Tag: پاکستانی سنیما

  • فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم بنانا کھیل نہیں!

    فلم یوں تو کھیل ہے، لیکن اس کا بنانا کھیل نہیں۔ ارادے اور روپ ریکھا سے لے کر فلم بنانے تک بیچ میں بیسیوں، سیکڑوں ایسی رکاوٹیں آتی ہیں کہ بڑے دل گردے والا آدمی بھی دم توڑ سکتا ہے۔

    سوشل فلم باقی دوسری فلموں سے الگ نہیں، لیکن زیادہ مشکل اس لیے ہے کہ سماج مختلف قسم کا ہے۔ کئی مذہب، نسل، صوبے، بولیاں ٹھولیاں ہیں۔ جمہوری نظام نے انفرادی طور سے سب کو بنیادی حقوق دے رکھے ہیں اور مجموعی طور پر برابری کے حقوق۔ کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ میں ان حقوق کے خلاف ہوں، لیکن ایک بات ضرور ہے کہ انفرادی اور اجتماعی طور سے ابھی میرے بھائیوں کو ان حقوق کا استعمال کرنا نہیں آتا۔

    مجھے یاد ہے، جب میں نے فلم ’مرزا غالب‘ لکھی تو اوّل اور آخر ہمارے سامنے مقصد یہ تھا کہ دیش کے کونے کونے میں مرزا غالب کا کلام گونجے۔ لوگ ان کے خیالات اور ان کی شاعری کی عظمت سے روشناس ہوں۔ کہانی تو ایک بہانہ ہوتی ہے، جس کی مدد سے آپ اس عہد کے سماج کی پرچھائیاں قلم بند کرتے ہیں۔ چنانچہ بہادر شاہ ظفر کہتے ہیں، ’’آواز اٹھی اور نہ آنسو بہے۔ شہنشاہ ہند کی حکومت جمنا کے کنارے تک رہ گئی۔‘‘

    مغل عہد ختم ہو رہا تھا اور برٹش سامراجیت دھیرے دھیرے اپنے پنجے پھیلا رہی تھی۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ مرزا صاحب جب جیل سے رہا ہو کر اپنی محبوبہ کے یہاں آتے ہیں اور دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کوئی جواب نہیں آتا۔ اس وقت وہ ایک سادہ مگر دکھ بھرے جملے میں اس عہد کا پورا نقشہ کھینچ دیتے ہیں، ’’ارے کہاں ہو دلّی والو۔۔۔؟ دن دہاڑے ہی سو گئے؟‘‘ اس پر بھی کچھ لوگوں کو سوجھی کہ مرزا صاحب کی عشقیہ زندگی کیوں پیش کی گئی؟ جیسے وہ انسان نہیں تھے، ان کے دل نہیں تھا۔ وہ کتنے دل والے تھے، ان کے خطوط پڑھ کر پتا چلتا ہے۔

    تاریخی فلموں کا ذکر محض تذکرہ ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ کسی نہ کسی طرح سماجک پہلو لیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کا کیا کیا جائے کہ اس کے ساتھ کسی نہ کسی مقصد کا اشارہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مہاراج رنجیت سنگھ کے بارے میں فلم بنانا آسان نہیں ہے۔ حقیقت سے متعلق دو مؤرخوں کی رائے آپس میں نہیں ملے گی۔ پھر وہ مقصد ان کی زندگی کے انفرادی پہلو کو فلم کے پردے پر نہیں لانے دے گا۔ آپ کو کئی اداروں سے کلیرنس حاصل کرنا ہوگا اور جب وہ حاصل ہوگا تو اسکرپٹ کی شکل بالکل بدل چکی ہوگی، جس میں آپ اپنا چہرہ پہچان ہی نہیں پائیں گے۔ کچھ اس قسم کی باتیں ہو جائیں گی۔ آپ بہت اچھے ہیں، میں بھی بہت اچھا ہوں۔ تندرستی ہزار نعمت ہے، وغیرہ وغیرہ اور اگر آپ ان کے شکوک کے خلاف جائیں گے تو مورچے لگیں گے، آپ کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی اور آپ گھر کے باہر نہیں نکل سکیں گے۔

