٹیلٹی نے فور ی طور پر اپنی ٹیموں کو بجلی کی فراہمی بحال کرنے کیلئے متحرک کردیا تھا۔مزید برآں ، دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کے اندرونی ڈسٹری بیوشن سسٹم پر غیر مساوی لوڈ، اوورلوڈنگ اور ٹرپنگ کا باعث بنتا ہے۔

    کے الیکٹرک نے واٹربورڈ کے سسٹم کوبیلنس رکھنے میں معاونت کیلئے ایک پروپوزل بھی بھیجا ہے جس پرکے الیکٹرک تاحال واٹر بورڈ کے جواب کا منتظر ہے۔کے الیکٹرک کی جانب سے واٹر بورڈ پر زور دیا جاتا ہے کہ کے ڈبلیو ایس بی اپنے آپریشنل سسٹم کو بہتر بنانے اور اپ گریڈ کرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی متواترفراہمی کیلئے اپنے اندرونی ڈسٹری بیوشن سسٹم کو بہتر بنائے۔

    کے الیکٹرک کی ٹیمیں واٹر بورڈ کے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن سمیت دیگر اسٹریٹجک تنصیبات پروقتاً فوقتاً سروے بھی کراتی ہیں تاکہ بلاتعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے۔

    علاوہ ازیں، واٹر بورڈ کی جانب سے تقریباً 32ارب روپے پاور یوٹیلٹی کو واجب الادا ہونے کے باوجود، کراچی کے عوام کے وسیع تر مفاد میں واٹر بورڈکے تما م بڑے پمپنگ اسٹیشنز لوڈشیڈنگ سے مستثنیٰ ہیں گزشتہ برسوں کے دوران پاور یوٹیلٹی نے دھابیجی پمپنگ اسٹیشن کیلئے بیک اپ فیڈر کی سہولت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تمام پمپنگ اسٹیشنز کوترجیحی بنیادپر بجلی کی فراہمی کیلئے خاطر خواہ سرمایہ کاری کی ہے۔