Tag: پاکستانی سائنسدان

  • جنوبی کوریا کی حکومت نے پاکستانی سائنس دان کو صدارتی ایوارڈ سے نواز دیا

    جنوبی کوریا کی حکومت نے پاکستانی سائنس دان کو صدارتی ایوارڈ سے نواز دیا

    سیئول: جنوبی کوریا کی حکومت نے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر غلام علی کو صدارتی ایوارڈ سے نوازا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق جنوبی کوریا کی حکومت نے پاکستانی سائنس دان چیئرمین پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (پی اے آر سی) ڈاکٹر غلام محمد علی کو صدارتی ایوارڈ دیا ہے۔

    جنوبی کوریا کا قومی اعزاز ڈاکٹر غلام محمد علی کی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں خدمات کے اعتراف میں دیا گیا ہے، ایوارڈ دینے کی تقریب جنوبی کوریا کے شہر سیئول میں منعقد ہوئی تھی، جہاں وزیر اعظم ہین ڈک سو نے ڈاکٹر غلام محمد علی کو ایوارڈ سے نوازا۔

    جنوبی کوریا نے ڈاکٹرغلام محمد علی سمیت 20 بین الااقوامی شخصیات کو ایوارڈ دیے۔

  • پاکستانی سائنس دانوں کی کارکردگی، جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے 3 ایوارڈز دے دیے

    پاکستانی سائنس دانوں کی کارکردگی، جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے 3 ایوارڈز دے دیے

    اسلام آباد: پاکستانی سائنس دانوں کی کارکردگی پر جوہری توانائی کے عالمی ادارے نے 3 ایوارڈز پاکستان کے نام کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے زرعی سائنس دانوں کو 3 ایوارڈز دے دیے ہیں۔

    عالمی ادارہ برائے جوہری توانائی نے پاکستانی زرعی سائنس دانوں کو زرعی تحقیق کے شعبے میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈز سے نوازا، یہ ایوارڈز پلانٹ میوٹیشن بریڈنگ اور بائیو ٹیکنالوجیز میں اہم کامیابیوں پر دیے گئے۔

    ایوارڈز کے لیے اٹامک انرجی کے ایگری کلچر ریسرچ سینٹر ’نیو کلیئر انسٹی ٹیوٹ ایگری کلچر‘ کو منتخب کیا گیا، پی اے ای سی کے محمد کاشف ریاض خان کو ینگ سائنس دان ایوارڈ کے لیے منتخب کیا گیا۔

    نمایاں اچیومنٹ ایوارڈ منظور حسین، کاشف ریاض، سجاد حیدر، حافظ ممتاز حسین اور نیاب کے اللہ دتہ کو دیا گیا۔

    پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ترجمان نے کہا کہ یہ ایوارڈز ادارے کے معیاری تحقیق، تکنیکی مہارت اور عزم کا واضح ثبوت ہے۔ چیئرمین پی اے ای سی نے زرعی تحقیق میں کامیابیوں پر سائنس دانوں کو مبارک باد بھی دی۔

  • نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    نام ور پاکستانی سائنس داں آئی ایچ عثمانی کی برسی

    پاکستان کے نام وَر سائنس داں ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی 17 جون 1992ء کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    15 اپریل 1917ء کو پیدا ہونے والے عشرت حسین عثمانی نے بمبئی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے ایم ایس سی اور لندن کی جامعہ سے مشہور نوبیل انعام یافتہ سائنس داں جی پی ٹامسن کے زیرِ نگرانی اپنا پی ایچ ڈی مکمل کیا۔

    قیامِ پاکستان کے بعد انھوں نے سول سروس میں مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دیں جن میں سب سے اہم عہدہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی چیئرمین شپ تھا۔ ان کے دور میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی بنیاد رکھی گئی اور کراچی میں کینپ کا نیوکلیئر پاور پلانٹ نصب کیا گیا۔ 1972ء میں وہ وزارتِ سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیکریٹری مقرر ہوئے جو انہی کی تجویز پر قائم کی گئی تھی۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ستارۂ پاکستان اور نشانِ امتیاز عطا کیے تھے۔

    آئی ایچ عثمانی کراچی میں ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سائنسی تجربات کے دوران ہونے والے وہ حادثات جو دریافتوں کا سبب بنے

    سیب کے درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے نیوٹن کے سَر پر پھل گرنا ایک اتفاق تھا جس نے اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بھی وزنی شے تیزی سے زمین کی طرف ہی کیوں آتی ہے اور یوں‌ کششِ ثقل کا نظریہ اور ایک اہم ترین دریافت سامنے آئی۔