    آپ زیبُ النساء کے بارے میں فلم نہ ہی بنائیں تو اچھا ہے، کیونکہ وہ اورنگ زیب کی بیٹی تھی اور اس لیے سیزر کی بیوی کی طرح تمام شکوک اور شبہوں سے اوپر۔ عاقل خان گورنر ملتان سے ان کی محبت کو نہ صرف مشکوک سمجھا جائے گا، بلکہ اس کی صحت، میرا مطلب ہے، قصے کی صحّت کو بیہودہ قرار دیا جائے گا۔ آپ دور کیوں جاتے ہیں، حال ہی میں ستیہ جیت رے نے، جنہیں دنیا ایک بڑے ڈائریکٹر کی حیثیت سے مانتی ہے، ایک فلم بنائی جس میں ایک نرس دکھائی گئی جو اپنے گھر کے حالات سے مجبور ہو کر رات کو دھندا کرتی ہے۔ اب وہ ایک انفرادی بات تھی جس کا اجتماعی طور پر نرس پیشہ عورتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پر اس پر بھی ہنگامہ برپا ہو گیا۔ نرسوں نے آندولن چلایا اور شری رائے کو ان سے معافی مانگنی پڑی۔ میں پوچھتا ہوں کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ایک طرف لوگ مرزا غالب، اور ’سنسکار‘ جیسی فلموں کے خلاف مظاہرے کرتے ہیں اور دوسری طرف بھارت سرکار انہیں سال کی بہترین فلم قرار دیتی ہے۔ اس کے بنانے والے کو راشٹر پتی اپنے ہاتھوں سے سورن پدک اور مان پتر پیش کرتے ہیں۔

    ساماجک فلم اپنے یہاں بنانے میں اپنے یہاں دیش کے حالات بہت آڑے آتے ہیں۔ مختلف گروہ، قومیں اور مقصد تو ایک طرف، خود سرکار بھی اس گناہ سے بری نہیں۔ مثال کے طور پر سرکار کی پالیسی اہنسا ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجیے گا کہ کئی ہنسا استعمال کرنے والوں کو ہم نے اپنا رہنما مانا ہے، ان کے سامنے سر جھکایا ہے اور اس کے سہرے گائے ہیں۔ میں شہید بھگت سنگھ کی مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ شہید بھگت سنگھ اوّل اور آخر کرانتی کاری تھے، وہ من سے سوشلسٹ تھے اور ان کا نظریہ تھا کہ طاقت کے استعمال کے بنا برٹش سامراجیہ کا تختہ الٹنا ممکن نہیں ہے۔ اب آپ ان کے بارے میں فلم بنائیں تو دوسری طرف ان کے اسمبلی میں بم پھینکنے کے واقعے کو یا تو چھوڑ دینا ہوگا اور یا پھر اس کا بیان یوں کرنا ہوگا کہ وہ صرف سامراجیہ کو چونکانا چاہتے تھے۔

    تبھی ایک اندرونی تضاد پیدا ہو جائے گا۔ کیا لاہور میں سپرنٹنڈنٹ پولیس سانڈرس کی ہتیا بھی انہوں نے انگریزوں کو چونکانے کے لیے کی تھی؟ اگر آپ ان واقعات کو ایسے ہی دکھائیں گے جیسے کہ وہ واقع ہوئے تو آپ حملوں کا نشانہ بنیں گے، کیونکہ ملک میں کئی ایسے گروہ ہیں جو گولی بندوق میں یقین رکھتے ہیں اور سرکار کی پالیسی ایسی ہے کہ وہ دھماکہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ورنہ ان کروڑوں نوجوانوں کا کیا ہوگا جو دن رات یونیورسٹی کیمپس میں اودھم مچاتے رہتے ہیں۔

    سوشل فلم بناتے وقت ہم ہر ہر قدم پر ایسے بیسیوں خطروں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آپ قومی ایکتا پر فلم بنا رہے ہوں تو آپ میں ہمت نہیں ہوگی کہ رانچی، بھیونڈی اور مالیگاؤں کے واقعات کو ان کی صحیح صورت میں پیش کر سکیں، کیونکہ ان میں ایک مذہب یا قوم کے لوگوں نے دوسرے پر وحشیانہ ظلم ڈھائے تھے۔ آپ ہندو مسلم فساد دکھاتے ہیں تو آپ کے لیے ضروری ہے کہ جہاں دو ہندو مرے ہوں وہاں دو مسلمان مار کے دکھائیں۔ اس پر بھی نہ ہندوؤں کی تسلی ہوگی نہ مسلمانوں کی۔ دونوں آپ سے ناخوش، دونوں ناراض اور اس پر آپ کو سینسر سرٹیفکیٹ لینے میں تکلیف ہوگی۔

