Tag: پانی

  • کوئی شک نہیں کہ ہمارااحتجاج کامیاب نہیں ہوگا‘ مصطفیٰ‌کمال

    کوئی شک نہیں کہ ہمارااحتجاج کامیاب نہیں ہوگا‘ مصطفیٰ‌کمال

    کراچی : پاک سرزمین پارٹی کےسربراہ مصطفیٰ کمال کا کہناہےکہ جس شہر سےحکمران پیسےلوٹ رہے ہیں اس کے لیےحقوق مانگ رہے ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق کراچی میں پریس کانفرس کےدوران پاک سرزمین پارٹی کےسربراہ مصطفیٰ کمال نےکہاکہ بدترین حکومتوں نےبھی یہ عوام کووسائل دےرکھےہیں۔

    مصطفی کمال کاکہناہےکہ شکرکریں ہم یہاں احتجاجاًبیٹھےہوئےہیں، اگرہم نےچلناشروع کردیاتوان محلات تک پہنچ جائیں گے۔انہوں نےکہاکہ ہم نےاپنی زندگی خاموشی سےقربان نہیں کرنی ہے۔

    پانی کےبحران کےحوالے سےپاک سرزمین پارٹی کےسربراہ کاکہناتھاکہ ٹینکرز کیاکسی دوسرے شہر سے پانی لےکر آرہےہیں ؟انہوں نےکہاکہ جو پانی ہمیں مفت میں ملنا تھا،وہ ہزاروں روپے میں ملتا ہے۔

    پاک سرزمین پارٹی کےسربراہ مصطفیٰ کمال نےکہاکہ لوگ کردار اورپچھلےعمل کی وجہ سے ہمارے ساتھ جمع ہورہےہیں۔


    مصطفیٰ کمال کااحتجاج کا دائرہ کراچی کے دیگرعلاقوں تک بڑھانے کا اعلان


    یاد رہےکہ گزشتہ روز پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے احتجاج کا دائرہ کراچی کے دیگر علاقوں تک بڑھانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھاکہ حکمران سمجھ رہے ہیں، احتجاج کے بعد یہاں سے چلے جائیں گے۔

    مصطفیٰ کمال کا کہناتھاکہ پاک سرزمین پارٹی چاروں صوبوں کی جماعت بن رہی ہے،حکمران جیسا برتاؤ کریں گے،ہمارا رویہ بھی ویسا ہی ہوگا۔

    واضح رہےکہ پاک سر زمین پارٹی نے6 اپریل سے اپنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیاتھااور آج چوتھے روز بھی کراچی پریس کلب پر ان کا احتجاج جاری ہے۔

  • سیاسی حصہ نہیں شہریوں کے لیے پانی مانگ رہے ہیں، مصطفیٰ کمال

    سیاسی حصہ نہیں شہریوں کے لیے پانی مانگ رہے ہیں، مصطفیٰ کمال

    کراچی : چیئرمین پاک سرزمین پارٹی مصطفی کمال نے کہا ہے کہ ملک کو سب سے زیادہ ریونیو دینے والےشہر کو پانی فراہم نہ کرنا حکومتی نااہلی کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ کراچی کوئی گاؤں نہیں جہاں حکومت پانی نہی‌ پہنچاسکتی۔

    اے آر وائی نیوز کے نمائندے رافع حسین سے گفتگو کرتے ہوئے مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ کراچی ملک کو ستر فیصد کما کر دیتا ہے لیکن بدلے میں سندھ حکومت شہریوں کو بنیادی سہولیات تک فراہم سے قاصر نظر آتی ہے جو کہ سراسر نا انصافی اور متعصبانہ عمل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت سےکوئی سیاسی حصہ نہیں مانگ رہے بلکہ صرف اتنا چاہتے ہیں کہ کراچی کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی مل جائے اور یہ ہر شہری کا بنیادی حق ہے جسے حکومت فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے کیوں کہ مطمع نظر کرپشن ہے خدمت نہیں۔


    مصطفیٰ کمال نے کہا کہ آج ہمارے احتجاج کی حمایت میں شہر میں ریلیاں نکلیں اور ان ریلیوں میں ہم کسی کو ڈرا دھمکا کراحتجاج میں نہیں لائے بلکہ عوام اپنے حقوق کے لیے خود اُٹھ کھڑی ہوئی ہے اور اب یہ لوگ اپنے مسائل کا حل لیے بغیر نہیں جائیں گے۔

