Tag: پاکستانی ادیب

  • جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    جب ہندوستانی شعرا نے فارسی ترک کر کے ریختہ میں‌ شعر گوئی کو تحریک دی!

    فارسی اگرچہ ایران (فارس) کی زبان تھی، تاہم فتحِ دلّی کے بعد سے ہی بادشاہوں، علما، صوفیا اور شعرا نے اس زبان کو اپنا لیا اور اسے خوب فروغ دیا۔

    غیر ملکی زبان فارسی کو ہندوستانی نسل کے فارسی شعرا نے جس قدر عزّت بخشی تھی تو انہیں بھی اس بات کا حق حاصل تھا کہ ایرانی النّسل فارسی علما و شعرا اُن کی اس علمی اور شعری رواداری کا خیر مقدم کریں لیکن ایرانی النسل علما و شعرا تو ابتدا ہی سے یعنی عہدِ سلاطین ہی سے ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے چلے آ رہے تھے اور جن کے وار سے امیر خسرو بھی بچ نہیں سکے تھے۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں مثلاً عبید زاکانی کا امیر خسرو پر پھبتی کسنا، عراقی کا فیضی کے متعلق اہانت آمیز بات کہنا، شیخ علی حزیں کی دریدہ دہنی وغیرہ۔

    یہاں یہ بھی عرض کر دینا چاہتی ہوں کہ بعض معروف ایرانی النّسل شعرا مثلاً عبدالرّحمٰن جامی، حافظ شیرازی اور جمال الدّین عرفی نے امیر خسرو کی زبان دانی کی تعریف کی ہے اور حافظ شیرازی نے تو انہیں ’’طوطیٔ ہند‘‘ کے لقب سے بھی یاد کیا ہے، تاہم ہندوستانی النّسل فارسی علما و شعرا کے تعلق سے ایرانی النسل علما و شعرا کا عام رویّہ وہی تھا جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایرانی شعرا کے نزدیک ہندوستانی نژاد فارسی شعرا ثقہ کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔

    میرے خیال میں اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ اوّل یہ کہ ایرانیوں کا ملکی و قومی عصبیت رکھنا، جس کی واضح صورت پورے اسلامی تاریخ میں نمایا ں ہے۔ دوم وہ حریفانہ چشمک جو عام طور پر علما و شعرا میں پایا جاتا ہے۔ اس حریفانہ چشمک کے طویل سلسلے کی روک تھام اور نفسیاتی گرہ کشائی کے لیے دلبرداشتہ ہو کر دہلی کے بزرگ سعد اللہ گلشن نے پہل کی تھی اور انہوں نے ولی دکنی کو یہ مشورہ دیا تھا کہ فارسی کو ترک کر کے ریختہ (اردو) میں اشعار کہیں۔ اُس کے بعد سراج الدّین علی خان آرزو نے اس پر بھرپور عمل کیا اور ریختہ میں شاعری کرنے کو تحریک کی صورت عطا کی۔

    جب شیخ علی حزیں 35-1734 میں ایران سے ہندوستان آئے تو انہوں نے اپنی ایک خود نوشت ’’تذکرۃُ الا حوال‘‘ لکھی جس میں اپنی عصبیت اور نفرت کا بَرملا اظہار کیا۔ اس میں ہندوستانی فارسی شعرا کے خلاف نہ صرف سخت نکتہ چینی کی بلکہ اہانت آمیز ہجویں بھی لکھیں۔ ’’محاکماتُ الشّعرا‘‘ میں محسن نے لکھا ہے کہ ’’کسی ہندوستانی کی طرف سے حزیں کا دل نہ دکھائے جانے کے باوجود انہوں نے ’تذکرۃُ الاحوال‘ میں بادشاہ سے لے کر گدائے بے نوا تک کے خلاف زہر اگلا اور اس خیال کی اشاعت کی کہ ہندوستان فضل و کمال کے لیے زمینِ شور کا حکم رکھتا ہے۔ انہوں نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ انہیں تمام دارُالخلافت میں ایک شخص بھی ایسا نظر نہیں آیا جو رتبۂ فضیلت رکھتا ہو۔‘‘ (بحوالہ اردو ادب کی تاریخ از تبسم کاشمیری)