    نوجوانوں کے بارے میں فلم بنائیے تو صرف یہیں تک پہنچیے کہ بڑوں کا عشق، عشق تھا اور چھوٹوں کی محبت بدنامی اور بدکاری۔ اُسے ’اُچت‘ مت لکھیے کہ شری مدبھا گوت سے لے کر اب تک استری اور پرشوں کے بیچ کیا کیا گردانیں ہوئیں۔ صرف اتنا ہی کافی ہے کہ چند مصیبتوں میں پڑے بڑوں کے پاس کوئی وقت نہیں ہے۔ وہ انہیں سیاسی اور رہنما نہیں سمجھتے اور اگر سمجھتے ہیں تو اپنے ہی الٹے معنی پہناتے ہیں۔

    سوشل فلم بنانے والے کی حیثیت اس عورت کی طرح ہے جو غرارہ پہنے ہوئے کسی پارٹی میں گئی اور جب لوٹی تو برسات ہو چکی تھی اور گھر کے سامنے پانی ہی پانی تھا۔ اس کے مرد نے سر والٹر ریلے کی طرح راستے میں اینٹیں اور سلیں رکھ دیں اور وہ غرارے کو سنبھالتی ہوئی چلی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ ایک اینٹ ٹیڑھی رکھی ہوئی ہے۔ وہ دھپ سے پانی میں گری۔۔۔ غرارے سمیت! ساودھانی اُسے لے ڈوبی۔

    نا بابا۔ ساماجک فلم بنانے میں بڑی جوکھم ہے۔ چاروں طرف سے آپ ننگے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بدن پر کھال بھی نہیں اور نمک کی کان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ فلمیں ساماجک اور دوسری کن حالات میں بنتی ہیں، اس کا آپ کو اندازہ نہیں۔ نام کی ہمیں پوری آزادی ہے مگر اس کے بعد جو مراحل پیش آتے ہیں، اس عالم میں مجاز کا شعر یاد آ جاتا ہے،

    حدیں وہ کھینچ رکھی ہیں حرم کے پاسبانوں نے
    کہ بن مجرم بنے پیغام بھی پہنچا نہیں سکتا

    (اردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار اور فلمی مکالمہ نویس راجندر سنگھ بیدی کے ایک مضمون سے اقتباسات)

  • ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    ‘’بے قرار‘ اپنے وقت سے بہت آگے کی فلم تھی!’

    متحدہ ہندوستان میں تھیٹر کے بعد ناطق فلموں کا دور شروع ہوا تو شائقین اس کے دیوانے ہوگئے۔ اس وقت سماجی موضوعات پر نہایت معیاری اور شان دار فلمیں‌ بنائی گئیں۔ اس دور کے سنیما نے ہندوستان کے لوگوں میں سماجی شعور اجاگر کیا اور ملک کے مختلف طبقات کی بہترین اور مؤثر ترجمانی کی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ سلسلہ پاکستان اور بھارت میں‌ زیادہ عرصہ جاری نہ رہ سکا اور پھر رشتوں‌ کا اتار چڑھاؤ، رومانس اور مار دھاڑ فلموں میں عام ہوگئی۔ کئی فلم ساز اور ہدایت کار مایوس ہو کر فلم انڈسٹری سے دور ہوگئے۔

    پاکستانی سنیما کی بات کی جائے تو یہاں بھی بامقصد فلمیں بنائی گئیں اور بڑا کام ہوا لیکن ایسی فلمیں‌ ناکام ہونے لگیں اور مالی خسارے نے کئی بڑے اور باکمال فلم سازوں، ہدایت کاروں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ یہاں ہم سینئر صحافی، مصنّف اور محقق عارف وقار کی ایک تحریر بعنوان ‘جب پہلی بامقصد فلم بنی’ سے چند پارے نقل کررہے ہیں‌ جس میں انھوں نے پاکستان کی پہلی بامقصد فلم کا ذکر کیا ہے اور اس فلم کے ذریعے کسانوں‌ کو پیغام دیا گیا تھا کہ زیادہ اناج اگانا ہماری ضرورت ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    "میرے بچپن میں ریڈیو سے دو گانے بڑی کثرت سے بجا کرتے تھے:

