Tag: پاکستانی سیاست

  • چیمپئنز ٹرافی: پاک بھارت ٹاکرے کا رنگ پاکستانی سیاست پر بھی چڑھ گیا

    چیمپئنز ٹرافی: پاک بھارت ٹاکرے کا رنگ پاکستانی سیاست پر بھی چڑھ گیا

    چیمپئنز ٹرافی میں آج روایتی حریفوں پاکستان اور بھارت مدمقابل ہیں اس بڑے مقابلے کا رنگ پاکستانی سیاستدانوں پر بھی چڑھ گیا ہے۔

    آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں آج میزبان اور دفاعی چیپمپئن پاکستان اپنے روایتی حریف بھارت کے خلاف دبئی کے اسٹیڈیم میں میدان میں اتر رہا ہے۔ پاک بھارت میچ کی گرم جوشی نے صرف عام شائقین نہیں بلکہ سیاست کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

    پاکستانی وزرا اور سیاستدانوں نے قومی ٹیم کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔
    وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آج پاک بھارت میچ ہے جس میں ہماری نیک خواہشات اپنی قومی ٹیم کے ساتھ ہیں۔ کھلاڑی جم کر اور کھل کر کھیلیں۔

    گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ آج ایک تاریخی میچ ہوگا۔ پوری قوم کی دعا ہے کہ آج کا میچ پاکستان ٹیم ہی جیتے۔

    پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے قومی ٹیم کو مشورہ دیا ہے کہ وہ نیوزی لینڈ سے شکست کو بھلا کر روایتی حریف بھارت کے خلاف نئے جذبے کے ساتھ میدان میں اتریں اور 2017 کے فائنل والی پرفامنس دہرا کر شکستوں کو ماضی کا قصہ بنا دیں۔

    شیری رحمان نے کہا کہ پاکستان ٹیم کم بیک کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ فاسٹ بولرز سے توقعات ہیں کہ وہ بھارتی بلے بازوں کو بڑا اسکور کرنے سے روکیں گے۔ شاہین بھی یہ ذہن نشین کرلیں کہ بھارت کے خلاف میچ میں ایک بڑی پرفارمنس آپ کو ہیرو بنا سکتی ہے۔

    واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے افتتاحی میچ میں پاکستان کو نیوزی لینڈ سے 60 رنز سے شکست دی جب کہ بھارت بنگلہ دیش کو ہرا چکا ہے۔ قومی ٹیم کو اپنے اعزاز کے دفاع اور ایونٹ میں رہنے کے لیے آج کے میچ میں بڑے مارجن سے فتح ضروری ہے۔

    آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کا ریکارڈ روایتی حریف کے خلاف اچھا ہے۔ دونوں ٹیموں نے میگا ایونٹ میں پانچ میچ کھیل رکھے ہیں۔ پاکستان نے تین جب کہ بھارت نے دو میچ جیتے ہوئے ہیں۔

    گرین شرٹس نے گزشتہ ایونٹ کے فائنل میں بھارت کو 180 رنز سے شکست دے کر پہلی بار چیمپئن بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

  • دبئی میں پاکستان کے بڑے سیاسی رہنما آج سر جوڑیں گے، بڑا فیصلہ ہونے کا امکان

    دبئی میں پاکستان کے بڑے سیاسی رہنما آج سر جوڑیں گے، بڑا فیصلہ ہونے کا امکان

    اسلام آباد: دبئی میں پاکستان کے بڑے سیاسی رہنما آج سر جوڑیں گے، بڑا فیصلہ ہونے کا امکان ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق دبئی میں پاکستان کے بڑے سیاسی رہنما آج سر جوڑیں گے، سابق وزیر اعظم نواز شریف دبئی میں ہیں جب کہ آصف زرداری اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو بھی دبئی پہنچ چکے ہیں۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ پی پی قیادت کا آج نواز شریف سے ملاقات کا امکان ہے، پیپلز پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو بھی دبئی طلب کر لیا گیا ہے۔

