Tag: پاکستانی ادب

  • تخلیقِ پاکستان اور ادبی سطح پر قومیت کو ابھارنے والی اہم تحریک

    تخلیقِ پاکستان اور ادبی سطح پر قومیت کو ابھارنے والی اہم تحریک

    تخلیقِ پاکستان کے بعد ادب میں جو تحریکیں رونما ہوئیں، ان میں پاکستانی ادب کی تحریک اور ارضی ثقافتی تحریک کو فنی اور فکری لحاظ سے اہمیت حاصل ہے۔ یہ دونوں تحریکیں بظاہر حلقہ اربابِ ذوق کے مثبت زاویوں کی توسیع نظر آتی ہیں اور ان کی فنی جہت میرا جی کے شعورِ ماضی سے پھوٹتی ہے۔

    تاہم ان دونوں تحریکوں میں ترقی پسند تحریک کے خلاف ردعمل کا شدید جذبہ اور ارض وطن سے گہری وابستگی کا تصور بھی کارفرما تھا۔ ان عوامل کا اثر بھی ہے جو 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد پیدا ہوئے اور جن سے برصغیر کی بیشتر تحریکوں نے جنم لیا۔ علامہ اقبال کی انفرادیت یہ ہے کہ انہوں نے امتِ مرحوم کا مرثیہ لکھنے اور مریضانہ ماضی پرستی میں مبتلا ہونے کے بجائے قوم میں خود اعتمادی پیدا کی، اسے فعال لہجہ عطا کیا اور زمانۂ حال میں ماضی کی عظیم روایت کی تجدید کرنے کے لیے اسے صحت مند ارتقا کی علامت بنا دیا۔ علامہ اقبال کی تحریک ان معانی میں ارضی ثقافتی تحریک بھی شمار کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے فرد کو عروجِ سماوی حاصل کرنے کے باوجود پا بہ گل ہونے کا احساس دلایا۔

    اقبال کی اس تحریک کا ہی نتیجہ تھا کہ ملک میں قومی شاعری کی ترویج ہوئی، غزل کی عجمی لے اور عشقیہ انداز میں تبدیلی واقع ہوئی اور علائم رموز اور موضوعات میں برصغیر کے مظاہر و مناظر کا استعمال ہونے لگا۔ اس تحریک کو ایک اور کروٹ میرا جی اور حلقۂ اربابِ ذوق کے ادبا نے دی۔

    پاکستانی ادب کی تحریک
    آزادی کے فوراً بعد ادب میں جو اوّلین تحریک رونما ہوئی اس نے ارض پاکستان کی نسبت سے زمین کے اور اسلامی نظریات کے حوالے سے، آسمان کے عناصر کی اہمیت کو تسلیم کیا اور نئے ادب کی تخلیق کے لیے اب دونوں کا امتزاج ضروری قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ریاست سے وفاداری اور پاکستانی ادب کا سوال پیدا کیا۔ اس تحریک کے علمبردار حلقۂ اربابِ ذوق کے ایک رکن محمد حسن عسکری تھے اور اس کی نظریاتی اساس کو ڈاکٹر صمد شاہین، ڈاکٹر جمیل جالبی، ممتاز شیریں، سجاد باقررضوی اور سلیم احمد نے اپنے مضامین سے تقویت پہنچائی۔

    پاکستان ادب کی تحریک ادبی سطح پر قومیت کو ابھارنے والی ایک اہم تحریک تھی، اس تحریک نے زمین کو آسمان کے تابع قرار دے کر قومی سطح پر ادب پیدا کرنے کی طرح ڈالی۔ چنانچہ اس پر سب سے پہلے مخالفانہ حملہ ترقی پسند تحریک نے کیا اور اس کی نظریاتی اساس کو دلیل سے رد کرنے کے بجائے اس تحریک کے ادبا سے عدم تعاون کا منصوبہ بنا لیا۔ ہر چند اس قسم کا سیاسی عمل ادب کے ارتقا میں رکاوٹ نہیں بنتا۔ تاہم المیہ یہ ہوا کہ اس تحریک نے اپنی نظریاتی بنیاد تو استوار کر لی، لیکن اس کی صداقت کو تخلیقی سطح پر ثابت کرنے کے لئے اچھے شاعروں اور افسانہ نگاروں کا تعاون حاصل نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تحریک معنوی اور تخلیقی طور پر زیادہ عرصے تک زندہ نہ رہ سکی اور ترقی پسند تحریک پر پابندی لگ جانے کے بعد جب اس کا ادبی حریف میدان سے ہٹ گیا تو تحریک دوبارہ حلقۂ اربابِ ذوق میں فطری طور پر ضم ہو گئی۔ چنانچہ حلقے کی تحریک میں انتظار حسین، احمد مشتاق، سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی اور مظفر علی سید جیسے ادبا نے تہذیبی شعور کا جواز پیدا کیا، معنوی طور پر یہ متذکرہ تحریک کا ہی حصہ نظر آتا ہے۔

    ارضی ثقافتی تحریک
    پاکستانی ادب کی تحریک نے جن فکری مسائل کو ابھارا تھا، ان کی نسبتاً بدلی ہوئی صورت ارضی ثقافتی تحریک میں رونما ہوئی۔ اس تحریک نے اقبال سے یہ نظریۂ اکتساب کیا کہ ثقافت اور اس کا مظہر ادب، زمین اور آسمان کے رشتوں سے متشکل ہوتا ہے اور ترقی پسند تحریک سے اس حقیقت کو اخذ کیا کہ تخلیق میں زمین بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اس تحریک کا امتیازی نکتہ یہ ہے کہ اس نے مذہب کو زمینی رشتوں کی تہذیب کا ایک مقدس انعام اور انسانی شعور کو لاشعور میں پھوٹنے والا چشمہ قرار دیا۔ چنانچہ اس تحریک نے ’’سماجی ہمہ اوست‘‘ مرتب کرنے کے بجائے فرد کو اجتماع کا ضروری جزو قرار دیا اور اس کی انفرادیت کا اثبات بھی کیا۔ ترقی پسند تحریک نے زمین کو اہمیت عطا کی تو اس کا مقصد زمین کے واسطے سے ایک مادی نظام کی تشکیل اور ایک ایسے غیر طبقاتی معاشرے کا فروغ تھا جو زمین سے ایک دودھ پیتے بچے کی طرح چمٹا ہوا ہو۔ ترقی پسند تحریک کا یہ مسلک اپنی ممکنات کے لحاظ سے محدود اور مزاج کے اعتبار سے خالصتاً مادی تھا۔ ارضی ثقافتی تحریک نے زمین کے وسیلے سے نہ صرف ثقافتی عناصر کو قبول کیا بلکہ اجتماعی لاشعور کو ایک ارضی رشتہ قرار دے کر ادب اور فکری تشکیل میں نسلی اور روحانی سرمائے کو بھی ناگزیر قرار دیا۔ چنانچہ ارضی ثقافتی تحریک نے جسم کے مادی وجود کے بجائے جسم کے روحانی ارتقا کو اہمیت دی اور یوں آسمانی اور زمینی عناصر کے متوازن امتزاج سے اب اور فن کی نئی اور متنوع صورتیں پیدا کرنے کی سعی کی۔