    دِل کو لگا کے کہیں ٹھوکر نہ کھانا
    ظالم زمانہ ہے یہ ظالم زمانہ

    اور انھی گلوکاروں کی آواز میں ایک اور دو گانا بھی مشہور تھا:

    او پردیسیا بُھول نہ جانا

    میں عرصہ دراز تک انھیں کسی بھولی بسری ہندوستانی فلم کے گیت سمجھتا رہا لیکن کالج کے زمانے میں پہنچ کر پتہ چلا کہ گانے والے علی بخش ظہور اور منّور سلطانہ ہیں اور یہ پاکستانی فلم ’ بے قرار ‘ کے گانے ہیں جو کہ 1950 میں بنی تھی۔

    آج فلم بے قرار کے بارے میں سوچتا ہوں تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان کی پہلی بامقصد فلم تھی اور اس کا مقصد ملک کے کسانوں کو یہ باور کرانا تھا کہ زیادہ اناج اگانا اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔

    فلم میں ایک غریب کاشت کار گندم کی بہتر پیداوار حاصل کر کے حکومت کے انعام و اکرام کا حق دار ٹھہرتا ہے اور اس طرح زمین دار کے عیاش بیٹے کی دشمنی مول لے لیتا ہے۔ یہ دشمنی بعد میں رانی نام کی لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے ایک چیلنج کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

    فلم کے مصنف اور ہدایت کار نذیر اجمیری تھے جنھوں نے خاموش دور میں ایک اداکار کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا اور بعد میں ایک اسکرپٹ رائٹر کے طور پر فلم انڈسٹری میں اپنا مقام مستحکم کر لیا تھا۔

    پاکستان آنے سے پہلے انھوں نے بمبئی میں فلم ’ مجبور‘ بنائی تھی جِس میں پہلی بار لتا منگیشکر کو واحد آواز میں گانے کا موقع ملا تھا ( اس سے پہلے وہ صرف کورس میں گاتی رہی تھیں)۔

    نذیر اجمیری کے ساتھ ماسٹر غلام حیدر بھی پاکستان آگئے تھے اور دونوں نے ایس گُل کے اشتراک سے ایک فلم کمپنی شروع کی اور یوں فلم ’بے قرار‘ وجود میں آئی جس کے ہیرو خود ایس گُل تھے اور موسیقی ماسٹر غلام حیدر نے مرتب کی تھی۔

    اس فلم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اپنے وقت سے بہت آگے تھی۔ شاید اسی لئے اچھے موضوع اور دل کش موسیقی کے باوجود یہ کاروباری طور پر نا کام رہی۔ البتہ اس کے ایک برس بعد بننے والی پنجابی فلم ’چن وے‘ نے کاروباری سطح پر تہلکہ مچا دیا۔”

    چن وے کے بارے میں‌ عارف وقار لکھتے ہیں:

    چن وے 24 مارچ 1951 کو لاہور کے ریجنٹ سنیما میں ریلیز ہوئی اور عوام نے عرصہ دراز کے بعد کسی سینما پر لمبی قطاروں اور دھینگا مشتی کی مناظر دیکھے۔ ’جُگنو‘ کے چار برس بعد نور جہاں کی کوئی فلم سامنے آئی تھی اور لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے قرار تھے۔

    چن وے کی سب سے اہم بات یہ تھی کہ اسے خود نور جہاں نے ڈائریکٹ کیا تھا اور اساطیرِ لالی وُڈ میں تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس کا میوزک بھی نور جہاں نے خود ہی دیا تھا اور فیروز نظامی محض نام کے موسیقار تھے۔ تاہم وفات سے کچھ عرصہ قبل لندن میں اپنے ایک طویل انٹرویو کے دوران نور جہاں نے ان قصّوں کی تردید کرتے ہوئے راقم کو بتایا کہ فیروز نظامی اپنے فن کے ماہر تھے، وہ موسیقی کے تمام اسرار و رموز سے واقف تھے اور چن وے کی ساری دُھنیں ان کے ذاتی کمالِ فن کا نتیجہ تھیں۔

    چن وے کی کام یابی میں اس کے گیتوں کا بڑا دخل تھا۔ اور گیت بھی ایک سے بڑھ کر ایک تھے:

    تیرے مکُھڑے دا کالا کالا تِل وے
    میرا کڈھ کے لے گیا دِل وے
    وے منڈیا سیالکوٹیا!