    سراج الدّین علی خان آرزو جو اپنے وقت کے بڑے عالم، استاد اور بڑے شاعر تھے، انہوں نے’’ تذکرۃُ الاحوال ‘‘کا حرفاً حرفاً عالمانہ جواب ’’تنبیہ الغافلین‘‘ لکھ کر دیا اور حزیں کی خود سری اور غرور کو توڑنے کے لیے اُس میں پوشیدہ خامیوں اور غلطیوں کی طرف واضح اشارے کیے۔ آرزو کی اس کوشش نے انہیں ہندوستانی شعرا کے درمیان ہیرو بنا دیا۔ اس تاریخی معرکہ آرائی کے بعد ہندوستانی شعرا کو یہ احساس ہو گیا کہ فارسی میں خواہ وہ کتنی بھی دست گاہی حاصل کر لیں، ایرانی النّسل فارسی شعرا انہیں زبان داں تسلیم نہیں کریں گے۔ لہٰذا آرزو نے جو انہیں فارسی کی جگہ ریختہ (اردو) میں شاعری کرنے کی رغبت دلائی تھی، اُس نے اس دور کے نوجوان شعرا کو اِس طرف مائل کر لیا اور یہی دلّی دبستانِ شاعری کا نقطۂ آغاز تھا۔

    اُس دور کے نوجوان شعرا جن میں بیش تَر آرزو کے شاگرد تھے، انہوں نے ریختہ میں شاعری کرنا شروع کر دی۔ اُن کے اتباع میں دیگر استاد شاعروں کے شاگردان نے بھی ریختہ کو اپنا لیا۔ اِس طرح ریختہ کی تحریک وجود میں آئی۔

    (بھارت سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عطیہ رئیس کے علمی و تحقیقی مضمون سے انتخاب، یہ تحریر تصوف، اردو شاعری اور اُس کا پیش و پس کے عنوان سے شایع ہوئی تھی)

  • انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین: ان کے اسلوب کی سحر انگیزی پُراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہے!

    انتظار حسین وہ پہلے پاکستانی تخلیق کار ہیں جنھیں بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا۔ ان کے فن اور گراں قدر ادبی خدمات کے اعتراف میں پاکستان ہی نہیں‌ بھارت، مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی انھیں کئی اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    ان کا شمار موجودہ عہد میں پاکستان ہی کے نہیں بلکہ اردو فکشن، خاص طور پر افسانے اور ناول کے اہم ترین تخلیق کاروں میں کیا جاتا تھا۔

    پاکستان کے معروف فکشن نگار نے زندگی کی 93 بہاریں دیکھنے کے بعد 2 فروری 2016ء میں ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔ انتظار حسین لاہور کے ایک اسپتال میں نمونیہ اور شدید بخار کی وجہ سے زیرِ علاج تھے۔

    انتظار حسین سنہ 1923ء میں ہندوستان کے ضلع میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے میرٹھ کالج سے اردو میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے وقت ہجرت کی اور پاکستان آنے کے بعد صحافت کے شعبے سے وابستہ ہو گئے۔ ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد 1953ء میں‌ انتظار حسین کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’گلی کوچے‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ بعد کے برسوں میں افسانوں کے آٹھ مجموعے، چار ناول اور آپ بیتی کی دو جلدیں جب کہ ایک ناولٹ بھی منظرِ عام پر آیا۔ وہ اپنے اسلوب کی وجہ سے پہچان بنانے والے ادیبوں میں‌ شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے تراجم بھی کیے اور سفر نامے بھی لکھے۔ انتظار حسین عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب تھے جن کے ناول اور افسانوں کے چار مجموعے بھی انگریزی زبان میں شائع ہوئے۔