    ارضی ثقافتی تحریک کی نظریاتی اساس ڈاکٹر وزیر آغا کے تفکر کا نتیجہ ہے۔ ان کا اساسی مؤقف یہ ہے کہ ثقافت زمین اور آسمان کے تصادم سے جنم لیتی ہے۔ تاہم اس تصاد م میں آسمان کا کردار ہنگامی اور اضطراری ہے…آسمانی عناصر کے بغیر زمین بالکل بانجھ ہو کر رہ جاتی ہے۔

    پاکستان کی ثقافت اور ادب کے بارے میں ڈاکٹر وزیر آغا کا مؤقف ہے کہ اس کی تشکیل میں مذہب کے گہرے اثرات کے علاوہ پاکستا ن کی مٹی، ہوا، موسم اور اس کی تاریخ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان کی مٹی کی کہانی ہند اسلامی ثقافت کے دور سے بہت پہلے ان ایام میں پھیلی ہوئی ہے ، جب اس خطۂ ارض پر وادیٔ سندھ کی تہذیب نے جنم لیا تھا۔ پاکستان کی مٹی کی اس کہانی کا دوسرا پہلو داخلی ہے۔ یعنی اس نے قوم کی سائیکی میں ان تمام نسلی اثرات کو محفوظ رکھا ہے جو ہزاروں برس کے نسلی تصادم سے پیدا ہوئے ہیں۔ چنانچہ ادب کی تنقید میں اساطیری عناصر اور Archetypal Images کی دریافت ناگزیر ہے۔ گویا ارضی ثقافتی تحریک نے انسانی کے پورے ماضی سے رشتہ استوار کیا اور اب ادب کی تخلیق کو انسانی سائیکی کا کرشمہ قرار دیا۔ ہند اسلامی ثقافت کی ابتدا اس سرزمین سے ہوئی اور باہر سے آنے والے اثرات نے اس سرزمین کے مزاج کا حصہ بنتے گئے توں توں ثقافت میں بھی نئی پرتیں پیدا ہوتی گئیں۔ اس لحاظ سے یہ تحریک پاکستانی ثقافت اور ادب کی گہرائی اور تنوع کی نشاندہی کرتی ہے۔

    پاکستان اور بھارت کی دو جنگوں نے اس تحریک کے ارضی اور روحانی تصور کو مزید تقویت دی۔ ان جنگوں کے بعد حب الوطنی اور ارض پاکستان سے روحانی وابستگی کا جذبہ شدت سے بیدار ہوا۔ اس کی صورت تو ’’سوہنی دھرتی‘‘ کے تصور میں ابھری اور دوسری صورت یہ ہوئی کہ شہروں اور قصبوں سے جذباتی وابستگی کا شدید ترین جذبہ پیدا ہو گیا۔ تیسرے شعرا نے نظریاتی تعصب سے بلند ہو کرارض وطن کی خوشبو کو جبلی سطح پر محسوس کیا اور اپنے گردوپیش کو شعری اظہار کے ساتھ منسلک کردیا۔ چنانچہ زمین کی خوشبو نہ صرف شاعری میں رچ بس گئی بلکہ یہ قاری کے مشامِ جان کو بھی معطر کرنے لگی۔

    ارضی ثقافتی تحریک نے صرف نظریاتی اساس ہی مرتب نہیں کی بلکہ اس کے نقوش کئی ادبا کی تخلیقات میں بھی جلوہ گر نظر آتے ہیں، تنقید میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ اس تحریک کی نظریاتی بوطیقا ہے۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے اردو زبان کے فطری ارتقا میں زبانوں کی آمیزش کو ناگزیر قرار دے کر اس تحریک کے ثقافتی مزاج کو ہی ابھارا ہے۔ مشتاق قمر، جمیل آذر، ڈاکٹر غلام حسین اطہر اور سجاد نقوی کی تنقید میں آسمانی اور زمین عناصر کا امتزاج موجود ہے۔ شاعری میں وزیر آغا کی بیش تر علامتیں ارضی ثقافتی پس منظر کی حامل ہیں۔ اعجاز فاروقی کی شاعری کی جڑیں پاکستان کے گہرے ماضی میں اتری ہیں۔ فسانے میں اس تحریک کو غلام ثقلین نقوی، صادق حسین، رشید امجد اور مشتاق قمر نے تقویت دی۔ غلام ثقلین نقوی کے افسانوں میں وطن محض ایک خطہ زمین نہیں بلکہ سانس لیتا ہوا ایک زندہ کردارہے جو اپنے تاثر کا اظہار بھی کرتا ہے۔ صادق حسین کے افسانے پاکستانی آرزوؤں، ولولوں اور تمناؤں کے جگمگاتے ہوئے مرقعے ہیں۔ مشتاق قمر نے ان کرداروں کو موضوع بنایا ہے جو ارض وطن کے لیے نقد جان پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ رشید امجد کے افسانوں میں شعور ماضی انسان کے مشترکہ نسلی سرمائے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے اور وہ انسانی سائیکی کی ان لکیروں کو تلاش کرتا ہے جن کے اوّلین نقوش ٹیکسلا میں متحجر ہیں لیکن جن کی زندہ صورت پاکستان کے گلی کوچوں میں رواں دواں ہے۔

    (ممتاز پاکستانی نقّاد، محقق اور شاعر ڈاکٹر انور سدید کے مضمون سے اقتباسات)

  • پھول والے دادا جی…

    پھول والے دادا جی…

    کسی گاؤں میں ایک بوڑھا اور بڑھیا رہا کرتے تھے۔ ان کے پاس پوچی نام کا ایک کتّا تھا۔ اس کو دونوں بہت پیار کرتے تھے۔

    ایک دن جب بوڑھا اپنے کھیت میں کام کر رہا تھا، پوچی اسے کھینچ کر ایک طرف لے گیا اور بھونک بھونک کر پنجوں سے زمین کریدنے لگا۔ بوڑھا جتنا بھی اسے ہٹانے کی کوشش کرتا پوچی اتنے ہی زور سے بھوں بھوں کرتے ہوئے پھر زمین کریدنے لگتا۔ آخر بوڑھے نے پھاوڑا اٹھا کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ کھودنے پر وہاں سے ہیرے اور موتیوں سے بھرا ہوا گھڑا نکلا جسے پاکر بوڑھا بہت خوش ہوا اور سارا خزانہ لے کر اپنے گھر آگیا۔

    بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بے حد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادہ۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔

    اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لیے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتّے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچرا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔

    جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی۔ نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکّوں میں بدلنے لگا۔

    پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصّے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہوگئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔

    اسی وقت وہاں سے بادشاہ کی سواری نکل رہی تھی۔ بادشاہ نے پھولوں سے لدے پیڑوں کو دیکھا۔ اس کا دل خوش ہوگیا اور اس نے بوڑھے کو اشرفیوں کی تھیلی انعام میں دی۔

    حاسد پڑوسی نے یہ دیکھا تو بچی ہوئی راکھ اٹھالی اور بادشاہ کے راستے میں جاکر ایک سوکھے پیڑ پر راکھ ڈالی۔ پیڑ ویسا ہی ٹھنٹ بنا رہا پر راکھ اڑ کر بادشاہ کی آنکھوں میں جا پڑی۔ بادشاہ کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور اسے خوب پیٹا۔

    بوڑھا آس پڑوس میں پھول والے دادا جی کے نام سے مشہور ہوگیا۔

    (اس کہانی کے خالق اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور نقّاد افسر میرٹھی ہیں۔ وہ بامقصد اور تعمیری ادب کے قائل تھے اور اسی خیال کے تحت انھوں نے بچّوں کے لیے کئی نظمیں اور کہانیاں لکھیں)

  • ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    ممتاز نقّاد، افسانہ نگار، مترجم اور ماہرِ تعلیم مجنوں گورکھپوری کی برسی

    اردو کے ممتاز نقّاد، محقق، مترجم، ماہرِ تعلیم اور افسانہ نگار مجنوں گورکھ پوری 4 جون 1988ء کو اس جہانِ‌ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اردو زبان کی اس نام وَر شخصیت کی برسی ہے۔

    مجنوں گورکھپوری کا اصل نام احمد صدیق تھا۔ وہ 10 مئی 1904ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر گورکھ پور میں پیدا ہوئے تھے۔ علم و ادب کی دنیا میں مجنوں نے اپنی قابلیت اور فن کی بدولت بڑا نام پیدا کیا اور مقام بنایا۔

    ان کا شمار اردو کے چند بڑے نقّادوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نقوش و افکار، نکاتِ مجنوں، تنقیدی حاشیے، تاریخِ جمالیات، ادب اور زندگی، غالب شخص اور شاعر جیسا سرمایہ کتابی شکل میں چھوڑا ہے۔

    مجنوں گورکھ پوری ایک اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے خواب و خیال، مجنوں کے افسانے، سر نوشت، سوگوار شباب اور گردش کے نام سے اشاعت پذیر ہوئے۔ انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں بطور استاد خدمات انجام دیں۔

    انگریزی زبان و ادب پر بھی مجنوں گورکھ پوری کی گہری نظر تھی۔ انھوں نے شیکسپیئر، ٹالسٹائی، بائیرن، برنارڈ شا اور جان ملٹن کی تخلیقات کو بھی اردو کے قالب میں ڈھالا تھا۔

    مجنوں گورکھ پوری کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • ٹیگور اور لیموں کا پودا

    ٹیگور اور لیموں کا پودا

    آخری عمر میں ٹیگور طویل عرصہ عارضۂ قلب میں مبتلا رہے۔ علالت کے یہ دن اُن کی حسّاس ترین شاعری کا زمانہ ہے۔ 1926 میں علاج کے لیے ہنگری جانا ہوا، صحت بحال ہوئی تو ٹیگور نے یہاں پارک ہیلتھ پارک میں لیموں کا پودا لگایا۔

    بنگالی کہاوت ہے جب کسی کا لگایا ہوا پودا جڑ پکڑ لیتا ہے تو پودا لگانے والا اس درخت کی نئی پود نکلنے تک ضرور زندہ رہتا ہے، ٹیگور نے درخت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

    ” اے میرے ننھے پودے!
    جب میں اس دنیا میں نہیں ہوں گا
    تو فصلِ بہار میں جو لوگ یہاں گھومنے آئیں
    تُو اپنی کونپلیں لہرا کر انہیں خوش آمدید کہنا
    یاد رکھنا کہ شاعر مرتے دم تک تجھ سے پیار کرتا تھا!”

    ٹیگور یہ پودا لگانے کے بعد سترہ برس تک زندہ رہے، اور 7 اگست 1941 کو وفات پائی۔ ان کی وفات کے بعد یہاں پورا لگانا رسم بن گئی۔

    بالاٹون فورڈ کے اس ہیلتھ پارک میں، اندرا گاندھی سمیت بھارت سے ہنگری آنے والے صدر اور سربراہانِ حکومت سب نے ٹیگور کی یاد میں یہاں پودے لگائے ہیں۔ ٹیگور کے لگائے لیموں کے پودے کے اردگرد لگے دو رویہ درختوں کی وجہ سے یہ جگہ پُرسکون سڑک بن گئی ہے جو ٹیگور سیر گاہ کے نام سے معروف ہے۔

    ان درختوں کے پتّوں کی پُرجوش تالیاں آج بھی ٹیگور کی یاد میں آنے والوں کو خوش آمدید کہتی ہے۔

    (کتاب نقوشِ ٹیگور سے انتخاب)

  • جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    جہانِ سخن میں‌ ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات

    آج جہانِ سخن میں ممتاز صہبا اختر کا یومِ وفات ہے جو زود گو اور ہر صنفِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے والے ان شعرا میں‌ سے ہیں‌ جنھوں‌ نے غزل کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر نہایت خوب صورت نظمیں کہیں اور ادب میں بڑا نام پیدا کیا۔

    صہبا اختر کا اصل نام اختر علی رحمت تھا۔ وہ 30 ستمبر 1931ء کو جموں میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد منشی رحمت علی اپنے زمانے کے ممتاز ڈراما نگاروں میں شمار ہوتے تھے۔ یوں انھیں‌ شروع ہی سے علمی و ادبی ماحول ملا اور وہ شعروسخن کی طرف مائل ہوئے۔

    صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے۔ ہجرت کے بعد ان کے خاندان نے نامساعد حالات کا سامنا کیا، یہاں‌ صہبا اختر کو بالآخر محکمہ خوراک میں ملازمت مل گئی اور اسی محکمے سے ریٹائر ہوئے۔

