اسلام آباد: اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا ہے کہ ریکوڈک کیس پر ہم نظرثانی اپیل دائر کریں گے۔
تفصیلات کے مطابق اٹارنی جنرل انور منصور نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’پاور پلے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ریکوڈک کیس میں ہمارے خلاف فیصلہ آیا ہے، اس معاملے پر ہم اگلے فورم پر جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ریکوڈک کا فیصلہ بغیر سوچے سمجھے دیا گیا ہے، ہم نظرثانی اپیل دائر کریں گے، نظرثانی اپیل نئے بینچ کے سامنے پیش کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل انور منصور نے کہا کہ ریکوڈک کیس میں جو شواہد لے کر گئے وہ ہمارے خلاف ہی استعمال ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جنوری میں کارکے کیس کی سماعت ہوگی، کارکے کا معاملہ بھی بہت اہم ہے جبکہ پاکستان میں ایک نے تو پل بارگین بھی کیا ہے۔
انور منصور کے مطابق کسی بھی آئی پی پیز کو ادائیگی نہیں کی گئی، آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ہوسکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹس سے متعلق فائنل فیصلہ ہونا باقی ہے، ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی سیٹلمنٹ میں ابھی وقت لگے گا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیرملکی کمپنیوں سے معاہدے سے متعلق ایک سیل بنا ہے، کابینہ نے بھی واضح کیا ہے ایسے معاہدوں کی جانچ ہوگی۔
واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں انٹرنیشنل کورٹ آف سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹ نے ریکوڈک کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے پاکستان کو 5.8 ارب ڈالر جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان پر ہرجانہ ریکوڈک کا معاہدہ منسوخ کرنے کے باعث عاید کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: خالصتان موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے کہا ہے کہ ہم بھارت میں قید ضرور ہیں مگر اس کا حصہ نہیں ہیں۔
تفصیلات کے مطابق خالصتان موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر امرجیت سنگھ نے پروگرام ’پاور پلے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں سکھوں کے ساتھ برا سلوک روا رکھا گیا ہے، ہم زبردستی بھارت کا حصہ ہیں، مرضی سے کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہے ہیں۔
امرجیت سنگھ نے کہا کہ بھارت نے پارلیمنٹ میں آئینی غنڈا گردی کی، ہماری مقدس جگہ دربار صاحب میں ہزاروں سکھوں کو مارا گیا تھا، دریائے جمنا سے واہگہ تک خالصتان ڈکلیئر کرائیں گے۔
رہنما خالصتان موومنٹ نے کہا کہ امریکا میں احتجاج کے دوران خالصتان کا جھنڈا لہرائیں گے، بھارت میں کشمیری طلباء ڈرے ہوئے ہیں، برصغیر میں بہت تیزی سے حالات بدل رہے ہیں۔
امرجیت سنگھ نے کہا کہ سکھ قوم نے بھارتی آئین کو کبھی نہیں مانا، ڈیڑھ لاکھ سکھ نوجوانوں کو پنجاب میں جھوٹے مقابلوں میں مارا گیا، ہم مقبوضہ پنجاب کو خالصتان ڈکلیئر کرانا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ سال ہم نے نیویارک میں ورلڈ سکھ پارلیمنٹ لانچ کی، ورلڈ سکھ پارلیمنٹ 30 ملین سکھوں کی آواز بنے گی، ہم اسے سیاسی بیان بازی تک محدود نہیں کرنا چاہتے ہیں۔
رہنما خالصتان موومنٹ نے کہا کہ 1984 میں اندرا گاندھی سرکار نے سکھوں پر ظلم کیے، ایسوسی ایٹ پریس کے صحافی نے سکھوں پر مظالم رپورٹ کیے تھے۔
