Tag: پانی

  • پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں انکشاف

    پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، رپورٹ میں انکشاف

    لاہور: پنجاب کی تین رکنی ماہر ٹیم کی جانب سے ارسا کو بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا، اس سلسلے میں پنجاب نے ارسا کو ساری تفصیلات مفصل رپورٹ کی صورت میں دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق صوبوں میں پانی کی تقسیم کے معاملے پر ان دنوں پھر تنازع سر اٹھا چکا ہے اور سیاسی رہنماؤں کی جانب سے اس پر تلخ بیانات سامنے آ رہے ہیں، اس سلسلے میں پنجاب کی ارسا کو بھجوائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ گدو کے بعد سکھر بیراج پر بھی پانی کی آمد ہوئی ہے لیکن اس کے اخراج کا ڈسچارج ٹیبل ہی نہیں فراہم کیا گیا۔

    رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 3 رکنی ٹیم نے صوبہ سندھ میں کشمور کے قریب دریائے سندھ پر واقع گدو بیراج کے بعد سکھر بیراج کا بھی معائنہ کیا تھا، لیکن سکھر بیراج پر عملہ پانی کا ڈسچارج ٹیبل ہی فراہم نہ کر سکا۔

    ارسا کو دی گئی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سکھر بیراج کی پانی ناپنے والی گیج خراب پائی گئی اور وہ مٹی میں دبی ہوئی تھی، بیراج سے نکلنے والی دادو کینال کے ہیڈ کاگیج ویل بھی مٹی سے بھرا پایا گیا۔

    ارسا نے واٹر اکاؤنٹ تیار کر لیا، پنجاب اور سندھ کے حصے میں 6 ہزار کیوسک کا اضافہ

    واضح رہے کہ ارسا نے نیسپاک کو کنسلٹنٹ مقرر کر کے پانی ناپنے کے فارمولے طے کیے تھے، پنجاب کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ اس فارمولے پر عمل درآمد نہیں کر رہا۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پانی کی تقسیم کے سلسلے میں پنجاب کا مؤقف ٹھیک نکلا ہے، پنجاب کا مؤقف تھا کہ سندھ مس رپورٹنگ کر رہا ہے، پنجاب نے سندھ کا ایک کیوسک پانی بھی چوری نہیں کیا۔

  • ارسا نے واٹر اکاؤنٹ تیار کر لیا، پنجاب اور سندھ کے حصے میں 6 ہزار کیوسک کا اضافہ

    ارسا نے واٹر اکاؤنٹ تیار کر لیا، پنجاب اور سندھ کے حصے میں 6 ہزار کیوسک کا اضافہ

    اسلام آباد: دریاؤں میں پانی کی آمد میں اضافے کے بعد ارسا نے پنجاب اور سندھ کے حصے میں 6 ہزار کیوسک کا اضافہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق آج پانی کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ارسا کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں بتایا گیا کہ دریاؤں میں پانی کی آمد 229100 کیوسک سے بڑھ کر 252600 کیوسک ہوگئی ہے، اور کمی 18 فی صد سے 13 فی صد رہ گئی۔

    ترجمان ارسا کا کہنا ہے کہ پنجاب کا حصہ ایک لاکھ ایک ہزار کیوسک سے بڑھا کر ایک لاکھ 7 ہزار کیوسک کر دیا گیا ہے، جب کہ سندھ کا حصہ ایک لاکھ 9 ہزار کیوسک سے بڑھا کر ایک لاکھ 15 ہزار کیوسک کر دیاگیا ہے۔

    ارسا کا یہ بھی کہنا ہے کہ محکمہ موسمیات کے مطابق 7،10 دنوں تک بالائی علاقوں کا درجہ حرارت مستحکم رہےگا اور کچھ دن پانی کے بہاؤ میں اضافہ جاری رہنے کا امکان ہے۔