    صہبا اختر نے حمد و نعت کے علاوہ غزل، نظم، قطعہ، گیت، ملی نغمے، دوہے، رباعی جیسی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ انھیں پاکستانی ادب کے معماروں‌ میں‌ شمار کیا جاتا ہے۔ صہبا اختر کے مجموعہ ہائے کلام میں اقرا، سرکشیدہ، سمندر اور مشعل شامل ہیں۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے ان کے لیے بعد از مرگ صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    صہبا اختر کی ایک غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے

    چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں
    کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں

    مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا
    میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں

    چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا
    کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں

    صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتّھر بن جاؤ
    دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں

    اس نام وَر شاعر کو کراچی میں گلشنِ اقبال کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • طوطا جس نے رومی خاں کا راز افشا کر دیا

    طوطا جس نے رومی خاں کا راز افشا کر دیا

    ہمایوں نے جب گجرات دکن پر فوج کشی کی تو سلطان بہادر وہاں کا بادشاہ تھا اور جاپانیر کا قلعہ بڑا مستحکم تھا کہ سلطان خود بھی وہاں رہتا تھا اور تمام خزائن و دفائن وہیں رکھتا تھا۔

    محاصرے کے وقت رومی خاں میر آتش (باوجودیکہ کمال معتبر اور مصاحبِ منظورِ نظر سلطان کا تھا) ہمایوں سے مل گیا، اور قلعہ (تمام نصائسِ اموال اور خزائن بے حساب سمیت) ہمایوں کے قبضہ میں آیا۔

    سلطان بہادر کے پاس ایک طوطا تھا کہ آدمی کی طرح باتیں کرتا تھا اور سمجھ کر بات کا جواب دیتا تھا، سلطان اُسے ایسا چاہتا تھا کہ سونے کے پنجرے میں رکھتا تھا اور ایک دَم جدا نہ کرتا تھا، وہ بھی لُوٹ میں آیا۔

    جب دربار میں لائے، رومی خان بھی موجود تھا۔ طوطے نے دیکھ کر پہچانا اور کہا۔ "پھٹ پاپی رومی خاں نمک حرام۔” سب کو تعجب ہوا اور ہمایوں نے کہا، رومی خاں چکنم کہ جانور است ورنہ زبانش می بریدم۔

    اُس نے شرما کر آنکھیں نیچی کر لیں۔ غرض اس نقل سے یہ ہے کہ اس وقت بھی لوگوں کی زبان پر عربی فارسی کے لفظ چڑھے ہوئے تھے، جب ہی طوطے کی زبان سے نمک حرام کا لفظ نکلا، جانور جو سُنتا ہو گا وہی بولتا ہو گا۔

    (آزاد نے اردو زبان کی تاریخ سے متعلق باب میں یہ سطور رقم کی تھیں)

  • حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    حاجی لق لق کی ‘آمدنی اور خرچ’ پڑھیے

    اصل نام تو ان کا عطا محمد تھا، لیکن دنیائے ادب میں حاجی لق لق کے نام سے مشہور ہیں۔ لق لق ان کا تخلّص ہے۔

    حاجی لق لق 1898 میں پیدا ہوئے اور 1961 میں لاہور میں وفات پائی۔ طنز و مزاح میں نام ور ہوئے۔ سماجی اور سیاسی موضوعات کو شاعری میں‌ سمویا اور مسائل و مشکلات کی نشان دہی کرتے ہوئے عوام کے جذبات کی ترجمانی کی۔

    حاجی لق لق نے اس نظم ‘آمدنی اور خرچ’ میں منہگائی اور حالات کے مارے عوام کی مالی مشکلات اور ضروریات کے بوجھ کا جو نقشہ کھینچا تھا، وہ آج بھی اسی شدّت سے بالخصوص غریب و متوسط طبقے کے مصائب و آلام اور ان کی ابتر حالت کا عکّاس ہے۔

    نظم ملاحظہ کیجیے۔

    ‘ آمدنی اور خرچ’
    کرایہ مکاں کا ادا کرنے جاؤں
    کہ بزاز و خیّاط کا بِل چکاؤں
    دوا لاؤں یا ڈاکٹر کو بلاؤں
    کہ میں ٹیکس والوں سے پیچھا چھڑاؤں
    خدارا بتاؤ کہاں بھاگ جاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    بہت بڑھ گیا ہے مکاں کا کرایہ
    ادھر نل کے آبِ رواں کا کرایہ
    بقایا ہے ‘برقِ تپاں’ کا کرایہ
    زمیں پر ہے اب آسماں کا کرایہ
    ہے بچوں کی فیس اور چندہ ضروری
    کتب کاپیوں کا پلندہ ضروری
    شکم پروری کا ہے دھندہ ضروری
    یہ آدم کی ایجادِ بندہ ضروری
    بلا کے مصارف ہیں کیا تاب لاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    عزیزوں کی امداد مہماں نوازی
    غریبوں کو خیرات احساں طرازی
    خوراک اور پوشاک میں دنیا سازی
    ادھر فلم کا شوق اور ادھر عشق بازی
    ضروری یہاں سگریٹ اور پان بھی ہے
    عدالت میں جانے کا امکان بھی ہے
    ہے بھنگی بھی دھوبی بھی دربان بھی ہے
    اور اک ساڑی والے کی دکان بھی ہے
    کہاں جاؤں کس کس سے پیچھا چھڑاؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

    ہیں میلے بھی اسلامی تہوار بھی ہیں
    ہم ایسے مواقع پہ خوددار بھی ہیں
    بہت خرچ کرنے کو تیار بھی ہیں
    بلا سے جو بے برگ و بے بار بھی ہیں
    کسے داستانِ مصارف سناؤں

    میں اس ڈیڑھ آنے میں کیا کیا بناؤں

  • 2020ء ادب کے لیے کیسا رہا؟

    2020ء ادب کے لیے کیسا رہا؟

    تحریر: عارف عزیز

    رواں صدی کی اس دہائی کا یہ آخری سال، اگلی کئی دہائیوں تک مختلف شکلوں میں ہمارے سامنے آتا رہے گا اور کرونا کی وبا فنونِ لطیفہ، بالخصوص اصنافِ ادب کا موضوع ہو گی۔

    قومی اور مقامی زبانوں کے تخلیق کار کووڈ 19 کے خوف میں‌ مبتلا انسان کے رویّوں میں‌ تبدیلی کو حزنیہ اور طربیہ داستانوں میں‌ پیش کریں‌ گے، حقیقی واقعات پر مبنی کہانیاں لکھی جائیں گی، شاعری تخلیق ہوگی اور قارئین وبا کے دنوں میں‌ انسان کے ہر روپ کو پڑھ سکیں‌ گے۔