    نواز شریف شاہی رہائش گاہ ایمریٹس ہلز میں قیام پذیر ہیں، دبئی حکومت کی جانب سے نواز شریف اور فیملی کے لیے خصوصی پروٹوکول دیا جا رہا ہے، نواز شریف اور مریم نواز دبئی کی اہم شخصیات سے بھی ملیں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف دبئی میں قیام کے بعد ابوظبی، اور سعودی عرب بھی جائیں گے۔

  • ذہین لوگ کہاں گئے؟

    ذہین لوگ کہاں گئے؟

    یورپ میں بادشاہت کے نظام کے دوران امرا کا طبقہ ریاست کے تمام شعبوں پر پوری طرح سے حاوی تھا۔ یہ لوگ سیاسی عہدوں پر فائز ہوتے تھے۔

    فوج کے اندر اعلیٰ عہدے بھی ان ہی کے لیے تھے، چرچ میں بھی اونچے عہدوں پر ان ہی کا تقرر ہوتا تھا۔ لہٰذا خاندان در خاندان مراعات سے فائدہ اٹھاتے تھے، اور اس تمام سلسلہ میں عام لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی، کیوں کہ تقرر کی وجہ خاندان تھا، ذہانت نہیں تھی۔

    چاہے یہ ذہنی طور پر اوسط درجہ کے لوگ ہی کیوں نہ ہوں، اپنے خاندانی رشتوں اور تعلقات کی وجہ سے ریاست کے تمام عہدے ان کے لیے تھے۔

    اس فرق کو ہم اس وقت محسوس کرتے ہیں کہ جب امریکا آزاد ہوتا ہے تو چوں کہ اس کے معاشرے میں کوئی امرا کا طبقہ نہیں تھا، اس لیے ان لوگوں کے لیے جو ذہین، محنتی اور لائق تھے، کام یابی کے تمام مواقع موجود تھے۔

    یورپ سے بھی جو غریب اور مزدور یا کسان طبقوں سے لوگ امریکا ہجرت کرکے گئے، انہیں وہاں کام کرنے اور اپنی ذہانت کو استعمال کرنے کے پورے مواقع ملے۔ مثلاً اینڈریو کارنیگی، ایک کاری گر کا لڑکا تھا، جو اسکاٹ لینڈ سے امریکا گیا، اگر یہ وہیں رہتا تو اپنے باپ کے پیشہ کو اختیار کرکے زندگی گزار دیتا، مگر امریکا میں اس کو اپنی ذہانت اور محنت دکھانے کے موقع ملے۔ اور یہ وہاں کا بڑا سرمایہ دار اور صنعت کار بن گیا۔

    اس نے خاص طور سے اپنے سرمایہ کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کیا اور شہروں میں جگہ جگہ کتب خانے قائم کیے۔ کارنیگی کی طرح کے اور بہت سے افراد تھے کہ جنہوں نے خاندان کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کام یابی حاصل کر کے نام پیدا کیا، یہ لوگ سیاست میں بھی آئے اور ان میں اکثر غریب خاندان کے لڑکے ملک کے صدر بنے اور اعلیٰ عہدوں پر رہے۔

    پاکستان کے ابتدائی دنوں میں چوں کہ یہاں ہر طبقے کے لوگوں کے لیے تعلیم کی یکساں سہولتیں تھیں، اس لیے پبلک اسکولوں میں امیر و غریب دونوں کے بچّے پڑھتے تھے اور یہ تعلیم یونیورسٹی تک اسی طرح سے بغیر کسی فرق کے تھی، اس لیے ذہین طالب علموں کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ مقابلے کے امتحانوں میں کام یاب ہوجائیں، یا دوسری ملازمتوں کے مقابلہ میں اپنی ذہانت کی بنیاد پر کام یابی حاصل کریں۔

    لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نظام میں تبدیلی آتی چلی گئی۔ دولت مند اور امرا کا طبقہ اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا گیا، انہوں نے اپنے بچّوں کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کی ابتدا کردی جو بڑھتے بڑھتے اس قدر مہنگے ہوئے کہ اس میں عام لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوگیا۔ اس کے ساتھ ہی پبلک اسکولوں کا معیار گرتا چلا گیا، اور سلسلہ یہاں تک پہنچا کہ غریب لوگوں کے بچّوں کے لیے تعلیم کے بعد آگے بڑھنے یا ترقی کرنے کے تمام راستے بند ہوگئے۔

    یہاں بھی مواقع ان کے لیے ہیں کہ جن کے پاس سرمایہ ہے، جو اس سے محروم ہیں، چاہے وہ کتنے ہی لائق اور محنتی کیوں نہ ہوں، ان کے لیے معاشرے میں کوئی عزت اور وقار کی جگہ نہیں رہی ہے۔

    مراعات سے محروم طبقوں کے لیے زندگی میں اگر کچھ حاصل کرنا ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ذہانت کی جگہ خوشامد سے کام لیں، اور طبقۂ اعلیٰ کے لوگوں کی چاپلوسی کر کے ان سے جو بچ جائے وہ حاصل کرلیں۔

    اس کی مثال پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ان جماعتوں کے سربراہ یا تو بڑے جاگیردار ہیں یا سرمایہ دار، انہی بنیادوں پر ان کو سربراہی ملی ہوئی ہے، اس لیے نہیں کہ ان میں کوئی اہلیت یا صلاحیت ہے۔ اب اگر ان کی پارٹی میں باصلاحیت لوگ ہیں، تو پارٹی میں آگے بڑھنے اور ترقی کے لیے ضروری ہے کہ وہ سربراہ کی خوشامد میں مصروف رہیں، کیوں کہ جب یہ اقتدار میں آتے ہیں تو ان ہی افراد کی سرپرستی کرتے ہیں، جو ان کے مصاحب ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کسی فرد میں کس قدر لیاقت ہے اور وہ پارٹی کے لیے یا اقتدار میں آنے کے بعد ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ہوسکتا ہے۔

    اگر کبھی کسی فرد سے ان کی شان میں گستاخی ہو جاتی ہے، یا وہ اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ ظاہر کرتا ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے یا تو پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے یا اسے تمام سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ لہٰذا اب پاکستان میں عہد وسطیٰ کے امرا اور طبقہ اعلیٰ کی جگہ جاگیردار اور سرمایہ دار خاندان غالب آگئے ہیں اور ان کے خاندانوں کی حاکمیت مستحکم ہوگئی ہے۔

    اس پورے سلسلہ میں معاشرے کے ذہین افراد جن کا تعلق عوام یا نچلے طبقوں سے ہے، ان کو محروم کر کے ان کی ذہانت کو ختم کر دیا گیا ہے۔

    سیاسی خاندانوں کے اس تسلط کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوا کہ وہ افراد بھی کہ جو اپنی محنت اور صلاحیت سے اپنی ذہانت کو تسلیم کراچکے ہیں، جب انہیں معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ یا تو خاموش ہوکر گوشہ نشینی اختیار کرلیتے ہیں، یا ملک سے ہجرت کرکے نئے مواقعوں کی تلاش میں باہر چلے جاتے ہیں۔

    ذہین افراد اس کمی کے باعث ہم دیکھتے ہیں کہ ملک میں نالائق اور اوسط ذہن کے لوگ آگے آگے ہیں، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کے ہر شعبہ میں زوال اور پس ماندگی کے آثار پوری طرح سے ظاہر ہورہے ہیں۔

    المیہ یہ ہے کہ ایک طرف تو امریکا اور یورپ کے ملک باصلاحیت اور ماہرین کی تلاش میں ملک ملک گھومتے ہیں، مگر ہمارے ہاں باصلاحیت لوگ اپنے ہی حکم رانوں کے ہاتھوں محرومی کا شکار ہورہے ہیں۔

    یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب ذہانت کو نظر انداز کیا جائے گا تو ایسا معاشرہ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکے گا۔ یورپ میں جمہوری روایات نے امرا کے خاندان کے تسلّط کو توڑا اور ذہین لوگوں کے لیے راہ ہموار کی، ہمارے ہاں بھی اس کی ضرورت ہے، مگر اس کام کو کون کرے گا؟