امرجیت سنگھ نے کہا کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے ڈاکیومنٹری میں ہزاروں کشمیریوں کے نکلنے کو رپورٹ کیا، آج 7 لاکھ فوج پہلے ہی کشمیر کی وادی میں موجود ہے، اب آر ایس ایس کے غنڈے بھرتی کرکے وادی میں بھیجے گئے ہیں۔
لاہور: پاکستان کی تاریخ میں منی لانڈرنگ کے بڑے اسکینڈل سے متعلق تہلکہ خیز انکشافات سامنے آ گئے ہیں، شہباز شریف خاندان ٹی ٹی کیسے کرتا تھا، گواہوں نے سلیمان شہباز اور قاسم قیوم کا ٹی ٹی مافیا بے نقاب کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں منی لانڈرنگ کا بڑا اسکینڈل بے نقاب ہو گیا ہے، گواہان میاں شہباز شریف خاندان کے ٹی ٹی مافیا نیٹ ورک کو سامنے لے کر آ گئے۔
اے آر وائی نیوز کے خصوصی پروگرام پاور پلے میں دو اہم گواہوں منظور احمد اور ممتاز احمد نے تہلکہ خیز انکشافات کر دیے۔
گواہوں نے ارشد شریف کے پروگرام میں بتایا کہ قاسم قیوم آٹے اور چوکر کی ادائیگی کی آڑ میں لاکھوں روپے کے چیکس سلمان شہباز کو بھجواتا تھا۔
دونوں گواہ سلیمان شہباز کے دفتر جا کر لاکھوں روپوں کی گنتی کرتے تھے، غریب مزدوروں کے شناختی کارڈ استعمال کرتے ہوئے لاکھوں کی ٹی ٹیز لگوائی گئیں۔
سلمان شہباز اور حمزہ شہباز کی ٹی ٹی کے لیے خاص کارندوں کے نام بھی سامنے آ گئے، ٹی ٹی مافیا آپریشن میں قاسم قیوم اور شہباز شریف خاندان کا پرانا ملازم فضل داد عباسی اہم کردار تھا۔
فضل داد عباسی سلیمان شہباز کا فرنٹ مین جب کہ قاسم قیوم شہباز شریف کے داماد علی عمران کا دوست ہے۔
منظور احمد نے بتایا کہ قاسم قیوم پس پردہ کیا کام کرتا تھا ہمیں نہیں معلوم تھا، خرابی طبیعت پر قاسم صاحب کے ساتھ کام 2014 میں چھوڑا تھا، کام چھوڑنے کے بعد بچوں کی ٹافیوں کی دکان کھولی، قاسم صاحب کی ٹینشن کی وجہ سے میری بیوی فوت ہو گئی، ان سے نیب کے دفتر میں ملاقات کرائی گئی تھی، ان سے کہا مجھ سے غیر قانونی کام کیوں کراتے رہے، قاسم صاحب نے کہا مجھ سے غلطی ہوئی۔
منظور احمد نے مزید بتایا کہ قاسم صاحب کے حمزہ اور سلمان شہباز کے ساتھ رابطے ہوں گے، حمزہ شہباز کی شکل صرف ٹی وی پر دیکھی ہے، کبھی ملاقات نہیں ہوئی، 5 سال سے فضل داد سے ڈیل کرتا تھا، اس سے ماڈل ٹاؤن کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی، ماڈل ٹاؤن کے دفتر میں آج تک سلمان شہباز کو نہیں دیکھا۔
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس مجبوری میں گئی، دعا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ یہ آخری پروگرام ہو۔
تفصیلات کے مطابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ‘پاور پلے‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے پر کوئی بھی خوش نہیں ہوگا، ماضی کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے آئی ایم ایف جانا پڑا۔
انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد معیشت کو کیوں بہتر نہ کرسکے، آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانا پڑا تو میں سمجھتا ہوں ہم ناکام ہوگئے۔
علی محمد خان نے کہا کہ آئی ایم ایف جانے سے مہنگائی ختم نہیں ہوگی، ملک سے مہنگائی اچانک ختم نہیں ہوسکتی، معیشت کو استحکام ملے گا، مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے کہا کہ قرض لینا اچھا عمل نہیں مگر معیشت کو بہتر کرنے کے لیے برا بھی نہیں ہے، اپوزیشن کی باتیں سن کر ایسا لگ رہا ہے کسی اور پلینٹ کی گفتگو ہورہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسٹیل مل خسارے میں ہے، پی آئی اے، ریلوے، پاکستان پوسٹ تباہ ہوگئے، معیشت کی تباہی کی داستان 1985 سے شروع ہوئی۔