    اس برس جہاں موضوعات کو تخیّل کی گرفت میں‌ لے کر تخلیق کے سانچے میں ڈھالنے تک ادبی سفر جاری رہا، وہیں یہ ہلاکت خیز سال سماجی حسیّت، تہذیبی شعور اور تمدّنی اسباب و عوامل پر تسلسل کے ساتھ آئندہ بھی لکھنے کا موقع دے کے رخصت ہورہا ہے۔

    اگر ہم 2020ء میں عالمی ادب اور پاکستان میں تخلیقی سفر پر نظر ڈالیں‌ تو کئی اہم اور قابلِ ذکر تقاریب کا انعقاد، میلے اور ادبی سرگرمیاں ہی نہیں طباعت و اشاعت کا سلسلہ بھی بندشِ عامّہ (لاک ڈاؤن) کے سبب متاثر رہا۔ اکثر تقریبات ملتوی کردی گئی تھیں اور بعد میں محدود پیمانے پر منعقد ہوئیں۔ متعدد ادبی میلوں اور تقاریب کی منسوخی کا اعلان کیا گیا اور بعض‌ آن لائن انجام پائیں۔

    آئیے، وبا کے دنوں‌ میں عالمی ادب پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

    دنیا کے معتبر انعام، نوبیل کی تقریب
    2020ء میں ادب کا نوبیل انعام لوئس گلک کے نام ہوا۔ سویڈش اکیڈمی آف نوبیل پرائز کا یہ اعزاز دنیا بھر میں مشہور اور نہایت معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ 8 اکتوبر 2020ء کو اکیڈمی نے امریکا کی خاتون شاعر لوئس گلک کو نوبیل انعام دینے کا اعلان کیا۔

    ان کا مکمل نام لوئس ایلزبتھ گلک ہے، اور عمر 77 برس۔ انھوں نے 1943ء میں نیویارک میں آنکھ کھولی تھی۔

    کووڈ 19 کی وجہ سے انعام یافتگان باقاعدہ اور رسمی تقریب میں اپنی پزیرائی سے محروم رہے اور انھیں‌ بھی ویڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے جڑنا پڑا۔ لوئس گلک نے اپنی نوبیل شیلڈ اور انعام امریکا میں وصول کیا۔

    لوئس گلک نے انگریزی کے علاوہ جرمن، سویڈش اور ہسپانوی زبانوں میں بھی کتابیں لکھیں۔ ان کا اصل میدان شاعری ہے، لیکن ادب کی دیگر اصناف میں بھی خوب طبع آزمائی کی۔ ان کی تصانیف کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے۔

    وہ اپنی شاعری اور ادبی مضامین سمیت مختلف تصانیف پر متعدد عالمی ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔ ان میں اعلیٰ امریکی ادبی ایوارڈ بھی شامل ہے۔

    بحیثیت شاعرہ ان کی وجہِ شہرت، اپنی تخلیقات میں بچپن اور خاندانی زندگی کو خوب صورتی سے موضوع بنانا ہے۔ نوبیل اکیڈمی نے ان کی اسی شعری انفرادیت کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ گلک انقلابی تبدیلی اور ازسرِنو جنم کی شاعرہ ہیں۔ ان کا شاعرانہ لہجہ واضح اور سادگیِ حُسن سے لبریز ہے، جو انفرادیت کو آفاقیت کی طرف لے جاتا ہے۔

    اب بُکر پرائز کی طرف بڑھتے ہیں
    بُکر پرائز، ڈگلس اسٹورٹ کو دیا گیا ہے اور یہ انعام ان کے ناول ‘شوگی بین’ کی وجہ سے انھیں ملا ہے۔ بُکر کی تقریب نومبر کے مہینے میں ہوئی۔

    کرونا کی وجہ سے بُکر پرائز کے فاتحین بھی دیگر شرکا کی طرح آن لائن ہی تقریب کا حصّہ بن سکے۔

    بُکر پرائز برطانیہ کا وہ اہم ادبی اعزاز ہے جس کی انعامی رقم انگریزی زبان کے ایسے مصنّفین کے لیے ہوتی ہے جن کی تحریر برطانیہ یا آئرلینڈ میں شایع ہوئی ہو۔

    ڈگلس اسٹورٹ اسکاٹش ہیں اور ان کا ناول ’شوگی بَین‘ انہی کے آبائی شہر گلاسگو کی ایک کہانی بيان کرتا ہے۔ جیوری کے مطابق ’شوگی بَین‘ ایک ایسا ناول ہے جو ’ہمّت دلاتا ہے اور زندگی بدل دینے کی طاقت رکھتا ہے۔

    اس ناول کا مرکزی کردار شوگی ہے۔ یہ کہانی 1980ء کی دہائی میں لے جاتی ہے جب ایک غریب گھرانے کے بچے کو اس کی شرابی ماں سے چھوٹی عمر میں محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہ ڈگلس کا پہلا ناول ہے۔

    بُکر پرائز کے لیے جو تحاریر شارٹ لسٹ ہوئی تھیں، ان کا بنیادی موضوع عصرِ حاضر کے چیلنجز تھے جن میں غربت اور طبقاتی نظام بھی شامل تھے۔

    انٹرنیشنل بُکر کا تذکرہ
    انٹرنیشنل بُکر پرائز کے فاتحین کا اعلان بھی وبا کے دنوں میں ہوا۔ یہ انعام کسی تخلیق کے انگریزی ترجمہ پر دیا جاتا ہے، نیدر لینڈز کی ماریکا لوکاس کے ناول کو ایک برطانوی لکھاری اور مترجم نے انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جسے انعام کے لیے منتخب کیا گیا۔

    پلٹزر پرائز کی تقریب اور اس کے فاتحین
    2020ء کے مئی میں یہ مشہور امریکی ایوارڈ فکشن نگار کولسن وائٹ ہیڈ کے نام ہوا۔ وہ اس سے پہلے بھی ایک ادبی تخلیق پر یہ انعام جیت چکے ہیں۔

    ‘دا نکل بوائز’، ان کا وہ ناول ہے جو امریکا میں پیش آنے والے ایک حقیقی واقعے پر مبنی ہے۔ یہ کہانی اصلاحی مقصد اور جذبہ خدمت کے ساتھ کھولے جانے والے ایک اسکول کی ہے۔ ریاست فلوریڈا کے ایک قصبے کے اس اسکول میں 111 برس سے تدریس کا سلسلہ جاری تھا اور پھر انکشاف ہوا کہ یہاں کئی طالبِ علم بدترین جسمانی تشدد اور جنسی درندگی کا نشانہ بنے جب کہ قتل کے چند واقعات کا تعلق بھی اسی اسکول سے ہے۔

