Tag: پانی

  • سندھ کے کن شہروں میں خشک سالی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں؟

    سندھ کے کن شہروں میں خشک سالی کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں؟

    کراچی: سندھ حکومت کے محکمہ آبپاشی نے ایک مراسلہ جاری کرتے ہوئے کراچی سمیت سندھ بھر میں پانی کی شدید قلت اور خشک سالی کے خطرے سے خبردار کیا ہے۔

    مراسلے کے مطابق رواں ربیع سیزن میں بارشوں کی کمی سے پانی کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہو چکے ہیں، تربیلا میں صرف 0.102 ملین ایکڑ فٹ اور منگلا میں 0.226 ملین ایکڑ فٹ پانی موجود ہے۔

    مراسلے میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ تربیلا اور منگلا ڈیم میں پانی کے ذخائر 4 سے 5 روز میں مکمل ختم ہو جائیں گے، اگر پانی کی کمی اسی طرح جاری رہی، تو خریف سیزن کے آغاز میں قلت 50 فی صد سے زیادہ ہو سکتی ہے۔

    مراسلے میں محکمہ آبپاشی نے کہا ہے کہ دستیاب پانی کی منصفانہ تقسیم کے لیے منظم منصوبہ بندی کی جائے۔ مراسلے کے مطابق کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص، ٹھٹھہ، بدین میں خشک سالی کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں، دادو، سکھر، گھوٹکی، خیرپور، نوشہروفیروز، لاڑکانہ، جیکب آباد اور تھرپارکر میں بھی صورت حال خشک سالی والی ہے۔

  • راولپنڈی میں ایمرجنسی نافذ، پانی کے غیر ضروری استعمال پر مقدمات درج ہوں‌ گے

    راولپنڈی میں ایمرجنسی نافذ، پانی کے غیر ضروری استعمال پر مقدمات درج ہوں‌ گے

    راولپنڈی میں خشک سالی کے باعث پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے واٹر اینڈ سینیٹیشن ادارے (واسا) نے شہر میں ایمرجنسی نافذ کر دی ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق وفاقی دارالحکومت سے متصل شہر راولپنڈی میں خشک سالی کے باعث پانی کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے۔ اس کے باعث واسا نے شہر میں ایمرجنسی کا نفاذ کرتے ہوئے پانی کے غیر ضروری استعمال پر مقدمات درج کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے دو شہریوں کے چالان کر دیے ہیں۔

    ایم ڈی واسا محمد سلیم اشرف کا کہنا ہے کہ خشک سالی کے باعث دستیاب پانی کی تقسیم مشکل ہو گئی ہے۔ محکمہ موسمیات نے بھی قلیل بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔ فروری اور مارچ میں بارشیں نہ ہوئیں، تو پانی کا مسئلہ مزید سنگین ہوگا۔

    ایم ڈی واسا نے کہا کہ آبادی میں مسلسل اضافے اور کمرشل سرگرمیوں سے پانی کے ذخائر میں کمی ہو رہی ہے۔ خشک سالی کے باعث ڈیموں اور زیر زمین پانی شدید متاثر ہوا ہے جب کہ پانی کی طلب اور سپلائی بھی شدید متاثر ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی کی طلب 68 ملین گیلن پانی یومیہ ہے جب کہ دستیاب پانی صرف 51 ملین گیلن یومیہ ہے۔ زیر زمین پانی کا لیول بھی 700 فٹ نیچے چلا گیا ہے۔ اس وقت پانی کی ضرورت راول ڈیم، خان پور ڈیم اور ٹیوب ویلز سے پوری کی جا رہی ہے۔

    محمد سلیم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ راول ڈیم سے پانی کے اخراج کے باعث لیول تیزی سے گر رہا ہے اور پانی کی سطح کم ہو کر 1669 فٹ تک آ گئی ہے اور یہاں صرف 45 دن کیلیے پانی کا ذخیرہ موجود ہے۔