    دوسری طرف صوبوں کو فراہم پانی کے اعداد و شمار کے مطابق ارسا نے واٹر اکاؤنٹ تیار کر لیا ہے، ترجمان کا کہنا ہے کہ واٹر اکاؤنٹ یکم اپریل سے لے کر 31 مئی 2021 تک تیار کیا گیا ہے، یہ ہر 10 دن بعد صوبوں کے پانی کے استعمال کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔

    واٹر اکاؤنٹ کے مطابق پنجاب نے 7.76 ایم اے ایف پانی نہروں میں استعمال کیا، اس دورانیے میں پنجاب کا پانی کا حصہ 9.74 ایم اے ایف بنتا ہے، پنجاب کے دورانیے کی کمی20 فی صد رہی۔

    واٹر اکاؤنٹ کے مطابق سندھ نے 4.31 ایم اے ایف پانی نہروں میں استعمال کیا، اس دورانیے میں سندھ کا پانی کا حصہ 5.40 ایم اے ایف بنتا ہے، سندھ کے دورانیے میں بھی کمی 20 فی صد رہی۔

    واٹر اکاؤنٹ کے مطابق بلوچستان نے 0.14 ایم اے ایف پانی استعمال کیا، بلوچستان کا پانی کاحصہ 0.32 ایم اے ایف بنتا ہے، بلوچستان کے دورانیے کی کمی 55 فی صد رہی۔ خیبر پختون خوا نے 0.32 ایم اے ایف پانی استعمال کیا، جب کہ اس دورانیے میں کے پی کا پانی کا حصہ 0.32 ایم ایف بنتا ہے۔

    واضح رہے کہ آج شہباز شریف نے پانی کی تقسیم پر اختلافات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، انھوں نے کہا پانی کے مسئلے پر سندھ، پنجاب میں محاذ آرائی افسوس ناک ہے، پانی کی تقسیم حساس معاملہ ہے، غیر ذمہ داری خطرناک ہو سکتی ہے، وفاقی حکومت اور ارسا اس سلسلے میں فرائض ادا کرنے میں ناکام نظر آ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سندھ کے شہروں میں پانی کی کمی پر مظاہرے نیک فال نہیں۔

  • دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں 1 ارب سے زائد افراد پینے کے صاف پانی سے محروم

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے لیے صاف پانی سے محروم ہیں۔

    اس دن کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقد کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو پانی کا عالمی منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ویلیونگ واٹر کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں اس وقت 7 ارب افراد کو روزانہ پانی اور خوراک کی ضرورت ہوتی ہے جن کی تعداد سنہ 2050 تک بڑھ کر 9 ارب ہونے کی توقع ہے۔

    اس وقت دنیا بھر میں 1 ارب 10 کروڑ افراد پینے کے صاف پانی سے محروم اور 2 ارب 70 کروڑ افراد پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    پاکستان بھی دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔

    سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں پانی کی مقدار میں کمی کے علاوہ اس کا معیار بھی انتہائی پست ہے۔ ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی بنانے، زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔

  • نلکوں سے آتے گلابی پانی نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    نلکوں سے آتے گلابی پانی نے شہریوں کو خوفزدہ کردیا

    چین کے کچھ علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں نلکوں سے رنگین پانی آنے لگا جس نے مقامی افراد کو خوفزدہ کردیا۔

    شمالی چین کے علاقوں میں نلکوں سے گلابی رنگ کا پانی آنے لگا جس نے مقامی افراد کو پریشان کردیا، متعدد افراد نے اس پانی کی تصاویر و ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔

    مقامی افراد کا کہنا ہے کہ یہ رنگین پانی دو دن تک ان کے گھر میں آتا رہا اور اس کے بعد خود ہی معمول پر آگیا۔

    اس دوران حکام تفتیش کرتے رہے کہ پانی کا رنگ کیوں بدل گیا لیکن تاحال وہ اس کی وجہ تلاش نہیں کرسکے۔