    واضح رہے کراچی پریس کلب پر احتجاج پر بیٹھے پاک سرزمین پارٹی کے رہنماؤں نے مطالبات پورے نہ ہونے پر کراچی کے 12 مقامات پر احتجاج اور دھرنے کا دائرہ کار بڑھایا جس میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی اور بنیادی مسائل کے حل کے لیے نعرے بازی کی۔


    *مصطفیٰ کمال کااحتجاج کا دائرہ کراچی کے دیگرعلاقوں تک بڑھانے کا اعلان


    نیپا ، سرجانی ٹاؤن، ناگن چورنگی، کورنگی ڈھائی، اسٹار گیٹ، لیاقت آباد دس نمبر، یوپی موڑ ، فائیو اسٹار، اورنگی نمبر پانچ ، بڑا بورڈ، بلدیہ اتحاد ٹاؤن، اور قائد آباد سمیت دیگر علاقوں میں دھرنے دیے گئے اور احتجاجی کیمپ لگائے گئے جس کے باعث شہر میں ٹریفک جام ہوگیا۔

    اسی طرح کراچی کی اہم اور مصروف ترین شاہراہ نمائش چورنگی پر بھی مظاہرین جمع ہوگئے جہاں مظاہرین نے احتجاج کرتے ہوئے روڈ بھی بلاک کردیا جس کے باعث بدترین ٹریفک جام ہوگیا اور لوگ اپنی گاڑیوں میں پھنس گئے۔

  • پانی کی گلابی رنگت سے لوگ خوفزدہ، ہزاروں گیلن پانی ضائع

    پانی کی گلابی رنگت سے لوگ خوفزدہ، ہزاروں گیلن پانی ضائع

    آپ کو یاد ہوگا چند روز قبل اسپین میں ایک دریا کے پانی کا رنگ سبز ہوگیا تھا۔ رنگ کی تبدیلی پانی میں ڈالے جانے والے کیمیائی مادوں کی وجہ سے ہوئی تھی جو پانی کا تجزیہ کرنے کے لیے ڈالے گئے تھے۔

    ایسا ہی ایک واقعہ کینیڈا کے ایک قصبے میں بھی پیش آیا جب اچانک نلکوں سے گلابی رنگ کا پانی بہنے لگا۔ رہائشیوں نے خوفزدہ ہو کر نلکے کھلے چھوڑ کر پانی کو بہہ جانے دیا جس کے باعث ہزاروں گیلن پانی ضائع ہوگیا۔

    pink-2

    کینیڈا کے شمال مغرب میں واقع قصبہ ایڈمنٹن میں شہری اپنے گھروں کے نلکوں سے گلابی رنگ کے پانی کو بہتا دیکھ کر خوفزدہ اور تشویش کا شکار ہوگئے۔

    تاہم جلد ہی قصبے کے میئر نے پیغام جاری کیا کہ یہ پانی استعمال کے لیے بالکل محفوظ ہے اور اس میں کسی قسم کے زہریلے مواد کی آمیزش نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ قصبے کو پانی فراہم کرنے والے فلٹریشن پلانٹ کی صفائی کے لیے پوٹاشیئم استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے بہت زیادہ استعمال سے پانی کا رنگ گلابی ہوجاتا ہے البتہ اس کے کوئی مضر نتائج نہیں ہوتے۔

    انہوں نے شہریوں کی پریشانی پر معذرت کا اظہار بھی کیا۔

    pink-3

    لیکن ان کا بیان جاری ہونے سے قبل ہی قصبے کے افراد ہزاروں گیلن پانی ضائع کر چکے تھے۔

    میئر کے اعلان کے بعد لوگوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ کو پہلے سے اس بات کا اعلان کرنا چاہیئے تھا تاکہ قصبے میں بلا وجہ خوف و ہراس نہ پھیلتا۔

  • چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال کے لوگ گندا پانی پینے پر مجبور

    چترال: صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع چترال میں بالائی علاقے وادی شالی کے لوگ دریا کا گندا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ چترال کی خواتین 1 ہزار فٹ نیچے سے یہ پانی مٹکوں میں بھر کر واپس اوپر اپنے گھروں میں لے جانے پر مجبور ہیں۔