    تاریخ، تہذیب و ثقافت اور ادبی موضوعات پر ان کے قلم کی نوک سے نکلنے والی تحریریں بہت مقبول ہوئیں۔ اس سحر طراز ادیب کی تحریریں کئی فکری مباحث کو جنم دینے کا سبب بنیں۔ ان کے یہاں ناسٹیلجیا یا ماضی پرستی بہت ہے، جس کے بیان میں وہ اپنے علامتی اور استعاراتی اسلوب سے ایسا جادو بھر دیتے ہیں جس میں ایک حسن اور سوز پیدا ہو جاتا ہے۔

    انتظار حسین کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ قرآن شریف، احادیث، صوفیائے کرام کے ملفوظات ہی نہیں، وہ ہندوستان کی قدیم تہذیبوں کی روایات، معاشرت اور ان کے رائج مذاہب اور عقائد پر بھی خوب بات کرتے تھے۔ رامائن اور بدھ مت وغیرہ پر ان کی گہری نظر تھی اور ساتھ ہی مغربی مفکرین کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ ان کی وجہِ شہرت فکشن نگاری ہی نہیں ان کے انگریزی اور اردو زبان میں‌ شایع ہونے والے کالم بھی ہیں جنھیں علم و ادب کا شغف رکھنے والوں اور سنجیدہ قارئین نے بے حد پسند کیا۔ ان کے یہ کالم بھی کتابی شکل میں شائع ہوئے۔

    ممتاز نقّاد وارث علوی نے انتظار حسین سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں‌ کیا تھا:

    ’’انتظار حسین کے افسانوں میں اسلوب کا یہ جادو ملتا ہے، یعنی خوب صورت نظموں کی مانند ان کے افسانوں کے اسلوب کی سحر انگیزی پراسرار پہاڑ کے بلاوے کی طرح ہمیں اپنی طرف کھینچتی رہتی ہے۔ یہ کشش کہانی، کردار، واقعات یا دوسرے ارضی مواد کے سبب نہیں ہوتی جیسا کہ بیدی، منٹو یا موپساں کے افسانے میں ہوتا ہے۔ لیکن آپ انتظار حسین کی زبان و بیان کی جادو گری کا راز پانے کی کوشش کیجیے تو دیکھیں گے کہ ان کے اسلوب کی پوری سحر کاری ایک ایسے مواد کی زائیدہ ہے جو انسان کے ارضی، اخلاقی اور روحانی تجربات سے تشکیل پاتا ہے، اور یہ مواد اتنا ہی گاڑھا ہے جتنا کہ حقیقت پسند افسانے کا سماجی اور انسانی مواد اور اسی لیے اس کی پیش کش میں انتظار حسین گو اسطوری اور علامتی طریقِ کار اختیار کرتے ہیں، لیکن حقیقت پسند تکنیک کے ہتھکنڈوں یعنی واقعہ نگاری، کردار نگاری، جزئیات نگاری، مکالمے، تصویر کشی اور فضا بندی کا بھرپور استعمال کرتے ہیں۔ اسی سبب سے ان کے افسانے تجریدی افسانوں کی ذیل میں نہیں جاتے اور ان کا اسلوب تجریدی افسانوں کی مانند شاعری کے اسلوب سے قریب ہونے کی کوشش نہیں کرتا۔ انتظار حسین کا امتیازی وصف ہے کہ ان کے کسی جملے پر شعریت، غنایت یا شاعرانہ پن کا گمان تک نہیں ہوتا، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ان کی پوری کوشش غنایت سے گریز کی طرف ہے۔ ان کے باوجود ان کا اسلوب غنائی شاعری کے اسلوب کی مانند ہم پر وجد کی کیفیت طاری کرتا ہے۔ یہ نثر کی معراج ہے۔‘‘