    پانی کی رنگت میں ایسی تبدیلی اس سے قبل سنہ 2017 میں بھی دیکھی گئی تھی، حکام کا کہنا ہے کہ پانی کا رنگ گلابی ہوجانے کی وجہ وہ کیمیکل ہے جو پانی کو ٹریٹ (صاف) کرنے کے لیے اس میں شامل کیا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کیمیکل بے ضرر ہے اور پینے کے لیے بالکل محفوظ ہے۔

  • کرونا وائرس: اسپین میں نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا

    کرونا وائرس: اسپین میں نئی تحقیق نے ماہرین کو تشویش میں مبتلا کردیا

    میڈرڈ: ہسپانوی ماہرین نے اسپین کے شہر بارسلونا کے سیوریج کے، مارچ 2019 میں لیے گئے نمونوں میں کرونا وائرس کی موجودگی دریافت کرلی، یہ نمونے چین میں کرونا وائرس کے آغاز اور پھیلاؤ سے 9 ماہ قبل لیے گئے تھے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق یونیورسٹی آف بارسلونا کے ماہرین کی ٹیم رواں برس اپریل سے سیوریج کے پانی کے نمونوں کی جانچ کر رہی ہے تاکہ اس کے ذریعے متوقع پھیلنے والی بیماریوں کے بارے میں جانا جاسکے۔

    اس تحقیق کے دوران انہیں 15 جنوری 2020 کو لیے گئے نمونوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کے آثار ملے، یعنی ملک میں کرونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق سے 41 دن قبل۔

    اس کے بعد ماہرین نے فیصلہ کیا کہ اس وقت سے پہلے لیے گئے نمونوں کی بھی دوبارہ جانچ کی جائے۔ ماہرین نے جنوری 2018 سے دسمبر 2019 کے درمیان لیے گئے سیوریج نمونوں کی دوبارہ جانچ کی تو انہیں 12 مارچ 2019 کو لیے گئے نمونوں میں اس وائرس کا جینوم (یا ڈی این اے) مل گیا۔

    ماہرین کی ٹیم کے سربراہ البرٹ بوش کا کہنا ہے کہ اس وقت دریافت ہونے والا کرونا وائرس اتنا زیادہ طاقتور نہیں تھا تاہم وہ موجود تھا۔

    ہسپانوی ماہرین کی اس تحقیق پر مزید جانچ کی جارہی ہے، اگر اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ بارسلونا کے سیوریج میں دریافت شدہ وائرس کرونا ہی ہے تو اس کی موجودگی ماہرین کے عام اندازوں سے بھی پہلے کی ثابت ہوجائے گی۔

    اسپینش سوسائٹی فار پبلک ہیلتھ اینڈ سیفٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر جان رومن کا کہنا ہے کہ فی الحال اس بارے میں حتمی نتائج اخذ کرنا صحیح نہیں ہوگا۔

    انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی نتیجہ سامنے آتا ہے تو اس کی تصدیق کے لیے مزید ڈیٹا، مزید مطالعے اور مزید نمونوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس بات کا امکان رد کیا جاسکے کہ یہ تحقیق کے دوران ہونے والی کسی غلطی کا نتیجہ نہیں۔

    ڈاکٹر جان کا مزید کہنا تھا کہ اس وائرس کو فلو سمجھ کر جلد حفاظتی اقدامات نہیں اٹھائے گئے جس سے یہ بری طرح دنیا بھر میں پھیل گیا۔

    خیال رہے کہ کرونا وائس کے پھیلاؤ کے حوالے سے اسپین دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے، اسپین میں کرونا وائرس کے 2 لاکھ 94 ہزار سے زائد مریضوں کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ اب تک 28 ہزار 338 افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں۔