    بالائی علاقے وادی شالی میں جو آرکاری روڈ پر واقع ہے اور چترال سے 50 کلومیٹر دور ہے، میں گزشتہ ماہ شدید برف باری ہوئی۔ مختلف مقامات پر برفانی تودے گرنے کی وجہ سے پینے کی پانی کی پائپ لائن کو بھی نقصان پہنچا۔ کئی مقامات پر پانی جم گیا جبکہ اکثر مقامات پر پانی کی پائپ لائن موجود ہی نہیں ہے۔

    چترال کے لوگ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کی کارکردگی نہایت شاکی ہیں جو کروڑوں روپے تو خرچ کرتے ہیں مگر لوگوں کو سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔

    women-2

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کے ارباب اختیار نے حد با اثر ہیں۔ ان کے خلاف ابھی تک نہ تو نیب نے کارروائی کی اور نہ انسداد رشوت ستانی ان کے خلاف حرکت میں آیا۔

    شالی گاؤں کی رہائشی زرینہ بی بی کا کہنا ہے کہ ان کے گھروں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں اس لیے وہ دریائے آرکاری کا گندہ پانی روزانہ مٹکوں میں بھر کر، سروں پر رکھ کر چڑھائی چڑھ کر اپنے گھروں کو لے کر جاتی ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ان کے مکانات سڑک اور دریا سے ایک ہزار سے 1500 فٹ اونچائی پر واقع ہیں مگر وہ اس مشقت کے لیے مجبور ہیں اور اب یہ ان کا معمول بن چکا ہے۔

    بی بی آمنہ بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں جو صبح سویرے، دوپہر اور شام کو تین بار دریائے آرکاری سے پانی بھر کر لاتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دریا کا پانی آلودہ اور گندا ہے اور اس سے ان کے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں مگر وہ سب یہی پانی پینے پر مجبور ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی خطرات کا شکار

    یاد رہے کہ دیہی علاقوں میں ضروریات زندگی کے لیے دور دراز سے پانی بھر کر لانا معمولات زندگی میں شامل ہے اور یہ ایک ایسی جبری مشقت ہے جو خواتین کے فرائض کا حصہ سمجھی جاتی ہے۔

    سندھ کے دیہاتوں میں کام کرنے والے سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ صرف خواتین پر لاگو ہونے والی یہ ایک ایسی لازمی مشقت ہے جو تا عمر جاری رہتی ہے۔ مرد چاہے گھر میں ہی کیوں نہ بیٹھے ہوں وہ یہ کام نہیں کرتے بقول ان کے یہ ان کا کام نہیں، عورتوں کا کام ہے اور اسے ہر صورت وہی کریں گی۔

    کارکنان کے مطابق بعض حاملہ عورتیں تو پانی بھرنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں بچے تک پیدا کرتی ہیں اور اس کی نال کاٹ کر اسے گلے میں لٹکا کر پھر سے پانی بھرنے کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں۔

    women-1

    بی بی آمنہ کا کہنا تھا کہ وادی میں کوئی اسپتال بھی نہں ہے اور جب ان کے بچے اس آلودہ پانی پینے سے بیمار پڑتے ہیں تو ان کو چارپائی پر ڈال کر دوسرے قصبے میں یا چترال کے اسپتال لے کر جاتے ہیں۔ طویل راستے کے باعث اکثر بچے راستے میں ہی دم توڑ جاتے ہیں۔

    بی بی آمنہ سمیت چترال کے دیگر افراد نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ محکمہ پبلک ہیلتھ انجنئیرنگ کے خلاف تحقیقات کی جائے کہ ان کی چترال میں کتنی واٹر سپلائی اسکیمیں کامیاب ہوئی ہیں اور کتنی اسکیمیں جعلی یا ناکام ہیں۔

    انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ پینے کے صاف پانی کے ساتھ ساتھ ان کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔

  • مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پر زندگی کے واضح ثبوت مل گئے

    مریخ پرانسانی زندگی کے قوی امکانات ہیں، یہ بات نئی سائنسی تحقیق سے ثابت ہوئی، اگرچہ اس سے قبل بھی مختلف تحقیق میں یہ ہی بات واضح ہوتی رہی ہے.

    نئی سائنسی تحقیق کے مطابق نظام شمسی کے سیارے مریخ پر زندگی کے آثارہونا ممکنات میں سے ہیں، سیارے کی تصویرمیں نمایاں ہوتے سرخی کو دیکھ کرسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ سرخی مریخ پرآبادی کے گمان کو تقویت دیتی ہے.

    سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پرہائیڈروجن پرمشتمل معدنیات بھی ہوسکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ مریخ پر موجود کچھ نشانات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ماضی میں یہاں کثیرتعداد میں پانی موجود تھا۔، محققین کا کہنا ہے کہ پانی کی موجودگی سے آبادی کا قیاس کرنا غلط نہ ہوگا.

    mars

    سائنسی جریدے نیچر کمیونیکیشن میں شائع مضمون میں محققین نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں تاحال مذکورہ بالا تحیقیق کے قابل تسلی ثبوت نہیں ملے ہیں، مگر یہاں ایک انتہائی اہم سوال ہے کہ مریخ پر پانی کی موجودگی کیوں اور کیسے ممکن ہوئی ہے ؟

    مزید پڑھیں:مریخ پرپانی کی موجود گی کے شواہد ملے ہیں،ناسا

    ڈاکٹر ٹسچنر نے کہا کہ پانی کی موجودگی اس بات کی تصدیق ہے کہ یہاں زندگی کی ایک نسل فعال تھی،سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مریخ پر زندگی کے نمایاں آثار کے حوالے سے تجربات ایک باسکٹ بال میں ہوا کے دباؤ کے ذریعے سے تقریباً 363.000 بار کئے گئے۔

    واضح رہے کہ 2013 میں بھی اس قسم کی تحقیق کی گئی تھی جس کا نتیجہ موجودہ رزلٹ جیسا ہی تھا اور نومبر 2016 میں ناسا کے ایک سائنسدان کی ریسرچ کے بعد یہ بات سامنے آئی تھی کہ مریخ کے ایک علاقے میں برف کا ایک بڑا ٹکڑا موجود ہے،جو برفانی پہاڑ کی صورت اختیار کر چکا ہے، سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں ایک بار پھر مریخ پر راکٹ بھیجنا پڑے گا تاکہ ابہام کو دور کیا جا سکے۔

  • پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    مختلف ماحولیاتی مسائل بشمول موسمیاتی تغیر (کلائمٹ چینج) اس وقت دنیا کی معیشت اور امن و امان کی صورتحال کے لیے چیلنج کی صورت میں سامنے آرہے ہیں۔

    ایک عام خیال ہے کہ پاکستان جیسے ملک میں، جو بری طرح دہشت گردی کا شکار ہے، اور جس کی عوام کو خوراک، صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں، ماحولیاتی مسائل کی طرف توجہ دینا ایک احمقانہ بات ہے۔

    لیکن شاید ہمیں اس بات کا علم نہیں کہ ہمارے بنیادی مسائل کی جڑ بھی کہیں نہ کہیں انہی ماحولیاتی مسائل سے جڑی ہے جن کا سدباب کرنا ضروری ہے۔

    یہاں ہم آپ کو پاکستان کے ان 4 بنیادی پہلوؤں سے آگاہ کر رہے ہیں جو دراصل ماحولیات کی خرابی کی وجہ سے ہیں اور جو ہر شخص سے تعلق رکھتے ہیں۔

    :کلائمٹ چینج کے خطرات کا سب سے زیادہ شکار ملک

    کلائمٹ چینج کی ایک بڑی وجہ کاربن سمیت مختلف زہریلی (گرین ہاؤس) گیسوں کا اخراج ہے۔ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہی ان گیسوں کے اخراج میں آگے ہیں اور اس میں چین اور امریکا سرفہرست ہیں۔

    خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان کا کلائمٹ چینج یا زہریلی گیسوں کے اخراج میں حصہ بہت کم ہے، لیکن پریشان کن بات یہ ہے کہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا شکار پہلے 10 ممالک میں پاکستان کا نمبر چھٹا ہے۔

    flood

    پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے غیر متوقع اور غیر معمولی بارشیں، اور درجہ حرارت میں اضافے کے باعث گلیشیئرز کا پگھلنا، ان کے باعث سمندروں اور دریاؤں کی سطح میں اضافہ ہونا پاکستان میں سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔

    سنہ 2010 میں آنے والا سیلاب، جسے اقوام متحدہ نے تاریخ کا تباہ کن سیلاب قرار دیا، اپنے ساتھ 2000 ہزار افراد کی جان لے گیا جبکہ اس سے لگ بھگ پونے دو کروڑ لوگ شدید متاثر ہوئے۔ ایک کروڑ سے زائد افراد بے گھر ہوگئے جبکہ اس سیلاب نے ملک کی معیشت کو 10 بلین ڈالرز کا نقصان پہنچایا۔