    فکشن کے میدان میں وومنز پرائز
    ستمبر کی 9 تاریخ کو اس ایوارڈ کی فاتح کا اعلان کیا گیا اور جو نام سامنے آیا، وہ میگی اوفیریل تھا۔ ان کا تعلق شمالی آئرلینڈ سے ہے۔ انھیں یہ انعام ‘ہیمنٹ’ نامی ناول پر دیا گیا۔ اس ادبی انعام کا آغاز 1996ء میں ہوا تھا۔

    اب ادبی نشستوں اور کتب میلوں کی طرف چلتے ہیں
    مختلف ممالک میں لاک ڈاؤن ختم کیے جانے کے باوجود ادبی تقاریب اور کتب میلوں کا انعقاد آسان اور محفوظ نہیں سمجھا جارہا تھا، یہی وجہ ہے 2020ء میں‌ فرینکفرٹ کا کتب میلہ بھی نہیں سجایا جاسکا۔

    فرینکفرٹ، جرمنی کا مالیاتی مرکز، اور بڑا شہر ہے جو اپنے پانچ روزہ عالمی ادبی اجتماع اور کتب میلے کے لیے بھی پہچانا جاتا ہے۔ اس ادبی میلے کا آغاز 1949ء میں ہوا تھا اور یہ فرینکفرٹ بک فیئر کے نام سے مشہور ہے۔

    اس میلے میں دنیا بھر سے علم و ادب کے شیدا، نام وَر ادبی شخصیات، ناشر اور اشاعتی اداروں کے نمائندے شریک ہوتے ہیں اور اس موقع پر ادبی نشستوں کے ساتھ یہاں بک اسٹالوں پر کتابیں سجائی جاتی ہیں۔ اس سال یہ میلہ اکتوبر کے مہینے میں ڈیجیٹل میڈیا پر سجایا گیا جس میں خاص طور پر ناشر اور مشہور کتب فروش شریک ہوئے۔

    پاکستان کے شہر لاہور میں ادبی تقریب
    فروری کے مہینے میں جب پاکستان میں کرونا کی وبا نے زور نہ پکڑا تھا اور اس کی ہلاکت خیزی ہم پر عیاں نہیں ہوئی تھی، تب لاہور میں ادبی میلہ سجایا گیا تھا۔ اس موقع پر علم و ادب کے رسیا اور کتابوں‌ کے شائق اکٹھے ہوئے تھے۔ نام وَر قلم کاروں اور آرٹسٹوں نے میلے میں شرکت کی تھی۔

    اس میلے کا اہم اور خصوصی سیشن، "موجودہ دور میں نئی نسل کو کتب بینی کی طرف کیسے راغب کیا جائے” تھا جسے سویڈش ایمبیسی اور یونیسکو کا تعاون حاصل تھا۔

    ماہرینِ تعلیم، اساتذہ، معروف علمی اور ادبی شخصیات نے اس سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی کہ بچّوں کو کس طرح مطالعے کا عادی بنایا جاسکتا ہے۔

    ساحلی شہر کراچی کا ادبی میلہ
    کراچی کے ساحل سے قریب ایک سبزہ زار پر فروری کی 28 تاریخ سے یکم مارچ تک ادبی میلہ سجا رہا جس میں درجنوں کتابوں کی تقریبِ رونمائی اور اہم ادبی موضوعات پر مباحث ہوئے۔

    اس ادبی میلے کی افتتاحی تقریب کے مہمانِ خاص وفاقی وزیر شفقت محمود تھے۔ یہ اپنی نوعیت کا گیارہواں ادبی میلہ تھا جو اسکاٹ لینڈ کے مصنف اور تاریخ داں ولیم ڈلرمپل کی ایسٹ انڈیا کمپنی کےعروج و زوال پر لکھی گئی کتاب کے نام رہا۔

    اس میلے میں انفاق فاؤنڈیشن کی جانب سے "اردو ادبی ایوارڈ” بھی دیا گیا، جس کے لیے سید کاشف رضا کی چار درویش اور ایک کچھوا، حسن منظر کی اے فلکِ ناانصاف اور عطیہ داؤد کی سندھ ادب: ایک مختصر تاریخ نام زد ہوئیں۔ جیوری میں نام ور ادیب اصغر ندیم سید، ڈاکٹر ناصر عباس اور حمید شاہد شامل تھے۔ ان کا فیصلہ حسن منظر کے حق میں سامنے آیا اور ایوارڈ ان کے نام ہوا۔

    انگریزی کتب کے ‘کے ایل ایف گیٹز فارما فکشن‘ پرائز کے لیے شہریار شیخ کی ‘کال می ال‘، عظمٰی اسلم خان کی ‘دی مرکیولیس‘ اور محمد حنیف کی ‘ریڈ برڈ‘ میں سے جیوری میں شامل غازی صلاح الدّین، محترمہ حوری نورانی اور ڈاکٹر نادیہ چشتی مجاہد نے ریڈ برڈ کے حق میں فیصلہ دیا۔

    ادبی میلے کے دوسرے روز سیر حاصل مباحث کے علاوہ اہم تقریب ولیم ڈلرمپل کی کتاب ’فارگاٹن ماسٹرز، انڈین پینٹنگ فار دی ایسٹ انڈیا کمپنی‘ کی رونمائی تھی۔ یہ کتاب ایسٹ انڈیا کمپنی کی برصغیر آمد اور اس کے پس منظر کو بیان کرتی ہے جو اس میلے میں بیسٹ سیلر قرار پائی۔ تیسرے دن بھی ادبی نشستوں کے علاوہ کتابوں کا تعارفی سلسلہ جاری رہا۔

    وبا کے دنوں میں تیرھویں عالمی اردو کانفرنس
    آرٹس کونسل آف پاکستان، کراچی کے زیرِ اہتمام 3 دسمبر کو 13 ویں عالمی اردو کانفرنس کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ وبا کے دنوں میں عالمی اردو کانفرنس کے انعقاد میں کام یاب رہے اور کانفرنس میں‌ ایس او پیز کا خیال رکھتے ہوئے حسبِ پروگرام مختلف سیشن انجام پائے جنھیں ڈیجیٹل پروگرام کے تحت براہِ راست بھی نشر کیا گیا۔

    پاکستان کے نام ور قلم کاروں اور آرٹسٹوں نے کانفرنس میں شرکت کی جب کہ ملک اور بیرونِ ملک مقیم لکھاری اور فن کار آن لائن بھی اس عالمی اردو کانفرنس کا حصّہ بنے۔

    مختلف موضوعات پر منعقدہ سیشن کے دوران زاہدہ حنا، پیرزادہ قاسم، سحر انصاری، شاہ محمد مری، افتخار عارف، زہرہ نگاہ، اسد محمد خان، انور مقصود، نور الہدیٰ شاہ، حسینہ معین اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ ہندوستان سے نام ور محقّق و ادیب شمیم حنفی، گوپی چند نارنگ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنی شرکت یقینی بنائی۔