    (ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب "تاریخ کی گواہی” سے انتخاب)

  • پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنے کوئی نئی بات نہیں

    پاکستانی سیاست میں احتجاجی دھرنے کوئی نئی بات نہیں

    کراچی: پاکستان میں سیاسی تاریخ وقفے وقفے سے خودکو دہراتی رہی ہے، دھرنوں اور لانگ کے نتائج میں پہلے بھی حکومتوں کا خاتمہ ہوچکا ہے۔

    آج کےسیاسی منظرنامے پرنظر ڈالی جائےتو اندازہ ہوگا کہ پاکستان میں سیاسی تاریخ تھوڑےتھوڑےوقفےبعدخود کو دہراتی ہے۔ 1977ء کے انتخابات میں چند حلقوں پر ہونے والی دھاندلی نے سیاسی افق پر پہلی بار نئی تاریخ رقم کی، پاکستان نیشنل الائنس کی تحریک اورذوالفقار علی بھٹو کے درمیان مذاکرات کامیابی کے نزدیک تھے، پی این اے تحریک کے اہم رکن اصغر خان نےفوج کو عوام کی مدد کے لئے بلانے کا بیان داغ دیا۔

    اس وقت بھی آرٹیکل دوسوپینتالیس کی بازگشت سنائی دی اور پھر 5 جولائی سن 1977ء میں مارشل لاء نافذ ہوگیا، بے نظیر بھٹو کی 1996ء میں جانے والی حکومت بھی کچھ اسی قسم کی تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، 27 اکتوبر سن 1996ء میں حکومتی پالیسی سےاختلاف کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے دھرنا دیا، جس کے نو روز بعد5 نومبر کوپیپلزپارٹی کےصدر فاروق لغاری نے بے نظیر حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا۔

    سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی معزولی کےخلاف چلائی جانے والی وکلا تحریک نےبھی حکومت کوافتخارچوہدری سمیت تمام معزول ججزکی بحال کرنےپر مجبورکردیا، اب ایک بار پھر2013ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور الیکشن کمیشن نے بھی تسلیم کیا، اب ایک بار پھر اسلام آبادمیں آرٹیکل دوسوپینتالیس ہے، پھر شہراقتدارمیں دھرنوں کا موسم ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت جاتی ہے یا جاتی امرا والے سیاسی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

    پاکستان کی تاریخ میں اگرچہ کئی سیاسی جماعتوں کی جانب سے سول نافرمانی چلانے کی دھمکی تو دی گئی، لیکن پاکستان کی تاریخ میں اب تک صرف ایک بار ہی سول نافرمانی کی تحریک چلائی گئی، 1977ء میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی۔ 1977ء کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلی کی دو سو نشستوں میں سےسو پر پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی۔ صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں صرف چھتیس نشستیں حاصل کیں ۔ الائنس نے انتخابات کے نتائج کو مسترد کر دیا اور ایک بڑی سول نافرمانی کی ملک گیر مہم شروع کردی۔

    انہوں نے پیپلز پارٹی پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگایا ، اور پیپلز پارٹی کے صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا، اس کے علاوہ قومی اتحاد نے انتخابات کے دوبارہ کرانے کا بھی مطالبہ کیا تھا۔

    عمران خان نے بھی سول نافرمانی کا اعلان کردیا ہے،سول نافرمانی کا مطلب حکومت کی رٹ کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے احکامات اور ہدایات نہ ماننا ہے، جس میں ٹیکس، لگان یا موجودہ دور میں بجلی، گیس اور پانی کے بل نہ دینا شامل ہیں تاکہ حکومت کی آمدنی روک کر اسے اپنے مطالبات منوانے کے لیے دباؤ میں لایا جاسکے اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان اپنے مطالبات مناوانے میں کہاں تک کامیاب ہوسکتے ہیں۔