    :پانی کی شدید قلت

    ایک طرف تو ملک کے بالائی علاقے شدید سیلابوں کی زد میں ہیں، دوسری جانب پاکستان میں میٹھے (پینے کے) پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے دریاؤں میں پانی آنے کا سب سے بڑا ذریعہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشیئرز ہیں جو تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

    پاکستان میں گلیشیئرز کی تعداد 5 ہزار ہے اور گزشتہ برس ان علاقوں کا درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک گیا جس کے باعث ان گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ ہوا۔

    water

    ماہرین کے مطابق ان گلیشیئرز کے پگھلنے کے بعد دریاؤں اور سمندروں میں پانی میں یکایک اضافہ ہوگا جو قریبی آبادیوں کو سیلاب کی صورت تباہ کرے گا، اس کے بعد آہستہ آہستہ کم ہوگا اور ایک وقت ایسا آئے گا کہ پانی بالکل ختم ہوجائے گا۔

    ایک اور وجہ بارشوں کے پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ نہ کرنا بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان وجوہات کے باعث اگلے چند سالوں میں پاکستان میں پانی کی شدید کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔

    :زراعت میں کمی

    پاکستان میں بارشوں کے غیر متوقع اور تبدیل ہوتے پیٹرن، اور پانی کی کمی کے باعث زراعت بھی نقصان کا شکار ہے۔ کسی سال ہماری کھڑی فصلیں تیز بارش میں بہہ جاتی ہیں، اور کسی سال بوائی کے موسم میں بارش نہ ہونے کے باعث فصلیں ہی نہیں اگ پاتیں۔

    drought

    پشاور یونیورسٹی کے طلبا کی ایک تحقیق کے مطابق اگر کلائمٹ چینج اسی ڈھب سے وقوع پذیر ہوتا رہا تو سنہ 2080 تک صوبہ خیبر پختونخوا سے زراعت بالکل ختم ہوجائے گی اور یہ صوبہ ایک بنجر اور قحط زدہ علاقہ بن جائے گا۔

    :شمسی تونائی سے مالا مال ۔ لیکن محروم ملک

    پاکستان گزشتہ کچھ عرصے سے توانائی کے شدید بحران کا شکار ہے۔ ملک میں اب تک بجلی پیدا کرنے اور بجلی گھروں کو چلانے کے لیے تیلوں اور ڈیزل کو بطور ایندھن استعمال کیا گیا ہے۔

    solar

    ایک گرم ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے اس دولت کو کام میں لانے کے لیے ہمارے پاس وسائل اور جدید ٹیکنالوجی نہیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا سب سے بڑا شمسی توانائی پارک پاکستان میں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شمسی توانائی کو مناسب طریقے سے استعمال کیا جاسکے تو یہ بغیر کسی ایندھن کے پورے ملک کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے۔

  • کراچی کوعمارتوں کاجنگل بنادیاگیا ہے، وسیم اختر

    کراچی کوعمارتوں کاجنگل بنادیاگیا ہے، وسیم اختر

    کراچی : میئرکراچی وسیم اختر کاکہناہےکہ کراچی کوعمارتوں کاجنگل بنادیاگیاہے،صوبائی حکومت پانی کہاں سے دی گی۔

    تفصیلات کےمطابق کراچی میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے میئرکراچی وسیم اختر کا کہناتھاکہ شہرسے غیرقانونی ہائیڈرنٹس ختم کرائے جائیں۔

    میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے وسیم اخترنےکہا کہ بطور میئر کراچی کے ایم سی کا موقف دیناچاہتاہوں،انہوں نےکہاکہ واٹر بورڈ کا مسئلہ کافی عرصے سے چل رہاہے۔

    میئرکراچی کا کہناتھا کہ شہر کے لیے اربوں،کھربوں روپے جاری ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود نالے صاف نہیں ہوتے،انہوں نےکہا کہ ایس تھری کامنصوبہ 34 ارب پرپہنچ گیاہے۔

    مزید پڑھیں:جان کو خطرہ ہے،وسیم اختر کا کور کمانڈر کو خط

    خیال رہےکہ دو روزقبل میئر کراچی وسیم اختر نے سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز کو خط لکھ کر سیکیورٹی مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیاتھا۔