    ان کی تحریروں میں اکثر پرانے اور ایسے الفاظ پڑھنے کو ملتے تھے جنھیں عام طور پر ترک کردیا گیا ہو۔ وہ اپنے کالموں میں کبھی کوئی قدیم حکایت اور داستان پیش کرتے یا اس میں بیان کیے گئے واقعے یا شخصیت کو اپنے مطالعے اور فکر کی بنیاد پر نہایت پُراثر موضوع بنا دیتے تھے۔

    انتظار حسین کی تصانیف میں آخری آدمی، شہر افسوس، آگے سمندر ہے، بستی، چاند گہن، گلی کوچے، کچھوے، خالی پنجرہ، خیمے سے دور، دن اور داستان، علامتوں کا زوال، بوند بوند، شہرزاد کے نام، زمیں اور فلک، چراغوں کا دھواں، دلی تھا جس کا نام، جستجو کیا ہے، قطرے میں دریا، جنم کہانیاں، قصے کہانیاں، شکستہ ستون پر دھوپ، سعید کی پراسرار زندگی سرِ فہرست ہیں۔

  • یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    یومِ وفات: ہاجرہ مسرور نے اپنی کہانیوں میں معاشرتی بے حسی پر گرفت کی

    ’’عورت ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور سماج کے کوڑھی ہاتھوں میں ہے اور ان کوڑھی ہاتھوں میں جب چُل ہونے لگتی ہے تو ڈور کے جھٹکوں سے یہ کٹھ پتلی نچائی جاتی ہے۔‘‘

    یہ سطور ہاجرہ مسرور کے قلم سے نکلی ہیں جنھیں خواتین کے حقوق کی علم بردار بھی کہا جاتا ہے۔ اردو کی اس ممتاز افسانہ نگار نے زندگی کے مختلف روپ اور پہلوؤں کو عورت کی نظر سے دیکھتے ہوئے ہمارے سامنے پیش کیا۔

    آج ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ انھوں نے 15 ستمبر 2012ء کو کراچی میں‌ وفات پائی۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا جو قیامِ پاکستان کے بعد ہجرت کرکے لاہور پاکستان آگئی تھیں۔ بعد میں کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    ہاجرہ مسرور 17 جنوری 1929ء کو پیدا ہوئیں۔ ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے۔ ہاجرہ کم عمری میں والد کے دستِ شفقت سے محروم ہوگئیں اور ان کا کنبہ مالی مسائل کا شکار ہو گیا۔ انھوں نے والدہ کو سخت محنت اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرتے دیکھا۔ تاہم بچّوں کی تربیت اچھے انداز سے کی اور یہ گھرانا علم و ادب کے حوالے سے پہچانا گیا۔ انھیں شروع ہی سے مطالعہ کی نعمت اور سہولت میسر رہی جس نے ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔

    ہاجرہ مسرور کی بہنیں خدیجہ مستور اور اختر جمال بھی اْردو کے معروف ادیبوں میں‌ شمار ہوئے۔ ان کے ایک بھائی توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جب کہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا۔

    وہ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئیں تو یہ شہر ادبی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور اس وقت تک ہاجرہ بطور کہانی کار اور افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ یہاں ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں ابتدا ہی سے پذیرائی ملنے لگی۔ انھوں نے معروف ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شائع کرنا شروع کیا۔

    اس دوران ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    انھوں نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔ 1965ء میں بننے والی پاکستانی فلم ’’آخری اسٹیشن‘‘ کی کہانی بھی ہاجرہ مسرور نے لکھی تھی۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان کی زوجہ تھیں اور شادی کے بعد کراچی منتقل ہوگئی تھیں۔ وہ اس شہر میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    اردو ادب میں انھیں ایک فعال، مستعد اور جذبۂ انسانیت اور اصلاح سے سرشار ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ ہاجرہ مسرور نے معاشرے کی بے حسی پر گرفت کی اور خواتین سے متعلق جس خلوص اور درد مندی سے لکھا وہ اپنی مثال آپ ہے۔

  • ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی: اردو ادب میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے پی ایچ ڈی اسکالر

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی متحدہ ہندوستان کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے پہلے اسکالر تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور یہاں علمی و ادبی میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔

    پاکستان کے ممتاز ماہرِ لسانیات، محقّق، ماہرِ تعلیم اور نقّاد ابواللیث صدیقی نے جامعہ کراچی کے شعبہ اردو کے سربراہ اور کولمبیا یونیورسٹی کے وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے بھی کام کیا۔

    آگرہ ان کا وطن تھا جہاں 15 جون 1916ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی اسکول، آگرہ مشن اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے مکمل کی۔ بعد ازاں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے 1942ء میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کے زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی مکمل کی۔

    وہ متعدد کتب کے مصنّف تھے جب کہ ان کی ایک خود نوشت بھی منظرِ عام پر آئی جس کے مقدمے میں ڈاکٹر معین الدّین عقیل لکھتے ہیں کہ “ڈاکٹر ابواللیث صدیقی زمانہ طالب علمی ہی سے مضامین و مقالات لکھنے لگے تھے جو جامعہ دہلی، علی گڑھ میگزین علی گڑھ، ہمایوں لاہور، معارف اعظم گڑھ اور نگار لکھنؤ میں شائع ہوتے رہے۔ تنقید اور تحقیق دونوں ہی میں ڈاکٹر صاحب کی دل چسپی یکساں تھی۔ بعد میں لسانیات اور خاص طور پر اردو لسانیات ان کا محبوب موضوع بن گیا۔ ان کے پی ایچ ڈی کے تحقیق مقالے لکھنؤ کا دبستانِ شاعری نے، جو شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا پہلا تحقیقی کام تھا، انھیں اسی زمانے میں شہرت سے ہم کنار کر دیا تھا۔ یہ مقالہ بھارت اور پاکستان میں کئی بار شائع ہوا۔“

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی چند اہم تصانیف میں مصحفی: اس کا عہد اور شاعری، جرأت: اس کا عہد اور شاعری، نظیر اکبر آبادی: اس کا عہد اور شاعری، تاریخِ زبان و ادبِ اردو، بیسویں صدی کا اردو ادب اور تاریخِ اصولِ تنقید شامل ہیں جب کہ رفت و بود ان کی خود نوشت ہے۔

    ان کے مضامین کے تین مجموعے غزل اور متغزلین، روایت اور تجربے اور ادب اور لسانیات کے عنوانات سے شایع ہوئے۔

    انھیں‌ زمانہ طالبِ علمی میں علی گڑھ کے آفتاب ہوسٹل میں جن نابغہ روزگار شخصیات اور علم و ادب کی دنیا کے قابل اور نام وَر لوگوں کی صحبت میّسر آئی، ان میں اختر حسین رائے پوری، سبطِ حسن، حیات اللہ انصاری، فضل الرّحمن انصاری شامل تھے۔ اسی زمانے میں انھیں اپنی تعلیمی قابلیت کے سبب علی گڑھ کے اکابرین کی خصوصی توجہ اور ان کی شفقت و عنایت بھی نصیب ہوئی جن میں نواب سَر راس مسعود اور پروفیسر محمد حبیب کا ذکر ابواللیث صدیقی نے اپنی خود نوشت میں خاص طور پر کیا ہے۔

    ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 7 ستمبر 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کی تدفین جامعہ کراچی کے قبرستان میں کی گئی۔

  • صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    صاحبِ طرز ادیب اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی کی برسی

    اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مدیر، محقّق اور ماہرِ موسیقی شاہد احمد دہلوی 27 مئی 1966 کو وفات پاگئے تھے۔ وہ معروف ناول نگار، شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور شاعر و ادیب مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو ایک باوقار جریدہ ‘ساقی’ دیا اور اس کے ذریعے علم و ادب، فنون و ثقافت کی خدمت کا سلسلہ جاری رکھا، وہ ترقّی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔ دہلی ان کا وطن تھا اور یہی نسبت ان کے نام سے منسلک رہی، قیامِ پاکستان کے بعد شاہد احمد دہلوی کراچی آگئے تھے۔