    ایم ڈی واسا نے کہا کہ خشک سالی کے باعث پانی کے کم استعمال کیلیے آگہی مہم بھی شروع کی ہے۔ پانی کے غیر ضروری استعمال پر مقدمات کا اندراج کرینگے۔ گھروں میں گاڑیاں دھونے اور پانی بلا وجہ ضائع کرنے پر واسا نے 2 شہریوں کے چالان کیے ہیں جب کہ کمرشل مارکیٹ میں بھی دو شہریوں کا چالان کیا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ خان پور ڈیم کی صفائی کے باعث 22 فروری تک پانی کی فراہمی معطل رہے گی۔ شہریوں سے اپیل ہے کہ وہ پانی کا استعمال کم کریں اور واسا کے ساتھ تعاون کریں۔

  • پانی میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق حکومت بلوچستان کا بڑا فیصلہ

    پانی میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق حکومت بلوچستان کا بڑا فیصلہ

    کوئٹہ: بلوچستان حکومت نے اے آر وائی نیوز کی خبر پر ایکشن لیتے ہوئے کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی زائد مقدار جانچنے کے لیے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی، صوبائی وزیر پی ایچ ای نے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے 28 جنوری کو کوئٹہ کے پانی میں ہیڈن پوائزن کہلانے والے فلورائیڈ کی زائد مقدار ہونے اور اس سے ہونے والی ہڈیوں کی بیماریوں کے پھیلاؤ سے متعلق سائنسی تحقیق پر تفصیلی رپورٹ نشر کی تھی، جس پر محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ بلوچستان انے یکشن لیتے ہوئے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

    ایم ڈی واسا کی سربراہی میں قائم 5 رکنی کمیٹی میں پانی کے معیار کو جانچنے کے ماہرین بھی شامل ہیں، کمیٹی ضلع کوئٹہ میں پانی کے معیار اور اس میں فلورائیڈ کی بلند سطح سے متعلق سائنسی بنیادوں پر تفصیلی تحقیقات کر کے ایک جامع رپورٹ مرتب کرے گی۔

    اعلامیہ کے مطابق کمیٹی کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ متاثرہ علاقوں سے پانی کے نمونے جمع کر کے ان کا تجزیہ کرے، پانی میں موجود فلورائیڈ اور قدرتی عوامل سمیت زرعی کیمیکل، سیوریج اور پولٹری فارمز سے خارج ہونے والے فضلے اور دیگر ممکنہ وجوہ کا باریک بینی سے جائزہ لے اور 4 ہفتوں میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    صوبائی وزیر پی ایچ ای سردار عبدالرحمٰن کھیتران نے کہا ہے کہ پانی کے معیار سے متعلق کسی بھی قسم کی غفلت برداشت نہیں کی جائے گی، اور تحقیقات کے نتائج کی روشنی میں مناسب اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ عوام کو صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا سکے۔

  • پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    پینے کے بظاہر صاف پانی میں فلورائیڈ کی غیر معمولی مقدار پر تشویش ناک ویڈیو رپورٹ

    انسانی صحت کے لیے پینے کے پانی کا صرف صاف نظر آنا ہی کافی نہیں، بلکہ پانی میں شامل تمام قدرتی کیمیکلز کا مناسب مقدار ہونا لازمی ہے۔ کوئٹہ کے 52 فی صد پینے کے پانی میں تشویش ناک طور پر ’’ہیڈن پوائزن‘‘ کہلانے والے فلورائیڈ کی غیر متناسب مقدار کا انکشاف ہوا ہے، جو ہڈیوں کی بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ 25 لاکھ سے زائد آبادی والے شہر کے بیش تر لوگ یہی پانی پی رہے ہیں۔

    بیوٹمز یونیورسٹی کے انوائرنمنٹل سائنس میں ہائیڈرو جیو کیمسٹری کے پی ایچ ڈی اسکالر اور استاد تیمور شاہ درّانی نے اس پر 2022 سے 2024 تک تحقیق کی ہے، جس میں گنجان آباد علاقوں کے 100 ٹیوب ویلز سے پانی کے نمونے لیے گئے، جس کا کیمیائی جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ کوئٹہ کے شمال مشرقی بالائی علاقوں سے لیے گئے پانی کے نمونوں میں 25 فی صد میں فلورائیڈ ضروری مقدار سے کم جب کہ شمال مغربی اور وادی کی وسطی پٹی کے 27 فی صد علاقوں کے پانی میں فلورائیڈ 3.4 ملی گرام فی لیٹر تک زیادہ ہے۔

    محقق تیمور شاہ درّانی کے مطابق سریاب، ڈبل روڈ میاں غنڈی، نو حصار سمیت وادی کی وسطی پٹی کے علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے۔

