Tag: پاکستانی بیورو کریٹ

  • میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    میرا جی کے نام لندن سے آیا ایک خط!

    لندن،
    14 ستمبر 1987ء

    میرا جی صاحب!

    کلیات حاضر ہے، فرمائیے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ کلیات کے بہانے آپ کے دوست ایک پرانا قرض اُتار رہے ہیں۔بات قرض چکانے کی نہیں فرض ادا کرنے کی ہے۔ اب اگر آپ کا کلام یکجا نہ کیا جاتا تو اردو ادب کی تاریخ میں کتنا بڑا خلا رہ جاتا۔ ویسے یہ کام آپ کے دوستوں نے نہیں، جمیل جالبی صاحب نے کیا ہے اور وہ بھی اُن دنوں میں جب آپ شیخ الجامعہ کراچی کے منصب سے نبرد آزما تھے، اور چشمِ حسد تنگ ہی نہیں تاریک ہو رہی تھی۔

    آپ کی شاید جالبی صاحب سے ملاقات نہیں تھی مگر آپ انہیں شاہد احمد دہلوی کے رشتہ سے پہچان لیں گے۔ دونوں میں بڑی دوستی تھی اور یہ دوستی پاکستان میں اردو ادب کی ترقی کا باعث بنی۔ جالبی صاحب، صاحبِ علم اور صاحبِ قلم ہیں۔ انہوں نے اردو تنقید کو جس اعلیٰ مقام تک پہنچایا ہے اس کی نظیر ان کی تصانیف ہیں۔ اس افراتفری اور نفسا نفسی کے زمانے میں اُن سا منکسرالمزاج اور دُھن کا پکا انسان مشکل سے ملتا ہے۔ بڑی کاوش سے انہوں نے آپ کا کلام اکٹھا کیا ہے اور پھر اسے ترتیب دے کر اس کی کتابت، طباعت اور اشاعت کے سارے مرحلے بھی بڑے عزم اور خندہ پیشانی سے طے کیے ہیں۔ آپ کے دوست اور اردو ادب سے لگاؤ رکھنے والے سب ان کے احسان مند ہیں۔

    آپ آئے اور چلے گئے، مگر دوستی (بلکہ یاری) کا ایک ایسا نقش چھوڑ گئے کہ آج تک دوست کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ اکیلے میں، محفل میں، چلتے پھرتے آپ سے باتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کبھار تو بحث بھی ہو جاتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا میں نے ایک دفعہ پوچھا تھا۔

    ”کبھی دیکھا کہ گورستان سے کوئی کفن پہنے ہوئے نکلا، انہی گلیوں، انہی کوچوں میں آیا۔“

    آپ دیر تک میری طرف دیکھتے رہے اور وہ لمحہ جب آپ ریل گاڑی کے ڈبے سے لگے گا رہے تھے۔

    ”لاگ اساڑھ چلی پُرویّا سارس دوڑ لگائے۔“ آج بھی ذہن کے آئینہ خانے میں جگمگانے لگتا ہے۔ شاید وہ لمحہ توجہ کا تھا۔

    کوئی درویش جو بال بڑھائے، ہاتھوں میں گولے اور گلے میں مالا سجائے سچ کی تلاش میں اس نگری میں آنکلا (اور کچھ دیر کے لیے گھر کا رستہ بھول گیا) اور جب اُس نے دیکھا کہ یہاں تو جھوٹ ہر لمحہ جواں رہتا ہے تو وہ جہاں سے آیا تھا وہیں پلٹ گیا لیکن اس مختصر سے عرصے میں اس کی ذات ہر ملنے والے کی زندگی پر اپنا عکس چھوڑ گئی۔

    میرا جی! آپ کو زندگی عزیز تھی، ایک ہی گھونٹ میں اسے پی گئے، ہم لوگ تو اب تک ایک جرعے کی تلاش میں عمر گزار رہے ہیں۔ اور اب ایک ایک کر کے آپ کے دوست آپ ہی کی طرف آرہے ہیں۔

    میانِ لالہ و گل خواستم کہ مے نوشم
    زشیشہ تابہ قدح ریکتم بہار گذشت

    والسلام

    الطاف گوہر

    (اردو کے نام ور شاعر میرا جی کی کلیات میں‌ شامل یہ خط مشہور سول سرونٹ، لکھاری اور صحافی الطاف گوہر کی اختراع ہے)

  • آج تاریخ کیا ہے؟

    آج تاریخ کیا ہے؟

    یہ 1957 كی بات ہے- بیسویں صدی کا مشہور مؤرخ ٹائن بی پاکستان کے دورے پر آیا ہوا تھا- یہ تاریخ کے بارے میں کوئی سیمینار تھا-

    تقریب کے اختتام پر پاکستان کے ایک نام ور مصنف اور سرکاری ملازم ڈائری لے کر آگے بڑھے اور آٹوگراف كی درخواست كی- ٹائن بی نے قلم پکڑا، دستخط کیے، نظریں اٹھائیں اور بیورو کریٹ كی طرف دیکھ کر بولے:

    "میں ہجری تاریخ لکھنا چاہتا ہوں، کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ آج ہجری تاریخ کیا ہے؟”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے نظریں جھکا لیں-

    ٹائن بی نے ہجری تاریخ لکھی، تھوڑا سا مسکرایا اور اس كی طرف دیکھ کر کہا:

    "تھوڑی دیر پہلے یہاں اسلام کے مستقبل کے بارے میں بڑے زور شور سے تقریریں ہورہی تھیں- وہ لوگ تاریخ کیسے بنا سکتے ہیں جنھیں اپنی تاریخ ہی یاد نہ ہو- تاریخ باتیں کرنے سے نہیں، عمل سے بنتی ہے-”

    سرکاری ملازم نے شرمندگی سے سر جھکا لیا-

    (مختار مسعود کی کتاب سے انتخاب)