    شاہد احمد دہلوی انشا پرداز اور باکمال نثار تھے۔ انھوں نے کئی کتابیں یادگار چھوڑیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے اہم اور مصنّف کے منفرد اسلوب اور طرزِ‌ نگارش کا نمونہ ہیں۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکے تحریر کرنے کے علاوہ واقعات اور تذکروں کو کتابی شکل دی۔ دلّی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔ ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی بھی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی۔ انھوں نے ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے زمانے میں موسیقی کے متعدد پروگرام پیش کیے۔

    ان کے خاکوں کے مجموعے گنجینۂ گوہر، بزمِ خوش نفساں، بزمِ شاہد اور طاقِ نسیاں کے نام سے شائع ہوئے تھے جب کہ موسیقی کے موضوع پر ان کے لاتعداد مضامین کو بھی کتابی شکل میں‌ شایع کیا گیا۔

    حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ شاہد احمد دہلوی کراچی میں گلشن اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    اردوئے معلّیٰ کا ہیرو کون؟

    ایک واقعۂ دلچسپ اہلِ ذوق کی ضیافتِ طبع کے لیے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد (محمد حسین آزاد) زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا۔

    نذیر احمد ملنے کے لیے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لیکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجیے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔

    آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کر دی۔ نذیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوشِ محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشقِ سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

    حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لیے وہ تقریظ و تنقید دیکھیے جو آبِ حیات اور نیرنگِ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعتِ فکر کا نقشِ اوّلین اور ان کی اوّلیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،

    ’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگِ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے، کیوں کہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذباتِ انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائلِ انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دل کش پیرایہ میں بیان کیے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘

    شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے۔

    (نام وَر انشا پرداز اور مضمون نگار مہدی افادی کی تحریر بعنوان ‘ملک میں تاریخ کا معلّمِ اوّل’ سے ایک پارہ)

  • صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی کا یومِ‌ وفات

    اردو زبان و ادب میں‌ نادرِ‌ روزگار اور صاحبِ اسلوب ادیبوں میں اشرف صبوحی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا جن کا بیش قیمت تخلیقی سرمایہ درجنوں کتابوں میں محفوظ ہے اور علم و ادب کی دنیا میں یہ کتب لائقِ مطالعہ ہی نہیں بلکہ یہ برصغیر کی نابغہ روزگار ہستیوں کی زندگی کے بعض‌ واقعات، تذکروں اور ہندوستان کے تہذیبی و ثقافتی ورثے پر سند و حوالہ سمجھی جاتی ہیں۔

    اشرف صبوحی 22 اپریل 1990ء کو کراچی میں وفات پا گئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ اشرف صبوحی کو صاحبِ اسلوب ادیب مانا جاتا ہے۔ انھیں‌ واقعات اور خاکہ نگاری میں کمال حاصل تھا اور ان کے مضامین میں دلّی کی تہذیب، ثقافت وہاں کے خاص پکوان اور مختلف شخصیات کے تذکرے پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

    ان کا اصل نام سیّد ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور تقسیم کے بعد ہجرت کر کے کراچی آگئے اور یہیں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    ڈپٹی نذیر احمد کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے اشرف صبوحی کی نثر رواں اور نہایت خوب صورت ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں ممتاز کیا اور قارئین نے ان کی تحریروں کو بہت پسند کیا۔

    اشرف صبوحی کی تصانیف میں دہلی کی چند عجیب ہستیاں، غبار کارواں، جھروکے اور انگریزی ادب کے تراجم شامل ہیں۔ ان کے تراجم دھوپ چھائوں، ننگی دھرتی اور موصل کے سوداگر بہت مشہور ہوئے، اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے بھی لکھا اور یہ سرمایہ کتابی شکل میں محفوظ ہے۔ وہ گلشنِ اقبال کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    معروف ترقّی پسند ادیب،‌ صحافی اور دانش وَر سبطِ حسن کا یومِ وفات