    فلورائیڈ کی مقدار کتنی؟

    فلورائیڈ کی مقدار پانی میں 0.5 سے 1.5 ملی گرام فی لیٹر ہونا ضروری ہے۔ فلورائیڈ اس مقدار سے زیادہ ہو تو یہ طبعی لحاظ سے زہر تصور کیا جاتا ہے۔ محقق بتا رہے ہیں کہ فلورائیڈ کوئٹہ میں اپنا کام دکھا رہا ہے، اور بچے اور بزرگ نشانے پر ہیں۔

    تیمور شاہ نے بتایا کہ فلورائیڈ کی زیادہ مقدار سلو پوائزن کی طرح اثر دکھاتا ہے، کیوں کہ یہ پانی میں بے ذائقہ ہے، ہمیں پانی فلورائیڈ کی مقدار چیک کر کے پینے کی ضرورت ہے۔ اس تحقیق کے دوران ہم نے دیکھا کہ جن علاقوں میں فلورائیڈ کی مقدار زیادہ ہے وہاں بچوں کے دانت زنگ آلود رنگ جیسے ہیں، جب کہ 50 سال کی عمر سے زائد افراد میں ہڈیوں کی بیماریاں بالخصوص گھٹنوں کی تکالیف عام ہیں۔

    جدید سہولیات سے مکمل محروم علاقہ، آٹے کی چکی چلانے کے لیے گدھوں کا استعمال

    اس تحقیق میں سفارش کی گئی ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان بھی فلورائیڈ کی کم سے کم مقدار کو طے کرے، اور بلوچستان حکومت شہر میں پانی کے فلٹریشن اور ٹریٹمنٹ پلانٹس نصب کرے۔ تیمور شاہ درانی کے مطابق اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہماری آنے والی نسل بھی انہی بیماریوں کے ساتھ بڑی ہوگی اور صحت کے مسائل معاشرے میں عام ہوں گے۔ ہر فرد کے لیے گھر پر فلٹریشن کا نظام لگانا یا فلورائیڈ کو متناسب کرنا ممکن نہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں حکومتیں پینے کے پانی میں ضروری قدرتی کیمیکلز کا جائزہ لے کر انھیں گھروں تک پہنچاتی ہیں۔

    اس تحقیق کے لیے پانی کے نمونے ٹیوب ویلز سے 2022 میں بارشوں کے بعد لیے گئے تھے۔ محقق کے مطابق جب بارشیں کم ہوتی ہیں تو کوئٹہ میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھ جاتی ہے، 2016 میں بارشوں سے قبل یعنی طویل خشک موسم کے دوران کی تحقیق میں کوئٹہ کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار 20 ملی گرام فی لیٹر تک پائی گئی تھی۔ یہ صورت حال تشویش ناک ہے۔

  • سندھ میں کبھی کبھار تو میتوں کو غسل دینے کے لیے بھی پانی نہیں ہوتا، شرمیلا فاروقی

    سندھ میں کبھی کبھار تو میتوں کو غسل دینے کے لیے بھی پانی نہیں ہوتا، شرمیلا فاروقی

    کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شرمیلا فاروقی نے صوبہ سندھ میں پانی کے مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں کبھی کبھار تو میتوں کو غسل دینے کے لیے بھی پانی نہیں ہوتا۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’باخبر سویرا‘ میں گفتگو کرتے ہوئے پی پی رہنما شرمیلا فاروقی نے کہا کہ دریائے سندھ میں ویسے ہی پانی کم ہے، کینالز تو نکالی جا رہی ہیں مگر پانی کہاں سے آئے گا؟ سندھ کا پانی ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔

    انھوں نے کہا سندھ کے لیے پانی کا مسئلہ آج کا نہیں ہمیشہ سے رہا ہے، ہم نے اپنا کیس مشترکہ مفادات کونسل کے لیے پیش کیا ہے، دریائے سندھ سے پانی لیں گے تو سندھ سوکھ جائے گا، فارمولے کے تحت بھی ہر سال 25 سے 30 فی صد پانی کم ہی ملتا ہے۔

