Tag: پاکستانی خطاط

  • پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    پاکستان کے نام وَر خطّاط صوفی خورشید عالم کی برسی

    30 مئی 2004ء کو پاکستان کے نام ور خطّاط صوفی خورشید عالم خورشید رقم لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ صوفی خورشید کے نام سے مشہور تھے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید کو 1965ء کی جنگ میں‌ جامِ شہادت نوش کرنے والے راجہ عزیز بھٹی کے لوحِ مزار کی خطّاطی کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ صوفی صاحب نے کئی موضوعات پر کتابوں اور اپنے دور کے نام ور مصنّفین کی کتابوں کے ٹائٹل کو اپنی خطّاطی سے سجایا۔

    خورشید عالم 1923ء میں کپور تھلہ، بھارت میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد رحمت علی خود بھی ایک اچھے خطّاط تھے۔ مشہور ہے کہ لاہور کے ناشرین کپور تھلہ جاکر ان سے کتابت کرواتے تھے۔ یوں انھیں بھی خوش نویسی کا شوق پیدا ہوا اور اپنے والد کو دیکھ کر خود بھی مشق کرنے لگے۔ ذوق و شوق اور مسلسل مشق نے ان کی لکھائی اور کتابت کو چمکایا اور وہ اس فن میں‌ کامل ہوئے۔

    صوفی خورشید عالم خورشید نے بعدازاں تاج الدّین زریں رقم جیسے نام ور اور عظیم خطّاط کے ادارے سے وابستگی اختیار کرلی تھی جہاں عرصے تک کام کیا، زریں رقم کی وفات کے بعد لاہور کے اکابر خطّاط نے صوفی صاحب کو ان کا جانشین مقرر کردیا تھا۔

    خوش نویسی اور فنِ خطّاطی میں کمال و مہارت رکھنے والے خورشید عالم خورشید رقم نے مختلف اخبارات غالب، آفاق، کوہستان، نوائے وقت، مساوات، ندائے ملت، آزاد اور امروز میں بھی کام کیا تھا اور مینار پاکستان کے بعض کتبات ان کے فن کا نقش ثبت ہے۔

    صوفی صاحب خطّاط ہی نہیں شاعر بھی تھے۔ انھوں نے غزل، نعت و قصیدہ گوئی اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کی۔ وہ مخمور تخلّص کرتے تھے اور مشہور شاعر احسان دانش سے اصلاح لیتے رہے۔

    صوفی صاحب کی نمازِ جنازہ داتا دربار، لاہور میں ادا کی گئی اور انھیں حضوری باغ کے قبرستان میں‌ سپردِ خاک کیا گیا۔

  • معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    معروف خطّاط یوسف دہلوی کی برسی

    خطّاطی اور خوش نویسی ایک قدیم فن ہے جس کی مختلف شکلیں‌ ہیں اور اسلامی خطّاطی کی بات کی جائے تو اس میں طغریٰ اور عام تحریری نمونے شامل ہیں۔ آج اسی فن کے حوالے سے معروف محمد یوسف دہلوی کی برسی ہے جو ایک ماہر خوش نویس اور استاد خطّاط تھے۔ یوسف دہلوی 11 مارچ 1977ء کو کراچی میں‌ ٹریفک حادثے میں‌ زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    یوسف دہلوی کے والد منشی محمد الدین جنڈیالوی بھی خوش نویس اور خطّاط تھے جنھوں نے 1932ء میں غلافِ کعبہ پر خطّاطی کا شرف حاصل کیا۔ یوسف دہلوی نے اپنے والد سے ہی ذوقِ خوش نویسی سمیٹا تھا۔ انھیں شروع ہی سے خوش خطی کا شوق ہوگیا تھا۔ یوسف دہلوی عہدِ شاہ جہانی کے مشہور خطاط، عبدالرشید دیلمی سے بہت متاثر تھے اور اسی کا مطالعہ کرتے ہوئے خود بھی اس فن میں ماہر ہوئے، انھوں نے اپنی اختراع اور اجتہادی صلاحیتوں سے کام لے کر ایک نیا طرز متعارف کروایا جسے دہلوی طرزِ نستعلیق کہا جاتا ہے۔

    محمد یوسف دہلوی 4 ستمبر 1894ء کو دہلی میں پیدا ہوئے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وزیراعظم لیاقت علی خان کے اصرار اور ڈاکٹر ذاکر حسین کی کوششوں سے یوسف دہلوی نے پاکستان کے کرنسی نوٹوں پر خطّاطی کی۔ بعدازاں ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور پاکستان کے سکّوں پر حکومتِ پاکستان کے خوب صورت طغریٰ کی تخلیق اور خطّاطی کا کام سرانجام دیا۔

    ریڈیو پاکستان کا مونوگرام جس پر قرآنی آیت دیکھی جاسکتی ہے، وہ بھی یوسف دہلوی کے موقلم کا نتیجہ ہے۔

  • صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    صادقین جنھیں‌ "قاف” نے خطاطی کا امام بنا دیا

    شہرہ آفاق مصور اور خطاط صادقین کی یہ رباعی پڑھیے۔

    ہیں قاف سے خطاطی میں پیدا اوصاف
    ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
    بن مقلہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
    ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف

    صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔ آج اس عجوبہ روزگار کی برسی ہے۔ صادقین نے 10 فروری 1987 کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ دی۔

    صادقین کی وجہِ شہرت اسلامی خطاطی ہے جسے انھوں‌ نے نئی جہات سے روشناس کیا۔

    انھوں‌ نے قرآنی آیات اور اشعار کو انفرادیت اور نزاکتوں سے کینوس پر اتارا ہے۔

     

    سید صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ 1930 میں امروہہ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے دادا خطاط تھے اور یہ خاندان اس فن کے لیے مشہور تھا۔

     

    ابتدائی تعلیم امروہہ میں‌ حاصل کی اور آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیم کے بعد پاکستان آئے اور یہ خاندان کراچی میں‌ بس گیا۔

    کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں‌ ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں‌ کی پہلی نمائش ہوئی۔

    صادقین کے فن کو سراہنے اور آرٹ کے شعبے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں‌ جہاں‌ انھیں‌ قومی اعزازات دیے گئے، وہیں‌ دنیا بھر میں‌ ان کے فن پاروں‌ کی نمائش کے ساتھ امریکا، یورپ سمیت کئی ملکوں‌ نے اپنے اعزازات ان کے نام کیے۔

    صادقین، سخی حسن قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