    پاکستان میں‌ ترقّی پسند فکر اور ادب تخلیق کرنے والوں میں سید سبطِ حسن ایک بڑا نام ہیں‌ جو 20 اپریل 1986ء میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے سبطِ‌ حسن نے ماضی کے مزار، موسیٰ سے مارکس تک، پاکستان میں تہذیب کا ارتقا، انقلابِ ایران، کارل مارکس اور نویدِ فکر جیسی تصانیف سے علمی و ادبی حلقوں اور اہلِ دانش کو متاثر کیا۔

    ان کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جہاں وہ 31 جولائی 1912ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے تعلیم مکمل کی۔ وہاں انھیں ترقّی پسند دانش وروں، ادبا اور شعرا کا ساتھ نصیب ہوا جن میں علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز، خواجہ احمد عباس، اختر الایمان اور اختر حسین رائے پوری و دیگر شامل تھے۔ یہ وہ نام تھے جنھوں نے سیّد سجاد ظہیر کی قیادت میں اردو کی ترقّی پسند تحریک کا آغاز کیا جو مقبول اور ہمہ گیر ثابت ہوئی۔

    سید سبط حسن نے اپنی عملی زندگی کا آغاز صحافت سے کیا تھا۔ وہ پیام، نیا ادب اور نیشنل ہیرالڈ جیسے رسالوں اور اخبار سے وابستہ رہے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے پہلے لاہور اور بعد میں کراچی کو اپنایا تھا۔ سید سبطِ حسن نے خالص علمی اور فکری موضوعات پر کام کیا اور تصنیف و تالیف میں مصروف رہے۔

    ان کا انتقال بھارت کے شہر دہلی میں ہوا جہاں وہ ایک ادبی تقریب میں شرکت کے لیے گئے ہوئے تھے۔ سبطِ حسن کو کراچی کے سخی حسن قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا

    الف سے ایکسٹرا ہوتا ہے اور ہوتی بھی ہے۔ یعنی ایکسٹرا مرد بھی ہوتے ہیں اور عورتیں بھی۔

    فلم میں جب کسی گلی محلے یا بازار کا سین دکھایا جاتا ہے تو اس میں چلنے پھرنے والے لوگوں کی اکثریت ایکسٹرا ہوتی ہے۔ وہ پان بیچنے والا ایکسٹرا ہے اور وہ جو دکان پر کھڑا ہو کر "ایک پونا کالا کانڈی” پان کی فرمائش کر رہا ہے وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    بادشاہ کے درباری ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ وہ دربان جو لال رنگ کا چوغا پہنے سنہرے رنگ کی موٹھ والی چھتری ہاتھ میں لیے بادشاہ کے آگے چل رہا ہے اور بلند بانگ لہجے میں چلا رہا ہے: "باادب باملاحظہ ہوشیار” وہ بھی ایکسٹرا ہے۔

    کبھی کبھی بادشاہ بھی ایکسٹرا ہوتے ہیں۔ جیسے وہ آج کل اکثر ملکوں میں ہوتے ہیں۔ یعنی سنہری وردی پہنے تخت پر بیٹھے ہیں۔ مگر مجال نہیں کہ اپنی مرضی سے اپنے جوتے کا تسمہ بھی کھول سکیں۔

    مجھے آج کل کے بادشاہوں اور فلم کے ایکسٹرا لوگوں کو دیکھ کر بڑی ہم دردی ہوتی ہے مگر دراصل یہ لوگ کسی ہم دردی کے محتاج نہیں ہیں۔