    شرمیلا فاروقی نے کہا ’’بغیر سوچے صبح اٹھ کر فیصلہ کیا گیا کہ چولستان کو ہرا بھرا کرنا ہے، ہم نے اپنا کیس ڈالا ہوا ہے، حکومت سی سی آئی کا اجلاس نہیں بلا رہی، ہم اتحادی ہیں لیکن لگتا ہے حکومت کو اس کا ادراک نہیں ہو رہا۔‘‘

    پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں میں موٹر ویز بن رہی ہیں، سندھ کا بھی خیال رکھا جائے، سندھ کے لیے موٹر ویز اور دیگر منصوبوں کے لیے پیسے کم رکھے جاتے ہیں، یہ سندھ بمقابلہ وفاق نہیں بلکہ پاکستان کی بات ہے، پی پی کی جب وفاق میں حکومت تھی تو سندھ کو اس کا جائز حصہ دیا گیا۔

  • ٹیل اینڈرز تک پانی کی رسائی میں رکاوٹ، نارا کینال کی لائننگ پر اہم ویڈیو رپورٹ

    ٹیل اینڈرز تک پانی کی رسائی میں رکاوٹ، نارا کینال کی لائننگ پر اہم ویڈیو رپورٹ

    سکھر بیراج کے بائیں کنارے سے نکلنے والے اہم ترین کینال ’نارا کینال‘ کی 2 کلو میٹر تک لائننگ اور پچنگ کا کام تیزی سے جاری ہے۔

    اس منصوبے کے تحت سکھر بیراج سے لے کر 2 کلو میٹر تک نارا کینال کی دونوں اطراف لائننگ اور فرش بندی کی جا رہی ہے۔ پروجیکٹ کے ریذیڈنٹ انجینئر قمر حسین لاکھو کا کہنا ہے کہ دو کلو میٹر کی لائننگ کا یہ پروجیکٹ 6 جنوری سے شروع ہوا، اور 20 جنوری تک ہم نے اسے پورا کرنا ہے، اس کی لاگت 3 ارب روپے ہے۔

    انھوں نے کہا اس کی افادیت یہ ہے کہ ہمارے ہیڈ ریچ میں پانی نکلنے میں جو رکاوٹیں تھیں، انھیں ہٹا دیا گیا ہے، اس کا ڈیزائن نیسپاک نے دیا ہے جس کی وجہ سے یہ زیادہ مؤثر ہو جائے گی، اور ٹیل اینڈرز کو پانی پوری رفتار کے ساتھ میسر ہوگا۔

    انجینئر کے مطابق ہیڈ کے یہ دو کلو میٹر بن جانے کے بعد پانی اسپیڈ سے جائے گا، اور ٹیل کے آباد گاروں کو جو ہمیشہ پانی کی قلت کی شکایت ہوتی ہے، وہ دور ہو جائے گی۔

    سرکنڈوں سے بنی دل کش چٹائیوں کی مانگ میں اضافہ، ویڈیو رپورٹ

    یہ پروجیکٹ اپنے مقرر کردہ وقت میں مکمل ہو جائے گا، سندھ حکومت نے اس پروجیکٹ کو تین ارب کی لاگت سے شروع کیا ہے جو 20 جنوری تک مکمل ہو جائے گا۔

    ویڈیو رپورٹ: سلیم سہتو

  • کچھی کینال کی مرمت کی لاگت میں 6 ارب کا اضافہ کیسے ہوا؟

    کچھی کینال کی مرمت کی لاگت میں 6 ارب کا اضافہ کیسے ہوا؟

    مظفرگڑھ: کچھی کینال کی مرمت پر لاگت 8.28 ارب سے بڑھ کر 14.70 ارب تک پہنچنے کا انکشاف ہوا ہے۔

    پلاننگ کمیشن کی دستاویز کے مطابق کچھی کینال کی مرمتی لاگت میں صرف 1 سال کے دوران تقریباً ساڑھے 6 ارب کا اضافہ ہو گیا ہے، مرمتی اخراجات میں یہ اضافہ 2023 میں منظور شدہ فنڈز فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے ہوا۔

    کچھی کینال کی مرمت کے لیے 14.70 ارب میں سے 5.8 ارب روپے منظور کیے گئے تھے، اب 8.9 ارب کی مزید منظوری کے لیے واپڈا دوبارہ نظرثانی شدہ پی سی ون پیش کرے گا۔