    مزید پڑھیں:تیس بڑے نالوں کی صفائی کے لیے فنڈز جاری کیے جائیں،وسیم اختر

    واضح رہےکہ گزشتہ ماہ میئرکراچی وسیم اختر نے کہا تھا کہ شہر کے تیس بڑے نالوں کی صفائی کے لیے یکمشت فنڈز مہیا کیا جائے،تمام نالوں کی ایک ساتھ صفائی کرنے سے شہر سے نکاسی آب کا مسئلہ حل ہو جائےگا۔

  • مچھروں سے بچنے کے طریقے

    مچھروں سے بچنے کے طریقے

    وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملیریا اور ڈینگی عام امراض بنتے جارہے ہیں جو بعض اوقات ہلاکتوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔ طبی و سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ مچھروں کی افزائش روکی جائے۔

    مچھروں کے سیزن میں ان سے بچنے کے لیے سخت احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر اگر گھر میں چھوٹے بچے موجود ہیں تو انہیں مچھروں سے بچانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سردیوں میں ڈینگی وائرس سے بچیں

    یہاں ہم آپ کو ایسے ہی کچھ طریقے بتارہے ہیں جنہیں اپنا کر آپ خود کو اور اپنے اہل خانہ کو مچھروں کے کاٹے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔


    ہلکے رنگوں کا استعمال

    گہرے یا سیاہ رنگ کے کپڑے مچھروں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہلکے رنگ مچھروں کو تذبذب میں مبتلا کرتے ہیں کہ آیا یہ ان کا آسان شکار ثابت ہوسکے گا یا نہیں، وہ ہلکے رنگ کی طرف جھپٹنے سے گریز کرتے ہیں۔


    جڑی بوٹیوں کا تیل

    مختلف جڑی بوٹیوں سے کشید کیا ہوا تیل مچھروں کو دور بھگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ ان میں پودینہ، لیونڈر، یوکلپٹس، لیمن گراس وغیرہ کا تیل شامل ہے۔ ان اجزا کو ملا کر بنایا جانے والا تیل بھی یکساں نتائج دے گا۔


    لمبے آستین پہننا

    مچھر کھلے بازوؤں کو سب سے پہلے نشانہ بناتے ہیں۔ اگر آپ ان کے کاٹے سے بچنا چاہتے ہیں تو لمبی آستینوں کا استعمال کریں۔


    کھڑے پانی سے حفاظت

    اپنے گھر میں، یا گھر کے آس پاس کھڑے پانی سے پہلی فرصت میں چھٹکارہ حاصل کریں۔ یہ مچھروں کی افزائش کا سب سے موزوں مقام ہے۔ گھر میں ذخیرہ کیے گئے پانی کو ڈھانپ کر رکھیں۔


    باہر نکلنے سے گریز

    مچھروں کے سیزن میں اندھیرا ہونے کے وقت باہر نکلنے سے گریز کریں۔ یہ وقت مچھروں کے حملے کا ہوتا ہے۔ گھر کے اند رہیں اور گھر میں جالی دار دروازوں اور کھڑکیوں کا اضافہ کریں۔


    ہوا کی آمد و رفت میں اضافہ

    گھر کو ہوا دار بنائیں تاکہ ہوا کی آمد و رفت میں آسانی ہو۔ دن کے وقت کھڑکیاں کھلی رکھیں، پردے ہٹا دیں، تاکہ دھوپ اندر آسکے۔ بند جگہوں پر مچھر گھس آئیں تو انہیں باہر نکالنا مشکل ہوجاتا ہے۔


     

  • ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ہوا سے پانی کھینچنے والی ٹربائن

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پینے کے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کا منفی اثر زراعت پر بھی ہوگا اور کروڑوں افراد قحط کا شکار ہوجائیں گے۔

    تاہم سائنس دان اب ایسی ایجادات کر رہے ہیں جو مختلف طریقوں سے ہمارے قدرتی وسائل میں اضافہ کرے، ماحول دوست ہوں اور ہماری زمین پر موجود وسائل کو کفایت شعاری سے استعمال کرنے میں مدد دیں۔

    مزید پڑھیں: پانی کی قلت سے مختلف ممالک کی جی ڈی پی میں کمی

    ایسی ہی ایک ایجاد واٹر سیر نامی ٹربائن بھی ہے جو فضا میں موجود پانی کو پینے کے لیے فراہم کرے گی۔