    اسی طرح‌ سائنس کی دنیا میں‌ کئی ایجادات اور دریافتیں ایسی جن کی بنیاد کوئی حادثہ تھا۔ انیسویں صدی میں‌ مختلف سائنسی تجربات کے دوران ایسے اتفاقی اور حادثاتی واقعات پیش آئے جنھوں‌ نے دریافتوں‌ اور انکشافات کا راستہ ہموار کیا۔

    انیسویں صدی تک نائٹرو گلیسرین کا استعمال عام تھا۔ یہ 1833 کی بات ہے جب الفریڈ نوبل اُن ممکنہ طریقوں‌ پر غور کررہا تھا جن کی مدد سے نائٹرو گلیسرین کو حادثاتی طور پر پھٹنے سے روکا جاسکے۔

    مشہور ہے کہ اس سے متعلق سوچ بچار اور تجربات کے دوران ہی ایک روز نائٹرو گلیسرین کا ایک کنستر لیک ہو گیا اور اس سے خارج ہونے والا مادّہ بغیر جلے لکڑی کے برادے میں جذب ہونے لگا۔ جب برادہ خشک ہو گیا تو الفریڈ نوبیل نے اسے آگ دکھائی اور وہ اپنی خاصیت کے مطابق پھٹ گیا۔

    یہ معمولی حادثہ نائٹرو گلیسرین کی جگہ مقامی اداروں‌ اور فوجی ضرورت کے لیے محفوظ اور کنٹرولڈ ڈائنا مائیٹ ایجاد کرنے کا سبب بنا۔

    1839 کی بات ہے جب کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے تجربہ گاہ میں ربڑ، سلفر اور سیسے کا آمیزہ تیار کیا اور وہ اچانک ان کے ہاتھ سے پھسل کر فائر اسٹوو پر جا گرا۔ اس معمولی حادثے نے دریافت اور ایجاد کا نیا راستہ کھول دیا۔

    کیمسٹ چارلس گڈ ائیر نے مشاہدہ کیا کہ آمیزہ پگھلنے کے بجائے ٹھوس شکل اختیار کر گیا ہے جس کی بیرونی سطح سخت اور اندرونی سطح نرم تھی۔ یوں حادثاتی طور پر دنیا کا پہلا ویلنکنائزنگ ٹائر بنا اور یہ آٹو موبائل کی صنعت کے لیے نہایت کارآمد اور مفید ثابت ہوا۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے 1928 میں انفلوئنزا وائرس کو کنٹرول کرنے کے لیے کام شروع کیا اور اس دوران اسے دو ہفتے کی رخصت پر جانا پڑا۔ وہ چھٹیوں‌ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ لیبارٹری کی جس ٹرے میں اس نے بیکٹیریا کلچر کیے تھے، اس پر پھپوند جم گئی ہے اور اس کا مطالعہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پھپوند نے بیکٹیریا کی افزائش روک دی تھی۔

    الیگزینڈر فلیمنگ نے اس مشاہدے اور تجربے کے بعد پھپوند کی ماہیت پر مزید کام کیا اور پنسلین جیسی دریافت ہوئی اور اینٹی بائیوٹک کا دور شروع ہوا۔

  • یادگار دن: پاکستان کا پہلا مصنوعی سیّارہ ’’بدر اوّل‘‘ خلا میں‌ پہنچا

    یادگار دن: پاکستان کا پہلا مصنوعی سیّارہ ’’بدر اوّل‘‘ خلا میں‌ پہنچا

    جولائی کی 16 تاریخ پاکستان کے لیے اہم اور یادگار اس لیے ہے کہ آج ہی کے روز وطنِ عزیز کے سائنس دانوں کی شبانہ روز محنت کے نیتجے میں پاکستان نے بدر اوّل کی صورت میں کام یاب تجربہ کیا تھا۔

    یہ 1990 کی بات ہے جب خلائی ٹیکنالوجی کے حصول کی ہماری خواہش کی تکمیل ہوئی اور پاکستان نے پہلا مصنوعی سیارہ ’’بدر اوّل‘‘ خلا میں چھوڑا۔

    بدر اوّل کا ڈیزائن پاکستان کے ماہرین نے تیار کیا تھا۔ یہ پاکستان کمیشن برائے خلائی و فضائی تحقیق (سپارکو) کے 30 سائنس دانوں کی محنت تھی اور اس کی تیاری میں ایک سال لگا تھا۔

    یہ مصنوعی سیارہ مختلف نظاموں پر مشتمل تھا جس کی تیاری پر اس زمانے میں تقریباً ڈھائی کروڑ روپے لاگت آئی تھی۔ بدر اوّل کی شکل دائرہ نما تھی۔ اس کے 26 رخ تھے۔ شمسی توانائی سے چلنے والا یہ سیارہ جدید الیکٹرانک نظام، زمینی مرکز سے معلومات حاصل کرنے، اسے محفوظ رکھنے اور آگے بھیجنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔

    یہ سیارہ پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق صبح 5 بج کر 50 منٹ پر بحرالکاہل میں فلپائن اور تائیوان کے درمیان مدار میں چھوڑا گیا جس نے ہر 98 منٹ میں زمین کے گرد اپنا چکر مکمل کیا۔

  • ڈاؤ یونی ورسٹی میں کرونا وائرس سے متعلق بڑی تحقیق

    ڈاؤ یونی ورسٹی میں کرونا وائرس سے متعلق بڑی تحقیق

    کراچی: ڈاؤ یونی ورسٹی کے ماہرین نے کرونا وائرس سے متعلق بڑی تحقیق کی ہے، ماہرین نے وائرس کی راہ میں مزاحم ہونے والے انسانی جین میں قدرتی تبدیلیوں کی موجودگی کا پتا لگا لیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے ماہرین نے انسانی جین میں قدرتی طور پر پائی جانے والی 2 ایسی تبدیلیوں کا پتا لگا لیا ہے جو نئے کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ جن انسانوں کی جین میں یہ تبدیلیاں پائی جاتی ہیں، کرونا وائرس ان کے جسم میں جا کر غیر مؤثر ہو سکتا ہے۔

    یہ تحقیق وائرولوجی کے بین الاقوامی جریدے جرنل آف میڈیکل وائرولوجی میں حال ہی میں شایع ہوئی ہے، تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ریسرچ کے نتیجے میں عالم گیر وبا کرونا وائرس کے لیے طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔ ڈاؤ یونی ورسٹی کے ماہرین کے مطابق اسکریننگ کے دوران لیے گئے ٹیسٹ سیمپل سے مذکورہ جییناتی تغیرات کی موجودگی کا بھی علم ہو سکتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق کسی انسان میں ان دونوں یا کسی ایک تبدیلی کی موجودگی کے باعث کرونا وائرس کی علامات میں شدت آنے کے امکانات کم ہو جائیں گے، اور وائرس غیر مؤثر ہوگا، اس صورت میں کرونا سے متاثرہ شخص کو محض گھر کے ایک کمرے میں آئسولیشن کی ضرورت ہوگی جب کہ دوسری صورت میں کرونا سے متاثرہ شخص کو دواؤں کے ساتھ اسپتال کے آئسولیشن وارڈ اور وینٹی لیٹر کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔

    ڈاؤ کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے وائس پرنسپل ڈاکٹر مشتاق حسین کی سربراہی میں کام کرنے والی طلبہ اور اساتذہ کی ٹیم نے اس سلسلے میں 1 ہزار انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کر کے معلوم کیا کہ اے سی ای ٹو (اینجیو ٹینسن کنوَرٹنگ انزائم 2) نامی جین میں ہونے والے 2 تغیرات ایس 19 پی اور ای 329 جی کرونا کی راہ میں مزاحم ہو سکتے ہیں کیوں کہ کرونا کا باعث بننے والا سارس کو وِڈ 2 انفیکشن کے ابتدائی مرحلے میں اے سی ای ٹو (اینجیو ٹینسن کنورٹنگ انزائم 2) سے ہی جا کر جڑتا ہے۔

    ریسرچ ٹیم، جس میں ڈاکٹر نصرت جبیں، فوزیہ رضا، ثانیہ شبیر، عائشہ اشرف بیگ، انوشہ امان اللہ اور بسمہ عزیز شامل تھے، نے ایکس ٹینسو اسٹرکچرل اور ڈاکنگ ٹیکنیکس کے ذریعے پیش گوئی کی ہے کہ مذکورہ اے سی ای ٹو میں قدرتی طور پر مذکورہ 2 تغیرات کی موجودگی نوول کرونا وائرس کی راہ میں مزاحم ہو سکتی ہے، اس تحقیق سے اس کی تشخیص اور علاج کی امکانی راہ تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ طبی وسائل کا بہتر تعین کرنے میں بھی مدد ملے گی۔

    ریسرچ ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر مشتاق حسین نے بتایا کہ ڈیٹا مائننگ میں جن انسانی جینوم کی ڈیٹا مائننگ کی گئی ان میں چین، لاطینی امریکا اور بعض یورپی ممالک شامل تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مذکورہ تجزیے میں اے سی ای ٹو میں مذکورہ تغیرات کی شرح نہایت کم پائی گئی۔ یاد رہے کہ مذکورہ ممالک کرونا وائرس سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس تحقیق سے عالمی وبا کرونا وائرس کے لیے طبی وسائل کے تعین میں مدد ملے گی۔

    ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے ریسرچ ٹیم کے سربراہ اور اراکین سے ملاقات کر کے ان کی کاوشوں کو سراہا اور بروقت ریسرچ اور اس کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر مبارک باد پیش کی۔ انھوں نے کہا کہ ڈاؤ یونی ورسٹی میں کو وِڈ نائنٹین کے متعلق مختلف پہلوؤں سے ریسرچ ہو رہی ہے اور ان کے مثبت نتائج بھی حاصل ہو رہے ہیں، توقع ہے کہ اس عالمی وبا سے انسانوں کو بچانے کی یہ کوششیں کامیابی سے ہم کنار ہوں گی۔