    وزارت منصوبہ بندی کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کچھی کینال کا مرمتی کام مالی سال 2027 تک مکمل کیا جائے گا، رواں مالی سال 30 فی صد، آئندہ مالی سال 65 فی صد اور 2027 میں باقی 5 فی صد کام مکمل ہوگا۔

    کراچی سے سکھر موٹروے کی تعمیر سے متعلق خوشخبری

    پلاننگ کمیشن کے مطابق مرمتی کام میں ڈی سلٹنگ، تباہ شدہ اسٹرکچر کی بحالی، شگاف بند کرنا شامل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال ابھی تک کچھی کینال کی مرمت کے لیے ٹینڈر نہیں ہوا ہے۔

    کچھی کینال کا اسٹرکچر 2022 کی مون سون بارشوں کے باعث تباہ ہو گیا تھا۔ یہ نہر صوبہ پنجاب کے ضلع مظفر گڑھ میں واقع تونسہ بیراج سے نکلتی اور صوبہ بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی میں ختم ہوتی ہے، یہ 363 کلومیٹر طویل ہے۔

  • نظام شمسی کا کون سا سیارہ پانی پر تیر سکتا ہے؟ زمین یا؟

    نظام شمسی کا کون سا سیارہ پانی پر تیر سکتا ہے؟ زمین یا؟

    ہمارے نظام شمسی میں 8 سیارے ہیں۔ سورج کی طرف سے شروع کے پہلے 4 یعنی عطارد، زہرہ، زمین اور مریخ وہ سیارے ہیں جو چٹانوں، دھات یا سلیکیٹ سے بنے زمینی سیارے ہیں۔ اس کے بعد اگلے چار یعنی مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون وہ سیارے ہیں جو اندرونی نظام شمسی کی تشکیل کرتے ہیں، اور یہ بنیادی طور پر گیسی مرکب کے حامل ہیں۔

    چوں کہ گیس کی کثافت پانی سے کم ہوتی ہے، یعنی ہلکی ہوتی ہے، اس لیے اصولی طور پر تو نظام شمسی کے اندر ہمارے یہ چار بڑے گیسی پڑوسی پانی پر تیرنے کے قابل ہونے چاہیئں، لیکن ایسا نہیں ہے، اور صرف ایک ہی سیارہ اس قابل ہے۔

    تو اگر آپ نے گوگل کیا ہے تو یقیناً آپ جان گئے ہوں گے کہ کس سیارے کی باڈی کو یہ خاص امتیاز حاصل ہے؟ لیکن جو لوگ نہیں جانتے ان کے لیے اس کا جواب ہے: زحل (Saturn)۔

    اس کے گرد خوب صورت حلقے بنے ہوئے ہیں، اس لیے یہ چھلّوں والی دنیا کہلائی جاتی ہے، اور یہ سورج سے چھٹا، اور نظام شمسی کا دوسرا سب سے بڑا سیارہ ہے، یہی وہ واحد سیارہ ہے جو پانی پر تیر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زحل کی کثافت پانی سے کم ہے۔

    زحل کی اوسط کثافت 0.7 گرام فی مکعب سینٹی میٹر ہے، جب کہ پانی کی کثافت اسی حجم کے لیے 1 گرام ہے۔ سیارہ زحل تقریباً مکمل طور پر گیس سے بنا ہے، خاص طور پر ہائیڈروجن اور ہیلیم، یہ دونوں ہوا سے ہلکے ہیں۔

    اگر ایسا کرنا ممکن ہو، کہ نظام شمسی کے تمام ارکان کو ایک کائناتی باتھ ٹب میں ڈالا جائے، تو ان میں سے 7 تو پانی میں ڈوب جائیں گے، جب کہ زحل تیرتا ہوا دکھائی دے گا۔

    جہاں تک زحل کے گرد موجود حلقوں کی بات ہے تو یہ ملبے سے بنے ہیں، جس میں چٹانیں اور برفیلے ذرات شامل ہیں۔

  • کے فور منصوبہ 2023 میں مکمل ہونا تھا، فنڈز تاحال جاری نہیں کیے گئے

    کے فور منصوبہ 2023 میں مکمل ہونا تھا، فنڈز تاحال جاری نہیں کیے گئے

    کراچی: سندھ ہائی کورٹ میں کے فور منصوبے کے لیے وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز جاری نہ کیے جانے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، شہری واقف شاہ کی درخواست پر عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کر دیے۔