    دن کے 24 گھنٹے کام کرنے والی یہ ٹربائن فضا میں موجود پانی لے کر اسے پینے کے قابل بناتی ہے اور اس کے لیے اسے کسی قسم کی بجلی، توانائی، یا کیمیکلز کی ضرورت نہیں ہوتی۔

    اس کے زمین کے اوپر لگے بلیڈز ہوا کی طاقت سے گھومتے ہیں اور ہوا کو زمین کے اندر نصب چیمبر میں دھکیلتے ہیں۔ یہ چیمبر مٹی میں دبا ہوتا ہے اور ٹھنڈی مٹی کی وجہ سے خاصا سرد ہوتا ہے۔

    water-seer-2

    یہ اپنے اندر موجود گرم ہوا کو بھی ٹھنڈا کردیتا ہے اور اس میں موجود پانی قطروں کی صورت میں چیمبر کی دیواروں پر جم جاتا ہے۔

    یہ ٹربائن ہوا چلنے یا نہ چلنے دونوں صورتوں میں کام کرتی ہے اور روزانہ 37 لیٹرز پانی فراہم کرتی ہے۔

    یہ ٹربائن ان گاؤں دیہاتوں میں نصب کرنے کے لیے بہترین ہے جہاں بچوں اور خواتین کو پانی حاصل کرنے کے لیے میلوں دور تک چلنا پڑتا ہے۔

    پانی کے حصول کے لیے گاؤں کی خواتین کو کیسے درد ناک سفر طے کرنے پڑتے ہیں، پڑھیں خصوصی رپورٹ

    واضح رہے کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں موجود پانی کے ذخائر میں تیزی سے ہوتی کمی کے باعث 2025 تک دنیا کی ایک تہائی آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہوجائے گی۔

    مزید پڑھیں: پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    اس وقت دنیا بھر میں 780 ملین افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور گندا اور آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں جو انہیں مختلف بیماریوں اور بعض اوقات موت سے ہمکنار کردیتا ہے۔

  • پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کرنے کا آسان طریقہ

    کیا آپ جانتے ہیں پانی کو مضر صحت اجزا سے پاک کر کے اسے کس طرح پینے کے قابل بنایا جاسکتا ہے؟

    اقوام متحدہ کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق 164 ملین افراد افریقہ، 134 ملین ایشیا اور 25 ملین افراد لاطینی امریکا میں گندے پانی سے ہونے والی بیماریوں کے خطرے کا شکار ہیں۔

    ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 3.4 ملین افراد گندے پانی کے باعث پیدا ہونے والی بیماریوں سے ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان بیماریوں میں ٹائیفائیڈ، ہیپاٹائٹس، ڈائریا اور ہیضہ شامل ہیں۔

    مزید پڑھیں: آبی آلودگی سے دنیا بھر کی آبادی طبی خطرات کا شکار

    اس کی سب سے بڑی وجہ پینے کے پانی میں انسانی فضلہ کی ملاوٹ ہے۔

    پاکستان میں بھی 80 فیصد بیماریاں پینے کے گندے پانی کے باعث پیدا ہوتی ہیں۔ ان بیماریوں میں مبتلا 40 فیصد افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پانی کو صاف کرنے کا ایک ایسا طریقہ ہے جو نہ ہی تو زیادہ سائنسی ہے اور نہ ہی اس میں زیادہ پیسہ خرچ ہوگا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ بوتلوں میں پانی بھر کر انہیں سورج کی تیز روشنی میں رکھ دیا جائے۔

    تیز دھوپ پانی سے تمام زہریلے اور مضر صحت اجزا کو ختم کر کے پانی کو پینے کے لیے محفوظ بنا دیتی ہے۔ اس کے لیے پانی کو کم از کم 6 گھنٹے تیز دھوپ میں رکھنا ضروری ہے۔

    مزید پڑھیں: پانی کی بچت کرنے والا نلکا

    لیکن خیال رہے کہ اس کام کے لیے پلاسٹک کی عام بوتلیں نہ استعمال کی جائیں۔ تیز دھوپ میں پلاسٹک پگھل کر اس کے کچھ ذرات پانی میں شامل ہوسکتے ہیں جو انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ اس کے لیے موٹے پلاسٹک سے بنے تھرماس یا شیشے کے برتن استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

    یہ طریقہ دنیا کے کئی ممالک میں منظم انداز سے استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر افریقی ممالک میں اسی طریقے سے پانی کو صاف کر کے پینے کے قابل بنایا جارہا ہے۔