علی محمد خان نے کہا کہ ن لیگ حکومت بتائے 14 سے 15 ہزار ارب کا قرضہ کہاں لگایا، پی ٹی آئی حکومت پہلی ہوگی جو قرض کو صحیح جگہ استعمال کرے گی۔
کراچی : وفاقی وزیر بحری امور علی حیدر زیدی نے پی ٹی آئی کے بدلنے کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نہیں بدلے، دیگر پارٹیوں سے لوگ بدل کر پی ٹی آئی میں آئے۔
تفصیلات کے مطابق علی زیدی نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے 2000 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی، جب کہ پارٹی میں شمولیت سے پہلے ہی عمران خان کو اسٹیٹس کو کے خلاف بات کرتے دیکھا۔
علی زیدی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی نظام تبدیلی کی باتیں سن کر ایسا لگتا تھا کہ یہ بس خواب ہے، آج وہ اسی کی کوشش کر ر ہے ہیں، ہم 4 سال نہیں مزید 9 سال تک کہیں نہیں جا رہے۔
مختلف ارکان کی پارٹی چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ نواز شریف خود تحریک استقلال سے مسلم لیگ میں آئے، جب کہ حاکم زرداری بھٹو کو گالیاں نکالتے تھے، نثار کھوڑو نے بھٹو کی پھانسی پر لاڑکانہ میں مٹھائیاں بانٹی تھیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ پارٹی میں کوئی اگر ہمارے منشور میں آتا ہے تو کوئی پابندی نہیں، ہم نہیں بدلے، دیگر پارٹیوں سے لوگ بدل کر پی ٹی آئی میں آئے، بہتر ہے پی پی نظریات کی بات ہی نہ کرے۔
کراچی: مشیر اطلاعات سندھ مرتضیٰ وہاب نے ننھی بچی نشوا کے معاملے پر کارروائی کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر آج ایکشن نہیں لیا تو کل سب کو بھگتنا پڑے گا۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ نشوا معاملے پر کارروائی اس لیے ضروری ہے کہ آئندہ کسی اور کے ساتھ ایسا نہ ہو۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ تفتیش اور ہیلتھ کیئر کمیشن رپورٹ کے بعد اسپتال کے خلاف کارروائی کی جائے گی، نشوا کے معاملے پر ایکشن نہ لیا تو کل ہم سب کو بھی بھگتنا پڑے گا۔
مشیر اطلاعات سندھ کا کہنا تھا کہ نشوا کیس کی مکمل انکوائری کے بعد کارروائی بہت ضروری ہے، 7 سال پہلے میری والدہ کے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ان کی والدہ کے کیس میں بھی ڈاکٹروں اور اسپتال انتظامیہ نے ان کے ساتھ تعاون نہیں کیا تھا، آج موقع ملا ہے ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے، تاکہ اقدامات کیے جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم ایسے واقعات رونما ہونے پر مذمت کرتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں کرنے لگ جاتے ہیں، لیکن ان کے روک تھام کے لیے اقدامات نہیں کرتے۔
مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ وہ نشوا کے والد سے ملے، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ بھی خود جا کر ملے تھے، والدین کے مطالبے پر نشوا کو انصاف دلانا چاہتے ہیں، ایک ٹیم وزیر اعلیٰ سندھ نے ہیلتھ کیئر کمیشن کی بنائی تھی، دوسری ٹیم کی یقین دہانی میں کراتا ہوں جو کرمنل تفتیش میں ایف آئی آر کاٹے گی۔