    عدالت نے درخواست پر سنوائی کے بعد فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر ان سے جواب طلب کر لیا، درخواست گزار کا کہنا تھا کہ 2023 میں کے فور منصوبہ مکمل ہونا تھا لیکن فنڈز جاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ مکمل نہیں ہو سکا ہے۔

    درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کیا کہ کے فور منصوبے کے لیے وفاقی حکومت نے 16 بلین فنڈز دینا تھا، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے فنڈز میں تاخیر کے سبب کے فور منصوبہ تاخیر کا شکار ہے۔

    درخواست گزار نے کہا کے فور منصوبے سے کراچی کو 250 ملین گیلن پانی ملنا ہے، جب کہ کراچی میں پانی کی قلت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، فنڈز جاری کر کے کے فور منصوبے کو فوری مکمل کیا جائے۔

    درخواست گزار نے یہ بھی بتایا کہ یہ منصوبہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے اشتراک سے شروع ہوا تھا، اور 2020 میں کے فور منصوبہ واپڈا کے سپرد کیا گیا تھا۔

  • غزہ : انجینئر نے شمسی توانائی کے ذریعے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    غزہ : انجینئر نے شمسی توانائی کے ذریعے سمندری پانی کو پینے کے قابل بنا دیا

    اسرائیلی بمباری سے تباہ حال غزہ میں لوگ بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں جہاں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، ایسے میں ایک انجینئر نے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کا طریقہ تلاش کرلیا۔

    غزہ میں پینے کے صاف پانی کی شدید قلت کے باعث بیماریاں پھیلنے سے بڑی تعداد میں اموات کا خدشہ ہے، یہاں کے مکینوں کو صاف پانی تک رسائی زندگی و موت کا مسئلہ ہے لوگ غیر محفوظ ذرائع سے پانی لینے پر مجبور ہیں جو انتہائی حد تک نمکین یا آلودہ ہے۔

    اس مسئلے کے حل کیلئے مقامی انجینئر ایناس الغول نے شمسی توانائی کی مدد سے سمندری پانی کو میٹھا کرکے پینے کے قابل بنا دیا جس سے جنگ سے تباہ حال مکینوں کو پینے کا پانی میسر ہو سکے گا۔

    غزہ کے 50 سالہ زرعی انجینئر ایناس الغول نے امدادی سامان کی لکڑیوں اور جنگ سے تباہ ہونے والی عمارتوں کی کھڑکیوں کے شیشے استعمال کرتے ہوئے شیشے سے ڈھکی ہوئی ایک نالی بنائی۔

    یہ مخصوص نالی نمکین پانی کو بخارات میں تبدیل کردیتی ہے جسے شیشے کے پینلوں سے پیدا ہونے والے اثرات سے گرم کیا جاتا ہے، جس سے پانی فلٹر ہو جاتا ہے اور نمک پیچھے رہ جاتا ہے۔

    اس کے بعد بخارات بننے والا پانی ایک طویل نالی کے ذریعے دوسرے کنٹینر میں منتقل کیا جاتا ہے تاکہ پانی میں موجود مزید آلودگیوں کو فلٹر کیا جا سکے۔

    اس حوالے سے خان یونس کے رہائشی انجینئر ایناس الغول نے اے ایف پی کو بتایا کہ یہ ایک بہت ہی سادہ سا آلہ ہے، اس موقع پر انہوں نے اپنا تیار کردہ فلٹر شدہ پانی پی کر بھی دکھایا۔

    مرکزی غزہ کی پٹی کے علاقے دیر البلح میں بے گھر فلسطینیوں کے لیے بنائے گئے عارضی کیمپ میں لوگ قطار میں لگ کر کنٹینرز سے باری باری پانی بھرتے ہیں۔

    ایناس الغول کے اس آلے کو بجلی یا سولر پینلز کی ضرورت نہیں ہوتی، یہ صرف سورج کی روشنی سے چلتا ہے جس کی غزہ میں کوئی کمی نہیں۔

    واضح رہے کہ جنگ کے بعد سے غزہ کا واحد پاور پلانٹ بند ہو چکا ہے اور اسرائیل سے بجلی کی فراہمی بھی کئی ماہ قبل منقطع کی جاچکی ہے ایسے میں پینے کے پانی کی یہ سہولت غزہ کے لوگوں کیلیے نعمت سے کم نہیں۔