    فلم کے ایکسٹرا فلمی دنیا میں سب سے کم کماتے ہیں۔ مہینے میں کسی کو پانچ دن تو کسی کو دس دن کام ملتا ہے۔ باقی دن یہ مانگے تانگے سے کس طرح چلاتے ہیں، بھگوان ہی بہتر جانتا ہے مگر پھر بھی یہ فلمی دنیا سے الگ نہیں ہو سکتے۔ کسی قیمت پر الگ نہیں ہو سکتے۔ اگر یقین نہ آئے تو کسی فلمی ایکسٹرا کو جو مہینے میں بڑی مشکل سے پچیس روپے کماتا ہے، پچاس روپے کی دربانی پیش کر کے دیکھ لیجیے۔ وہ ٹھوکر مار دے گا۔ کام کو بھی اور آپ کو بھی۔

    اسے فلمی دنیا میں پانچ دن کام کر کے باقی پچیس دن بھوکا مرنا منظور ہے، مگر وہ کوئی اور کام نہیں کر سکتا۔

    دراصل یہ ایکسٹرا وہ لوگ ہوتے ہیں، جو ہیرو یا ہیروئین بننے کی خواہش میں ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ، بھائی بہن، خاوند، بیوی بچے سب چھوڑ کر بمبئی چلے آتے ہیں اور بھیڑوں کی طرح ایک سیٹ سے دوسرے سیٹ پر دھکیلے جاتے ہیں۔

    ان میں سے ہر مرد یا عورت کی آنکھوں میں ایک خواب بستا ہے۔ کبھی وہ ہیرو یا ہیروئین بن جائیں گے۔ اور بدقسمتی سے فلمی دنیا میں چند ایسی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی ایک ایکسٹرا دو سال تک ایکسٹرا رہا پھر اچانک ہیرو بن گیا۔ ایک لڑکی جو پانچ سال تک ایکسٹرا رہی اچانک ہیروئین بن گئی۔ اور امپالا میں بیٹھ گئی۔ اس لیے یہ خواب کسی ایکسٹرا کی آنکھوں سے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

    (ممتاز ادیب اور افسانہ نگار کرشن چندر کے مضمون الف سے ایکٹر، ایکٹریس، اشتہار: فلمی قاعدہ سے انتخاب)

  • ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا

    پاکستان کی نام ور علمی اور ادبی شخصیت ڈاکٹر جمیل جالبی ایک سال پہلے آج ہی کے روز اس دنیا کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے تھے۔ آج ان کی پہلی برسی ہے۔

    18 اپریل 2019 کو انتقال کر جانے والے ڈاکٹر جمیل جالبی کی اردو زبان اور ادب کے لیے خدمات اور تحقیقی کاوشیں ہمیشہ ان کی یاد دلاتی رہیں گی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے مختلف اہم اور بعض ادق موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور اپنی قابلیت، علمی استعداد کو منواتے ہوئے محنت اور مستقل مزاجی سے کام کیا اور کئی اہم تصانیف یادگار چھوڑیں۔

    پاکستان میں انھیں ایک نقاد، ماہرِ لسانیات، ادبی مؤرخ اور محقق کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ وہ جامعہ کراچی میں وائس چانسلر، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین اور اردو لُغت بورڈ کے صدر بھی رہے۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کا تعلق علی گڑھ سے تھا۔ وہ 12 جون، 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا خاندانی نام محمد جمیل خان تھا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے بھائی کے ساتھ پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہا‌ں تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور کام یابیاں سمیٹتے رہے۔

    جالبی صاحب نے کہانی سے تخلیقی سفر کا آغاز کیا اور بعد میں ان کی تحاریر دہلی کے رسائل بنات اور عصمت میں شایع ہوئیں۔

    ان کی کتابوں میں جارج آرویل کے ناول کا ترجمہ، پاکستانی کلچر: قومی کلچر کی تشکیل کا مسئلہ، تاریخ ادب اردو کے علاوہ دیگر تصانیف و تالیفات میں نئی تنقید، ادب کلچر اور مسائل، معاصر ادب وغیرہ شامل ہیں۔ لغات اور فرہنگِ اصلاحات کے علاوہ متعدد انگریزی کتابوں کے تراجم بھی ان کا کارنامہ ہیں۔

    ڈاکٹر جمیل جالبی کو حکومت پاکستان کی طرف سے ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