  • سی اے اے نے پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑے جانے کا نوٹس لے لیا

    سی اے اے نے پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑے جانے کا نوٹس لے لیا

    کراچی: سول ایوی ایشن اتھارٹی نے پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر فیصل کا پاسپورٹ ملتان ایئرپورٹ پر پھاڑے جانے کا نوٹس لے لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے عملے کی جانب سے پاکستانی سائنس دان کے کھانسنے پر پاسپورٹ پھاڑنے کے معاملے کا سی اے اے نے نوٹس لے لیا، ایف آئی اے نے تحقیقات بھی شروع کر دی اور اے ایس ایف سے تفصیلات اور فوٹیج طلب کر لی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق یہ واقعہ 19 دسمبر کو ملتان ائیرپورٹ پر پیش آیا تھا، ڈاکٹر فیصل اپنی فیملی کے ہم راہ عمرے سے واپس پاکستان پہنچے تھے، نوجوان سائنس دان کی کھانسی کو ایف آئی اے عملے نے اپنی شان میں گستاخی سمجھا، اور تلخ کلامی پر امیگریشن عملے نے ان کے پاسپورٹ سے ویزے والا صفحہ پھاڑ کر پاسپورٹ منہ پر مارا جس سے ان کی آنکھ کے اوپر نشان بھی بنا۔

    ایف آئی اے عملے نے کھانسنے پر پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑ دیا

    ڈاکٹر فیصل کا مؤقف تھا کہ کھانستے وقت منہ پر ہاتھ نہ رکھنا عملے کو اتنا ناگوار گزرا کہ ان کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا، وہ بخار کی حالت میں تھے اس لیے کھانسی آئی تومنہ پر ہاتھ نہ رکھ سکے تھے۔

    بعد ازاں، ڈاکٹر فیصل نے ایئر پورٹ پر پیش آنے والے واقعے کو سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا، وہ حال ہی میں جرمنی سے پی ایچ ڈی مکمل کر کے وطن لوٹے تھے، فیملی کے ہم راہ عمرہ بھی ادا کیا، جس سے واپسی پر ناخوش گوار واقعہ پیش آیا۔

  • ایف آئی اے عملے نے کھانسنے پر پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑ دیا

    ایف آئی اے عملے نے کھانسنے پر پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑ دیا

    ملتان: پنجاب کے شہر ملتان میں ایئر پورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر پر عملے نے کھانسنے پر پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑ دیا۔

    تفصیلات کے مطابق ملتان ایئر پورٹ پر امیگریشن کاؤنٹر پر نوجوان سائنس دان ڈاکٹر فیصل کو ڈیوٹی عملے کی شان میں گستاخی کی بھاری سزا بھگتنی پڑی، کھانستے وقت منہ پر ہاتھ کیوں نہیں رکھا، یہ بات عملے کو اتنی ناگوار گزری کہ ایف آئی اے عملے نے مسافر کا پاسپورٹ ہی پھاڑ دیا۔

    نوجوان سائنس دان ڈاکٹر فیصل حال ہی میں جرمنی سے پی ایچ ڈی مکمل کر کے وطن لوٹا تھا، اس سے قبل انھوں نے فیملی کے ساتھ عمرے کی سعادت بھی حاصل کی، گزشتہ روز ملتان ایئر پورٹ پر اترنے کے بعد عملے کے ساتھ معمولی بات پر تلخ کلامی ہوئی جس کا نتیجہ پاسپورٹ پھاڑے جانے کی صورت میں نکلا۔

    تازہ ترین:  سی اے اے نے پاکستانی سائنس دان کا پاسپورٹ پھاڑے جانے کا نوٹس لے لیا

    ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ وہ بخار کی حالت میں تھے، کھانسی آئی تو منہ پر ہاتھ نہ رکھ سکے، جس پر امیگریشن کاؤنٹر پر موجود اہل کار نے پہلے پاسپورٹ ان کے منہ پر مارا، جب اس رویے پر احتجاج کیا گیا تو مزید اہل کار آگے بڑھے اور ان پر تشدد کی بھی کوشش کی، اس کے بعد ایف آئی اے اہل کاروں نے پاسپورٹ چھین کر ویزے والا صفحہ پھاڑ دیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے امریکا میں حال ہی میں ریسرچ سائنٹسٹ کی پوزیشن حاصل کی ہے، اور انھیں امریکا جانا ہے لیکن یہاں ایئرپورٹ عملے نے ان کا پاسپورٹ ہی پھاڑ دیا ہے۔