    اس سال بھی علاقائی زبانوں کا ادب زیرِ بحث آیا۔ اس حوالے سے سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو اور پنجابی ادب پر مختلف سیشن منعقد ہوئے۔

    چار روزہ عالمی اردو کانفرنس کے دوران حسبِ پروگرام کتابوں کا تعارف اور ان کی رونمائی ہوئی اور مضامین پڑھے گئے۔ یہ کانفرنس 6 دسمبر تک جاری رہی۔

    پاکستانی ادب کی چند جھلکیاں
    پاکستان میں رواں سال مختلف ادبی تخلیقات طباعت و اشاعت کے بعد قارئین تک پہنچیں، جو نقد و نظر کی محتاج ہیں۔ مختلف اصنافِ ادب میں نوجوان اور غیر معروف لکھاریوں کی کتابوں کی اشاعت کے علاوہ چند اہم اور نام وَر تخلیق کاروں کی کتب بھی منظرِ عام پر آئیں۔ مذکورہ ادبی میلوں میں ان تخلیقات پر مباحث اور تنقیدی مضامین اس حوالے سے اہمیت رکھتے ہیں۔

    مشہور ناولوں اور مقبول سفر ناموں کے خالق مستنصر حسین تارڑ کی رواں برس دو کتابیں شایع ہوئیں۔ ایک ‘روپ بہروپ’ ہے جس میں انھوں نے اپنے دو ناولٹ قارئین تک پہنچائے ہیں، جب کہ وبا کے دنوں میں ان کی جو دوسری کتاب شایع ہوئی، وہ ایک ناول ہے جو وبا میں گزرے شب و روز پر لکھا گیا ہے۔ مصنّف نے اسے ‘ شہر خالی، کوچہ خالی’ کا نام دیا ہے۔

    جمع و تدوین، اشاعت و طباعت کا سلسلہ
    اگر سال کے آغاز سے اختتام تک اثر پذیر یا مقبول ادب کی بات کریں تو حسن رضا گوندل کی کاوش قابلِ ذکر ہے جو شکیل عادل زادہ کے پرستار اور سب رنگ ڈائجسٹ کے دیوانے رہے ہیں۔

    سب رنگ کراچی سے شایع ہونے والا وہ ماہ نامہ ڈائجسٹ تھا جس نے اردو ڈائجسٹوں میں مقبولیت اور اشاعت کا ریکارڈ قائم کیا۔ نام وَر ناول اور افسانہ نگار شکیل عادل زادہ اس کے بانی مدیر ہیں جنھوں‌ نے یہ ڈائجسٹ 1970ء میں نکالنا شروع کیا تھا۔ اس ڈائجسٹ میں طبع زاد اور عالمی ادب سے منتخب کردہ کہانیوں کا اردو ترجمہ شایع کیا جاتا تھا۔

    حسن رضا گوندل نے کِیا یہ کہ عالمی ادب کی وہ شاہ کار کہانیاں جنھیں اردو زبان میں ترجمہ کے بعد سب رنگ میں شایع کیا گیا تھا، اکٹھا کرکے انھیں دو جلدوں میں قارئین کے سامنے رکھ دیا۔ ان کی مرتّب کردہ کہانیوں کی ایک جلد سال کے آغاز پر اور دوسری کرونا کی وبا کے دوران شایع ہوئی۔

    اسی طرح اگر ہم رفتگاں کی مشہور تصانیف کی تدوین اور ان کی اشاعت کی بات کریں تو 2020ء میں جو "زندہ کتابیں” سامنے آئیں، ان کی تعداد 42 ہے۔ یہ کام راشد اشرف نے انجام دیا ہے۔ انھوں نے ہر خاص و عام میں مقبول اصنافِ ادب سے کتابوں کا انتخاب کرکے انھیں نئی جلد میں باندھ دیا ہے۔

    یہ کتابیں اُن یگانہ روزگار اور صاحبانِ کمال کی تصنیف کردہ ہیں، جن کے طرزِ نگارش، سحر انگیز اسلوب اور فکر و فن سے نئے قلم کاروں کا تعارف ضروری ہے۔ راشد اشرف نے اسی مقصد اور جذبے کے تحت انھیں ازسرِ نو طباعت کے زیور سے آراستہ کیا ہے۔ ان میں پراسرار واقعات اور شکاریات کے موضوع پر بھی کتب شامل ہیں۔

    زندہ کتابیں کے پلیٹ فارم سے بک اسٹالوں تک پہنچنے والی کتب کی فہرست میں سے چند یہ ہیں۔ آپ بیتیاں جن میں ‘ورودِ مسعود’ جو مسعود حسن خان کے قلم سے نکلی ہے، عارف نقوی کی ‘جلتی بجھتی یادیں’، اور سابق سفارت کار سید سبطِ یحییٰ نقوی کی یادداشتوں کا مجموعہ ‘جو ہم پہ گزری’ شامل ہیں۔ ‘کال کوٹھری’ حمید اختر کی کتاب ہے۔

    ڈاکٹر بسم اللہ نیاز احمد کی ایک اہم کتاب ‘اردو گیت: تاریخ، تحقیق اور تنقید کی روشنی میں’ بھی اسی سلسلے کے تحت شایع کی گئی ہے۔

    شخصی خاکے عام دل چسپی کے ساتھ مشہور و معروف شخصیات کی زندگی اور جہانِ فن میں ان کے سفر کے بارے میں‌ بتاتے ہیں۔ ‘آشنائیاں کیا کیا’ حمید اختر کی ایسی ہی تصنیف ہے، آصف جیلانی کی ‘نایاب ہیں ہم’ اور ‘بیدار دل لوگ’ شاہ محی الحق فاروقی کی کتاب ہے۔

    نام ور علمی و ادبی شخصیت ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی کی کتاب ‘وہ کہاں گئے’ بھی اس اشاعتی لڑی میں شامل ہے۔

    راشد اشرف نے ‘شکاریات کی ناقابلِ فراموش داستانیں’ بھی کتابی شکل میں پیش کی ہیں۔ انھوں‌ نے 60 اور 70 کی دہائی میں ڈائجسٹوں میں شایع ہونے والی کہانیوں کا انتخاب کرکے انھیں‌ چار جلدوں میں جکڑ دیا ہے۔

    مختصر سفر نامے اور رپورتاژ کے لیے راشد اشرف نے تقسیم سے قبل اور بعد کے رسائل کو کھنگالا اور انھیں بھی کتابی شکل دی ہے۔

  • تعاون…..