دریں اثنا، پروگرام بیرسٹر احمد پنسوٹا نے بھی تکنیکی پہلو پر بات کی، انھوں نے کہا کہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کو قوانین کا پتا ہی نہیں، غفلت کے مرتکب اسپتالوں کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، قتل بلا سبب کی بہ جائے قتل عمد کی شق عائد ہونی چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں ڈاکٹرز پر عملی چیک کا فقدان ہے، یہاں پریکٹشنرز کے خلاف ایکشن کی روایت نہیں، میرے ایک کیس میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا، ہیلتھ کیئر کمیشن رپورٹ پر جج نے کیس پولیس کو بھجوایا تھا۔
بیرسٹر نے کہا کہ ڈاکٹر جو قدم اٹھاتا ہے اسے معلوم ہوتا ہے کہ کیا رد عمل آئے گا، ڈاکٹرز کی غفلت پر سزا تجویز کی جانی چاہیے۔
لاہور: وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی ندیم افضل چن نے کہا ہے کہ کابینہ میں اکثر لوگ معیشت پر بات کرتے تھے، بحث ہوتی تھی کہ لوگ خوش نہیں، ٹیم اور وزرا کی کارکردگی پر سوال اٹھتے ہیں۔
اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے افضل چن کا کہنا تھا کہ 8 ماہ بعد پہلا اسپیل مکمل ہو گیا، کابینہ میں تبدیلی وزیر اعظم کا اختیار ہے، پولیٹیکل تبدیلی سے کام نہیں چلتا، مشینری تو بیورو کریسی ہوتی ہے، بیورو کریسی میں بھی تبدیلیاں لانا پڑیں گی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی کرپشن کے معاملے پر زیرو ٹالرنس پالیسی ہے، کرپشن میں ملوث عمران خان کا قریبی شخص بھی کابینہ میں نہیں رہے گا، جن پر کرپشن کا الزام ہوگا ان کا دفاع بالکل نہیں کروں گا۔
افضل چن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے صدارتی نظام کی بات کبھی نہیں کی، انھوں نے 18 ویں ترمیم پر صوبوں کے زیادہ اختیارات کی بات کی تھی، وزیر اعظم نے کہا تھا 18 ویں ترمیم کے بعد زیادہ ذمہ داری صوبوں کی ہے۔
انھوں نے کہا ’ہماری دعا ہے نئی آنے والی ٹیم کامیاب ہو جائے، دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ اور پارٹی کا ماحول بہتر ہوتا ہے یا نہیں، معیشت اہم مسئلہ ہے پچھلی حکومتوں کا بگاڑ سب کے سامنے ہے۔‘
لاہور: سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے صاحب زادے سلمان شہباز ملک سے کیوں فرار ہوئے؟ اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں دستاویز پیش کر دی گئی۔
تفصیلات کے مطابق نیب نے 25 اکتوبر 2018 کو سلمان شہباز کو طلبی کا نوٹس بھیجا تھا، جس میں انھیں 30 اکتوبر کو طلب کیا گیا، لیکن سلمان شہباز نیب پیشی سے 3 دن پہلے ملک چھوڑ کر 27 اکتوبر کو لندن فرار ہو گئے۔
نیب کی جانب سے سلمان شہباز کو 25 اکتوبر کو بھیجے گئے نوٹس میں نیب نے چند سوالات پوچھے گئے تھے، نوٹس میں 2000 سے اب تک غیر ملکی ترسیلات اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل مانگی گئی تھی۔
نیب نے نوٹس میں ترسیلات بھیجنے والے کا نام، ملک اور رقوم بھیجنے کا مقصد کیا تھا، دریافت کیا تھا، کہا گیا تھا کہ اگر کوئی آف شور کمپنی یا کاروبار ہے تو اس کی تفصیل بھی دیں، 2000 سے اب تک بنائی گئی کمپنیوں اور ڈائریکٹر شپ کی تفصیل بھی مانگی گئی۔
نیب نے نوٹس میں 2000 سے اب تک ڈائریکٹر کی حیثیت سے جس جس کمپنی کو قرضہ دیا اس کی تفصیل، غیر ملکی کمپنیوں سے 2000 سے آنے والی سرمایہ کاری کی سالانہ تفصیل، رقم ٹرانسفر کا طریقہ، کمپنیوں کی تفصیل، منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی قیمت خرید کی تفصیل مانگی گئی تھی۔