  • رمضان المبارک: جسم کو پانی کی کمی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    رمضان المبارک: جسم کو پانی کی کمی سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے اور اس بار کرونا وائرس کی وجہ سے وہ گہما گہمی نہیں ہے جو ہر سال دیکھنے میں آتی ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے نیا بھر میں زیادہ تر افراد گھروں پر اپنا وقت گزار رہے ہیں۔

    اس مبارک ماہ کے ساتھ ہی گرمی کا آغاز بھی ہوچکا ہے لہٰذا اس وقت سب سے بڑا چیلنج جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا ہے تاکہ پورے ماہ خشوع وخضوع سے عبادت کی جاسکے۔

    پانی کی کمی کا سامنا زیادہ تر خواتین کو ہوسکتا ہے کیونکہ رمضان میں ان کی مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اور یوں روزے کے ساتھ گھریلو امور نمٹانا اور عبادات کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔

    ماہرین طب کا کہنا ہے کہ گرمی میں روزہ رکھنے کے باعث جسم میں پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے جس کے لیے سحر و افطار میں پانی کا استعمال بڑھا دینا چاہیئے۔

    سحر و افطار میں پانی یا پھلوں کے رس زیادہ سے زیادہ پیئیں، اپنی غذا میں دودھ اور دہی کا استعمال بھی ضرور کریں۔

    رمضان المبارک میں سخت گرمی کے باعث جسم میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ماہرین طب کے تجویز کردہ سات آسان طریقے مندرجہ ذیل ہیں۔

    سحری میں کم از کم 2 گلاس پانی لازمی پیئیں جبکہ جوس اور کولڈ ڈرنک سے دور رہیں۔ یہ آپ کے وزن میں اضافہ کریں گی۔

    ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جیسے تربوز، کھیرا، سلاد وغیرہ۔ یہ آپ کے جسم کی پانی کی ضرورت کو پورا کریں گے۔

    افطار کے اوقات میں ایک ساتھ 7 یا 8 گلاس پانی پینا نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔

    روزہ کے بعد کھجور اور 2 گلاس پانی کے ساتھ افطار کریں۔

    رات میں نماز تراویح اور دوسری عبادات کے وقت پانی کی بوتل ساتھ رکھیں۔

    رات کو سوتے ہوئے بھی پانی کی بوتل اپنے قریب رکھیں۔

    کوشش کریں کہ گرم اور دھوپ والی جگہوں پر کم سے کم جائیں۔

    ان تدابیر کو اپنا کر آپ اپنے جسم کو پانی کی کمی سے بچا کر ایک پرلطف ماہ رمضان گزار سکتے ہیں۔

  • لاک ڈاؤن کے باعث کراچی میں پانی کی قلت کی حقیقت سے پردہ ہٹ گیا

    لاک ڈاؤن کے باعث کراچی میں پانی کی قلت کی حقیقت سے پردہ ہٹ گیا

    کراچی: کرونا وائرس کی وبا کے باعث نافذ کیے گئے لاک ڈاؤن کے دوران شہر میں پانی کی قلت کی حقیقت سے بھی پردہ ہٹ گیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کراچی میں لاک ڈاؤن نے شہریوں کو درپیش ایک اہم ترین مسئلے کی حقیقت سے پردہ ہٹا دیا ہے، شہر کے ایسے متعدد علاقے ہیں جو پینے کے پانی سے محروم ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ یہ اس لیے ہے کیوں کہ پانی کی قلت ہے۔

    تاہم، وبا کے باعث جب شہر میں لاک ڈاؤن لگ گیا تو صنعتی ایریا بھی بند ہو گئے، یہ ایریا بند ہونے سے برسوں سے محروم علاقوں میں پانی کی فراہمی اچانک شروع ہو گئی، جس سے یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ کراچی کے شہریوں کا پانی کہاں جا رہا تھا۔