    تعاون…..

    سعادت حسن منٹو

    چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا ایک گروہ لوٹ مار کے لیے ایک مکان کی طرف بڑھ رہا تھا۔

    دفعتا اس بھیڑ کو چیر کر ایک دبلا پتلا ادھیڑ عمر کا آدمی باہر نکلا۔ پلٹ کر اس نے بلوائیوں کو لیڈرانہ انداز میں مخاطب کیا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں بے اندازہ دولت ہے۔ بےشمار قیمتی سامان ہے۔ آؤ ہم سب مل کر اس پر قابض ہو جائیں اور مالِ غنیمت آپس میں بانٹ لیں۔‘‘

    ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں۔ کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔ چالیس پچاس لٹھ بند آدمیوں کا گروہ دبلے پتلے ادھیڑ عمر کے آدمی کی قیادت میں اس مکان کی طرف تیزی سے بڑھنے لگا جس میں بے اندازہ دولت اور بے شمار قیمتی سامان تھا۔

    مکان کے صدر دروازے کے پاس رک کر دبلا پتلا آدمی پھر بلوائیوں سے مخاطب ہوا۔

    ’’بھائیو، اس مکان میں جتنا مال بھی ہے۔ سب تمہارا ہے، لیکن دیکھو چھینا جھپٹی نہیں کرنا، آپس میں نہیں لڑنا۔۔۔آؤ۔‘‘

    ایک چلایا، ’’دروازے میں تالا ہے۔‘‘ دوسرے نے با آواز بلند کہا۔ ’’توڑ دو۔‘‘

    ’’توڑ دو۔۔۔۔۔۔ توڑ دو۔‘‘ ہوا میں کئی لاٹھیاں لہرائیں، کئی مکے بھنچے اور بلند بانگ نعروں کا ایک فوارہ سا چھوٹ پڑا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ہاتھ کے اشارے سے دروازہ توڑنے والوں کو روکا اور مسکرا کر کہا۔ ’’بھائیو ٹھیرو، میں اسے چابی سے کھولتا ہوں۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا اور ایک چابی منتخب کر کے تالے میں ڈالی اور اسے کھول دیا۔ شیشم کا بھاری بھر کم دروازہ ایک چیخ کے ساتھ وا ہوا تو ہجوم دیوانہ وار اندرداخل ہونے کے لیے آگے بڑھا۔

    دبلے پتلے آدمی نے ماتھے کا پسینہ اپنی آستین سے پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، آرام آرام سے، جو کچھ اس مکان میں ہے سب تمہارا ہے، پھر اس افراتفری کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    فوراً ہی ہجوم میں ضبط پیدا ہوگیا۔ ایک ایک کرکے بلوائی مکان کے اندر داخل ہونے لگے، لیکن جونہی چیزوں کی لوٹ شروع ہوئی پھر دھاندلی مچ گئی۔ بڑی بے رحمی سے بلوائی قیمتی چیزوں پر ہاتھ صاف کرنے لگے۔

    دبلے پتلے آدمی نے جب یہ منظر دیکھا تو بڑی دکھ بھری آواز میں لٹیروں سے کہا۔

    ’’بھائیو، آہستہ آہستہ۔۔۔۔ آپس میں لڑنے جھگڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ نوچ کھسوٹ کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ تعاون سے کام لو۔ اگر کسی کے ہاتھ زیادہ قیمتی چیز آگئی ہے تو حاسد مت بنو۔ اتنا بڑا مکان ہے، اپنے لیے کوئی اور چیز ڈھونڈ لو۔ مگر ایسا کرتے ہوئے وحشی نہ بنو، مار دھاڑ کرو گے تو چیزیں ٹوٹ جائیں گی۔ اس میں نقصان تمہارا ہی ہے۔‘‘

    لٹیروں میں ایک بار پھر نظم پیدا ہوگیا۔ بھرا ہوا مکان آہستہ آہستہ خالی ہونے لگا۔

    دبلا پتلا آدمی وقتاً فوقتاً ہدایت دیتا رہا، ’’دیکھو بھیا یہ ریڈیو ہے۔ آرام سے اٹھاؤ، ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔ یہ اس کے تار بھی ساتھ لیتے جاؤ۔‘‘

    ’’تہ کر لو بھائی، اسے تہ کر لو۔ اخروٹ کی لکڑی کی تپائی ہے۔ ہاتھی دانت کی پچی کاری ہے۔ بڑی نازک چیز ہے۔ ہاں اب ٹھیک ہے!‘‘

    ’’نہیں نہیں۔ یہاں مت پیو۔ بہک جاؤ گے۔ اسے گھر لے جاؤ۔‘‘

    ’’ٹھہرو، مجھے مین سوئچ بند کرلینے دو، ایسا نہ ہو کرنٹ کا دھکا لگ جائے۔‘‘

    اتنے میں ایک کونے سے شوربلند ہوا۔ چار بلوائی ریشمی کپڑے کے ایک تھان پر چھینا جھپٹی کررہے تھے۔ دبلا پتلا آدمی تیزی سے ان کی طرف بڑھا اور ملامت بھرے لہجے میں ان سے کہا۔

    ’’تم کتنے بے سمجھ ہو۔ چندی چندی ہو جائے گی، ایسے قیمتی کپڑے کی۔ گھر میں سب چیزیں موجود ہیں۔ گز بھی ہوگا۔ تلاش کرو اور ماپ کر کپڑا آپس میں تقسیم کرلو۔‘‘

    دفعتاً کتے کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ’’عف عف، عف۔‘‘ اور چشمِ زدن میں ایک بہت بڑا گدی کتا ایک جست کے ساتھ اندر لپکا اور لپکتے ہی اس نے دو تین لٹیروں کو بھنبھوڑ دیا۔ دبلا پتلا آدمی چلایا۔ ’’ٹائیگر ۔۔۔۔۔۔۔ ٹائیگر!‘‘

    ٹائیگر جس کے خوف ناک منہ میں ایک لٹیرے کا گریبان تھا، دم ہلاتا ہوا دبلے پتلے آدمی کی طرف نگاہیں نیچی کیے قدم اٹھانے لگا۔ کتے کے آتے ہی سب لٹیرے بھاگ گئے تھے۔ صرف ایک باقی رہ گیا تھا جس کے گریبان کا ٹکڑا ٹائیگر کے منہ میں تھا۔ اس نے دبلے پتلے آدمی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔

    ’’کون ہو تم؟‘‘

    دبلا پتلا آدمی مسکرایا۔ ’’اس گھر کا مالک۔۔۔ دیکھو دیکھو۔۔۔ تمہارے ہاتھ سے کانچ کا مرتبان گر رہا ہے۔‘‘