اس کے بعد نیب نے سلمان شہباز کو 19 دسمبر 2018 کو دوسرا نوٹس بھیجا، اس بار نیب نے 12 سوال سلمان شہباز کو بھیجے، جن میں سے 5 نئے سوالات تھے، نوٹس میں ذاتی اکاؤنٹ، رمضان شوگر ملز کے اکاؤنٹ، ٹرانزکشن کی تفصیلات مانگی گئیں، اور 2004 سے 2008 تک ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ مانگی گئی۔
نوٹس میں کہا گیا کہ 2005 سے اب تک وصول کی جانے والی تنخواہ اور تحائف کی تفصیل، سلمان شہباز کی جانب سے دیے جانے والے تحائف کی تفصیل، 2005 سے 2008 تک اثاثہ جات میں اضافے کے ذرائع کی تفصیل فراہم کریں۔
ارے آر وائی نیوز کے پروگرام میں شہباز شریف خاندان کو موصول ٹی ٹیوں کے حوالے سے بھی چند دل چسپ حقائق پیش کی گئیں۔ بتایا گیا کہ شہباز شریف خاندان کو بہت سی ٹی ٹیوں کے ذریعے لاکھوں ڈالرز موصول ہوئے، 21 اپریل 2010 کو شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کو 20 ہزار ڈالر بھیجے گئے۔
ذرائع کے مطابق نصر ت شہباز کو رقم محمد انجم نامی شخص نے الزرونی منی ایکسچینج سے بھیجی، الزرونی منی ایکسچینج کا ذکر جعلی اکاؤنٹس کی جے آئی ٹی میں بھی آ چکا ہے، برلاس کے بعد الزرونی بھی زرداری اور شریف فیملی کی آلہ کار نکلی، 29 جولائی 2008 کو سلمان شہباز کو 1 لاکھ 86 ہزار ڈالر بھیجے گئے۔
رقم لاہور کے نجی بینک میں منظور احمد نے سرمایہ کاری کے لیے بھیجی، منظور احمد نے 2007 میں حمزہ شہباز کو 1 لاکھ 68 ہزار ڈالر بھیجے تھے، محبوب علی نے 25 جون 2007 کو 1 لاکھ 66 ہزار ڈالرحمزہ شہباز کو بھیجے، اس نےسرمایہ کاری کے لیے رقم کے ایس منی کے ذریعے بھیجی تھی، اس نے 14 دسمبر 2007 کو بھی 1 لاکھ 27 ہزار ڈالر نصرت شہباز کو بھیجے۔
اسلام آباد: وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ چوہدری نثار نے جس جعلی اکاؤنٹس کیس کی نشان دہی کی اس کے تانے بانے مل رہے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہا کہ منظور پاپڑ والا بیرون ملک سے حمزہ شہباز کو ڈیڑھ ملین ڈالر بھیجتا ہے، سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ تو کبھی بیرون ملک گیا ہی نہیں، تو پیسے کیسے بھیجے۔
بیرسٹر شہزاد کا کہنا تھا کہ کیس کھلے گا تو معلوم ہوگا کہ کتنی رقم ٹی ٹی کے ذریعے بھجوائی گئی، حمزہ شہباز سے پوچھنا چاہیے کہ رقم بھجوانے والا کون ہے اور کس مد میں پیسے بھیجے گئے۔
انھوں نے کہا کہ نیب کو حمزہ شہباز سے منی لانڈرنگ پر یہی سوال اٹھانے چاہئیں، حمزہ شہباز خود قبول کر چکے ہیں کہ ان کے اثاثوں میں17 کروڑ کا اضافہ ہوا، 2003 میں ڈکلیئرڈ رقم 20 ہزار روپے تھی جب کہ 2017 میں 3 ارب سے بھی زیادہ ہو گئی۔
معاون خصوصی برائے احتساب نے کہا کہ پیسا بھیجنے والوں کی جعلی شناخت استعمال کی گئی، بینکنگ کے ذریعے غیر قانونی رقم چھپانے کے لیے منی لانڈرنگ کی گئی۔
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ نیب یا سپریم کورٹ کے پاس کوئی بھی شخص کیس لے کر جا سکتا ہے، آپ سمجھتے ہیں کہ نیب سے انصاف نہیں مل رہا تو دوسری جگہ جا سکتے ہیں۔
اسلام آباد: مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ اور سلمان شہباز کی ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی داستان منظر عام پر آگئی، ذرائع کے مطابق ایم این اے بننے سے پہلے ٹی ٹی براہ راست حمزہ شہباز کے نام آتی رہی، 2008 میں ایم این اے بننے پر ٹی ٹی ان کے نام آنا بند ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق حمزہ شہباز کے بعد سلمان شہباز کے نام پر ٹی ٹی کا سلسلہ شروع ہوا، سلمان شہباز فرنٹ مینوں کے ذریعے بھاری رقم بیرون ملک سے منگواتے رہے، مشتاق چینی اور دیگر فرٹ مینوں نے رقم بیرون ملک سے وصول کیں۔