    پنجاب کی سڑکوں پہ ہر من چلا یہ گیت گنگناتا پھرتا تھا۔ لیکن نور جہاں کے فن کی پختگی اور گلے کا ریاض اُس گانے میں نظر آتا ہے جس کے بول ہیں:

    ’چن دیا ٹوٹیا وے دِلاں دیا کھوٹیا‘

    ’تان پلٹے‘ کے جو کرتب نور جہاں نے اس گیت میں دکھائے شاید انھی کے پیشِ نظر یہ افواہ اڑی تھی کہ اس فلم کا میوزک بھی نور جہاں نے خود دیا ہے۔ چن وے کے گیت پاپولر شاعر ایف۔ ڈی شرف نے لکھے تھے جو قریبی حلقوں میں ’ بھا شرف ‘ کے نام سے معروف تھے اور قبل ازیں کلکتے میں بننے والی کئی پنجابی فلموں کے گانے اور مکالمے لکھ چکے تھے۔”

  • یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    یٰسین گوریجہ: پاکستانی سنیما کا مستند مؤرخ اور معتبر وقائع نگار

    گزشتہ ایک صدی کے دوران سائنسی ایجادات کی بدولت داستان گوئی، نوٹنکی، کہانی یا کھیل کو عام لوگوں کی دل چسپی اور تفریح‌ کے لیے پیش کرنے کا طریقہ بھی بدل گیا اور برصغیر کی بات کی جائے تو سنیما اسکرین نے فن اور ثقافت کی دنیا میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ پاکستانی سنیما کو دیکھیں‌ تو اس کے عروج کے زمانے میں پاکستان میں‌ فلمی صحافت اور تاریخ قلم بند کرنے کا بھی آغاز ہوا۔

    متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد پاکستان میں‌ بھی روزناموں میں فلمی دنیا کی خبریں، اشتہارات، فلمی صنعت سے متعلق مختلف اعلانات وغیرہ شایع ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی فلمی پرچے بازار میں آتے اور بہت سے فلمی جرائد بک اسٹالوں پر پہنچتے اور ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے۔ یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد ہی شروع ہوگیا تھا جس میں پاکستان کے واحد فلمی مؤرخ کے طور پر یٰسین گوریجہ کا نام لیا جاتا ہے۔ گوریجہ صاحب نے 26 دسمبر 2005ء کو اس جہانِ فانی کو خیر باد کہا تھا۔ یٰسین گوریجہ کی مرتب کردہ فلمی تاریخ اور ان کے لکھے ہوئے فلمی ستاروں‌ اور دیگر شعبہ جات سے وابستہ شخصیات کی باتیں یادیں، کہانیاں اور ذاتی زندگی کے کئی دل چسپ، رنگین اور بعض سنگین مگر یادگار واقعات اور قصّے بھی مستند مانے جاتے ہیں۔

    معروف صحافی اور مصنّف عارف وقار لکھتے ہیں‌ کہ فلمی صحافت سے اُن (گوریجہ) کا تعلق قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اُن کا دائرۂ کار ایکٹرسوں کے اسکینڈل تلاش کرنے یا کسی ہیرو کے تازہ ترین معاشقے کا کھوج لگانے سے بالکل مختلف تھا اور وہ فلمی دنیا کے ایک ایسے وقائع نگار بن گئے تھے جِن کے لکھے ہوئے روزنامچے مستقبل کے فلمی مورّخ کے لیے مستند اور موقّر ترین مواد فراہم کریں گے۔