    پانی کی غیر قانونی فروخت کے خلاف کراچی واٹربورڈ کا آپریشن

    ذرایع کا کہنا ہے کہ سائٹ کے صنتعی ایریا کو منظم مافیا مختلف علاقوں سے واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کر کے فراہم کرتا ہے، صنعتوں کو پانی کی فراہمی بند ہو گئی تو پانی سے محروم علاقوں پاک کالونی، ریکسر، پرانا گولیمار، بلدیہ اور لیاری میں پانی آنا شروع ہو گیا ہے۔

    ذرایع کے مطابق پانی چور مافیا تین ہٹی، لسبیلہ، لیاقت آباد، پاک کالونی اور ناظم آباد کے علاقوں میں واٹر بورڈ کی لائنوں سے پانی چوری کرتے ہیں اور صنعتی یونٹس کو فراہم کرتے ہیں، معلوم ہوا ہے کہ پانی چور مافیا ماہانہ 30 کروڑ سے زائد کا پانی چوری کرتا ہے، اور اس مافیا نے مذکورہ علاقوں میں واٹر بورڈ کے متوازی اپنا نیٹ ورک بنایا ہوا ہے، ان علاقوں میں مافیا کے من پسند افسران کو تعینات کیا جاتا ہے۔

  • پانی کی فراہمی کے حوالے سے سعودی حکومت کی عوام کو سہولت

    پانی کی فراہمی کے حوالے سے سعودی حکومت کی عوام کو سہولت

    ریاض: سعودی عرب کی نیشنل واٹر کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ پانی کا بل جمع نہ کرنے والے صارفین کے میٹر بند نہیں کیے جائیں گے، علاوہ ازیں صارفین کے کسی وجہ سے بند میٹر بھی کھول دیے جائیں گے۔

    سعودی ویب سائٹ کے مطابق سعودی عرب میں نیشنل واٹر کمپنی نے اعلان کیا ہے کہ پانی کا بل جمع نہ کرنے والے صارفین کے میٹر بند نہیں کیے جائیں گے، اگر کسی وجہ سے کسی کا میٹر بند کر دیا گیا ہوگا تو اسے کھول دیا جائے گا۔

    واٹر کمپنی نے یہ سہولت کرونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران کو مدنظر رکھ کر دی ہے۔ نیشنل واٹر کمپنی کے ڈپٹی چیئرمین نے مزید کہا ہے کہ صارفین کی سہولت کے لیے طے کیا گیا ہے کہ واٹر کمپنی بل ادا نہ کرنے یا کسی بھی وجہ سے کسی کا بھی واٹر میٹر بند نہیں کرے گی۔

    کمپنی نے اپنے طور پر ان تمام علاقوں میں بھی بند واٹر میٹر کھول دیے ہیں جہاں 24 گھنٹے کا کرفیو ہے، یہ سہولت ان علاقوں کے صارفین کے لیے بھی ہے جہاں جزوی کرفیو نافذ ہے۔

    ڈپٹی چیئرمین کا کہنا تھا کہ اگر کسی کا واٹر میٹر ابھی تک بند ہو تو وہ پہلی فرصت میں اسے کھلوانے کی آن لائن درخواست دے، درخواست کے بعد 24 گھنٹے کے اندر میٹر کھول دیا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ اس وقت پورا معاشرہ کرونا وائرس کے بحران میں مبتلا ہے، ہر ایک کسی نہ کسی مشکل میں ہے اور سب لوگ زیادہ وقت گھروں میں گزار رہے ہیں۔ ایسے میں پانی کی ضرورت عام دنوں کے مقابلے میں زیادہ ہے لہٰذا کمپنی نے درپیش صورتحال کے مدنظر پانی کی سپلائی بھی بڑھا دی ہے۔

  • ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    ٹوائلٹ پیپر کے لیے لڑتے جھگڑتے امریکی باتھ روم میں پانی استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد دنیا بھر میں اس وقت ہینڈ سینی ٹائزر، ماسک، ٹوائلٹ پیپر اور دیگر صفائی کی اشیا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے اور لوگ دیوانہ وار ان اشیا کی خریداری کر رہے ہیںِ۔