نیب ذرائع کے مطابق حمزہ شہباز نے 23 ٹی ٹی بیرون ملک سے وصول کیں، ان کو بھیجی گئی 18 ٹی ٹی کا سراغ مل گیا ہے، حمزہ شہباز کو ٹی ٹی بھیجنے والے سرمایہ کار نہیں ہیں، ان کو پانچ ٹی ٹی جعلی طور پر بھی بھیجی گئیں۔
حمزہ شہباز کو پہلی ٹی ٹی 26 جون 2001 کو لاہور کے نجی بینک میں بھیجی گئی، پہلی ٹی ٹی 1 لاکھ 65 ہزار 780 ڈالر کی بھیجی گئی، رقم محبوب علی نامی شخص نے کے ایس منی ٹرانسفر سے بھجوائی، محبوب علی لاہور میں نئے اور پرانے نوٹ، پرائز بانڈز کا کاروبار کرتا ہے، محبوب علی کے پاس پاسپورٹ ہے اور نہ برطانیہ، پاکستان میں سرمایہ کاری کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ 2 جولائی 2007 کو حمزہ شہباز کو لاہور میں ہی دوسری ٹی ٹی بھیجی گئی، یو اے ای سے بھیجی گئی ٹی ٹی کی مالیت دو لاکھ ڈالر تھی، دوسری ٹی ٹی عزیز ہارون یوسف نامی شخص نے بھیجی۔
اسی طرح 6 جولائی 2007 کو حمزہ شہباز کو تیسری ٹی ٹی بھیجی گئی، ان کو برطانیہ سے بھیجی گئی ٹی ٹی ایک لاکھ 66 ہزار ڈالر تھی، یہ رقم ایف ایکس کرنسی سروسز کی جانب سے بھیجی گئی، ان کو تیسری ٹی ٹی بھیجنے والے کا نام محمد رفیق ہے۔
نیب ذرائع کے مطابق 11 جولائی 2007 کو چوتھی ٹی ٹی بھیجی گئی، حمزہ شہباز کو دبئی سے بھیجی گئی ٹی ٹی ایک لاکھ 28 ہزار ڈالر تھی، چوتھی ٹی ٹی پر بھیجنے والے کا نام عزیز ہارون یوسف درج تھا، حمزہ شہباز کو چوتھی ٹی ٹی بھی نجی بینک سرکلر روڈ برانچ میں بھیجی گئی۔
اٹھارہ جولائی 2007 کو پانچویں ٹی ٹی 1 لاکھ 66 ہزار ڈالر کی بھیجی گئی، حمزہ شہباز کو پانچویں ٹی ٹی بھیجنے والا شخص محبوب علی تھا، رقم لندن سے لاہور کے بینک میں بھیجی گئی۔
انیس جولائی 2007 کو محبوب علی نے 2 لاکھ ڈالر کی چھٹی ٹی ٹی بھیجی، حمزہ شہباز کو چھٹی ٹی ٹی بھی محبوب علی نے نجی بینک میں بھیجی۔
نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ 23 جولائی 2007 کو حمزہ شہباز کو ساتویں ٹی ٹی بھیجی گئی، ایک لاکھ 68 ہزار ڈالر کی ساتویں ٹی ٹی بھی لاہور کے بینک میں بھیجی گئی، دستاویز کے مطابق ساتویں ٹی ٹی بھیجنے والے کا نام منظور احمد ہے۔
سلمان شہباز شریف کی ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی داستان
ذرائع کے مطابق 2008 میں ٹی ٹی کا سلسلہ حمزہ شہباز کے فرنٹ مین کو منتقل ہوا، ٹی ٹی کا سلسلہ حمزہ شہباز کے ایم این اے بننے کے بعد منتقل ہوا، سلمان شہباز کے نام پر رقوم ٹی ٹی کی صورت میں 2017 تک آتی رہی، سلمان شہباز نے 99 فیصد اثاثے ٹی ٹی سے آنے والی رقوم سے بنائے، سلمان شہباز کو 200 کے قریب ٹی ٹی موصول ہوئیں۔
چار اپریل 2008 کو سلمان شہباز کو منظور احمد نے ٹی ٹی بھجوائی، کریم منی ایکسچینج کے نام سے ایک لاکھ 60 ہزار ڈالر بھجوائے گئے، منظور احمد ملزم قاسم قیوم کی منی ایکسچینج میں کیش بوائے تھا، منظور احمد حمزہ شہباز کو بڑی رقوم سرمایہ کاری کی غرض سے بھیجتا تھا۔
شہباز شریف کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی ٹی ٹی کا سلسلہ تھما نہیں تھا، 29 جولائی 2008 کو منظور احمد نے 1 لاکھ 85 ہزار ڈالر سلمان شہباز کو بھیجے، انہیں رقم بھیجنے کے لیے پھر کریم منی ایکسچینج کا استعمال ہوا، حمزہ شہباز کے بعد سلمان شہباز کو بھی ٹی ٹی اسی بینک میں آتی رہی، مبینہ فرنٹ مین مشتاق چینی کی ٹی ٹی بھی اسی بینک میں آتی تھی۔
نیب ذرائع کا کہنا ہے کہ 10 فروری 2014 کو سلمان شہباز کو 89 لاکھ 63 ہزار 585 روپے ملے۔