    یٰسین گوریجہ نے 1966 میں پاکستان کی فلمی ڈائری مرتب کرنا شروع کی تھی جو ایک قسم کی Year Book ہوتی تھی اور اس میں یہاں کی فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر شخص اور ادارے کا نام، پتہ اور فون نمبر موجود ہوتا تھا۔ سال بھر کے دوران بننے والی فلموں کی فہرست اور ہر فلم کی ضروری تفصیل بھی اُس میں درج ہوتی تھی۔ اس کی سالانہ اشاعت میں کئی بار رخنہ بھی پڑا لیکن زود یا بدیر اس کا نیا ایڈیشن ضرور شائع ہو جاتا تھا۔

    کچھ عرصہ بعد یٰسین گوریجہ نے 1947 سے لے کر تاحال بننے والی تمام فلموں کی تفصیل جمع کر لی اور اسے اپنی ڈائریکٹری میں شائع کیا۔ بعد کے ایڈیشنوں میں انھوں نے قیامِ پاکستان سے پہلے بننے والی فلموں کی تفصیل بھی اکھٹی کر لی اور اس طرح ڈائریکٹری کے موجودہ ایڈیشن میں 1913 میں بننے والی ہندوستان کی اوّلین فلم سے لیکر 1947 تک بننے والی تمام انڈین فلموں کی تفصیل درج ہے جب کہ 1947 کے بعد صرف پاکستانی فلموں کا احوال ہے جو کہ دسمبر 2002 تک چلتا ہے۔

    عارف وقار مزید لکھتے ہیں‌، اس ڈائریکٹری کے علاوہ یٰسین گوریجہ نے ہفت روزہ نگار میں اپنی فلمی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ بھی شروع کیا تھا جو بعد میں کتابی شکل میں ڈھل گیا اور ’لکشمی چوک‘ کے نام سے میّسر ہے۔ اس میں پاکستان کی فلمی تاریخ کے بہت سے اہم واقعات درج ہیں جوکہ مُصنّف نے چشم دید صورت میں رقم کیے ہیں۔ نورجہاں کی زندگی اور فن پر اُن کی کتاب کسی تعارف کی محتاج نہیں اور فلمی حلقوں سے باہر بھی داد وصول کر چکی ہے۔

    یٰسین گوریجہ یقیناً پاکستان کی چلتی پھرتی فلمی تاریخ تھے۔ آخری عمر تک حافظہ اتنا شان دار تھا کہ کسی بھی پرانی فلم کا سنِ تکمیل یا کاسٹ کی تفصیل وہ زبانی بتا دیتے تھے۔ اُن کے پاس پرانی فلمی تصویروں اور پوسٹروں کا بہت بڑا خزانہ تھا۔ پچھلے برس (غالباً زندگی کے آخری سال میں) جاپان سے ایک ٹیم آئی جو پوسٹروں کے فن پر ایک دستاویزی فلم بنا رہی تھی۔ یٰسین گوریجہ کے دفتر میں نایاب پوسٹروں کا ڈھیر دیکھ کر وہ سب لوگ انگشت بدنداں رہ گئے۔ ٹیم کی لیڈر خاتون نے گوریجہ مرحوم سے اجازت لی کہ اُن کی کتاب ’لکشمی چوک‘ کا انگریزی اور جاپانی زبانوں میں ترجمہ کیا جائے اور باہر کی دنیا کو یہاں کی گم نام فلم انڈسٹری سے متعارف کرایا جائے۔

    یٰسین گوریجہ 1926ء میں پیدا ہوئے تھے۔ وہ 21 برس کے تھے جب قیامِ‌ پاکستان کے بعد ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ یٰسین گوریجہ کی وفات کے بعد ان کی ڈائری کے کچھ حصّے سامنے آئے اس میں تحریروں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خودنوشت کا مواد بھی اکٹھا کررہے تھے، لیکن یہ کام مکمل نہ کرسکے۔ ڈائری میں ایک جگہ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی دور اور تعلیم کا ذکر کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ ان کی نظر میں تقسیم سے پہلے معاشرہ کیسا تھا اور بٹوارے کے بعد نفرت اور دوریوں کو وہ کیسا دیکھتے ہیں:

    ’آج کے دور میں جب کہ ہندوؤں کو دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور یہ محض اس لیے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کا مسئلہ ہے ورنہ میں نے جو بیس سال ہندوؤں میں گزارے۔ آریہ ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ اسکول میں دس سال تک تعلیم حاصل کی۔ زیادہ تر دوست ہندو اور سکھ لڑکے ہی تھے، لیکن کسی قسم کا بغض یا نفرت کا جذبہ نہ تھا۔ اوم پرکاش میرا کلاس فیلو تھا۔ خالص پنڈت اور برہمن گھرانہ۔ لیکن میں ہر وقت ان کے گھر کھیلتا کودتا رہتا۔ بالکل بھائیوں جیسا پیار۔ لچھمن داس، گوبندرام، جیوتی پرکاش، رام پرکاش، جگدیش چندر، گوردیال سنگھ اب کتنے نام دہرائے جائیں۔ ان کے گھروں میں آنا جانا۔ ان کے ماں باپ بھی ہمیں اولاد کی طرح سمجھتے‘۔ٰ

    یٰسین گوریجہ کی فلم ڈائریکٹری کو ان کا ایک کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں سال بھر کی فلموں کا مفصل احوال اور فلمی دنیا سے تعلق رکھنے والے ہر اہم شخص کے بارے میں مکمل معلومات ہوتی تھیں۔ ابتدائی ایڈیشنوں میں 1948 کے بعد کی تمام پاکستانی فلموں کا مختصر احوال اور بعد میں ماضی کی طرف 1931 تک یعنی اوّلین متکّلم فلم سے لے کر دورِ جدید تک تمام پاکستانی فلموں کا بنیادی ڈیٹا اس میں شامل کر لیا گیا۔

    پاکستانی سنیما کے اس واحد وقائع نگار کا بہت سا کام ان کی زندگی میں شایع نہ ہوسکا لیکن گوریجہ صاحب کے جانشین طفیل اختر صاحب نے ان کی متعدد کتابیں تدوین اور ترتیب کے عمل سے گزار کر شایع کروائی ہیں۔ پاکستانی سنیما کی پچاس سالہ تاریخ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے جسے مصنّف نے دس دس برس کے پانچ ادوار میں تقسیم کیا تھا اور 1947 سے 1997 پر محیط عرصہ ہے۔

  • جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    جنگجو ہیرو اور شفیق انسان لالہ سدھیر کی یاد ستا رہی ہے

    لالہ سدھیر نے زندگی کی متعدد دہائیاں فلم انڈسٹری کے نام کیں اور سنیما بینوں کے دلوں پر راج کیا۔

    خاص طور پر میدانِ جنگ میں اپنے کردار کو نبھاتے ہوئے انھوں نے اپنے مداحوں کو ایسا متأثر کیا کہ جنگجو ہیرو کے نام سے مشہور ہو گئے۔

    آج اس اداکار کی 23 ویں برسی ہے۔

    پاکستان کے پہلے ایکشن ہیرو کی حیثیت سے نام بنانے والے سدھیر کا اصل نام شاہ زمان تھا، مگر سنیما نے انھیں سدھیر بنا دیا۔ فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے اس باکمال اداکار کو عزت اور احترام سے لالہ سدھیر پکارا جانے لگا۔ وہ نہایت شفیق اور محبت کرنے والے انسان تھے۔

    لاہور میں 1922 کو پیدا ہونے والے سدھیر نے قیامِ پاکستان کے بعد پہلی فلم ہچکولے میں کام کیا اور اس کے بعد فلم دوپٹہ نے انھیں شہرت دی۔ اس فلم میں ان کے ساتھ نورجہاں نے کام کیا تھا۔ 1956 میں فلم ماہی منڈا اور یکے والی وہ فلمیں تھیں جنھوں نے سدھیر کی شہرت کو گویا پَر لگا دیے۔

    وہ اپنے وقت کی مشہور ایکٹریسوں نور جہاں، مسرت نذیر، صبیحہ خانم، آشا بھوسلے، لیلیٰ، زیبا، دیبا، شمیم آرا، بہار بیگم اور رانی کے ساتھ کئی فلموں میں ہیرو کے روپ میں نظر آئے اور شائقین نے انھیں پسند کیا۔

    کرتار سنگھ، بغاوت، حکومت، ڈاچی، ماں پتر، چٹان، جانی دشمن اور کئی فلمیں ان کی شہرت اور نام وری کا سبب بنیں۔

    19 جنوری 1997 کو لالہ سدھیر نے اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