    لوگ نہ صرف خریداری کر رہے ہیں بلکہ ان اشیا کو زیادہ سے زیادہ خریدنے کے چکر میں ان کے درمیان ہاتھا پائی کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں، ایسے ہی کچھ واقعات امریکا اور برطانیہ کی سپر مارکیٹس میں بھی پیش آرہے ہیں جہاں لوگ ٹوائلٹ رول کے لیے آپس میں لڑ رہے ہیں۔

    امریکی بیت الخلاؤں میں ٹوائلٹ رول کے استعمال کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہے۔

    آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

    اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟

    بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔

    اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔

    یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔

    سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔

    اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔

    اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟

    اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔

    اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔

    امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔

    اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔

    اب اس وقت کرونا وائرس کے بعد ٹوائلٹ پیپر کی قلت کے پیش نظر دنیا امریکیوں کو ویسے بھی لوٹوں کے استعمال کا مشورہ دے رہی ہے، تو دوسری جانب ماہرین نے بھی کہا ہے ٹوائلٹ پیپر کی نسبت پانی کا استعمال اس وائرس سے بچنے میں زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔

  • عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    عالمی یوم آب: پانی کا عقلمندانہ استعمال ضروری ہے

    دنیا بھر میں آج عالمی یوم آب منایا جارہا ہے، ماہرین کے مطابق موسموں میں تیزی سے رونما ہوتا تغیر یعنی کلائمٹ چینج پانی کی قلت کی وجہ بنے گا۔

    پانی کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں اقوام متحدہ کی ماحول اور ترقی کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد سنہ 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو یہ دن منایا جاتا ہے۔

    رواں برس یہ دن ’پانی اور کلائمٹ چینج‘ کے مرکزی خیال کے تحت منایا جارہا ہے۔

    پاکستان دنیا کے ان 17 ممالک میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جب پاکستان وجود میں آیا تو اس وقت ہر شہری کے لیے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1 ہزار کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور سنہ 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔

    پاکستان میں زراعت اور پینے کے لیے زیر زمین پانی (گراؤنڈ واٹر) استعمال کیا جاتا ہے جس کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔

    ملک میں استعمال ہونے والا 80 فیصد پینے کا پانی یہی زیر زمین پانی ہے جو زمین سے پمپ کیا جاتا ہے، اسی طرح زراعت کے لیے بھی ملک بھر میں 12 لاکھ ٹیوب ویل زمین سے پانی نکال رہے ہیں۔ اس بے تحاشہ استعمال کی وجہ سے ہر سال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر نیچے چلی جاتی ہے۔

    دوسری جانب ملک کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے بھی محروم ہے، ملک کا 92 فیصد سیوریج کا پانی براہ راست دریاؤں اور نہروں میں شامل ہوجاتا ہے۔ اس آمیزش کی وجہ سے 5 کروڑ افراد سنکھیا کے زہریلے اثرات کی زد میں ہیں۔

    اس گندے پانی کی وجہ سے ہر سال 52 ہزار بچے ہیضہ، اسہال اور دیگر بیماریوں سے جاں بحق ہوتے ہیں۔ اس وقت معیشت کا ڈیڑھ فیصد حصہ اسپتالوں میں پانی سے متعلقہ بیماریوں کے علاج پر خرچ ہو رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج کے باعث پاکستان میں قلت آب کا مسئلہ شدید تر ہو رہا ہے اور سنہ 2025 تک ملک خشک سالی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق زیر زمین پانی کے استعمال کی پالیسی شروع کی جانی چاہیئے۔

    ماہرین کے مطابق میدانی اور صحرائی علاقوں میں زیر زمین پانی کے ذخائر محفوظ بنانے، ڈیموں کی تعمیر اور پانی کے ضیاع کو روکے جانے کی سخت ضرورت ہے۔